امام علیؑ جانشین پیغمبرؐ
امام علیؑ جانشین پیغمبرؐ
ہجرت کا دسواں سال تھا اور حج کا موسم اور حجاز کا میدان ایک کثیر اجتماع پر گواہ تھا ،رسول کی امت ایک نعرہ کے ساتھ اپنے مقصد کی جانب رواں دواں تھی ،اس سال حج کے موقع پر کچھ اور ہی شوق و اشتیاق تھا ،مسلمان جلدی جلدی منزلوں کو طے کرتے ہوئے خود کو مکہ اور بیت اللہ پہونچا رہے تھے ، لبیک اللھم لبیک کی صدائیں مکہ کے صحراوں سے بھی سنائی دے رہی تھیں،یکے بعد دوسرا قافلہ شھر سے نزدیک ہورہا تھا ،تمام حاجی ایک طرح کا لباس احرام پہنے ہوئے میں اٹے ہوئے انسو بہاتے ہوئے خود کو پروردگار کے حرم امن و امان میں پہونچا رہے تھے ،اور اس گھر کا جس کو توحید کے علمبردار جناب ابراھیم علیہ السلام نے اپنے مقدس ہاتھوں سے تعمیر کیا تھا طواف کر رہے تھے ۔فرید وجدی نے سن دس ھجری کے حاجیوں کی تعداد ۹۰ ھزار بتائی ہے لیکن بعض مورخین کے وسیلہ یہ تعداد ایک لاکھ چوبیس ھزار تک بیان کی گئی ہے ۔
پیغمبر اسلام دیکھ رہے تھے کہ مسجد الحرام حاجیوں سے چھلک رہی ہے اور سب انما الاخوہ کی تصویر بنے ہوئے فرشتوں کی کی طرح عبادت اور دعاوں میں مشغول ہیں ، لیکن کبھی کبھی غم و اندوہ کی ایک لہر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کے رخ اقدس پر نمودار ہوتی اور خوشی و انبساط کو کم کردیتی ۔
انہیں خوف ہے کہ ان کے انتقال کے بعد یہ اجتماع کہیں پراکندہ نہ ہوجائے اخوت و اتحاد کی روح انتشار و افراق کا شکار نہ ہوجائے اور لوگ پھر اپنی پچھلی حالت اور دور جاہلیت کی جانب نہ پلیٹ جائیں ۔پیغمبرؐ اسلام خوب جانتے تھے کہ ملت اسلامیہ ایک معصوم اور عالم رہبر کی محتاج ہے ورنہ ان کی تمام زحمتیں اور اتنے دنوں کی طاقت فرسا کوششیں سب بیکار ہوجائیں گی ۔
اس بناء پر پیغمبر اسلام جب سفر پر لے جاتے یا جنگ کے لئے مدینہ سے باہر تشریف لے جاتے اگر چہ کتنے ہی مختصر دنوں کے لئے جاتے ہوں مگر ان چند دنوں کے لئے کسی نہ کسی کو ذمہ دار اور امانتدار بنا کر جاتے اور مدینہ والوں کو ازاد و بے سرپرست نہیں چھوڑتے ۔(1)
اس بناء پر کیونکر یہ تصور کیا جاسکتا ہے کہ مہربان اور دردمند پیغمبر نے اپنے بعد امت کی رھبری کو حوادث کے حوالہ کردیا ، جبکہ پیغمبر اسلام کو یہ بھی معلوم ہے کہ اس مقام اور منزلت کے لائق کون ہے اور قبائے خلافت کس کی قامت پر صحیح اترتی ہے وہ وہی ہے جس قریش کے سربراوردہ افراد اور پیغمبر اسلام کے رشتہ دار اسلام کی دعوت کی خاطر ایک جگہ جمع ہوئے تھے تو اس انحضرت نے اپنی خلافت اور جانشینی کے لئے مںصوب کیا تھا ۔ (2)
پیغمبرؐ نے اپنی بعثت کی ابتداء ہی میں اپنا جانشین مقرر کر دیا تھا اور جوں جوں اپ کا اخری وقت قریب اتا رہا اپ اپنی غیر موجودگی میں مدینہ میں کہ جو اس زمانہ کا دار الحکومت تھا کسی نہ کسی اپنے مورد اعتماد کو اپنا نائب مقرر کر کے جاتے جو حضرتؐ غیر موجودگی میں تمام امور کی دیکھ بھال کرتا ۔
اور ہم اپنی گذشتہ تحریر کی جانب پلٹتے ہیں کہ دعوت ذوالعشیرہ میں جب تین دن تک کوئی بھی نبیؐ کی حمایت میں نہ اٹھا اور فقط و فقط علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی ذات گرامی ہی اٹھتی رہی تو نبیؐ نے اپنی وصایت اور خلافت انہیں سونپ دی ۔ (3) کیوں کہ علی علیہ السلام کی وہ ذات گرامی ، وہ پاک و پاکیزہ اور خدا کا دلداہ ہے جس نے چشم زدن کے لئے بھی شرک اختیار نہیں کیا اور کبھی بت کو سجدہ نہ کیا ، علی ابن ابی طالب علیہ السلام اس ذات کا نام ہے کہ جس نے اسلام کی ترقی میں پر طرح کی قربانی پیش کی ، ہر میدان جنگ میں سب سے اگے رہے ، علیؑ کی ذات وہ ذات ہے جس کا عِلم رسول خدا کا سرچشمہ عِلم سےعبارت ہے ، علی علیہ السلام کی ذات وہ ذات ہے جس کا فیصلہ عالی ترین قضاوت شمار کیا جاتا ہے ۔ (4)
علی علیہ السلام کی ذات گرامی وہ ذات گرامی ہے جسے لوگ خوب جانتے اور پہچانتے ہیں ، لوگوں نے بارہا و بارہا دیکھا ہے کہ انہوں نے اسلام کی بقا اور حفاظت میں کس قدر جانفشانیاں کی ہیں ۔
حج کا فریضۃ آخر کو پہنچا ، لوگ اپنے اپنے شھروں کی سمت عازم سفر ہوئے کہ ناگاہ پیغمبر اسلام کے منادی کی اواز صحرائے حجاز میں گونجی ،مسلمانوں ٹھرجاو ، مسلمانوں کو ٹھرنے کا حکم دیا گیا تھا کیوں کہ وحی کا فرشتہ رسول خدا کے لئے یہ ایت لیکر نازل ہوا تھا ” يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ " اے رسول ! پہنچا دیجئے جو کچھ بھی اپ پر خدا کی جانب سے نازل کیا گیا کہ اگر اپ نے ایسا نہ کیا تو گویا کار رسالت انجام ہی نہیں دیا ہے اور خدا اپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا ۔ (5)
جس لب و لہجہ میں خدا نے اپنے پیغمبرؐ کو مخاطب قرار دیا تھا وہ صرف علی علیہ السلام کی خلافت کا سرکاری اعلان ہی تھا ،جس کے بارے میں پیغمبر اسلام کو یہ اندیشہ تھا کہ کہیں مسلمانوں کے درمیان انتشار و اختلاف کی آگ شعلہ ور نہ ہوجائے ، لہذا پیغمبر اسلام ایک مناسب وقت کا انتظار کر رہے تھے ، ایت نے نازل ہوکر اس مناسب وقت کا تعیین فرمایا لہذا تمام لوگوں کو بے اب و گیاہ اور تپتے صحرا میں روکا گیا جس کا نام غدیر خم تھا ، تاکہ اسلام کی روح خلافت اور جانشینی کے مسئلہ کو با قائدہ طو سے واضح اور اعلان کردیا جائے ۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حکم خدا سے غدیر کے میدان میں امام علی ابن طالب علیہ السلام کی خلاف اور وصایت کا اعلان فرمایا ، سچ تو یہ ہے کہ منافقوں کو اس بات کی خبر بھی نہ تھی کہ پیغمبرؐ خدا کے اس اچانک حکم کا منشاء کیا ہے ، کونسی اہم بات پیش اگئی ، تھوڑی دیر گزری نہ تھی کہ نماز جماعت کا اعلان ہوا ، نماز کے بعد مجمع ٹھاٹھیں مار رہا تھا ، پیغمبر ؐاسلام کا اسمانی اور جاذب نظر چہرہ منبر کی بلندیوں پر ظاھر ہوا جس کو اونٹ کے پالانوں سے تیار کیا گیا تھا ۔ ہر طرف گہری خاموشی چھائی ہوئی تھی کہ پیغمبرؐ اسلام کے حکمت امیز اور پر معنی کلمات نے چھائے ہوئے سکوت کو توڑا ، خداوند متعال کی حمد و ثنا کے بعد اپ نے اپنے جلد گزر جانے کی غمناک خبر سنائی اور اس کے بعد فرمایا ، اے لوگو ! میں تمھارے لئے کیسا پیغمبرؐ تھا ؟ سب نے بیک اواز میں کہا ،اے رسول خدا ! اپ نے ہماری نصیحت میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ، ہر طرح سے ہمیں موعظہ کیا اور ہماری تربیت کی ، خدا اپ کو بہترین اجر عطا فرمائے ۔اس کے بعدرسولؐ اسلام نے فرمایا ” إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمُ اَلثَّقَلَيْنِ مَا إِنْ تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدِي كِتَابَ اَللَّهِ وَ عِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي وَ إِنَّهُمَا لَنْ يَفْتَرِقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ اَلْحَوْضَ " (6) میرے بعد خدا کی کتاب اور معصوم رہنما دوش بدوش تمھارے رہبر ہیں تم ان کی مکمل پیروی کرنا ورنہ گمراہ ہوجاو گے ۔ اور پھر ان سب سے ان کے نفسوں پر اپنی اولیت کا اقرار لیا ” الست اولی بکم من انفسکم ، قالو بلی " پھر امام علی علیہ السلام کے دست مبارک کو تھاما اور بلند کیا اور اتنا بلند کیا کہ سب لوگ دیکھ لیں ، پھر ارشاد فرمایا ” من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ " میں جس کا مولا ہوں اس کے یہ علی مولا ہیں ۔ راوی نقل کرتا ہے کہ حضرت نے اس جملہ کو تین مرتبہ دھرایا کہ ” مومنین پر لازم ہے کہ یہ بات دوسروں تک پہنچا دیں ” ۔ اور ابھی مجمع منتشر نہ ہوا کہ خدا نے اس ایت کو نازل کرکے ” اَلْیوْمَ أَکمَلْتُ لَکمْ دینَکمْ وَ أَتْمَمْتُ عَلَیکُمْ نِعْمَتی وَ رَضیتُ لَکُمُ الْإِسْلامَ دیناً " دین کے کامل ہونے کی مھر لگا دی ۔(7)
امام علی علیہ السلام کی خلافت و وصایت کے سرکاری اعلان کے بعد لوگ ایک دوسرے پر سبقت حاصل کر رہے تھے اور بڑھ بڑھ کر حضرت علی علیہ السلام کو پیغمبر کا جانشین اور وصی ہونے کی مبارک باد پیش کر رہے تھے ۔ اتنے بڑے مجمع میں سب سے پہلے جس نے مبارک باد پیش کی وہ ابوبکر تھے ، ان کے بعد عمر ابن خطاب ائے اور انہوں نے یہ کہتے ہوئے امام علی ؑکو مبارک بیش کی کہ اے ابوطالب کے فرزند اپ کو مبارک ہو اپ ہمارے اور ہر مومن مرد و عورت کے مولا ہوگئے ۔(8)
حوالہ:
1: تاریخ ابن اثیر، ص ۲۴۲، ۲۷۸، ۲۱۶ ۔
2: تاریخ طبری ، ج ۳ ، ص ۱۱۷۳ و ۱۱۷۱
3: تاریخ طبری ، ج ۳ ، ص ۱۱۷۳ و ۱۱۷۱ ۔
4: فضائل الخمسہ ، ج ۱ ، ص ۱۸۶ و ۱۸۷ ۔
5: قران کریم ، سورہ مائدہ ، ایت ۶۷ ۔
6: إرشاد القلوب , جلد۱ , صفحه۱۳۱
7: قران کریم ، سوره مائده ، آیت ۳ ۔
8: الغدیر ، ج ۱، ص ۹ سے ۱۱ تک ۔
https://ur.btid.org/node/6982