سلائیڈرمحافلمناقب امیر المومنین عمناقب و فضائل

امام علی علیہ السلام کی اعلمیت پر اصحاب کی گواہی

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آ لہ وسلم کے اصحاب اور دیگر افراد نے حضرت علی علیہ السلام کے علم و دانش کی اعلمیت، افضلیت پر گواہی دی ہے یہاں پر ہم کچھ اصحاب کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
۱۔ عمر بن خطاب کی گواہی
بخاری نے اپنی صحیح میں سورہ بقرہ کی تفسیر میں اپنی سند کے ساتھ ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ عمر نے کہا: ”اقرؤنا ابی و اقضانا علی
(صحیح بخاری، ج ۶، ص ۱۸۷،مطبع بولاق)
قرائت میں اُبی دوسروں سے افضل اور قضاوت میں علی سب سے افضل ہیں۔
۲۔ عبداللہ بن مسعود کی گواہی
وہ کہتا ہے: ان القرآن انزل علی سبعة احرف، ما منھا حرف الا لہ ظھر و بطن، و ان علی بن ابی طالب عندہ علم الظاہر و الباطن
(حلیة الاولیاء، ج۱، ص ۶۵)
بیشک قرآن سات حرفوں پر نازل ہوا اور ان ساتوں حرفوں میں سے ہر ایک کیلئے ایک ظاہر ہے اور ایک باطن ہے اور حضرت علی علیہ السلام کے پاس ظاہر و باطن کا علم ہے۔
نیز آپ سے نقل ہوا ہے : ان اقضی اھل المدینة بالفرائض علی بن ابی طالب
(الغدیر، ج۳، ص ۹۱)
بیشک علی بن ابی طالب قضاوت میں تمام اہل مدینہ سے افضل ہیں۔
۳۔ ابن عباس کی گواہی
ابن عباس سے نقل ہوا ہے : واللّٰہ لقد اعطی علی بن ابی طالب تسعة اعشار العلم و ایم اللّٰہ لقد شارککم فی العشر العاشر
(الاستیعاب، ج۳، ص۴۰)
خدا کی قسم علی علیہ السلام کو علم کے نو حصہ دئیے گئے ہیں اور خدا کی قسم یقینا علی تمہارے ساتھ دسویں حصہ میں بھی شریک ہیں۔
۴۔ عائشہ کی گواہی
عائشہ سے نقل ہوا ہے : اما انہ اعلم الناس بالسنة
(الاستیعاب، ج۳، ص ۳۹)
آگاہ ہوجاؤ کہ علی سنت کو سب سے زیادہ جانتے ہیں۔
۵۔ خزیمہ بن ثابت کی گواہی
اسود بن یزید نخعی کہتا ہے: جب منبر رسول خدا صلی اللہ علیہ و آ لہ وسلم پر حضرت علی علیہ السلام کی بیعت ہوئی تو خزیمہ بن ثابت منبر کے پاس کھڑے ہو کر کہہ رہا تھا:
اذا نحن بایعنا علیا فسبنا ابوحسن مما نخاف من الفتن
وجدناہ اولی الناس بالناس انہ اطب قریش بالکتاب والسنن
(مستدرک حاکم، ج۳، ص ۱۱۴)
اب جبکہ ہم نے علی کی بیعت کرلی ہے تو ابوالحسن ہمیں اب ان فتنوں سے نجات دلادیں گے جن سے ہم پریشان ہیں۔
ہم نے ان کو اپنے سے زیادہ افضل پایا اور یقینا آپ قریش سے زیادہ قرآن وسنت کے عالم ہیں۔
۶۔ عبداللہ بن عیاش بن ابی ربیعہ کی گواہی
ابن عبدالبر نے اس سے نقل کیا ہے کہ اس نے اپنے بیٹے سے کہا: ان علیا علیہ السلام کان لہ ما شئت من ضرس قاطع فی العلم، و کان لہ البسطة فی العشیرة والقدم فی الاسلام، والصھر لرسول اللّٰہ، والفقہ فی السنة، والنجدة فی الحرب، والجود فی الماعون
(الاستیعاب، ج۲، ص ۴۶۳)
بیشک حضرت علی علیہ السلام راسخ فی العلم ہیں اور اپنے قبیلہ میں وہ بہت سخی ہیں، اور راہ اسلام میں ثابت قدم ہیں، رسول اسلام (صلی اللہ علیہ و آ لہ وسلم )کے داماد ہیں، سنت سے آگاہ ہیں، جنگ میں بہادر ہیں اور زکات میں بہت زیادہ بخشنے والے ہیں۔
۷۔ معاویہ کی گواہی
ابن عبدالبر لکھتا ہے : معاویہ سے جو سوال کیا جاتا تھا اس کو معاویہ لکھتاتھا تاکہ علی بن ابی طالب سے سوال کرے۔ اور جب اس کو آپ کی شہادت کی خبر ملی تو اس نے کہا: ذھب الفقہ والعلم بموت ابن ابی طالب۔
(الاستیعاب، ج۲، ص ۴۶۳)
ابی طالب کے بیٹے کی شہادت سے علم او رفقہ بھی دنیا سے اٹھ گیا۔
۸۔ عبداللہ بن عباس کی گواہی
حاکم نیشاپوری اپنی سند کے ساتھ عبداللہ بن عباس سے نقل کرتا ہے : کنا نتحدث ان اقضی اھل المدینة علی بن ابی طالب
(مستدرک حاکم، ج۳، ص ۱۳۵)
ہم اس طرح کہتے تھے کہ قضاوت میں علی بن ابی طالب سے زیادہ افضل کوئی نہیں ہے۔
۹۔ امام علی علیہ السلام کی گواہی
حاکم نیشاپوری اسی طرح ابوالطفیل کی سند سے نقل کرتا ہے کہ اس نے کہا: امیر المومنین علی بن ابی طالب (رضی اللہ عنہ) کو منبر کے اوپر یہ فرماتے ہوئے سنا: سلونی قبل ان لا تسئلونی، ولن تسالونی بعدی مثلی
(مستدرک حاکم، ج۲، ص۴۶۶)
مجھ سے سوال کرلو اس سے قبل کے مجھ سے سوال نہ کرسکو اور کبھی بھی میرے بعد مجھ جیسے سے سوال نہیں کرسکو گے۔ اسی وقت ابن کوا کھڑا ہوا اور کہا: یا امیر المومنین ! (الذاریات ذروا) کیا ہے؟ حضرت نے فرمایا: ہوائیں۔ اس نے کہا: (الحاملات وقرا) کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: بادل۔ اس نے کہا: (الجاریات یسرا) کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: کشتیاں۔ اس نے کہا: (المقسمات امرا) کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ملائکہ۔ اس نے کہا: جن لوگوں نے خدا کی نعمت کو کفر میں تبدیل کیا ہے اور اپنی قوم کو بدبختی اور جہنم کی طرف لے گئے ہیں وہ کون ہیں؟ آپ نے فرمایا: منافقین قریش
(مستدرک حاکم، ج۲، ص ۴۶۶)
حضرت علی علیہ السلام سے نقل ہوا ہے کہ آپ نے فرمایا: واللّٰہ ما نزلت آیة الا وقد علمت فیم انزلت و این انزلت، ان ربی وھب لی قلبا عقولا و لسانا سئوولا
(حلیة الاولیاء، ج۱، ص ۶۷)
خدا کی قسم کوئی ایسی آیت نازل نہیں ہوئی جس کو میں نہ جانتا ہوں کہ وہ کس موضوع سے متعلق نازل ہوئی اور کہاں نازل ہوئی ہے، بیشک میرے پروردگار نے مجھے درک کرنے والا قلب اور سوال کرنے والی زبان عطا کی ہے۔
۱۰۔ امام حسن علیہ السلام کی گواہی
ابونعیم اصفہانی نے اپنی سند کے ساتھ ہبیرہ بن مریم سے نقل کیا ہے: حسن بن علی علیہ السلام، حضرت علی علیہ السلام کی شہادت کے بعد کھڑے ہوئے اور لوگوں کے سامنے خطبہ دیا اورخطبہ کے ضمن میں فرمایا: لقد فارقکم رجل بالامس لم یسبقہ الاولون و لا یدرکہ الآخرون بعلم
(حلیة الاولیاء، ج۱، ص ۶۵)
یقینا کل تمہارے درمیان سے وہ شخص اٹھا ہے کہ اس سے پہلے والوں نے ان سے سبقت نہیں لی اور آنے والے بھی علم میں ان کو درک نہیں کرسکیں گے ۔
(امام شناسی و پاسخ بہ شبہات (۲)، ص ۳۷۰)

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button