انبیاء ومرسلین کی ضرورت
عَنْ هِشَامِ بْنِ اَلْحَكَمِ عَنْ أَبِي عَبْدِ اَللَّهِ عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ : أَنَّهُ قَالَ لِلزِّنْدِيقِ اَلَّذِي سَأَلَهُ مِنْ أَيْنَ أَثْبَتَّ اَلْأَنْبِيَاءَ وَ اَلرُّسُلَ قَالَ إِنَّا لَمَّا أَثْبَتْنَا أَنَّ لَنَا خَالِقاً صَانِعاً مُتَعَالِياً عَنَّا وَ عَنْ جَمِيعِ مَا خَلَقَ وَ كَانَ ذَلِكَ اَلصَّانِعُ حَكِيماً مُتَعَالِياً لَمْ يَجُزْ أَنْ يُشَاهِدَهُ خَلْقُهُ وَ لاَ يُلاَمِسُوهُ فَيُبَاشِرَهُمْ وَ يُبَاشِرُوهُ وَ يُحَاجَّهُمْ وَ يُحَاجُّوهُ ثَبَتَ أَنَّ لَهُ سُفَرَاءَ فِي خَلْقِهِ يُعَبِّرُونَ عَنْهُ إِلَى خَلْقِهِ وَ عِبَادِهِ وَ يَدُلُّونَهُمْ عَلَى مَصَالِحِهِمْ وَ مَنَافِعِهِمْ وَ مَا بِهِ بَقَاؤُهُمْ وَ فِي تَرْكِهِ فَنَاؤُهُمْ فَثَبَتَ اَلْآمِرُونَ وَ اَلنَّاهُونَ عَنِ اَلْحَكِيمِ اَلْعَلِيمِ فِي خَلْقِهِ وَ اَلْمُعَبِّرُونَ عَنْهُ جَلَّ وَ عَزَّ وَ هُمُ اَلْأَنْبِيَاءُ عَلَيْهِمُ اَلسَّلاَمُ وَ صَفْوَتُهُ مِنْ خَلْقِهِ حُكَمَاءَ مُؤَدَّبِينَ بِالْحِكْمَةِ مَبْعُوثِينَ بِهَا غَيْرَ مُشَارِكِينَ لِلنَّاسِ عَلَى مُشَارَكَتِهِمْ لَهُمْ فِي اَلْخَلْقِ وَ اَلتَّرْكِيبِ فِي شَيْءٍ مِنْ أَحْوَالِهِمْ مُؤَيَّدِينَ مِنْ عِنْدِ اَلْحَكِيمِ اَلْعَلِيمِ بِالْحِكْمَةِ ثُمَّ ثَبَتَ ذَلِكَ فِي كُلِّ دَهْرٍ وَ زَمَانٍ مِمَّا أَتَتْ بِهِ اَلرُّسُلُ وَ اَلْأَنْبِيَاءُ مِنَ اَلدَّلاَئِلِ وَ اَلْبَرَاهِينِ لِكَيْلاَ تَخْلُوَ أَرْضُ اَللَّهِ مِنْ حُجَّةٍ يَكُونُ مَعَهُ عِلْمٌ يَدُلُّ عَلَى صِدْقِ مَقَالَتِهِ وَ جَوَازِ عَدَالَتِهِ .
جناب ہشام بن حکم بیان کرتے ہیں کہ حضرت امام ابوعبد اللّٰہ ؑ سے ایک زندیق نے سوال کیا کہ آپ انبیاءو مرسلین کے آنے کا ثبوت کیا ہے؟فرمایا کہ جب ہم پر یہ ثابت ہوگیا ہے کہ ہمارا ایک خالق ہے جو صانع عالم ہے اور ہم سے او تمام مخلوق سے بلند وبرتر ہے اور یہ صانع حکیم سب پر غالب ہے اور یہ بھی جان لیا کہ مخلوق میں سے کوئی اس کو دیکھ نہیں سکتا۔اور نہ اس کو چھو سکتا ہے اور نہ وہ مخلوق سے ملتا ہےاور نہ مخلوق اس سے ملتی جلتی ہے تو ثابت ہوگیا کہ اس کے کچھ پیغامبر اس کے بندوں کی طرف آئے تاکہ وہ اس کی باتیں بتائیں اور اس کے مصالح اور منافع کو سمجھائیں اور ان چیزوں کو بتائیں جن کے بجا لانے میں ان کی بقا ء اور ترک میں ان کی موت ہوں پس ثابت ہوا کہ خدا کی مخلوق کو امرو نہی کرنے والے اور اس کے احکام کو بتانے والے وہی لوگ انبیاء ؑ ہیں اس کے برگزیدہ بندے صاحب حکمت اور ادب آموز ہیں او راست گفتار اور درست کردار ہیں ان کی خصوصیت میں کوئی ان کا شریک نہیں باوجودیکہ از لحاظ خلقت وہ لوگوں کے شریک ہیں اور وہ خدائے حکیم و علیم کی طرف سے مؤید بالحکمہ ہیں۔یہ بھی ثابت ہے کہ زمانے کے ہر حصہ میں انبیاء و مرسلین دلائل و براہین کے ساتھ آتے رہتے ہیں تاکہ زمین کسی وقت حجت خدا سے خالی نہ رہے اور ہر حجت کے ساتھ علم ہوتا ہے جو دلیل ہوتا ہے صاحب عدل و انصاف ہونے کی۔
( الکافي , جلد۱ , صفحه۱۶۸)
انبیاء زمین پرخدا کی حجت ہیں۔
قال الإمامُ عليٌّ عليه السلام : لَم يُخْلِ اللّه ُ سبحانَهُ خَلقَهُ مِن نَبيٍّ مُرسَلٍ ، أو كِتابٍ مُنزَلٍ ، أو حُجَّةٍ لازِمَةٍ ، أو مَحَجَّةٍ قائمةٍ ، رُسُلٌ لا تُقَصِّرُ بهِم قِلّةُ عَدَدِهِم ، و لا كَثرَةُ المُكَذِّبينَ لَهُم ؛ مِن سابِقٍ سُمِّيَ لَهُ مَن بَعدَهُ ، أو غابِرٍ عَرَّفَهُ مَن قَبلَهُ عَلَى ذَلِكَ نَسَلَتِ الْقُرُونُ ومَضَتِ الدُّهُورُ، وسَلَفَتِ الآبَاءُ وخَلَفَتِ الأَبْنَاءُ. .
امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں : "اس نے کبھی اپنی مخلوقات کو بنی مرسل یا کتاب منزل یا حجت لازم یا طریق واضح سے محروم نہیں رکھا ہے۔ ایسے رسول بھیجے ہیں جنہیں نہ عدد کی قلت کام سے روک سکتی تھی اورنہ جھٹلانے والوں کی کثرت۔ان میں جو پہلے تھا اس بعد والے کا حال معلوم تھا اور جو بعد میں آیا اسے پہلے والے نے پہنچوادیا تھا اور یوں ہی صدیاں گزرتی رہیں اور زمانے بیتتے رہے۔آباء و اجداد جاتے رہے اور اولاد و احفاد آتے رہے۔”
[نهج البلاغة : الخطبة 1 .]
عنه عليه السلام : و لَم يُخلِهِم بعدَ أن قَبضَهُ [يَعني آدمَ عليه السلام ]مِمّا يُؤكِّدُ علَيهِم حُجّةَ رُبوبيَّتِهِ ، و يَصِلُ بَينَهُم و بينَ مَعرِفَتِهِ ، بل تَعاهَدَهُم بالحُجَجِ على ألسُنِ الخِيَرَةِ من أنبيائهِ و مُتَحَمِّلي وَدائعِ رِسالاتِهِ قَرْنا فقَرْنا ، حتّى تَمَّت بنَبيِّنا محمّدٍ صلى الله عليه و آله حُجّتُهُ .
امام علی علیہ السلام مزید فرماتے ہیں: پھر ان (آدم ؑ)کو اٹھا لینے کے بعد بھی زمین کو ان چیزوں سے خالی نہیں رکھا جن کے ذریعہ ربوبیت کی دلیلوں کی تاکید کرے اور جنہیں بندوں کی معرفت کا وسیلہ بنائےبلکہ ہمیشہ منتخب انبیاء کرام اور رسالت کے امانت داروں کی زبانوں سے حجت کے پہنچانے کی نگرانی کرتا رہا اور یوں ہی صدیاں گزرتی رہیں یہاں تک کہ ہمارے پیغمبر حضرت محمد (ص) کے ذریعہ اس کی حجت تمام ہوگئی۔
[نهج البلاغة : الخطبة 91 .]
عنه عليه السلام : فَاسْتَوْدَعَهُمْ فِي أَفْضَلِ مُسْتَوْدَعٍ – وأَقَرَّهُمْ فِي خَيْرِ مُسْتَقَرٍّ – تَنَاسَخَتْهُمْ كَرَائِمُ الأَصْلَابِ إِلَى مُطَهَّرَاتِ الأَرْحَامِ۔ كُلّما مَضى مِنهُم سَلَفٌ قامَ مِنهُم بدِينِ اللّه ِ خَلَفٌ ، حتّى أفضَت كرامَةُ اللّه ِ سبحانَهُ و تعالى إلى محمّدٍ صلى الله عليه و آله ۔
مولا مزید فرماتے ہیں : پروردگارنے انہیں بہترین مقامات پر ودیعت رکھااور بہترین منزل میں مستقر کیا۔وہ مسلسل شریف ترین(۱) اصلاب سے پاکیزہ ترین ارحام کی طرف منتقل ہوتےرہے کہ جب کوئی بزرگ گزر گیا تو دین خدا کی ذمہ داری بعد والے نے سنبھال لی۔یہاں تک کہ الٰہی شرف حضرت محمد مصطفی (ص)تک پہنچ گیا۔
.[نهج البلاغة : الخطبة 94 .]
عنہ علیہ السلام : بَعَثَ اللَّهُ رُسُلَهُ بِمَا خَصَّهُمْ بِهِ مِنْ وَحْيِهِ وَ جَعَلَهُمْ حُجَّةً لَهُ عَلَي خَلْقِهِ لِئَلَّا تَجِبَ الْحُجَّةُ لَهُمْ بِتَرْكِ الْإِعْذَارِ إِلَيْهِم.
پروردگار نے مرسلین کرام کو مخصوص وحی سے نواز کر بھیجاہے اور انہیں اپنے بندوں پر اپنی حجت بنادیا ہے تاکہ بندوں کی یہ حجت تمام نہ ہونے پائے کہ ان کے عذر کاخاتمہ نہیں کیا گیا ہے۔
(نهج البلاغه، خطبه 144)
قال علی ابن الحسین علیہ السلام : "يَاهِشَامُ إِنَّ لِلَّهِ عَلَى اَلنَّاسِ حُجَّتَيْنِ حُجَّةً ظَاهِرَةً وَ حُجَّةً بَاطِنَةً فَأَمَّا اَلظَّاهِرَةُ فَالرُّسُلُ وَ اَلْأَنْبِيَاءُ وَ اَلْأَئِمَّةُ عَلَيْهِمُ اَلسَّلاَمُ وَ أَمَّا اَلْبَاطِنَةُ فَالْعُقُو لُ۔
امام زین العابدین علیہ السلام فرماتے ہیں : اے ہشام! اللّٰہ تبارک و تعالیٰ نے لوگوں پر دو حجتیں قائم کیں ہیں۔ایک حجت طاہری اور ایک حجت باطنی۔حجت ظاہری ،رسول،انبیاء اور ائمہ ؑ ہیں جبکہ حجت باطنی ان کی(لوگوں کی) عقلیں ہیں ۔
( الکافي ۔, جلد۱ , ۱۰۳۹۱۳)
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم: "اِنّا معاشِرُ الاَنْبياءِ تَنامُ عُيُوننا وَ لا تَنامُ قُلُوبُنا”
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم :” ہم انبیاء کی آنکھیں تو سوتی ہیں لیکن دل نہیں سوتے۔”
(بحار الانوار، جلد 11، صفحه 55)
قال الامام علی علیہ السلام :” وهُوَ الَّذِي أَسْكَنَ الدُّنْيَا خَلْقَه وبَعَثَ إِلَى الْجِنِّ والإِنْسِ رُسُلَه”
امام علی علیہ السلام سے فرماتے ہیں : ” اسی نے اس دنیا میں اپنی مخلوقات کو آباد کیا ہے اور جن و انس کی طرف اپنے رسول بھیجے ہیں۔”
( الکافي , جلد۲ , صفحه۱۰۴)
عن أَبِي عَبْدِ اَللَّهِ عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ قَالَ: إِنَّ اَللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ لَمْ يَبْعَثْ نَبِيّاً إِلاَّ بِصِدْقِ اَلْحَدِيثِ وَ أَدَاءِ اَلْأَمَانَةِ إِلَى اَلْبَرِّ وَ اَلْفَاجِرِ .
امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں : ” اللّٰہ نے کسی نبی کو نہیں بھیجا مگر یہ کہ جب وہ بولتا ہے تو سچ بولتا ہے اور امانت اسکے مالک کو ادا کرتا ہے چاہے وہ اچھا ہو یا فاجر۔”
( الکافي , جلد۲ , صفحه۱۰۴)
قال الامام علی علیہ السلام : ” فَانْظُرُوا إِلَى مَوَاقِعِ نِعَمِ اللَّه عَلَيْهِمْ – حِينَ بَعَثَ إِلَيْهِمْ رَسُولًا – فَعَقَدَ بِمِلَّتِه طَاعَتَهُمْ وجَمَعَ عَلَى دَعْوَتِه أُلْفَتَهُمْ ”
امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں : ” دیکھو کہ پروردگار نے ان پرکس قدراحسانات کئے جب ان کی طرف ایک رسول بھیج دیا۔جس نے اپنے نظام سے ان کی اطاعت کو پابند بنایا اور اپنی دعوت پر ان کی الفتوں کو متحد کیا۔”
( نهج البلاغه، خطبه 192)
قال الامام علی علیہ السلام : واصْطَفَى سُبْحَانَه مِنْ وَلَدِه أَنْبِيَاءَ، أَخَذَ عَلَى الْوَحْيِ مِيثَاقَهُمْ وعَلَى تَبْلِيغِ الرِّسَالَةِ أَمَانَتَهُمْ”
امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں : ” اس کے بعد اس نے ان کی اولاد میں سے ان انبیاء کا انتخاب کیا جن سے وحی کی حفاظت اور پیغام کی تبلیغ کی امانت کا عہد لیا۔”
(نهج البلاغه، خطبه 1)
انبیاء لوگوں کے ذہنوں کے مطابق بات کرتے ہیں۔
قال رسولُ اللّه ِ صلى الله عليه و آله وسلم : إنّا مَعاشِرَ الأنبياءِ اُمِرنا أن نُكلِّمَ النّاسَ على قَدرِ عُقولِهِم۔”
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں : ہم انبیاء کی جماعت ہیں ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم لوگوں ان کی عقلوں کے مطابق بات کریں۔
[بحار الأنوار : 77/140/19 .]
قال رسولُ اللّه ِ صلى الله عليه و آله وسلم: ” لَمْ يَبْعَثَ اللهُ نَبيّاً الاّ بِلُغةِ قومهِ”
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : ” اللّٰہ نے ہر نبی کو اسکی اپنی قوم کی زبان میں بھیجا۔”
قال رسولُ اللّه ِ صلى الله عليه و آله وسلم : "وَ لا بَعَثَ اللهُ نَبيَاً و لا رَسُولا حتّي يَسْتَكْمِلَ العَقلَ.”
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : ” خدا نے جس نبی کو بھیجا وہ ازروئے عقل کامل تھا۔”
( الکافي جلد 1، صفحه 64)
قال موسی ابن جعفر علیہ السلام ؛” ما بَعَثَ اللهُ نَبيّاً وَ لا وَصيّاً اِلا سَخياً”
امام موسی ابن جعفر علیہ السلام فرماتے ہیں : ” اللّٰہ نے کسی نبی یا وصی کو مبعوث نہیں کیا مگر یہ کہ وہ سخاوت مند تھا۔”
( الكافي، جلد۴ , صفحه۳۹)
قال موسی ابن جعفر علیہ السلام :” يَا هِشَامُ مَا بَعَثَ اَللَّهُ أَنْبِيَاءَهُ وَ رُسُلَهُ إِلَى عِبَادِهِ إِلاَّ لِيَعْقِلُوا عَنِ اَللَّهِ فَأَحْسَنُهُمُ اِسْتِجَابَةً أَحْسَنُهُمْ مَعْرِفَةً وَ أَعْلَمُهُمْ بِأَمْرِ اَللَّهِ أَحْسَنُهُمْ عَقْلاً وَ أَكْمَلُهُمْ عَقْلاً أَرْفَعُهُمْ دَرَجَةً فِي اَلدُّنْيَا وَ اَلْآخِرَةِ۔”
امام موسی ابن جعفر علیہ السلام فرماتے ہیں : ” اے ھشام!خدا بندوں کی طرف اپنے انبیاء و مرسلین کو اس لیے بھیجا ہے کہ وہ عقلمندی کے ساتھ اللّٰہ سے یعنی قرآن سےعلم حاصل کریں اور ازروئےاستجابت اور معرفت امراللّٰہ میں سب سے بہتر ہوں اور عقل میں کامل ہوں اور دنیا و آخرت میں ازروئے درجات بلند ہوں۔
( الکافي، جلد 1، صفحه 64)
انبیاء کے طبقات
قَالَ أَبُو عَبْدِ اَللَّهِ عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ : اَلْأَنْبِيَاءُ وَ اَلْمُرْسَلُونَ عَلَى أَرْبَعِ طَبَقَاتٍ فَنَبِيٌّ مُنَبَّأٌ فِي نَفْسِهِ لاَ يَعْدُو غَيْرَهَا وَ نَبِيٌّ يَرَى فِي اَلنَّوْمِ وَ يَسْمَعُ اَلصَّوْتَ وَ لاَ يُعَايِنُهُ فِي اَلْيَقَظَةِ وَ لَمْ يُبْعَثْ إِلَى أَحَدٍ وَ عَلَيْهِ إِمَامٌ مِثْلُ مَا كَانَ إِبْرَاهِيمُ عَلَى لُوطٍ عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ وَ نَبِيٌّ يَرَى فِي مَنَامِهِ وَ يَسْمَعُ اَلصَّوْتَ وَ يُعَايِنُ اَلْمَلَكَ وَ قَدْ أُرْسِلَ إِلَى طَائِفَةٍ قَلُّوا أَوْ كَثُرُوا كَيُونُسَ قَالَ اَللَّهُ لِيُونُسَ : «وَ أَرْسَلْنٰاهُ إِلىٰ مِائَةِ أَلْفٍ أَوْ يَزِيدُونَ » قَالَ يَزِيدُونَ ثَلاَثِينَ أَلْفاً وَ عَلَيْهِ إِمَامٌ وَ اَلَّذِي يَرَى فِي نَوْمِهِ وَ يَسْمَعُ اَلصَّوْتَ وَ يُعَايِنُ فِي اَلْيَقَظَةِ وَ هُوَ إِمَامٌ مِثْلُ أُولِي اَلْعَزْمِ وَ قَدْ كَانَ إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ نَبِيّاً وَ لَيْسَ بِإِمَامٍ حَتَّى قَالَ اَللَّهُ: «إِنِّي جٰاعِلُكَ لِلنّٰاسِ إِمٰاماً قٰالَ وَ مِنْ ذُرِّيَّتِي » فَقَالَ اَللَّهُ «لاٰ يَنٰالُ عَهْدِي اَلظّٰالِمِينَ » مَنْ عَبَدَ صَنَماً أَوْ وَثَناً لاَ يَكُونُ إِمَاماً .
حضرت ابو عبداللّٰہ ؑ نے فرمایا: انبیاء و مرسلین کےچار طبقات ہیں۔
1۔ ایک نبی وہ ہے جو فقط اپنی ذات کا نبی ہےاس کی نبوت کسی دوسرے تک تجاوز نہیں کرتی۔
2۔ وہ نبی ہے جو خواب میں فرشتے کو دیکھتاہے اور اس کی آواز کو سنتا ہےلیکن بیداری کی حالت میں وہ فرشتے کو نہیں دیکھتا اور وہ بھی کسی پر مبعوث نہیں ہے لیکن اس کا ایک امام وہادی ہےجو اس سے اعلیٰ وارفع ہو جیسا کہ جناب لوطؑ کہ ان پر جناب ابراہیم ؑ امام تھے۔
3۔ وہ نبی ہے جو خواب میں فرشتے کو دیکھتا ہے اور اس ک آواز سنتا ہےاور فرشتوں سے اس کی ملاقات ہوتی ہے اوروہ دوسروں پر مبعوث ہوگا وہ زیادہ ہوں یا کم۔جیسا کہ جناب یونس ؑ۔
جس کے بارے میں خدا فرماتا ہےکہ ہم نے یونس ؑ کو ایک لاکھ یا اس سے زیادہ افراد کی طرف مبعوث فرمایا۔فرمایا:تیس ہزار سے زیادہ تھے اور ان پر ایک امام تھا۔
4۔ وہ نبی ہے جو فرشتے کو خواب میں دیکھتا ہے اس کی آواز کو بھی سنتا ہے اور بیداری کی حالت میں بھی فرشتے سے ملاقات کرتا ہے یہ اولوالعزم نبی کی مانند ہے جیسا کہ جناب ابراھیم ؑ،آپ نبی تھے یہاں تک خدا نے فرمایا میں آپ کو لوگو ں کا امام بنا رہا ہوں تو آپ نے عرض کی۔کیا یہ امامت میری ذریت میں ہوگی ؟تو خدا نے فرمایا:یہ عہد ظالموں کو نہیں ملے گا پس جوبت پرست ہو وہ امام نہیں بن سکتا۔
( الکافي , جلد۱ , صفحه۱۷۴)
عَنْ زَيْدٍ اَلشَّحَّامِ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اَللَّهِ عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ يَقُولُ: إِنَّ اَللَّهَ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى اِتَّخَذَ إِبْرَاهِيمَ عَبْداً قَبْلَ أَنْ يَتَّخِذَهُ نَبِيّاً وَ إِنَّ اَللَّهَ اِتَّخَذَهُ نَبِيّاً قَبْلَ أَنْ يَتَّخِذَهُ رَسُولاً وَ إِنَّ اَللَّهَ اِتَّخَذَهُ رَسُولاً قَبْلَ أَنْ يَتَّخِذَهُ خَلِيلاً وَ إِنَّ اَللَّهَ اِتَّخَذَهُ خَلِيلاً قَبْلَ أَنْ يَجْعَلَهُ إِمَاماً فَلَمَّا جَمَعَ لَهُ اَلْأَشْيَاءَ قَالَ «إِنِّي جٰاعِلُكَ لِلنّٰاسِ إِمٰاماً» قَالَ فَمِنْ عِظَمِهَا فِي عَيْنِ إِبْرَاهِيمَ قَالَ «وَ مِنْ ذُرِّيَّتِي قٰالَ لاٰ يَنٰالُ عَهْدِي اَلظّٰالِمِينَ» قَالَ لاَ يَكُونُ اَلسَّفِيهُ إِمَامَ اَلتَّقِيِّ "
زید شحام کہتے ہیں میں نے امام صادقؑ کو فرماتے ہوئے سنا کہ: اللّٰہ نے حضرت ابراھیم ؑ کو نبی بنانے سے پہلے اپنا عبد قرار دیا پھر اللّٰہ نے آپ کو نبی بنایاپھر آپ کو رسول قرار دیا۔پھر رسول کے بعد آپ کو اپنا خلیل بنایا پھر خلیل کے بعد آپ کو لوگوں کاامام قرار دیا جب سارے عہدے آپ کے پاس جمع ہوگئے تو اللّٰہ نے فرمایا:”اے ابراھیم میں نے تجھے لوگوں کا امام قرار دیا (چونکہ یہ مرتبہ حضرت ابراھیمؑ کی نظر میں عظیم تھا اس لئے )فرمایا:خدا تو میری ذریت میں بھی امامت کو قرار دے گا!اللّٰہ نے فرمایا :اے ابراھیم ؑ ظالم میرے عہدےکو نہیں پاسکیں گے” امام ؑ نے فرمایا :لہذا بیوقوف،کم عقل شخص متقین کا امام نہیں بن سکتا۔
.( الکافي , جلد۱ , صفحه۱۷۵ )
عَنِ اِبْنِ أَبِي يَعْفُورٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اَللَّهِ عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ يَقُولُ: سَادَةُ اَلنَّبِيِّينَ وَ اَلْمُرْسَلِينَ خَمْسَةٌ وَ هُمْ «أُولُوا اَلْعَزْمِ مِنَ اَلرُّسُلِ» وَ عَلَيْهِمْ دَارَتِ اَلرَّحَى نُوحٌ وَ إِبْرَاهِيمُ وَ مُوسَى وَ عِيسَى وَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ عَلَى جَمِيعِ اَلْأَنْبِيَاءِ .
جناب ابن ابی یعفور بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوعبداللّٰہ ؑ سے سنا کہ انبیاء اور مرسلین کے سردار پانچ ہیں اور رسولوں میں سے اولوالعزم ہیں۔نبوت اور رسالت کی چکی انہیں کے گرد گھومتی ہےیعنی محور ہیں ۔حضرت نوح ؑ،حضرت ابراھیم ؑ ،حضرت عیسیٰ ؑ،اور حضرت محمد ؐ ۔
( الکافي , جلد۱ , صفحه۱۷۵)
نبی،رسول اور امام میں فرق:
عَنْ زُرَارَةَ قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا جَعْفَرٍ عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ عَنْ قَوْلِ اَللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ «وَ كٰانَ رَسُولاً نَبِيًّا» مَا اَلرَّسُولُ وَ مَا اَلنَّبِيُّ قَالَ اَلنَّبِيُّ اَلَّذِي يَرَى فِي مَنَامِهِ وَ يَسْمَعُ اَلصَّوْتَ وَ لاَ يُعَايِنُ اَلْمَلَكَ وَ اَلرَّسُولُ اَلَّذِي يَسْمَعُ اَلصَّوْتَ وَ يَرَى فِي اَلْمَنَامِ وَ يُعَايِنُ اَلْمَلَكَ قُلْتُ اَلْإِمَامُ مَا مَنْزِلَتُهُ قَالَ يَسْمَعُ اَلصَّوْتَ وَ لاَ يَرَى وَ لاَ يُعَايِنُ اَلْمَلَكَ ثُمَّ تَلاَ هَذِهِ اَلْآيَةَ «وَ مٰا أَرْسَلْنٰا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ وَ لاٰ نَبِيٍّ» وَ لاَ مُحَدَّثٍ .
جناب زرارہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوجعفر امام محمد باقر ؑ سے خدا کے اس فرمان کے بارے میں سوال کیا کہ جس میں خدا نے فرمایا:”کان رسولا نبیّا” وہ رسول اور نبی تھے اے فرزند رسول،رسول کون ہے؟اور نبی کون ہے؟آپؑ نے فرمایا:نبی وہ ہے جو فرشتے خواب میں دیکھتا ہےاور اس کی آواز سنتا ہےلیکن بالمشافہ فرشتوں سے ملاقات نہیں کرتا۔رسول وہ ہے جو خواب میں فرشتے کو دیکھتا ہےاور اسکی آواز سنتا ہے اور فرشتو ں کا مشاہدہ بھی کرتا ہے۔میں نے عرض کیا:امام کون ہے؟اور امام کی منزلت کیا ہے؟آپؑ نے فرمایا:وہ آواز کو سنتا ہے لیکن نہ خواب میں دیکھتا ہے اور نہ بالمشافہ فرشتوں کو دیکھتا ہے اور آپؑ نے یہ آیت پڑھی”آپ سے قبل ہم نے کوئی نبی و رسول اور محدث مبعوث نہیں کیا”
( الکافي , جلد۱ , صفحه۱۷۶ )
عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ مَرَّارٍ قَالَ: كَتَبَ اَلْحَسَنُ بْنُ اَلْعَبَّاسِ اَلْمَعْرُوفِيُّ إِلَى اَلرِّضَا عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ : جُعِلْتُ فِدَاكَ أَخْبِرْنِي مَا اَلْفَرْقُ بَيْنَ اَلرَّسُولِ وَ اَلنَّبِيِّ وَ اَلْإِمَامِ قَالَ فَكَتَبَ أَوْ قَالَ اَلْفَرْقُ بَيْنَ اَلرَّسُولِ وَ اَلنَّبِيِّ وَ اَلْإِمَامِ أَنَّ اَلرَّسُولَ اَلَّذِي يُنْزَلُ عَلَيْهِ جَبْرَئِيلُ فَيَرَاهُ وَ يَسْمَعُ كَلاَمَهُ وَ يُنْزَلُ عَلَيْهِ اَلْوَحْيُ وَ رُبَّمَا رَأَى فِي مَنَامِهِ نَحْوَ رُؤْيَا إِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ وَ اَلنَّبِيُّ رُبَّمَا سَمِعَ اَلْكَلاَمَ وَ رُبَّمَا رَأَى اَلشَّخْصَ وَ لَمْ يَسْمَعْ وَ اَلْإِمَامُ هُوَ اَلَّذِي يَسْمَعُ اَلْكَلاَمَ وَ لاَ يَرَى اَلشَّخْصَ۔
جناب اسماعیل بن مرّار نے بیان کیا ہے کہ حسن بن عباس معروفی نے امام رضاؑ کی خدمت میں خط تحریر کیا اور عرض کی۔کہ نبی،رسول اور امام کے درمیان کیا فرق ہے؟تو آپ ؑ نے جواب میں لکھا یا رسول ،نبی اور امام میں فرق بیان فرمایا:کہ رسول وہ ہے جن پر جبرائیلؑ نازل ہوتے ہیں اور ان کو دیکھتے ہیں اور ان کی آواز کو بھی سنتے ہیں اور ان پر وحی نازل ہوتی ہےاور وہ بعض اوقات خواب میں بھی دیکھتے ہیں جیسا کہ حضرت ابراھیم ؑ نے خواب میں دیکھا۔(جبکہ) نبی وہ ہوتا ہے جو بعض اوقات جبرائیل ؑ کی آوازکو سنتا ہے اور بعض اوقات شخص کو دیکھتا ہےلیکن اس کی آوز نہیں سنتا ۔اور امام وہ ہے کو آواز کو تو سنتا ہے لیکن کسی فرشتے کو نہیں دیکھتا۔
( الکافي , جلد۱ , صفحه۱۷۶ )