خطبہ جمعۃ المبارک (شمارہ:326)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک 24 اکتوبر 2025 بمطابق 30 ربیع الثانی 1447ھ)
تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
جنوری 2019 میں بزرگ علماء بالخصوص آیۃ اللہ شیخ محسن علی نجفی قدس سرہ کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
موضوع: علم کی فضیلت و اہمیت
﷽
اما بعد فقد قال اللّٰہ تبارک و تعالیٰ فی کلامہ المجید:
قُلۡ هَلۡ يَسۡتَوِي الَّذِينَ يَعۡلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعۡلَمُونَۗ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُوْلُواْ الۡأَلۡبَٰبِ
فضیلتِ علم اور مقامِ عالم
مومنین کرام! آج ہم ایک ایسے موضوع پر گفتگو کر رہے ہیں جو دینِ اسلام کی اساس اور انسانیت کی معراج کا زینہ ہے۔ وہ موضوع "علم” ہے۔ اسلام وہ واحد دین ہے جس کا آغاز ہی لفظ "اِقْرَأْ” (پڑھو) سے ہوا۔ غارِ حرا میں پیغمبرِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہونے والی پہلی وحی، قلم اور علم کی اہمیت کو بیان کرتی ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اقۡرَأۡ بِاسۡمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ خَلَقَ الۡإِنسَٰنَ مِنۡ عَلَقٍ اقۡرَأۡ وَرَبُّكَ الۡأَكۡرَمُ الَّذِي عَلَّمَ بِالۡقَلَمِ عَلَّمَ الۡإِنسَٰنَ مَا لَمۡ يَعۡلَمۡ (سورۃ العلق، آیات ۱-۵)
ترجمہ: "پڑھو اپنے اس رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔ جس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا۔ پڑھو، اور تمہارا رب سب سے بڑا کریم ہے۔ جس نے قلم کے ذریعے تعلیم دی۔ اس نے انسان کو وہ سب کچھ سکھا دیا جو وہ نہیں جانتا تھا۔”
اہل ارض پر اللہ کی رحمتوں کا نزول شروع ہوا۔ یعنی رحمۃ اللعالمین پر ایک عظیم انسان ساز انقلاب کے لیے وحی کا نزول شروع ہوا جس کی ابتدا اس حکم سے ہوئی: اِقۡرَاۡ! پڑھ! لکیروں کی تحریر نہیں بلکہ کائنات کی کھلی ہوئی کتاب پڑھ۔ اس پڑھائی کی ابتدا اپنے پروردگار کے نام سے ہو اور اس کتاب کا پہلا باب اللہ تعالیٰ کی خلاقیت کا مطالعہ ہو۔ دوسرا باب اس کائنات کے عظیم معجزہ انسان کی خلقت ہو۔ پھر اس انسان کی تعلیم اور اس کے اہم ترین ذریعہ قلم کا ذکر شروع کرنے سے معلوم ہوا کہ اس عظیم رسالت کا عنوان قرائت و کتابت ہے۔ یعنی پڑھنا لکھنا، انسان کی تعلیم، ترقی اور تہذیب و تمدن میں ایک عظیم انقلاب کی بنیاد ہے۔(تفسیر الکوثر)
یہ آیات واضح کرتی ہیں کہ علم وہ روشنی ہے جو انسان کو جہالت کے اندھیروں سے نکال کر معرفتِ الٰہی اور اس کے مقصدِ تخلیق تک پہنچاتی ہے۔ علم ہی انسان اور حیوان کے درمیان وجہِ امتیاز ہے، اور علم ہی کی بدولت حضرت آدم علیہ السلام مسجودِ ملائکہ قرار پائے۔
1. طلبِ علم کی اہمیت قرآن کی نظر میں:
اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر علم اور اہلِ علم کی فضیلت کو بیان فرمایا ہے۔ علم کو جہالت کے مقابلے میں ایک ایسی برتری قرار دیا ہے جو کسی اور چیز کو حاصل نہیں۔
پہلی آیت:
ارشاد ہوتا ہے:
قُلۡ هَلۡ يَسۡتَوِي الَّذِينَ يَعۡلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعۡلَمُونَۗ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُوْلُواْ الۡأَلۡبَٰبِ (سورۃ الزمر، آیت ۹)
ترجمہ: "(اے نبی!) کہہ دیجیے: کیا وہ لوگ جو علم رکھتے ہیں اور وہ جو علم نہیں رکھتے، برابر ہو سکتے ہیں؟ نصیحت تو صرف عقل والے ہی قبول کرتے ہیں۔”
اس آیت سے عالم کی یہ تعریف سامنے آتی ہے:
عالم وہ ہے جو ابتدا و آخر شب میں عبادت کرتا ہے۔ قیامت کا خوف اور رحمت الٰہی کی امید رکھتا ہے، خواہ اصطلاح میں وہ ان پڑھ ہی کیوں نہ ہو اور جاہل وہ ہے جس میں یہ اوصاف نہ ہوں، خواہ اصطلاح میں اسے سب سے بڑا علامہ سمجھا جاتا ہو۔
چنانچہ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے روایت ہے:
لَا یَکُونُ الرَّجُلُ مُؤْمِناً حَتّٰی یَکُونَ خَائِفاً راجیاً وَ لاَ یَکُونُ خَائِفاً رَاجِیاً حَتّٰی یَکُونَ عَالِماً لِمَا یَخَافُ وَ یَرْجُو۔ (مستدرک الوسائل ۱۱:۲۲۶)
بندہ اس وقت تک مومن نہیں ہوتا جب تک خوف کرنے والا اور امید رکھنے والا نہ ہو اور خوف کرنے والا اور امید رکھنے والا نہیں ہو سکتا جب تک اس چیزکا علم نہ ہو جس سے خوف کرنا اور جس کی امید رکھنا ہے۔
حدیث میں آیا ہے۔
لاَ خَیْرَ فِی الْعَیْشِ اِلَّا لِرَجُلَیْنِ عَالِمٍ مُطَاعٍ اَوْ مُسْتَمِعٍ وَاعٍ۔ (الکافی باب صفۃ العلم ۱: ۳۳)
صرف دو آدمیوں کی زندگی میں خیر ہے۔ ایک عالم جس کی بات مان لی جاتی ہو دوسرا بات سننے اور سمجھنے والا۔
قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ اس آیت میں یَعۡلَمُوۡنَ اور لَا یَعۡلَمُوۡنَ میں موازنہ ہے۔ یعنی جاننے والوں اور نہ جاننے والوں میں موازنہ ہے۔ یہ نہیں فرمایا کس چیز کے جاننے والے۔ اگر کسی خاص چیز کے نہ جاننے والے کا ذکر ہوتا تو اسی علم کے ساتھ مخصوص ہوتا۔ چونکہ کسی کا ذکر نہیں ہے لہٰذا ہر علم کی بلا امتیاز فضیلت ہے۔ لہٰذا علم کی بمقابلہ جہالت فضیلت ہے۔(تفسیر الکوثر)
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:
تَفَکُّرُ سَاعِۃٍ خَیْرٌ مِنْ عِبَادَۃِ سَنَۃٍ (قَالَ اللّٰہُ) اِنَّمَا یَتَذَکَّرُ اُولُوا الۡاَلۡبَابِ۔ (مستدرک الوسائل ۱۱: ۱۸۳ )
ایک گھڑی فکر سے کام لینا ایک سال کی عبادت سے بہتر ہے اللہ کا ارشاد ہے نصیحت عقل والے ہی قبول کرتے ہیں۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:
النَّاسُ ثَلَاثَۃٌ عَالِمٌ وَ مُتَعَلِّمٌ وَ غُثَائٌ۔ (الکافی ۱: ۳۴ )
لوگ تین قسم کے ہیں: عالم، طالب علم یا خس و خاشاک۔
دوسری آیت:
ایک اور مقام پر اہلِ علم کے درجات کی بلندی کا یوں اعلان فرمایا:
یَرۡفَعِ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ ۙ وَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡعِلۡمَ دَرَجٰتٍ ؕ (سورۃ المجادلہ، آیت ۱۱)
ترجمہ: "…تم میں سے جو لوگ ایمان لے آئے اور وہ لوگ جنہیں علم دیا گیا ہے ان کے درجات کو اللہ بلند فرمائے گا”
اس آیت کی ایک تفسیر یہ کی گئی ہے: تم میں ایمان لانے والوں میں سے جنہیں علم دیا گیا ان کا درجہ بلند ہے ان مومنوں کی بہ نسبت جنہیں علم نہیں دیا گیا ہے۔(تفسیر الکوثر)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے دو گروہوں کے درجات کی بلندی کا وعدہ فرمایا ہے: (۱) اہلِ ایمان، اور (۲) اہلِ علم۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان کے ساتھ اگر علم بھی ہو تو یہ انسان کے درجات کو کہیں سے کہیں پہنچا دیتا ہے۔ یہ "درجات” صرف آخرت تک محدود نہیں بلکہ دنیا میں بھی اہلِ علم کو فکری، روحانی اور معاشرتی بلندی عطا کی جاتی ہے۔
2. علم کی فضیلت اہل بیت (ع) کی نظر میں
قرآن کے بعد، سیرتِ معصومین علیہم السلام علم کی فضیلت کے تذکروں سے بھری پڑی ہے۔
حدیثِ وجوبِ طلبِ علم:
ہمارے آقا و مولا، سرورِ کائنات حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
«طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيضَةٌعَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ»
"علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔” (اصول الکافی، کتاب فضل العلم، باب ۱، حدیث ۱)
(بعض روایات میں "وَمُسْلِمَةٍ” کا اضافہ بھی نقل ہوا ہے یعنی ہر مسلمان مرد و عورت پر)
یہ حدیث علم کو کسی خاص طبقے، جنس یا عمر تک محدود نہیں کرتی، بلکہ اسے ہر مسلمان کے لیے "فریضہ” یعنی واجب قرار دیتی ہے۔ البتہ یہاں علم سے مراد یقیناً علمِ نافع ہے یعنی ایسا علم جس سے وہ اپنے دین اور دنیا کو سنوار سکے۔
علم کی مال پر برتری:
امیرالمومنین، امام المتقین حضرت علی علیہ السلام علم اور مال کا موازنہ کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں (کمیل ابن زیاد کو مخاطب کر کے):
یَا كُمَیْلُ! الْعِلْمُ خَیْرٌ مِّنَ الْمَالِ: الْعِلْمُ یَحْرُسُكَ وَ اَنْتَ تَحْرُسُ الْمَالَ، وَ الْمَالُ تَنْقُصُهُ النَّفَقَةُ، وَ الْعِلْمُ یَزْكُوْ عَلَى الْاِنْفَاقِ، وَ صَنِیْعُ الْمَالِ یَزُوْلُ بِزَوَالِهٖ.
ترجمہ: "اے کمیل! یاد رکھو کہ علم مال سے بہتر ہے، (کیونکہ)علم تمہاری نگہداشت کرتا ہے اور مال کی تمہیں حفاظت کرنا پڑتی ہے، اور مال خرچ کرنے سے گھٹتا ہے لیکن علم صرف کرنے سے بڑھتا ہے، اور مال و دولت کے نتائج و اثرات مال کے فنا ہونے سے فنا ہو جاتے ہیں۔۔”
یَا كُمَیْلَ بْنَ زِیَادٍ! مَعْرِفَةُ الْعِلْمِ دِیْنٌ یُّدَانُ بِهٖ، بِهٖ یَكْسِبُ الْاِنْسَانُ الطَّاعَةَ فِیْ حَیَاتِهٖ، وَ جَمِیْلَ الْاُحْدُوْثَةِ بَعْدَ وَفَاتِهٖ، وَ الْعِلْمُ حَاكِمٌ، وَ الْمَالُ مَحْكُوْمٌ عَلَیْهِ.
اے کمیل! علم کی شناسائی ایک دین ہے کہ جس کی اقتدا کی جاتی ہے۔ اسی سے انسان اپنی زندگی میں دوسروں سے اپنی اطاعت منواتا ہے اور مرنے کے بعد نیک نامی حاصل کرتا ہے۔ یاد رکھو کہ علم حاکم ہوتا ہے اور مال محکوم۔
یَا كُمَیْلُ! هَلَكَ خُزَّانُ الْاَمْوَالِ وَ هُمْ اَحْیَآءٌ، وَ الْعُلَمَآءُ بَاقُوْنَ مَا بَقِیَ الدَّهْرُ: اَعْیَانُهُمْ مَفْقُوْدَةٌ، وَ اَمْثَالُهُمْ فِی الْقُلُوْبِ مَوْجُوْدَةٌ.
اے کمیل! مال اکٹھا کرنے والے زندہ ہونے کے باوجود مردہ ہوتے ہیں اور علم حاصل کرنے والے رہتی دنیا تک باقی رہتے ہیں۔ بے شک ان کے اجسام نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں مگر ان کی صورتیں دلوں میں موجود رہتی ہیں۔
(نہج البلاغہ، حکمت ۱۴۷)
مولا علی (ع) نے اس حکمت میں علم کی لازوال فضیلت کو واضح کیا ہے۔ مال فانی ہے اور اس کی حفاظت ایک بوجھ ہے، جبکہ علم باقی ہے اور وہ خود انسان کا محافظ ہے۔ جسے جتنا پھیلایا جائے، اس میں اتنا ہی اضافہ اور نکھار پیدا ہوتا ہے۔
طلبِ علم کا ثواب:
چھٹے امام، حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام، علم کے راستے پر چلنے کا ثواب یوں بیان فرماتے ہیں:
«مَنْ سَلَكَ طَرِيقاًيَطْلُبُ فِيهِ عِلْماًسَلَكَ اللَّهُ بِهِ طَرِيقاًإِلَى الْجَنَّةِ،وَإِنّ َالْمَلَائِكَةَلَتَضَعُ أَجْنِحَتَهَالِطَالِبِ الْعِلْمِ رِضًابِهِ…»
ترجمہ: "جو شخص علم حاصل کرنے کے لیے کوئی راستہ اختیار کرتا ہے، اللہ اسے جنت کے راستے پر چلاتا ہے۔ اور فرشتے طالبِ علم سے خوش ہو کر اس کے لیے اپنے پَر بچھا دیتے ہیں۔” (اصول الکافی، کتاب فضل العلم)
تشریح:یہ حدیث حصولِ علم کے سفر کی روحانی عظمت کو بیان کرتی ہے۔ طالبِ علم کا ہر قدم جنت کی طرف اٹھتا ہے اور کائنات کی معزز ترین مخلوق (فرشتے) اس کے احترام میں اپنے پر بچھاتی ہے۔
3. علمِ نافع:
یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ اسلام میں ہر علم کی تعریف نہیں کی گئی، بلکہ صرف اس علم کی فضیلت ہے جو "نافع” یعنی فائدہ مند ہو۔ علم کا مقصد محض معلومات کا ذخیرہ کرنا یا دنیاوی مفادات حاصل کرنا نہیں ہے، بلکہ علم کا حقیقی مقصد "خشیتِ الٰہی” اور "معرفتِ نفس” ہے۔
قرآنی معیار:
اللہ تعالیٰ نے عالم کی حقیقی پہچان یہ بتائی ہے:
﴿…إِنَّمَايَخْشَى اللّٰهَ مِن ْعِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ…﴾ (سورۃ فاطر، آیت ۲۸)
ترجمہ: ” اللہ کے بندوں میں سے صرف اہل علم ہی اس سے ڈرتے ہیں،”
علم کی وجہ سے پردے ہٹ جاتے ہیں۔ پردے ہٹ جانے سے بہت سے حقائق جو جاہل سے پوشیدہ ہیں، عالم کے سامنے آجاتے ہیں۔ حقائق کے منکشف ہونے کے بعد عالمِ خطرات کو بھانپ لیتا ہے، بالکل اس شخص کی طرح جو قانون اور جرم و سزا سے آشنا ہو۔ وہ قانون کے عدل سے خوف کھاتا ہے اور جو شخص صحت کے اصولوں سے واقف ہو وہ مضر صحت چیزوں سے خوف کھاتا ہے۔(تفسیر الکوثر)
آیت میں علماء سے مراد صرف وہ لوگ نہیں ہیں جنہیں اصطلاح میں علماء کہا جاتا ہے۔ عالم وہ ہے جس کا علم اسے خوف خدا سے آشنا کرے۔ حدیث میں آیا ہے:
یَعْنِی بِالْعُلَمَائِ مَنْ صَدَّقَ فِعْلُہُ قَوْلَہُ وَ مَنْ لَمْ یُصَدِّقْ فِعْلُہُ قَوْلَہُ فَلَیْسَ بِعَالِمٍ۔ (الکافی ۱: ۳۶ )
علماء سے مراد وہ ہیں جن کا عمل ان کے قول کی تصدیق کرے، جن کا عمل ان کے قول تصدیق نہ کرے وہ عالم نہیں ہیں۔
دوسری حدیث میں آیا ہے:
عِلم لا یُصلِحُک ضَلال ومال لا یَنفَعُکَ وَبال۔ (غرر الحکم حکمت:۱۹۲ )
وہ علم جو تیری اصلاح نہ کرے ضلالت(گمراہی) ہے اور وہ مال جو تجھے فائدہ نہ دے وبال ہے۔
نیز حدیث ہے:
اَعلَمُکُم بِاللّٰہِ اَخوَفَکُم لِلّٰہِ۔ (بحار ۶۷: ۳۴۴ )
تم میں سے زیادہ عالم باللہ وہ ہے جو اللہ سے زیادہ خوف رکھتا ہو۔
اسی لیے پیغمبرِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ دعا مانگا کرتے تھے:
«اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُبِكَ مِنْ عِلْمٍ لَايَنْفَعُ،وَمِنْ قَلْبٍ لَايَخْشَعُ،وَمِنْ نَفْسٍ لَاتَشْبَعُ،وَمِنْ دُعَاءٍلَايُسْمَعُ»
ترجمہ: "اے اللہ! میں تجھ سے اس علم کی پناہ مانگتا ہوں جو نفع نہ دے، اور اس دل کی جو (تیرے حضور) نہ جھکے، اور اس نفس کی جو سیر نہ ہو، اور اس دعا کی جو قبول نہ ہو۔” (بحار الانوار، ج ۲، ص ۳۲)
4. عالمِ باعمل کا مقام و مرتبہ:
جب علم "نافع” ہو اور عالم "باعمل” ہو، تو اسلام ایسے عالم کو وہ مقام عطا کرتا ہے جو انبیاء کے قریب ترین ہے۔
علماءانبیاء کے وارث:
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
«…إِنّ َالْعُلَمَاءَوَرَثَةُالْأَنْبِيَاءِ،إِنَّ الْأَنْبِيَاءَلَمْ يُوَرِّثُوادِينَاراًوَلَادِرْهَماًوَإِنَّمَاوَرَّثُواالْعِلْمَ…»
ترجمہ: "…بیشک علماء انبیاء کے وارث ہیں۔ اور انبیاء درہم و دینار (مال و دولت) کا وارث نہیں بناتے، بلکہ وہ علم کا وارث بناتے ہیں۔” (اصول الکافی، کتاب فضل العلم)
یہ ایک عظیم مقام ہے کہ علماء کو انبیاء کا جانشین اور وارث قرار دیا گیا ہے۔ جس طرح انبیاء کا کام لوگوں کی ہدایت کرنا، انہیں جہالت سے نکالنا اور اللہ سے جوڑنا تھا، یہی ذمہ داری اب علماءِ ربانی کے کندھوں پر ہے۔
عالم کی سیاہی کی فضیلت:
امام جعفر صادق علیہ السلام اپنے جدِ امجد رسول اللہ (ص) سے نقل فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن علماء کے قلم کی سیاہی کو شہداء کے خون کے ساتھ تولا جائے گا:
«إِذَاكَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِوُزِنَ مِدَادُالْعُلَمَاءِبِدِمَاءِالشُّهَدَاءِ،فَيُرَجَّحُ مِدَادُالْعُلَمَاءِعَلَى دِمَاءِالشُّهَدَاءِ»
ترجمہ: "جب قیامت کا دن ہوگا تو علماء کی روشنائی (قلم کی سیاہی) کو شہداء کے خون کے ساتھ تولا جائے گا، پس علماء کی روشنائی کو شہداء کے خون پر برتری دی جائے گی۔” (بحار الانوار، ج ۲، ص ۱۴)
اس کی وجہ یہ ہے کہ شہید اپنے خون سے ایک قوم یا ایک سرحد کی مادی حفاظت کرتا ہے، لیکن ایک عالمِ باعمل اپنے قلم (علم) سے پوری نسلِ انسانی کی فکری، عقیدتی اور روحانی سرحدوں کی حفاظت کرتا ہے اور انہیں ابدی ہلاکت سے بچاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں علمِ نافع حاصل کرنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وآلِ مُحَمَّدٍ وعَجِّلْ فَرَجَهُمْ
٭٭٭٭٭


