
معاد کی تعریف اس طرح بھی کی گئی ہے: ”فنا کے بعد دوبارہ وجود کی طرف پلٹنا“ یا ”اجزاء بدن کے منتشر ہونے کے بعد دوبارہ بدن کی طرف رجوع کرنا“ یا ”مرنے کے بعد زندہ ہونا“، یا ”جسم سے روح نکلنے کے بعد دوبارہ روح کا واپس آنا۔
لیکن آیا معاد فقط روحانی ہے یا جسمانی اس میں اختلاف ہے، بعض فلاسفہ کے نظریہ کے مطابق معاد صرف روحانی ہے، چونکہ ان کی نظر میں ایک قاعدہ عقلی ہے کہ ”إن المعدوم لا یعاد“ (جو چیز ختم ہوگئی وہ دوبارہ پلٹ نہیں سکتی)لہٰذا جب جسم موت کی وجہ سے معدوم ہوگیا تو پھر اس کا پلٹنا ناممکن نہیں، لہٰذا یہ لوگ کہتے ہیں کہ معاد صرف روح سے متعلق ہے کیونکہ روح فنا نہیں ہوتی،بلکہ روح باقی رہتی ہے
لیکن جسمانی معاد کے معتقد حضرات تقریباً تمام ہی مسلمین، متکلمین، فقہاء، اہل حدیث اور صوفی حضرات کا یہ نظریہ ہے کہ روز قیامت اسی جسم کے ساتھ پلٹائے جائیں گے، جیسا کہ خداوندعالم نے بھی بیان کیا ہے۔
البتہ ان لوگوں نے روح کی بازگشت اور اس کے ٹھکانے کے بارے میں اختلاف کیا ہے، اور اس اختلاف کا سبب خود روح کے سلسلہ میں پائی جانے والی تفسیر اور اس کے معنی ہیں۔
پہلی بحث: معاد کے لغوی اور اصطلاحی معنی
معاد کے لغوی معنی:ہر چیز کا اپنے مقصد او رانتہاکی طرف پلٹنا، اور یہ ”عادالیہ “ کا مصدرہے جس طرح کھاجاتا ہے: ”یعود عوداً وعودةً ومعاداً“ یعنی اس کی طرف رجوع کیا اور اس کی طرف پہنچ گیا، جیسا کہ خداوندعالم کا ارشاد ہے:
کَمَا بَدَاٴَکُمْ تَعُودُونَ [1]جس طرح اس نے تمھیں شروع میں پیدا کیا تھا اسی طرح پھر (دوبارہ) زندہ کئے (اور لوٹائے) جاوٴگے۔ “
اور یہ بنفسہ متعدی[2] بھی ہوجاتا ہے،اور ہمزہ کے ذریعہ بھی متعدی بناتے ہیں، یعنی باب افعال میں لے جاکر متعدی بناتے ہیں جیسے: ”عاد الشیءَ عوداً وعِیادا“، ”واعدتُ الشیء “یعنی میں نے اس کو دوبارہ بنادیا، یا اس کو دوبارہ پلٹادیا۔ جیسا کہ خداوندعالم کا قول ہے:
ثُمَّ یُعِیدُکُمْ فِیہَا وَیُخْرِجُکُمْ إِخْرَاجًا [3]پھر تم کو اسی میں دوبارہ لے جائے گا اور (قیامت میں اسی سے)نکال کھڑا کرے گا“۔
معاد کی اصل ”مَعْود“ بر وزن ”مَفْعل“ہے جس کے واو کو الف سے بدل دیا گیا، اس کی بہت سی مثالیں بھی ہیں جیسے مقام اور مراح،جس کو حضرت امیر المومنین علیہ الصلاۃ والسلام نے ایک حدیث کے ضمن میں بیان فرمایا ہے:
والحکم اللّٰہ والمعود الیہ القیامة “۔[4]مَفْعل“ اور اس سے مشتق بمعنی عَودمصدر صحیح میں استعمال ہوتا ہے،اور معاد (عود) اسم زمان و مکان دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے:
إِنَّ الَّذِی فَرَضَ عَلَیْکَ الْقُرْآنَ لَرَادُّکَ إِلَی مَعَادٍ [5](اے رسول خدا ) جس نے تم پر قرآن نازل کیا ضرور ٹھکا نے تک پہنچا دے گا“۔
اور جیسا کہ حدیث میں وارد ہوا ہے:
واصلح لی آخرتی التی فیھامعاد ي“۔ پالنے والے میری آخرت کی اصلاح فرما، جہاں مجھے پلٹ کر جانا ہے۔
”مبدیٴ المعید“ خدا کے صفات میں سے ایک صفت ہے، کیونکہ خداوندعالم نے تمام مخلوقات کو زندگی دی اس کے بعد ان کو موت دے گا اور پھر قیامت کے دن دوبارہ زندہ کرے گا، جیسا کہ ارشاد خداوندعالم ہوتا ہے:
وَہُوَ الَّذِی یَبْدَاٴُ الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیدُہُ وَہُوَ اٴَہْوَنُ عَلَیْہِ [6]
”اور وہ ایسا (قادر مطلق) ہے جو مخلوقات کو پہلی بار پیدا کرتا ہے پھر دوبارہ(قیامت کے دن )پیدا کرے گااور یہ اس پر بہت آسان ہے۔
معاد کے اصطلاحی معنی:
معاد کے اصطلاحی معنی: خداوندعالم کا تمام چیزوں کو مرنے اور ان کے اجزاء بکھرجانے کے بعد دوبارہ زندہ کرنا ہے۔[7]
معاد کی تعریف اس طرح بھی کی گئی ہے: ”فنا کے بعد دوبارہ وجود کی طرف پلٹنا“ یا ”اجزاء بدن کے منتشر ہونے کے بعد دوبارہ بدن کی طرف رجوع کرنا“ یا ”مرنے کے بعد زندہ ہونا“، یا ”جسم سے روح نکلنے کے بعد دوبارہ روح کا واپس آنا[8]
لیکن آیا معاد فقط روحانی ہے یا جسمانی اس میں اختلاف ہے، بعض فلاسفہ کے نظریہ کے مطابق معاد صرف روحانی ہے، چونکہ ان کی نظر میں ایک قاعدہ عقلی ہے کہ ”إن المعدوم لا یعاد“ (جو چیز ختم ہوگئی وہ دوبارہ پلٹ نہیں سکتی)لہٰذا جب جسم موت کی وجہ سے معدوم ہوگیا تو پھر اس کا پلٹا ناممکن نہیں، لہٰذا یہ لوگ کہتے ہیں کہ معاد صرف روح سے متعلق ہے کیونکہ روح فنا نہیں ہوتی، (بلکہ روح باقی رہتی ہے)
لیکن جسمانی معاد کے معتقد حضرات تقریباً تمام ہی مسلمین، متکلمین، فقہاء، اہل حدیث اور صوفی حضرات کا یہ نظریہ ہے کہ روز قیامت اسی جسم کے ساتھ پلٹائے جائیں گے، جیسا کہ خداوندعالم نے بھی بیان کیا ہے۔
البتہ ان لوگوں نے روح کی بازگشت اور اس کے ٹھکانے کے بارے میں اختلاف کیا ہے، اور اس اختلاف کا سبب خود روح کے سلسلہ میں پائی جانے والی تفسیر اور اس کے معنی ہیں چنانچہ ان میں سے ایک گروہ یہ کہتا ہے کہ روح بھی ایک جسم ہوتا ہے جو انسان کے بدن میں جاری وساری ہوتا ہے جیسے کوئلہ میں آگ اور دریا میں پانی، چنانچہ ان کی نظر میں معاد جسم و روح سے متعلق ہے جس کو جسمانی معاد کہاجاتا ہے۔ دوسرا گروہ جس میں بہت سے بزرگ حکماء، عظیم الشان علماء کلام وعرفان ہیں، جو کہتے ہیں کہ روح مجرد ہے لیکن یہ روح روز قیامت جسم میں پلٹ جائے گی، ان کے نزدیک یہ معاد جسمانی اور روحانی ہے، چنانچہ اس بنا پر معاد کے سلسلہ میں تین نظریے قائم ہوتے ہیں:
۱۔ معاد روحانی۔
۲۔ معاد جسمانی۔
۳۔ معاد جسمانی و روحانی۔[9]
دوسری بحث: عقیدہ معاد کے آثار
خداوندمتعال نے اعتقاد بالمعاد اس لئے فرض کیا ہے کہ یہ ایک ثابت حقیقت ہے اور اس کا وجود واقعی ہے لہٰذا ایمان بالمعاد ایک امر واقع پر ایمان و اعتقاد رکھنا ہے اور ایک حتمی و ضروری قضا کے سامنے تسلیم ہونا ہے۔
جیسا کہ ارشاد خداوندعالم ہوتا ہے:
وَقَالَ الَّذِینَ کَفَرُوا لاَتَاٴْتِینَا السَّاعَةُ قُلْ بَلَی وَرَبِّی لَتَاٴْتِیَنَّکُمْ عَالِمِ الْغَیْبِ لاَیَعْزُبُ عَنْہُ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ فِی السَّمَاوَاتِ وَلاَفِی الْاٴَرْضِ وَلَااٴَصْغَرُ مِنْ ذَلِکَ وَلاَاٴَکْبَرُ إِلاَّ فِی کِتَابٍ مُبِینٍ [10]اور کفار کہتے ہیں کہ قیامت آنے والی نہیں ہے، تو آپ کہہ دیجئے کہ میرے پروردگار کی قسم !وہ ضرور آئے گی، وہ عالم الغیب ہے، اس کے علم سے آسمان و زمین کا کوئی ذرہ دور نہیں ہے اور نہ اس سے چھوٹا اور نہ بڑا، بلکہ سب کچھ اس کی روشن کتاب (لوح محفوظ) میں محفوظ ہے۔ “
لیکن روز قیامت پر ایمان رکھنے کی وجہ سے پیدا ہونے والے آثارو فوائد جیسے شریعت کے احکام سے واقف ہونا اور اس کے احکام و قوانین کے مطابق عمل کرنا(اور جو آثار شریعت کی پیروی سے پیدا ہوتے ہیں مثلاً انسان اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں صالح اور دیندار بن جاتا ہے، اخلاق و تہذیب کے میدان میں نیک کردار ہوجاتا ہے، نفسیاتی طور پر اس میں نیک سیرت اور اچھائی پیدا ہوتی ہے اور احکام خداوندی پر عمل کرنے سے اس کے فضل و کمال پیدا ہوجاتا ہے وغیرہ وغیرہ، ) یہ ساری چیزیں اعتقاد بالمعاد کی فرع ہیں یعنی اول اعتقاد بالمعاد ہوگا تب یہ ساری چیزیں پیدا ہوسکتی ہیں، قارئین کرام! ہم یہاں پر ان اہم آثار و فوائد کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
۱۔انسانی زندگی پر معاد کے آثارو فوائد
قارئین کرام ! یہ بات ظاہر ہے کہ انسانی ہدایت و راہنمائی کی ضرورت کے پیش نظر بعثت انبیاء ضروری ہے اور یہ اسی صورت میں کارساز ہوسکتی ہے کہ جب اس ہدایت کو نافذ کرنے والی ایک بہترین قدرت ان کے پاس ہو، تاکہ انسان ان کی اطاعت و فرماں برداری کرے، یہ الٰھی تعلیمات و احکام انسان کو آمادہ کردیتی ہیں جس کی وجہ سے انسان ہدایت و راہنمائی کے ساحل پر پہنچ جاتا ہے، بغیر اس کے کہ اس کی ذرہ برابر بھی مخالفت اور تجاوز کرے، لیکن اگر وہ قوت او رقدرت نہ ہو تو پھر یہ تعلیمات اور احکام صرف موعظہ بن کر رہ جائیں گے، جس کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہتی، اور انسانی زندگی میں بے اثر ہوجاتی ہے۔
جب ہم بعض دنیاوی قوانین کو دیکھتے ہیں (جیسے سزائے موت، عمر قید، پھانسی اور جلا وطن کرنا وغیرہ) تو نفس پر کنٹرول کرتے ہیں اور یہ قوانین نیک اور اچھے کاموں کی طرف ہدایت کرتے ہیں، لیکن ہم خارج میں دیکھتے ہیں کہ یہ قوانین انفرادی و اجتماعی شرّ و فساد کو بالکل ختم کرنے میں ناکافی ہیں اور نہ ہی ان کے ذریعہ انسانی انفرادی یا اجتماعی سعادت و کمال کا حصول ممکن نہیں۔
یہ قوانین اس بنا پر معاشرہ سے شر و فساد کوختم کرنے میں ناکافی ہیں کہ قوانین جہاں مجرمین و اشرار کو بڑی سے بڑی سزا دینے میں کفایت کرتے ہیں وہیں پر جب سیاسی حضرات کی باری آتی ہے تو ان قوانین پر عمل نہیں ہوتا، حکام وقت اپنے خود ساختہ قوانین کے سایہ میں لوگوں کا مال ہضم کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
اس کے بعد یہ بات بھی واضح ہے کہ انسان کی زندگی میں ظاہری اسباب بھی موثر ہوتے ہیں جیسا کہ اکثر حکومتوں میں سزائی قوانین مرتب کئے جاتے ہیں، اور یہ قوانین اس حکومت کی طاقت کے زور پر نافذ کئے جاتے ہیں، لیکن اگر کسی حکومت میں قوانین نافذ کرنے کی طاقت ہی نہ ہو تو اس ملک میں بدامنی اور فساد پھیل جاتاہے اور پھر ان قوانین کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہتی، اور نہ ہی ان قوانین سے کسی کو خوف و وحشت ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی ان کو احترام کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔
لہٰذا جب ہم نے یہ بات مان لی کہ قوانین ہی کے ذریعہ مجرمین کی تعداد کم کی جاسکتی ہے، اور انہیں قوانین کے ماتحت حکومت چل سکتی ہے، لیکن کبھی کبھی ایسے مواقع آتے ہیں جہاں پر انسان تنہائی کے عالم میں ہوتا ہے اور وہاں پر اس حکومت کی رسائی نہیں ہوتی اور نہ ہی وہاں تک قانون کی رسائی ہوتی ہے اور ان شاذ و نادر جرائم کو حکومت فاش نہیں کرپاتی، مثلاً انسان نفسانی شہوات کا شکار ہوجائے اور اس پر سوار شیطان ہوجائے:
وَیُرِیدُ الشَّیْطَانُ اٴَنْ یُضِلَّہُمْ ضَلاَلًا بَعِیدًا [11]اور شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ انہیں بہکا کے بہت دور لے جائے “۔
إِنَّ الشَّیْطَانَ کَانَ لِلْإِنسَانِ عَدُوًّا مُبِینًا [12]کیونکہ شیطان تو ایسی ہی باتوں سے فساد ڈلواتا ہے اس میں شک ہی نہیں کہ شیطان آدمی کا کھلا ہوا دشمن ہے“۔
اگر کوئی شخص کہے: ایک کافر و ملحد بھی کبھی کبھی صاحب فضیلت ہوتا ہے تو یہ اس کی ظاہری فضیلت ہوتی ہے،جس کی بنیاد نفسانی اصول نہیں ہوتے ہیں، ان کے اندر یہ اچھائیاں معاشرہ کے خوف کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں، یا حکومتی قوانین کے خوف سے پیدا ہوتی ہیں، چنانچہ اگر یہ دونوں چیزیں سامنے نہ ہوں اور وہ آزاد ہوں، تو پھر وہ کسی بھی طرح کے اخلاق کی رعایت نہیں کریں گے، کسی کی بے عزتی کریں گے اور کسی کا مال لوٹیں گے، یا دوسری حرام چیزوں کے مرتکب ہوں گے، کیونکہ جب نفس پر شہوت کاغلبہ ہوجاتا ہے تو پھر وہ کسی بھی برائی سے پرہیز نہیں کرتا اور برائی میں غرق ہوتا ہوا نظر آتا ہے، پس یہ فضیلت اس شخص میں کیسے جلوہ گر ہوسکتی ہے جو اپنے کو فانی حیوان سمجھتا ہے؟
لہٰذا حکومت کی طرف سے بنائے گئے قوانین یہاں تک کہ آج کل کے ترقی یافتہ ممالک میں بھی بعض افراد کو خصوصی چھوٹ دی جاتی ہے تاکہ وہ موجودہ شرائط کے ساتھ اپنی زندگی آرام سے گزار سکےں، اور یھی انسان کا کردار معاشرہ میں اثرانداز ہوجاتا ہے جس کی بنا پر انسان دنیا و آخرت کو سنوار سکتا ہے۔
جیسا کہ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام سے مروی ہے کہ ایک شخص نے آپ کی خدمت میں آکر کہا: میں ایک عاصی اور گناہگار شخص ہوں، اور گناہوں پر صبر بھی نہیں کرسکتا، لہٰذا مجھ کو نصیحت فرمائےے اس وقت امام علیہ السلام نے نصیحت فرمائی:
"افعل خمسة اٴشیاء و اذنب ما شئت، فاٴول ذلک: لا تاٴکل رزق اللّٰه، و اذنب ما شئت، والثانی: اخرج من ولایة اللّٰه، و اذنب ما شئت، والثالث: اطلب موضعاً لایراک فیہ الله،و اذنب ما شئت، والرابع: إذا جاء ملک الموت لیقبض روحک فادفعہ عن نفسک،و اذنب ما شئت، والخامس: إذا اٴدخلک مالک في النار فلاتدخل النار، و اذنب ما شئت“۔[13]
”پانچ کام انجام دینے کی طاقت حاصل کرلو اس کے بعد جو چاہو گناہ کرو،پہلی: خداوندعالم کا عطا کردہ رزق نہ کھاؤ،اس کے بعد جو چاہو گناہ کرو، دوسری: خدا کی ولایت و حکومت سے نکل جاؤ پھر جو چاہو گناہ کرو،تیسری: کوئی ایسی جگہ تلاش کرلو جہاں پر خدا نہ دیکھ سکے، پھر جو چاہو گناہ کرو، چوتھی: جب ملک الموت تمہاری روح قبض کرنے کے لئے آئے تو اس کو روح قبض نہ کرنے دینا، پھر جو چاہو گناہ کرو، پانچویں: جب داروغہ دوزخ تمھیں آتش جہنم میں ڈالنا چاہے تو داخل نہ ہونے کی قدرت حاصل کرلو، پھر جو چاہو گناہ کرو،“۔
پس ایک بندہ مومن کا اعتقاد یہ ہونا چاہئے کہ ہر چیز خداوندعالم کے ارادہ اور حکومت کے تابع ہے، اس کی ولایت کے ما تحت ہے، خداوندعالم انسان کے ہر ہر اعمال اور حرکات و سکنات کو دیکھتا ہے، ان تمام چیزوں سے باخبر ہے جو انسان کے دل میں پیدا اورخطور کرتی ہیں، یھی وہ اعمال ہیں جو انسان کے مرنے کے بعد سے قیامت تک کے لئے اس کے ساتھی ہوں گے، اور انہیں اعمال کی بنیاد پر ثواب و عقاب دیا جائے گا، ان کے علاوہ اور کوئی چیز کام آنے والی نہیں ہے۔
حضرت رسول اکرم کا ارشاد گرامی ہے:
"یتبع المرء ثلاثة: اٴہلہ و مالہ و عملہ، فیرجع اثنان و یبقی واحد، یرجع اٴہلہ و مالہ و یبقی عملہ“۔[14]
روز قیامت پر ایمان کے نتائج میں سے یہ ہیں: انسان اس بات پر عقیدہ رکھے کہ ہم لوگ آنے والی چیزوں کے مقروض اور گزشتہ چیزوں کے مرہون منت ہیں، ایک روز آنے والا ہے جس دن اس خدا کی بارگاہ میں حاضر ہونا ہے جو حساب و کتاب کرنے والا ہے اور اس سے چھوٹی سی چیز بھی مخفی نہیں ہے، تمام لوگوں سے ان کے اعمال، افعال اور مخفی ہر خیر و شرّکے بارے میں سوال کیا جائے گا، اور اسی لحاظ سے جزا اور سزا دی جائے گی،جیسا کہ خداوندعالم ارشاد فرماتا ہے:
وَلاَتَکْسِبُ کُلُّ نَفْسٍ إِلاَّ عَلَیْہَا وَلاَتَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ اٴُخْرَی [15]
”اور جو شخص کوئی برا کام کرتا ہے اس کا وبال اسی پر ہے اور کوئی شخص کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھا ئےگا “۔
نیز ارشاد فرماتا ہے:
کُلُّ نَفْسٍ بِمَا کَسَبَتْ رَہِینَةٌ [16]
”ہر شخص اپنے اعمال کے بد لے گرو ہے“۔
پس فضائل اور برائیوں کا معیار و مقیاس انسان کے اعمال ہیں، اور یہی اعمال خدا کی رحمت سے نزدیک اور دور ہونے کی بنیاد ہیں، کیونکہ روز قیامت انسان کی شکل و صورت دیکھ کر حساب و کتاب نہیں کیا جائے گا، نہ ہی حسب و نسب کے لحاظ سے، نہ ہی تجارت وکثرت اولاد اور کثرت مال کو مد نظر رکھ کر حساب و کتاب کیا جائے گا۔
حواشی
[1] سورہٴ اعراف آیت ۲۹۔
[2] فعل کی دو قسمیں ہوتی ہیں ایک لازم (جس کا اثر دوسرے تک نہ پہنچے، جیسے میں گیا،) دوسرے متعدی ( جس کا اثر دوسرے تک پہنچے جیسے میں نے زید کو مارا)، مترجم۔
[3] سورہٴ نوح آیت۱۸۔
[4] نہج البلاغہ / صبحی الصالح:۲۳۱ خطبہ نمبر۱۶۲۔ دار الھجرة۔ قم۔
[5] سورہٴ قصص آیت ۸۵۔
[6] سورہٴ روم آیت۲۷۔، لغوی معنی کے سلسلہ میں رجوع کریں: لسان العرب ۳ ابن منظور۔ عود۔۳/ ۳۱۵۔ادب الحوزہ۔ قم، مفردات القرآن / الراغب۔ عود۔: ۳۵۱۔المکتبہ المرتضویہ۔ طہران، المصباح المنیر/ الفیومی۔ عاد۔: ۲۔۱۰۱مصر،معجم مقاییس اللغہ / ابن فارس۔ عود۔۴:۱۸۱۔دارالفکر۔ بیروت۔
[7] النافع یوم الحشر فی شرح الباب الحادی عشرفاضل مقداد: ۸۶ انتشارات زاہدی۔
[8] شرح المقاصد /التفتازانی ۵:۸۲۔الشریف الرضی۔ قم۔
[9] المبداء و المعاد / صدرا الدین الشیرازی: ۳۷۴۔۳۷۵،حق الیقین / عبد اللہ شبر ۲:۳۶۔۳۷ مطبعہ العرفان۔ صیدا۔
[10] سورہٴ سباآیت۳۔
[11] سورہٴ نساء آیت۶۰۔
[12] سورہٴ اسراء آیت۵۳۔
[13] جامع الاخبار /سبزواری: ص۳۵۹/۱۰۰۱۔موٴ سسہ آل البیت علیہ السلام قم،بحار الانوار /علامہ مجلسی ج۷۸ص۱۲۶/۷، از امام حسین علیہ السلام۔
[14] کنزل العما ل /متقی ہندی ۱۵:۶۹۰/۴۲۷۶۱۔موٴسسہ الرسالہ۔ بیروت۔
[15] سورہٴ انعام آیت۱۶۴۔
[16] سورہٴ مدثر آیت۳۸۔
https://shiastudies.com/ur/597/% /




