سلائیڈرمحافلمناقب امام مھدی عجمناقب و فضائل

قائم آل محمد علیہ السلام از نظر قرآن

محمد حبیب اللہ شہیدی ( متعلم جامعہ الکوثر)
استادرہنما: علامہ انتصار حیدر جعفری ( مدرس جامعہ الکوثر ، شعبہ "تفسیر و علو م قرآن)
مقدمہ:
الحمد للہ الذی لا یخلی الارض من حجۃ لئلا یکون لناس علی اللہ حجۃ و جعل بہ قوام الدین ولطف الدنیا وبہ کلمۃ اللہ(ھی) العلیاوکلمۃ الذین کفروا السفلیٰ والصلاۃ والسلام علی محمد و آلہ انوارالھدیٰ ومصابیح الدجیٰ والحجۃ البالغہ والعروۃ الوثقیٰ۔
اما بعد!قال رسول اللہ ؐ الائمۃ من بعدي اثنا عشر، اولهم امير المؤمنين علي بن ابي طالب وآخرهم القائم،
نبی کریم ؐ نے فرمایا!میرے بعد آئمہ بارہ ہونگے،ان میں سے اول امیرالمؤمنین علی ابن ابی طالب ؑ اور آخری قائم ہیں۔
یہ وہ عظیم ہستیاں ہیں جو آپ ؐ کے بعد آپ کے جانشین ہیں ،آج اگر یہ کائنات اور اس میں یہ تمام چیزیں باقی ہیں تو انہی پاک و پاکیزہ ہستیوں کے وجود کی برکت سے ہیں،نظام کائنات،نظام شمسی،کا مسلسل اپنے اپنے مدار میں چلنا لیل و نہار کا اپنے مقررہ وقت پر آنا جانا ،زمین سبزہ اگانے میں بخل نہیں کرتی آسمان سے باران رحمت کا جاری رہنا اور ہر قسم کے رزق و روزی کا میسر آنا یہ سب انکے با برکت وجود سے ہیں،چونکہ آپ سبب بقاء کائنات ہیں ؛لو لاالحجۃ لساخۃ الارض باہلھا۔ اگر زمین حجت خدا سے خالی ہوتی تو وہ اپنے رہنے والوں کے ساتھ دہنس جاتی،اور کائنات کا نظام برباد ہوجاتا ۔
اور میں جس ہستی کے بارے میں کچھ لکھنے جا رہا ہوں وہ ہیں حجت ابن الحسن العسکریؑ امام ثانی عشر عجل اللہ فرجہ الشریف کی ذات گرامی اگر چہ اس بارے میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے لیکن میں اس وجہ سے اس بارے میں اپنا مقالہ لکھنے جارہا ہوں تاکہ امام علیہ سلام کے اوپر لکھنے والوں کی فہرست میں شامل ہو سکوں زبان وحی و رسالت سے مشہورحدیث روایت کی گئی ہے ؛من مات ولم یعرف امام زمانہ مات میتۃ جاہلیۃ۔ جو بھی اپنے زمانے کے امام کی معرفت کے بغیر دنیا سے چلا جائے وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے۔اور اس حدیث کا مصداق بننے سے بچنے کیلئے امام ؑ کی کچھ نہ کچھ معرفت کی خاطر اس باب میں وارد ہوا ہوں اللہ تعالیٰ ہم سب کو امام ؑ کی صحیح معنوں میں معرفت حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے،توفیق کی دعا اس لئے کر رہا ہوں کہ کوئی بھی کام اللہ تعالیٰ کی توفیق کے بغیر ممکن نہیں وہ معرفت کے باب سے ہو یا کسی اور باب سے اللہ کی توفیق شامل حال ہونا بہر صورت ضروری ہے۔امام ؑ کے حولے سے اگر دیکھا جائے تو کوئی بھی فرقہ مھدویت سے خالی نظر نہیں آتا ،ہر مذہب اور فرقوں میں امام ؑ کے حوالے سے نظریہ ملتا ہے ،فرق صرف اس میں ہے کہ بعض فرقوں کے ماننے والے امام کے پیدا ہونے کا قائل ہیں جیسے ہم اہل تشیع،اور اہل سنت کے بھی کچھ علماء ،اور کچھ لوگ قائل ہیں کہ امام مہدیؑ ابھی پیدا نہیں ہوئے بلکہ آپؑ پیدا ہونے والے ہے۔لیکن الحمد للہ مذہب شیعہ امامیہ اثنا عشریہ کے ہاں امام ؑ کی ولادت مسلم ہے تاریخ پیدائش پدر بزرگوار مادر گرامی،محل پیدائش گو کہ ہر مسئلہ واضح ہے،اور ابھی پردہ غیبت میں ہیں اور آپؑ حکم خدا کے انتظار میں ہیں جب حکم خدا ہوگا اس وقت آپ ظہور کریں گے زمین کو اس طرح عدل و انصاف سے بھر دینگے جس طرح یہ ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی۔ہماری دعا ہے کہ اللہ ہمیں امام ؑ کے ظہور کےلئے ضمیمہ سازی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
امام مہدی ؑ کا تصور صرف اسلام میں ہی نہیں بلکہ اسلام سے پہلے بھی قدیم کتب میں ملتا ہے۔ زرتشتی، ہندو، عیسائی، یہودی وغیرہ سب یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ دنیا کے ختم ہونے کے قریب ایک نجات دہندہ کا ظہور ہوگا جو دنیا میں ایک انصاف پر مبنی حکومت قائم کرے گا۔ یہ تصور مسلمانوں میں اس لیے نہیں آیا کہ اس سے پہلے یہ موجود تھا بلکہ یہ عقیدہ احادیث سے ثابت ہے۔ امام مہدی کے وجود کے بارے میں اسلامی کتب میں صراحت سے احادیث ملتی ہیں جو حد تواتر تک پہنچتی ہیں۔لہذا یہ دور امام ؑ کا دور ہے اس میں ہمیں جتنا ہو سکے کام کرنا چاہئے اور امام ؑ کی عالمی حکومت کیلئے ضمیمہ فراہم کرنا چاہئے خصوصا جوان نسل کو امام ؑ کے بارے میں آگاہی فراہم کرنے کےلئے کام کرنے کی ضرورت ہے اور امام ؑ کے حوالے سے جو کچھ ناعاقبت اندیش لوگوں کی جانب سے مختلف قسم کے شبہات پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہےان شبہات کے ازالہ کیلئے ہم سب کو مل کر کام کرنے اور اس موضوع پر وسیع مطالعہ رکھنے کی ضرورت ہے۔اگر ہم اس بارے میں اور معرفت امام ؑ کے بارے میں کام کرنا شروع کریں گے تو انشااللہ امام ؑ ہم سے راضی ہونگے اور خدا بھی اس میں ہماری مدد فرمائےگا،ہم اللہ سے ہمہ وقت توفیق کی درخوست گزار ہیں کہ اللہ اپنا کرم اور رحمت ہم پہ بھی نازل فرمائے۔اور امام زمانؑ کو ہم سے راضی و خوشنود فرمائے۔
موضوع پر بحث کرنے سے پہلے مناسب سمجھتا ہوں کہ امام مہدیؑ کی ولادت، غیبت صغریٰ اور غیبت کبریٰ کو بھی مختصرابیان کروں
امام مہدیؑ کی ولادت :
امام مہدی المنتظر ابن امام حسن العسکری علیہم السلام کی ولادت شبِ جمعہ 15 شعبان المعظم 255 ہجری کو شہر سامرہ میں ہوئی۔
علامہ مجلسی نے جلاء العیون میں لکھتے ہیں آپؑ کی تاریخ ولادت میں زیادہ مشہور یہ ہے کہ 255 ہجری میں ہوئی ، بعض نے 56 ھ اور بعض نے 58 بھی کہی ہے ، جبکہ مشہور یہ ہے کہ ولادت کا دن جمعہ کی رات پندرہ ماہ شعبان تھی ۔اس میں اتفاق ہے کہ آپؑ کی ولادت سرمن رائے (سامرہ) میں ہوئی اور نام و کنیت میں رسول اکرمؐ کے ساتھ موافق ہے ، اور زمان غیبت میں آنجنابؑ کا نام لینا جائز نہیں ہے اور اس کی حکمت معلوم نہیں ، اور آپؑ کے القاب شریفہ مہدی، ختم ، منتظر ، حجۃ اور صاحب ہیں۔
آپ کی والدہ گرامی کا اسمِ مبارک نرجس خاتون ہے البتہ سوسن، صیقل ، ملیکہ یا ریحانہ بھی کہا جاتا ہے۔
امام مہدیؑ کے ولادت کے قائل صرف شیعہ حضرات نہیں بلکہ اہل سنت کے بہت سارے علماء بھی قائل ہے اور بہت سارے علماء و مورخین بھی اپنی کتابوں میں ان کا ذکر کرتے ہیں ان میں سے ہم فقط چار علماء کے نظریات کو بیان کرتے ہیں۔
1۔محمد بن طلحہ شافعی نے لکھا ہے :
ابو القاسم محمد بن حسن(العسکری ؑ) نے 258ھ کو سامرہ میں ولادت پائی آپ کے والد کا نام خالص حسن ہے۔ حجت، خلف صالح ور منتظر آپ کے القاب ہیں۔ اس سلسلہ میں چند حدیثیں نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں ان کا مصداق امام حسن العسکری کے بیٹے ہیں جو کہ پردہ غیب میں ہیں بعد میں ظاہر ہوں گے۔
2۔ ابن صباغ مالکی نے لکھا ہے :
بارہویں فصل ابو القاسم ، محمد، حجت، خلف صالح بن ابو محمد، حسن خالص کے حالات کے سلسلہ میں ہے۔ یہ شیعوں کے بارہویں امام ہیں ، اس کے بعد امام کی تاریخ تحریر کی ہے اور مہدی کے بارے میں کچھ حدیثیں بیان کی ہیں۔
3۔ ابن حجر صواعق محرقہ میں امام حسن العسکری ؑ کے حالات لکھنے کے بعد لکھتے ہیں:
آپ نے ابو القاسم ، کہ جنھیں محمد، حجت کہا جاتا ہے، کہ علاوہ کوئی اولاد نہیں چھوڑی ۔ اس بچہ کی عمر باپ کے انتقال کے وقت پانچ سال تھی ۔
4۔حموئی نے ” فرائد السمطین” اور سید علی ہمدانی نے ” مودۃ القربیٰ” میں ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ پیغمبر ﷺ نے فرمایا:
"انا سید النبیّین و علی بن ابی طالب سید الوصیین انّ اوصیائی اثنا عشر اولھم علی بن ابی طالب وآخرھم القائم” میں سید الانبیا ء ہوں اور علی سید الاوصیا ء ہیں۔ میرے بارہ جانشین ہیں جن میں پہلے علی اور آخری قائم ( عج اللہ فرجہ الشریف) ہیں۔
غیبت صغریٰ:
غیبت صغریٰ کے بارے میں اختلاف ہے ان میں مشہور قول یہ ہے کہ آپؑ کی غیبت صغریٰ کی ابتدا آپ کی زندگی کے آغاز سے ہی شروع ہوگئی تھی یعنی آپؑ کی ولادت آپ کی غیبت کے ساتھ متصل تھی اور ممکن ہے آپؑ نے ابتدائی پانچ سال اپنے بابا امام حسن العسکریؑ کے ساتھ گزارے انہیں بھی غیبت میں شمار کریں جیساکہ شیخ مفید علیہ الرحمہ وغیرہ نے بھی اسی نظریہ کو اختیار کیا ہے۔
اس بات کو سمجھنے کے لئے ہم آپؑ کے ولادت کے دور کے حالات کا مطالعہ کرے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس دور میں حالات کس قسم کے تھے جابر حکمرانوں کی طرف سے بہت سختی کی ہوئی تھی او کڑی نگاہ رکھی ہوئی تھی یہاں تک کہ آپؑ کے گھر پر بھی کڑی نگاہ رکھی ہوئی تھی انہی وجوہات کی بنا پر امام حسن العسکریؑ سوائے خاص اصحاب کے علاوہ کسی کو امام مہدیؑ کی زیارت نہیں کرواتے تھے۔
جب امام حسن العسکریؑ کی شہادت ہوئی تو اس کے بعد امام مہدیؑ کی ملاقات خاص خاص اصحاب سے ہوتی تھی جن کے زریعے امام احکام کو لوگوں تک پہنچاتے تھے اور یہ لوگ امام کے نائب خاص کی حیثیت سے لوگوں کے مسائل حل کرتے اور لوگوں کے جو سوالات ہوتے انہیں امام تک پہنچاتے اور سوالات کے جوابات حاصل کرتے۔اور یہ نائب خاص صرف چار افراد تھے جن میں سے( پہلے) عثمان بن سعید العمری (دوسرے) محمد ابن عثمان العمری (تیسرے ) حسین بن روح نوبختی اور ( چوتھے) علی ابن محمد السمری کے نام سے مشہور تھے۔
جب آپؑ کے آخری نائب خاص علی ابن محمد السمری کے وفات وقت قریب آیاتو امام کے حکم کے مطابق آپ نے اپنے بعد کسی کو اپنا جانشین مقرر نہیں فرمایا اس طرح ودلادت سے لے کر 329ھجری یعنی 73 سے 75 سال غیبت صغریٰ کے بعد غیبت کبریٰ شروع ہوگئی اور غیبت صغریٰ کا زمانہ اختتام کو پہنچا۔
غیبت کبریٰ:
چوتھے نائب خاص علی ابن محمد السمری کی وفات کے ساتھ غیبتِ صغریٰ کا دور ختم ہوگیا اور غیبت کبریٰ کا دور شروع ہوگیا اس کے بعد امام مہدی ؑ سے سابقہ طریقے والا اتصال نہ رہا۔ایک تو یہ شیعوں کے لئے بہت بڑی مصیبت تھی دوسری طرف نیابت امام ان فقہا ء کی طرف منتقل ہوگئی جن میں فتوی دینے کی تمام شرائط موجود ہوں۔
غیبت کبری میں تشریف لے جاتے ہوئے ہوئے امام نے شیعوں کو لاوارث نہیں چھوڑا بلکہ امام نے ان فقہاء کی اطاعت کا حکم فرمایا جن میں کچھ خاص شرائط موجود ہوں جیسے امام نے اپنے دوسرے نائب خاص محمد ابن عثمان کے توسط سے یہ توقیع صاد ر فرمائی: "پیش آنے والے مسائل میں تم ہماری احادیث کے رایوں کی طرف رجوع کرو کہ بے شک وہ تم پر میری طرف سے حجت ہیں اور میں خدا کی طرف سے ان پرحجت ہوں”
غیبت کبریٰ میں ان فقہاء کی طرف رجوع کرنے کے بارے میں جن میں خاص شرائط موجود ہوں ،دوسرے ائمہ ؑسے بھی فرامین موجود ہیں ان سب کو ہم بیان نہیں کرتے صرف امام جعفر صادق علیہ السلام کا فرمان آپ قارئین کی خدمت میں بیان کرتے ہیں آپؑ نے ارشاد فرمایا: "ایسے فقہا ء کہ جنہوں نےاپنے نفس کو گناہوں سےبچاتے ہوں اپنے دین کی حفاظت کر تے ہوں اور اپنی خواہشات کے مخالف ہوں، اپنے مولا کے فرمان کی اطاعت کرنے والے ہوں تو عوام پر فرض ہے کہ ایسے فقہاء کی تقلید کریں
امام کے غیبت میں تشریف لے جانے کے بعد ایسا نہیں کہ امام کا رابطہ ہم سے بلکل کٹ گیا ہو بلکہ ہم اپنی ظاہری آنکھوں سے امام کو دیکھ نہیں سکتے نہیں تو روایات میں ہے کہ ہمارے امام ہر جمعہ کو لوگوں سے ملاقات کرتے ہیں لیکن لوگ انہیں نہیں پہچان پاتے اسی طرح روایا ت میں یہ بھی ہے کہ ہر شب جمعہ ہمارے اعمال امام کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں ۔ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ امام کا ہم سے رابطہ بلکل کٹا نہیں بلکہ رابطے میں ہے اور صاحب توفیق مجتہدین اور لوگوں سے امام کی ملاقات بھی ہوتی ہے۔
اگر ہم غیبت کبریٰ کے اسباب کی طرف رجوع کریں تو سب سے پہلی وجہ یہی نظر آتی ہے کہ امام مہدیؑ سے پہلے ہر امام کے بعد نائب موجود تھا اور امام مہدیؑ پہ امامت کا سلسلہ ختم ہورہا تھا اور آپ آخری امام تھے جس کی تصدیق خود رسول ﷺ نے فرمائی تھی کہ” میرے بعد میرے بارہ خلفاء ہوں گے جو سارے کے سارےقریش سے ہوں گے” اور سب کا نام بھی بیان فرمایا تھا۔
ان تمام فرامین کی وجہ سے روز اول سے ہی دشمنوں کی نظریں بارہویں خلیفہ پر جمی ہوئی تھیں کہ وہی آکر ہماری حکومت کو گرائےگا اس لئے گیارھویں امام کے گھر پر کڑی نظر رکھی ہوئی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے ایسے انتظامات کئے کہ آپ کی ولادت پوشیدہ طور پر ہوئی۔ اور امام مہدیؑ بارہ اماموں میں سےامامت کے آخری کڑی تھے کہ جس کے بعد کسی اور امام نے نہیں آنا تھا اور آپ پر امامت کا سلسلہ قیامت تک کے لئے ختم ہونا تھا اب اتنے مشکل حالات میں اگر امام زمانہ کو اللہ پردہ غیب میں نہیں اٹھاتا اور امام دشمنوں کے ساتھ نبرد آزما ہوتے تو نتیجہ واضح تھا ۔
انہی مصلحتوں اور اسباب کے بنیاد پر اللہ تعالیٰ نے امام کو پردہ غیب میں اٹھا لیا اور اللہ بہتر جانتا ہے کہ اور کب تک پردہ غیب میں رہے گا۔

امام مہدی علیہ السلام از نظر قرآن:

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ قرآن انسانوں کی ہدایت کے لئے نازل کیا گیا اس میں ہر چیز کا حکم موجود ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : "وَلَا رَطْبٍ وَّلَا يَابِسٍ اِلَّا فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ” اورخشک وترایسانہیں ہےجوکتاب مبین میں موجود نہ ہو۔ تو ظاہر ہے کہ انسانوں کی رہنما ئی کے لئے جو سب سے اہم امور میں شمار ہوتے ہیں رہنما کا ذکر نہ کیا ہو یہ ممکن نہیں یقینا ذکر کیا ہے لیکن ہم نہیں جانتے کیونکہ قرآن میں سارے آیات محکمات تو نہیں بلکہ متشابہات آیات بھی مومود ہے جن کو ہم نہیں سمجھ سکتے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان متشابہ آیات کو کس طرح سمجھیں اور سمجھنے کے لئے کن کی طرف رجوع کریں تاکہ ہم سمجھ سکیں کہ ہمارا رہنما کون ہے اور اس میں کون کونسی شرائط ہونی چاہئیں ؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ قرآن میں اللہ نے فرمایا کہ نماز پڑھو لیکن یہ نہیں فرمایا کہ اس طرح پڑھو بلکہ اس کا طریقہ بتانا اپنے حبیبؐ پر چھوڑا اسی طرح اللہ مومنین کو نبی ؐ پر درود پڑھنے کا حکم فرمایا لیکن طریقہ بیان نہیں فرمایا اسی طرح اور بھی بہت سارے احکام کا حکم فرمایا لیکن طریقہ نہیں بتایا تو اللہ نے طریقہ نہیں بتایا ہے کہہ کر ہم انہیں چھوڑ نہیں سکتے ہیں؟
جواب یہ ہے کہ ہرگز نہیں بلکہ ہمیں حقیقی مفسّر قرآن کی طرف رجوع کرنا ہو گا جوکہ ہمارے آخری نبی حضرت محمد ﷺ اور ائمہ اہل بیت علیہم السلام ہیں یہ لوگ ہمیں سمجھائیں گے کہ نماز کس طرح پڑھنی ہے اور صلوٰۃ کس طرح بھیجنی ہے کیونکہ دین اسلام میں کوئی بھی مسئلہ ایسا نہیں جسکا حکم ہمارے نبی ؐ اور ئمہ نے بیان نہ فرمایا ہو۔
مسئلہ امام مہدی بھی انہی مسائل میں شمار ہوتے ہیں تو آئیے ہم اس کو سمجھنے کے لئے کچھ آیات کو لیتے ہیں اور اپنی طرف سے تفسیر کرنے کے بجائے جس کا اللہ تعالیٰ اور ہمارے ائمہ نے سختی سے منع فرمایا ہے اس حوالے سے امام علی رضا علیہ السلام سے روایت ہےکہ آپ فرماتے ہیں: قال رسول اللہ ﷺ : ان اللہ عزّ و جلّ قال فی الحدیث القدسی : ما آمَنَ بی مَن فَسَّر کلامی برایہِ ، وما عرفنی من شبّہنی بخلقی، وما علیٰ دینی من استعمل القیاس فی دینی”
جس نے قرآن کی تفسیر اپنی رائے کے مطابق کی اس نے مجھ پرایمان نہیں لایا ، اور جس نے مجھے میرے مخلوق میں سے کسی کے ساتھ تشبیہ دی تو اس نے میری معرفت حاصل نہیں کی ،اور جس نے میرے دین میں قیاس کا سہارا لیا وہ میرے دین پر نہیں ۔
اسی طرح ہمارے نبیﷺ کا فرمان ہے " من فسّرالقرآن برایہِ فلیتبوّاُ مقعدہ من النار” "جو بھی قرآن کی تفسیر اپنی رائے کے مطابق کرے تو اس کا ٹھکانہ جہنم ہوگا”۔ تو ان احادیث کومدنظر رکھتے ہوئے ہم اپنی طرف سے قرآن کی تفسیر نہیں کرسکتے کیونکہ اس کی باطن بہت گہری ہے جس تک ہماری رسائی ممکن نہیں اسی لئے تومعصوم کا فرمان ہے کہ” لیس شیء ابعد من عقولنا الرجال من تفسیر القرآن؛ انّ الآیۃ یکون اولھا فی شییء و آخرھا فی شییء، وھو کلام متّصل ینصرف الی وجوہ ” لہذا ہم حقیقی مفسّرین قرآن کی طرف رجوع کرتے ہیں اُس حدیث پر عمل کرتے ہوئے کہ جس میں نبیؐ اور ائمہ ؑ نے فرمایا جسے صاحب مجمع البیان نے نقل کیا ہے فرماتے ہیں ” صحَّ عن النبیّ ﷺانّ تفسیر القرآن لا یجوز الّا بلاثر الصحیح النصّ الصریح” تاکہ ہمیں معلوم ہو کہ ہمارے وقت کا امام کون ہے اور اس کا ہونا کیو ں ضروری ہے ۔اس موضوع پر بہت ساری آیات ایسے ہیں جن سے امام زمانہ ؑ کے وجود کو ثابت کیا جاسکتا ہے اور ان آیات پر بطور شاہد روایات بھی موجود ہیں لیکن ہم ان ساری آیات کو بیان کرنے کے درپے نہیں ہم اپنے قارئین کی خدمت میں بطور تبّر ک صرف چند آیات کے ذریعے امام مہدی ؑ کے وجود کو ثابت کرتے ہیں۔
پہلی آیت :
وَنُرِيْدُ اَنْ نَّمُنَّ عَلَي الَّذِيْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِي الْاَرْضِ وَنَجْعَلَہُمْ اَىِٕمَّۃً وَّنَجْعَلَہُمُ الْوٰرِثِيْنَ۝
اورہم یہ ارادہ رکھتے ہیں کہ جنہیں زمین میں بےبس کردیاگیاہے ہم انہیں زمین پر پیشوا بنائیں گے اورانہی کووارث بنائیں گے۔
کسی بھی آیت کی تفسیر کے لئے خصوصا ان آیات کی تفسیر کے لئے جو متشابہہ ہیں مفسّر حقیقی کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے اور قرآن کا مفسّر حقیقی سنت و حدیث صحیحہ ہے لہذا ہمارے لیےا حادیث کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے اسی لئے بعض نے کہا ہے کہ اگر کوئی بغیر حدیث کے قرآن کو سمجھنا چاہے تو گویا ایسے ہی ہے جیسے بغیر کشتی چلانے والے کے کشتی میں بیٹھ جائے تو اس صورت میں غرق ہی مقدر ہوسکتا ہے۔
تو اس آیت کو سمجھنے کے لئے ہم ہمارے پہلے تاجدار ولایت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہم السلام کی طرف رجوع کرتے ہیں کیونکہ آپ ؑ کا فرمان ہے”قرآن کی کوئی ایسی آیت نہیں ہے مگر یہ کہ رسول خداؐنے مجھے اس کی تاویل بتائی ہے۔ تو اس آیت کے بارے میں آپؑ کا ایک کلام نہج البلاغہ میں ملتا ہے جس میں آپ علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں کہ "لَتَعطِفَنَّ الدُّنیَا عَلَینَا بَعدَ شِمَاسِھَا عَطَفَ الضُّرُوسِ عَلیٰ وَلَدِھَا” دنیااپنی دشمنی ظاہر کرنے کے بعد ہم پر ایسے مہربان ہوجائے گی کہ جس طرح اونٹنی اپنے بچے پر مہربان ہوتی ہے پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی کہ” وَنُرِيْدُ اَنْ نَّمُنَّ عَلَي الَّذِيْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِي الْاَرْضِ وَنَجْعَلَہُمْ اَىِٕمَّۃً وَّنَجْعَلَہُمُ الْوٰرِثِيْنَ”.
ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ میں لکھتے ہیں کہ ہمارے علماء کہتے ہیں کہ حضرت علیؑ نے اس آیت کے ضمن میں اس امام کے بارےمیں بتایا کہ جو ساری زمین کا مالک ہوگا اور ملکوں پر حکمران ہوگا۔علّامہ حسکانی نے متعدد طرق کے ساتھ امام علی ؑ سے نقل کیا ہے۔
امام علی علیہ السلام کامطلب اس حدیث سے یہ ہےکہ دنیا اہل بیتؑ پر ظلم و جور کرنے کے بعد تسلیم کرے گی اور اس سے مراد اہل بیت کی حکومت ہے اور دشمنوں پر فتح ہے اور جتنی بھی مصیبتیں سہی ہیں وہ ختم ہوجائیں گی یعنی مشکلات کے بعد دنیا ان کے لئے آسان ہوجائے گی۔
آپؑ سے یہ بھی مروی ہے کہ زمین میں کمزور لوگ کہ "جن کا ذکر کتاب میں ہے اور خدا نے انہیں امام بنایا ہے وہ ہم اہل بیتؑ ہیں۔ اللہ ہمارے مہدیؑ کو بھیجے گا اور ہم اہل بیت کو عزت عطا کرے گااور ہمارے دشمنوں کو رُسوا کرے گا۔”
ایک اشکال اور اس کا جواب:
کوئی اس جواب پر اشکال کرسکتا ہے کہ جناب آپ نے جو مراد لیا ہے وہ صحیح نہیں کیونکہ یہاں آیت کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرعون و ہامان اور ان کے لشکر کو ہلاک کرکے بنی اسرائیل کے عزت وشرف کو لوٹانے کی بات کررہا ہے تو آپ کس طرح کہہ رہے ہیں کہ اس آیت سے مراد ائمہ اور امام مہدیؑ ہے؟
اس اشکال کا جواب یہ ہے کہ ہم نے پہلے بتایا ہے کہ آیت کے ظاہر کو ہمیشہ نہیں دیکھتے بلکہ ان موارد میں ہم حقیقی مفسّر کی طرف رجوع کرتے ہیں اور وہ حدیث ثابتہ ہیں آپ کی بات ٹھیک ہے یہاں سیاق و سباق بنی اسرائیل اور فرعون کے بارے میں ہے لیکن اسکا لازمہ یہ نہیں کہ یہ آیت بھی ان کے بارے میں ہو بلکہ اس آیت سے مراد کو سمجھنے کے لئے حقیقی مفسّر قرآن کی طرف رجوع کریں گےاور ہمارے پاس بہت ساری احادیث یہ بیان فرمارہی ہیں کہ اس آیت سے مراد ائمہ اھل بیتؑ ہیں ۔
اس آیت کا جواب بھی بلکل اسی طرح جس طرح آیت تطہیر کا جواب ہے آیت تطہیر میں بھی بعض کا کہنا ہے کہ یہاں سیاق و سباق کے حساب سے ازواج نبیؐ ہیں لیکن یہاں پر بھی حدیث ثابتہ اور حدیث متواتر سے ثابت ہے کہ اس آیت سے مراد پنجتن پاکؑ مراد ہیں ازواج نہیں۔
اس آیت کی تاویل کرنے کے لئے روایات کی طرف رجوع کرتے ہیں تو نبیﷺ کاایک فرمان ملتا ہے جس میں آپؐ نے اہل البیتؑ کو مخاطب ہوکر فرمایا: ” اَنتُمُ المُستَضعَفُونَ بَعدِی"میرے بعد تم کمزور کردیئے جاوگے۔
اسی کے ساتھ ہمیں روایات میں یہ بھی ملتا ہے کہ مولا علیؑ اور ائمہ کا فرمان ہےکہ ” نَحنُ المُستَضعَفِین” اب اس کی وضاحت کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ سب کو معلوم ہے کہ ائمہ اہل البیتؑ کے ساتھ انسانوں نے بہت ظلم کئے اور ان کو ہمیشہ کمزور کرکے رکھا گیا اور جو ان کے ساتھ ظلم کرسکتا تھا کیا اور کون کونسے مصائب ڈھائے گئے یہاں تک کہ مسلمانوں نے آل محمد کے ناموس کی بے حرمتی کی اور آل محمدؐ کی سروں کو تحفے میں دیا تاکہ اس فعل بد سے ظالم حکمران کے دلوں کو خوش کرسکیں۔
ہمارے پانچویں اور چھٹے تاجدار ولایت اس آیت کی تاویل یوں فرماتے ہیں کہ” آیت میں فرعون و ہامان سے مراد قریش کے دو ظالم اور جابر افراد مراد ہے جنہیں خداوند متعال آخری زمانے میں امام مہدیؑ کے ظہور کے وقت زندہ فرمائے گا اور امام مہدیؑ ان سے ان کے مظالم کا بدلہ لیں گے اور فرعون و ہامان کے لشکر سے مراد ان دو ظالموں کے پیروکار ہے”۔
آیت کا ظاہر:
آیت کے ظاہر سے جو پتہ چلتا ہے وہ یہ ہے کہ ” نُرِيْدُ اَنْ نَّمُنَّ ” مستقبل کے صیغے ہیں اور آیت کا نزول حضرت موسٰی اور فرعون کے زمانے سے ہزاروں سال بعد میں ہوا اور یہ بھی ممکن تھا کہ اللہ تعالیٰ اسے صیغہ ماضی کے ساتھ تعبیر فرماتا اس طرح کہ ” اردنا۔۔۔۔مَنَنَّاعلی الذین استُضعِفُو "جیسا کہ باقی کئی مقامات پر فرمایا ہے " لقد من اللہ علی المومنین ، فمن اللہ اور ولقد مننَّا وغیرہ ۔
ان آیات میں ماضی کا صیغہ استعمال کیا ہے جبکہ ہماری زیر بحث آیت میں مستقبل کا صیغہ استعمال کیا ہے یعنی اس طرح پوری آیت میں چھے صیغے مستقبل کے آئے ہیں۔
ایک اعتراض اور اسکا جواب:
ہوسکتا ہے کوئی کہنے والا اعتراض کرے فرعون و ہامان تو اس آیت کے نزول سے ہزاروں سال پہلے ہلاک ہوگئے تھے تو اس آیت کی تاویل مستقبل کے معنیٰ میں کیوں کی جاتی ہے؟ تو اس اعتراض کے جواب میں ہم کہیں گے کہ فرعون ہر جابر و ظالم بادشاہ کے لئے ایک نشان بن گیا ہے جو ظلم میں حد سے گزرجاتا وہ زمانے کا فرعون ہوتا ہے اور جو بھی یزیدی صفت رکھتا ہو وہ وقت کا یزید ہوتا ہے پس ہر زمانے میں ایک فرعون ہوتا ہے اور ہر امت میں کئی فرعون ہوتے ہیں۔؎
دوسری آیت :
و عَدَ اللہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِي الْاَرْضِ كَـمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ….
تم میں سےجولوگ ایمان لےآئے ہیں اور نیک اعمال بجالائے ہیں اللہ نے ان سے وعدہ کر رکھا ہے کہ انہیں زمین میں اسطرح جانشین ضروربنائےگا جس طرح ان سےپہلوں کو جانشین بنایا۔
یہ بھی ان آیات میں سے ہے جن کی تاویل امام مہدیؑ اور حکومت امام مہدیؑ سے کی گئی ہے۔اب ہم اس آیت کی آحادیث اور تفاسیر کی روشنی میں کچھ وضاحت کرتے ہیں۔ اس آیت میں اگر ہم صحیح طرح غور و فکر کریں تو اللہ تعالیٰ کسی کو اپنا خلیفہ بنانے کے لئے کچھ شرائط مقرر فرماتاہے۔
پہلی شرط : ایمان لے آئیں۔
دوسری شرط : نیک کام کریں۔
تیسری شرط : وہ میری عبادت کریں۔
چوتھی شرط : وہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔
پس معلوم ہوا اللہ کا خلیفہ بنانے کا وعدہ کرنا یہ کوئی ہر کس و ناکس سے نہیں بلکہ اس کے لیے مندرجہ بالا شرائط کا ہونا ضروری ہے اگر یہ تمام شرائط کسی میں ہوئے تو اللہ ایسی ہستیوں کے ساتھ وعدہ فرمارہا ہے زمین پر اپنا خلیفہ بناؤں گا۔
ایک چیز کی طرف توجہ ضروری ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ صرف خلیفہ بنانے کا وعدہ نہیں فرمارہا بلکہ خلیفہ بنانے کے ساتھ ساتھ اور دو چیزوں کا بھی ذکر فرمارہا ہے۔
ان کے لئے دین کو مستحکم کرے گا یعنی دین کو ایسا مستحکم کرے گا کہ دنیامیں کوئی ایسی بستی نہیں بچے گی جس میںلا الہ الا اللہ کی صدا سنائی نہ دے۔ اس بات کی تائید میں ہمیں مولا علی ؑ سے ایک روایت ملتی ہے جس میں آپؑ نے فرمایا : ” اس خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کوئی بستی ایسی نہیں بچے گی مگر یہ کہ صبح و شام اس میں لا الہ الا اللہ محمد الرّسول اللہ کی شہادت کی ندا دی جائے گی” یعنی اللہ تعالیٰ دین اسلام کو اس طرح مضبوط اور مستحکم کرے گا کہ پوری دنیا میں پھیل جائے گی ۔
ان کے خوف کوامن میں بدل دے گا لوگ سر عام خدا کی عبادت کریں گے اور خوف و خطرات سکون میں بدل جائیں گےکیونکہ واضح ہے جب پوری دنیا میں دین اسلام مستحکم ہوگا اور ہر گھر میں کلمہ شہادت کی تلاوت ہوگی تو خوف بلکل ختم ہوجائے گا۔ آج کل اگر خوف ہے تو اس لئے ہے کیونکہ ایک گھر میں کلمہ پڑھنے والے ہیں تو دوسرے گھر میں دشمن اسلام بیٹھے ہوئے ہیں۔ اسی طرح ایک ہی گلی میں ایک اسلام کے ماننے والے اور اسلام سے محبت کرنے والا ہے تو دوسرا اسلام کو نہ ماننے ولا اور نفرت کرنے والا موجود ہے اور ایک ہی گھر میں بعض نماز پڑھنے والے ہیں تو بعض تارک نماز ہیں اسی طرح اور بھی دسیوں مثا لیں موجود ہیں ۔
ان تمام مثالوں کو مدنظر رکھتے ہوئے نتیجہ واضح ہے کہ ان حالات میں کون کھلے عام اللہ تعالیٰ کی عبادت کرسکتا ہے ۔ لیکن وہ حدیث جس میں یہ خوش خبری دی ہے کہ ایک دن ایسا آئے گا کہ اسلام گھر گھر تک پہنچے گا اور ہرگھر سے شہادت کی ندا بلند ہوگی تو کسی کو کسی سے کوئی خوف نہ ہوگا ہر کوئی اسلام پہ عمل کرنے والا ہوگا اس صورت میں نتیجہ واضح ہے کہ خوف امن میں بدل جائے گا اور لوگ کھلے عام اللہ کی عبادت کرنے لگیں گے۔
اب ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے تحت کسی کو ایسا عہدہ اور خلافت عطا کی ہے جس میں لوگ کھلے عام اللہ کی عبادت کرتے ہوں ، دین کو مستحکم کیا ہو ،گھر گھر میں کلمہ شہادت پڑھنا عام ہوا ہو ۔ اس کے لئے ہمیں تاریخ کی طرف رجوع کرنا پڑے گا اور جب ہم تاریخ کی طرف رجوع کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت آدمؑ سے لیکر آج تک کبھی بھی ایسا وقت نہیں آیا نہ انبیاء کے دور میں نہ اماموں کے دور میں کہ جس میں مسلمان بے فکر ہوں کر اور بغیر کسی خوف کے اللہ کی عبادت کی ہو اور کھلے عام پوری دنیا میں شہادتین کی ندا آئی ہو۔
ان ساری باتوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ابھی تک پورا نہیں ہوا اور اللہ تعالیٰ جو مجسم وعدہ وفا کرنے والا ہے وعدہ خلافی تو کر نہیں سکتا کیونکہ خود اپنی لاریب کتاب میں ارشاد فرماتا ہے "إِنَّ اللَّهَ لاَ يُخْلِفُ الْمِيعَاد ” بے شک اللہ تعالیٰ وعدہ خلافی نہیں کرتا۔
اب معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ابھی پورا نہیں ہوا بلکہ مستقبل میں پورا ہوگا اور مسلمانوں کو ایسی زندگی میسّر آئے گی جس میں کھل کر اللہ کی عبادت کر سکیں اور کلمہ شہادت گھر گھر پہنچ جائے۔ تو معلوم ہوا ایک ہستی کا آنا ضروری ہے جو یہ سارا کام انجام دے۔کوئی بھی عقلمندیہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ آدمؑ سے لیکر خاتم تک اور امامت کے دور میں اموی اور عباسی خلفاء نے ایسا کیا ہو کیونکہ ان تمام خلفاء کی تاریخ اٹھاکر دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ کس طرح انہوں نے اپنی زندگی گزاری ،کون کون سے سنگین جرائم کا مرتکب ہوئے اور کتنے اولیاء خدا کا خون بہایا ہے۔
پس معلوم ہوا ایسی ہستی ابھی تک تشریف نہیں لائی، جو اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ پورا کرے تو ایسی ہستی کا آنا ضروری ہے تاکہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ پورا ہوسکے اور وہ ہستی آئے گی جو امام مہدی عج اللہ فرجہ الشریف ہونگے جس کی خوشخبری ہمیں ہمارے سردار نبی اکرمﷺ اور ہمارے بارہ اموں نے دی ہے اب ان تمام احادیث کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت نہیں جن میں نبی اکرمؐ اور ائمہ معصومین ؑ نے خوشخبری دی ہوئی ہے۔ آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ہماری زندگی میں اس ہستی کی دیدار نصیب فرمائیں آمین ثم آمین۔
تیسری آیت :
ھُوَالَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰي وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْہِرَہٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّہٖ۰ وَلَوْ كَرِہَ الْمُشْرِكُوْنَ ۔
وہ وہی خدا ہے جس نے اپنےرسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے ہر دین پر غالب کردے اگر چہ مشرکین کو برا ہی لگے۔
یہ آیت قرآن میں تین مرتبہ آئی ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تاکید فرمائی ہے کہ یہ کام ہوکر رہےگا اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں۔ اب اس آیت کی وضاحت کےلیئے بھی ہم روایات کی طرف رجوع کرتے ہیں۔
امام علی علیہ السلام کی حدیث مجمع البیان میں عبابہ سے مروی ہے کہ انہوں نے امیرالمومنینؑ سے سنا کہ آپؑ فرمارہے تھے کہ” اس کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کوئی بستی ایسی نہیں بچے گی مگر یہ کہ صبح وشام اس میں لا الہ الا اللہ کی ندا دی جائے گی۔ تفسیر برہان میں بھی ایسا ہی نقل ہوا ہے مگر لا الہ الا اللہ کے بعد محمدالرّسول اللہ کا اضافہ ہے۔
اس حدیث سے آیت کی تشریح اور تاویل ہوجاتی ہے کہ دین اسلام کا پورے ادیان پر غالب آجانے سے مراد یہ ہے کہ اسلام اتنا پھیلے گا کہ کلمہ شہادتین کی صدا ہر گھر سے آئے گی اور کوئی بستی اور گھر ایسا نہیں بچے گا جس میں اسلام نہ پہنچے اور کلمہ شہادتین کی گواہی نہ دی جائے۔
دیکھنا یہ ہے کہ اسلام کے آنے کے بعد کبھی ایسا وقت آیا ہے جس میں اسلام ہر گھر تک پہنچا ہو پھر ختم ہوا ہو یا اس طرح کا دور آیا ہی نہیں ہے تو اس کو دیکھنے کے لئے حضرت آدمؑ سے لیکر خاتم النبیین اور امامت کی پہلی کڑی سے لیکر گیارھویں کڑی تک کی تاریخ اٹھا کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ کبھی بھی ایسا دور نہیں گزرا جس میں اسلام ہر ادیان پر غالب آیا ہو اور شہادتین کی صدا گھر گھر سے بلند ہوئی ہو۔ پس واضح ہوا وہ دور ابھی نہیں آیا بلکہ ابھی آنا ہے۔
اب اسلام کو تمام ادیان پر غالب کرنے کے لئے جوکہ دفعی نہیں تدریجی ہے اللہ تعالی پر از باب لطف واجب ہے کہ ایک ایسے ہستی کو بھیجے جو یہ کام کرے اب جب واجب ہے تو وہ ہستی جسے بھیجے گا وہ نبی تو نہیں ہوسکتی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے خود قرآن میں نص قائم کردی کی اے حضرت محمدﷺ آپ اللہ کے آخری نبی ہے اور خاتم النبیین ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے”مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَلٰكِنْ رَّسُوْلَ اللہِ وَخَاتَمَ النَّـبِيّٖن وَكَانَ اللہُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِــيْمًا ” محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں ہاں وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیّین ہیں اور اللہ ہر چیز کا خوب جاننے والا ہے۔
حضرت محمدﷺ نے خود بھی ارشاد فرمایا : کہ ” یا علی انت منّی بمنزلة ھارون من موسیٰ الّا اٴنّہ لا نبیّ بعدی” اس حدیث سے بھی واضح ہوتا ہے کہ حضرت محمدﷺ اللہ کے آخری نبی ہیں آپؐ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔اور بعض آحادیث میں خود نبیؐ نے واضح فرمایا ہےکہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔تو اسکا مطلب یہ ہوا کہ اسلام کو تمام ادیان پر غالب کرنے کے لئے کے نبی تو نہیں ہوسکتا اب ایک ایسی ہستی تو ہو جویہ کام کرے اب ہمیں حقیقی مفسّر قرآن کی طرف رجوع کرنا پڑے گا یہ دیکھنے کے لئے کہ آخر وہ ہستی کون ہے جو یہ کام کرے گی۔
ہم ان روایات کی طرف رجوع کرتے ہیں جن میں اس ہستی کی خوشخبری دی ہوئی کہ وہ ہستی کون ہوگی ہم ان ساری روایات کو بیان نہیں کرتے ان میں سے صرف چند روایات بیان کرتے ہیں تاکہ موضوع طویل نہ ہوجائے۔
احمد بن حنبل نے اپنی مسند میں بارہ ائمہؑ والی اس حدیث کو جابر بن سمرہ سے چونتیس طرق سے نقل کیا ہے اور وہ روایت یہ ہے "جابر بن سمرہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں: میں نے نبیؐ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اس امت میں بارہ خلیفے ہوں گے۔
اس کو مسلم نے اپنی صحیح کے حصّہ کتاب الامارۃمیں روایت کیا ہے اور بخاری نے بھی اپنی صحیح کے جز وکتاب الاحکام میں جابر بن سمرہ سے نقل کیا ہے ، وہ کہتےہیں: میں نبی اکرمؐ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ بارہ امیر ہوں گے، اس کے بعد آپؐ نے ایک کلمہ کہا جسے میں نہ سن سکا ۔ راوی کہتا ہے کہ میرے باب نے بتایا کہ آگے آپؐ نے فرمایا تھا کہ وہ بارہ کے بارہ قریش میں سے ہوں گے۔
ان دو روایتوں سے یہ واضح ہوتاہےکہ وہ ہستی نبیؐ کی جانشین ہوگی، جسے نبیؐ نے خود اپنی زندگی میں جانشین مقرر فرمایا ہوگا یہ دو روایات تو مطلق ہیں۔اب آئیے دیکھتے ہیں ان احادیث کی طرف جن میں نبیؐ نے اپنے جانیشوں کا نام بیان فرمایا ہے۔
اہل سنت عالم دین الجوینی الشافعی نے اپنی کتاب فرائد السمطین میں نقل کیا ہے کہ رسولؐ خدا نے فرمایا: ” میں نبیوںؑ کا سردار ہوں، علیؑ اوصیاء کے سردار ہیں اور بے شک میرے بعد میرے اوصیاء بارہ ہیں جن کے پہلےعلیؑ اور آخری مہدیؑ ہیں”
ان احادیث سے یہ ثابت ہوا کہ رسولؐ کے بارہ خلفاء ہوں گے اور سارے کےسارے قریش سے ہوں گے تاریخ اٹھا کر دیکھیے معلوم ہوتا ہے کہ قریش سے ابھی بارہ اماموں کے علاوہ کوئی بھی بارہ خلفاء نہیں آئے تاکہ کوئی یہ نہ کہے کہ یہ بارہ بھی تو قریش سے ہیں تو پس ثابت ہوا یہی بارہ امام جنہیں ہم مانتے ہیں یہی رسولؐ کے اصلی جانشین ہے جن کے اول علیؑ اور آخری مہدیؑ ہیں۔
اب جب ثابت ہوا کہ بارہ خلفاءِ رسولؐ قیامت تک رسولؐ کے جانشین ہوں گے اور قیامت تک انہی کی حکومت رہے گی تو اللہ پر واجب ہے کہ اپنے وعدے پر عمل کرتے ہوئے انہی میں سے کسی ایک کے زریعے یہ کام انجام دے ۔ اب پہلے گیارہ اماموں سے تو اللہ نے یہ کام نہیں لیا تاریخ اٹھا کے دیکھے تو امام علیؑ سے لیکر امام حسن العسکریؑ تک کسی امام کے زمانے میں ایسا وقت نہیں گزرا کہ جس میں دین اسلام تمام ادیان پر غالب آیا ہو جس کا اللہ تعالیٰ نے خوشخبر ی دی ہو۔
اب اللہ تعالیٰ تو وعدے کا لازمہ یہ ہے کہ ایک ہستی آئے جو یہ کام کرے اور وہ ہستی جو آئے گا اور یہ کام کرے گی وہ امامت کی بارھویں کڑی ہے جس کی ولادت 255 ھ میں ہوئی اور ولادت کے ساتھ ہی غیبت صغریٰ کی ابتدا شروع ہوجاتی ہے اور پھر 329 ھ میں آپ کے غیبت کبریٰ کا آغاز ہوتا ہے جو ابھی تک جاری ہے اور پردہ غیبت میں تشریف فرما ہیں وہ ایک دن تشریف لائیں گے۔ اللہ تعالیٰ کے اس وعدے کو کہ لیظہرہ علی الدین کلہ کا مصداق بن کر وعدے کو عملی جامہ پہناتے ہوئے اسلام کو تمام ادیان پر غالب کرے گا اس طرح کہ شہادتین کی صدائیں ہر گھر سےآئے گی۔
چوتھی آیت :
وَاِنْ مِّنْ اَہْلِ الْكِتٰبِ اِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِہٖ قَبْلَ مَوْتِہ وَيَوْمَ الْقِيٰمَۃِ يَكُوْنُ عَلَيْہِمْ شَہِيْدًا۔
اوراہل کتاب میں کوئی ایسا نہیں جو ان کی موت سے پہلے ان پر ایمان نہ لائے اور قیامت کے دن وہ (مسیح) ان پر گواہ ہوں گے۔ مختلف تفاسیر کے مطابق اس آیت کی دو تفسیریں بیان کی گئی ہے۔
پہلی تفسیر:
یہ کہ کوئی بھی انسان جب مرنے لگتا ہے تو تمام حقیقتیں کھل کر سامنے آجاتی ہے اور حقیقت کا پتہ چل جاتا ہے آنکھوں سے تمام پردے ہٹ جاتے ہیں ،آنکھیں مسیحؑ کو دیکھنے لگتی ہیں، تو غلط عقیدہ درست عقیدہ میں بدل جاتاہے جو مسیحؑ کو نہیں مانتے تھے ماننے لگتا ہیں اور جو مسیحؑ کو الوہیت کا درجہ دیتے تھے وہ اپنی غلطی کا کو جان لیتے ہیں۔
اس وقت ان کا ایمان ان کو کچھ فائدہ نہیں پہنچاتا کیونکہ یہ فرعون کے ایمان کی طرح ہوگا کہ جب دریا میں غرق ہونا شروع ہوا تو ایمان کا اظہار کیا لیکن اس وقت جب موت کے دہانے پہنچے اس قت لائے ہوئے ایمان کا فائدہ نہیں پہنچ جائے۔ اگر ہم یہ تفسیر کریں تو اس صورت میں آیت میں موجود ” موتہ ” کی ضمیر اھل کتاب کی طرف پلٹے گی ۔
دوسری تفسیر:
یہ کہ تمام اہل کتاب حضرت عیسیؑ پر ان کی موت سے پہلے ایمان لائیں گے یعنی حضرت عیسیؑ کی وفات سے پہلے کوئی بھی یہودی یا نصرانی ایسا نہیں ہوگا جو حضرت عیسیٰؑ پر ایمان نہ لائے جب ہم آیت کی یہ تفسیر کریں تو اس صورت میں ” قبل موتہ ” میں موجود ضمیر حضرت عیسیٰ "ہ” حضرت عیسیٰ کی طرف پلٹے گی ۔
آیت کی ان دو تفسیروں میں سے دوسری تفسیر کی صورت میں یہ ہمارے موضوع بحث پر دلیل بنے گی کہ ہم اس آیت کے زریعے امام مہدیؑ پر استدلال کرسکیں گے۔ کیونکہ آیت کہہ رہی ہے کہ کوئی بھی نصاریٰ نہیں بچے گا جو حضرت عیسیٰؑ پر ایمان نہ لے آئے اور تاریخ کےمطالعہ سے معلوم ہوتا ہےکہ حضرت عیسیٰؑ کے دور میں اور نہ حضرت عیسیٰؑ کے بعد کسی دور میں اس آیت کے مطابق واقعہ پیش آیا ہو کہ تمام یہود و نصاریٰ نے حضرت عیسیٰؑ پر ایمان لایا ہو اور حضرت عیسیٰ کو الوہیت کے درجے سے اپنی اصلی درجے پر( جوکہ اللہ کا نبیؑ ہونا ہے) مانا ہو۔
اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ یہ کام حضرت عیسیٰؑ کے وفات سے پہلے ہوگا تو اس کا مطلب اس کا ہونا ضروری ہے اور حضرت عیسیٰؑ ابھی زندہ ہے تاکہ کسی کو یہ خیال نہ گزرے کہ شاید یہ حضرت عیسیٰؑ کے وفات کے وقت ایسا ہوا ہو کہ سب نے ان پر ایمان لایا ہو۔ مطلب واضح ہے کہ ابھی تک یہ کام نہیں ہوا ہے بلکہ مستقبل میں ہوگا اس وقت حضرت عیسیٰؑ تشریف لائیں گے اور تمام یہودی اور نصاریٰ آپ پر ایمان لائیں گے۔
اس بات کو سمجھنے کےلئے ہمیں پھر روایات کی طرف رجوع کرنا پڑے گا کی حضرت عیسیٰؑ کب تشریف لائیں گے اور آپ کس شریعت کی پیروی کریں گے؟ کیا آپؑ خود حکومت کریں گے یا کسی کی پیروی کریں گے؟
تو اس سوال کا جواب بھی روایات کی طرف رجوع کرنے سے واضح ہوجاتا ہے کہ جب حضرت عیسیٰؑ تشریف لائیں گے تو آپؑ امام مہدیؑ کی پیروی کریں گے اور امام مہدی ؑ کے پیچھے نماز پڑھیں گےاور آپؑ کی متابعت میں تلوار چلائیں گے۔ پس معلوم ہوا وہ وقت ابھی نہیں آیا جس وقت حضرت عیسیٰؑ امام مہدیؑ کی پیروی کرتے ہوئے اسلام کو گھر گھر پھیلائیں گے۔
اب آئیے ان روایات کی طرف رجوع کرتے ہیں جن میں حضرت عیسیٰؑ کےتشریف لانے کے بعد امام مہدیؑ کی پیروی کرنے کا ذکر موجود ہے۔ اور وہ روایات جو اس آیت کی دوسری تفسیر پر بھی دلالت کرتی ہیں اس حوالے سے صرف دو روایات بیان کریں گے۔
پہلی روایت:
رسول اکرمﷺ کا فرمان ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ” کیف انتم اذا نزل فیکم ابن مریم وامامکم منکم”
تمہارا کیا حال ہوگا وقت جب ابن مریم نزول کریں گے تو تمہارا امام تم میں سے ہوگا ۔
اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ واضح طور پر فرما رہے ہیں کہ جب حضرت عیسیٰؑ تشریف لائیں گے تو تمہارا امام تم میں سے ہوگا اور آپؑ امام مہدیؑ کی پیروی کریں گے۔ اس سے رسول اللہ ؐ نے واضح کردیا کہ میری امت کا امام کوئی اور نہیں ہوگا بلکہ میری امت میں سے ہوگا سے اور اب جب رسولؐ کی امت میں سے ہوگا تو اس کو معصوم بھی ہونا ضروری ہے کیونکہ حضرت عیسیٰؑ تو ہمارے عقیدے کے مطابق معصوم ہے اب جس کے پیچھے ایک معصوم نماز پڑھے گا تو ظاہر ہے اسے بھی معصوم ہونا چاہئے ورنہ ایک غیر معصوم کو معصوم پر مقدم کرنا اور ایک مفضول کو افضل پر مقدم کرنا لازم آئے گا جوکہ عقلا محال ہے۔
پس جس کے پیچھے حضرت عیسیٰؑ نماز پڑھیں گے اس کا معصوم ہونا ضروری ہے اور وہ کوئی اور نہیں ہوسکتا وہ ہمارے آخری حجت امام مہدی عج اللہ فرجہ الشریف ہوں گے جو ابھی تک پردہ غیبت تشریف فرما ہیں۔
دوسری روایت :
شہر بن حوشب راوی ہے کہ حجاج نے مجھ سے کہا کہ اے شہر! کتاب اللہ کی ایک آیت کا مفہوم میری سمجھ میں نہیں آتا۔ شہر نے پوچھا اے امیر وہ کونسی آیت ہے؟ حجاج نے کہا خداکی وہ آیت ہے جس میں فرماتا ہے” وَاِنْ مِّنْ اَہْلِ الْكِتٰبِ اِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِہٖ قَبْلَ مَوْتِہ وَيَوْمَ الْقِيٰمَۃِ يَكُوْنُ عَلَيْہِمْ شَہِيْدًا” خدا کی قسم جب میں یہودی و نصاریٰ کی گردن مارنے کا حکم دیتا ہوں تو میں نے آج تک اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا کہ ان کے ہونٹ ( کلمہ پڑھنے) کے لئے حرکت کررہے ہوں ، میں نے کہا کہ خدا امیر کی حفاظت کرے اس آیت کی یہ تاویل نہیں ہے حجاج کہنے لگے: پھر کیا مطلب ہے؟ میں نے کہا کہ حضرت عیسیٰؑ قیامت سے پہلے دنیا میں تشریف لائیں گے ان کی رحلت سے پہلے تمام یہود و نصاریٰ ان پر ایمان لائیں گے اور آپؑ امام مہدیؑ کے پیچھے نماز پڑھیں گے۔ حجاج کہنے لگا آپ نے یہ کہاں سے سنا ہے؟ میں نے کہا میں نے یہ حدیث علی ابن حسین بن علی ابن ابی طالب علیہم السلام سے سنی ہے وہ کہنے لگا خدا کی قسم آپ نے اسے ایک صاف شفاف چشمہ سے لائیں ہیں۔
اس حدیث تشریح کی کرنے کی ضرورت بلکل بھی نہیں کیونکہ اس میں رسول اللہؐ واضح طور پر ارشاد فرمارہے ہیں کہ امام زمانہ تشریف لانے کے بعد حضرت عیسیٰؑ امام مہدیؑ کے اقتدا میں نماز پڑھیں گے۔
اسی طرح امام محمد باقر علیہ السلام سے بھی ایک روایت نقل ہوئی ہے جس سے اسی دوسری تفسیر کی تایئد ہوتی ہے۔
آیت اللہ محمد حسین نجفی صاحب بھی اپنی تفسیر فیضان الرحمٰن میں اسی دوسری تفسیر کو اقویٰ قرار دیتے ہیں۔

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button