رمضان المبارکسلائیڈرمقالہ جات و اقتباسات

عید سعید فطر کے بارے میں چند اہم مطالب (حصہ دوم)

عید فطر کی با ‌فضیلت نماز:
یہ بہت با فضیلت نماز ہے۔ اس نماز میں دعا، التجا، گریہ و زاری اور خدا کی جانب توجہ ہے۔ عید فطر کی نماز بڑی اچھی نماز ہے۔ تمام عبادتیں اس لیے ہیں کہ ہماری تربیت ہو اور ہم آگے بڑھیں۔لغت کی کتاب المنجد میں العید کے معنی میں لکھا ہے کہ: ہر وہ دن جس میں کسی دوسرے آدمی یا کسی بڑے واقعہ کی یاد منائی جائے اسے عید کہتے ہیں۔مزید یہ کہ عید کو عید اسی لیے کہتے ہیں کہ وہ ہر سال لوٹ کر آتی ہے نیز ہر وہ دن جس میں کوئی شادمانی حاصل ہو، اس پر عید کا لفظ بولا جاتا ہے۔ یہ دن شرعی طور پر خوشی کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔عید کے تہوار کا آغاز ہجرت کے بعد ہوا، یعنی رسول خدا ﷺ کی مبارک حیات کے زمانے سے ہی ہو گیا تھا۔
مدینہ منورہ کے لوگ جن دو دنوں میں دور جاہلیت میں کھیلتے کودتے تھےوہ دن نیروز اور مہرجان کے دن تھے اور انہیں ناموں سے منائے جاتے تھے۔عید الفطر اور عید الاضحی میں ﷲ تبارک و تعالیٰ کی عبادت کرتے ہوئے خوشی منائی جاتی ہے اور نیروز اور مہرجان میں کھیل کود ہی مقصود ہوتا تھا۔ خیال رہے کہ اب بھی کفار اپنے بڑے بڑے دنوں میں جوا کھیلتے ہیں، شراب پیتے ہیں۔ انسانیت سوز اور بے حیائی کے کام کرتے ہیں اور خوشیاں مناتے ہیں۔ اسلام کا ہر کام انسانیت بلکہ روحانیت کا داعی ہے۔ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ:
کان النبی یخرج یوم الفطر والاضحی الی المصلی فاول شیٔ یبدا بہ الصلاۃ، ثم ینصرف فیقوب مقابل الناس، والناس جلوس علی صفوفہم فیعظہم ویوصیہم ویامرہم فان کان یرید ان یقطع بعثا قطعہ او یامر بشیٔ امربہ ثم ینصرف
نبی کریم عید الفطر اور عید الاضحی کے دن عید گاہ تشریف لے جاتے تو عید کے دن پہلا کام جو کرتے وہ عید کی نماز ہوتی۔ پھر نماز ادا فرمانے کے بعد لوگوں کے سامنے جلوہ افروز ہوتے کھڑے ہو جاتے، لوگ صفیں باندھے بیٹھے رہتے اور دیدار پاک سے فیض یاب ہوتے نبی کریم انہیں وعظ و نصیحت فرماتے اور اچھی باتوں کا حکم فرماتے۔ پھر اگر کوئی لشکر (فوج) بھیجنا چاہتے تو اس کو الگ کرتے یا اور کوئی حکم جو چاہتے وہ ارشاد فرماتے۔ پھر اپنے گھر واپس لوٹ آتے تھے۔
(بخاری جلد 1ص 131،مسلم جلد 1،ص 290،ابو داود جلد 1ص 169)
عید کے دن راستہ بدل کر جانے اور آنے کی حکمت یہ ہے کہ دونوں راستے نمازی کے گواہ بن جاتے ہیں اور دونوں راستوں میں رہنے والے جن اور انسان گواہی دیتے ہیں اور اس میں اسلام کے شعار کا اظہار بھی ہے۔
کان النبی اذا کان یوم عید خالف الطریق
نبی اکرم ﷺ عید کے روز نماز عید کے بعد راستہ تبدیل کرتے تھے۔
شوال کا پہلا دن عید سعید فطر ہے اور یہ دن عالم اسلام کی مشترک عید ہے ۔ مؤمنین رمضان مبارک کے گزر جانے اور اس مہینے میں عبادت و تقوی پرہیز گاری و تہذیب نفس کے ساتھ گزارنے پر خوشی اور اللہ سے ان نعمات کا شکریہ کرنے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ اچھے روابط قائم کرتے ہوئے عید کی نماز پڑھتے ہیں۔
پیغمبر اسلام ﷺ نے اس دن کی فضیلت کے بارے میں فرمایا:
اذا کان اول یوم من شوال نادی مناد : ایھا المؤمنون اغدو الی جوائزکم، ثم قال : یا جابر ! جوائز اللّٰہ لیست کجوائز ھؤلاء الملوک، ثم قال ھو یوم الجوائز
یعنی جب شوال کا پہلا دن ہوتا ہے ، آسمانی منادی نداء دیتا ہے : اے مؤمنو! اپنے تحفوں کی طرف دوڑ پڑو ، اس کے بعد فرمایا: اے جابر ! خدا کا تحفہ بادشاہوں اور حاکموں کے تحفہ کے مانند نہیں ہے ۔ اس کے بعد فرمايا: شوال کا پہلا دن الہی تحفوں کا دن ہے ۔
امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے عید فطر کے ایک خطبے میں ارشاد فرمایا:
اے لوگو! یہ دن وہ ہے جس میں نیک لوگ اپنا انعام حاصل کرتے ہیں اور برے لوگ ناامید اور مایوس ہوتے ہیں اور اس دن کی قیامت کے دن کے ساتھ کافی شباہت ہے اس لیے گھر سے نکلتے وقت اس دن کو یاد جس دن قبروں سے نکال کر خدا کی کی بارگاہ میں حاضر کیے جاؤ، نماز میں کھڑے ہونے کے وقت خدا کے سامنے کھڑے ہونے کو یاد کرو اور اپنے گھروں میں واپس آنے میں اس وقت کو یاد کرو جس وقت بہشت میں اپنی منزلوں کی طرف لوٹو گے۔ اے خدا کے بندو ! سب سے کم چیز جو روزہ دار مردوں اور خواتین کو رمضان المبارک کےآخری دن عطا کی جاتی ہے وہ یہ فرشتے کی بشارت ہے جو صدا دیتا ہے:
اے بندہ خدا مبارک ہو ! جان لے تمہارے پچھلے سارے گناہ معاف ہو گئے ہیں اب اگلے دن کے بارے میں ہوشیار رہنا کہ کیسے گذارو گے۔
بزرگ عارف ربانی ملکی تبریزی نے عید کے دن کے بارے میں فرمایا ہے :عید فطر ایسا دن ہے کہ جس کو اللہ نے دوسرے دنوں پر منتخب کیا ہے اور اس دن کو اپنے بندوں کو تحفے دینے کے لیے انتخاب کیا ہے ، تاکہ اس دن حاضر ہو کر امید رکھتے ہوئے آئے اپنی خطاؤں کی معافی مانگے ، اپنی حاجات طلب کرے اور اپنی آرزو بیان کرے ، اور خداند عالم نے بھی وعدہ کیا ہے کہ جو مانگو گے وہ عطا کروں گا۔ اور توقع سے زیادہ دوں گا، اور خداوند عالم اس کے حق میں اس قدر مہربانی ، بخشش اور نوازش کرے گا جس کا اسے تصور بھی نہیں ہو گا ۔
شوال کے پہلے دن کو اس لیے عید فطر کہتے ہیں کہ اس دن کھانے پینے کی محدودیت ختم ہونے کا اعلان ہو جاتا ہے کہ مؤمنین دن میں افطار کریں فطر اور فطور کا معنی کھانے پینے کا ہے، کھانے پینے کی آغاز کرنے کو بھی کہا گیا ہے ۔ کسی وقت تک کھانے پینے سے دوری کرنے کے بعد جب کھانا پینا شروع کیا جائے تو اسے افطار کہتے ہیں اور اسی لیے رمضان المبارک میں دن تمام ہونے اور مغرب شرعی ہونے پر روزہ کھولنے کو افطار کہا جاتا ہے یعنی کھانے پینے کی اجازت حاصل ہو جاتی ہے ۔
عید فطر کے لیے اعمال اور عبادات مخصوص بیان ہوئے ہیں جن کو انجام دینے کی معصومینؑ نے بہت تاکید فرمائی ہے۔معصومین کے اقوال سے معلوم ہوتا ہے کہ عید فطر اپنے اعمال اور عبادات کا انعام حاصل کرنے کا دن ہے اس لیے مستحب ہے کہ اس دن بہت زیادہ دعا کی جائے ، خدا کی یاد میں رہا جائے ، لاپرواہی نہ کی جائے اور دنیا اور آخرت کی نیکی طلب کی جائے۔
عید کی نماز کے قنوت میں پڑھتے ہیں:
بار الہا ! اس دن کے واسطے کہ جسے مسلمانوں کے لیے عید اور محمد صلی اللہ علیہ والہ کے لیے شرافت ، کرامت اور فضیلت کا ذخیرہ قرار دیا ہے ۔ تجھ سے سوال کرتا ہوں محمد و آل محمد پر درود بھیج اور مجھے اس خیر میں شامل فرما جس میں محمد و آل محمد کو شامل فرمایا ہے اور مجھے ہر بدی سے نکال دے جن سے محمد و آل محمد کو نکالا ۔ ان پر آپ کا درود و سلام ہو، خدایا تجھ سے وہی کچھ مانگتا ہوں جو تیرے نیک بندے تجھ سے مانگتے ہیں ، اور تجھ سے ان چیزوں سے پنا ہ مانگتا ہوں کہ جن سے تیرے مخلص بندے مانگتے تھے ۔
عید الفطر: تاریخی پس منظر، عظمت اور فلسفہ:
مسلمانوں کا آپس میں مل بیٹھنا، نفرتوں ، عصبیتوں اور کدورتوں کو مٹانا اور محبتوں کی خوشبوؤں کو قلب و نظر میں بسانا اگر غلامان مصطفیٰ کو عید کے دن میسر ہو جائے، تو یہ معراجِ عید ہوگی۔
روح کی لطافت، قلب کے تزکیہ، بدن و لباس کی طہارت اور مجموعی شخصیت کی نفاست کے ساتھ انتہائی عجز و انکسار اور خشوع و خضوع کے ساتھ تمام مسلمانوں کا اسلامی اتحاد و اخوت کے جذبے سے سرشار ہو کر خداوند کی بارگاہ میں سجدہ بندگی اور نذرانہ شکر بجا لانے کا نام عید ہے۔
سال میں چند ایام جشن، تہوار اور عید کے طور پر دنیا کی تمام اقوام و ملل اور مذاہب میں منائے جاتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ہر قوم، مذہب و ملت کے لوگ اپنے ایامِ عید کو اپنے اپنے عقائد، تصورات، روایات اور ثقافتی اَقدار کے مطابق مناتے ہیں، لیکن اس سے یہ حقیقت ضرور واضح ہوتی ہے کہ تصور ِعید انسانی فطرت کا تقاضا اور انسانیت کی ایک قدر مشترک ہے۔ مسلمان قوم کیونکہ اپنی فطرت، عقائد و نظریات اور ملی اقدار کے لحاظ سے دنیا کی تمام اقوام سے منفرد و ممتاز ہے۔ اس لیے اس کا عید منانے کا انداز بھی سب سے نرالا ہے۔ دیگر اقوام کی عید محافل عیش و نوش و رقص و سرود بپا کرنے، دنیا کی رنگینیوں اور رعنائیوں میں کھو جانے کا نام ہے۔ اس کے برعکس اسلام میں روح کی لطافت، قلب کے تزکیے بدن و لباس کی طہارت اور مجموعی شخصیت کی نفاست کے ساتھ انتہائی عجز و انکسار اور خشوع و خضوع کے ساتھ تمام مسلمانوں کے اسلامی اتحاد و اخوت کے جذبے سے سرشار ہو کر خداوند کی بارگاہ میں سجدہ بندگی اور شکر بجا لانے کا نام عید ہے۔
قرآن مجید میں ذکرِ عید:
قرآن مجید میں سورہ مائدہ میں حضرت عیسٰی علیہ السلام کی ایک دعاء کے حوالے سے عید کا ذکر موجود ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
عیسٰی ابن مریم علیہ السلام نے عرض کیا کہ اے اللہ! ہمارے پروردگار! ہم پر آسمان سے کھانے کا ایک دسترخوان اتار دے (اور اس طرح اس کے اترنے کا دن) ہمارے لیے اور ہمارے اگلوں، پچھلوں کے لیے بطور عید قرار پائے اور تیری طرف سے ایک نشانی ہو اور ہمیں رزق عطا فرما اور تو بہترین رزق عطا فرمانے والا ہے۔
(سورہ مائدہ آیت 114)
امیرالمؤمنین علی علیہ السلام عید فطر کے خطبہ میں مؤمنوں کو بشارت دیتے ہیں کہ تم نے کیا پایا اور کیا کھویا۔
خطب امیر المؤمنین علی بن ابی طالب علیہ السلام یوم الفطر فقال: ایها الناس! ان یومکم هذا یوم یثاب فیه المحسنون و یخسر فیه المبطلون و هو اشبه بیوم قیامکم، فاذکروا بخروجکم من منازلکم الی مصلاکم خروجکم من الاجداث الی ربکم و اذکروا بوقوفکم فی مصلاکم و وقوفکم بین یدی ربکم، و اذکروا برجوعکم الی منازلکم، رجوعکم الی منازلکم فی الجنه عباد اللّٰه! ان ادنی ما للصائمین و الصائمات ان ینادیهم ملک فی آخر یوم من شهر رمضان، ابشروا عباد اللّٰه فقد غفر لکم ما سلف من ذنوبکم فانظروا کیف تکونون فیما تستانفون۔
اے لوگو !یہ ایک ایسا دن ہے کہ جس میں نیک لوگ اپنی جزاء پائیں گے اور برے لوگوں کو سوائے مایوسی اور نامیدی کے کچھ حاصل نہیں ہوگا اور یہ دن قیامت کے دن سے مشباہت رکھتا ہے، گھر سے نکل کر جب عیدگاہ کی طرف آؤ تو اس وقت کو یاد کرو جب قبروں سے نکل کر خدا کی طرف جارہے ہو گے اور جب نماز عید کے لیے کھڑے ہو تو اس وقت کو یاد کرو کہ جب خدا کے سامنے ٹہرے ہوگے اور نماز کے بعد جب اپنے گھروں کی طرف جاؤ تو اس وقت کو یاد کرو کہ جب تم اپنی منزل کی طرف جارہے ہو گے اور یاد رکھو اس وقت تمہاری منزل بہشت ہونی چاہیے ، اے لوگو سب سے کم جو چیز روزہ دار مردوں اور عورتوں کو دی جائے گی وہ یہ کہ ایک فرشتہ ماہ مبارک رمضان کے آخری روزے کو نداء دے گا اور کہے گا :اے بندگان خدا تمہیں بشارت دیتا ہوں کہ تمہارے پچھلے گناہ معاف ہوگئے ہیں پس آگے کی فکر کرو کہ کیسے باقی زندگی گذارو۔
(محمدی ری شهری، میزان الحکمه، 7/131 – 132)
ایک بزرگ عارف، عید سعید فطر کے بارے میں کہتے ہیں کہ عید فطر ایک ایسا دن ہے کہ خداوند متعال نے اس دن کو باقی دنوں پر فضیلت دی ہے اور اس دن بخشش کو ایک بہترین ہدیہ قرار دیا ہے اور اس دن اپنے قریب آنے کا موقع قرار دیا ہے تاکہ ہم اسے امید کی نظر سے دیکھیں اور اپنی خطاؤں کا اقرار کریں اور اس دن اسکی بخشش حتمی ہے اور اس دن وہ ہر انسان کی بات سنتا ہے۔
(میرزا جواد آقا ملکی تبریزی، المراقبات فی اعمال السنه)
البتہ یہ بات بتانا بھی ضروری ہے کہ پہلی شوال کو عید کا دن کیوں کہا گیا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس دن انسان سے روزے کی پابندی اٹھ جاتی ہے یعنی روزے سے کھانے پینے کا اتصال، فطر اور افطار ایک ہی مادہ سے ہیں افطار کرنا یعنی کھول دینا اور فطر بھی اسی طرح ہے۔
صحیفہ سجادیہ میں ہے کہ امام سجاد علیہ السلام نے عید سعید فطر کا کیسے استقبال کیا:
اللّٰهم صل علی محمد و آله و اجبر مصیبتنا بشهرنا و بارک لنا فی یوم عیدنا و فطرنا و اجعله من خیر یوم مر علینا، اجلبه لعفو و امحاه لذنب و اغفرلنا ما خفی من ذنوبنا و ما علن … اللّٰهم انا نتوب الیک فی یوم فطرنا الذی جعلته للمؤمنین عیدا و سرورا و لاهل ملتک مجمعا و محتشدا، من کل ذنب اذنبناه او سوء اسلفناه او خاطر شرا اضمرناه توبة من لا ینطوی علی رجوع الی
اے معبود! محمد و آل محمد پر درود بھیج اور ہماری مصیبتوں کو اپنے اس مہینے کے صدقے ہم سے دور فرما اور اس دن کو ہمارے لیے عید قرار دے گزرے ہوئے دنوں میں سے اس دن کو ہمارے لیے بہترین دن قرار دے اور اس دن کو ہمارے لیے بخشش کا دن قرار دے اور ہمارے مخفی اور آشکار گناہوں کو معاف فرما۔
خدایا! عید فطر کے دن کو کہ ہم مؤمنوں کو لیے خوشی اور مسلمانوں کے لیے اجتماع قرار دیا ہے ہم سے جو گناہ ہوئے ہیں یا جن بدکاریوں کے مرتکب ہوئے ہیں جو بھی نیت ہمارے دلوں میں ہے ہم تمہاری طرف لوٹ آئے ہیں ،خدایا !اس عید کو سب مؤمنوں کے لیے باعث رحمت قرار دے اور ہمیں یہ توفیق عطا فرما کہ توبہ کریں اور تیری طرف پلٹ آئیں۔
(صحیفہ سجادیہ)
نماز عید فطر کے قنوت کی تعلیمات:
عید فطر، مسلمانوں اور اہل ایمان کی عالمی عید ہے۔ پیغمبر خدا ﷺ اور آئمہؑ نے خدا کے الہام کے ذریعہ کچھ اوقات کو عید قرار دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ دن کیوں عید ہے اور کس نے پہلی شوال کو عید قرار دیا، اس کا فلسفہ کیا ہے؟ ان سوالوں کے جوابات کا بہترین ماخذ، اہلبیت علیہم السلام کی احادیث ہیں۔
نماز عید فطر کا اہم حصہ ، دعائے قنوت ہے۔ یہ دعا 9 مرتبہ اس نماز میں پڑھی جاتی ہے، یقینا اس دعا میں ہمارے لیے کچھ اہم تعلیمات ہیں جو بارگاہ خداوندی سے ہمارے لیے اس دن کا بہترین تحفہ ہے اور رہنمائی ہے اس عظیم دن کی تفسیر کی طرف۔ہم اس مضمون میں اس دعا کی کچھ تعلیمات کو اختصار کے ساتھ، فہرست وار پیش کرینگے۔
صفات الہی سے تمسک:
اس دعا کا پہلا حصہ، صفات الہی کی شناخت کے متعلق ہے، معرفت خدا کا طلبگار انسان، بار ہا اس دعا میں اپنے رب کے اسماء سے تمسک اختیار کرتا ہے اور خود کو اپنے بے مثل خدا کے نزدیک پہنچا کر آواز دیتا ہے:
اللّٰهُمَّ اَهْلَ الکِبْریاءِ وَالعَظَمَةِ ، وَاَهْلَ الْجُودِ وَالْجَبَرُوتِ
پروردگارا! اے وہ کہ جو عظمت و بزرگی کے لائق اور سخاوت و قدرت کا اہل ہے۔
فضائل کے سرچشمہ سے رابطہ:
اس دعا کے دوسرے حصے میں ہم خدا کے عفو اور رحمت پہ توجہ دیتے ہوئے، اس کی بارگاہ میں عاجزانہ درخواست کرتے ہیں:
وَاَهْلَ العَفْوِ وَالرَّحْمَةِ ، وَاَهْلَ التَّقْوَی وَالمَغْفِرَةِ
پروردگارا! اے وہ کہ جو عفو و رحمت کا اہل ہے اور تقویٰ و مغفرت کا حقیقی ظاہر کرنے والا ہے۔
خداوند عالم، عفو و بخشش، رحمت و مغفرت کا حقیقی اہل ہے اور وہ اپنی اس صفت کی جانب، پیغمبر رحمت پر وحی کر کے اس طرح اشارہ کرتا ہے:
قُلْ یا عِبادِیَ الَّذینَ أَسْرَفُوا عَلی أَنْفُسِهمْ لا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللّٰه ِنَّ اللّٰه یَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمیعاً ِنَّه هوَ الْغَفُورُ الرَّحیمُ
پیغمبر آپ پیغام پہنچا دیجئے کہ اے میرے بندو جنہوں نے اپنے نفس پر زیادتی کی ہے رحمت خدا سے مایوس نہ ہونا اللہ تمام گناہوں کا معاف کرنے والا ہے اور وہ یقینا بہت زیادہ بخشنے والا اور مہربان ہے۔
(زمر 53)
اس دعا کے ایک حصہ میں، مسلمانوں کی اس عید کو سیاسی اور اجتماعی زوایہ سے دیکھتے ہوئے، عالم اسلام کی عزت کی نمایش کو بطور حقیقی عید ، مسلمانوں کو مبارکباد پیش کر کے بارگاہ خدائے متعال میں عرض کرتے ہیں:
اَسْأَلُکَ بِحَقِّ هذَا الیَوْمِ ، الَّذِی جَعَلْتَهُ لِلْمُسْلِمِین عِیداً
تجھ سے درخواست کرتا ہوں اس دن کے حق کے طفیل میں کہ جسے تو نے مسلمانوں کے لیے عید قرار دیا ہے۔
عید فطر کا اجتماع ممکن ہے کہ مسلمانوں کے رابطے اور قربت کے لیے کارساز ثابت ہو۔ مسلمان ایک ساتھ جمع ہو کر ایک دوسرے کے حالات اور دکھ درد سے آگاہ ہونگے اور ممکن ہے کہ لوگوں کا بغض و کینہ، دوستی اور محبت میں تبدیل ہو جائے۔
پیغمبرﷺ کے اکرام اور شکریہ کا دن
اس قنوت میں 9 مرتبہ پیغمبر گرامی کے اکرام اور تعظیم کی بات کرتے ہوئے خدا سے تقاضا کیا جاتا ہے:
وَ لِمُحَمَّدٍ صلی‏ اللّٰه‏ علیه‏ و‏آله‏ وسلم ذُخْراً وَشَرَفاً وَکَرامَةً وَمَزِیداً اَنْ تُصلِّیَ عَلی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ
اور (اس دن کو) محمد کے لیے ذخیرہ، شرف، کرامت اور مقام کی بلندی قرار دیا، اے پروردگار، رحمت نازل فرما حضرت محمد اور ان کی آل (علیہم السلام) پر۔
اقدار کی جانب سفر:
اس دعا میں ہم سب ، خوبیوں اور اچھائیوں کی طرف جانے کے لیے اور برائیوں سے دوری طلب کرتے ہوئے کہتے ہیں:
وَاَنْ تُدْخِلَنِی فِی کُلِّ خَیْرٍ اَدْخَلْتَ فِیهِ مُحَمَّداً وَآلَ مُحَمَّدٍ، وَاَنْ تُخْرِجَنِی مِنْ کُلِّ سُوءٍ اَخْرَجْتَ مِنْهُ مُحَمَّداً وَآلَ مُحَمَّدٍ
اور ہمیں ہر اس خوبی اور اچھائی میں داخل کر جس میں محمد و آل محمد (علیہم السلام) کو داخل کیا۔ اور ہر اس برائی سے ہمیں باہر نکال دے جس سے محمد و آل محمد (علیہم السلام) کو نکالا ہے۔
مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ تمام اچھائیوں کی طرف پیش قدم رہیں یعنی تمام بہترین انسانی خصلتیں، مسلمانوں اور اسلامی ممالک سے تمام عالم تک پہنچنی چاہئیں۔
ولایت اور معرفت امام کا دن:
اس دعا کے چھٹے حصے میں ان انسان کامل حضرات کے لیے صلوات و سلام کی آرزو کی جاتی ہے کہ جنکے دوش پر امت کی رہبری کی ذمہ داری ہے۔ ہم ان کے لیے اس طرح صلوات کے خواہاں ہوتے ہیں:صَلَواتُکَ عَلَیْهِ وَعَلیْهِمْ
تیری صلوات اور رحمتیں نازل ہوں محمد پر اور ان کے بابرکت خاندان پر۔
نیک لوگوں کی پیروی کی آرزو کرنا:
صالح بندوں کو نمونہ عمل اور اسوہ قرار دینا، اس دعا کی ایک اور تعلیم ہے، چونکہ مقصد اور منزل کی جانب رہنمائی، بغیر اسوہ اور عملی نمونے کے ممکن نہیں ہے۔ اس لیے اس دعا کے آخری حصہ میں، بارگاہ خدائے منان میں ہم دعا کرتے ہیں:
اللّٰهُمَّ اِنِّی اَسْأَلُکَ خَیْرَ ما سَأَلَکَ بِهِ عِبادُکَ الصّالِحُونَ، وَاَعُوذُ بِکَ مِمَّا اسْتَعَاذَ مِنْهُ عِبَادُکَ المُخْلَصُونَ
خداوندا! تجھ سے اس بہترین چیز کی خواہش اور طلب کر رہا ہوں جس کو تیرے صالح بندوں نے تجھ سے طلب کیا ہو۔ اور تیری بارگاہ میں اس چیز سے پناہ چاہتا ہوں، جس سے تیرے مخلص بندوں نے پناہ چاہی ہے۔خداوند عالم ہم سب کو اس عید پرمسرت کو اس کی مرضی کے مطابق منانے کی توفیق عنایت کرے۔بے شک عید خوشیوں کا دن ہے اور اس دن خوشیاں منانے کی تاکید بھی ملتی ہے مگر حقیقت میں مسلمانوں‌ کی سب سے بڑی خوشی یہ ہے کہ اُس سے اُس کا پالنے والا اللہ راضی ہو جائے اور وہ اپنے خدا سے راضی ہو جائے، چنانچہ قرآن کریم میں واضح لفظوں میں اعلان ہے کہ:
رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوا عَنْهُ
ان کی کامیابی اور خوشی کا عالم یہ ہو گا کہ وہ اللہ سے راضی ہوں گے اور اللہ ان سے راضی ہو گا۔
کیونکہ اللہ کی خوشنودی کو ہی اللہ نے قرآن کریم میں سب سے بڑی خوشی قرار دیا ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ:اور اللہ کی طرف سے خوشنودی تو سب سے بڑی چیز ہے جو جنت والوں کو نصیب ہو گی یہی تو زبردست کامیابی ہے۔
شوال کے پہلے دن کو اس لیے عید فطر کہتے ہیں کہ اس دن کھانے پینے کی محدودیت ختم ہونے کا اعلان ہو جاتا ہے کہ مؤمنین دن میں افطار کریں۔ فطر اور فطور کا معنی کھانے پینے کا ہے، کھانے پینے کے آغاز کرنے کو بھی کہا گیا ہے۔ کسی وقت تک کھانے پینے سے دوری کرنے کے بعد جب کھانا پینا شروع کیا جائے تو اسے افطار کہتے ہیں اور اسی لیے رمضان المبارک میں دن تمام ہونے اور مغرب شرعی ہونے پر روزہ کھولنے کو افطار کہا جاتا ہے یعنی کھانے پینے کی اجازت حاصل ہو جاتی ہے۔رسول خداﷺسے شب عید کے بارے میں ایک حدیث نقل کی گئی ہے کہ:
قال النبی ﷺ إِذَا كَانَتْ لَيْلَةُ الْفِطْرِ وَ هِيَ تُسَمَّى لَيْلَةَ الْجَوَائِزِ أَعْطَى اللّٰهُ الْعَالَمِينَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ فَإِذَا كَانَتْ غَدَاةُ يَوْمِ الْفِطْرِ بَعَثَ اللّٰهُ الْمَلَائِكَةَ فِي كُلِّ الْبِلَادِ- فَيَهْبِطُونَ إِلَى الْأَرْضِ وَ يَقِفُونَ عَلَى أَفْوَاهِ السِّكَكِ فَيَقُولُونَ يَا أُمَّةَ مُحَمَّدٍ اخْرُجُوا إِلَى رَبٍّ كَرِيمٍ يُعْطِي الْجَزِيلَ وَ يَغْفِرُ الْعَظِيمَ
جب شب عید فطر کہ اسے انعام لینے والی شب بھی کہا جاتا ہے، خداوند عمل و عبادت کرنے والوں کی جزاء کو بے حد و بے حساب عطا کرتا ہے اور جب صبح عید فطر کا دن آتا ہے تو خداوند اپنے تمام فرشتوں کو شہروں میں نازل کرتا ہے اور وہ جگہ جگہ کھڑے ہو کر ندا دیتے ہیں کہ: اے امت محمد (ص) خداوند کی طرف عید کی نماز پڑھنے کے نکل پڑو کیونکہ خداوند بہت زیادہ اجر دینے والا اور بڑے بڑے گناہوں کو بخشنے والا ہے۔
(أمالي المفيد، ص: 232)
حضرت علی علیہ السلام کی حدیث ہے کہ جس میں آپ علیہ السلام نے عید کی حقیقت کو اور واضح کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ:
إِنَّمَا هُوَ عِيدٌ لِمَنْ قَبِلَ اللَّهُ صِيَامَه وَ شَكَرَ قِيَامَهُ ُ وَ كُلُّ يَوْمٍ لَا تَعْصِي اللّٰهَ فِيهِ فَهُوَ يَوْمُ عِيدٍ
آج حقیقی عید ہے اس شخص کے لیے جس کے روزے، نماز اور عبادت کو اللہ نے ماہ مبارک رمضان میں قبول کر لیا ہو۔ اور ہر وہ دن جس میں خدا کی معصیت نہ کی جائے، عید کا دن ہے۔
https://valiasr-aj.com/

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button