خطبات جمعہسلائیڈرمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک (شمارہ:332)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک 5 دسمبر 2025 بمطابق 13 جمادی الثانی 1447ھ)
تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

جنوری 2019 میں بزرگ علماء بالخصوص آیۃ اللہ شیخ محسن علی نجفی قدس سرہ کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
موضوع: میدانِ عمل میں مومن کی خصوصیات

اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں جمعہ کے مقدس دن میں اپنے گھر میں جمع کیا۔ آج ہمار گفتگو کا موضوع ہے: "میدان عمل میں مومن کی خصوصیات”۔ ایمان صرف عقیدہ کا نام نہیں، یہ عمل کا بھی نام ہے۔ قرآن مجید میں ایمان کو اکثر مقامات پر عمل کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے، جیسا کہ ارشاد ہے:
اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ لَہُمۡ اَجۡرُہُمۡ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ ۚ وَ لَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ (سورۃ البقرہ، آیت ۲۷۷)۔
"البتہ جو لوگ ایمان لے آئیں اور نیک عمل بجا لائیں نیز نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے اور ان کے لیے نہ تو کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ رنجیدہ ہوں گے۔”
آج کے دور میں مومن کی پہچان اقوال سے نہیں بلکہ میدان عمل سے ہوتی ہے۔ مومن کی عملی زندگی اس کے ایمان کی آئینہ دار ہوتی ہے، جہاں وہ اللہ کی رضا کے لیے کام کرتا ہے اور معاشرے کو بہتر بنانے میں اپنا عملی کردار ادا کرتا ہے ہے۔
اب دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم مومن کی خصوصیات کیسے بیان کرتا ہے۔
1۔ قول و فعل میں سچائی:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
يَـٰٓأَيُّهَا الَّذِينَ ءَامَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّـٰدِقِينَ (سورۃ التوبہ، آیت ۱۱۹)۔
” اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہو جاؤ ۔”
سچ اس قول و عمل کو کہتے ہیں جو واقع کے مطابق ہو اور واقع کو حق کہتے ہیں۔ اس آیت میں یہ حکم ہے کہ سچوں کے ساتھ ہو جاؤ۔ ساتھ (معیت) سے مراد اتباع ہے۔ جو لوگ اپنے جہاد، معاہدوں ، وعدوں اور اقوال میں سچے ہیں ان کی صحبت میں رہو۔
قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ اس آیت میں اس بات کا حکم دیا جا رہا ہے کہ اول تقویٰ اختیار کرو۔ اس کے بعد صادقین کے ساتھ ہو جاؤ۔ یہ نہیں فرمایا: سچے رہو بلکہ فرمایا: سچوں کے ساتھ ہو جاؤ۔ خود سچا رہنا ایک حکم ہے۔ وہ اپنی جگہ ثابت ہے لیکن یہ حکم اس کے علاوہ ہے۔ یعنی خود سچا ہونا کافی نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ سچوں کی معیت اختیار کرو تو بات پوری ہوتی ہے۔
واضح رہے حقیقی معنوں میں سچا شخص وہ ہے جس سے کوئی ایسا عمل سرزد نہ ہوا ہو جو اس کے عقیدے اور نظریے کے خلاف ہو اور اسی کو معصوم کہتے ہیں۔پس انسان سچائی کی منزل پر اس وقت فائز ہو سکتا ہے جب خود سچا ہونے کے ساتھ ساتھ سچوں کے ساتھ ہو جائے۔(الکوثر فی تفسیر القران جلد 3 صفحہ 556)
یہ آیت بتاتی ہے کہ مومن کی ایک اہم علامت راست گوئی، وعدے کی پابندی اور قول میں سچائی ہے۔ میدان عمل میں مومن جھوٹ، دھوکہ اور فریب سے دور رہتا ہے، کیونکہ سچائی ایمان کی بنیاد ہے ۔
2۔ خشوع و خضوع :
قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ ، الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ (سورۃ المؤمنون، آیات ۱-۲)۔
"وہ ایمان والے یقینا فلاح پا گئےجو اپنی نماز میں خشوع کرنے والے ہیں،”
مومن کی زندگی کا مرکز نماز میں خشوع ہے۔ میدان عمل میں وہ عبادت میں خلوص اور حضور قلب رکھتا ہے، جو اسے اپنے رب کا قرب عطا کرتا ہے ۔
وہ مؤمن کامیاب و کامران ہیں جو اپنی نمازوں میں خشوع کرتے ہیں۔ یہ نہیں فرمایا: وہ مؤمن جو نماز پڑھتے ہیں چونکہ نماز پڑھنا مؤمن کے لیے شرط اول ہے، آگے کامیابی کے لیے خشوع کا ذکر ہے۔
خشوع کی دو قسمیں ہو سکتی ہیں:
قلب کا خشوع اور اعضاء کا خشوع۔ قلب کا خشوع یہ ہے کہ دل اللہ کی عظمت کے سامنے جھک جائے۔
اعضاء کا خشوع یہ ہے کہ نماز میں اگر حالت قیام میں ہے تو سجدہ کی جگہ پر نظر رکھے۔ رکوع کی حالت میں دونوں پاؤں کے درمیان نظر رکھے۔ بیٹھا ہوا ہو تو اپنے دامن پر نظر مرکوز رکھے اور سجدے کی حالت میں نگاہ ناک کی طرف رکھے نیز ہر قسم کی ایسی حرکت اور جنبش سے اجتناب کرے جو نماز کے منافی ہو۔
واضح رہے اعضاء کا خشوع، دل کے خشوع سے وجود میں آ سکتا ہے۔ مروی ہے کہ ایک شخص نماز میں اپنی داڑھی چھیڑ رہا تھا، رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے دیکھ کر فرمایا:
اما لو خشع قلبہ لخشعت جوارحہ  (مجمع البیان ذیل آی)
اگر اس کے دل نے خشوع کیا ہوتا تو اس کے اعضا بھی خشوع کرتے۔
اگر دل میں نماز نہیں ہے، صرف اعضاء کو نماز پڑھنی پڑ رہی ہے تو یہ اعضاء اور دل دونوں پر بڑا بوجھ ہو گا۔(الکوثر فی تفسیر القران جلد 5 صفحہ 359)

3۔ امانت داری و دیانت:
وَالَّذِينَ هُمْ لِأَمَانَاتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَاعُونَ (سورۃ المؤمنون، آیت ۸)۔
"اور وہ جو اپنی امانتوں اور معاہدوں کا پاس رکھنے والے ہیں۔”
اس میں تمام امانتیں شامل ہیں۔ اللہ کی طرف سے سپرد شدہ ہوں یا انسان کی طرف سے۔ اللہ کی طرف سے سپرد شدہ امانتوں میں فطرت کی امانت ہے جس کے تحت انسان کو مکلف بنایا گیا۔ اس امانت کی سپردگی کے لیے انسان کو عقل سے نوازا۔
انسان اگر کوئی امانت کسی اور انسان کے سپرد یا کوئی انسان کسی اور کے ساتھ معاہدہ کرتا ہے تو اس امانت کا واپس اور اس عہد کو پورا کرنا واجب ہے۔ یہ ایک انسانی مسئلہ ہے، خواہ صاحب امانت مسلمان ہو یا کافر، جس کے ساتھ معاہدہ ہوا ہے وہ مسلمان ہو یا کافر۔( الکوثر فی تفسیر القران جلد 5 صفحہ 363)
حدیث میں آیا ہے:
ثَلَاثٗ لَمْ یَجْعَلِ اللّٰہُ عَزَّ وَ جَلَّ لِاَحَدٍ فِیْھِنَّ رُخْصَۃً۔ اَدَائُ الْاَمَانَۃِ اِلَی الْبرِّ وَالْفَاجِرَ وَالْوَفَائُ بِالْعَہْدِ لِلْبَرِّ وَالْفَاجِرِ وَبِرُّالْوَالِدَیْنِ بَرَّیْنِ کَانَا اَوْ فَاجِرَیْنِ۔ (الکافی ۲: ۱۶۲)
تین چیزوں میں اللہ تعالیٰ نے کسی کو چھوٹ نہیں دی ہے۔ امانت کی ادائیگی میں خواہ یہ نیک انسان کی ہو یا فاجر کی۔ معاہدہ کو پورا کرنے میں خواہ نیک انسان کے ساتھ ہو یا فاجر کے ساتھ۔ والدین کے ساتھ نیکی کرنے کے بارے میں خواہ والدین نیک ہوں یا فاجر۔
دوسری حدیث میں ہے:
لَا اِیْمَانَ لِمَنْ لَا اَمَانَۃَ لَہُ وَ لَا دِینَ لِمَنْ لَا عَہْدَ لَہْ الْخَبَرَ ۔ (مستدرک الوسائل ۶۱: ۹۶)
جو امانتداری نہیں کرتا اس کا ایمان نہیں۔ جو عہد کی پاسداری نہیں کرتا اس کا دین نہیں۔
امانت صرف مال نہیں، وقت، مقام، عہدہ اور زبان سب امانتیں ہیں۔ مومن میدان عمل میں ان کی حفاظت کرتا ہے، کیونکہ امانت داری ایمان کی علامت ہے ۔
4۔نفس پر کنٹرول — غضب و شہوت پر قابو:
وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ وَاللّٰهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ (سورۃ آل عمران، آیت ۱۳۴)۔
"اور غصے کو پی جاتے ہیں اور لوگوں سے درگزر کرتے ہیں اور اللہ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔”
وہ غصے سے مغلوب نہیں ہوتے۔ ان کا نفس ان کی عقل کے اختیار میں ہوتا ہے۔ یہاں یہ نہیں فرمایا کہ اہل تقویٰ وہ ہیں جنہیں غصہ نہیں آتا، بلکہ فرمایا کہ غصے کی حالت میں ضبط و تحمل سے کام لیتے ہیں۔ لہٰذا انسانی طبیعت کے پیش نظر غم و غصے کا نہ ہونا کمال نہیں ہے، بلکہ اسے قابو میں رکھنا کمال ہے۔
مومن غصہ پینے والا اور جلد معاف کرنے والا ہوتا ہے۔ میدان عمل میں وہ غضب اور شہوت پر قابو پا کر اللہ کی محبت حاصل کرتا ہے ۔
5۔تقویٰ اور حق پر ثابت قدمی:
إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللّٰهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوا وَجَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللّٰهِ أُولَٰئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ (سورۃ الحجرات، آیت ۱۵)۔
” مومن تو بس وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائیں پھر شک نہ کریں اور اللہ کی راہ میں اپنے اموال اور اپنی جانوں سے جہاد کریں، یہی لوگ (دعوائے ایمان میں)سچے ہیں۔”
ایمان کی جامع تعریف آ گئی کہ جب اللہ اور رسولؐ پر تعلیمات اور حق کی بنیاد پر ایمان لائیں اور ایمان بھی ایسا جس میں کسی مرحلے میں تزلزل نہ آئے۔ اس یقین کے ساتھ دل میں ایمان اتر گیا ہو کہ بعد میں کسی آزمائش کے موقع پر اس ایمان میں تزلزل نہ آئے جیسے صلح حدیبیہ کی آزمائش تھی جس میں کچھ مسلمانوں کے دل متزلزل ہو گئے تھے۔
یہ آیت شک اور تذبذب سے پاک ایمان اور عملی استقامت کی بات کرتی ہے۔ مومن میدان عمل میں حق پر ڈٹ جاتا ہے ۔
احادیث معصومین علیہم السلام
احادیث معصومین علیہم السلام میں بھی مومن کی عملی خصوصیات بیان ہوئی ہیں۔
1۔حسن اخلاق:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں: إنّ العَبدَ لَيَبلُغُ بحُسنِ خُلقِهِ عَظيمَ دَرَجاتِ الآخِرَةِ وشَرَفِ المَنازِل ، و إنَّهُ لَضَعيفُ العِبادَةِ. (المحجّه البيضاء : ۵ / ۹۳ )
رسول اللہ (ص) :بندہ عبادت میں کمزور ہونے کے باوجود اپنے اچھے اخلاق کے ذریعہ آخرت کے عظیم درجات اور منازل کے شرف کوپالیتاہے۔
اسی طرح ایک اورر حدیث میں فرمایا:
إنّ أحَبّكُم إلَيَّ وأقرَبَكُم مِنّي يَومَ القِيامَةِ مَجلِسا أحْسَنُكُم خُلقا ، وأشَدُّكُم تَواضُعا. (بحارالانوار : ۷۱ / ۳۸۵ / ۲۶)
تم میں میراسب سے زیادہ محبوب اور بروز قیامت منزل کے لحاظ سے مجھ سے زیادہ نزدیک وہ شخص ہوگا جس کے اخلاق سب سے اچھے اور تواضع زیادہ ہوگی۔
مومن کی کامیابی کا سب سے بڑا معیار اخلاق ہے۔ میدان عمل میں وہ نرم گفتار، خوش اخلاق اور لوگوں سے اچھا سلوک کرتا ہے۔
2۔ خیرخواہی و ایثار:
رسول اللہ ص :إنّ أعظَمَ النّاسِ مَنزِلَةً عِندَ اللّٰه يَومَ القِيامَةِ أمشاهُم في أرضِهِ بالنَّصيحَةِ لِخَلقِهِ . (الكافي : ۲ / ۲۰۸ / ۵)
’’قیامت کے دن اللہ کے نزدیک اس شخص کی قدر و منزلت سب سے زیادہ معلوم ہوتی ہے جو اس کی مخلوق کی خیر خواہی کے لئے اس کی زمین میں سب سے زیادہ تگ و دو (کوشش)کرے گا ‘‘۔
امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں: عَامِلْ سَآئِرَ النَّاسِ بِالْإنْصَافِ ، وَ عَامِلِ المُؤْمِنِيْنَ بِالْإيْثَارِ.
دوسرے لوگوں کے ساتھ انصاف سے پیش آؤ اور مومنین سے ایثار کے ساتھ۔
مومن دوسرے مومن کے لیے آئینہ ہے — خیرخواہ، اصلاح کرنے والا اور ایثار کرنے والا۔ میدان عمل میں وہ دوسروں کی بھلائی چاہتا ہے۔
3۔معاشرتی ذمہ داری — امر بالمعروف و نہی عن المنکر:
حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام سے روایت ہے:
وَ مَا اَعْمَالُ الْبِرِّ کُلُّھَا وَ الْجِہَادُ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ عِنْدَ الْاَمْرِ بِالْمَعْرُوفِ وَ النَّھْیِ عَنْ الْمُنْکَرِ اِلَّا کَنَفْثَۃِ فِی بَحْرٍ لُجِّیٍّ ۔ (وسائل الشیعۃ ۱۶: ۱۳۴)
تمام نیک اعمال اور جہاد فی سبیل اللہ، امر بمعروف اور نہی از منکر کے مقابلے میں ایک ٹھاٹھیں مارتے سمندر کے مقابلے میں ایک چھوٹے سے قطرے کی مانند ہیں۔
ایک اور روایت میں آپ (ع) کا ارشاد ہے:ٍ
غَایَۃُ الدِّیْنِ الْاَمْرُ بِالْمَعْرُوفِ وَ النَّھْیُ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ اِقَامَۃُ الْحُدُودِ ۔ (غرر الحکم ص ۳۳۲)
دین کی غرض و غایت، امر بمعروف اور نہی از منکر اور حدود شریعت کو قائم رکھنا ہے۔
نیز آپ (ع) سے روایت ہے:
قَوَامُ الشَّرِیْعَۃِ اَلْاَمْرُ بِالْمَعْرُوْفِ وَ النَّھْیُ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ اِقَامَۃُ الْحُدُوْدِ ۔ (غرر الحکم ص ۳۳۲)
شریعت کی بنیاد امر بمعروف و نہی از منکر اور حدود شریعت کو قائم رکھنا ہے۔
مومن میدان عمل میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرتا ہے، جو معاشرے کی اصلاح کا ذریعہ ہے۔
4۔اخلاص و نیت کی پاکیزگی:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں: «إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ»
"اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔”
عمل کا دارومدار نیت پر ہے — یہی ایمان کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ مومن میدان عمل میں اخلاص رکھتا ہے۔
5۔خود احتسابی:
امام کاظم علیہ السلام فرماتے ہیں: «لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ يُحَاسِبْ نَفْسَهُ كُلَّ يَوْمٍ»
"جو روز اپنا محاسبہ نہ کرے وہ ہمارے راستے پر نہیں۔” (الکافی، ج ۲، ص ۴۵۳)۔
مومن میدان عمل میں روزانہ اپنے اعمال کا جائزہ لیتا ہے تاکہ غلطیوں سے بچے۔
میدان عمل میں مومن کی اجتماعی خصوصیات
میدان عمل میں مومن کی اجتماعی خصوصیات بھی اہم ہیں۔
1۔وقت کی قدر — عمل کی رفتار:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وَالْعَصْرِ ،إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ (سورۃ العصر، آیات ۱-۲)۔
"زمانے کی قسم! بے شک انسان خسارے میں ہے۔”
اللہ نے زمانے اور وقت کی قسم کھائی ہے جس سے وقت کی قدر و اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے، مومن وقت ضائع نہیں کرتا بلکہ اپنی ذمہ داری بطریق احسن پوری کرتا ہے۔
2۔ کام میں مہارت اور پروفیشنلزم:
روایت میں ہے «رَحِمَ اللّٰهُ عَبْدًا عَمِلَ عَمَلًا فَأَحْكَمَهُ»
"اللہ اس بندے پر رحم کرے جو اپنے کام کو اعلیٰ طریقے سے انجام دیتا ہے۔” (مستدرک الوسائل، ج ۱۳، ص ۹۵)۔ بددیانتی، کام چوری اور لاپروائی مومن کی شان نہیں۔
3۔ معاشی پاکیزگی اور حلال روزی:
مومن کے عمل کی بنیاد حلال رزق ہے۔ حرام لقمہ عمل کو برباد کرتا ہے،
4۔ خدمت خلق — سماجی کردار:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں: «خَيْرُ النَّاسِ أَنْفَعُهُمْ لِلنَّاسِ»
"لوگوں میں بہتر وہ ہے جو لوگوں کے لیے سب سے زیادہ نفع بخش ہو۔” (الکافی، ج ۲، ص ۱۶۴)۔
مومن میدان عمل میں دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کرتا ہے۔
خلاصہ یہ کہ مومن صرف نمازی نہیں — وہ صادق، امانت دار، احسان کرنے والا، نرم دل اور مضبوط قدم رکھنے والا ہوتا ہے۔ مومن کی پہچان اس کے کردار سے ہے، نہ کہ لباس، شکل یا دعوؤں سے۔ معاشرتی تبدیلی عمل سے آتی ہے، دعوؤں سے نہیں۔

اللّٰهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وآلِ مُحَمَّدٍ وعَجِّلْ فَرَجَهُمْ
٭٭٭٭٭

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button