توحیدعقائد

توحید کے متعلق امام علی رضا علیہ السلام کا کلام

۱۔ کلیات توحید کے متعلق امام علیہ السلام کا کلام
روایت ہے کہ جب مامون نے ارادہ کیا کہ امام رضا علیہ السلام کو ولی عہدی کیلئے منصوب کیا جائے تو بنی ہاشم کو جمع کیااور کہا: میں چاہتا ہوں کہ خلافت کو اپنے بعد امام رضا علیہ السلام کے سپرد کردوں۔ بنی ہاشم نے امام علیہ السلام کے ساتھ حسد کیا اور کہا: تم چاہتے ہو کہ اُس شخص کو خلافت دو جو اس بارے میں بالکل بے خبر ہے۔
اگر تو چاہتا ہے کہ اُن کی لاعلمی تجھ پر ظاہر ہو تو کسی کو بھیج کو بلا تاکہ وہ آئیں ۔ مامون نے آنحضرت کی طرف کسی کو بھیجا۔ امام علیہ السلام تشریف لائے۔ بنی ہاشم نے عرض کیا: اے اباالحسن ! منبر پر جائیں اور خدا کی توصیف کریں ، اس طرح کہ ہم اس پر اُس کی عبادت کرسکیں۔
امام علیہ السلام منبر پر گئے۔ تھوڑی دیر کیلئے بیٹھے اور غور کیا۔ کھڑے ہوئے۔ خداکی حمدوثناء کے بعد پیغمبر اور آلِ پیغمبر پر درود بھیجنے کے بعد اس طرح گفتگو کی:
"سب سے پہلے خدا کی عبادت اُس کی معرفت ہے اور خدا کی اصل معرفت اُس کی توحید ہے۔ اُس کی توحید کا کمال اس میں ہے کہ صفات(زائد بر ذات) کی نفی کی جائے کیونکہ عقلیں گواہیں دیتی ہیں کہ ہر صفت اور ہر موصوف اُس کی مخلوق ہے۔ ہر موصوف گواہی دیتا ہے کہ اُس کا کوئی خالق ہے۔ جو اس طرح کی صفت نہیں رکھتا۔ اس طرح کی صفت کے ساتھ موصوف نہیں ہے۔ ہر صفت و موصوف ایک دوسرے کے ساتھ ارتباط کی گواہی دیتے ہیں۔ یہ ارتباط گواہی دیتا ہے اُس کے حدوث کے متعلق اور حدوث کسی کے ازلی نہ ہونے کی گواہی دیتا ہے کیونکہ کسی حادث شے کا ازلی ہونا محال ہے۔پس جس نے خد اکو تشبیہ کے ساتھ جاننے کی کوشش کی تو اُس نے کچھ نہ جانا۔
جو خدا کو اُس کی حقیقت کے ساتھ جاننا چاہے، اُس نے خدا کو ایک نہیں جانا۔ جو کوئی خدا کیلئے مثال پیش کرے، وہ خدا کی حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا۔ جو اُس کی عنایت کا تصور کرے، اُس نے اُس کی تصدیق نہیں کی۔ جس نے اُس کی طرف اشارہ کیا، اُس نے اُس کا ارادہ نہیں کیا۔ جس نے اُس کی کسی چیز کے ساتھ تشبیہ کی، اُس نے اُس کا قصد نہیں کیا۔ جو کوئی اُس کی جزیت کا قائل ہوا، وہ اُس کیلئے ذلیل و خوار نہ ہوا۔جو کوئی اُس کو وہم وخیال میں لائے، اُس نے اُس کا ارادہ نہیں کیا۔ جو خود بخود پہچانا جائے، وہ مصنوع ہے اور بنا ہوا ہے۔ جو کسی دوسرے کی وجہ سے قائم ہو ، وہ معلول ہے۔ اُس کے وجود اور خلقت کیلئے دلیل لائی جائے۔ عقل کے ذریعے اُس کی معرفت کیلئے راہ تلاش کی جائے اور حجت خدا ہر ایک کی فطرت میں موجود ہے”۔
خدا کا اپنی مخلوق کو پیدا کرنا اُس کے اور مخلوق کے درمیان ایک پردہ ہے۔ خدا کا اپنی مخلوق سے مختلف ہونا خدا اور اُس کی مخلوق کے ساتھ جدائی ہے۔ خدا کا خلق کرنے میں ابتداء کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ خدا کیلئے ابتداء نہیں ہے کیونکہ جس کیلئے ابتداء ہو، وہ اس سے عاجز ہوتا ہے کہ کسی کی ابتدء کرسکے۔خدا کا مخلوق کو آلات و اسباب دینا اس بات کی دلیل ہے کہ خدا کے اسباب وآلات نہیں ہیں کیونکہ آلات و اسباب مادی چیزوں کی محتاجی پر دلیل ہوتے ہیں۔
خدا کے نام اُس سے تعبیر ہیں(نہ کہ عین ذات) اور خدا کے افعال اُس کی معرفت کا ذریعہ ہیں۔ اُس کی ذات اُس کی عین حقیقت ہے۔ اُس کی حقیقت اُس کے اور اُس کی مخلوق کے درمیان جدائی ہے۔ اس کی غیریت اُس کے غیر کو محدود کرنے والی ہے۔ جیسا کہ یہ بھی ثابت کرتی ہے کہ اُس کا غیر محدود ہے۔
جس نے خدا کا وصف بیان کیا، وہ خدا سے جاہل رہااوراُس نے خدا پر تجاوز کیا جس نے خدا کے ساتھ کسی چیز کو شامل کیا۔اس نے غلطی کی جس نے اُس کی حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کی۔جو یہ کہتا ہے کہ خدا کیسا ہے، اُس نے تشبیہ دی اور جو یہ کہتا ہے کہ خدا اس طرح کا ہے، وہ اس کیلئے علت و وجہ ڈھونڈنے کے درپے ہوگیا۔ جو یہ کہے کہ خدا کس زمانے میں وجود میں آیا، اُس نے اُسے زمانے کے ساتھ محدود کردیا۔ جو یہ کہتا ہے کہ خدا کس میں ہے، اُس نے اُسے کسی چیز کے اندر فرض کیا۔ جو یہ کہتا ہے کہ خدا کس وقت تک ہے، اُس نے اُس کیلئے نہایت فرض کی۔
جو یہ کہتا ہے کہ وہ کس وقت تک ہے، اُس نے اُسے وقت کے ساتھ محدود کردیا اور اُس کے لئے نہایت فرض کی۔ وہ اس کیلئے مدت کا قائل ہوا۔جو اُس کے لئے مدت کا قائل ہے، اُس نے اُس کا تجزیہ کیا ہے اور جس نے اُس کا تجزیہ کیا ، اُس نے اُس کا وصف بیان کیا ۔ جس نے اُس کی توصیف کرنے کی کوشش کی اور چیزوں کی مانند قرار دیا، جس نے ایسا کیا وہ حق کے راستہ سے منحرف ہوا اور کافر ہوگیا۔
مخلوق کی تبدیلی کے ساتھ خدا میں تبدیلی نہیں آتی۔ کسی محدود کی تحدید کے ساتھ خدا محدود نہیں ہوتا۔ خدا ایک ہے۔ نہ تو کسی مقام میں شمار کرنے سے وہ ظاہر ہے اور نہ اُسے آنکھ کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے۔ اُس کے ساتھ ملاقات کی جاسکتی ہے ۔ خدا تجلی اور ظہور رکھتا ہے۔ نہ ایسے کہ دیکھا جا سکے ، نہ ایسے کہ ظاہر سے باطن کی طرف منتقل ہو۔ مخلوق سے جدا اور سباین سے نہ مسافت کے ساتھ۔ اپنی مخلوق کے نزدیک ہے، نہ جہت مکان کے لحاظ سے۔
وہ لطیف ہے نہ جسمانیت کے ساتھ۔ وہ موجود ہے نہ اس طرح کہ اُس کا وجود عدم کے بعد ہو۔ امور کو انجام دینے والا ہے نہ جبر و ظلم کے ساتھ۔بغیر فکر کے امور کی اندازہ گیری کرتا ہے۔ بغیر کسی حرکت کے امور کی تدبیر کرتا ہے۔ بغیر اس کے کہ ذہن میں لائے، ارادہ کرتا ہے۔ درک کرنے والا ہے بغیر اس کے کہ کوشش کرے ،سننے والا ہے بغیر آلہ و اسباب کے، دیکھتا ہے دیکھنے والی چیز کے بغیر۔
زمانے کے ساتھ مربوط نہیں ہے۔ مکان اُس کو اپنے اندر نہیں لے سکتے۔ نیند اور اونگھ اُسے نہیںآ تی۔ اوصاف اُس کو محدود نہیں کرتا۔ آلات و اسباب اُسے کوئی نفع نہیں دیتے۔
اُس کا وجود زمانے سے پہلے ہے۔ اُس کا وجود عدم سے سبقت رکھتا ہے۔ اُس کا ازلی ہونا ہر ابتداء پر مقدم ہے۔ جب اُس نے آدمی کے شعور کو درک کرنے کی قدرت دی تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اُس کے لئے آلاتِ شعور نہیں ہیں کیونکہ اُس نے چیزوں کے جوہر اور ماہیت کو پیدا کیا ہے۔ معلوم ہوا کہ اُس کیلئے ممکنات کی طرح ماہیت نہیں ہے کیونکہ اُس نے چیزوں کے درمیان ضدیں پیدا کی ہیں۔ معلوم ہوا کہ اُس کیلئے کوئی ضد نہیں ہے کیونکہ اُس نے امور کے درمیان مقارفت قرار دی ہے۔ معلوم ہوا کہ اُس کے لئے کوئی قرین اور ساتھی نہیں ہے۔ اُس نے روشنی کو تاریکی کی ضد ،ظاہر کو پوشیدہ کی ضد، خشک کو تر کی ضد اور سردی کو گرمی کی ضد قرار دیا ہے۔
خدا نے اُن چیزوں کے درمیان الفت اور محبت پیدا کی جن کے درمیان کوئی تعلق نہ تھا۔ جو چیزیں آپس میں نزدیک تھیں، اُن کے درمیان جدائی قرار دی۔ یہ جدائی دلالت کرتی ہے کہ کوئی جدائی ڈالنے والا موجود ہے اور یہ دوستی دلیل ہے کہ اس پر کہ اس دوستی کے پیدا کرنے والا کوئی ہے اور یہ ہے اللہ تعالیٰ کا قول:
"ہم نے ہر چیز کو جوڑا جوڑاپیدا کیا تاکہ تم تذکر حاصل کرو”۔
معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے لئے قبل و بعد نہیں ہے۔ غرائض کا پیدا کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ ان غرائض کے ایجاد کرنے والے کیلئے کوئی غرض نہیں ہے کیونکہ اُس نے چیزوں کے درمیان تفاوت اور فرق پیدا کیا ہے۔معلوم ہوا کہ ان کے پیدا کرنے والے کیلئے تفاوت اور فرق نہیں ہے کیونکہ اس نے ہر چیز کیلئے زمانہ بنایا ہے۔ معلوم ہوا کہ خدا کیلئے زمانہ نہیں ہے۔ بعض چیزیں دوسری بعض چیزوں سے پردے میں ہیں۔ معلوم ہوا کہ خدا اور چیزوں کے درمیان کوئی حجاب اور پردہ نہیں ہے۔
وہ اُس وقت بھی رب تھا جب کوئی پرورش پانے والا نہیں تھا اور وہ اُس وقت بھی معبود تھا جب کوئی اُس کی عبادت کرنے والا نہ تھا۔ وہ اُس وقت بھی عالم اور دانا تھا جب کوئی معلوم چیز اور جانی ہوئی نہ تھی۔ وہ اُس وقت بھی خالق تھا جب کوئی مخلوق نہ تھی۔ وہ اُس وقت بھی حقیقت خالقیت رکھتا تھا جب کسی چیز کو ابھی اُس نے خلق نہیں کیا تھا۔
وہ کس طرح ایسا نہ ہو جبکہ وہ کسی چیز سے غائب نہ تھا۔ کوئی تبدیلی اُس میں واقع نہیں ہوتی۔ اُمید اور خواہش اُس میں موجود نہیں ہے۔ وہ کسی زمانے کے ساتھ محدود نہیں ہے۔ وہ کسی چیز کا ساتھی نہیں ہے۔ چیزوں کو آلات و اسباب محدود کردیتے ہیں اور ضرورت اور محتاجی کو ثابت کرتے ہیں۔ اسباب و آلات اپنے کی مثل کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ چیزوں کا قدیم ہونا اُن کے حدوث کی نفی کرتا ہے اور ازلی ہونے سے روکتا ہے اور اس میں کوئی کمال نہیں ہے۔
اُس نے چیزوں کے درمیان جدائی ڈالی تاکہ اس بات پر دلالت کرے کہ کوئی جدائی ڈالنے والا ہے۔ چیزوں کے درمیان دوری پیدا کی تاکہ دوری پیدا کرنے والا پر دلالت کرے۔ چیزوں کے خالق نے عقلوں کیلئے تجلی پیدا کی اور ان کے ذریعے سے آنکھوں کے ذریعے دیکھنے سے پردے میں چلا گیا۔اُن کے ذریعے اوہام کو متوجہ کیا اور ان میں خدا کے غیر کو ثابت کرنے لگے۔ انہیں سے دلیلیں لی گئیں اور اُن سے اقرار لیا گیا۔ عقلوں کے ذریعے خدا کے ساتھ اعتقاد مضبوط ہوتا ہے۔ افراد کے ذریعے ایمان کامل ہوتا ہے۔ دینداری معرفت کے بغیر حاصل نہیں ہوتی۔ معرفت اخلاص کے بغیر میسر نہیں ہوتی۔ خدا کو کسی چیز کے ساتھ مشابہہ قرار دینے سے اخلاص حاصل نہیں ہوتا۔ اگر خدا کیلئے مخلوق کے اوصاف کو ثابت کیا جائے تو تشبیہ کی نفی نہیں کی جاسکتی۔
پس جو کچھ مخلوقات میں تھا، وہ خالق میں نہ تھا اور جو کچھ مخلوقات میں ممکن ہے، وہ خالق میں نہیں ہے۔ خدا میں سکون کا کوئی وجود نہیں ہے۔ یہ سب چیزیں خدا میں کس طرح ممکن ہیں جبکہ یہ سب چیزیں اُس نے جاری کی ہیںَ تمام چیزیں اُس کی طرف لوٹتی ہیں۔ اگر وہ اس طرح ہو تو اُس کی ذات میں تغیر و تبدل واقع ہوجائے گا۔ اُس کی حقیقت مرکب ہوجائے گی۔ ترکیب ازلی ہونے سے مانع ہے اور اُس میں خالقیت کا معنی تصور نہیں ہوسکتا۔اگر اُس کیلئے ہم انتہا کے قائل ہوجائیں تو اُس کے لئے آغاز ضرور ہوگا۔ اگر اُس کیلئے یہ تصور کیا جائے کہ وہ مکمل ہے تو اس کا لازمہ یہ ہے کہ اُس کے وجود میں کوئی کمی بھی ہے۔
وہ کس طرح ازلیت کے لائق ہو سکتا ہے جو تبدیلی سے پاک نہ ہو۔ وہ کس طرح چیزوں کو ایجاد کرسکتا ہے جو خود ایجاد ہونے سے کوئی مانع نہیں رکھتا۔ جب بھی ایسا ہوگا تو اُس میں مصنوعیت کی علامات موجود ہوں گی اور یہ چیز اُس کی خالقیت پر دلیل کی بجائے اُس کے موجود ہونے پر دلیل ہوگی۔
اس وجہ سے مقام گفتگو میں اُس کی خالقیت پر دلیل نہیں ہے اور اس بارے میں پیش آنے والے سوالات کا کوئی جواب نہ ہوگا۔ اُس کیلئے حقیقت میں کوئی تعظیم نہ ہوگی۔ مخلوق کے درمیان اُس کا ظاہر ہونا ظلم نہ ہوگا مگر یہ کہ ازلی ہونا اس چیز سے مانع ہے کہ اُس کے لئے دو ہوناتصور کیا جائے اور یہ کہ جس کیلئے ابتداء نہیں ہے، اُس کیلئے ابتداء پیدا کی جائے۔ عظیم و بلند خدا کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے۔
وہ جھوٹ کہتے ہیں جو خدا کیلئے شریک کے قائل ہیں۔ وہ گمراہ ہوگئے اور حق سے دور ہوگئے اور بہت بڑی گمراہی میں پڑگئے۔ محمد و آلِ محمد پر ، جو پاک ہیں، درود ہو۔
(عیون الاخبار:ج ۱ ،ص ۱۶۹ ، توحید: ۳۴)
۲ ۔ کلیات توحید میں امام علیہ السلام کا کلام
"تمام تعریفیں اُس اللہ کیلئے جس نے اپنی حمد کا الہام اپنی مخلوق کی طرف کیا اور اپنی ربوبیت کی معرفت اُن کی فطرت میں رکھی۔ اپنے خلق کرنے سے اپنے وجود پردلالت کی اور اپنی مخلوق کے پیدا کرنے کے ذریعے اپنی ازلیت پر رہنمائی کی۔ اپنی مخلوق کے ہم مثل رکھنے کے ساتھ اپنی بے مثلی پر دلالت کی۔اپنی نشانیوں کو اپنی قدرت پر گواہ بنایا۔ اُس کی ذات صفات کو قبول نہیں کرتی(کیونکہ تمام صفات اُس کی عین ذات کے کمال ہیں)۔آنکھیں اُس کو دیکھنے سے اور وہم اُس کے احاطہ کرنے سے قاصر ہیں۔
اُس کے وجود کیلئے کوئی ابتداء نہیں ہے اور اُس کی بقاء کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ آلات و اسباب اُس کا ادراک نہیں کر سکتے ۔ پردے اُس کو چھپا نہیں سکتے۔ اُس کے اور اُس کی مخلوقات کے درمیان پردہ خود اُس کی مخلوق ہے کیونکہ جو چیز اُس کی مخلوق کیلئے امکان رکھتی ہے، وہ اُس کیلئے منع ہے اور جو چیز اُس کے لئے ممنوع ہے، وہ مخلوق کے لائق ہے۔اس کے علاوہ بنانے والے اور بننے والے کا فرق بھی موجود ہے۔ اسی طرح پالنے والے اور پالے ہوئے ،محدود کرنے والے اور محدود کئے ہوئے کے درمیان فرق ہے”۔
"وہ ایک ہے نہ کہ عددی معنی کے لحاظ سے(یعنی مرکب نہیں ہے)۔ وہ پیدا کرنے والا ہے، نہ اعضاء کی حرکت کے ساتھ(یعنی جس طرح ہر بنانے والا اپنے اعضاء کو حرکت دیتا ہے) ۔ وہ بغیر اسباب کے دیکھتا ہے۔ بغیر آلات کے سنتا ہے۔ جسم کے محسوس ہوئے بغیر وہ حاضر ہے۔ وہ ایک طرف ہے ، نہ اس معنی کے ساتھ کہ مسافت کی دوری رکھتا ہو۔ وہ باطن ہے، نہ اس معنی کے ساتھ کہ وہ کسی پردہ کے نیچے ہے۔ وہ ظاہر ہے، نہاس معنی کے ساتھ کہ وہ کسی چیز کے سامنے ہے۔ وہ ایسی ذات ہے کہ اُس کی حقیقت نے تیز دیکھنے والی آنکھوں کومایوس کردیا ہے۔ اُس کے وجود نے خاطراتِ ذہنی کو جڑوں سے اکھیڑ کر رکھ دیا ہے”۔
"دین کی ابتداء اُس کی معرفت کے ساتھ ہے اور معرفت کا کمال اُس کو ایک ماننے میں ہے۔ ایک ماننے کا کمال تمام صفات(زائد بر ذات) کی اُس کی ذات سے نفی کرنا ہے کیونکہ ہر صفت گواہی دیتی ہے کہ وہ اُس کی غیر ہے۔ ہر موصوف گواہی دیتا ہے کہ وہ صفت کا غیر ہے۔ ان دو کی گواہی کہ یہ دو چیزیں ہیں ، کہ ان میں ازلیت نہیں ہے( یعنی اگر ہم قائل ہوجائیں کہ اُس کی صفات غیر ذات ہیں اور ذات پر زائد ہیں تو ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ اُس کی ذات میں ترکیب ہے اور قدیم سے تعددہے اوریہ ایک دوسرے کے محتاج ہیں)۔ جو بھی خدا کی توصیف کرتا ہے، وہ خدا کو محدود کرتا ہے اور جو اُسے محدود کرتا ہے، وہ اُسے معدود کرتا ہے اور جوکوئی اُسے گننے میں لائے، اُس نے اُس کی ازلیت کو باطل کردیا۔ جو کہے کہ وہ کس طرح کا ہے، وہ اُس کے وصف کو طلب کرتا ہے۔ جو کہے کہ وہ کس میں ہے، اُس نے اُس کو کسی چیز میں ڈالا ہے۔ جو کہے کہ وہ کس پر ہے، اُس نے اُسے پہچانا ہی نہیں۔ جو کہے کہ وہ کہاں ہے، اُس نے جگہ کو اُس سے خالی جانا۔ جو یہ کہے کہ اُس کی ذات کیا ہے، اُس نے اُس کی تعریف کی اور جو یہ کہے کہ وہ کب تک ہے، اُس نے اُس کو متناہی(نہایت والا) جانا”۔
"وہ اُس وقت سے عالم ہے جب کوئی معلوم نہ تھا، وہ اس وقت سے خالق ہے، جب کوئی مخلوق نہ تھی(پس وہ ہمیشہ پیدا کرنے کی طاقت رکھتا ہے)۔ وہ اُس وقت بھی پروردگار تھا، جب کوئی پلنے والا نہ تھا، ہمارے رب کی اسی طرح توصیف کی جاتی ہے ،وہ وصف بیان کرنے والوں کے وصف سے بلند تر ہے”۔
(توحید: ۵۶)
۳ ۔ کلیات توحید میں امام علیہ السلام کا کلام
"تمام تعریفیں اُس خداکے لئے جو اس جہان کی ابتداء اور اس جہان کا خالق ہے۔ قوت و طاقت والا ہے۔جو اپنے بندوں کا رکھوالا ہے۔ اپنے بندوں پر تسلط رکھتا ہے۔ اس کی حکمرانی کے سامنے ہر چیز سرجھکائے ہوئے ہے۔ اُس کی عزت کے سامنے ہر چیز ذلیل ہے۔ ہر چیز اُس کی قدرت کو تسلیم کئے ہوئے ہے۔ اُس کی سلطنت اور عظمت کے سامنے ہر چیز جھکتی ہے۔ اُس کا علم ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے۔ وہ ہر چیز کی تعداد کو جانتا ہے۔ بڑے بڑے کام اُس کو تھکاتے نہیں ہیں اور چھوٹی چیزیں اُس کی آنکھوں سے اوجھل نہیں ہوتیں۔
دیکھنے والوں کی آنکھیں اُس کو درک نہیں کر سکتیں۔ وصف بیان کرنے والوں کی توصیف اُس کا احاطہ نہیں کرسکتی۔ خلق اور حکم اُسی کیلئے ہے۔ آسمانوں اور زمینوں میں بلند مثال اُسی کیلئے ہے۔ وہ عزت والا، جاننے والا اور حکمت والا ہے”۔
(بحار:ج ۴ ،ص ۲۴۳)
۴ ۔امام علیہ السلام کا کلام خدا اور انسانوں کے مشترک ناموں کے درمیان فرق کے متعلق
"یاد رکھو! خدا خیر اور نیکی کا تجھے علم دے۔ خدا تعالیٰ قدیم ہے اور قدیم ہونا اُس کیلئے ایک صفت ہے جو عقل مند کی رہنمائی کرتی ہے کہ اُس کے پہلے کوئی نہ تھا۔ اُس کے ہمیشہ رہنے میں اُس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ پس صاحبانِ عقل کے اس اعتراف کے بعد کہ وہ اس صفت کو درک نہیں کر سکتے، ہمارے لئے روشن ہوگیا کہ خدا کے پہلے کوئی چیز نہ تھی۔ اُس کے ہمیشہ باقی رہنے میں اُس کے ساتھ کوئی نہیں ہے۔
پس جو یہ کہتا ہے کہ اُس سے پہلے یا اُس کے ساتھ کوئی چیز تھی، اُس کی بات باطل ثابت ہوئی کیونکہ اگرکوئی چیز ہمیشہ اُس کے ساتھ ہو تو وہ اُس کا خالق نہ ہوگا کیونکہ وہ ہمیشہ خدا کے ساتھ تھی۔ خدا اُس کا خالق کس طرح ہو سکتا ہے جو ہمیشہ اُس کے ساتھ ہو۔ اگر کوئی چیز اُس سے پہلے ہو تو وہ اوّل ہو گی نہ یہ او ر جو اوّل ہوگا وہ اس لائق ہے کہ وہ خالق ہو نہ دوسرا”۔
"پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے ناموں کے ساتھ اپنے اوصاف بیان کئے ہیں۔مخلوقات کو پیدا کیا۔ اُن کی عبادت اور امتحان کو طلب کیا۔ اُن سے کہا کہ مجھے ان ناموں کے ساتھ پکارو۔ پس اپنے آپ کو سننے والا، دیکھنے والا، طاقتور ،قائم، بولنے والا، ظاہر، باطن، لطیف، آگاہ، قوی، عزیز ، حکیم و دانا اور اس طرح کے دوسرے نام دئیے۔
پس جب غلط قسم کے لوگوں نے اور جھٹلانے والوں نے ان ناموں کو دیکھا اور دوسری طرف سے ہم جیسے افراد سے سن چکے تھے کہ ہم خدا کے متعلق خدا سے خبر دیتے تھے کہ اُس جیسی کوئی چیز نہیں ہے اور کوئی مخلوق بھی اُس کی طرح نہیں ہے تو کہنے لگے کہ تمہارا تو عقیدہ مثل و نظیر نہیں رکھتا۔
پس کس طرح خدا کے ناموں میں تم اپنے آپ کو شریک کرتے ہو اور اپنے آپ کو اس کا ہمنام کرتے ہو؟ پس یہ چیز اس بات کی دلیل ہے کہ تم خدا کے تمام یا بعض حالات میں شریک ہو کیونکہ اچھے اچھے ناموں کو تم نے اپنے لئے بھی جمع کررکھا ہے”۔
"ہمارا جواب ایسے لوگوں کیلئے یہ ہے : بے شک اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اپنے ناموں میں سے معانی کے اختلاف کے ساتھ نام دئیے ہیں جیسا کہ ایک نام دو مختلف معانی رکھتا ہے۔اس مطلب پر دلیل لوگوں کا یہ کہنا ہے جو ان کے نزدیک قبول شدہ اور مشہور ہے اور خدا نے بھی اپنی مخلوق کو اس کے ذریعے خطاب کیا ہے۔ جس چیز کو وہ سمجھتے ہیں، اُس کے ساتھ خطاب کیا ہے تاکہ جو وہ ضائع کرچکے ہیں، اُس کی نسبت اُن پر حجت قائم ہوسکے۔ کبھی کسی مرد کو کتا، گدھا، گائے، شیر کہا جاتا ہے؟ یہ تمام مرد کے حالات کے خلاف ہوتا ہے ۔ یہ نام جن معنی کے ساتھ ان کیلئے استعمال ہوتے ہیں، اس کیلئے استعمال نہیں کئے گئے کیونکہ انسان شیر اور کتا نہیں ہے۔خدا تجھ پر رحمت کرے ، اس کو سمجھ لے۔
اللہ تعالیٰ کو عالم کہا جاتا ہے۔ یہ نام علم حادث کی وجہ سے نہیں ہے کہ اُس کے ذریعے سے چیزوں کو جانتا ہے۔ آئندہ کے معاملات کی حفاظت کرتا ہے اور پیدا کرنے اور تباہ کرنے میں غوروفکر کرتا ہے۔ جو کچھ اپنی مخلوق میں سے ختم کیا ہے، اُس میں اُسی کے ذریعے مدد طلب کرے کہ اگر وہ علم اُس کے نزدیک حاضر نہ ہوگا اور اُس سے غائب ہوگا تو وہ کچھ نہیں جانتا ہوگا، کمزور ہوگا۔ جیسا کہ مخلوقات میں سے صاحبانِ علم حاضرات کو دیکھتے ہیں کہ اُن میں علم کے پیدا ہونے کی وجہ سے اُن کو عالم کہا جاتا ہے کیونکہ اس سے قبل وہ جاہل تھے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ وہ علم ان سے دور ہوجاتا ہے اور اُن کو جہالت کی طرف لے جاتا ہے۔ خدا کو عالم کہتے ہیں کیونکہ وہ کسی چیز سے نادان نہیں ہے۔ جاہل نہیں ہے”۔
"پس خالق اور مخلوق اسم عالم میں شریک ہیں اور معنی میں مختلف ہیں جیسا کہ تم جان چکے ہو۔ہمارے پروردگار کو سمیع(سننے والا) کہا جاتا ہے۔ اس کا یہ معنی نہیں ہے کہ وہ کان کا سوراخ رکھتا ہے اور اُس کے ذریعے سے وہ سنتا ہے۔ اُس کے ذریعے سے وہ کوئی چیز نہیں دیکھتا۔ہمارے کان کے سوراخ کی طرح کہ ہم اُس کے ذریعے سے سنتے ہیں۔ لیکن اُس کے ذریعے سے دیکھ نہیں سکتے۔ لیکن خدا خود خبر دیتا ہے کہ کوئی آواز اُس سے پوشیدہ نہیں ہے۔ یہ ایسے نہیں ہے جیسے ہم نام لیتے ہیں ۔ پس وہ سمیع(سننے والا) کے نام میں ہمارے ساتھ شریک ہے لیکن معنی مختلف ہے”۔
"اسی طرح اُس کا دیکھنا آنکھ کے سوراخ کے ساتھ نہیں ہے جیسا کہ ہم اپنی آنکھ کے سوراخ کے ساتھ دیکھتے ہیں اور اُس سے کوئی اور فائدہ نہیں لیتے۔ لیکن خدا دیکھنے والا ہے اور جس چیز کی طرف بھی دیکھا جا سکتا ہے، وہ اُس سے لا علم نہیں ہے۔ پس وہ دیکھنے والے نام میں ہمارے ساتھ شریک ہے لیکن معنی میں مختلف ہے۔
وہ قائم ہے، نہ اس معنی کے ساتھ کہ وہ سیدھا کھڑا ہے اور اپنا وزن پنڈلی پر ڈالے ہوئے ہے۔ جیسا کہ دوسری چیزیں اس طرح کھڑی ہوئی ہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ محافظ اور نگہداری کرنے والا ہے۔ جیسا کہ کوئی کہتا ہے کہ فلاں ہمارے امر کے ساتھ قائم ہے۔ خدا ہر جان پر اُس کی نسبت جو اُس نے انجام دیا ہے، قائم اور مسلط ہے۔ لوگوں کی زبان میں قائم باقی کے معنی میں بھی ہے اور سرپرستی کا معنی بھی دیتا ہے۔ جیسا کہ تم کسی کو کہتے ہو کہ فلاں شخص کی اولاد کے معاملہ میں قیام کرو، یعنی اُن کی سرپرستی کرو۔ ہم میں سے قائم اُسی کو کہتے ہیں جو پاؤں پر سیدھا کھڑا ہو۔ پس نام میں اُس کے ساتھ شریک ہوگئے اور معنی میں شریک نہ ہوئے۔ لطیف کا مطلب کمی، باریکی یا چھوٹا ہونا نہیں ہے بلکہ چیزوں میں نفوذ کرجانا اور (احاطہ علمی رکھنا ) اور دیکھا نہ جانا مراد ہے ، جیسا کہ تم کسی شخص کو کہتے ہو کہ یہ کام مجھ سے لطیف ہوا۔ فلاں شخص کردار اور گفتگو میں لطیف ہے۔ تم اُسے بتلا رہے ہو کہ اس معاملہ میں میری عقل جواب دے گئی ہے اور دسترس اس کام میں ممکن نہیں ہے۔ یہ کام اتنا باریک اور گہرا ہوچکا ہے کہ فکر اس کو درک نہیں کر سکتی۔ اسی طرح خدا کا لطیف ہونا اس نظر سے ہے کہ وہ کسی حدووصف کے ذریعے سے درک نہیں ہو سکتا۔ ہماری لطافت کمی اور چھوٹا ہونے کے لحاظ سے ہے۔ پس ہم اُسی کے نام میں شریک ہوگئے لیکن معنی مختلف ہے”۔
"خبیر اُسے کہتے ہیں کہ کوئی چیز اُس سے پوشیدہ نہیں ہے۔ کوئی چیز اُس کے ہاتھ سے دور نہیں ہے۔ خداکا خبیر ہونا چیزوں کے آزمانے اور تعبیر کرنے کے لحاظ سے نہیں ہے۔ اگر تجربہ اور تعبیر کرنا ہے تو وہ جانتا ہے اور اگرتجربہ اور تعبیر نہیں ہے تو وہ نہیں جانتا کیونکہ جو ایسا ہو وہ جاہل ہوتا ہے۔ ہمیشہ اپنی مخلوق کے متعلق علم رکھنے والا ہے۔ لیکن لوگوں کے درمیان جاننے والا اُسے کہتے ہیں کہ جہالت کے ساتھ کسی صاحبِ علم کے پاس علم سیکھے( کہ وہ جہالت کے بعد صاحبِ علم ہوا ہو) ۔پس اُسی کے نام میں شریک ہیں اور معنی مختلف ہے۔
بہرحال خدا کا ظاہر ہونا اس لحاظ سے نہیں ہے کہ وہ چیزوں کے سامنے ظاہر ہوا ہے اور سوار ہوگیا ہے اور اُن پر بیٹھ گیا ہے، اوپر آگیا ہے بلکہ غلبہ ، تسلط اور قدرت کے ذریعے چیزوں کے اوپر ہے جیسا کہ کوئی شخص کہتا ہے کہ میں نے دشمنوں پر غلبہ حاصل کرلیا۔
خدا نے مجھے دشمنوں پر غالب کیا ہے۔ وہ کامیابی اور غلبہ کے متعلق خبر دیتا ہے۔ اسی طرح ہے خدا کا غلبہ چیزوں پر۔
ظاہر ہونے کا دوسرا معنی یہ ہے کہ جو کوئی بھی اُسے طلب کرتا ہے، اُ س کیلئے ظاہر ہے(اور خدا کے لئے تمام چیزیں ظاہر ہیں) ۔کوئی چیز اُس سے پوشیدہ نہیں ہے اور جو کچھ اُس نے پیدا کیا ہے، اُس کی تدبیر کرنے والا ہے۔ کون سا ظاہر اللہ تبارک و تعالیٰ سے ظاہر تر اور روشن تر ہے کیونکہ جس طرف بھی تم نظر کرو، اُس کی صنف موجود ہے۔ خود تیرے وجود میں اُس کے بہت سارے آثار موجود ہیں۔ ہم میں سے ظاہر وہ ہے جو خود آشکار، محدود اور معین ہو۔ پس نام میں شریک ہیں اور معنی میں مختلف ہیں”۔
"خدا کے باطن ہونے سے مراد یہ نہیں ہے کہ وہ چیزوں کے اندر ہے بلکہ باطن ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اُس کا علم، نگہداری اور تدبیر چیزوں کے اندر تک جاسکتی ہے۔ جیسا کہ کوئی کہتا ہے کہ میں اچھی طرح باخبر ہوگیا ہوں اور اُس کے پوشیدہ راز کو جانتاہوں۔ ہمارے درمیان باطن وہ ہے جو چیزوں کے درمیان گم ہوگیا ہو اور چھپ گیا ہو۔ پس ہم نام میں شریک ہیں اور معنی میں مختلف ہیں۔
خدا کے قاہر ہونے سے مراد رنج و زحمت، چارہ جوئی، پیارومحبت اور فریب و دھوکا نہیں ہے۔ جیسا کہ بعض بندوں میں سے دوسرے بعض پر غلبہ حاصل کرتے ہیں اور مغلوب غالب آجاتا ہے اور غالب مغلوب ہوجاتا ہے۔ لیکن خداکا قاہر ہونا یہ ہے کہ اُس کی تمام مخلوق اُس کے مقابلے میں ذلت اور خواری کا لباس پہنے ہوئے ہے۔ان کے بارے میں خدا جس چیز کا ارادہ کرتا ہے، وہ اس سے انکار نہیں کر سکتے۔ آنکھ جھپکنے کے برابر بھی اُس کی حکومت سے ،جو یہ کہتا ہے کہ ہوجا، بس وہ ہوجاتا ہے۔ خارج نہیں ہیں۔ ہمارے درمیان قاہر اس طرح کا ہوتا ہے جیسے میں نے بیان کیا اور اُس کا وصف کیا۔ پس ہم نام میں شریک ہیں اور معنی میں مختلف ہیں۔
خدا کے تمام نام اسی طرح ہیں اور ہم نے اگر تمام ناموں کو بیان نہیں کیا تو اس لئے کہ جتنے نام ہم نے لئے ہیں، نصیحت اور فکر کرنے کیلئے کافی ہیں”۔
تیرا خدا ہدایت اور ہماری توفیق میں ہمارا اور تمہارا مددگار ہو۔
(کافی:ج ۱ ،ص ۱۲۰)
۵ ۔ اسمائے الٰہی کے حدوث میں امام علیہ السلام کا کلام
ابن سنان سے روایت ہے ، وہ کہتا ہے: میں نے امام علیہ السلام سے سوال کیا کہ کیا خدا مخلوق کوخلق کرنے سے پہلے اپنی ذات کو پہچانتا تھا؟
آپ نے فرمایا: ہاں۔
میں نے کہا:وہ اُسے دیکھتا تھا اور سنتا تھا؟ آپ نے فرمایا:
اسے اس کی ضرورت نہ تھی کیونکہ نہ اُس سے کوئی سوال رکھتا تھا اور نہ کوئی خواہش ، وہ صرف خود ہی خود تھا۔ اُس کی قدرت نافذ تھی۔ پس اُسے ضرورت نہ تھی کہ اپنی ذات کو کوئی نام دے۔ لیکن اُس نے اپنے لئے کچھ نام چنے تاکہ دوسرے اُن کے ساتھ اُسے بلائیں کیونکہ اگر وہ اپنے نام کے ساتھ پکارا نہ جاتا تھا تو پکارا نہ جاتا۔
سب سے پہلے جس نام کا انتخاب کیا، وہ علی عظیم تھا کیونکہ وہ تمام چیزوں سے افضل ہے۔ اُس کا نام(اُس کی ذات کے اعتبار سے) اللہ ہے اور (صفات کے اعتبار سے) علی عظیم ہے۔ جو سب ناموں سے اُس کا پہلا نام ہے اور ہر چیز سے بلند تر ہے۔
(کافی:ج ۱ ،ص ۱۱۳)
کتاب” صحیفہ امام رضا علیہ السلام "سے اقتباس)

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button