خطبات جمعہسلائیڈرمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک (شمارہ:324)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک 10 اکتوبر 2025 بمطابق 16 ربیع الثانی 1447ھ)
تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

جنوری 2019 میں بزرگ علماء بالخصوص آیۃ اللہ شیخ محسن علی نجفی قدس سرہ کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
موضوع: تفسیر سورہ توحید

محترم مؤمنینِ کرام!
قرآنِ مجید انسانیت کے لیے ہدایت کا آخری سرچشمہ ہے، اور اس کو سمجھنا محض ایک فضیلت نہیں بلکہ ایک دینی فریضہ ہے۔ رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا:
خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَهُ
تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو قرآن سیکھے اور دوسروں کو سکھائے۔
اسی قرآن میں ایک سورہ ایسی ہے جو پورے قرآن کا خلاصہ کہلاتی ہے،  وہ ہے سورہ الاخلاص۔
یہ سورہ توحیدِ خالص کا ایسا نچوڑ ہے جس میں نہ صرف عقیدۂ توحید کی بنیاد رکھی گئی بلکہ شرک کی تمام صورتوں کو جڑ سے ختم کردیا گیا۔
آج کے اس بابرکت جمعہ میں ہم سورہ الاخلاص کی تفسیر پر گفتگو کریں گے تاکہ دلوں میں توحید کی روشنی پیدا ہو، عقیدے میں صفا آئے، اور عمل میں اخلاص پیدا ہو — کیونکہ قرآن کو سمجھنا ہی حقیقی عبادت ہے۔
حضرت علیؑ  کا سورۃ توحید سےعشق:
آیات کی تفسیر کی طرف جانے سے پہلے یہ بیان کر لیتے ہیں کہ امیر المومنین امام المتقین امام علی علیہ السلام کی سورہ توحید سے کس قدر عشق تھا۔
اس سورۃ المبارکہ کی فضیلت میں یہ بات اہم ہے کہ اس کی کثرت سے تلاوت کرنا اللہ کے ساتھ عشق و محبت کی علامت ہے اور اس شخص کو اللہ کی محبت کی سعادت حاصل ہوتی ہے جو اس سورۃ کی کثرت سے تلاوت کرتا ہے۔
چنانچہ کتاب التوحید میں مذکور ہے: عمرو بن حصین نے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کو ایک مہم پر سردار بنا کر بھیجا۔ جب واپس ہوئے تو لوگوں سے پوچھا گیا تو لوگوں نے کہا: سب بخیر ہے۔ صرف یہ کہ علی (علیہ السلام) نے ہمیں ہر نماز قُلۡ ہُوَ اللّٰہُ کے ساتھ پڑھائی۔ اس پر علی (علیہ السلام) سے پوچھا تو علی (علیہ السلام) نے جواب میں فرمایا: لحبی لقل ھو اللّٰہ۔ قُلۡ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ سے مجھے محبت ہے اس لیے۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
ما احببتھا حتی احببک اللّٰہ۔
جب تک اللہ نے آپ سے محبت نہیں کی آپ نے اس قُلۡ ہُوَ اللّٰہُ سے محبت نہیں کی۔
شاید یہی وجہ ہے کہ نماز کی دونوں رکعتوں میں الحمد کے بعد باقی کوئی سورت دونوں رکعتوں میں پڑھنا مکروہ ہے لیکن سورہ توحید دونوں رکعتوں میں پڑھنا مکروہ نہیں ہے۔
اسی طرح ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ پنجگانہ نمازوں میں سے کسی ایک نماز میں بھی سورہ توحید نہ پڑھنا مکروہ ہے۔(توضیح المسائل)

پہلی آیت: قُلْ ہُوَ اللّٰہُ أَحَدٌ (الاخلاص: 1)
اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب سے فرمایا:
قُلْ ہُوَ اللّٰہُ أَحَدٌ
"کہہ دیجیے: وہ اللہ ہے، یکتا ہے۔”
یہ آیت اعلانِ توحید ہے — یعنی اللہ کی ذات ایسی یکتائی رکھتی ہے کہ اس میں کسی قسم کا دوہرا پن، ترکیب، یا محتاجی نہیں۔
توحید کی اقسام علمائے کرام نے یوں بیان کی ہیں:
1. توحیدِ ذاتی
2. توحیدِ صفاتی
3. توحیدِ افعالی
4. توحیدِ عبادت
توحیدِ ذاتی یہ ہے کہ اللہ کی ذات میں کوئی کثرت نہیں، وہ مرکب نہیں، بلکہ "أحد” ہے — ایسا واحد کہ اس کی وحدت تقسیم نہیں ہوسکتی۔
جیسا کہ نہج البلاغہ میں حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام فرماتے ہیں:
أَوَّلُ الدِّينِ مَعْرِفَتُهُ، وَكَمَالُ مَعْرِفَتِهِ التَّصْدِيقُ بِهِ، وَكَمَالُ التَّصْدِيقِ بِهِ تَوْحِيدُهُ، وَكَمَالُ تَوْحِيدِهِ الْإِخْلَاصُ لَهُ، وَكَمَالُ الْإِخْلَاصِ لَهُ نَفْيُ الصِّفَاتِ عَنْهُ۔
(نہج البلاغہ، خطبہ 1)
یعنی دین کی ابتدا اللہ کی معرفت ہے، اور توحید کا کمال یہ ہے کہ اس کی صفات کو اس کی ذات سے جدا نہ سمجھا جائے۔
امیرالمؤمنینؑ مزید فرماتے ہیں:
"ساری حمد اس اللہ کے لیے ہے جسے حواس پا نہیں سکتے، نہ جگہیں اسے گھیر سکتی ہیں، نہ آنکھیں اسے دیکھ سکتی ہیں، نہ پردے اسے چھپا سکتے ہیں۔”
(نہج البلاغہ، خطبہ 1)
یہ بیان ہمیں سکھاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مخلوق کی مثل نہیں۔
جیسا کہ قرآن میں فرمایا گیا:
لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ (الشوریٰ: 11)
مفرداتِ راغب میں لفظ "أحد” کے بارے میں لکھا ہے:
الأحد هو الذي لا يتجزأ في ذاته ولا في معناه
یعنی "احد” وہ ہے جو اپنی ذات اور معنی میں کسی قسم کی تقسیم یا ترکیب سے پاک ہو۔
یہ ہے اللہ کی یکتائی،  جو انسان کے تصور سے ماورا ہے۔

دوسری آیت: اللّٰہُ الصَّمَدُ (الاخلاص: 2)
الصمد وہ ہے جس کی طرف سب رجوع کرتے ہیں، مگر وہ خود کسی کا محتاج نہیں۔
امام علی نقی علیہ السلام نے فرمایا:
السَّيِّدُ الْمَصْمُودُ إِلَيْهِ فِي الْقَلِيلِ وَالْكَثِيرِ
(مجمع البیان، ج 10، ص 339)
"وہ آقا جس کی طرف چھوٹی بڑی ہر حاجت میں رجوع کیا جاتا ہے۔”
اور راغب لکھتے ہیں:
الصمد الذي يقصد إليه في الحوائج كلها
یعنی "صمد” وہ ہے جس کی طرف تمام ضرورتوں میں قصد کیا جائے۔
یہی مفہوم اس فرمانِ معصوم سے واضح ہوتا ہے کہ:
مَنْ زَعَمَ أَنَّ اللّٰهَ يَجْلِسُ عَلَى الْعَرْشِ فَقَدْ اعْتَبَرَ اللّٰهَ مَحْمُولًا۔
(التوحید للصدوق، ص 231)
یعنی جو یہ گمان کرے کہ اللہ عرش پر بیٹھتا ہے، وہ اللہ کو مخلوق کی طرح سمجھتا ہے۔
اللہ بے نیاز ہے، جسم و مکان سے پاک ہے، اور ہر مخلوق اسی کے در پر فقیر ہے۔

تیسری آیت: لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ (الاخلاص: 3)
اللہ نہ کسی کا باپ ہے، نہ کسی کا بیٹا۔
یہ آیت نصاریٰ کے اس عقیدے کی تردید ہے کہ مسیح ابن اللہ ہیں، اور مشرکین کے اس گمان کی نفی ہے کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں۔
قرآن فرماتا ہے:
تَكَادُ السَّمَاوَاتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَتَنْشَقُّ الْأَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّا ۙ أَنْ دَعَوْا لِلرَّحْمٰنِ وَلَدًا
(مریم: 90–91)
امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:
لَا شَيْءَ أَكْثَرُ ثَوَابًا مِنْ شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ، فَإِنَّهُ لَا يُعَادِلُ اللّٰهَ شَيْءٌ وَلَا شَرِيكَ لَهُ۔
(التوحید، ص 89)
یعنی توحید کی شہادت سے بڑھ کر کوئی عمل نہیں کیونکہ اللہ کا کوئی شریک نہیں۔
اور کربلا میں امام حسین علیہ السلام نے اسی توحید کے تحفظ کے لیے اپنی جان قربان کی۔ آپ نے فرمایا:
"اے لوگو! اگر تمہارے پاس دین نہیں، تو کم از کم اپنی دنیا میں آزاد بنو!”
یہ کلمہ دراصل توحیدِ عملی کا مظہر ہے — کہ بندگی صرف اللہ کے لیے ہو، کسی ظالم کے لیے نہیں۔

چوتھی آیت: وَلَمْ يَكُنْ لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ (الاخلاص: 4)
یعنی کوئی بھی اس کا ہمسر یا برابر نہیں۔
نہ ذات میں، نہ صفات میں، نہ افعال میں۔
امیرالمؤمنین علیہ السلام فرماتے ہیں:
اللّٰهُ أَعْظَمُ اسْمٍ مِنْ أَسْمَاءِ اللّٰهِ، وَهُوَ الْإِسْمُ الَّذِي لَا يَنْبَغِي أَنْ يُسَمَّى بِهِ غَيْرُ اللّٰهِ۔
(التوحید، ص 231)
یہ آیت شرک کے تمام دروازے بند کرتی ہے، اور بندگی کی راہ صرف ایک رب کی طرف موڑ دیتی ہے۔

نصیحت اور عمل کی دعوت
پس معلوم ہوا کہ
سورہ الاخلاص صرف علمِ توحید کا بیان نہیں بلکہ ایمان کی روح ہے۔
اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا:
أَيَعْجِزُ أَحَدُكُمْ أَنْ يَقْرَأَ ثُلُثَ الْقُرْآنِ فِيْ لَيْلَةٍ؟
صحابہ نے عرض کیا: کون یہ کرسکتا ہے؟
فرمایا: قُلْ هُوَ اللّٰهُ أَحَدٌ پڑھنا قرآن کے ایک تہائی کے برابر ہے۔
(تفسیر المیزان، ج 10، ص 546)
یعنی جس نے ایک دفعہ یہ سورت پڑھی گویا ایک تہائی ختم قرآن کر لیا اور جس نے تین دفعہ پڑھی اسے پورے ختم قرآن کا ثواب ملتا ہے۔
اور امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
مَنْ قَالَ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ مِائَةَ مَرَّةٍ قَبْلَ أَنْ يَنَامَ، بَنَى اللّٰهُ لَهُ قَصْرًا فِي الْجَنَّةِ۔
جس نے سونے سے پہلے ایک سو مرتبہ لا الہ الا اللہ کہا تو اللہ اس کےلیے جنت میں ایک محل بنائے گا۔
(التوحید – الصدوق)

نتیجہ
سورہ الاخلاص ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ
• اللہ احد ہے؛ یعنی بے مثل۔
• وہ صمد ہے؛  یعنی سب اس کے محتاج، وہ کسی کا محتاج نہیں۔
• نہ اس نے جنا، نہ جنا گیا؛  یعنی ہر باطل تصورِ الوہیت کی نفی۔
• اور کوئی اس کا کفو نہیں؛  یعنی کسی شبیہ یا شریک کا تصور ممکن نہیں۔

توحید سے متعلق مومن کی ذمہ داریاں
توحید پر ایمان لانے کا مطلب صرف یہ نہیں کہ زبان سے “لا إله إلا اللّٰه” کہا جائے، بلکہ یہ عقیدہ انسان کے سوچ، کردار اور طرزِ زندگی میں ظاہر ہونا چاہیے۔
ایک حقیقی مومن پر توحید کی بنیاد پر چند اہم ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں:
1. عبادت میں خالصی:
عبادت صرف اللہ کے لیے ہو۔ ریا، دکھاوا یا لوگوں کی خوشنودی کے لیے نہیں۔
قرآن فرماتا ہے:
وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللّٰهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ
(البینہ: 5)
یعنی مومن کی عبادت خالص اللہ کے لیے ہونی چاہیے۔
2. اعتماد و توکل صرف اللہ پر:
ایک موحد کا دل مخلوق سے بے نیاز اور خالق پر مطمئن ہوتا ہے۔
وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُهُ
(الطلاق: 3)
یعنی جو اللہ پر بھروسہ کرے، اللہ اسے کافی ہے۔
3. گناہ سے اجتناب:
گناہ دراصل عملی شرک ہے، کیونکہ یہ اللہ کے حکم کو چھوڑ کر خواہشِ نفس کی پیروی ہے۔
امیرالمؤمنین علیہ السلام نے فرمایا:
الشِّرْكُ أَخْفَى مِنْ دَبِيبِ النَّمْلِ عَلَى الصَّفَا فِي اللَّيْلِ
"شرک چیونٹی کے چلنے سے بھی زیادہ پوشیدہ ہے۔”
پس مومن کو اپنے اعمال میں اخلاص پیدا کرنا چاہیے۔
4. عدالت و انصاف پر عمل:
موحد کا عقیدہ یہ تقاضا کرتا ہے کہ وہ ہر حال میں حق اور عدل کے ساتھ کھڑا ہو، کیونکہ ظلم اللہ کے نظام کے خلاف ہے۔
إِنَّ اللّٰهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ
اللہ تعالیٰ عدل اور احسان کا حکم دیتا ہے۔(النحل: 90)
5. توحید کی دعوت و تبلیغ:
مومن کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے قول و کردار سے دوسروں کو بھی توحید کی طرف بلائے۔
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:
كُونُوا دُعَاةً لِلنَّاسِ بِغَيْرِ أَلْسِنَتِكُمْ
"لوگوں کو صرف زبان سے نہیں بلکہ اپنے کردار سے دعوت دو۔”
(الکافی، ج 2، ص 78)
6. نعمتوں میں شکر اور مصیبت میں صبر:
موحد جانتا ہے کہ سب کچھ اللہ کی طرف سے ہے، لہٰذا وہ نعمت میں شاکر اور مصیبت میں صابر رہتا ہے۔
إِنَّا لِلّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ
ہم اللہ ہی کے لیے ہیں اور اللہ ہی کی طرف جانے والے ہیں۔
(البقرہ: 156)
پس اے مومنو!
توحید کو صرف زبانی نہ کہو بلکہ عملی زندگی میں اپناؤ۔
ظلم، ریا اور شرکِ خفی سے بچو۔
اللہ سے ڈرو، اس پر بھروسہ کرو، اور اسی کے لیے زندہ رہو۔

اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وآلِ مُحَمَّدٍ وعَجِّلْ فَرَجَهُمْ
٭٭٭٭٭

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button