قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کے لیے واحد اور جمع کی ضمیر
بعض آیات میں اللہ نے اپنے لئے "ہم” اور بعض جگہ پر "میں” کی لفظ کیوں استعمال کی ہے؟
اگرچہ اللہ ایک ہے اور قاعدے کے تحت اپنے بارے میں خبر دینے کے لئے ضمیر واحد استعمال ہونی چاہئے اسی وجہ سے قرآن میں متعدد مقامات پر اسی طرح کی تعبیر استعمال ہوئی ہے۔ لیکن عربی اور کبھی غیر عربی میں بھی متکلم کچھ اسباب کے تحت اپنے لئے ضمیر واحد کے بجائے ضمیر جمع استعمال کرتا ہے۔ ان اسباب میں سے بعض درج ذیل ہیں:
۱۔ اپنی عظمت سے مخاطب کو آگاہ کرنے کے لئے
۲۔ انجام شدہ کام کی عظمت کو بتانے کے لئے
۳۔ ان اسباب و علل کی طرف توجہ دینے کی خاطر جو کام کے انجام کے لئے قرار دئے گئے ہیں
اس کے بیان کرنے کےلئے دو مقدمہ کا ذکر کرنا ضروری ہے:
پہلا مقدمہ:
علم عقائد (کلام اسلامی) کے علماء نے اللہ کے ایک ہونے پر متعدد عقلی دلائل قائم کئے ہیں اور اللہ کے ایک ہونے کا مطلب یہ ہے کہ صرف وہ ہے جو مستقل طور پر کسی کے سہارے کے بغیر خلق کرتا ہے، روزی دیتا ہے، ہدایت کرتا ہے اور مارتا ہے نیز علم کلام میں ان کو خالقیت کی توحید، رزاقیت کی توحید اور ہدایت کی توحید کہا جاتا ہے۔
دوسرا مقدمہ
مندرجہ بالا کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کوئی بھی چیز خالقیت، رزاقیت اور ہدایت میں کسی طرح بھی سببیت نہیں رکھتی ہے، بلکہ اللہ کی حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ خلق کرنے، رزق دینے اور ہدایت کرنے بلکہ اپنے اکثر اعمال کو اسباب و علل کے راستے سے انجام دے۔
ابی اللّٰہ ان یجری الامور الا بالاسباب
الکافی، ج۱، ص۱۸۳، باب معرفۃ الامام والرد علیہ
مثلا اگرچہ اللہ بغیر کسی واسطہ کے براہ راست بیماروں کو شفا دے سکتا ہے یا بھوکے کو سیر کرسکتا ہے یا پھر گمراہوں کو ہدایت دے سکتا ہے لیکن اپنی حکمت کی بنیاد پر اس نے یہ پسند کیا ہے کہ ہر کام کے لئے خاص اسباب و علل قرار دے اور ہر کام کو انھیں کے ذریعہ انجام دے۔ لہذا بھوکے کو اس روٹی کے ذریعہ سیر کرتا ہے جو خود اسی نے پیدا کی ہے، مریض کو اپنی خلق کردہ دوا اور اپنے پروردہ ڈاکٹر کے ذریعہ شفا دیتا ہے، البتہ روٹی، دوا اور ڈاکٹر بلکہ تمام اسباب اسی کے اذن سے تاثیر پاتے ہیں اور اپنا خاص نتیجہ رکھتے ہیں اور جب دوا، ڈاکٹر، روٹی اور پانی وغیرہ سب کے سب اپنے وجود کو ہمیشہ اسی سے لیتے ہیں اور اس کے اذن سے یہ اثرات رکھتے ہیں تو یہ سب کسی طرح بھی اللہ کی توحید اور اس کے مختلف زاویوں سے منافات نہیں رکھتے اور اللہ کے شریک نہیں ہیں، بلکہ یہ سب مخلوقات ہیں اور اپنی ہر چیز منجملہ تاثیر میں اللہ کی محتاج ہیں۔
اب گذشتہ باتوں کے پیش نظر اصل جواب کی طرف آتے ہیں:
اگر اللہ ایک ہے اور قاعدے کے تحت اپنے افعال کے بارے میں خبر دینے کے لئے ضمیر واحد کا استعمال کرنا چاہئے۔یہاں یہ سوال درست نہیں ہے کہ اللہ نے بعض جگہوں پر ضمیر واحد کا استعمال کیوں کیا ہے، صرف یہ سوال رہ جاتا ہے کہ اللہ نے ہمیشہ ضمیر واحد کو کیوں استعمال نہیں کیا ہے؟ اور اس کا جواب آگے آرہا ہے۔
اسی سبب قرآن میں بارہا اسی طرح سے کلام کیا گیا ہے۔جیسے
ادۡعُوۡنِیۡۤ اَسۡتَجِبۡ لَکُمۡ
غافر:۶۰
لیکن عربی زبان میں اور کبھی غیر عربی زبان میں مختلف وجوہات کی بنیاد پر متکلم بعض جگہوں پر "میں” کہنے کے بجائے "ہم” کا استعمال کرتا ہے۔
ذیل میں ایسی بعض وجوہات کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے:
۱۔ قرآن کریم نے عام محاورہ کی زبان کو اختیار کیا ہے جو لوگوں سے رابطہ کا بہترین ذریعہ ہے۔ اور عام لوگ اپنے محاورہ میں کبھی کہتے ہیں کہ فلاں بستی میں اتنے آدمی رہتے ہیں جبکہ یقینا بستی میں خواتین بھی ہوتی ہیں، اسی طرح قرآن میں ہے کہ
انتم الفقراء الی اللّٰہ
اس میں ضمیر "انتم”مذکر کی ضمیر ہے جبکہ خطاب عام ہے اور عورت مرد دونوں کو شامل ہوتا ہے اور ہر عاقل سمجھتا ہے کہ تمام انسان مقصود ہیں نہ کہ صرف مرد۔ ضمیر واحد و جمع میں بھی ملتا ہے کہ لوگ بہت سی جگہوں پر ضمیر واحد کے بجائے جمع کی ضمیر استعمال کرتے ہیں؛ مثلا کہتے ہیں کہ ہم آئے لیکن آپ نہیں تھے۔
اس میں ہم اور آپ دونوں لفظ بنیادی طور پر جمع کے لئے ہیں جبکہ متکلم کا مقصود واحد ہے؛ لیکن احترام، تعظیم اور کسی کو اہمیت دینے کے لئے جمع کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اللہ کے سلسلہ میں بھی تعظیم و احترام و اکرام کے لئے ضمیر "نحن” کا استعمال کیا گیا ہے۔
پرسش و پاسخ، ج۳، ص۲۵۶
بہر حال متکلم اپنی عظمت مخاطب کو بتانے کے لئے "میں” کے بجائے "ہم "کا استعمال کرتا ہے جو متکلم کی عظمت و بزرگی پر دلالت کرتا ہے۔قرآن کی ایک مثال: سورہ فتح کی ابتدا میں فرماتا ہے:
انا فتحنا لک فتحا مبینا
بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ یہاں اللہ نے اپنی عظمت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ہم نے شہر مکہ کو فتح کیا: لیکن یہاں اللہ نے ہم کیوں کہا، ظاہر ہے کہ یہ اس لئے کہا کیونکہ عظمت کی طرف اشارہ کرنے والی ضمیر "ہم” فتح کے ذکر سے زیادہ مناسبت رکھتی ہے۔ یہی بات آیہ انا ارسلناک شاہداً میں بھی آئے گی۔
ترجمہ (فارسی) المیزان ج۱۸، ۳۸۵
۲۔ کبھی متکلم اپنے ذریعہ انجام پانے والے کام کی عظمت کو بیان کرنے کے لئے "میں نے یہ کام کیا’ کے بجائے "ہم نے یہ کام کیا” کہتا ہے جیسے: انا انزلناہ فی لیلۃ القدر یا انا اعطیناک الکوثر جس میں قرآن اور کوثر کی عظمت مد نظر ہے۔
۳۔ کبھی اللہ ہم کو ان اسباب کی طرف متوجہ کرنے کے لئے "ہم” کا استعمال کرتا ہے جنھیں اس نے کوئی کام انجام دینے کے لئے قرار دیا ہے۔ لہذا "میں” کے بجائے "ہم” کا استعمال کرتا ہے۔ اسی وجہ سے سورہ رعد کی چوتھی آیت کے ذیل میں تفسیر المیزان کے اندر یوں لکھا ہے:
یہی ہم نے بعض کو بعض پر برتری دی میں "ہم” کی تعبیر اس بات کی طرف اشارہ سے خالی نہیں ہے کہ اللہ کے علاوہ بھی کچھ الٰہی اسباب پائے جاتے ہیں جو اسی کے امر پر عمل کرتے ہیں اور سب کے سب اللہ ہی تک جاکر ختم ہوتے ہیں۔
ترجمہ (فارسی) المیزان،ج۱۱، ص۴۰۱
اللہ کی ذات کے ہر جہت سے یکتا ہونے کے باوجود اس کے سلسلہ میں صیغہ جمع کا استعمال اس کی عظمت کی طرف اشارہ ہے اور یہ کہ ہمہ وقت کچھ مامورین اس کے منتظر و تابع فرمان رہتے ہیں اوراس کی اطاعت امر کے لئے تیار رہتے ہیں، اور درحقیقت صرف اسی کی بات نہیں ہے بلکہ اس کے بارے میں ہے اور تمام مأمورین اسکے مطیع ہیں۔
ممکن ہے کسی آیت میں تینوں حکمتیں جمع ہوں؛ یعنی جمع کی ضمیر استعمال کی گئی ہو تاکہ فاعل کی عظمت بھی بیان ہو، فعل کی عظمت بھی اور اسباب کی طرف توجہ بھی مقصود ہو۔ جیسے انا انزلناہ فی لیلۃ القدر یہاں تینوں حکمتیں صادق آتی ہیں۔
https://www.islamquest.net/ur