سلائیڈرمحافلمناقب امیر المومنین عمناقب و فضائل

آیہ نجویٰ ، امام علی علیہ السلام کی انفرادی فضلیت

یٰۤاَیُّہَا الَّذِینَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نَاجَیتُمُ الرَّسُولَ فَقَدِّمُوا بَینَ یَدَی نَجوٰىکُمۡ صَدَقَۃً ؕ ذٰلِکَ خَیرٌ لَّکُم وَ اَطہَرُ ؕ فَاِن لَّم تَجِدُوا فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیمٌ
ءَاَشفَقتُم اَن تُقَدِّمُوا بَینَ یَدَی نَجوٰىکُمۡ صَدَقٰتٍ ؕ فَاِذ لَم تَفعَلُوا وَ تَابَ اللّٰہُ عَلَیکُم فَاَقِیمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَ اَطِیعُوا اللّٰہَ وَ رَسُولَہٗ ؕ وَ اللّٰہُ خَبِیرٌۢ بِمَا تَعمَلُونَ
المجادلہ :12،13
اے ایمان والو! جب تم رسولﷺ سے سرگوشی کرنا چاہو تو اپنی سرگوشی سے پہلے کچھ صدقہ دے دیا کرو، یہ بات تمہارے لیے بہتر اور زیادہ پاکیزہ ہے، ہاں اگر صدقہ دینے کے لیے کچھ نہ پاؤ تو اللہ یقینا بڑا بخشنے والا، مہربان ہے۔
کیا تم اپنی سرگوشیوں سے پہلے صدقہ دینے سے ڈر گئے ہو؟ اب جب تم نے ایسا نہیں کیا اور اللہ نے تمہیں معاف کر دیا تو تم نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دیا کرو اور اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کیا کرو اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے خوب آگاہ ہے۔
بنا بر روایت قتادہ ، کچھ لوگ (شاید امیر لوگ) بلاوجہ صرف اپنی بڑائی دکھانے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے خلوت میں بات کرنا چاہتے تھے۔ اس آیت کے ذریعے یہ حکم آیا کہ جو آپ سے خلوت میں بات کرنا چاہتا ہے وہ پہلے صدقہ دے۔ اس حکم کی وجہ سے وہ ریاکارانہ سلسلہ بند ہو گیا۔
صرف حضرت علی علیہ السلام نے اس آیت پر عمل کیا اور صدقہ دے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مسئلہ پوچھا۔
خود حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ علیہ السلام نے ایک دینار دس درہم میں فروخت کیا اور ایک ایک درہم صدقہ دے کر دس بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے خلوت میں بات کی اور دس مسائل پوچھے۔
واضح رہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو جہاں یہ حکم تھا پوری امت کو اسلام کی تبلیغ کریں وہاں یہ حکم بھی تھا کہ خصوصی طور پر حضرت علی علیہ السلام کو تعلیم و تربیت دیں۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم وقتاً فوقتاً حضرت علی علیہ السلام سے سرگوشی فرماتے تھے جس پر دوسرے حاسدین جلتے تھے۔ چنانچہ جابر بن عبد اللہ انصاری کی روایت ہے: غزوۂ طائف میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ ایک دن طویل سرگوشی فرمائی۔ اس پر لوگوں نے کہا:
آپ کی علی کے ساتھ طویل سرگوشی رہی؟
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
ما انا انتجیتہ ولکن اللّٰہ انتجاہ
( مناقب منازلی، تاریخ دمشق ۲: ۳۷۔ شواہد التنزیل ۲: ۳۲۵)
میں نے یہ سرگوشی اپنی طرف سے نہیں کی لیکن اللہ کے حکم سے کی ہے۔
یہ روایت ابو الزبیر نے جابر سے روایت کی ہے ابن عساکر کہتے ہیں: ـ رواہ عن ابی الزبیر جماعۃ۔ اس حدیث کو ابن زبیر سے ایک جماعت نے روایت کیا ہے۔
دوسری روایات میں آیا ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حضرت علی علیہ السلام سے خلوت میں گفتگو کرتے تھے تو اصحاب کہتے تھے: ما اکثر ما یناجیہ کس قدر باہم سرگوشی کرتے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ما انا انتجیتہ ولکن اللّٰہ انتجاہ یہ سرگوشی میں نے اپنی طرف سے نہیں کی لیکن اللہ کے حکم سے کی ہے۔
تیسری روایت میں آیا ہے کہ طویل سرگوشی کی تو ـ فرای الکراھیۃ فی وجوہ رجال۔ کچھ لوگوں کے چہروں پر کراہت نمایاں ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
ما انا انتجیتہ ولکن اللّٰہ انتجاہ
میں نے اپنی طرف سے یہ سرگوشی نہیں کی لیکن اللہ کے حکم سے کی ہے۔
مجمع کبیر میں آیا ہے کہ حضرت ابوبکر نے کہا تھا: لقد طالت مناجاتک الیوم علیا آج آپ کی علی کے ساتھ خلوت میں لمبی گفتگو ہوئی؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مذکورہ حدیث بیان فرمائی۔ شواہد التنزیل ۲:۳۲۷ میں ہے کہ گلہ کرنے والے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر دونوں تھے۔
حق تو یہ ہے کہ حدیث نجوی پر ایک مستقل کتاب لکھی جائے اور اس بات کی پوری وضاحت ہو جائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر علی علیہ السلام کو خصوصی تعلیم دینا واجب تھا۔ چنانچہ ایک روایت میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام سے مخاطب ہو کر فرمایا:
ان اللّہ عز ذکرہ امرنی ان ادنیک فلا اقصیک و اعلمک فلا اجفوک۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ تجھے قریب کروں میں تجھے دور نہیں کروں گا اور تجھے تعلیم دوں تجھ سے جفا نہیں کروں گا۔
پھر فرمایا:
وحقا علیک ان تعی و حقا علی ان اطیع ربی تبارک تعالیٰ
( الخصال ۲: ۳۶۲)
تیری ذمہ داری ہے کہ حفظ کرے اور میری ذمہ داری ہے کہ اپنے رب تبارک و تعالیٰ کی اطاعت کروں۔
عبد اللہ بن عمر کا قول مشہور ہے:
علی (علیہ السلام) کے تین ایسے فضائل ہیں ان میں سے ایک بھی مجھے حاصل ہوتا تو بڑی دولت سے میرے لیے بہتر تھا: حضرت فاطمۃ الزہراء (سلام اللہ علیہا) کے ساتھ تزویج، خیبر کے دن علم دیا جانا اور آیہ نجوی۔
( الکشاف ۴: ۴۹۴)
خود مولائے متقیان کا یہ فرمان بھی مشہور ہے:
ایہ فی کتاب اللّٰہ لم یعمل بھا احد قبلی ولا یعمل بھا احد بعدی
( مستدرک الحاکم )
قرآن میں ایک ایسی آیت ہے جس پر میرے سوا کسی نے نہ عمل کیا ہے نہ آئندہ کرے گا۔
سچ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے: علی مع القرآن و القرآن مع علی
( کشف الغمہ ۱: ۱۴۸)
اگر قرآن میں ایک بھی آیت ایسی ہوتی جس پر علی علیہ السلام نے عمل نہ کیا ہوتا تو مکمل قرآن علی علیہ السلام کی معیت میں ثابت نہ ہوتا۔ لہٰذا نہ قرآن کی تعلیمات، نہ قرآن کی تفسیر و بیان، نہ قرآن کے علوم و عرفان علی علیہ السلام سے جدا ہیں، نہ علی علیہ السلام ان تمام امور سے جدا ہیں۔
۱۔ ءَاَشۡفَقۡتُمۡ: کیا تم اپنی سرگوشیوں سے پہلے صدقہ دینے میں فقر و تنگدستی سے ڈر گئے۔ یہ سوچ کر کہ آج کے بعد ہمیشہ سرگوشی کے لیے صدقہ دیتے رہنا پڑے گا۔
۲۔ فَاِذۡ لَمۡ تَفۡعَلُوۡا: یہ دوسری سرزنش ہے کہ جب تم نے حکم خدا کے باوجود ایسا نہ کیا جو ایک قسم کی بے اعتنائی اور قابل سرزنش گناہ ہے۔
۳۔ وَ تَابَ اللّٰہُ عَلَیۡکُمۡ: اس قابل سرزنش گناہ کو اللہ نے معاف کر دیا اور معافی کی یہ صورت ہوئی کہ آیندہ کے لیے اس حکم کو منسوخ کر دیا۔
اگر صدقہ ترک کر دینا قابل سرزنش گناہ نہ ہوتا تو اس پر عمل کرنا قابل قدر فضیلت نہ ہوتی۔ پھر اللہ نے فرمایا تھا اس صدقے کے دینے میں ذٰلِکَ خَیرٌ لَّکُم وَ اَطہَرُ تمہارے لیے بہتر اور پاکیزہ تر ہے۔ اس تاکید کے باوجود صدقہ نہ دینا بے اعتنائی ہے۔ چنانچہ روح المعانی میں لکھا ہے:
و فیہ علی ما قیل اشعار بان اشفاقہم ذنب تجاوز اللّٰہ تعالیٰ عنہ
بنابر قول اس میں اس بات کا اشارہ ہے کہ لوگوں کا یہ ڈر گناہ تھا۔ اللہ نے معاف کر دیا۔
۴۔ فَاَقِیمُوا الصَّلٰوۃَ : آئندہ نماز و زکوۃ کی پابندی کے ساتھ کے ساتھ،
۵۔ وَ اَطِیعُوا اللّٰہَ وَ رَسُولَہ: اللہ اور رسول کی طرف سے صادر ہونے والے احکام کی اطاعت کرو اور پھر بے اعتنائی نہ کرو۔
الکوثر فی تفسیر القران ،ج9، ص 85 تا 87

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button