خطبات جمعہسلائیڈرمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک (شمارہ:232)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک22 دسمبر 2023ء بمطابق 8جمادی الثانی 1445ھ)
تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

جنوری 2019 میں بزرگ علماء کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

 

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
موضوع: فلسفہ احکام از خطبہ فدک
ایمان :
سیدہ کائنات نے ایمان کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے فرمایا:
فَجَعَلَ اللَّـهُ الْایمانَ تَطْهیراً لَكُمْ مِنَ الشِّرْكِ،
اللہ تعالیٰ نے ایمان کو شرک سے پاک ہونے کا وسیلہ قرار دیا ہے۔
اللہ پر ایمان اور عقیدہ توحید کے پختہ ہونے سے قلب و ضمیر کو امن و سکون ملتا ہے۔ ایمان کے بھی درجات ہیں، جن کےبارے امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے:
"الْایمَانُ ھَوَ الْاِقرٰارُ بِالْلِسَانِ وَ عَقْدٌ فِی الْقَلْبِ وَ عَمَلٌ بِالْاَرکَانِ”
ایمان زبان سے اقرار، دل سے تصدیق اور اعضاء و جوارح سے عمل کرنے سے عبارت ہے۔ (اصول الکافی ۲ : ۲۷)
یعنی قلب کا ایمان (تصدیق)، زبان کا ایمان (اقرار) اور اعضائے بدن کا ایمان (عمل) لہٰذا کامل ایمان وہ ہو گا جو ان سب کامجموعہ ہو۔
قرآن میں اللہ تعالیٰ نے شرک کو نجاست قرار دیا ہے جس کی طہارت ایمان سے ہوسکتی ہے۔ قرآن پاک میں اللہ فرماتا ہے: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّمَا الۡمُشۡرِکُوۡنَ نَجَسٌ۔۔۔۔۔اے ایمان والو! مشرکین تو بلاشبہ ناپاک ہیں۔۔۔
نماز:
"الصَّلاةَ تَنْزیهاً لَكُمْ عَنِ الْكِبْر”، "اللہ نے نماز واجب کی تاکہ تکبر سے روکا جائے۔”
جو انسان تکبر و خودبینی کا راستہ اختیار کرتا ہے وہ بے یار و مددگار رہ جاتا ہے۔ لوگ اس سے نفرت کرنے لگ جاتے ہیں۔ نتیجتا وہ نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہوجاتا ہے اس لئے تکبر سے بچنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے نماز کے ذریعے انسان کو جھکنا سکھادیا ہے تاکہ انسان میں عاجزی اور انکساری جیسی صفات حمیدہ پیدا ہوجائیں۔ سیدہ کائنات سلام اللہ علیہا نے اس نورانی خطبہ میں اسی چیز کی طرف رہنمائی فرمائی ہے۔ نماز دین کا ستون اور معراج مومن ہے جو کسی حالت میں بھی نہیں چھوڑی جا سکتی۔ نماز تکبر کو ختم کر دیتی ہے۔ دوسری جانب متکبر اللہ کے ناپسندیدہ بندے ہوتے ہیں: اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الۡمُسۡتَکۡبِرِیۡنَ۔ وہ تکبر کرنے والوں کو یقینا پسند نہیں کرتا۔ اسی طرح قرآن پاک میں متکبرین کے لئے برے ٹھکانے کی وعید سنائی گئی ہے : فَلَبِئۡسَ مَثۡوَی الۡمُتَکَبِّرِیۡنَ۔ تکبر کرنے والوں کا ٹھکانا نہایت برا ہے۔
زکوٰۃ:
زکوٰۃ اسلام کے مالی واجبات میں سے ایک ہے۔ اس کی فرضیت کا اظہار قرآن پاک کے متعدد مقامات پر ہوا ہے۔ جس طرح زکوٰۃ معاشرے کے ضرورت مند طبقے کی ضروریات پوری کرنے کا موجب ہے اسی طرح خود زکوۃ دینے والے کیلئے بھی نفع بخش ہے اسی نکتہ کی طرف جناب سیدہ کائنات سلام اللہ علیہا نے اپنے نورانی خطبے میں رہنمائی فرمائی ہے: وَ الزَّكاةَ تَزْكِیةً لِلنَّفْسِ وَ نِماءً فِی الرِّزْقِ : زکوۃ کو وسعت رزق اور تہذیب نفس کے لئے واجب قرار دیا۔ ایسا نہیں ہے کہ زکوٰۃ صرف غرباء کی ضروریات کو پوری کرنے کیلئے ایک اسلامی نظام ہے بلکہ یہ صاحب زکوۃ کے رزق میں اضافہ اور اس کی باطنی پاکیزگی کا بھی موجب بنتی ہے۔
اس کی اہمیت کا اندازہ یہاں سے ہوتا ہے کہ قرآن پاک میں متعدد مقامات پر جہاں نماز کا ذکر ہوا ہے وہاں زکوٰۃ کا بھی ذکر ہوا ہے۔ زکوٰۃ کی ادائیگی کا حکم قرآن پاک میں اس طرح ہوتا ہے: وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ اور زکوٰۃ دیا کرو۔
روزہ:
سیدہ کائنات سلام اللہ علیہا نے اسی نکتہ کی طرف رہنمائی فرمائی ہے: وَ الصِّیامَ تَثْبیتاً لِلْاِخْلاصِ،۔ روزے کو بندے کے اخلاص کے اثبات کےلئے واجب کیا۔ ماہ رمضان کا واجب روزہ ارکان دین میں سے ہے۔ قرآن پاک میں ایک مقام پر ارشاد ربانی ہوتا ہے: یاایھاالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ"۔ "اے ایمان والو! تم پر روزے کا حکم لکھ دیا گیا ہے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر لکھ دیا گیا تھا تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔” روزہ انسان کو بھوک و پیاس کا احساس دلاتا ہے جس سے روزہ کا مطلب ہے کہ انسان اپنی خواہشات نفسانیہ پر کنٹرول کرے اور ساتھ دن بھر بھوک و پیاس برداشت کرے تاکہ خوشنودی خدا حاصل ہو۔ دن بھر جب وہ بھوک پیاس سے گزارتا ہے تو جذبہ اخلاص بھی ابھرتا ہے۔
حج:
سیدہ کائنات سلام اللہ علیہا نے حج کا فلسفہ یہ بیان فرمایا ہے کہ یہ تثبیت دین کیلئے فرض کیا گیا: یعنی مجموعی طور پر دنیا کے کونے کونے سے مسلمانوں کا یہ روح پرور اجتماع دین کی قوت کا اظہار ہے۔
سیدہ نے فرمایا:وَ الْحَجَّ تَشْییداً لِلدّینِ حج کو واجب کرنےسے دین کی بنیاد کواستوار کیا۔حج ارکان دین میں سے ہے۔ حج اسلامی قوت کا ایک مظاہرہ ہے۔ہر مسلمان پر جو استطاعت رکھتا ہو زندگی میں ایک مرتبہ حج کرنا واجب ہے۔
عدل:
سیدہ کائنات سلام اللہ علیہا نے عدل کو نظام کی برقراری اور دلوں کے جڑنے کا ذریعہ قرار دیا ہے: وَ الْعَدْلَ تَنْسیقاً لِلْقُلُوبِ "عدالت کو زندگی کے نظم اور دلوں کی نزدیکی کے لئے ضروری قرار دیا۔”عدالت پر نظام الہی کا دار و مدار ہے۔ قرآن کریم میں اسے تقوی سے قریب ترین قرار دیا گیا ہے چنانچہ حکم خداوندی ہوتا ہے: "اِعۡدِلُوۡا ہُوَ اَقۡرَبُ لِلتَّقۡوٰی” عدل کرو! یہی تقویٰ کے قریب ترین ہے ۔
اطاعت اہل بیت علیھم السلام:
سیدہ کائنات سلام اللہ علیہا نے اطاعت اہل بیت علیھم السلام کو نظم اسلامی کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے: وَ طاعَتَنا نِظاماً لِلْمِلَّةِ "اہلبیتؑ کی اطاعت کو ملت اسلامی کے نظم کے لئے واجب قرار دیا۔” رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے بعد جن کی اطاعت کا حکم دیا تھا چونکہ ان کی اطاعت ہی ریعے دنیا وآخرت کی کامیابیاں ممکن تھیں لیکن بعد از پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگ اطاعت اہل بیتؑ سے منحرف ہوگئے جس کے نتیجے میں سعادت کی بجائے بدبختیاں مسلمانوں کے گلے پڑ گئیں اور آج تک امت مسلمہ اس نافرمانی کا نتیجہ بھگت رہی ہے۔
قرآن پاک میں اطاعت اہل بیتؑ کو اطاعت رسول کی مانند قرار دیا ہے: ارشاد الہی ہے:
 یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ وَ اُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡکُمۡ
اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اور تم میں سے جو صاحبان امر ہیں ان کی اطاعت کرو۔
امامت:
سیدہ کائنات سلام اللہ علیہا نے امامت کو امت کے تفرقہ سے بچنے کا ذریعہ بتایا ہے:
وَ اِمامَتَنا اَماناً لِلْفُرْقَةِ "اور ( اللہ تعالیٰ نے) ہماری امامت کے ذریعے اختلاف و افتراق کا سد باب کیا۔”
نبی اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے بعد حضرت علی علیہ السلام اور ان کے گیارہ فرزندوں کو جو حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی نسل سے تھے، ان کی امامت اور اقتداء کو امت پر ضروری قرار دیا تھا یعنی انہیں اپنا جانشین بنایا تھا لیکن بعد از رحلت نبیؐ لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تجہیز و تکفین کو چھوڑ کر اپنی طرف سے خلافت کی بنیاد رکھنے میں مصروف ہوگئے۔ اس طرح امامت کا سلسلہ جو اصل میں دین اسلام کا حصہ تھا اسے خلافت و ملوکیت میں تبدیل کرکے دین اسلام کے قواعد میں سے اساسی قاعدہ کو توڑدیا۔ جس کی وجہ سے امت کا شیرازہ بکھر گیا، ملت اسلامیہ تفرقہ کا شکار ہوگئی اور اب تک امت تفرقے کی راہ پر چل رہی ہے۔اگر اہل بیتؑ کی امامت پر سب متفق ہوجاتے تو دنیا میں الہی حکومت نافذ ہوجاتی، عدل وانصاف کا دور دورہ ہوجاتا، سرکشوں کے سر کچلے جاتے، مظلوموں او ربے سہاروں کی داد رسی کی جاتی اور لوگ آپس میں پیار ومحبت سے رہ رہے ہوتے۔
جہاد:
سیدہ کائنات سلام اللہ علیھا نے جہاد کو اسلام کی سربلندی اور عزت کا ذریعہ قرار دیا ہے:
وَ الْجِهادَ عِزّاً لِلْاِسْلامِ "اور جہاد اسلام کے لئے عزت ہے۔”
جہاد کو بنیادی طور پر دو قسموں میں تقسیم کیا جاسکتا تھا (الف) ابتدائی (ب) دفاعی
اسلام کی اکثر جنگیں قسم دوئم سے تعلق رکھتی ہیں جس میں اسلام اور اہل اسلام کو دشمن کے شر سے بچانے کے لیے جہاد کیا جاتا رہا۔اور اسی میں اسلام اور مسلمانوں کی عزت تھی۔

صبر:
سیدہ کائنات سلام اللہ علیہا نے بھی صبر کا فلسفہ یہی بتایا ہے کہ اللہ نے اس کو اجرو ثواب کے حصول کی خاطر فرض کیا ہے: وَ الصَّبْرَ مَعُونَةً عَلَی اسْتیجابِ الْاَجْرِ  "اور صبر کو اجر حاصل کرنے کے لیے مددگار قرار دیا۔”
صبر عاجزی اور بے بسی نہیں بلکہ مشکلات اور شدائد کا مقابلہ کرنے کی ایک معنوی اور روحانی طاقت کا نام ہے۔ اسی لئے اس پر انسان کو اجر ملتا ہے۔ اسلام روزے اور دوسرے احکام کے ذریعے صبر کی تربیت دیتا ہے۔
امر بالمعروف:
سیدہ کائنات سلام اللہ علیہا نے امربالمعروف کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے فرمایا:
الْاَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ مَصْلِحَةً لِلْعامَّةِ  "امر بالمعروف کو عمومی مصلحت کے ماتحت واجب قرار دیا۔ ”
معاشرے میں انسانی و اخلاقی اقدار کو زندہ رکھنا اور ان اقدار کا دفاع کرنا، ضمیر کو زندہ رکھنا اور اس میں احساس و شعور بیدار رکھنا، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے۔ ایک صحت مند معاشرے کی تشکیل اور اسلامی معاشرے کو مختلف آلودگیوں سے پاک اور صاف رکھنے کے لیے امر بالمعروف اور نہی از منکر ایک فلٹر ہے، جس سے یہ صحت مند معاشرہ ہمیشہ پاک اور صاف رہتا ہے۔
اطاعت والدین:
سیدہ کائنات سلام اللہ علیہا نے والدین کے ساتھ اچھے برتاوکا یہ فلسفہ بتایا ہے کہ: والدین کے ساتھ نیکی خداوند متعال کے غضب کو روک دیتی ہے۔ فرمایا : وَ بِرَّ الْوالِدَینِ وِقایةً مِنَ السَّخَطِ "ماں باپ کے ساتھ نیکی کوخدا کے غضب سے مانع قرار دیا ۔”
قابل توجہ بات یہ ہے کہ اللہ نے قرآن میں والدین کے ساتھ نیکی اور احسان کو اپنی عبادت کے ساتھ ایک پیرائے میں بیان فرمایا ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: وَ قَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّاۤ اِیَّاہُ وَ بِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا۔
اور آپ کے رب نے فیصلہ کر دیا ہے کہ "تم اس کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو اور والدین کے ساتھ نیکی کرو۔” جبکہ ان کی نافرمانی سے روکتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے: فَلَا تَقُلۡ لَّہُمَاۤ اُفٍّ: انہیں اف تک نہ کہنا۔
صلہ رحمی:
صلہ رحمی کا فلسفہ بتاتے ہوئے آپ فرماتی ہیں کہ: "صِلَةَ الْاَرْحامِ مَنْساءً فِی الْعُمْرِ وَ مَنْماةً لِلْعَدَدِ”
اجل کے موخر ہونے اور نسل میں اضافے کے لئے صلہ رحمی کا دستور دیا. "صلہ رحمی سے انسان کی عمر بڑھتی ہے جبکہ قطع رحمی عمر کے گھٹنے کا سبب بنتی ہے۔ دوسرا فلسفہ یہ ہے کہ صلہ رحمی نسل انسانی میں اضافے کا بھی سبب بنتی ہے۔
امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام بھی صلہ رحمی کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے یہی دونوں چیزیں ذکر فرماتے ہیں: نہج البلاغہ خطبہ 108 میں آیا ہے کہ: وَ صِلَةُ الرَّحِمِ فَاِنَّهَا مَثْرَاَةٌ فِی الْمَالِ وَ مَنْسَاَةٌ فِی الْاَجَلِ: عزیزوں سے حسن سلوک کرنا کہ وہ مال کی فراوانی اور عمر کی درازی کا سبب ہے۔ یہیں سے ہمیں علم ہوتا ہے کہ یہ مقدس ہستیاں اپنے اقوال و افعال اور فکر میں ایک دوسرے سے کتنا قریب ہیں۔ اور ان کے کلام و فکر میں کتنی یکسانیت ہے۔ پس یہی چیز ان کے نمائندہ الہی ہونے کی دلیل بھی ہے۔
قصاص:
سیدہ کائنات سلام اللہ علیہا نے قصاص کا فسلفہ بیان کرتے ہوئے فرمایا:
وَ الْقِصاصَ حِقْناً لِلدِّماءِ: قتل نفس کو روکنے کے لئے قصاص کو واجب قرار دیا۔ قصاص اسلام کی حدود کا حصہ ہے۔ یعنی تعزیرات اسلام میں سے ایک تعزیر قصاص ہے۔ دوسرے الفاظ میں قصاص اسلام کی جزاء و سزاء کے قانون کا حصہ ہے۔ اس کے فلسفہ کو سیدہ کائنات سلام اللہ علیہا نے بیان فرمایا ہے کہ یہ انسان پر اس لئے فرض کیا گیا ہے تاکہ خونریزی کی روک تھام ہو۔ یہ بھلا کیسے ہوگا؟ اس سوال کے جواب کیلئے ہمیں قرآن کی طرف رجوع کرنا ہوگا قرآن کہتاہے: "وَ لَکُمۡ فِی الۡقِصَاصِ حَیٰوۃٌ یّٰۤاُولِی الۡاَلۡبَابِ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ۔” اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے شیخ محسن علی نجفی دام ظلہ العالی فرماتے ہیں کہ:
"جب آدمی کو یقین ہو گا کہ اگرقتل کیا تو اس کے بدلے میں اپنی جان بھی دینی پڑے گی تو وہ قتل کو عمل انجام دینے سے گریز کرے گا۔ بنابریں قانون قصاص قتل کی روک تھام کا نہایت مؤثر ذریعہ ہے۔”
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اگر قصاص کا قانون نہ ہوتا تو مقتول کے ورثاء اپنے قتل کا انتقام خود لیتے اور ایک کے بدلے کئی افراد کو مارتے اور جواباً ان کے بھی کئی افراد قتل ہو جاتے اور اس طرح بہت سی جانیں ضائع ہوتیں۔ چنانچہ اسلامی تعزیرات نافذ نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے قبائل میں آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔

نذر کا پورا کرنا:
” سیدہ کائنات سلام اللہ علیہا نے اس کا فلسفہ یہ بتایا ہے کہ اس کا پورا کرنا انسان کے گناہوں کی مغفرت کا سبب بنتا ہے: "وَ الْوَفاءَ بِالنَّذْرِ تَعْریضاً لِلْمَغْفِرَةِ”: نذر کے پورا کرنے کو گناہوں کی مغفرت کا سبب بنایا۔
نذر لغت میں ” منت ماننے” کو کہتے ہیں، فقہی اصطلاح میں یہ ہے کہ: انسان اپنے اوپر یہ واجب کرلے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے کوئی اچھا کام کرے گا یا کوئی کام (جس کا نہ کرنا بہتر ہو) ترک کردے گا۔ ۔
پس اگر کوئی بندہ اللہ سے کوئی اچھا عہد کرکے اپنے اس عہد اور نذر یا منت کو پورا کرے تو یہ عمل اس کے گناہوں کی مغفرت کا سبب بنے گا۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ سیدہ کائنات کے بیان کردہ ان احکام کا فلسفہ سمجھنے اور صحیح معنوں میں ان پر عمل پیرا ہو کر سچا اور حقیقی مومن بننے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

تمت بالخیر
٭٭٭٭٭

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button