مبطلات نماز اور مکروہات نماز
بمطابق فتاویٰ آیت اللہ العظمیٰ سید علی حسینی سیستانی مد ظلہ العالی

مسئلہ (۱۱۱۲)بارہ چیزیں نمازکوباطل کرتی ہیں اورانہیں ’’ مبطلات‘‘ کہاجاتاہے :
(اول:) نمازکے دوران نماز کی شرطوں میں سے کوئی شرط مفقود ہوجائے مثلاً نماز پڑھتے ہوئے نمازی کوپتا چلے کہ اس کا لباس نجس ہے۔
(دوم:) نمازکے دوران عمداًیاسہواًیامجبوری کی وجہ سے انسان کسی ایسی چیز سے دوچارہوجو وضویاغسل کوباطل کردے مثلاً اس کاپیشاب خارج ہوجائے اگرچہ( احتیاط واجب کی بنا پر) اس طرح نماز کے آخری سجدے کے بعدسہواًیامجبوری کی بناپرہو‘تاہم جوشخص پیشاب یا پاخانہ نہ روک سکتاہواگرنمازکے دوران اس کاپیشاب یاپاخانہ نکل جائے اوروہ اس طریقے پرعمل کرے جواحکام وضو کے ذیل میں بتائے گئےہیں تواس کی نمازباطل نہیں ہوگی اور اسی طرح اگرنماز کے دوران مستحاضہ کوخون آجائے تواگر وہ استحاضہ سے متعلق احکام کے مطابق عمل کرے تواس کی نمازصحیح ہے۔
مسئلہ (۱۱۱۳)جس شخص کوبے اختیارنیندآجائے اگراسے یہ پتا چلے کہ وہ نماز کے دوران سوگیاتھایا اس کے بعدسویاتوضروری نہیں کہ نمازدوبارہ پڑھے بشرطیکہ یہ جانتاہو کہ جوکچھ نمازمیں پڑھاہے وہ اس قدرتھاکہ اسے عرف میں نماز کہیں ۔
مسئلہ (۱۱۱۴)اگرکسی شخص کوعلم ہوکہ وہ اپنی مرضی سے سویاتھالیکن شک کرے کہ نماز کے بعدسویا تھایانمازکے دوران یہ بھول گیاکہ نمازپڑھ رہاہے اورسوگیاتواس شرط کے ساتھ جوسابقہ مسئلے میں بیان کی گئی ہے اس کی نماز صحیح ہے۔
مسئلہ (۱۱۱۵)اگرکوئی شخص نیندسے سجدے کی حالت میں بیدار ہوجائے اورشک کرے کہ آیانماز کے آخری سجدے میں ہے یاسجدئہ شکرمیں ہے تواگراسے علم ہوکہ اختیار سے سوگیا تھا یا بے اختیار سوگیاتھاتو اس کی نماز صحیح ہے اور دوبارہ پڑھنا ضروری نہیں ہے۔
(سوم:) یہ چیزمبطلات نماز میں سے ہے کہ انسان اپنے ہاتھوں کو عاجزی اور ادب کی نیت سے باندھے لیکن اس کام کی وجہ سے نمازکاباطل ہونااحتیاط کی بناپر ہے اور اگر جائز ہونےکی نیت سے انجام دے تواس کام کے حرام ہونے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
مسئلہ (۱۱۱۶)اگرکوئی شخص بھولے سے یامجبوری سے یاتقیہ کی وجہ سے یاکسی اور کام مثلاً ہاتھ کھجانے اورایسے ہی کسی کام کے لئے ہاتھ پرہاتھ رکھ لے توکوئی حرج نہیں ہے۔
(چہارم:) مبطلات نماز میں سے ایک یہ ہے کہ الحمدپڑھنے کے بعد’’آمین‘‘ کہے۔ آمین کہنے سے نمازکااس طرح باطل ہوناغیرماموم میں احتیاط کی بناپرہے۔ اگرچہ ’’آمین‘‘ کہنے کوجائز ہونے کی نیت سے کہے تواس کے حرام ہونے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ بہرحال اگرآمین کوغلطی یاتقیہ کی وجہ سے کہے تواس کی نمازمیں کوئی شک نہیں ہے۔
(پنجم:) مبطلات نمازمیں سے ہے کہ بغیرکسی عذرکے قبلے سے رخ پھیرے لیکن اگرکسی عذر مثلاًبھول کریابے اختیاری کی بناپر(مثلاً تیزہواکے تھپیڑے اسے قبلے سے پھیردیں ) چنانچہ اگردائیں یابائیں سمت تک نہ پہنچے تواس کی نمازصحیح ہے لیکن ضروری ہے کہ جیسے ہی عذردورہوفوراً قبلہ کی طرف پلٹ جائے اوراگردائیں یابائیں طرف مڑجائے یا قبلے کی طرف پشت ہویااگراس کاعذربھولنے کی وجہ سے ہو یا غافل ہو یا قبلہ پہچاننے میں غلطی کی ہواورجس وقت متوجہ ہو اور نماز کوتوڑدے تواسے دوبارہ قبلہ رخ ہوکرپڑھ سکتاہو(اگرچہ ایک رکعت ہی قبلہ رخ ہو کر پڑھنے کاموقع ہو)تو ضروری ہے کہ نماز کودوبارہ پڑھے ورنہ اسی نماز پراکتفاکرے اور اس پر قضالازم نہیں اوریہی حکم ہے اگرقبلے سے اس کاپھرنابے اختیاری کی بناپرہوچنانچہ قبلے سے پھرے بغیراگرنماز کودوبارہ وقت میں پڑھ سکتاہو۔(اگرچہ وقت میں ایک رکعت ہی پڑھی جاسکتی ہو ) تو ضروری ہے کہ نمازکونئے سرے سے پڑھے ورنہ ضروری ہے کہ اسی نماز کو تمام کرے اعادہ اورقضا اس پرلازم نہیں ہے۔
مسئلہ (۱۱۱۷)اگرفقط اپنے چہرے کوقبلے سے گھمائے لیکن اس کابدن قبلے کی طرف ہوچنانچہ اس حدتک گردن کوموڑے کہ اپنے سرکے پیچھے کچھ دیکھ سکے تواس کے لئے بھی وہی حکم ہے جوقبلے سے پھرجانے والے کے لئے ہے جس کاذکر پہلے کیاجاچکا ہے اوراگراپنی گردن کوموڑنا اتنا زیادہ نہ ہو لیکن عرفاً زیادہ انحراف کہا جائے تو( احتیاط واجب کی بناء پر) دوبارہ نماز پڑھنا ضروری ہے لیکن اگر اپنی گردن کو تھوڑاسا موڑے تواس کی نمازباطل نہیں ہوگی اگرچہ یہ کام مکروہ ہے۔
(ششم:) مبطلات نمازمیں سے ایک یہ ہے کہ عمداًبات کرے اگرچہ ایساکلمہ ہو کہ جس میں ایک حرف سے زیادہ نہ ہواگروہ حرف بامعنی ہومثلاً(ق) کہ جس کے عربی زبان میں معنی( حفاظت کرو)کے ہیں یا کوئی اورمعنی سمجھ میں آتے ہوں مثلاً (ب) اس شخص کے جواب میں کہ جوحروف تہجی کے حرف دوم کے بارے میں سوال کرے اوراگراس لفظ سے کوئی معنی بھی سمجھ میں نہ آتے ہوں اوروہ دویادوسے زیادہ حرفوں سے مرکب ہو تب بھی( احتیاط کی بناپر) (وہ لفظ) نماز کوباطل کردیتاہے۔
مسئلہ (۱۱۱۸)اگرکوئی شخص سہواًایساکلمہ کہے جس کے حروف ایک یااس سے زیادہ ہوں توخواہ وہ کلمہ معنی بھی رکھتاہواس شخص کی نمازباطل نہیں ہوتی لیکن (احتیاط کی بناپر)اس کے لئے ضروری ہے کہ جیساکہ بعدمیں ذکرآئے گانماز کے بعدوہ سجدئہ سہوبجالائے۔
مسئلہ (۱۱۱۹)نمازکی حالت میں کھانسنے یاڈکارلینے میں کوئی حرج نہیں اور احتیاط لازم کی بناپر نمازمیں اختیاراً ’’آہ‘‘ نہ بھرے اورنہ ہی گریہ کرے اور’’آخ‘‘ اور’’ آہ‘‘ اور انہی جیسے الفاظ کاعمداًکہنانمازکوباطل کردیتاہے۔
مسئلہ (۱۱۲۰)اگرکوئی شخص کوئی کلمہ ذکرکے قصدسے کہے مثلاًذکرکے قصد سے’’ اَللہُ اَکْبَرُ‘‘ کہے اوراسے کہتے وقت آواز کوبلندکرے تاکہ دوسرے شخص کوکسی چیزکی طرف متوجہ کرے تواس میں کوئی حرج نہیں اوراسی طرح اگرکوئی کلمہ ذکرکے قصد سے کہے اگرچہ جانتاہوکہ اس کام کی وجہ سے کوئی کسی مطلب کی طرف متوجہ ہوجائے گا توکوئی حرج نہیں لیکن اگربالکل ذکرکاقصدنہ کرے یاذکرکا قصدبھی ہواورکسی بات کی طرف متوجہ بھی کرناچاہتاہوتواس کی نماز باطل ہے۔ لیکن اگر ذکر کا قصد کرے اور اس کا مقصد اس سے دوسرے کو متوجہ کرنا ہوتو اس کی نماز صحیح ہے۔
مسئلہ (۱۱۲۱)نمازمیں قرآن پڑھنے (چارآیتوں کاحکم کہ جن میں واجب سجدہ ہے قرأت کے احکام مسئلہ نمبر(۹۶۹)میں بیان ہوچکاہے) اوردعاکرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن احتیاط مستحب یہ ہے کہ عربی کے علاوہ کسی زبان میں دعانہ کرے۔
مسئلہ (۱۱۲۲)اگرکوئی شخص عمداًیااحتیاطاًالحمداورسورہ کے کسی حصے یا اذکارنمازکی تکرار کرے توکوئی حرج نہیں ۔
مسئلہ (۱۱۲۳)انسان کوچاہئے کہ نمازکی حالت میں کسی کوسلام نہ کرے اوراگرکوئی دوسراشخص اسے سلام کرے توضروری ہے کہ جواب دے لیکن جواب سلام کے مانندہونا چاہئے یعنی ضروری ہے کہ اصل سلام پراضافہ نہ ہومثلاً جواب میں یہ نہیں کہناچاہئے ’’سَلَامٌ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ‘‘ بلکہ( احتیاط لازم کی بناپر)ضروری ہے کہ جواب میں ’’عَلَیْکُمْ یا عَلَیْکَ‘‘ کے لفظ کوسلام کے لفظ پرمقدم نہ رکھے اگروہ شخص کہ جس نے سلام کیاہے اس نے اس طرح نہ کیاہوبلکہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ جواب مکمل طور پر دے جس طرح کہ اس نے سلام کیاہومثلاً اگرکہاہو:’’سَلَامٌ عَلَیْکُمْ‘‘ تو جواب میں کہے’’سَلَامٌ عَلَیْکُم‘‘ اوراگرکہاہو: ’’اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ‘‘ توکہے: ’’اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ‘‘اوراگرکہاہو:’’سَلَامٌ عَلَیْکَ‘‘ توکہے ’’سَلَامٌ عَلَیْکَ‘‘ لیکن ’’عَلَیْکُمُ السَّلَامُ‘‘ کے جواب میں ’’علیکم السلام‘‘، یا’’ السلام علیکم‘‘ یا ’’سلام علیکم‘‘ کہہ سکتا ہے۔
مسئلہ (۱۱۲۴)انسان کوچاہئے کہ خواہ وہ نمازکی حالت میں ہویانہ ہوسلام کاجواب فوراًدے اوراگر جان بوجھ کریابھولے سے سلام کاجواب دینے میں اتناتوقف کرے کہ اگر جواب دے تووہ اس سلام کاجواب شمارنہ ہوتواگروہ نمازکی حالت میں ہو تو ضروری ہے کہ جواب نہ دے اوراگرنماز کی حالت میں نہ ہوتوجواب دیناواجب نہیں ہے ۔
مسئلہ (۱۱۲۵)انسان کے لئےسلام کاجواب اس طرح دیناضروری ہے کہ سلام کرنے والا سن لے لیکن اگر سلام کرنے والابہراہویاسلام کہہ کرجلدی سے گزرجائے چنانچہ ممکن ہوتو سلام کاجواب اشارے سے یااسی طرح کسی طریقے سے اسے سمجھاسکے توجواب دینا ضروری ہے۔اس صورت کے علاوہ جواب دینانماز کے علاوہ کسی اورجگہ پرضروری نہیں اور نمازمیں جائزبھی نہیں ہے۔
مسئلہ (۱۱۲۶)واجب ہے کہ نمازی سلام کے جواب کوسلام کی نیت سے کہے اور دعا کا قصدکرنے میں بھی کوئی حرج نہیں یعنی خداوندعالم سے اس شخص کے لئے سلامتی چاہے جس نے سلام کیاہو۔
مسئلہ (۱۱۲۷)اگرعورت یانامحرم مردیاوہ ممیز بچہ(یعنی:جوبچہ اچھے برے میں تمیز کر سکتا ہو) نماز پڑھنے والے کو سلام کرے توضروری ہے کہ نمازپڑھنے والااس کے سلام کاجواب دے اور اگرعورت ’’سَلَامٌ عَلَیْکَ‘‘ کہہ کرسلام کرے توجواب میں کہہ سکتاہے ’’سَلَامٌ عَلَیْکِ‘‘ یعنی کاف کوزیردے۔
مسئلہ (۱۱۲۸) اگرنمازپڑھنے والاسلام کاجواب نہ دے تووہ گناہ گارہے لیکن اس کی نمازصحیح ہے۔
مسئلہ (۱۱۲۹)اگرکوئی شخص نمازپڑھنے والے کو غلط سلام کرےتو( احتیاط واجب کی بناء پر) ضروری ہے کہ اس کے سلام کا صحیح جواب دے۔
مسئلہ (۱۱۳۰)کسی ایسے شخص کے سلام کاجواب دیناجومزاح اورتمسخرکے طور پر سلام کرے اورایسے غیرمسلم مرداورعورت کے سلام کاجواب دیناجوذمی نہ ہوں واجب نہیں ہے اوراگرذمی ہوں تو(احتیاط واجب کی بناپر)ان کے جواب میں کلمہ ’’عَلَیْکَ‘‘ کہہ دیناکافی ہے۔
مسئلہ (۱۱۳۱)اگرکوئی شخص کسی گروہ کوسلام کرے توان سب پرسلام کاجواب دینا واجب ہے لیکن اگراس میں سے ایک شخص جواب دے دے توکافی ہے۔
مسئلہ (۱۱۳۲)اگرکوئی شخص کسی گروہ کوسلام کرے اورجواب ایک ایساشخص دے جس کاسلام کرنے والے کوسلام کرنے کاارادہ نہ ہوتو اس شخص کے جواب دینے کے باوجود سلام کاجواب اس گروہ پرواجب ہے۔
مسئلہ (۱۱۳۳)اگرکوئی شخص کسی گروہ کوسلام کرے اوراس گروہ میں سے جوشخص نماز میں مشغول ہو وہ شک کرے کہ سلام کرنے والے کاارادہ اسے بھی سلام کرنے کاتھایا نہیں توضروری ہے کہ جواب نہ دے اوراگرنماز پڑھنے والے کویقین ہوکہ اس شخص کا ارادہ اسے بھی سلام کرنے کاتھالیکن کوئی شخص سلام کاجواب دے دے تو(احتیاط واجب کی بناء پر) یہی حکم ہے۔لیکن اگرنمازپڑھنے والے کو معلوم ہوکہ سلام کرنے والے کاارادہ اسے بھی سلام کرنے کاتھااورکوئی دوسراجواب نہ دے یا شک کرے کہ دوسروں نے جواب دیا ہے یا نہیں تو ضروری ہے کہ سلام کاجواب دے۔
مسئلہ (۱۱۳۴)سلام کرنامستحب ہے اوراس امرکی بہت تاکیدکی گئی ہے کہ سوار پیدل کواورکھڑاہواشخص بیٹھے ہوئے کواورچھوٹابڑے کوسلام کرے۔
مسئلہ (۱۱۳۵)اگردوشخص آپس میں ایک دوسرے کوسلام کریں تو(احتیاط واجب کی بناپر)ضروری ہے کہ ان میں سے ہرایک دوسرے کواس کے سلام کاجواب دے۔
مسئلہ (۱۱۳۶)اگرانسان نمازنہ پڑھ رہاہوتومستحب ہے کہ سلام کاجواب اس سلام سے بہترالفاظ میں دے مثلاً اگرکوئی شخص ’’سَلَامٌ عَلَیْکُمْ‘‘ کہے توجواب میں کہے: ’’سَلَامٌ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ‘‘۔
(ہفتم:) نمازکے مبطلات میں سے ایک آواز کے ساتھ جان بوجھ کرہنسناہے۔ اگرچہ بے اختیارہنسے اورجن باتوں کی وجہ سے ہنسے وہ اختیاری ہوں بلکہ (بنا بر احتیاط واجب) اختیارکی بناپر جن باتوں کی وجہ سے ہنسی آئی ہواگروہ اختیاری نہ بھی ہوں تب بھی اگر نماز کو دوبارہ پڑھنے کا وقت ہوتو ضروری ہے کہ دوبارہ پڑھے لیکن اگرجان بوجھ کربغیرآوازیاسہواًآواز کے ساتھ ہنسے تو اس کی نمازمیں کوئی اشکال نہیں ۔
مسئلہ (۱۱۳۷)اگرہنسی کی آواز روکنے کے لئے کسی شخص کی حالت بدل جائے مثلاً اس کارنگ سرخ ہوجائے تو(احتیاط واجب )یہ ہے کہ وہ نمازدوبارہ پڑھے۔
(ہشتم:)( احتیاط واجب کی بناپر)یہ نماز کے مبطلات میں سے ہے کہ انسان دنیاوی کام کے لئے جان بوجھ کرآواز سے یابغیر آواز کے روئے لیکن اگرخوف خدا سے یا شوقِ خدا یا آخرت کے لئے روئے توخواہ آہستہ روئے یابلندآواز سے روئے کوئی حرج نہیں بلکہ یہ بہترین اعمال میں سے ہے لیکن اگر دنیوی حاجت کو حاصل کرنے کے لئے بارگاہ خدا میں تذلل(خشوع وخضوع) کی نیت سے روئے تو کوئی حرج نہیں ہے۔
(نہم:) نمازباطل کرنے والی چیزوں میں سے ہے کہ کوئی ایساکام کرے جس سے نمازکی شکل باقی نہ رہے مثلاًاچھلناکودنااوراسی طرح کاکوئی عمل انجام دینا۔ایسا کرنا عمداً ہویابھول چوک کی وجہ سے ہو۔لیکن جس کام سے نمازکی شکل تبدیل نہ ہوتی ہو مثلاً ہاتھ سے اشارہ کرنااس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
مسئلہ (۱۱۳۸)اگرکوئی شخص نمازکے دوران اس قدرساکت ہوجائے کہ لوگ یہ نہ کہیں کہ نمازپڑھ رہاہے تواس کی نمازباطل ہوجاتی ہے۔
مسئلہ (۱۱۳۹)اگرکوئی شخص نماز کے دوران کوئی کام کرے یاکچھ دیرساکت رہے اورشک کرے کہ اس کی نمازٹوٹ گئی ہے یانہیں توضروری ہے کہ نمازکودوبارہ پڑھے اور بہتریہ ہے کہ نمازپوری کرے اورپھردوبارہ پڑھے۔
(دہم:) مبطلات نمازمیں سے ایک کھانااورپیناہے۔پس اگرکوئی شخص نماز کے دوران اس طرح کھائے یاپئے کہ لوگ یہ نہ کہیں کہ نمازپڑھ رہاہے تو(خواہ اس کایہ فعل عمداً ہویابھول چوک کی وجہ سے ہو)اس کی نمازباطل ہوجاتی ہے۔ البتہ جوشخص روزہ رکھناچاہتا ہو اگروہ صبح کی اذان سے پہلے مستحب نمازپڑھ رہاہواورپیاساہواوراسے ڈرہوکہ اگرنماز پوری کرے گاتوصبح ہوجائے گی تواگرپانی اس کے سامنے دوتین قدم کے فاصلے پرہوتو وہ نمازکے دوران پانی پی سکتاہے۔ لیکن ضروری ہے کہ کوئی ایساکام نہ کرے مثلاً ’’قبلے سے منہ پھیرنا‘‘ جونمازکوباطل کرتاہے۔
مسئلہ (۱۱۴۰)اگرکسی کاجان بوجھ کرکھاناپینانمازکی شکل کوختم نہ بھی کرے تب بھی (احتیاط واجب کی بناپر)ضروری ہے کہ نماز کودوبارہ پڑھے خواہ نمازکاتسلسل ختم ہو(یعنی یہ نہ کہا جائے کہ نمازکومسلسل پڑھ رہاہے) یانمازکاتسلسل ختم نہ ہو۔
مسئلہ (۱۱۴۱)اگرکوئی شخص نماز کے دوران کوئی ایسی غذانگل لے جواس کے منہ یا دانتوں کے ریخوں میں رہ گئی ہوتواس کی نمازباطل نہیں ہوتی۔ اسی طرح اگرذراسی قندیا شکریاانہیں جیسی کوئی چیزمنہ میں رہ گئی ہواورنمازکی حالت میں آہستہ آہستہ گھل کر پیٹ میں چلی جائے توکوئی حرج نہیں ۔
(یازدہم:) مبطلات نمازمیں سے دورکعتی یاتین رکعتی نمازکی رکعتوں میں یا چاررکعتی نمازوں کی پہلی دورکعتوں میں شک کرناہے،بشرطیکہ نمازپڑھنے والاشک کی حالت پرباقی رہے۔
(دوازدہم:) مبطلات نمازمیں سے یہ بھی ہے کہ کوئی شخص نماز کارکن جان بوجھ کر یابھول کرکم کردے یاایک ایسی چیزکوجورکن نہیں ہے جان بوجھ کرگھٹائے یاجان بوجھ کر کوئی چیزنمازمیں بڑھائے۔اسی طرح اگرکسی رکن مثلاً رکوع یادوسجدوں کوایک رکعت میں غلطی سے بڑھادے تو(احتیاط واجب کی بناپر)اس کی نمازباطل ہوجائے گی البتہ بھولے سے تکبیرۃ الاحرام کی زیادتی نماز کو باطل نہیں کرتی۔
مسئلہ (۱۱۴۲)اگرکوئی شخص نمازکے بعدشک کرے کہ دوران نمازاس نے کوئی ایسا کام کیاہے یانہیں جونمازکوباطل کرتاہوتواس کی نمازصحیح ہے۔
وہ چیزیں جونمازمیں مکروہ ہیں
مسئلہ (۱۱۴۳)کوئی شخص نمازمیں اپناچہرہ دائیں یابائیں جانب اتناکم موڑے کہ اپنے سر کے پیچھے نہ دیکھے اور اگر دیکھ سکتاہے تو اس کی نماز باطل ہے جیسا کہ بیان ہوچکا ہے اوریہ بھی مکروہ ہے کہ کوئی شخص نمازمیں آنکھیں بندکرے یا دائیں اوربائیں طرف گھمائے اوراپنی ڈاڑھی اورہاتھوں سے کھیلے اورانگلیاں ایک دوسری میں داخل کرے اورتھوکے اورقرآن مجیدیاکسی اورکتاب یاانگوٹھی کی تحریرکو دیکھے اور یہ بھی مکروہ ہے کہ الحمد، سورہ اورذکرپڑھتے وقت کسی کی بات سننے کے لئے خاموش ہو جائے بلکہ ہروہ کام جو کہ خضوع وخشوع کوختم کرے۔
مسئلہ (۱۱۴۴)جب انسان کونیند آرہی ہواوراس وقت بھی جب اس نے پیشاب اور پاخانہ روک رکھا ہونمازپڑھنامکروہ ہے اوراسی طرح نمازکی حالت میں ایساموزہ پہننا بھی مکروہ ہے جوپاؤں کوجکڑلے اور ان کے علاوہ دوسرے مکروہات بھی مفصل کتابوں میں بیان کئے گئے ہیں ۔
وہ صورتیں جن میں واجب نمازیں توڑی جاسکتی ہیں۔
مسئلہ (۱۱۴۵)اختیاری حالت میں واجب نمازکاتوڑنا(احتیاط واجب کی بناپر) جائز نہیں ہے لیکن مال کی حفاظت اورمالی یاجسمانی ضررسے بچنے کے لئے نمازتوڑنے میں کوئی حرج نہیں بلکہ وہ تمام اہم دینی اور دنیاوی کام جونمازی کوپیش آئیں ان کے لئے نماز توڑنے میں کوئی حرج نہیں ۔
مسئلہ (۱۱۴۶)اگرانسان اپنی جان کی حفاظت یاکسی ایسے شخص کی جان کی حفاظت جس کی جان کی حفاظت واجب ہویاایسے مال کی حفاظت جس کی نگہداشت واجب ہواور وہ نماز توڑے بغیر ممکن نہ ہوتوانسان کو چاہئے کہ نمازتوڑدے۔
مسئلہ (۱۱۴۷)اگرکوئی شخص وسیع وقت میں نمازپڑھنے لگے اور قرض خواہ اس سے اپنے قرضے کی واپسی کامطالبہ کرے اوروہ اس کاقرضہ نمازکے دوران اداکرسکتاہوتوضروری ہے کہ اسی حالت میں اداکردے اور اگربغیرنمازتوڑے اس کاقرضہ چکاناممکن نہ ہوتو ضروری ہے کہ نمازتوڑدے اوراس کاقرضہ اداکرے اوربعدمیں نمازپڑھے۔
مسئلہ (۱۱۴۸)اگرکسی شخص کونمازکے دوران پتا چلے کہ مسجد نجس ہے اوروقت تنگ ہو توضروری ہے کہ نمازتمام کرے اور اگروقت وسیع ہواورمسجد کوپاک کرنے سے نمازنہ ٹوٹتی ہوتوضروری ہے کہ نماز کے دوران اسے پاک کرے اور بعدمیں باقی نمازپڑھے اور اگرنماز ٹوٹ جاتی ہواورنماز کے بعدمسجد کوپاک کرناممکن ہوتومسجد کوپاک کرنے کے لئے اس کانمازتوڑناجائزہے اوراگرنمازکے بعدمسجد کاپاک کرناممکن نہ ہوتو اس کے لئے ضروری ہے کہ نماز توڑدے اور مسجد کوپاک کرے اور بعدمیں نمازپڑھے۔
مسئلہ (۱۱۴۹)جس شخص کے لئے نمازکاتوڑناضروری ہواگروہ نمازختم کرے تووہ گناہگار ہوگالیکن اس کی نمازصحیح ہے اگرچہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ دوبارہ نمازپڑھے۔
مسئلہ (۱۱۵۰)اگرکسی شخص کوقرأت یارکوع کی حدتک جھکنے سے پہلے یادآجائے کہ وہ اذان اور اقامت یافقط اقامت کہنابھول گیاہے اورنمازکاوقت وسیع ہوتومستحب ہے کہ انہیں کہنے کے لئے نمازتوڑدے بلکہ اگرنمازختم ہونے سے پہلے اسے یادآئے کہ انہیں بھول گیاتھاتب بھی مستحب ہے کہ انہیں کہنے کے لئے نمازتوڑدے۔