حضرت فاطمہ زھراؑکتبلائبریریمحمد و آل محمد علیھم السلام

کتاب”اعلموا انی فاطمۃ”کا تعارف

تحریر نگار: محمد حسنین امام

مصنف کا تعارف:

شہرہ آفاق کتاب ” اعلموا انی فاطمۃ”  کے مصنف  علامہ عبد الحمید المھاجر نے    1950ء  کو جنوبی عراق کے شہر رمیثہ میں ایک دین دار  اور علمی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ آپ کا اصل نام  حمید کزار تھا ،  بعد میں آپ نے اس کے ساتھ عبودیت والی صفت  کا اضافہ کیا  اور آپ کا اسم گرامی  عبد الحمید پڑ گیا  ۔     آپ ایک مضبوط شیعہ عالم، مصنف، خطیب اور کلیۃ الحسین علیہ السلام للخطابۃ کے موسس ہیں۔ابتدائی تعلیم اپنے شہر سے حاصل کی ،  اس کے بعد اعلیٰ تعلیم  کے حصول کے  لیے 1963ء میں کربلا معلیٰ کی طرف رخت سفر باندھا ۔ جہاں پر آپ نے اس دور کے مشہور و معروف علماء و فقہاء  آیۃ اللہ حسن  حسینی شیرازؒی ،  مجتبیٰ حسینی ؒشیرازی، جعفرؒ رشتی، محمد علی طباطبؒائی، محمد حؒسن الشخص کے سامنے زانوئے ادب کو تلمذ کیااس کے علاوہ آقائ عبد الزھرؒاء الکعبی سے سے خطابت کی تعلیم حاصل کی۔

آپ  کا  شمارمخلص ، محنتی ، لائق اور قابل قدر نگاہوں سے دیکھے جانے والے   طلباء میں ہوتا تھا ۔ دن رات  لگاتار محنت کی حتی کہ درس خارج  میں شرکت کرنے لگے آپ کی  ان کوششوں،مسلسل لگن، دلچسپی اور جد و جہد   کے نتیجے  میں بالآخر  درجہ اجتہاد تک پہنچ گئے۔

اس کے ساتھ ساتھ آپ کربلاء  کے  مدارس میں  مختلف  علوم  عربی ادب،  فقہ میں شرائع الاسلام، منطق، نحو وغیرہ  کی تدریس کے فرائض بھی سرانجام دیتے رہے ۔ محرم الحرام  میں مختلف سالوں میں آپ نے ٹیلفونک  اور براہ  راست خطابات کیے اور دین مبین اسلام  اور کربلاء کی ترویج و تبلیغ کی خدمات فرائض  انجام دیے۔  اس کے علاوہ آپ نے کربلا میں خطابت کے ایک مدرسہ بنام”  کلیۃ الامام الحسین علیہ السلام للخطابۃ” کی داغ بیل ڈالی جہاں طلباء کوتعلیم کے ساتھ ساتھ معاشرے میں روش  تبیلغ اور فن خطابت  کا طریقہ بھی سکھایا جاتا ۔

علامہ عبد الحمید المہاجر کی خدمات فقط عراق تک محدود نہیں بلکہ بیرون ملک امریکہ کے شہر نیو یارک اور لاس اینجلاس ، لبنان ، بحرین،  افریقہ اور کویت وغیرہ میں بھی آپ کی خدمات موجود ہیں   ۔آپ  نے کئی ایک کتب، مقالات اور تحقیات  تالیف کیں  جن کی کافی تعداد   ملکی اور بین الاقوامی مجالات میں چھپ چکی ہیں ۔  اس کے علاوہ آپ نے بہت زیادہ کتابیں تحریر کیں ،  جن میں سے کچھ چھپ کر منصہ شہود پر آچکی ہیں جبکہ بعض غیر مطبوعہ ہیں۔ آپ کی مطبوعہ کتابیں  درج ذیل ہے۔

اعلموا انی فاطمۃ،   الایدیولوجیۃ الاسلامیۃ ،  المنبر الحر ، الامام علیؑ حیاتہ وفکرہ ، اھل البیت  اسماء لا تنسی ، حجر بن عدی ، العباس قمر العشیرۃ ، یوظعۃ الوعی ، من وحی المنبر ، علی و فاطمۃ بحران یلتقیان ، فی ظہور الاما م المھدیؑ  ، لمحات من  حیاۃ الامام علیؑ ، القضاء و القدر محاولۃ لفھم عصری ، یومیات سجین۔۔

ان کے علاوہ بھی تقریب چھ کتابیں مختلف موضوعات پر لکھ چکے ہیں مگر ابھی تک غیر مطبوعہ ہیں۔

خدا وندعالم آپ کی اس سعی جمیلہ کو اپنی مقدس بارگاہ میں شرف قبولیت بخشے۔

مقدماتی تعارف:

حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا کی آفاقی شخصیت کسی مسلمان کے لیے ڈھکی چھپی نہیں آپ نے زبان وحی سے تربیت پائی اور  امامت کے سائے میں زندگی بسر کی آپ عالمہ غیر معلمہ، محدثہ ، زکیہ طاہرہ، عذرا  ،وغیرہ کے القاب سے جانی جاتی ہیں  پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کئی  جگہوں پر آپؑ کا امت مسلمہ کے سامنے تعارف پیش کیا اور آپؑ کی عظمت کو بخوبی بیان کیا ۔حضرت فاطمہ زہراٰ سلام اللہ علیھا کے متعلق   کثیر تعداد میں آیات قرآنی نازل ہوئیں  اور خود رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی احادیث مبارکہ  اور آئمہ ھدیٰ علیھم السلام نے   اپنے فرامین آپؑ کی عظمت   کو اجاگر کیا ۔

حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا     کے علم  کا یہ عالم تھا کہ آپؑ امام علی علیہ السلام کو وہ باتیں بتاتیں جو آپؑ پیغمبر اسلام سے سن کر آتے اس طرح اپنے بچوں کی بھی خوب علمی ماحول میں تربیت کی حتی کہ روایات میں ہے کہ آپؑ امام حسن  علیہ السلام کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بھیجتی اور واپس آکر ان سے وحی کی باتیں پوچھتیں۔  اس  کتاب کا نام بھی  علامہ عبد الحمید المہاجرنے  آپ کے ایک اسلامی معارف پر مشتمل گراں قدر خطبے کے ایک جملے

” اعلموا انی فاطمؑۃ”  کے نام پر رکھا ہے۔ یہ   آپؑ کا ایک طولانی خطبہ ہے جو آپؑ نے اپنے بابؐا کی وفات کے بعد دیا ۔ جس میں معارف اسلامی توحید، عدل ، نبوت، امانت، نماز، روزہ، حج، زکوۃ وغیرہ کے حقیقی فلسفے کو بیان فرمایا اپنی عظمت کا تعارف کراتے ہوئے امت مسلمہ پراپنی اولویت اور حق کو ثابت کیا ۔ اس کتاب کی کل دس جلدیں ہیں پہلی چھ جلدوں میں سے ہر جلد کو  سات فصول  میں رقم کیا ہے جبکہ آخری چار جلدیں چھ، چھ فصول  پر مشتمل ہیں ۔ پھر ہر فصل میں مختلف ذیلی عناوین پر بحث کی  جس میں سب سے پہلے عنوان کا ذکر کرتے پھر اس کے بارے میں قرآن ، حدیث اور سیرت سے استدلال کرتے ہیں ان کا مختصر تعارف درج ذیل ہے۔

جلد اول:

پہلی جلدمیں مصنف مقدمہ کے بعد  جناب سیدہ النساءالعالمؑین کے خطبہ فدک  کے ان الفاظ  ’’اعلموا انی فاطمؑۃ‘‘کے بارے میں راقم طراز ہیں کہ میں نےا س جملے کے بارے میں کافی غور و خوض کیا ۔لیکن  ان   معانی کی حقیقی گہرائیوں تک پہنچنے سے قاصر ہوں۔ اس کے بعد  اس جملے کے مختلف  معانی بیان کرتے ہوئے ایک کثیر تعداد میں جناب سیدہؑ کے بارے میں احادیث نقل کرتے ہیں۔ جیسے مشہور حدیث  بیان کرتے ہیں۔

"ویل لمن غضبت علیہ فاطمۃ”

ہلاکت ہے اس شخص کے لیے جس پر فاطمہؑ غضب ناک ہوں۔

ا س کے بعد نور جناب سیدؑہ کے   کے متعلق احادیث نقل کی ہیں۔

فصل ثانی میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا سے محبت اور اہل بیت علیھم السلام سے  محبت کے متعلق احادیث بیان کرتے  ہوئے سیر حاصل بحث کی ہے ۔  اور ان  سے مودت و محبت  کے فوائد جو انسان کو دنیا اور آخرت میں حاصل ہوں گے بیان کئے گئے ہیں جن میں سے مشہور مودت زریعہ نجات، حب اہل بیت گناہوں کا کفارہ،اجر رسالت  اور شرائط محبت  و مودت  میں سے ایمان،عمل صالح اطاعت وغیرہ کو ذکر کیا  ہے۔ بعد  ازاں آیہ  مودت کے ضمن میں محبت اہل بیت کی ضرورت اور بغض اہل بیؑت کے نقصانات کو درج کیا ہے۔

فصل ثالث میں آپؑ کی ولادت ، خاندانی تشکیل اور حاکم اسلامی کے فرائض ہیں۔ اس کے بعد حدیث کساء   اور آیت تطہیر ،دونوں کی شیعہ  مذہب کے نزدیک اہمیت کو بیان کیا ہے  انہی کے ذیل میں پھر مختلف مختصر ابحاث کی ہیں جن میں عدالت، حریت سیرت نبویہ، فضائل امام علیؑ  اور آپؑ کی شہادت  کی وجوہات کو بیان فرمایا ہے ۔

فصل خامس میں اسلامی معاشرے کے خدو خال   ، بہترین امت، جناب سیدہؑ مبشرہ  عالم انسانیت، اخلاق سیدہؑ ،عقیدہ ، نظام، اسلامی تہذیب و تمدن اور اسلام سے قبل عربوں ک بود و باش کو بیان کیا ہے۔

آخری دو فصول میں حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کی شان میں مختلف آیات کو نقل کیا ہے اور ان پر بحث کی ہے کہ کیسے یہ جناب سیدہؑ کی عظمت پر دلالت کرتی ہیں۔اس کے علاوہ آپؑ کی شان میں احادیث کو بھی پیش کیا ہے آپؑ کا اخلاص، دعا ،مصحف ، روزہ،  تقویٰ ،قرآن اور غذا ء روحی اور بدنی کو بیان کیا ہے۔

دوسری جلد :

اس جلد میں کل سات فصول ہیں جن کا مختصر تعارف  ذیل میں ہے۔

فصل اول میں آپ کےمکارم اخلاق کو بیان کیا ہے جن میں سے من جملہ پہلے جس چیز کا تذکرہ کیا ہے وہ یہ ہے کہ آپؑ اپنے کپڑے خود سیتی تھیں اس کےلیے کسی خادمہ کا انتظام نہ تھا۔ اس کے علاوہ آپؑ کے ایثار، پردے، آپؑ کی نیکی بہترین عمل وغیرہ ہیں۔

فصل ثانی میں اسلام میں  چوری اور دیگر جرائم کے بارے میں بیان کیا ہے اور آیہ سرقہ پر ایک آفاقی گفتگو کی ہے اور حدیث سرقہ کہ اگر فاطمہ ایسا کرتی تو میں  اس کے بھی ہاتھوں کو۔۔۔۔ اس حدیث کی وجوہات کو ذکر کیا ہے اور انہیں لو تقول علینا بعض الاقاویل ۔۔۔۔کی طرح قرار دیا ہے۔

فصل ثالث میں آپؑ کی ولادت کا بیان آپؑ کی والدہ حضرت خدیؑجہ کا بیان اور حضرت مریم ؑکے ساتھ آپ کی عظمت کا تقابل بیان فرمایا ہے۔

فصل رابع میں آپ کے اسماء کےبارے میں جبکہ پانچویں فصل میں آپ کی شان میں نازل ہونے والی احادیث کو لکھا ہے اسی طرح چھٹی فصل میں بھی قیامت کے روز آپؑ کی عظمت و جلالت، توحید، ایمان اولاد فاطمؑہ کا اولاد نبی ہونا وغیرہ کیا بیان ہے۔

جبکہ آخری فصل میں تسبیح فاطمہ زہراسلام اللہ علیھا ، تعلیم تسبیح، فضیلت، نور فاطمؑہ ، ام ابیھا ، انگوٹھی کا نقش اور حضرت فاطمہؑ پر صلوت اور توسل کرنے کی فضلیت ہے۔

تیسری جلد:

اس جلد میں بھی کل سات فصول ہیں۔

فصل اول میں پاک پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وصیت کو بیان کیا گیا ہے اس کےعلاوہ  آپؑ کے گھر کی فضلیت، آپؑ کی علیؑ کے گھر میں تواضع اور گذر بسر، خدمت کو بیان کیا گیا ہے۔ اس کے اس علاوہ آپ کے اسوپ حسنہ، احراق بیت فاطمہؑ  خلافت علیؑ  وغیرہ کا ذکر ہے۔

فصل ثانی میں آیہ مباہلہ ، حدیث کساء اما حسن اور امام حسین علیھما السلام کی ولادت باسعادت جناب فاطمہؑ اور لیلۃ القدر کے بارے میں مفصل گفتگو ہے۔

فصل ثالث میں آپ کا امام علیؑ سے عقد ، شادی اور رخصتی کا ذکر اور آپ کے خاندانی حالات، خاندانی تشکیل و تعمیر ایک عورت کا سماج کی ترقی میں کرادر ایک مثالی معاشرے اور گھرانے کو بنانے میں عورت کیا کر سکتی ہے اور جناب زہرا سلام اللہ علیھا کی سیرت کیا تھی۔

فصل رابع مین شیطان اور اس کے چیلوں کو ذکر کیا ہے اور حضرت فاطمہؑ ان سے کیسے محفوظ تھیں یہ آپ کےقریب بھی نہیں پھٹک سکتے تھے آپ کاا یمان، اتقان اور آپ کے بارے میں امام علی علیہ السلام کے اقوال اور مختلف موضوعات پر احادیث درج ہیں۔

فصل خامس میں میاں بیوی کے آپسی تعلقات، ان میں محبت، ناچاکیاں اور طلاق کو زیر بحث لایا ہے طلاق کی وجوہات یہ ایک ناپسندیدہ چیز کےطور پر پیش کیا ہے اس کے علاوہ خاندانی مشکلات، اس ک تنگدستی وغیرہ اور ان کے حل اور صبر و تحمل کا ذکر بھی ہےاولاد ، تربیت اولاد، شریکہ حیات کا انتخاب اس کی خصوصیات وغیرہ کو بھی بیان کیا ہے۔

چھٹی فصل متعدد بیویاں رکھنے، ایک بیوی اور متعدد ہونے میں فرق، سابقہ ادیان  مثلا دین ابراہیمی ،یہود اور عیسائیت میں تعدد زوجات،  تعدد زوجات کے عوامل، شرائط کے علاوہ ازدواج فاطمہؑ ، شادی علی و فاطمہ علیھما السلام خطبہ نکاح مہر فاطمہؑ جہیز فاطمہؑ آیات عروسی،دیگر احادیث اور علوم کے تعارف پر مشتمل ہے۔

فصل سابع فدک کے بارے میں مفصل گفتگو کرتی ہے اور خطبہ فدک کے کچھ الفاظ کی وضاحت ہے۔

چوتھی جلد:

ابتداء میں خطبہ فدک کے  بارے میں مقدماتی گفتگو ہے اور اس کے چند الفاظ کی تشریح ہے جن میں لفظ نعمت، حمد اور شکر ہیں اور ان الفاظ کی تشریح دیگر آیات اور احادیث کی روشنی میں بیان کی گئی ہے۔

فصل ثانی عورت کے حقوق ، عورت کا مقام، پردہ،اہل جنت کا اکثریت عورتوں میں سے ہونا، جناب مریمؑ اور جناب سیدہؑ میں کون افضل ہیں، مرد اور عورت کے وظائف کا فرق،ضرورت پردہ، تقوی، مومنہ عورت کے فرائض، اسلام میں عورت کا مقام اور ذمہ داری، معاشرے میں عورت کا کردار، عورت اورمرد مین فطری رجحان کا بیان، عفت، آدم و حوا، غیرت علیؑ ، حجاب فاطمہؑ حقوق زوجیت، ہم پلہ ہونا اور حضرت فاطمہ ؑ کی زبانی ان کے احوال پر مشتمل ہے۔

فصل ثالث امامت، فرائض امامت، ولایت تکوینی، اسلام کا دنیا کے بارے میں نظریہ،  تبدیلی، لوگوں کے دین و دنیا میں درجات کو بیان کرتی ہے۔

فصل رابع مین عبادت ، نمازن خوف الہیٰ، حریت، عقیدہ قلعہ اسلام ہے ان چیزوں پر مشتمل ہے۔

فصل خامس میں  جوانی کی طاقت، جوانوں کی مثالیں، عالم کے فرائض، اخلاقیات کی احادیث وغیرہ کے بارے میں ہے۔ جبکہ چھٹی فصل میں اسلامی معاشرے میں لوگوں کےطبقات، انسانی ذمہ داریاں، پڑوسی کے حقوق، عبادت فاطمہؑ، مہمان کے اکرام پر مشتمل ہے۔

آخری فصل میں خاندان کی بحث سے آغاز ہوتا ہے اور قرآن، حدیث اور آپ ک سیرت کے پیش نظر سماج کے تما م تر خدوخال کا ایک تفصیلی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ حسد کے بارے میں روایات، قصہ یوسفؑ ، مومن ک عزت نفس، اخلاق فاضلہ، عقل، مفہوم قضا و قدر اور اسلامی معاشرتی  نظریہ کو ذکر ہے۔

پانچویں جلد:

فصل اول میں سب سے پہلے فاطمؑہ راسخون فی العلم میں ہیں اس کو ثابت کیا ہے، اس کے بعد کچھ فکری واقعات اور اشیاء ہیں۔ علاوہ ازیں اسلام اور بدعت، عقل ، علم اور جہل، عقل اور دین، علم،فقہاء وارثان انبیاؑء، فاطمؑہ اور قرآن، علم، طاقت کا استعمال، درایت حدیث، روایت حدیث ، وجود امام وصیت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، ابوزؑر کو وصیت، سلیماؑن کو وصیت، احادیث رسول  صلی اللہ علیہ وآلہ ہ وسلم اور  فرامین آئمؑہ درج کیے   ہیں۔

فصل ثالث میں حق و باطل، مومن کی صفات، عمل صلاح ، حریت، ایمان دلوں کی زندگی اور نور زندگی کی بیان، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا  کی شان میں مختلف موضوعات  پر احادیث ہیں۔ آخر میں امام علی علیہ السلام کی حکومت میں  عظمت انسانی کا بیان ہے۔

چوتھی فصل میں انصار حسینؑ ، حضرت حمزہؑ ، اہمیت زیارت، اسلام دین ہدایت، لوگوں کی روش، موت، دین، ایمان، حق باری کےفیصلے کےآگےسرتسلیم خم کرنا، اور فکر فاطمؑی کا بیان ہے۔

پانچویں فصل میں حضرت فاطمہ کا امامت کے بارے میں نظریہ،اطاعت امام کے بارے میں بیان ہے۔

چھٹی فصل  میں دل، فلسفہ حیات، عمل، جزاء، حدیث مکارم اخلاق کی تکمیل،  وفاء، احترام، ثواب، عقاب، وعد و وعید، امید، استغفار اور توکل کا ذکر ہے۔

آخری فصل اقتصادیات، سیاست، معاشرتی اقتصاد، کفر و جہل، اقتصاد اسلام، فقر کے بارے اسلامی نظریہ، چھ خصلتیں، زکوۃ، توبہ اور شفاعت پر  مشتمل ہے۔

چھٹی جلد:

فصل اول میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا اور ان کی قلمی خدمات میں مصحف فاطمہؑ ، تدوین حدیث  اور کتابت کا ذکر ہے۔ علاوہ ازیں قلم کی فضیلت، اور جناب زہراؑ کا قلمی ادب  عظمت انسان جیسے اہم موضوعات کےساتھ اور بھی ذیلی موضوعات پر  بحث کی گئی ہے۔

فصل ثانی یہود کے متعلق، یہود اور گائے کا قصہ، سورہ حشر میں یہودیوں کا تذکرہ، ایمان بالغیب، فاطمہؑ داعی الی القرآن،  امام علی علیہ السلام  کی طرف منسوب اشعار اور فضائل امام علی علیہ السلام پر مشتمل ہے۔

فصل ثالث میں قرآن اور آداب قرآن، فاطمہ ؑ کےنزدیک قرآن کا فکری پہلو، فہم قرآن، فضائل قرآن، تلاوت قرآن، قرآن اوراہل بیت علیھم السلام میں تلازم ، تفسیر، تاویل، مریم و سارہ اور حدیث ملائکہ ، فاطمؑہ اور قرآن، اہل قرآن اور قرآن دستور حیات وغیرہ جیسے اہم عناوین موجود ہیں۔

فصل رابع  میں امثال قرآن، حق و باطل، صدق فاطمہؑ، خدا کے علاوہ حصول عزت باعث رسوائی پر گفتگو ہے جبکہ فصل خامس میں  سیاست، قصال پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے امام علی علیہ السلام کی ذمہ دارایاں، فاطمؑہ حبل متین ، فاطمہؑ عدالت  انسان کی آواز، سیرت انبیاؑء، مسلمان قائدین، صغائر و کبائر گناہان، گنہ گاروں کے ساتھ سلوک، ایمان و اخلاق، حریت بشر، وغیرہ شامل ہیں۔

فصل سادس اعمال  انسان، اعمال کی شرائط، نیت، نیت کا معیار عمل ہونا، وفات فاطمہؑ ، امام علیؑ کا مقام و مرتبہ کا بیان، علیؑ وارث انبیاء، معصومیں کی زندگی لوگوں کے لیے نمونہ عمل ہے اور اسلام میں عید کیا ہے ان موضوعات کو زیر بحث لایا گیا ہے۔

آخری فصل میں خواب، فاطمہؑ کا  خواب کے بارےمیں نظریہ، فاطمہؑ کے خواب، اسلام اور ہدایت، حسن سلوک میں ایمان کا کردار، موت ، قیامت، سکرات موت، وحشت قبر، عبادت علیؑ جیسے عناوین موجود ہیں ۔

ساتویں جلد:

اس  جلد میں کل چھ فصول ہیں جن میں ایک بہت زیادہ موضوعات پر مفصل اور اختصار کے ساتھ روشنی ڈالی گئی ہے جن کاتعارف درج ذیل ہے۔

فصل اول میں درج ذیل موضوعات ہیں۔

حدیث علماء کے قلم کی سیاہی اور خون شہداء، پیغام رسانی کا عمل قربانی کا متقاضی، حقوق انسانی، امام علیؑ اور خاتون کا واقعہ جسے شوہر نے گھر سےنکال دیا، بچپن، خاندانی مشکلات، اسلام  کی نظر میں عظمت انسان، عدل اور تواضع، غذاء بدن اور غذاء عقل و روح، قول اور فعل کے درمیان حق و باطل،  عبادت علیؑ، حدیث قلت زاد، خصائل علیؑ، علؑی اورفاطؑمہ کا ازدواج امر الہیٰ، لوگوں کے درجات، امام علی کی کعبہ میں ولادت کا راز، بعض صفات علیؑ وغیرہ۔۔

فصل ثانی میں شیعہ کی صفات، وصیت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شیعہ کے بارے میں، طالب علم کے بارے میں احادیث، عقل کےبارے میں احادیث، روایت اور درایت کی اہمیت،تقیہ اور خطبہ شقشقیہ کی بحث ہے۔

فصل ثالث ان عناوین پر مشتمل ہے۔

اسلامی تہذیب و تمدن میں شیعہ کا کردار، علم فزکس، ریاضی، کیمیاء، فلکیات، طب، وغیرہ مٰں شیعہ کا کردار، علم صرف ، نحو، لغت، معانی ، بیان ،بدیع، عروض ، علوم دین، حدیث، فقہ، اصول فقہ،قرآن، کلام، فلسفہ اخلاق ، تاریخ اور علم سیر میں شیعہ کا کردار۔۔۔

فصل رابع اسلام میں طب، نور خدا بیت رسول میں ہے، صفائی، ابو بصیر اور حدیث جنابت، کیڑے مکوڑے اور ان کےعلاوہ انسانی نظافت و طہارت کےمتعلق کافی موضوعات ہیں۔

فصل خامس  امام مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے ظہور، منجی بشریت،غلبہ دین مبین اسلام،حکومت مہدی، حکومت اور عصمت، قرآن اور اہل بیت، امام مہدی ؑ میزان حق، آپ کی ولادت با سعادت، خروج امامؑ ، احقاق حق اور انتظار امام و ملاقات امام ؑ پر مشتمل ہے۔

آخری فصل میں منبر، خطیب، خطیب اور قرآن وعترت کا تعلق، خطباء کی ضرورت، صاحبان منبر کو وصیتیں، شرائط منبر اور اہل منبر، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا اور دیگر معصومینؑ کی خطابت،  خطابت میں مسائل، ان کا حل، تصحیح وغیرہ کو مفصل طور پر ذکر کیا ہے۔

آٹھویں جلد:

اس جلد میں کل چھ فصول ہیں جن کا مختصر تعارف یہ ہے۔

فصل اول میں  مختصر خطبہ رسول، خطیب کی ذہنی اور دلی کیفیت اور حالت، عقل و بیان وغیرہ اور ذیلی موضوعات کا بیان ہے۔

فصل دوم میں اسلامی تمدن، عربی تمدن، اسلامی تمدن کا مغربی تہذیب سے بہتر ہونا، اہل ذمہ کے حقوق، مصحف فاطمہؑ کے بارے میں احادیث اور علم اصول کا ذکر ہے۔

فصل ثالث میں عظمت اہل بیت علیھم السلام، فضائل اہل بیت میں احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، سورہ کوثر، سورہ کوثر اور خطبہ زینبیہؑ، سورہ کوثر اور فاطمہؑ، رفع یدین، عظمت جناب سیدہؑ کے بارےمیں احادیث اور حضرت زینب سلام اللہ علیھا کی ولادت باسعادت جیسے عناوین پر مشتمل ہے۔

فصل رابع میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کی تاریخ، فاطمہؑ و علیؑ بحران یلتقیان، سیرت علیؑ و فاطمہؑ کا تقابل، معصوم، عصمت کا بیان، عصمت فاطمہؑ احادیث پیغمبر صلی اللہ کی روشنی میں اور ام ابیھا جیسے لقب کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے۔

فصل خامس غدیر، غدیر کے بارے میں فاطمہؑ کی جدو جہد، لوگوں کو غدیر یاد دلانا، حب فاطمہؑ ترازو، معرفت فاطمہؑ، حیات فاطمؑہ، ابو طالبؑ، شعر ابی طالب، ابو طالب شیخ البطحاء، حضرت زہرا سلام اللہ علیھا کا حزن اور غضب ناک ہونے کا بیان ہے۔

آخری فصل میں  حضرت  فاطمہؑ کا شہداء اسلام کی عزت و تکریم کرنا، حضرت حمزہؑ حزن، شہداء پر آنسو بہانا، موت کے بعد روح، گریہ فاطمہؑ، گریہ کے فوائد، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور گریہ فاطمہؑ، فضائل فاطمہؑ، فاطمہؑ کے بارے احادیث پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، مظلومیت فاطمہؑ، کیفیت وفات فاطمہؑ، وصیت فاطمہؑ، بیت فاطمہؑ پر حملہ،احتجاج فاطمہؑ، بعد وفات پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدت حیات، فاطمہؑ کا اپنے والد کی قبر پر جانا اور شکوہ کرنا، امام علیؑ کا وفات فاطمہؑ کے وقت حال رقم ہے۔

نویں جلد:

اس جلد میں بھی کل چھ فصول ہیں جن کا اجمالی تعارف درج ذیل ہے۔

فصل اول میں ہجوم بیت فاطمہؑ، حضرت فاطمہؑ کے بعض مصائب، وفات فاطمہؑ، آپ کی پسلیوں کا ٹوٹنا، آخری ایام تک بیت الاحزن می ں بسر اوقات کرنا، وفات فاطمہؑ کی احادیث، جناب فاطمہؑ ، علیؑ، اور امام حسینؑ کے فضائل میں جنات کو قصائدہ، امام حسینؑ پر جنات  کو نوحہ، نبی صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کا جناب زہرا ؑ کو وفات کی خبر دینا،شفاعت فاطمہؑ، فاطمہؑ کو علی ؑ کا غسل دینا، اور دیگر مصائب فاطمہؑ ہیں۔

فصل دوم میں حضرت فاطمہؑ کی چکی، ادعیہ فاطمہؑ زہرا، فاطمہ ؑ کا چلن، فاطمہؑ محدثہ، سخاوت زہراؑ، اس کے علاوہ دیگر فضائل ہیں۔

فصل ثالث میں تربیت اولاد، قرآن اورتربیت کا اہتمام، جوانی کی مشکلات، مسلم جوان ان سے کیسے نمٹے؟، اسلام کا عقیدے اور آزادی کا بیان ہے۔

فصل رابع میں عورت کا زمانہ جاہلیت اور آج کل کے زمانے میں مقام میں فرق، وجدان فطری اور توحید، اسلام دین فطرت ہے۔

فصل خامس میں درج ذیل عنوانات پر بحث کی گئی ہے۔

معاشرے میں خاندان میں عورت کا کرادر، عورت کا قرآن میں مقام، عورت کے بارے میں احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، عورت و مرد نفس واحدہ، مقام فاطمہؑ، فاطمہؑ وجہ تسمیہ، پیغمبر(س) اور فاطمہ ؑ کا تعلق، مورخین کی نظر میں فاطمہؑ، لسان معصومینؑ پر فضائل فاطمہؑ، ادعیہ فاطمیؑ، اثبات وجود خالق  وغیرہ۔۔

آخری فصل درج ذیل موضوعات پر مشتمل ہے،

نعمات الہیہ، ایمان و اخلاق انسانی زندگی میں نور، ماہ رمضان اور نور اخلاق، نور اہل بیتؑ، ظلم کے مقابل مقاومت ثواب عظیم، عقیدہ جبر و اختیار، بہلول کوفی اور سفیان ثوری، عبادت وسیلہ، عالم برزخ، عالم جن، عالم، ملائکہ، توبہ، جسم مادی اور مثالی، برزخی بدن، زاد سفر، وحشت قبر، حساب کتاب،اہل بیت ؑ کا زاد آخرت، قرآت قرآن، اسلام میں مفہوم عبادت ، معرفت پروردگار، معرفت نفس انسان اور محاسبہ انسان ہے۔

جلد دہم:

یہ اس کتاب شریف کی آخری جلد ہے اس میں سابقہ روش کےتحت فصول مرتب نہیں کی گئی بلکہ ایک عنوان کے تحت کچھ ذیلی ابحاث کی گئی ہیں ہم عنوانات کو ذکر کرنے کے ساتھ جہاں اہم ذیلی بحث ہوگی اس کو بھی ساتھ ذکر کریں گے۔

پہلا عنوان تدوین حدیث کا ہے اور لوگوں کا اس سے انحراف کرنے کے بارے مین ہے اس کے ذیل میں  امام صادقؑ اور مذاہب اربعہ مقتل حجر بن عدی کا بیان ہے۔

دوسرا علیؑ حق، عدل اور حریت کی آواز اور زہراؑ کا بھی اس کام میں علیؑ کی مثل ہونا ہے۔

اسلامی نظام کے تحت معاشرے کا قیام طلاق اور اس جیسے دیگر اہم مسائل کو ذکر کیا ہے آخر می امام حسینؑ کی زیارت کی فضیلت کو بیان کیا ہے۔

حریت اور آزمائش کو بھی مفصل ذکر کیا ہے۔

اسلام دین فطرت کیسے ہے اس پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

توحید ہی انسانیت کا اصل راستہ اور مسلک ہے ایمان بالغیب اور اہل بیتؑ کے مصائب کو بیان کیا ہے۔

خلقت انسان کے بارے میں گفتگو ہے۔

اسلام اور عدالت پر تفصیلی بحث کی گئی ہے سبب فقر اور حکایت موسیٰ و خضر علیھما السلام کو بیان ہے۔

اسلامی معاشرے میں اخلاقیات کیسے ہوں ہمارے اور مغرب کے اخلاق میں فرق کیا ہے۔؟

صبر کی عظمت اور صبر کرنے والوں کی فضلیت ذکر کی گئی ہے۔

ایمان اور ولایت میں آزمائش کا بیان ہے۔

اہل بیت کی سچائی، دنیا اور آخرت کی کامیابی کا راستہ خدائی منہج، پاکیزہ نفس اور خبیث نفس،قصہ یوسفؑ اور نبوت کا امتحان، صراط مستقیم، موت سے نڈر رہنا، شعائراللہ شعائر اسلام، ایمان و عمل، نماز، رمضان اور روزے،اسلام دین ہدایت اور دین نور مبین، نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امام علی ؑکے مواعظ حسنہ، امام اور وصی نبی کے وجود کا ضروری ہونا، مسلمانوں کے دلوں مین امام علی بن حسین زین العابدین علیھما السلام کا مقام، رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مختصر حالات کا تجزیہ، وفات نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم،اور امام علی علیہ السلام وارث انبیاء علیھم السلام کا بیان ہے۔

خاتمہ:

مصنف علیہ الرحمہ نے کتاب کی آخری جلد میں ایک خاتمہ تحریر فرمایاہے جس حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا پر لکھی گئی کتب کے نام کو تحریر کیا ہے ممکن ہے کہ یہ مصنف کے منابع بھی ہوں۔ ان کتب کو مصنف نے بنیادی طور پر تین حصوں میں تقسیم کیاہے جو کہ درج ذیل ہیں۔

پہلی قسم کی مخطوطہ کتب ہیں جن کی تعداد ۴۴ ہے۔

دوسری قسم کی مطبوعہ کتب ہیں جن کی تعداد ۲۴۸ ہے۔

تیسری قسم کی کتب مبارات ہیں جن کی تعداد ۱۴ ہے۔

 

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button