خطبہ جمعۃ المبارک (شمارہ:244)
(بتاریخ: جمعۃ المبارک 22 مارچ 2024ء بمطابق 11 رمضان المبارک 1445ھ)
تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
جنوری 2019 میں بزرگ علماء بالخصوص آیۃ اللہ شیخ محسن علی نجفی قدس سرہ کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
موضوع: ماہ رمضان اور قرآن/وفات ام المومنین سیدہ خدیجۃ الکبریٰؑ
قرآن مجید میں اللہ تعالی نے ماہ رمضان کے بارے میں یوں ارشاد فرمایا:
شَہۡرُ رَمَضَانَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ فِیۡہِ الۡقُرۡاٰنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الۡہُدٰی وَ الۡفُرۡقَانِ فَمَنۡ شَہِدَ مِنۡکُمُ الشَّہۡرَ فَلۡیَصُمۡہُ(البقرۃ 185)
رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور ایسے دلائل پر مشتمل ہے جو ہدایت اور(حق و باطل میں)امتیاز کرنے والے ہیں، لہٰذا تم میں سے جو شخص اس مہینے کو پائے وہ روزہ رکھے۔۔۔،
رمضان وہ واحد مہینہ ہے جس کا ذکر قرآن میں آیا ہے،کیونکہ یہ وہ مبارک ماہ ہے جس میں قرآن کا نزول ہوا۔ دوسرے مقام پہ نزول کا وقت بھی بتا دیا:
اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنٰہُ فِیۡ لَیۡلَۃٍ مُّبٰرَکَۃٍ ۔۔۔۔ {۴۴ دخان : ۳}ہم نے اسے ایک بابرکت رات میں نازل کیا ہے۔
ایک اور مقام پہ اس رات کو بھی متعین فرمایا:
اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنٰہُ فِیۡ لَیۡلَۃِ الۡقَدۡرِ ۔ {۹۷ القدر : ۱}ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میں نازل کیا ۔
پس ماہ رمضان کی برکات میں سے ایک برکت یہ ہے کہ اسی مہینے کی ایک رات میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید نازل فرمایا۔البتہ واقعاتی اور عملی طور پر یہ بات ثابت اور واضح ہے کہ قرآن ۲۳ سالوں میں تدریجاً نازل ہوا ہے۔ لیکن مذکورہ آیت میں ایک رات میں نازل کرنے کا بیان ہے۔اس معاملے میں علماء نے چند جواب دیئے ہیں:
۱۔ ماہ رمضان المبارک میں قرآن کے نزول سے مراد یہ ہے کہ اس مہینے میں قرآن کا نزول شروع ہوا۔
۲۔ قرآن کا نزول آسمانی دنیا میں اسی ماہ میں ہوا۔ وہاں سے بتدریج قلب رسولﷺ پر نازل ہوتا رہا۔
۳۔ رمضان میں قرآن کے نزول سے مراد ایک ایسے سورے کا نزول ہے جو خلاصۂ قرآن ہے۔ مثلاً سورۂ حمد۔
۴۔ قرآن کی حقیقت قلب رسول ﷺ پر شب قدر کو ایک ساتھ نازل ہوگئی تھی۔ بعد میں حالات اور واقعات کے مطابق دوبارہ رسول خدا ﷺ پر نازل ہوتا رہا ۔علماء اس کی یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ رسول خدا ﷺ کو یہ حکم ہوا کہ وحی مکمل ہونے سے قبل قرآن کی تلاوت نہ کریں۔ ارشاد ہوتا ہے:
وَ لَا تَعۡجَلۡ بِالۡقُرۡاٰنِ مِنۡ قَبۡلِ اَنۡ یُّقۡضٰۤی اِلَیۡکَ وَحۡیُہٗ۔۔۔ {۲۰ طہ : ۴ ۱۱}
اور آپ پر ہونے والی اس کی وحی کی تکمیل سے پہلے قرآن پڑھنے میں عجلت نہ کریں۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضور ﷺ کو بیان احکا م کے لیے وحی کا انتظار فرمانے کا حکم دیا جا رہا ہے، ورنہ قرآن کا علم آپ ﷺ کو پہلے سے حاصل تھا۔
قرآن پاک ماہ رمضان میں نازل کیا گیا ہے جو لوگوں کے لئے ہدایت ہے اور جس میں حق و باطل کے امتیاز کی واضح نشانیاں ہے۔ اور اس قرآن کو اس مبارک رات میں نازل کیا گیا ہے جس میں تمام باحکمت امور مقدر ہو جاتے ہیں؛ یعنی لیلۃ القدر ۔وہ قرآن جو اگر پہاڑ پر اترتا تو وہ ریزہ ریزہ ہو جاتا، اسے قلب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر نازل فرمایا تاکہ وہ اس کے سہار ے سے مومنین کو بشارت دینے والا اور مجرموں کو جہنم سے ڈرانے والا بنے۔یہ وہ عظیم کتاب ہے جس میں دلوں کی بیماری کے لئے شفا ہے، متقین کے لئے ہدایت ہے،ایسی کتا ب جس میں شک کی گنجائش نہیں،(کسی طرح سے بھی باطل اس کتاب تک نہیں پہنچ سکتا، اس لئے کہ اس کی حفاظت کی ذمہ دار وہی بابرکت ذات ہے جس نے اسے نازل فرمایا، وہ اس کتاب کے ذریعے سے ہر باطل کو ختم کرنا چاہتا ہے۔
بہار قرآن
ہر چیز کی ایک بہار ہوتی ہے اور عبادتوں، قرآن اور دعاؤں کی بہار ماہ رمضان ہے، اسی لئے امام باقر علیہ السلام سے روایت ہے:
لِكُلِّ شَيْءٍ رَبِيعٌ وَ رَبِيعُ الْقُرْآنِ شَهْرُ رَمَضَانَ
ہر چیز کی ایک بہار ہے اور قرآن کی بہار ماہ رمضان ہے۔ قرآن کریم میں اس ماہ کی بہت زیادہ فضیلتیں وارد ہوئی ہیں۔ ماہ رمضان کو جو فضیلت ملی ہے وہ مختلف وجوہات کی بنا پر ہے:
1- اس ماہ میں قرآن اترا ہے۔
2-روزہ اسی ماہ میں واجب ہوا ہے۔
3-ہزار مہینو ں سے بہتر رات ؛ شب قدر اسی مہینہ میں واقع ہوئی ہے۔
4- تاریخ اسلام کے کئی اہم واقعات منجملہ جنگ بدر اور شہادت امام علی علیہ السلام اسی ماہ میں رونما ہوئے ہیں۔
ان کے علاوہ بھی ماہ مبارک رمضان فضائل کا حامل مہینہ ہے، دعا نماز عبادتوں کے لئے سب سے بہتر ماہ ہے۔
پس اس مہینے میں قرآن کی تلاوت اور اس میں تدبر کا خاص اہتمام کرنا چاہیے۔قرآن کے مفاہیم کو سمجھنے کے لیے ایک ختم قرآن صرف ترجمہ کا مطالعہ کرتے ہوئے کرنا چاہیے تاکہ معلوم ہو سکے کہ اس قرآن میں اللہ نے کیا احکامات ناز ل کیے ہیں۔
پس مومنین کو چاہیئے کہ اس ماہ میں قرآن سے دل لگائیں، تمام مشکلات کا حل اسی قرآن میں ہے، مومنوں کے لئے اس میں شفاء اور رحمت اور کافروں کے لئے نقصان ہے۔
ماہ رمضان میں تلاوت کا ثواب:
ماہ رمضان میں تلاوت قرآن کا ثواب عام دنوں میں کی گئی تلاوت سے کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔جیسا کہ خطبہ شعبانیہ میں نبی کریم ﷺ سے روایت ہے:
وَ مَنْ تَلَا فِيهِ آيَةً مِنَ الْقُرْآنِ كَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِ مَنْ خَتَمَ الْقُرْآنَ فِي غَيْرِهِ مِنَ الشُّهُور(خطبہ شعبانیہ)
اور جس نے اس ماہ میں قرآن کی ایک آیت کی تلاوت کی اسےاس کے بدلے دیگر مہینوں میں پورا ختم قرآن کے برابرثواب ملے گا۔
قرآن اور ماہ مبارک رمضان میں ایک خاص رابطہ پایا جاتا ہے۔ جیسے موسم بہار میں انسان کا مزاج شاداب رہتا ہے اور گل و گیاہ سر سبز و شاداب رہتے ہیں۔ اسی طرح قرآن بھی دلوں کے لیے موسم بہار کی مانند ہے کہ جس کے پڑھنے حفظ کرنے اور اس کے مطلب کو سمجھنے میں انسان کا دل ہمیشہ ایک خاص شادابی کا احساس کرتا ہے۔
جیسا کہ امام علی علیہ السلام سے روایت ہے:
تَعَلَّمُوا كِتَابَ اللّٰهِ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى فَإِنَّهُ أَحْسَنُ الْحَدِيثِ وَ أَبْلَغُ الْمَوْعِظَةِ وَ تَفَقَّهُوا فِيهِ فَإِنَّهُ رَبِيعُ الْقُلُوبِ وَ اسْتَشْفُوا بِنُورِهِ فَإِنَّهُ شِفاءٌ لِما فِي الصُّدُورِ وَ أَحْسِنُوا تِلَاوَتَهُ فَإِنَّهُ أَحْسَنُ الْقَصَص
کتاب خدا کا علم حاصل کرو کیونکہ یہ بہترین کلام ہےاور اس کی نصیحت کامل ہے۔اور اس میں غور و فکر کرو کہ یہ دلوں کی بہار ہے اور اس کے نور سے شفاء طلب کرو کہ یہ دلوں کے لیے شفاء ہے اور اس کی اچھے انداز میں تلاوت کرو کہ یہ بہترین بیان ہے۔
اسی بناء پر قرآن اور رمضان کے مہینہ کا رابطہ آپس میں بہت گہرا ہے۔قرآن کو پڑھنے اور اس میں غور و فکر کر نے کے بعد انسان اس بات پر قدرت رکھتا ہے کہ وہ حیات طیبہ اور معفرت کی بلندی تک پہنچ جائے اور شب قدر کو درک کر سکے۔
پس ہمیں قرآن کی تلاوت کے ساتھ ساتھ اس کے پیغام پر غور وفکر کرنا چاہیے اور اپنی زندگی کی راہ متعین کرنے کے لیے قرآن سے راستہ تلاش کرنا چاہیے۔ہمیں اپنی اجتماعی و انفرادی زندگی قرآن کی روشنی میں گزارنی چاہیے۔امام علی علیہ السلام نے ایک مقام پہ اس زمانے کی خبر دی ہے جس میں قرآن کی اہمیت کم کردی جائے گی۔ہمیں دیکھنا ہوگا کہ کہیں ہم بھی اسی زمانے میں تو موجود نہیں ہیں۔ کیا ہم نے بھی اپنی زندگیوں سے قرآن کو نکال دیا ہے اور فقط تلاوت تک محدود کرلیا ہے اور وہ بھی صرف ماہ رمضان میں؟ امام علیہ السلام سے روایت ہے:
ُ سَيَأْتِي عَلَيْكُمْ مِنْ بَعْدِي زَمَانٌ ۔۔۔َ لَيْسَ عِنْدَ أَهْلِ ذَلِكَ الزَّمَانِ سِلْعَةٌ أَبْوَرَ مِنَ الْكِتَاب۔۔۔ِ فَقَدْ نَبَذَ الْكِتَابَ حَمَلَتُهُ وَ تَنَاسَاهُ حَفَظَتُه(الكافي (ط – الإسلامية)، ج8، ص: 387)
میرے بعد تم پر ایک ایسا زمانہ آئے گا ۔۔۔کہ اس زمانے والوں کے نزدیک کتابِ خدا سے زیادہ بے قیمت کوئی متاع نہ ہوگی ۔۔۔تب حاملان کتاب،کتاب کوچھوڑ دیں گے اور حافظان قرآن، قرآن کو بھلا دیں گے۔
امیر المومنین علیہ السلام کی تاکید:
حارث ہمدانی فرماتے ہیں:
میں مسجد میں داخل ہوا اور دیکھا کہ کچھ لوگ بعض (بے فائدہ) باتوں میں الجھے ہوئے ہیں۔ چنانچہ میں امیر المومنین کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہ واقعہ آپ کے سامنے بیان کردیا آپ نے فرمایا: واقعاً ایسا ہی ہے؟ میں نے عرض کیا ہاں یا مولا۔ آپ نے فرمایا: اے حارث! میں نے رسول اکرم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: عنقریب فتنے برپا ہوں گے۔ میں نے عرض کیا مولا! ان فتنوں سے نجات حاصل کرنے کا کیا طریقہ ہے؟ آپ نے فرمایا: راہِ نجات کتاب الہی ہے۔ وہی کتاب جس میں گزشتہ اور آنے والی نسلوں کے واقعات اور خبریں اور تم لوگوں کے اختلافی مسائل کے فیصلے موجود ہیں۔ وہی کتاب جو حق کو باطل سے بآسانی تمیز دے سکتی ہے۔ اس میں مذاق اور شوخی کا کوئی پہلو نہیں۔ وہی کتاب جس کو اگر جابر و ظالم بادشاہ بھی ترک اور نظر انداز کرے، خدا اس کی کمر توڑ دیتا ہے۔ جو شخص غیرِقرآن سے ہدایت حاصل کرنا چاہے، خالق اسے گمراہ کر دیتا ہے۔ یہ (قرآن ) خدا کی مضبوط رسی اور حکمت آمیزذکر ہے۔ یہ صراط مستقیم ہے۔ یہ وہ کتاب ہے جسے ہوا و ہوس اور خواہشات نفسانی منحرف نہیں کر سکتیں۔ قرآن کی بدولت زبانیں التباس اور غلطیوں سے محفوظ رہی ہیں۔ علماء اور دانشور اسے پڑھنے اور اس میں فکر کرنے سے سیر نہیں ہوتے۔ زمانے کے گزرنے کے ساتھ یہ پرانی اور فرسودہ نہیں ہوتی اور نہ اس کے عجائبات ختم ہونے میں آتے ہیں۔ یہ وہ کتاب ہے جسے سن کر جن یہ کہے بغیر نہ رہ سکے کہ ہم نے عجیب و غریب قرآن سنا ہے۔ یہ وہ کتاب ہے کہ جو بھی اس کی زبان میں بولے، صادق ہی ہوگا اور جو قرآن کی روشنی میں فیصلے کرے گا، یقینا عادل ہو گا۔ جو قرآن پر عمل کرے، وہ ماجور ہو گا، جو قرآن (احکام قرآن) کی طرف دعوت دے وہ صراط مستقیم کی ہدایت کرتا ہے اس کے بعد امیر المومنین نے حارث ہمدانی سے فرمایا: حارث! اس حدیث کو لے لو اور یاد رکھو۔
(حوالہ:سنن وارمی۔ ج۲۔ ص۴۳۵، کتاب فضائل القرآن میں بھی اس طرح موجود ہے۔ صحیح ترمذی، ج ۱۱، ۳۰، باب فضائل قرآن میں بھی معمولی لفظی اختلاف کے ساتھ موجود ہے۔ بحارالانوارج ۹، ص۷ میں تفسیر عیاشی سے منقول ہے۔)
اسی طرح قرآن کی عظمت پر امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:
إِنَّ الْقُرْآنَ حَيٌ لَمْ يَمُتْ وَ إِنَّهُ يَجْرِي كَمَا يَجْرِي اللَّيْلُ وَ النَّهَارُ وَ كَمَا يَجْرِي الشَّمْسُ وَ الْقَمَرُ وَ يَجْرِي عَلَى آخِرِنَا كَمَا يَجْرِي عَلَى أَوَّلِنَا
قرآن زندہ و جاوید ہے، اسے موت نہیں آسکتی، دن اور رات کی طرح یہ بھی چلتا رہے گا اورسورج اور چاند کی طرح ہر دور میں ضوفشانی کرتا رہے گا۔
اگر کوئی شخص روزانہ قرآن کی تلاوت کو اپنا معمول بنا لے تو ایک روایت میں روزانہ ایک خاص تعداد آیات کی تلاوت کرنے والے کے لیے ایک خاص فائدہ اور ثواب بیان کیا گیا ہے۔ جیسا کہ نبی کریم ﷺ سے روایت ہے:
قاَلَ رَسُوْلُ اللّٰه صلی اللّٰه علیه وآله وسلم من قٰرأ عَشَرَ آیاتٍ فی لَیْلَةٍ لَمْ یَکْتُب مِنَ الْغٰافلین
جو شخص ایک رات کو دس آیتوں کی تلاوت کرے اس کا نام غافلین (جو یاد خدا سے بے بہرہ رہتے ہیں) میں نہیں لکھا جائے گا
وَمَنْ قَرأَ خَمْسْینَ آیَةً کُتِبَ مِنَ الذّٰکِرینَ
اور جو شخص پچاس آیتوں کی تلاوت کرے اس کا نام ذاکرین (خدا کو یاد رکھنے والے، حرام و حلال کا خیال رکھنے والے) میں لکھا جائے گا
وَمَنْ قَرأَمِاَئةَ آیةًکُتِبَ مِنَ القٰانِتینَ
اور جو شخص سو آیتوں کی تلاوت کرے اس کا نام قانتین(عبادت گزاروں) میں لکھا جائے گا
وَمَنْ قَرءَ مَائَتَیْ آیةً کُتِبَ مِنَ الخٰاشِعین
اور جو شخص دو سو آیتوں کی تلاوت کرے اس کا نام خاشعین (جو خدا کے سامنے متواضع ہوں) میں لکھا جائے گا
ومن قرأ ثَلٰثَمِائَةَ آیةً کُتِبَ من الفٰائِزینَ
اور جوشخص تین سو آتیوں کی تلاوت کرے اس کا نام سعادت مندوں میں لکھا جائے گا،
وَمَنْ قَرأَ خَمْسَمِائَةُ آیةً کُتِبَ مِنَ المُجْتَهدِینَ
جو شخص پانچ سو آیتوں کی تلاوت کرے اس کا نام عبادت اور پرستش خدا کی کوشش کرنے والوں میں لکھا جائیگا
وَمَنْ قَرأَ اَلَفَ آیةً کُتِبَ لَه قِنْطٰارٌ مِنْ تَبَرٍ۔(بحار الانوار ج89 باب23)
اور جو شخص ہزار آیتوں کی تلاوت کرے، وہ ایسا ہے جیسے اس نے کثیر مقدار میں سونا راہِ خدا میں دے دیا ہو۔
امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ایک روایت میں روزانہ قران مجید کی پچاس آیات تلاوت کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ روایت ہے:
اَلْقُرٰانُ عَهدُ اللّٰه اِلٰی خَلْقِہ، فَقَدْ یَنْبغَي للِمَرءِ المُسْلِمِ اَنْ یَنْظُرَ فی عَهدِه، وَاَنْ یَقْرأمِنْه فی کُلِّ یَوْمٍ خَمْسینَ آیةً۔
(الكافي (ط – الإسلامية)، ج2، ص: 609)
قرآن خدا کی طرف سے اپنے بندوں کے لیے ایک عہدو میثا ق ہے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنا عہد نامہ غور سے پڑھے اور روزانہ پچاس آیات کی تلاوت کرے۔
ہم لوگ عام طور پر اپنے کام کاج تو کرتے ہیں لیکن کلام خدا کی تلاوت اور اس میں فکر و تدبر کے لیے دس منٹ نہیں نکال سکتے۔ اسی جانب متوجہ کرتے ہوئے امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:
مٰایَمْنَع التّٰاجِر مِنْکُمْ الَمَشْغُولُ فی سُوْقِه اِذٰا رَجَعَ اِلیٰ مَنْزِلِه اَنْ لاٰ یَنٰامُ حَتّٰی یَقْرَأَ سورةً مِنَ الْقُرآنِ فَیُکْتَبُ لَه مکانَ کُلِّ آیةٍ یَقْرَأها عشر حسنات ویمحی عنه عَشَرَ سَيئٰات؟(الكافي (ط – الإسلامية)، ج2، ص: 611)
جب تمہارے تاجر اپنی تجارت اور کاروبار سے فارغ ہو کر گھرواپس لوٹتے ہیں تو سونے سے پہلے ایک سورہ کی تلاوت سے کونسی چیز ان کے لیے مانع اور رکاوٹ بنتی ہے (کیوں تلاوت نہیں کرتے ) تاکہ ہر آیت کے بدلے اس کے لیے دس نیکیاں لکھی جائیں اور اس کے نامہ اعمال میں سے دس برائیاں مٹا دی جائیں۔
روایت میں ہے کہ جنت کے درجات بھی قرآن کے آیات کے برابر ہیں پس جو جتنی تلاوت کرے گا اس قدر درجات پائے گا۔
امام صادق علیہ السلام کی اس روایت میں آپ نے تلاوت قرآن کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
عَلَیْکُمْ بِتِلٰاِوَةِ القُرْآن، فَاِنَّ دَرَجٰاتُ الجَنَّةِ عَلٰی عَدَدِ آیاتِ القُرْآن، فَاِذٰاکٰانَ یَوْمَ القِیٰامَةِ یُقٰالُ لِقٰارِی الْقُرآنَ ُ ِ اقْرَأْ وَ ارْق فَکُلَّمٰا قَرَأَ آیَةً رَقَیٰ دَرَجَةً۔(الأمالي( للصدوق)، النص، ص: 359)
قرآن کی تلاوت ضرورکیاکرو (اس لیے کہ) آیات قرآن کی تعداد کے مطابق جنت کے درجات ہوں گے۔ جب قیامت کا دن ہو گا تو قاری قرآن سے کہا جائے گا قرآن پڑھتے جاؤ اور اپنے درجات بلند کرتے جاؤ۔ پھر وہ جیسے جیسے آیات کی تلاوت کرے گا، اس کے درجات بلند ہوتے چلیں جائیں گے۔
قرآن کریم میں فکر اور تدبر کرنے کی فضیلت میں بہت سی روایات موجود ہیں۔ لیکن یہ ایسی حقیقت ہے جس کے لیے اخبارو روایات میں تتبع اور جستجو کی ضرورت نہیں ہے۔ کیوں کہ قرآن ایسی کتاب ہے جسے خدا نے لوگوں کے لیے دنیا ہی میں ایک مکمل ضابطہ حیات بناکر بھیجا ہے۔ جس سے آخرت کی راہ، نور اور روشنی حاصل کر سکتے ہیں اور یہ کام اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک قرآن کے معانی میں تدبر اور فکر نہ کیا جائے۔ یہ ایسی حقیقت ہے جس کا فیصلہ عقل کرتی ہے۔ روایات اور احادیث میں جتنی تاکید ہے وہ اسی حکم عقل کی تائید اور اسی کی طرف راہنمائی ہے۔
زہری نے امام زین العابدین سے روایت کی ہے، آپ نے فرمایا:
آیٰاتُ الْقُرْآنِ خَزٰائِنٌ فَکُلَّمٰا فُتِحَتْ خَزینَةٌ ینَبْغَي لَکَ اَنْ تَنْظُرَ مٰا فِیها۔
(تفسیر قرطبی، ج،۱،ص۷۸۔ ۷۹، وفی الکافی کتاب فضل القرآن۔)
قرآن کی آیات خزانے ہیں جب بھی کوئی خزانہ کھولا جائے اس میں موجود موتیوں اور جواہرات کو ضرور دیکھا کرو (تلاش کیا کرو)
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ماہ رمضان جو کہ بہار قرآن کا مہینہ ہے اس میں زیادہ سے زیادہ قرآن کی تلاوت ترجمہ کے ساتھ کرنے اور اس پر غور وفکر کرکے اس پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔
تاریخی مناسبت: وفات ام المومنین سیدہ خدیجہ سلام اللہ علیھا
ماہ رمضان کی 10 تاریخ ام المومنین سیدہ خدیجۃ الکبریٰ سلام اللہ علیھا کی تاریخ وفات بیان کی جاتی ہے۔حضرت خدیجہ بنت خویلد(سلام اللہ علیھا ) ایک آبرومند شخصیت تھیں، آپ قریش کی ایک شریف ، مالدار اورخوبصورت خاتون تھیں۔آپ اس جہالت کے زمانے میں اپنے اخلاق اور فضائل میں ایک نمونہ تھیں اور آپ کو اس دور میں”طاهره” اور "سیده قریش ” کے لقب سے نوازہ گیا تھا ۔اور اسی طرح ہر قبیلے کی یہ خواہش تھی کہ آپ سے رشتہ داری جوڑے۔
پیامبر خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) آپ کے بارے میں یوں کہتے ہیں: هذه (خدیجة) صدیقة امتی ..یعنی خدیجہ میری امت کی صدیقہ ہیں.(ابن کثیر1407ق: 2/62 ) آپ، پیامبر اسلام سے شادی سے پہلے جزیرۃ العرب کی مالدارترین خاتون تھیں اس وقت آپ کے پاس تقریباً ۸۰ ہزار اونٹ تھے اور ان سے آپ طائف، یمن، شام، مصر، حبشہ وغیرہ میں تجارت کرتی تھیں، آپ کے غلام اور کنیزیں بہت زیادہ تھیں، حقیقت تو یہ ہے کہ آپ نے اپنا سب کچھ شادی کے وقت پیامبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کو دینے میں فخر سمجھا۔
آپ کا مقام و مرتبہ:
الف: خداوند متعال کا سلام کرنا
ابو سعید خدری نقل کرتے ہیں کہ پیامبر اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا: میں نے معراج کی شب جبرائیل سے پوچھا کہ کیا کوئی حاجت رکھتے ہو ؟جبرائیل نے کہا : حاجتي أن تقرأ على خديجة من اللّٰه و مني السلام .
میں چاہتا ہوں کہ خدا اور میری طرف سے خدیجہ (سلام اللہ علیھا) کو سلام کہئے۔جب پیامبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے حضرت خدیجہ (سلام اللہ علیھا) کو سلام پہنچایا تو ام المؤمنین نے فرمایا: إن اللّٰه هو السلام، و منه السلام، و إليه السلام، و على جبرئيل السلام۔[بیشک اللہ خود سلام ہے و تمام سلامتی اسی کی طرف سے ہے اور اسی کی جانب پلٹتی ہیں اور جبریل پر سلام ہو۔(عیاشی،1380ق: ج2ص279)
بخاری اور مسلم نے روایت بیان کی ہے کہ جبریل نے پیامبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے کہا:
يَا رَسُولَ اللّٰهِ هَذِهِ خَدِيجَةُ قَدْ أَتَتْكَ مَعَهَا إِنَاءٌ فِيهِ إِدَامٌ أَوْ طَعَامٌ أَوْ شَرَابٌ فَإِذَا هِيَ أَتَتْكَ فَاقْرَأْ عَلَيْهَا السَّلَامَ مِنْ رَبِّهَا وَ مِنِّي وَ بَشِّرْهَا بِبَيْتٍ فِي الْجَنَّةِ مِنْ قَصَبٍ لَا صَخَبَ فِيهِ وَ لَا نَصَبَ ؛ اے رسول اللہ! ابھی خدیجہ آپ کے لئے کھانا پانی لائیں گی تو جب وہ آئیں تو انھیں خدا کا سلام کہئے اور بشارت دیجئے کہ انکے لئے جنت میں ایک قصر (محل)ہے جس میں نہ ہی کوئی مشقت ہے اور نہ ہی کوئی پریشانی۔ (بخاری،1422ق:5/39)
یہ بات یاد رہے کہ امہات المؤمنین میں سے کوئی بھی ایسی نہیں تھیں کہ جس کے لیے خداوند متعال نے سلام بھیجا ہو۔
امام جعفر صادق (علیہ السلام)، سے روایت ہے کہ رسولؐ نے اپنی زوجات کے بارے میں فرمایا: وَ أَفْضَلُهُنَّ خَدِيجَةُ بِنْتُ خُوَيْلِدٍ ثُمَّ أُمُّ سَلَمَةَ بِنْتُ الْحَارِثِ۔ان میں سے افضل خدیجہ بنت خویلد ہیں اور پھر ام سلمہ بنت حارث ہیں۔ (صافی ج4ص197)
یہ وہی مؤمنہ ہیں کہ جو عرب کی مالدار ترین خاتون تھیں، اسلام پر فداکاری کی وجہ سے وہ دن آ گئے کہ شعب ابی طالب میں فاقے کاٹنے پڑے، وہی خاتون کہ جس سے نسل پیامبر آگے بڑھی۔یہ وہ خاتون تھیں کہ جس نے اپنا سب کچھ پیامبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پر فدا کر دیا۔جب تک زندہ رہیں، پیامبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)سے کبھی شکوہ نہیں کیا تھا بلکہ یہاں تک کہ اپنی آواز کو کبھی پیامبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی آواز سے بلند نہ ہونے دیا۔
ب: افضل ترین خواتین میں سے ایک
حضرت خدیجہ (سلام اللہ علیھا)ایسی خاتون ہیں کہ جن کا شمار ان خواتین میں ہے کہ جنہیں خداوند متعال نے باقی خواتین پر فضیلت عطا کی ہے۔موسی بن بکر امام نے موسی کاظم (علیہ السلام) سے نقل کیا کہ انہوں نے فرمایا کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا: إِنَّ اللّٰهَ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى اخْتَارَ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ أَرْبَعَةً خداوند متعال نے ہر چیز میں سے چار کو چنا ہے …. وَ اخْتَارَ مِنَ النِّسَاءِ أَرْبَعاً مَرْيَمَ وَ آسِيَةَ وَ خَدِيجَةَ وَ فَاطِمَةَ…۔اور خواتین میں سے جن چار کو چنا ہے وہ مریم،آسیہ،خدیجہ،فاطمہ ہیں (فتال نیشاپوری،1375ش:2/405)
ابن عباس بھی اس روایت کو نقل کرتے ہیں کہ: خَطَّ رَسُولُ اللّٰهِﷺ أَرْبَعَ خِطَطٍ فِي الْأَرْضِ وَ قَالَ أَ تَدْرُونَ مَا هَذَا قُلْنَا اللّٰهُ وَ رَسُولُهُ أَعْلَمُ فَقَالَ رَسُولُ اللّٰهِ ﷺ أَفْضَلُ نِسَاءِ أَهْلِ الْجَنَّةِ أَرْبَعٌ خَدِيجَةُ بِنْتُ خُوَيْلِدٍ وَ فَاطِمَةُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ وَ مَرْيَمُ بِنْتُ عِمْرَانَ وَ آسِيَةُ بِنْتُ مُزَاحِمٍ امْرَأَةُ فِرْعَوْنَ رسول خداؐ کا قول ہے کہ اہل جنت میں سے افضل خواتین چار ہیں ،خدیجہ بنت خویلد،فاطمہ بنت محمد،مریم بنت عمران ،آسیہ بنت مزاحم ۔
ج: بہشت میں گھر کی بشارت
بہشت میں گھر کی بشارت، ایک بہت بڑی فضیلت ہے، خداوند متعال نے حضرت آسیہ کے قول سے یوں نقل کیا: إِذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ (سورۃ تحریم:11)
حضرت خدیجہ (سلام اللہ علیھا ) ایسی با عظمت خاتون ہے کہ خداوند متعال نے انہیں زندگی ہی میں بہشت کی بشارت دی ہے۔
رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) فرماتے ہیں: قال لي جبرائيل:بشّر خديجة ببيت في الجنة من قصب لا صخب فيه و لا نصب فيه- يعني قصب الزمرد ۔ جبرائیل نے مجھے بشارت دی ہے کہ خدیجہ تمہارے لیے بہشت میں ایک قصر ہے اور وہ قصر زمرد کا بنا ہوا ہے ۔(ابن حیون 1409ق 3/ 17)
صحیح بخاری میں حضرت عائشہ سے نقل ہوا ہے کہ خداوند متعال نے پیامبر کو حکم دیا کہ خدیجہ کو بہشت میں گھر کی بشارت دو: مَا غِرْتُ عَلَى امْرَأَةٍ مَا غِرْتُ عَلَى خَدِيجَةَ مِنْ كَثْرَةِ ذِكْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِيَّاهَا ، قَالَتْ: وَتَزَوَّجَنِي بَعْدَهَا بِثَلاَثِ سِنِينَ، وَأَمَرَهُ رَبُّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَوْ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلاَمُ أَنْ يُبَشِّرَهَا بِبَيْتٍ فِي الجَنَّةِ مِنْ قَصَبٍ؛ کسی عورت پر مجھے اتنا رشک نہیں ہوا جتنا خدیجہ پر، پیغمبر انہیں بہت یاد کرتے تھے، انکے جانے کے تین سال بعد مجھ سے شادی کی، انکے رب نے یا جبریل نے انہیں امر کیا کہ خدیجہ کو جنت میں ایک قصر کی بشارت دیں کہ جس میں نہ ہی کوئی مشقت ہوگی اور نہ ہی کوئی پریشانی(بخاری، 1422ق: 5/38؛ )
نبی کے تاریخی الفاظ:
آپ نے سیدہ خدیجہؑ کی تعریف کرتےہوئے فرمایا:
قَالَ: مَا أَبْدَلَنِيَ اللّٰهُ عزوجل خَيْرًا مِنْهَا: قَدْ آمَنَتْ بِي إِذْ کَفَرَ بِيَ النَّاسُ، وَ صَدَّقَتْنِي إِذْ کَذَّبَنِيَ النَّاسُ، وَ وَاسَتْنِي بِمَالِهَا إِذْ حَرَمَنِيَ النَّاسُ وَ رَزَقَنِيَ اللّٰهُ عزوجل وَلَدَهَا إِذْ حَرَمَنِي أَوْلَادَ النِّسَاءِ.
الله تعالیٰ نے مجھے اس سے بہتر بدل عطا نہیں فرمایا وہ تو ایسی خاتون تھیں جو مجھ پر اس وقت ایمان لائیں جب لوگ میرا انکار کر رہے تھے اور میری اس وقت تصدیق کی جب لوگ مجھے جھٹلا رہے تھے اور اپنے مال سے اس وقت میری ڈھارس بندھائی جب لوگ مجھے محروم کر رہے تھے اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے مجھے اس سے اولاد عطا فرمائی جبکہ دوسری عورتوں سے مجھے اولاد عطا فرمانے سے محروم رکھا۔
٭٭٭٭٭