توحیدعقائد

واللہ خیرالرازقین کاصحیح مفہوم

تحقیق وتحریر : مولانا نعیم عباس نجفی ( فاضل جامعہ الکوثر، متعلم حوزہ علمیہ نجف اشرف)
کچھ حضرات عام طور پر آئمہ اطہار ع کے رازق ہونے کی دلیل یہ دیتے ہیں کہ اللہ تعالی ٰنے خود کہا ہے کہ میں رازقین میں سے بہتر ہوں جس کے لئے وہ سورہ جمعہ کی آخری آیت پیش کرتے ہیں "واللہ خیرالرازقین ۔”
اور استدلال کا طریقہ یہ اختیار کیا جاتا ہے کہ آیت میں کلمہ خیر استعمال ہوا ہے جو افعل التفضیل ہے اور رازقین ،رازق کی جمع ہے لہذا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کائنات کے بہت سے رازق ہیں جن میں سے اللہ بہترین رزق دینے والا ہے جب اللہ خود اپنے علاوہ کو رازق کہہ رہا ہے اگر ہم آئمہ اطہار ؑکو رازق کہیں تو اس میں کیا غلط ہے ؟ اسی لئے کہا جا سکتا ہے کہ آئمہ اطہار ع اللہ کی جانب سے مقرر ہیں کہ اس کی مخلوق میں اس کی مرضی سے رزق تقسیم کریں ۔
یہ تھا استدلال کا طریقہ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ استدلال کس حد تک قابل قبول ہے اور اس سے مطلوبہ نتیجہ لینے میں کیا خرابی لازم آتی ہے ۔
جواب :صرف عربی کا ترجمہ کر دینا مسئلہ کا حل نہیں ہوتا بلکہ قرآن کی آیت سے استدلال کے لئے ادبیات کی ہر جہت کو مدنظر رکھنا ضروری ہوتا ہے یہی تو ہم میں اور دیگر مسالک میں بنیادی فرق ہے کہ ہم ترجمہ میں عقلی ونقلی دلائل کو بھی مدنظر رکھتے ہیں تا کہ کوئی خرابی لازم نہ آئے اس کے لئے ایک ہی مثال کافی ہے کہ قرآن میں جہاں بھی اللہ کی ذات کے لئے ” وجہ یا ید” کا لفظ آیا ہے اس سے ان کا لفظی ترجمہ نہیں کیا جا سکتا ہے کیونکہ خدا جسم وجسمانیت سے منزہ ہے اس لئے ان کے کنائی معنی کئے جاتے ہیں جیسے وجہ سے مراد ذات اور ید سے مراد قدرت و طاقت لیا جاتا ہے تا کہ عقائد کے لحاظ سے بھی درست ہو جائے اور محال عقلی بھی لازم نہ آئے ۔ورنہ اگر ید اور وجہ کے حقیقی معنی مراد لئے جائیں تو یہ جسمانی اعضاء ہیں جن سے جسم کا ہونا لازم آتا ہے اور جسم زمان ومکان کا محتاج ہے جبکہ اللہ کسی کا محتاج نہیں ۔
لفظ خیرکی وضاحت
یہاں اس بات کی وضاحت کرنی ضروری ہے کہ ہر جگہ لفظ “خیر” تفضیل کے لئے نہیں آتا تفضیل کا معنی یہ ہوتا ہے کہ دو چیزیں بہتر ہوتی ہیں البتہ اس میں سے ایک زیادہ بہتر ہوتی ہے مثلا زید اور علی دو عالم ہوں اور علی علمی لحاظ سے زیادہ قابل ہوں تو کہا جائے گا” علی اعلم من زید” کہ علی زید سے زیادہ جاننے والا ہے ۔ عربی زبان میں کچھ کلمات تفضیل کا معنی دینے کے لئے استعمال ہوتے ہیں جیسا کہ کلمہ خیر بھی ہے جو اکثر مقام پر تفضیل کا معنی دیتا ہے جب وہ "اخیر” کا مخفف ہوتا ہے لیکن اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ جہاں بھی خیر آیا ہو وہاں تفضیل کا معنی پایا جاتا ہو کہ دونوں طرف بہتری ہو اور ایک زیادہ بہتر ہو کیونکہ ہمیں ایسے مقام بھی ملتے ہیں جہاں پر خیر استعمال تو ہوا لیکن ایک طرف بہتری ہے دوسری جانب بلکل بھی نہیں ہوتی ہے ۔
جیسا کہ سورہ آل عمران کی آیت 26 میں ہے :
” وَ تُعِزُّمَنْ تَشاءُ وَ تُذِلُّ مَنْ تَشاءُ بِيَدِكَ الْخَيْرُ إِنَّكَ عَلى‏ كُلِّ شَيْ‏ءٍ قَديرٌ "
” توجسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلت دیتا ہے ،تمام خوبیاں تیرے ہاتھ میں ہیں کیونکہ تو ہر چیز پر قادر ہے ۔”
اس کے ترجمہ سے ہی بات واضح ہو جاتی ہے لیکن مفسرین کی آراء بھی ذکر کئے دیتے ہیں۔
اس بناء پر لفظ خیر افعل التفضیل نہیں بلکہ صفت مشبہ ہے اور اس کے اسم تفضیل نہ ہونے کی دلیل بلکہ واضح ثبوت یہ ہے کہ اسے ان موارد میں استعمال کیا جاتا ہے جہاں اس تفضیل کا معنی ہر گز نہیں پایا جاتا اس کی قرآنی مثال سورہ مبارکہ جمعہ میں ملاحظہ فرمائیں۔
"قُلْ ما عِنْدَ اللَّهِ خَيْرٌ مِنَ اللَّهْوِ”
"کہہ دیجئے کہ جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ لہوولعب سے بہتر ہے ۔” ( جمعہ، آیت:11)
اس میں لہو لعب کے مقابل میں لفظ خیر کا استعمال اس امر کا ثبوت ہے کہ یہاں تقابلی برتری ملحوظ نہیں کیونکہ لہو میں خیر کا کوئی پہلو نہیں پایا جاتا کہ جس کی بنا پر تفضیل کا معنی درست ہو (کیونکہ اسم تفضیل میں قدر مشترک کا پایا جانا ضروری ہے تا کہ موازنہ و تقابل درست قرار پائے )۔۔۔ خداوندعالم خیر مطلق ہے کیونکہ ہر شی کا منتہی وہی ہے اور ہر شی کی بازگشت اسی کی طرف ہوتی ہے اور ہر چیز کا مطلوب ومقصود اسی کی ذات ہے لیکن قرآن مجید میں لفظ خیر خدا وند عالم کے دیگر اسماء کی طرح ان میں سے ایک اسم کے طور پر ذکر نہیں ہوا بلکہ اسے خدا وندعالم کی ایک صفات کے طور پر ذکر ہوا ہے چنانچہ ارشاد ہوا ہے۔
وَ اللَّهُ خَيْرٌ وَ أَبْقى‏ (طہ 73)
"اللہ سب سے بہتر اور سب سے زیادہ باقی رہنے والا ہے”
يا صاحِبَيِ السِّجْنِ أَ أَرْبابٌ مُتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ اللَّهُ الْواحِدُ الْقَهَّارُ ( یوسف-39) ِ
"اے میرے زندان کے ساتھیو! کیا متفرق ارباب بہتر ہیں یا وہ اللہ جو یکتا ہے جو سب پر غالب ہے”
وَ اللَّهُ خَيْرُ الرَّازِقينَ (11الجمعہ )
"اور اللہ بہترین رزق دینے والا ہے”
اس کے بعد صاحب تفسیر نے دس گیارہ مقام اور بھی ذکر کئے ہیں۔
پھرفرمایا شاید ان تمام موارد میں لفظ خیر میں انتخاب کا معنی ملحوظ ہو اسی لئے خیر کو خداوندعالم کے اسم کے طور پر ذکر نہیں کیا گیا تا کہ ایسا نہ ہو کہ اس کی مقدس ذات کا قیاس وموازنہ اس کے غیر سے ہونے لگے اور خیر مطلق کی بابت کوئی دوسرا بھی مقابل کے طور پر قرار پائے ،ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا اور اس کی ذات اس سے بلند ہے کہ اس کا موازنہ و مقائسہ کسی سے کیا جا سکے۔
(تفسیر المیزان علامہ طباطبائی ج3 ص 316 تا 319)
سورہ آل عمران کی مندرجہ بالا آیت کے ذیل میں علامہ حسین بخش جاڑا مرحوم لکھتے ہیں :
خیر صفۃ مشبہ ہے اس کا اصل معنی انتخاب ہے ۔۔۔اور چونکہ اس کو افضل کی جگہ استعمال کیا جاتا ہے مثلا افضل القوم کی جگہ خیر القوم کہنا درست ہے پس اسی بناء پر اس کو افعل التفضیل قرار دے کر اس کی اصل اخیر قرار دینے کا تکلف کیا گیا ہے حالانکہ چند چیزوں میں افضل اسے کہا جائے گا جب اس کے مقابل کی چیزوں میں اصل فضیلت موجود ہواور اس میں بنسبت ان کے زیادتی پائی جائے لیکن خیر کے محل استعمال میں یہ چیز ضروری نہیں ،مثلا قُلْ ما عِنْدَ اللَّهِ خَيْرٌ مِنَ اللَّهْوِ یہاں انعامات اخرویہ کو لہو سے خیر کہا گیا ہے حالانکہ انعامات خداوندی اور لہو میں کوئی قدرمشترک نہیں تا کہ زیادتی صفت کے لحاظ سے انعامات خداوندی کو برتری حاصل ہو۔
(انوارالنجف فی اسرارالمصحف ج3ص212)
سورہ آل عمران کی آیت 26 کے ذیل میں صاحب تفسیر نمونہ لکھتے ہیں :
لفظ خیر کا فارسی میں متبادل ہے بہتر یہ افعل التفضیل اور ایک چیز کی دوسرے پر برتری بیان کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے ،تاہم ہر اچھے امر کےلئے بھی بولا جاتا ہے مثلا سورہ بقرہ آیت 211 میں آیا ہے "وَ لَعَبْدٌ مُؤْمِنٌ خَيْرٌ مِنْ مُشْرِك””‏ مشرک کی نسبت بندہ مومن سے شادی کرنا بہتر ہے” ۔ظاہر ہے مشرک میں تو کوئی اچھائی اور خوبی نہیں کہ کہا جا سکے کہ وہ اچھا ہے ااور مومن اس سے بہتر ہے ۔۔۔اس بنا پر افعل التفضیل صرف موازنہ کے لئے استعمال ہوتا ہے اگرچہ ایک طرف وہ صفت بلکل موجود نہ ہو اور فقط دوسری طرف پائی جائے ۔
(تفسیر نمونہ ج2ص289)
ان تفاسیر کے جائزہ سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ لفظ خیر کا معنی ہر جگہ تفضیل نہیں ہوتا بلکہ کچھ ایسے مقام پر بھی استعمال ہو سکتا ہے جہاں پر اصلا تفضیل متصور ہی نہ ہو اور صفت ایک جانب مفقود ہو اور صرف دوسری جانب پائی جائے جس سے وہ لوگ جو لفظ خیر سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ "خیرالرازقین "میں رازق بہت ہیں اللہ ان سب سے بہتر ہے یہ استدلال ناقص قرار پاتا ہے ۔
واللہ خیر الرازقین میں لفظ خیر کس معنی میں ہے ؟
اب دیکھتے ہیں کہ خود ہماری محل بحث آیت میں خیر الرازقین میں لفظ خیر کس معنی میں استعمال ہوا ہے اگرچہ سابقہ بحث میں تفسیر میزان کے ضمن میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے لیکن قارئین کی تسلی کے لئے خود مطلوبہ آیت پر کچھ بحث کرنا بھی ضروری ہے سورہ جمعہ کی آخری آیت کے ذیل میں علامہ طباطبائی لکھتے ہیں
خير مستعمل في الآية مجردا عن معنى التفضيل كما في قوله تعالى: «أَ أَرْبابٌ مُتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ اللَّهُ الْواحِدُ الْقَهَّارُ»: (يوسف: 39) و هو شائع في الاستعمال.
( الميزان فى تفسير القرآن، ج‏19، ص: 275)
کہ لفظ خیر اس آیت میں تفضیل کے معنی سے خالی ہے جیسا کہ اللہ کے اس قول میں ہے
أ أَرْبابٌ مُتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ اللَّهُ الْواحِدُ الْقَهَّارُ ( یوسف-39) ِ
کیا متفرق ارباب بہتر ہیں یا وہ اللہ جو یکتا ہے جو سب پر غالب ہے”
اور اس طرح کا استعمال (جہاں خیر تفضیل کے لئے نہیں آتا )عام ہے۔
پھر اسی آیت کے ذیل میں آیت اللہ محمد حسین فضل اللہ رقمطراز ہیں۔
فإن معنى التفضيل في كلمة «خير» لم يأت للمفاضلة۔۔۔
کلمہ خیر میں معنی تفضیل ، مفاضلہ کے لئے نہیں آیا ہے۔

(تفسير من وحى القرآن،فضل الله سيد محمد حسين‏ ج‏22، ص: 221(
اس کے علاوہ بھی دسیوں تفاسیر اس بات پر شاہد ہیں کہ واللہ خیر الرازقین میں لفظ خیر مفاضلہ کے لئے نہیں آیا تو جب یہاں تفضیل کا معنی پایا ہی نہیں جاتا تو معصومین ع کو اس آیت سے رازق ثابت کرنا چہ معنی دارد ؟
اصل میں اس موضوع پر بحث عبث ہے کیونکہ واجب الوجود اور ممکن الوجود میں کیسا تقابل ؟ اگر کوئی ایسا سوچے بھی تو خالصۃ جہالت ہے ۔
رازقین سے مراد
اب دیکھنا یہ ہے کہ یہاں رازقین سے مراد کیا ہے تفاسیر اور کتب کلامیہ کے مطالعہ کے بعد ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ رازقین سے مراد یہ ہے کہ عرب جب کو اپنا رازق وخالق مانتے تھے اللہ ان کو جواب دے رہا ہے کہ اللہ ان سے بہتر ہے جیسا کہ حضرت یوسف ع نے بھی اپنے قیدی ساتھیوں سے کہا تھا أَ أَرْبابٌ مُتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ اللَّهُ الْواحِدُ الْقَهَّارُ ( یوسف-39) ِ کیا متفرق ارباب بہتر ہیں یا اللہ جو واحدوقہار ہے ؟ تو یہاں حضرت یوسف ان کو یہ نہیں کہنا چاہتے کہ جن کو تم رب ،رازق وخالق مانتے ہو وہ بھی بہتر ہیں لیکن اللہ زیادہ بہتر ہے بلکہ متعدد ارباب کی نفی کر کے خدائے واحدوقہار کے لئے اس صفت کو ثابت کیا جارہا ہے ۔
نیز مفسرین یہ بات متعدد بار لکھ چکے ہیں کہ اہل عرب اللہ کو مانتے تھے لیکن بتوں کو قرب الہی کا وسیلہ کہتے تھے لہذا انہوں نے زعم فاسد میں ان کو من جانب اللہ خالق ورازق سمجھتے تھے اور ان کے اسی گمان فاسد کو رد کرتے ہوئے اللہ نے خیرالرازقین فرمایا ہے کہ جن کو تم اپنے باطل گمان میں خالق سمجھتے ہو اس سے اللہ بہتر ہے ۔بلکل اسی طرح ایک مقام پر فرمایا ہے:
أَ تَدْعُونَ بَعْلاً وَ تَذَرُونَ أَحْسَنَ الْخالِقينَ (الصافات : 125)
کیا تم لوگ بعل (بت )کو پکارتے ہو اور احسن الخالقین کو چھوڑ دیتے ہو ۔
دوسرا معنی یہ کیا گیا ہے کہ چونکہ جو بھی کسی شی کو وجود دے وہ لغوی معنی میں خالق کہلاتا ہے البتہ یہ نسبت ان کی طرف مجازی دی جاتی ہے کونکہ خالق حقیقی اور عدم سے وجود میں لانے والی ذات صرف اللہ جل جلالہ کی ذات ہے نیز مجازات کی دنیا بہت وسیع ہے اس کے لحاظ سے تو اسلام بھی معیار نہیں اگر کوئی غیر مسلم بھی کوئی شئی ایجاد کرتا ہے تو اس کے لئے بھی خالق بمعنی موجد استعمال ہو سکتا ہے لہذا اگر کوئی اس معنی میں ائمہ کو خالق کہنا بھی چاہے تو اس میں کوئی فضیلت نہیں ہے۔نیز یہ نسسبت ائمہ ع کی طرف دینی چاہئے یا نہیں اس کے لئے بعدوالی بحث کا مطالعہ کافی رہے گا۔
اور ساتھ ہی واضح کر دوں کہ اس آیت کو دلیل بنا کر معصومین ع کو رازق ثابت کرنے والے کیا کہیں سے ثابت کر سکتے ہیں کہ کسی معصوم ع نے بھی اس آیت کی وضاحت میں خود کو رازقین میں سے قرار دیا ہو ؟ ھاتوابرہانکم ان کنتم صادقین
کیا آئمہ اطہار ؑ کی طرف خلق ورزق کی نسبت دینا جائز ہے ؟
اس مقام پر ہم صرف علماء کی تصریحات کے بیان پر اکتفا کریں گئے ۔شیخ طبرسی ؒ اپنی تفسیر میں سورہ فاطر کی آیت 3 هَلْ مِنْ خالِقٍ غَيْرُ اللَّهِ يَرْزُقُكُمْ مِنَ السَّماءِ وَ الْأَرْضِ لا إِلهَ إِلاَّ هُوَ فَأَنَّى تُؤْفَكُونَ (اللہ کے علاوہ ایسا خالق کون ہے جو تمہیں زمین و آسمان سے رزق دے؟ اس کے سوا کوئی معبود نہیں پس تم کہاں الٹے پھرے کا رہے ہو ؟ ) کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ “ هذا استفهام تقرير لهم و معناه النفي ليقروا بأنه لا خالق إلا الله يرزق من السماء بالمطر و من الأرض بالنبات و هل يجوز إطلاق لفظ الخالق على غير الله سبحانه فيه وجهان (أحدهما) أنه لا تطلق هذه اللفظة على أحد سواه و إنما يوصف به غيره على جهة التقييد و إن جاز إطلاق لفظ الصانع و الفاعل نحوهما على غيره (و الآخر) أن المعنى لا خالق يرزق و يخلق الرزق إلا الله تعالى‏
(مجمع البيان فى تفسير القرآن، ج‏8، ص: 626)
یعنی یہ بظاہر استفہام جس کے معنی نفی کے ہیں (کہ اللہ کے سوا کوئی رازق نہیں )تا کہ یہ لوگ اقرار کر لیں کہ خدا کے سوا کوئی رازاق نہں جو آسمان سے بارش برسا کر اور زمین سے انگوری اگا کر رزق پہنچاتا ہے اب کیا اللہ کے علاوہ پر اس لفظ خالق کا اطلاق جائز ہے ؟ اس میں دو وجہیں ہیں ایک یہ کہ سوائے خدا کے کسی پر اس کا اطلا ق جائز نہیں ہے اللہ کے علاوہ کسی کو اس سے متصف قید کیساتھ کیا جائے گا اگرچہ لفظ صانع وفاعل وغیرہ کا اطلاق اللہ کے علاوہ پر جائز ہے اور دوسری یہ کہ اس کا معنی ہے کہ اللہ کے سوا کوئی بھی نہ ہی رازق ہے جو رزق دے اور نہ ہی خالق ہے جو خلق کرے۔
علامہ مرزا محمد تنکابنی ؒ نے اپنی کتاب میں لکھا ہے :
اخبار بسیار ازائمہ اطہار علیھم صلوات الملک الجبار وارد یافت کہ نسبت خلق ورازق را بائمہ دادن موجب کفروضلالت است و ائمہ ازاں منع فرمودہ اند
(قصص العلماء ص 44)
آئمہ اطہار علیھم السلام سے بہت سی روایات واخبار وارد ہوئی ہیں کہ خلق و رزق کی نسبت دینا باعث کفر وگمراہی ہے آئمہ اطہار ع نے اس سے سخت ممانعت فرمائی ہے ۔
نیز نسبت مجازی کی نا جائز ہونے کے بارے میں علامہ شہر آشوب لکھتے ہیں ۔
انا لا نطلق ھذہ الصفۃ الا فیہ تعالی لان ذالک یوہم
ہم اس صفت (خالقیت)کا اطلاق صرف اللہ کی ذات پر کرتے ہیں کیونکہ (غیر خدا پر اس کا اطلاق کرنا) غلط معنوں کا وہم پیدا کرتا ہے (متشابہ القرآن ج1ص173)
«قُلِ اللَّهُ خَالِقُ كُلّ شَيْ‏ءٍ»: يدل هذا على عدم جواز نسبة الخلق إلى الأنبياء والأئمّة، وكذا قوله: «هَلْ مِنْ شُرَكَائِكُمْ مَنْ يَفْعَلُ مِنْ ذَلِكُمْ مِنْ شَيْ‏ءٍ» فإنّه يدل‏ على‏ عدم‏ جواز نسبة الخلق‏، والرزق‏ والإماتة والإحياء إلى غيره سبحانه وإنّه شرك.
) مفاهيم القرآن،جعفرسبحانی تبریزی ج‏1، ص: 477(
آیت اللہ جعفرسبحانی صاحب لکھتے ہیں کہ اللہ خالق کل شی یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ خلق کی نسبت انبیاء اور ائمہ ع کی طرف دینا جائز نہیں ہے اسی طرح اللہ کے قول ھل من شرکائکم ۔۔۔ یہ بھی دلالت کرتا ہے کہ خلق ورزق اور اماتت واحیاء کی نسبت اللہ کے علاوہ کی طرف دینا جائز نہیں ہے اور ایسی نسبت دینا شرک ہے ۔
اس کے علاوہ بھی بہت تصریحات ہیں لیکن ایک بصیر فرد کے لئے یہی حوالہ جات اور تصریحات کافی و شافی رہیں گئے۔
نتیجہ بحث
کہ ہر جگہ لفظ “خیر” تفضیل کے لئے نہیں آتا اور نہ ہی اس آیت میں کسی پہلو سے اللہ کے سوا کسی کا رازق ہونا ثابت ہوتا ہے نیز ہم نے ثابت کر دیا کہ معصومین ؑ کی طرف رازقیت کی نسبت دینا جائز ہی نہیں ہے اور جو لوگ اس آیت کو بنیاد بنا کر استدلال کرتے ہیں جہالت کی عمدہ مثال ہیں جو پہلے تو اس سے تفضیل کا معنی لیتے ہیں حالانکہ واجب الوجود اور ممکن الوجود میں کیسا تفاضل ؟
اور پھر رازقین سے مراد معصومین لیتے ہیں جس کا مطلب ہے کہ معصومین بھی رازق تو ہیں لیکن اللہ بہترین رازق ہے اور معصومین بہتر رازق نہیں عجیب منطق ہے بہتر کے ہوتے ہوئے کسی اور سے مانگنا کون سی دانش وری ہے ؟
بہر حال ہم نے غالیوں کے اس آیت سے استدلال کو مکمل طور پر ناقص قرار دے دیا اور ثابت کیا کہ آیت سے معصومین کے رازق ہونے کا استدلا ل قرآن و حدیث نیز دلائل عقلیہ وادبیات عربیہ سے مخالف ہے ۔
مومنین کرام یقینا آپ نے اس مختصر تحقیق کو توجہ سے پڑھا ہو گا اور یقینا نہایت مفید رہا ہو گا ۔آج ہماری ذمہ داری یہ بنتی ہے کہ آل محمدصلوات اللہ علیھم کی پاکیزہ تعلیمات کے خلاف اندرونی و بیرونی طاقتوں کا مقابلہ کریں اور دنیا کو صحیح تعلیمات سے روشناس کرائیں ۔

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button