سلائیڈرسیرتسیرت امام علی رضاؑ

امام علی رضا علیہ السلام کے مناظرے

1۔امام کی فضیلت اور اُس کی صفات کے متعلق
2۔ خاندانِ پیغمبؐر کی باقی اُمت پر فضیلت کے متعلق
3۔ اماموں کی خلافت کے غاصبوں کی عدم لیاقت کے بارے میں
۱ ۔ امام کی فضیلت اور صفات کے متعلق آنحضرت کا مناظرہ
عبدالعزیز بن مسلم کہتا ہے کہ میں مرو شہر میں امام رضا علیہ السلام کے ساتھ تھا۔ ہم ابھی شہر میں نئے آئے تھے کہ ایک جمعہ کے دن اُس شہر کی جامع مسجد میں ہم اکٹھے تھے۔ موضوعِ امامت کو موردِ بحث قرار دیا اور اس بارے میں لوگوں کے درمیان اختلاف کو ذکر کیا۔ ہم امام کے پاس گئے اور لوگوں کی اس بارے میں گفتگو کو حضرت کے سامنے پیش کیا۔ آنحضرت مسکرائے اور فرمایا:
"اے عبدالعزیز! یہ لوگ نہیں سمجھے اور اپنی اصل آراء سے فریب کھا چکے ہیں اور غافل ہیں۔ خدا نے اپنے نبی کو اپنے پاس نہیں بلایا مگر یہ کہ اُس کا دین کامل ہو چکا تھا۔ اُس پر قرآن کو نازل فرمایا جس میں ہر چیز موجود ہے۔ حلال و حرام ، حدود و احکام اور لوگوں کی ضرورت کی تمام چیزوں کو قرآن میں بیان کیا ہے:”ہم نے اس کتاب میں کسی چیز کو ترک نہیں کیا”۔پیغمبر کی عمر کے آخری سال میں حجۃ الوداع کے موقع پر یہ آیت نازل فرمائی :”آج تمہارے دین کو کامل کردیا ہے اور تم پر نعمت کو مکمل کردیا ہے اور دین اسلام کو تمہارے لئے پسند کیا ہے”۔
موضوعِ امامت کمالِ دین میں سے ہے۔ پیغمبر اس وقت تک اس دنیا سے نہیں گئے مگر یہ کہ دین کی نشانیوں کو اپنی امت کیلئے بیان کرکے گئے۔ان کے راستے کو روشن کیا اور اُن کو راہِ حق کی رہنمائی کی۔
حضرت علی علیہ السلام کو پیشوا اور امام کے عنوان سے منصوب کیا۔ اُمت کی تمام ضروریات کو بیان کیا۔ جس کا یہ خیال ہو کہ خدا نے دین کو مکمل نہیں کیا، اُس نے قرآن کو رد کیا۔ جس نے قرآن کو رد کیا ،وہ کافر ہوگیا۔کیا امامت کے مقام اور مرتبہ کو امت کے درمیان جانتے ہیں کہ خود اُس کو منتخب کرنا چاہتے ہیں۔ بے شک قدرِ امامت بلند تر، اس کی شان عظیم تر، اُس کا مقام عالی تر، اس کا مکان قوی تر اور اس کی گہرائی اتنی زیادہ کہ لوگوں کی عقلیں اس میں غوطہ زن نہ ہوسکیں۔ یہ مقام اس سے بلند تر کہ لوگوں کی آراء اس کو پاسکیں یا یہ کہ خود کسی امام کو منسوب کرسکیں۔ مقامِ امامت وہ مقام ہے کہ خدا نے نبوت اور خلت کے مقام کے بعد تیسرے درجے پر ابراہیم کواس کے ساتھ مخصوص کیا۔ اس کے ذریعے سے فضیلت اور برتری عطا کی اور اُن کا مقام بلند اور محکم کیا اور فرمایا:” بے شک میں نے تجھے لوگوں کا امام بنایا ہے”۔ پس خوشی کے ساتھ ابراہیم علیہ السلام نے کہا:”میری اولاد میں سے بھی”۔ خدا نے فرمایا:
"میرا عہد ظالموں تک نہیں پہنچے گا”۔
پس اس آیت نے قیامت تک امامت ظالموں کیلئے باطل کر دی ہے اور خاص بندوں کیلئے قرار دیدی ہے۔
پھر خدا نے ابراہیم علیہ السلام کو شرافت عطا کی اور امامت اُن کی اولاد میں سے چنے ہوئے اور پاک وپاکیزہ افراد میں قرار دی۔
(اسحاق و یعقوب کو بطور اضافہ ہم نے اُسے دیا اور تمام کو لائق کیا اور ان کو امام و رہنما بنایا تاکہ ہمارے حکم کے ساتھ رہبری کریں۔ ہم نے اُن کو نیک کاموں کے انجام دینے، نماز پڑھنے اور زکوٰة دینے کی وحی کی اور وہ ہماری عبادت کرتے تھے)۔
پس امامت ہمیشہ پے در پے زمانوں میں ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں تھی۔ ایک دوسرے سے امامت کو بطور ارث لیتے تھے۔ یہاں تک کہ خدا نے ہمارے پیغمبر کو ارث میں دی اور خود فرماتا ہے:” بے شک ابراہیم کے ساتھ زیادہ حقدار اُس کے اور اس نبی کے پیروکار اور مومن لوگ ہیں اور خدا مومن وں کا سرپرست ہے”۔ پس امامت آنحضرت کے ساتھ خاص ہوگئی۔
اس کے بعد نبی نے خدا کے حکم کے مطابق اور اُس کے مطابق جو خدا نے واجب قرار دیا تھا، اس کو علی علیہ السلام کے سپرد کردیا۔ اس کے بعد اس کے مخصوص بیٹوں میں کہ جن کو خدا نے علم اور ایمان دیا تھا، جاری ہوئی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
” وہ لوگ جن کو علم اور ایمان دیا گیا ہے، کہتے ہیں ، کتابِ خدا میں قیامت تک رہے ہو”۔
پس امامت قیامت کے دن تک اولادِ علی علیہ السلام میں باقی رہے گی کیونکہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کوئی پیغمبر نہیں ہے۔ یہ بیوقوف کہاں سے اور کس دلیل کے ساتھ اپنے لئے امام کا انتخاب کرتے ہیں؟
بے شک امامت مقامِ انبیاء اور میراثِ اوصیاء ہے۔ بے شک امامت خدا کی خلافت اور رسول کی خلافت ہے ، مقامِ امیرالمومنین علیہ السلام ہے۔ حسن و حسین علیہما السلام کی میراث ہے۔ بے شک امامت دین کی لگام ہے۔ نظامِ مسلمین کے استحکام کا سرچشمہ، دنیا کی اصلاح اور مومن ین کی عزت ہے۔ بے شک امامت نشوونما پانے والے اسلام کی جڑ اور اُس کی بلند شاخ ہے۔ نماز، زکوٰة، روزہ، حج، جہاد کامل ہونا، غنیمت کا زیادہ ہونا، صدقات میں اضافہ حدودواحکام کا اجراء اور سرحدوں کی حفاظت امامت کے ذریعے سے ہے۔
امام خدا کے حلال کو حلال اور خدا کے حرام کو حرام کرتا ہے۔ خدا کی حدود کو قائم کرتا ہے اور اُس کے دین کا دفاع کرتا ہے۔ خدا کی راہ کی طرف لوگوں کو حکمت، موعظہ حسنہ اور حق تک پہنچنے والی حجت کے ذریعے دعوت دیتا ہے۔
امام اُس سورج کی طرح ہے جو چمک رہا ہو اور اپنے نور کے ذریعے سے عالم کو روشن کررہا ہو۔ اُس بلند افق پر واقع ہے کہ ہاتھ اور آنکھیں اُس تک نہیں پہنچ سکتیں۔ امام ایک روشن چاند، چمکتا ہواچراغ، درخشندہ نور اور شدتِ تاریکی میں رہنمائی کرنے والا ستارہ، شہروں اور چٹیل میدانوں میں راستہ دکھانے والا اور دریاؤں کے گرداب میں رہنمائی کرنے والا ہے۔
امام پیاس کے وقت ایک شیریں پانی ، ہدایت کی طرف رہبر اور ہلاکت سے نجات دینے والا ہے۔ امام گم ہونے والوں کیلئے رہنمائی کرتا ہوا ایک بلند شعلہ ہے۔ ٹھنڈے ہونے والوں کے لئے گرم ہونے کا وسیلہ ہے۔ ہلاک ہونے والوں کیلئے رہنمائی ہے۔ جو بھی اُس سے جدا ہوگیا، وہ ہلاک ہوگیا۔
امام بارش برسانے والا بادل ہے۔ خوش کرنے والی بارش ہے۔ چمکتا ہوا سورچ ہے۔ سایہ دینے والی چھت ہے۔ پھیلی ہوئی زمین اور ابلنے والا چشمہ ہے ۔ باغیچہ اور گلستان ہے۔
امام ہمدم اور دوست، مہربان باپ، مدد کرنے والا بھائی، اپنے بچے کے ساتھ دل لگی کرنے والی ماں اور سخت گرفتاری میں خدا کے بندوں کی پناہ گاہ ہے۔
اُس کی مخلوق میں امام خدا کا امین ، اُس کے بندوں پر اُس کی حجت اور اُس کے شہروں میں اُس کا خلیفہ ، اُس کی طرف بلانے والا، اُس کے حقوق کا دفاع کرنے والا ہے۔
امام گناہوں سے پاک اور عیبوں سے دور ہے۔ علم کے ساتھ اختصاص رکھتا ہے۔ حلم و بردباری کے ساتھ موسوم ہے۔ استحکامِ دین کا سبب، عزتِ مسلمین، منافقوں کا غصہ اور کافروں کی ہلاکت ہے۔
امام اپنے زمانے کا بے مثال ہوتا ہے ۔ کوئی اُس کے مقام پر نہیں پہنچ سکتا۔ کوئی عالم اُس کی برابری نہیں کر سکتا۔ اُس کے بدلے کوئی اور نہیں ہو سکتا۔ اُس کی کوئی مثل اور نظیر نہیں ہے۔ تمام فضائل کے ساتھ اختصاص رکھتا ہے۔ بغیر اس کے کہ ان فضائل کو اُس نے طلب کیا یا کسی سے حاصل کیا ہو بلکہ یہ ایک خصوصیت ہے جو خدا نے اپنے فضل و کرم کے ذریعے اُسے عنایت کی ہے۔
کوئی ہے جو امام کی معرفت تک پہنچ سکے یا کس کی طاقت میں ہے کہ امام کا انتخاب کر سکے؟ بہت دور ہے، بہت دور ہے۔ عقلیں اُس جگہ گمراہ ہوجاتی ہیں۔ حلم و بردباری اس مقام پر راہ سے ہٹ جاتی ہے، عقلیں اس جگہ پریشان ہوجاتی ہیں۔ آنکھوں کی بینائی ختم ہوجاتی ہے۔ بڑے چھوٹے محسوس ہوتے ہیں۔ حکیم لوگ حیران نظر آتے ہیں۔ بردبار لوگ کوتاہ نظر لگتے ہیں۔ خطیب بے بس اور صاحبانِ فکر بیوقوف نظر آتے ہیں۔ شعراء بیچارے اور ادیب بے طاقت ہوتے ہیں۔ بات کرنے والے قاصر ہیں اس سے کہ وہ امام کے فضائل میں سے کوئی ایک فضیلت بیان کریں اور تمام کے تمام عاجزی اور ناتوانی کا اعتراف کرتے ہیں۔
کس طرح ممکن ہے کہ اُس کے تمام اوصا ف اور اُس کے وجود کی حقیقت کو بیان کیا جاسکے یا امر امامت میں سے کسی مطلب کو سمجھایا جاسکے یا ایسا اُس کا قائم مقام تلاش کیا جاسکے جو اُس جیسا کام کرسکے۔
ممکن نہیں ہے کس طرح اور کہاں سے یہ ہو سکتا ہے؟ وہ آسمان کے ستاروں کی مانند لوگوں کی دسترس سے اور وصف بیان کرنے والوں کے وصف بیان کرنے سے بلند ہے۔ وہ کہاں اور انتخابِ بشر کہاں، وہ کہاں اور انسانی عقلیں کہاں، وہ کہاں اور اُس جیسا کوئی کہاں سے ملے گا!
کیا وہ گمان کرتے ہیں کہ امام محمد رسولِ عربی کی آل کے علاوہ مل سکتا ہے؟ خدا کی قسم! ان کے وجدان نے ان سے جھوٹ بولا ہے۔ بیہودہ آرزو کو پروان چڑھا رہے ہیں۔ ایک اونچی چٹان اور لرزنے والی چٹان کے اوپر چڑھے ہیں جو نیچے گرنے والی ہے۔ وہ اپنی گمراہ اور ناقص عقلوں اور گمراہ کرنے والی آراء کے ذریعے امام کا انتخاب کرنا چاہتے ہیں۔ سوائے حق سے دوری کا انہیں کوئی فائدہ حاصل نہ ہوگا۔ خدا ان کو ہلاک کرے۔
وہ کہاں منحرف ہورہے ہیں۔ ایک سخت کام کے انجام کا ارادہ کئے ہوئے ہیں اور جھوٹ گھڑا ہے۔ چاروں طرف سے گمراہی میں گرے پڑے ہیں۔ حیرت میں پڑے ہوئے ہیں اور دیکھنے والی آنکھ کے ساتھ امام کو چھوڑے جارہے ہیں۔
"شیطان نے ان کے کردار کو ان کی نظروں میں خوبصورت بنادیا ہے۔ ان کو ان کے راستے سے منحرف کردیا ہے حالانکہ اہلِ بصیرت میں سے تھے”۔
خدا، خدا کے رسول اور اُن کی آل کے انتخاب سے منہ پھیر گئے۔ اپنے انتخاب کے گرد جمع ہوگئے حالانکہ قرآن ان کو پکار کر کہتا ہے:
"اور تیرا پروردگار جس کو چاہتا ہے ، پیدا کرتا ہے اور جس کو اچھا جانتا ہے، اس کاانتخاب کرتا ہے۔ اختیار اُن کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ خدا اُس سے پاک ہے جس کو وہ اُس کا شریک قرار دیتے ہیں”۔
پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
"مومن مرد اور مومن ہ عورت میں سے کسی کواختیار نہیں ہے۔ جب خدا اور اُس کا رسول کوئی حکم دیں کہ وہ اپنی طرف سے کسی امر کو اختیار کریں”۔
اور فرمایا ہے:
” تمہیں کیا ہو گیا ہے ؟ تم کیسے حکم لگاتے ہو؟کیا تمہارے پاس کوئی کتاب ہے جسے پڑھتے ہو اور جس کا تم انتخاب کرنا چاہتے ہو، اُسے اُس کتاب میں پالو؟ تمہارے لئے قیامت کے دن تک ہمارے اوپر کوئی عہدوپیمان ہے کہ جو بھی تم حکم کرو تمہارے حق میں صحیح ہے۔ ان سے سوال کرو کون ان میں سے اس مطلب کا پابند ہے یا ان کیلئے کوئی شریک ہیں۔ اگر یہ سچ کہتے ہیں تو اپنے شریکوں کو لے آئیں”۔
پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:”مگر خدا نے ان کے دلوں پر مہر لگادی ہے کہ سمجھتے نہیں ہیں”۔ یا
"کہتے ہیں ہم نے سنا مگر سنتے نہیں ہیں”۔
"کیا وہ غوروفکر نہیں کرتے یا اُن کے دلوں پر تالے لگے ہوئے ہیں”۔
"خدا نے ان کے دلوں پر مہر لگادی ہے، پس وہ سمجھتے نہیں”۔ بے شک خدا کے نزدیک جانوروں میں سے بدترین وہ ہیں جو گونگے، بہرے ہیں ، جو عقل نہیں رکھتے اور اگر خدا ان میں اچھائی پاتا تو ان کو سننے والا بناتا۔ اگر یہ سننے والے بھی ہوتے تو واپس لوٹ جاتے۔ یا”کہتے ہیں کہ ہم نے سنا اور نافرمانی کی”۔ "امامت کسی سے پڑھی نہیں جاتی”۔
یہ تو فضل خداوندی ہے اور وہ جس کو چاہتا ہے، اُس پر اپنا فضل کرتا ہے اور خدا بڑے فضل و کرم کا مالک ہے۔
پس کس طرح یہ لوگ امام کے انتخاب پر قدرت رکھتے ہیں، حالانکہ امام ایسا عالم ہے جس کے پاس جہالت آتی نہیں ہے اور ایسا سرپرست ہے جو منہ نہیں موڑتا۔
امام تقدس، پاکیزگی، اطاعت، زہد، علم اور عبادت کی کان ہے۔ رسولِ خدا کی دعوت اُس کے ساتھ مخصوص ہے جو پاک بتول فاطمہ کی نسل سے ہے۔
اُس کے نسب میں مقامِ طعنہ اور سرزنش نہیں ہے۔ کوئی صاحبِ حسب اُس کے ہم پلہ نہیں ہے۔ وہ قریش کے خاندان، قبیلہ بنی ہاشم اور اولادِ پیغمبر سے ہے اور خوشنودی خدا کے مقام میں ہے۔ وہ اشراف کی شرافت کا سبب اور عبد مناف کا بیٹا ہے۔اُس کا علم ترقی کرنے والا ، اُس کا حلم مکمل، امامت میں قوی اور سیاست میں صاحب علم ہے۔اُس کی اطاعت واجب ہے۔ وہ خدا کے امر کے ساتھ قیام کرنے والا ہے۔ وہ خدا کے بندوں کا خیر خواہ اور اُس کے دین کا محافظ ہے۔
بے شک خدا نے انبیاء اور آئمہ کو توفیق عطا کی ہے اوران کو اپنے علم اور حکمت سے وہ عطا کیا ہے جو کسی اور کو عطا نہیں کیا۔ اسی وجہ سے ان کا علم اُس کے زمانے کے لوگوں سے افضل ہوتا ہے۔
خدا تعالیٰ فرماتا ہے:
"کیا وہ اس لائق ہے کہ اُس کی پیروی کی جائے جو راہِ حق کی طرف ہدایت کرتا ہے یا وہ جو ہدایت نہیں کرتا بلکہ وہ خود ہدایت کے لائق ہے۔ تمہیں کیا ہوگیا ہے ؟ تم کیسے فیصلے کرتے ہو؟”
اللہ تعالیٰ طالوت کے متعلق فرماتا ہے:
” خدا نے اُس کو تم پر فضیلت دی اور علم و جسم میں اُس کو برتری دی۔ خدا جس کو چاہتا ہے، اپنا ملک عطا کرتا ہے اور بہت بخشنے والا اور جاننے والا ہے”۔
اپنے رسول سے فرمایا:
” خدا نے تجھ پر کتاب اور حکمت نازل کی اور جو تم نہیں جانتے تھے، وہ تمہیں سکھایا اور تجھ پر خدا کا بڑا فضل ہے”۔
اہلِ بیت میں سے آئمہ اور پیغمبر کی آل اور اولاد کے متعلق فرماتا ہے:
"کیا لوگ اس چیز میں اُن کے ساتھ حسد کرتے ہیں جو خدا نے ان کو عطا کیا ہے۔ بے شک ہم نے آلِ ابراہیم کو کتاب اور حکمت عطا فرمائی اور ان کو ایک عظیم مملکت عطا کی۔ کوئی اس کے ساتھ ایمان لے آئے اور کسی نے انکار کیا اور منہ پھیر لیا”۔
جہنم کی آگ بڑی روشن ہے۔
جب خدا عزوجل کسی بندے کو اپنے بندوں کی اصلاح کیلئے منتخب کرتا ہے تو اُس کے سینے کو اس کام کیلئے کھول دیتا ہے۔ حکمت و دانائی کے چشمے اُس کے دل میں قرار دیتا ہے۔ اُس کی طرف ایسے علم کا الہام کرتا ہے کہ اس کے بعد کسی جواب میں قاصر نہیں ہوتا اور صحیح راستے سے منحرف نہیں ہوتا۔
پس امام معصوم ہوتا ہے۔ اس کی تائید کی گئی ہوتی ہے۔ توفیق کے ساتھ آراستہ ہوتا ہے۔ ہر گناہ سے، خطاسے اور لغزش سے محفوظ ہوتا ہے۔ خدا نے اُسے ان صفات کے ساتھ ممتاز کیا ہوتا ہے تاکہ اُس کے بندوں پر ایک کامل حجت اور اُس کی مخلوق پر گواہ بن سکے۔ یہ صرف خد اکا کرم اور عطا ہے ، جسے چاہے عطا کرتا ہے اور خدا بہت بڑا کریم ہے۔ کیا لوگوں میں یہ طاقت ہے کہ وہ ایسے جیسے کا انتخاب کرسکیں یا یہ ممکن ہے کہ اُن کا منتخب کیا ہوا اُس جیسا ہو تاکہ اُس کو اپنا رہبر بنا سکیں؟
خدا کے گھر کی قسم! لوگوں نے حق سے تجاوز کیا ہے اور کتابِ خدا کو پس پشت ڈال دیا ہے جیسے کہ جانتے ہی نہیں ہیں، حالانکہ ہدایت اور شفا کتابِ خدا میں ہے۔ انہوں نے کتابِ خدا کو چھوڑ دیا ہے اور اپنی خواہشات کی پیروی کی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ان کو مذمت کی ہے ۔ ان کو دشمن رکھتا ہے اور ان کو ہلاک کردے گا۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے:”اس شخص سے زیادہ گمراہ کون ہوسکتا ہے جس نے خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہشات کی پیروی کی ہو۔ بے شک خدا ظلم کرنے والوں کی ہدایت نہیں کرتا”۔اور فرماتا ہے:
"ان پر ہلاکت ہو اور ان کے اعمال نابود ہوجائیں”۔
اور فرماتا ہے:
"خدا اور مومن وں کے نزدیک دشمنی میں بڑا ہے۔ خدا اسی طرح ہر متکبر ظالم کے دل پر مہر لگا دیتا ہے”۔
بہت زیادہ درود ہو خدا کا محمد اور اُن کی پاک آل پر۔
(کافی:ج ۱ ،ص ۱۹۸ تا ۲۰۳)
۲ ۔ آلِ محمد کی دوسری امت پر فضیلت کے متعلق آنحضرت کا مناظرہ
جب امام رضا علیہ السلام مامون کی مجلس میں موجود تھے اور وہاں عراق اور خراسان کے علماء بھی تھے، مامون نے کہا: مجھے اس آیت کے معنی سے آگاہ کرو:
"پھر ہم نے اپنے خاص بندوں کو اس کتاب کا وارث بنایا ہے”۔
مجلس میں موجود علماء نے کہا کہ اس سے مراد تمام امت ہے۔
مامون نے کہا: اے ابوالحسنؑ ! آپ کیا کہتے ہیں؟
امام علیہ السلام نے فرمایا: میں ان کی بات کی تصدیق نہیں کرتا بلکہ میں کہتا ہوں کہ اس سے مرادخدا نے عترتِ طاہرہ کو لیا ہے۔مامون نے کہا: تمام امت کیوں مراد نہیں ہے؟ صرف آل محؑمد کیوں مراد ہے؟
امام علیہ السلام نے فرمایا:
"اگر تمام امت مراد ہو تو تمام امت جنت میں جائے کیونکہ خدافرماتا ہے:”پس ان میں سے ایک گروہ نے اپنے اوپر ظلم کیا ہے اور ایک درمیانہ رو ہے۔ کچھ لوگ اللہ تعالیٰ کی توفیق کے ساتھ نیکیوں میں سبقت لے جاتے ہیں او ریہ ایک بہت بڑا فضل و کرم ہے”۔
"پھر ان تمام کو اہلِ بہشت میں سے شمار کرتا ہے اور فرمایا:” ہمیشہ رہنے والے باغات کہ جس میں ہمیشہ رہیں گے”۔ پس وراثت تنہا آلِ محمد کے لئے ہے۔
اس کے بعد امام علیہ السلام نے فرمایا:
” یہ وہ لوگ ہیں کہ خداتعالیٰ قرآن میں ان کی توصیف کرتا ہے اور فرماتا ہے:” خدا نے ارادہ کیا ہے کہ تم اہلِ بیت پیغمبر سے ہر طرح کی زشتی اور پلیدی کو دور کردے اور تمہیں پاک وپاکیزہ کردے”۔
اور یہ وہ ہیں کہ پیغمبر فرماتے ہیں:
"میں تمہارے درمیان دو بھاری چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ، کتابِ خدا اور میری اہلِ بیت ۔ یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گی ، یہاں تک کہ حوضِ کوثر پر میرے پاس آجائیں”۔
تم غور کرو کس طرح میری جانشینی کے حق کو ان میں جاری کر رہے ہو۔ اے لوگو! انہیں سکھانے کی کوشش نہ کرنا کہ یہ تم سے زیادہ جاننے والے ہیں۔
مجلس میں موجود علماء نے کہا: اے ابوالحسن ! کیا عترت آلِ رسول ہے یا غیر آل ہے؟
آپ نے فرمایا:”وہ آلِ رسول ہیں۔
علماء نے کہاکہ خود رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: میری امت میری آل ہے۔ اصحاب بھی ایک مستفیض خبرکہ جس میں خدشہ نہیں ہے، کے ذریعے نقل کرتے ہیں کہ آلِ محمد آپ کی امت ہے۔
امام علیہ السلام نے فرمایا: تم بتاؤ کیا آلِ محمؑد پر صدقہ حرام ہے ؟
انہوں نے کہا: جی ہاں۔
آپ علیہ السلام نے فرمایا: کیا اُمت پر بھی حرام ہے؟ انہوں نے کہا:نہیں۔
امام علیہ السلام نے فرمایا:
"یہی فرق ہے آلِ رسول اور اُن کی اُمت کے درمیان۔ ہلاکت ہے تم پر کس راستے سے سفر طے کررہے ہو۔کیا تم نے یادِ خدا سے منہ پھیر لیا ہے یا تم اسراف کرنے والی قوم ہو؟”
کیا تم نہیں جانتے کہ ظاہراً روایت سے مخصوص افراد مراد ہیں ، نہ کہ تمام اُمت۔
علماء نے کہا: اے ابوالحسن ! کس دلیل کے ساتھ یہ بات کررہے ہیں؟
آپ علیہ السلام نے فرمایا: قرآن کی اس آیت کے ساتھ:
"ہم نے نوح اور ابراہیم کو بھیجا۔ رسالت اور کتاب اُن کی اولاد میں قرار دی۔ ایک گروہ ہدایت پاگیا اور ایک گروہ اُن میں سے فاسق ہے”۔
پس کتاب اور نبوت کی وراثت ہدایت پانے والوں سے ہے نہ کہ فاسق لوگوں میں۔ کیا تم جانتے ہو کہ نوح نے خدا سے تقاضا کیا اور کہا:
"اے خدا! میرا بیٹا میری آل سے ہے اور تیرا وعدہ حق ہے”۔
کیونکہ خدا نے اُس کے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ اُسے اور اُس کی آل کو بچا لے گا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
"وہ تیری آل سے نہیں ہے۔ وہ غیر صالح شخص ہے جس کے متعلق تم جانتے نہیں ہو، سوال نہ کرو۔ میں تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ جاہلوں میں سے نہ ہوجانا”۔
مامون نے کہا: کیا خدا نے آلِ نبی کو دوسروں پر فضیلت دی ہے؟
امام علیہ السلام نے فرمایا: خد انے آلِ پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ  وسلم کو اپنی کتاب میں دوسروں پر فضیلت دی ہے۔
مامون نے کہا: قرآن میں کس مقام پر اس کی طرف اشارہ ہوا ہے؟
امام علیہ السلام نے فرمایا: اس آیت میں:
"خدا نے آدم، نوح، آلِ ابراہیم اور آلِ عمران کو چن لیا ہے، عالمین پر فضیلت دی ہے۔ ایسی اولاد کہ بعض دوسرے بعض سے ہیں”۔
ایک دوسری آیت میں فرمایا:
"کیا لوگ اُس کی نسبت حسد کرتے ہیں جو ہم نے اُن کو دیا ہے۔ ہم نے آلِ ابراہیم کو کتاب، دانائی اور بہت بڑی سلطنت عطا کی ہے”۔
پھر اس بحث کے سلسلہ میں باقی مومنوں کو مخاطب کرکے فرماتا ہے:
” اے ایمان والو! خدا، اُس کے رسول اور تم میں سے جو صاحبانِ امر ہیں، اُن کی پیروی کرو”۔ یعنی جن کو کتاب اور دانائی دی ہے اور اُس کی نسبت وہ موردِ حسد قرار پائے ہیں۔ اس آیت کی بناء پر :”کیا لوگ اُس چیز کی نسبت جو اُن کو دی گئی ہے، حسد کرتے ہیں۔ ہم نے آلِ ابراہیم کو کتابِ دانائی اور عظیم سلطنت عطا کی ہے”۔
اس جگہ قدرت و سلطنت سے مراد لوگوں کا اُن کی اطاعت کرنا ہے۔
علماء نے کہا:
کیا خدا نے اپنی کتاب میں اپنے خاص چنے ہوئے بندوں کی تفسیر کی ہے؟
امام علیہ السلام نے فرمایا:
” خدا نے اس چننے کی ظاہر میں نہ باطن میں بارہ مقامات پر تفسیر کی ہے”۔
سب سے اوّل مقام یہ ہے:
"اپنے خاندان اور اپنے مخلص قریبیوں کو ڈراؤ”۔
ابی بن کعب کی قرات م یں اور عبداللہ بن مسعود کے مصحف میں ایسے ہی تھا۔ جب عثمان نے زید بن ثابت کو حکم دیا کہ قرآن کو جمع کرو۔ اس آیت کو چھپا دیا۔یہ ایک عظیم مقام، ایک بڑی فضیلت اور ایک بلند شرف ہے کیونکہ خدا نے اپنی مراد صرف آلِ رسول کو لیا ہے۔
یہ پہلا مقام ہے۔
دوسری آیت قرآن میں خاص بندوں کو چننے کے متعلق یہ ہے:”سوائے اس کے نہیں کہ خدا جانتا ہے۔ اے اہلِ بیت تم سے پلیدی کودور کردے اور پاک و پاکیزہ کردے”۔ یہ وہ فضیلت ہے کہ کوئی دشمن اور منکر اس کا انکار نہیں کرتا کیونکہ یہ بہت واضح اور روشن ہے۔
تیسری آیت اس مقام پر ہے جہاں خدا نے اپنے پاک بندوں کو دوسرے لوگوں سے جدا کیا اور آیت مباہلہ میں اپنے رسول کو حکم دیا۔ پس فرمایا:
” اے محمد! کہہ دو۔!ہم اپنے بیٹوں کو بلاتے ہیں، تم اپنے بیٹوں کو بلاؤ۔ ہم اپنی عورتوں کو، تم اپنی عورتوں کو، ہم اپنے نفسوں کو، تم اپنے نفسوں کو بلاؤ اور پھر مباہلہ کرتے ہیں اور جو جھوٹ کہتا ہے، اُن پر خدا کی لعنت کرتے ہیں”۔
رسولِ خدا ، حضرت علی، حسن و حسین اور فاطمہ علیہم السلام کو باہر لے آئے اور ان کو اپنا قریبی کہا۔ کیا تمہیں اپنے خدا کے اس قول "ہم اپنوں، نفسوں اور تم اپنے نفسوں کو” کا معنی معلوم ہے؟
علماء نے کہا کہ خود اپنا نفس مراد لیا ہے۔
امام رضا علیہ السلام نے فرمایا کہ تم نے اشتباہ کیا ہے۔ اس سے مراد علی علیہ السلام کو لیا ہے۔ اس کی دلیل پیغمبر اسلام کا یہ قو ل ہے کہ آپ نے فرمایا کہ قبیلہ بنی ولیعہ یا تو اپنی حرکتوں سے رک جائے یا میں اُن کی طرف ایسا شخص بھیجوں گا جو میری طرح ہو اور اس سے مراد علی علیہ السلام کو لیا۔
یہ ایک ایسی خصوصیت ہے کہ اُن سے پہلے کسی کو میسر نہیں ہوئی۔ یہ ایک ایسی فضیلت ہے کہ اس میں کوئی اختلاف نہیں کرتا۔ ایک ایسی شرافت ہے کہ کوئی بھی اس سے آگے نہیں جاسکتا کیونکہ علی علیہ السلام کو اپنے جیسا قرار دیا اور یہ تیسری دلیل تھی۔
چوتھی دلیل
جب رسولِ خدا نے تمام لوگوں کو مسجد سے نکال دیا ، فقط اپنی آل کو خارج نہ کیا۔
لوگ اس بارے میں باتیں کرنے لگے۔ عباس نے کہا: اے رسولِ خدا! آپ نے علی علیہ السلام کو باقی رہنے دیا اور سب کو نکال دیا تو رسولِ خدا نے فرمایا: میں نے اُس کو باقی نہیں رکھا اور تمہیں خارج نہیں کیا۔ یہ تو خدا نے خود اُسے باقی رکھا ہے اور تمہیں نکالا ہے۔ اسی بارے رسولِ خدا کا یہ قول ہے کہ آپ نے فرمایا: "تیری نسبت میرے ساتھ ایسے ہے جیسے ہارون کی موسیٰ کے ساتھ”۔
علماء نے کہا: یہ مطلب قرآن میں کس مقام پر آیا ہے؟
آپ علیہ السلام نے فرمایا: خدا فرماتا ہے:
” ہم نے موسیٰ اور اُس کے بھائی کو وحی کی کہ اپنی قوم کو مصر میں جاکر ٹھہراؤ اور اپنے گھروں کو اپنا قبلہ قرار دو”۔
اس آیت میں ہارون کی نسبت موسیٰ کے ساتھ اور علی علیہ السلام کی نسبت پیغمبر کے ساتھ روشن ہے۔
ان تمام دلیلوں کے ساتھ ایک اور دلیل موجود ہے کہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ  وسلم نے فرمایا کہ یہ مسجدمجنب اور حائض پر حلال نہیں ہے مگر محمد اور آلِ محمد پر۔
علماء نے کہا: یہ مطلب اور تشریح فقط تم اہلِ بیت رسول کے نزدیک ہے؟
امام علیہ السلام نے فرمایا:
ہمارے لئے ان مقامات کا کون انکار کرنے والا ہے حالانکہ رسولِ خداکا فرمان ہے کہ میں علم کا شہر ہوں اور علی اُس کا دروازہ ہے۔ جو بھی علم کے شہر میں داخل ہونا چاہتا ہے، وہ دروازے سے اس میں داخل ہو۔ اس فضل و شرف، مرتبہ و مقام اور پاکیزگی ، جس کی ہم نے تشریح کی ہے، سوائے دشمن کے کون انکارکرسکتا ہے اور تمام تعریفیں خدا کیلئے ہیں۔ یہ چوتھا مقام تھا۔
پانچواں مقام
خدا کا قول ہے کہ فرماتا ہے:
” اپنے قریبیوں کا حق اُن کو دے دو”۔
یہ وہ خصوصیت ہے کہ خدا نے ان کو عطا کی ہے اور امت پر ان کو ترجیح دی ہے۔
جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسولِ خدا نے فرمایا کہ فاطمہ سے کہو آئے۔جنابِ فاطمہ کو بلایا گیا۔ آپ نے فرمایا: اے فاطمہ ! کہا: جی رسولِ خدا۔ آپ نے فرمایا: زمین کا ایک حصہ جس کا نام فدک ہے، فقط لشکر کشی کے ساتھ حاصل کیا گیا ہے۔ وہ فقط میرے لئے ہے۔ مسلمانوں کا اس میں کوئی حق نہیں ہے۔اسے میں نے تیرے لئے قرار دیا ہے کیونکہ خدا نے مجھے یہی حکم فرمایا ہے۔ پس اس کو اپنے اور اپنی اولاد کیلئے قرار دے ۔ یہ پانچواں مقام ہے۔
چھٹا مقام
یہ خدا کا قول ہے کہ وہ فرماتا ہے:”ان سے کہہ دو کہ میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا سوائے اپنی اہلِ بیت کے ساتھ دوستی کے”۔ یہ خصوصیت انبیاء میں سے صرف پیغمبر اسلام کے ساتھ خاص ہے۔ صرف آنحضرت کی آل اس سے مراد لی گئی ہے۔
خدا جب نوح سے حکایت کرتا ہے تو فرماتا ہے:
"کہ تم سے کوئی مال طلب نہیں کرتا ۔ میرا اجر خدا پر ہے اور میں ایمان لانے والوں کو اپنے سے دور نہیں کرتا۔وہ اپنے پروردگار کے ساتھ ملاقات کریں گے لیکن میں تمہیں جاہل قوم خیال کرتا ہوں”۔
ہود سے اس طرح حکایت کی ہے:
"میں اپنے کاموں پر کوئی اجر طلب نہیں کرتا ۔ میرا اجر فقط اس کے ساتھ ہے جس نے مجھے پیدا کیا ہے۔ کیا تم غور و فکر نہیں کرتے”۔
اپنے نبی سے خدا فرماتا ہے:
” ان سے کہہ دو کہ میں اپنے کاموں پر تم سے اجر طلب نہیں کرتا مگر اپنے اہلِ بیت کے ساتھ دوستی”۔
خدا نے ان کی دوستی کو واجب نہیں کیا۔
مگر وہ جانتا تھا کہ وہ ہرگز مرتد نہیں ہوں گے اور ہرگز گمراہ نہیں ہوں گے۔دوسری دلیل یہ ہے کہ جب بھی کوئی کسی کا دوست ہو، لیکن اُس کے دل میں اُس دوست کے کسی رشتہ دار قریبی کے متعلق دل میں بغض و کینہ ہو تو دل اُسے قبول نہیں کرے گا۔ خدا چاہتا تھا کہ پیغمبر کے دل میں مومن وں کے متعلق کوئی چیز نہ ہو(اور سب لوگ اہلِ بیت کے دوست ہوں تاکہ ان کے متعلق پیغمبر کے دل میں کسی قسم کا بغض نہ ہو) ۔ اسی وجہ سے خدا نے آلِ محمد کی محبت کو واجب قرا ردیا۔
پس جس نے بھی اس کام کو انجام دیا ہو اور آلِ رسول کو دوست رکھا ہو، پیغمبر اس کو کبھی بھی دشمن نہیں رکھ سکتے اور جس نے بھی اُس کو چھوڑ دیا ہو اور اس کام کو انجام نہ دیا ہو اور آلِ محمدکو دشمن رکھتا ہو تو پیغمبر پر واجب ہے کہ اس کو دشمن رکھیں کیونکہ اُس نے خدا کے واجبات میں سے ایک واجب کو ترک کیا ہے۔ اس فضیلت سے بڑھ کر اور کونسی فضیلت ہے!
یہ آیہ کریمہ جب پیغمبر پر نازل ہوئی:”ان سے کہہ دو میں ان کاموں پر کوئی اجر نہیں چاہتا، سوائے اپنی اہلِ بیت کی محبت کے”)۔پیغمبر اپنے اصحاب کے درمیان کھڑے ہوئے اور خد اکی حمدوثناء کے بعد فرمایا:”اے لوگو! خدا نے تم پر ایک چیز واجب کی ہے، کیا تم اُسے انجام دو گے؟ پس کسی نے بھی کوئی جواب نہ دیا۔ دوسرے دن پھر اٹھ کر یہی بات دہرائی لیکن کسی نے جواب نہ دیا۔تیسرے دن بھی اسی بات کو دوبارہ بیان کیا اور فرمایا: اے لوگو! خدا نے تم پر ایک چیز واجب کی ہے۔ کیا تم اس کو بجا لاؤ گے؟ لیکن پھر بھی کسی نے جواب نہ دیا۔ آپ نے فرمایا: اے لوگو! وہ بات سونے چاندی اور کھانے پینے کے متعلق نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ کیا ہے؟آپ نے اس آیت کو ان کیلئے تلاوت فرمایا۔ انہوں نے کہا کہ اس کو ہم قبول کریں گے لیکن اکثر نے اس کو قبول نہ کیا۔
اس کے بعد امام علیہ السلام نے فرمایا:
"میرے والد نے اپنے آباء و اجداد سے امام حسن علیہ السلام سے ایک روایت نقل کی ہے کہ آپ نے فرمایا: مہاجرین اور انصار پیغمبر اسلام کے پاس آئے او رکہا: اے رسولِ خدا! آپ کے پاس جو لوگ باہر سے آتے ہیں، اُن کیلئے خروج و مخار ج کی ضرورت ہے۔ یہ ہمارے مال اور ہماری جانیں آپ کے اختیار میں ہیں ، ان کے متعلق جیسے چاہتے ہیں، عمل کریں۔ بغیر کسی مشکل کے جو چاہتے ہیں، وہ دیدیں اور جسے چاہتے ہیں، اپنے پاس رکھیں”۔
خدا نے جبرائیل کو نازل کیا جس نے کہا: اے محمد! کہہ دو کہ میں رسالت پر تم سے کوئی اجر طلب نہیں کرتا ۔ سوائے اپنی اہلِ بیت کے ساتھ محبت کے۔ میرے بعد ان کو تکلیف نہ دینا۔ لوگ چلے گئے ۔ اُن میں سے ایک گروہ نے کہا:وہ چیز جس نے پیغمبر کو ہمارے بات کے قبول نہ کرنے پر آمادہ کیا، وہ یہ تھی کہ اپنی وفات کے بعد اپنی اہلِ بیت کے متعلق ترغیب و تشویق دے۔ اس مجلس میں یہ ایک تہمت اور جھوٹ کہا گیا ہے اور یہ ایک بہت بڑی بات ہے۔
پس خدا نے یہ آیت نازل فرمائی:”کیا وہ کہتے ہیں کہ اُس نے یہ بات جھوٹ کہی ہے۔ ان سے کہہ دو کہ اگر میں نے جھوٹ بولا ہو تو تم مجھ پر کسی چیز کی طاقت نہیں رکھتے اور جو کچھ تم نظر میں رکھتے ہو، وہ اُس کو بہتر جانتا ہے۔ وہ ہمارے اور تمہارے درمیان بطور گواہ کافی ہے اور وہ بخشنے والا اور مہربان ہے”۔
رسولِ خدا نے کسی کو ان کے پاس بھیجا اور کہا : کوئی مسئلہ درپیش ہے؟ انہوں نے کہا: اے رسولِ خدا! خدا کی قسم ، ہاں۔ ہم میں سے بعض نے ایک بڑی بات کی ہے کہ ہم اس کو ناپسند کرتے ہیں۔ پیغمبر نے آیت کو پڑھا ۔ بہت سے لوگ روئے ۔ خدا نے یہ آیت نازل کی:” اور وہ وہ ہے کہ اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور ہماری خطاؤں سے درگزر کرتا ہے اور ہم جو کچھ کرتے ہیں، وہ جانتا ہے”۔ یہ چھٹا مقام ہے۔
بہرحال ساتواں مقام۔ خدا فرماتا ہے:” بے شک خدا اور اُس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی درود بھیجو جس طرح درود بھیجنے کا حق ہے”۔
دشمن جانتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو کہا گیا: اے پیغمبر! آپ پر سلام کو تو ہم جانتے ہیں۔ آپ پر درود کس طرح بھیجا جا سکتا ہے؟ آپ نے فرمایا: کہو، اے اللہ! محمدو آلِ محمد پر درود بھیج، جس طرح تو نے ابراہیم اور آلِ ابراہیم پر درود بھیجا ہے۔ بے شک تو تعریف شدہ اور بلند ہے”۔
اے لوگو کیا اس بارے میں تمہارے درمیان کوئی اختلاف ہے۔ انہوں نے کہا :نہیں۔
مامون نے کہا: یہ اُن موارد میں سے ہے کہ جن میں اختلاف نہیں ہے اور اس پر تمام کا اتفا ق ہے۔ کیا اہلِ بیت رسول کے متعلق اس سے واضح تر اور روشن تر کسی دلیل کے متعلق آپ جانتے ہیں؟
امام علیہ السلام نے فرمایا: اس آیت کے متعلق مجھے بتاؤ:
"یٰس، قرآنِ حکیم کی قسم! تو رسولوں میں سے ہے اور تو صراطِ مستقیم پر ہے”۔
یٰس سے کیا مراد ہے؟
علماء نے کہا: یٰس سے مراد رسولِ خدا ہیں اور اس میں شک کی گنجائش نہیں ہے۔
امام علیہ السلام نے فرمایا:
"خدا نے رسول اور اُن کی آل کو اس مقام پر وہ فضیلت عطا کی ہے کہ کوئی صاحبِ عقل اس کی حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا کیونکہ خدا نے سوائے رسولوں کے کسی پر درود نہیں بھیجا”۔
وہ فرماتا ہے:
دو جہانوں میں نوح پر سلام۔ ابراہیم پر سلام ،موسیٰ اور ہارون پر سلام۔ اور یہ نہیں فرماتا کہ آلِ نوح پر سلام، آلِ ابراہیم پر سلام اور یہ نہیں فرماتا کہ آلِ موسیٰ اور ہارون پر سلام۔
وہ فرماتا ہے : آلِ یٰسین پر سلام یعنی آلِ رسول یعنی آلِ محمد پر سلام۔
مامون نے کہا: ہم جانتے ہیں کہ آپ کے نزدیک اس کی یہ تشریح اور مطلب ہے۔ یہ ساتواں مقام تھا۔
آٹھواں مقام
خدا فرماتا ہے:” آگاہ رہو۔ جو کچھ تم حاصل کرتے ہو، اُس کا خمس خدا، رسول اور اُس کی آل کیلئے ہے”۔
خدا نے آلِ رسول کے حصہ کو اپنے اور اپنے رسول کے حصہ کے ساتھ رکھا ہے۔
اور یہ وہ نقطہ ہے جس کے ذریعے سے آلِ رسولاورامت کے درمیان فاصلہ ہو جاتا ہے کیونکہ خدا نے آلِ رسول کو ایک مقام میں اور لوگوں کو دوسرے مقام میں رکھا ہے۔ آلِ رسول کے لئے وہ پسند کیاجو اپنے لئے پسند کیا۔ ا س مقام میں اُن کو خاص مقام عنایت فرمایا ہے۔ پہلے اپنا نام لیا ، پھر اپنے رسول کا اور پھر آلِ رسول کا نام لیا۔ غنائم مادی میں سے اور باقی مادی فوائد میں سے جو اپنے لئے پسند کئے، وہی اُن کیلئے پسند کئے۔ وہ فرماتا ہے:”جان لو جو کچھ تم غنائم میں سے حاصل کرتے ہو، اُس میں پانچواں حصہ(خمس) خدا، اُس کے رسول اور آلِ رسول کے لئے ہے”۔
یہ ایک مضبوط تاکید اور قرآن میں ہمیشہ رہنے والی چیز ہے اور قیامت تک موجود ہے۔ایسا قرآن کہ”جس کے آگے اور پیچھے باطل نہیں ہے اور خداوند حکیم کی جانب سے اور پسندیدہ نازل ہوا ہے”۔
رہا خدا کا یہ قول:” اور یتیم او رمساکین”، یتیم جب یتیمی سے نکل جائے گا تو اُس کا حصہ ختم اور مسکین، جب اُس کی مسکینی ختم ہوجائے گی تو اُس کا حصہ بھی ختم ہو جائے گا اور وہ خمس سے حصہ نہیں لے سکتا۔ اُس کیلئے جائز نہیں ہے کہ وہ خمس سے حصہ لے سکے۔ لیکن آلِ رسول کا حصہ قیامت تک غنی اور فقیر کیلئے باقی ہے کیونکہ خد ااور اُس کے رسول سے بڑھ کر کوئی بے نیاز نہیں ہے۔ اس کے باوجود اپنے لئے اور اپنے رسول کے لئے خمس میں سے حصہ قرار دیا ہے اور جوکچھ اپنے لئے قرار دیا ہے، اپنے پیغمبر کے لئے راضی ہوا ہے، آلِ رسول کے لئے بھی وہی مقرر کیا ہے۔
اسی طرح غنائم میں سے جو اپنے اور اپنے رسول کے لئے قرار دیا، وہی آلِ رسول کے لئے قرار دیا۔ پہلے اپنا نام لیا، پھر اپنے رسول کا، اس کے بعد ذوی القربیٰ کا نام لیا۔ اُن کے حصے کو اپنے حصہ کے ساتھ قرار دیاہے۔
اسی طرح اطاعت میں کیا ہے۔ خدا فرماتا ہے:”اے ایمان والو! خدا اور اُس کے رسول اور تم میں سے جو صاحبانِ امر ہیں، اُن کی اطاعت کرو”۔ پہلے اپنا نام ، پھر اپنے رسول کا نام اور اس کے بعد اہلِ بیت کا ذکر کیا ہے۔
اس طرح ولایت کی آیت میں ہے:
” بے شک تمہارا ولی خدا ہے اور اُس کا رسول ہے اور وہ جو ایمان لائے ہیں”۔
اہلِ بیت کی اطاعت کو پیغمبر اور اپنی اطاعت کے ہمراہ قرار دیا ہے۔ جیسے کہ جنگی غنائم میں اور دوسرے مادی فوائد میں اپنے اور اپنے رسول کے حصہ کے ساتھ اُن کے حصہ کو قرار دیا ہے۔
پس بابرکت ہے وہ اللہ کہ جس کی کتنی زیادہ نعمتیں ہیں اس اہلِ بیت پر۔
جب صدقہ کا قصہ پیش آیا تو خدا نے خود کو، رسول اور آلِ رسول کو اس سے پاک رکھا اور فرمایا:
"صدقات فقراء، مساکین، عاملین،غیر مسلموں کے دلوں کو مائل کرنے کیلئے ہیں۔ غلاموں کو آزاد کروانے کیلئے، مقروضوں کے لئے،راہِ خدا میں، مسافروں کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے واجب ہے”۔
کیا تم اس صدقہ میں پاتے ہو کہ خدا نے اپنے رسول کے لئے اور آلِ رسول کے لئے حصہ قرار دیا ہو۔ خدا نے جب ان کو صدقہ سے پاک رکھا تو خود کو اور اپنے رسول کو بھی پاک رکھا بلکہ اسے ان پر حرام کردیا کیونکہ صدقہ پیغمبر اور آلِ پیغمبر پر حرام ہے۔ یہ لوگوں کے ہاتھوں کی میل کی طرح ہے ۔ یہ اُن کے لئے حلال نہیں ہے کیونکہ وہ ہر بُری چیز اور پلید چیز سے پاک ہیں۔ جب اُن کو پاک کیا اور اُن کو چن لیا تو اُن کیلئے وہ پسند کیا جو اپنے لئے پسند کیا اور اُن کیلئے وہ ناپسند کیا جو اپنے لئے ناپسند کیا۔
نواں مقام
ہم وہ اہلِ ذکر ہیں جن کے متعلق خدا قرآن میں فرماتا ہے:
"اگر تم نہیں جانتے ہو تواہلِ ذکر سے سوال کرو”۔
علماء نے کہا: آیت کا مقصود یہودونصاریٰ ہیں۔
امام علیہ السلام نے فرمایا:
"کیا مطلب درست ہے ۔ پس اس حالت میں تو وہ ہمیں اپنے دین کی طرف بلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ دین اسلام سے بہتر ہے”۔
مامون نے کہا:کیا آپ اس بارے میں علماء کے نظریہ کے خلاف کچھ فرمائیں گے؟
امام علیہ السلام نے فرمایا:
"ہاں۔ اہلِ ذکر رسولِ خدا اور ہم ہیں۔ اس مطلب کو خدا نے قرآنِ کریم میں سورة طلاق میں اس طرح بیان کیا ہے، خدا فرماتا ہے:”اے صاحبانِ عقل جو ایمان لائے ہیں، خدا نے تمہاری طرف ذکر جو رسول ہے، کو نازل کیا ہے جو خدا کی واضح آیات کو تمہارے لئے تلاوت کرتا ہے”۔
پس اہلِ ذکر پیغمبر اور ہم ہیں۔
دسواں مقام
سورة تحریم میں خداکا یہ قول ہے، وہ فرماتا ہے:
” تمہاری مائیں، تمہاری بیٹیاں اور تمہاری بہنیں تم پر حرام ہیں”۔
آخر آیت تک مجھے یہ بتاؤ کہ اگر رسولِ خدا زندہ ہوتے تو کیا میری بیٹی، میری بیٹی کی بیٹی یا آگے میری اولاد میں سے کسی کے ساتھ وہ شادی کرسکتے تھے؟
سب نے کہا کہ نہیں۔ آپ نے فرمایا: میں کہتا ہوں کہ مجھے بتاؤ کیا تمہاری بیٹیوں میں سے کسی کے ساتھ رسولِ خدا کا شادی کرنا درست ہے یا نہیں؟ سب نے کہا: ہاں درست ہے۔
آپ علیہ السلام نے فرمایا: یہ مطلب واضح کرتا ہے کہ ہم اُس کی آل سے ہیں اور تم اُس کی آل سے نہیں ہو۔ اگر تم اُس کی آل سے ہوتے تو تمہاری بیٹیاں اُن پر حرام ہوتیں ۔ جیسا کہ میری بیٹی اُن پر حرام ہے کیونکہ ہم اُن کی آل سے ہیں اور تم اُن کی امت سے ہو۔ یہ فرق ہے آل اور امت کے درمیان کیونکہ آل ان سے ہے اور امت جب اُن کی آل سے نہیں ہے، پس اُن سے نہیں ہے۔ یہ دسواں مقام تھا۔
گیارہواں مقام
سورة مومن میں خدا فرماتا ہے ۔ ایک شخص قول کو اس طرح نقل کرتا ہے:
"ایک مومن شخص آلِ فرعون میں سے جس نے اپنے ایمان کو چھپا رکھا تھا، نے کہا: کیا تم اُس شخص کو قتل کرنا چاہتے ہو جو فقط یہ کہتا ہے کہ میرا رب خدا ہے، حالانکہ وہ تمہارے پاس تمہارے رب کی نشانیاں لے کر آیا ہے”۔
آیت کے آخر تک، اور یہ شخص فرعون کے ماموں کا بیٹا تھا۔ اس وجہ سے اُس کی طرف نسبت دی ہے لیکن اُس کو دین میں فرعون کے ساتھ منسوب نہیں کیا۔
اسی طرح ہم آلِ رسول کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں کیونکہ ہم اُس سے پیدا ہوئے ہیں اور ہم نے اُن کے دین کو لوگوں میں پھیلایا ہے۔ یہ فرق ہے آل اور امت کے درمیان۔ یہ گیارہواں مقام تھا۔
بارہواں مقام
خدا کا یہ قول ہے:
"اپنی اہلِ بیت کونماز کا حکم کرو اور اس کے صبر سے صبر کرو”۔
اور ہمیں اس چیز کے ساتھ خاص کیا کیونکہ باوجودیکہ نماز کے متعلق حکم دے چکا تھا ، دوبارہ ہمیں اس کا حکم فرمایا ہے۔ دوبارہ صرف ہمیں حکم دیا ہے اور رسولِ خدا اس آیت کے نازل ہونے کے بعد نو ماہ تک علی اور فاطمہ علیہما السلام کے گھر کے پاس ہر نماز کے وقت آکر فرماتے تھے: خدا تم پر رحمت کرے نماز کا وقت ہے اور خدا نے رسولوں کی اولاد میں سے کسی ایک کو بھی یہ عزت نہیں بخشی جو ہمیں عزت عطا کی ہے۔ رسولوں کی اولاد میں سے صرف ہمیں اس خصوصیت کے ساتھ ممتاز کیا ہے۔
یہ فرق ہے آلِ رسول اور امت کے درمیان۔ تمام تعریفیں عالمین کے رب کے لئے ہیں اور خداکا درود ہو محمد، خدا کے نبی پر۔
(عیون الاخبار:ج ۱ ،ص ۲۲۸ تا ۲۴۰)
۳ ۔ آنحضرت کا مناظرہ آئمہ کی خلافت کو غصب کرنے والوں کی عدم لیاقت میں
روایت ہے کہ ایک گروہ کو آنحضرت کے ساتھ امر امامت کے متعلق مناظرہ کرنے کی دعوت دی گئی۔ اُنہوں نے یحییٰ بن ضحاک سمرقندی کو منتخب کیا۔
امام علیہ السلام نے فرمایا:
” یحییٰ !سوال کرو۔ یحییٰ نے کہا: اے رسولِ خدا کے بیٹے! آپ سوال کریں تاکہ اس کے ساتھ ہمیں شرافت حاصل ہوسکے”۔
امام علیہ السلام نے فرمایا:
"اے یحییٰ ! تو اُس شخص کے متعلق کیا کہتا ہے جو اپنے سچا ہونے کا دعویدار ہے اور سچوں کو جھٹلاتا ہے۔ کیا وہ شخص اپنی بات میں سچا اور اپنے دین میں حق پر ہے یا جھوٹ کہتا ہے؟ ”
یحییٰ جواب دینے سے عاجز رہا۔
مامون نے یحییٰ سے کہا کہ جواب دو۔ اُس نے کہا؟ اے امیرالمومن ین! میں جواب سے عاجز ہوں۔ مامون نے امام علیہ السلام کی طرف رخ کیا اور کہا: جس مسئلہ کے جواب دینے سے عاجز ہے، آپ جواب دیں۔
امام علیہ السلام نے فرمایا:
"اگر یحییٰ کا خیال ہے کہ اُس نے سچوں کی تصدیق کی ہے تو جو اپنی کمزوری کی گواہی دے، وہ کس طرح امامت کی لیاقت رکھ سکتا ہے۔ اس نے منبرکے اوپر کہا کہ میں تمہارا سرپرست ہوں لیکن تم سے بہتر نہیں ہوں حالانکہ حکمران اپنی رعایا سے افضل ہوتا ہے۔
اگر یحییٰ کا خیال ہے اُس نے سچوں کی تصدیق کی ہے ، جو شخص منبر پیغمبر پر خود اپنے خلاف اعتراف کرے اور کہے کہ میرے پاس ایک شیطان ہے جو مجھ پر عارض ہوجاتا ہے تو وہ اس لائق نہیں ہے کہ امام بن سکے کیونکہ امام میں شیطان نہیں ہو سکتا”۔
اگر یحییٰ خیال کرتا ہے کہ اُس نے سچوں کی تصدیق کی ہے ، پس جو اپنے ساتھی کے خلاف اقرار کرے اور کہے ابوبکر کی امامت ایک ناگہانی معاملہ تھا، خدا نے اُس کے شر کو زائل کردیا ، جو کوئی بھی اُس کی طرح دعویٰ کرے، اُسے قتل کردو ، کیا وہ امامت کے لائق ہے؟
مامون چیخا، لوگ اِدھر اُدھر چلے گئے۔ پھر بنی ہاشم کی طرف دیکھا اور کہا: میں نے نہیں کہا تھا کہ اس کے ساتھ بحث نہ کرو اور اُس کے خلاف کوئی اقدام نہ کرو۔ اس گروہ کا علم ان کے پیغمبرکی طرف سے ہے۔
(ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب :ج ۴ ،ص ۳۵۱)
کتاب” صحیفہ امام رضا علیہ السلام ” سے اقتباس

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button