عقائدنبوت

نبوت

انبیاء کی بعثت کا فلسفہ:
ہمارا عقیدہ ہے کہ اللہ نے نوع بشر کی ہدایت کے لئے،انسانوں کو کمال مطلوب اور ابدی سعادت تک پہنچانے کے لئے پیغمبروں کو بھیجا۔ کیونکہ اگر اللہ ایسا نہ کرتا تو انسان کو پیدا کرنے کا مقصد فوت ہو جاتا۔ انسان گمراہی کے دریا میں غوطہ زن رہتا اور اس طرح نقض غرض لازم آتی۔ رسلاً مبشرین ومنذرین لئلا یکون للناس علی ٰ اللّٰه حجةً بعد الرسل وکان اللّٰه عزیزاً حکیماً۔ یعنی اللہ نے خوش خبری دینے اور ڈرانے والے پیغمبروں کو بھیجا تاکہ ان پیغمبروں کو بھیجنے کے بعد لوگوں پر اللہ کی حجت باقی نہ رہے (یعنی وہ لوگوں کو سعادت کا راستہ بتائیں اور اس طرح حجت تمام ہوجائے) اور اللہ عزیز و حکیم ہے۔
ہمارا عقیدہ ہے کہ تمام پیغمبروں میں سے پانچ پیغمبر “اولوالعزم” ہیں جن کے نام اس طرح ہیں:
(1) حضرت نوح علیہ السلام
(۲) حضرت ابراہیم علیہ السلام
(3) حضرت موسی علیہ السلام
(4) حضرت عیسی علیہ السلام
(۵) حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
واذ اخذنا من النبیین میثاقهم ومنک ومن نوح وابراهیم وموسی ٰ وعیسی ٰ ابن مریم اخذنا منهم میثاقاً غلیظا  یعنی اس وقت کو یاد کرو جب ہم نے پیغمبروں سے میثاق لیا جیسے آپ سے، نوح سے،ابراہیم سے،موسیٰ سے اور عیسیٰ ابن مریم سے اور ہم نے ان سب سے پکا عہد لیا کہ (وہ رسالت کے تمام کاموں میں اور آسمانی کتابوں کو عام کرنے میں کوشش کریں)
فاصبر کما صبر اولوالعزم من الرسل یعنی اس طرح صبر کرو جس طرح اولوالعزم پیغمبروں نے صبر کیا۔
ہمارا عقیدہ ہے کہ حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم،اللہ کے آخری رسول ہیں اور آپ کی شریعت قیامت تک دنیاکے تمام انسانوں کے لئے ہے۔ لہٰذا اب جو بھی نبوت کا دعویٰ کرے گا وہ باطل اور بے بنیاد ہے۔
ما کان محمدابا احد من رجالکم ولکن رسول اللّٰہ وخاتم النبیین وکان اللّٰه بکل شی ٴ علیماً یعنی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول وآخری نبی ہیں اور اللہ ہر چیز کا جاننے والاہے (یعنی جو ضروری تھا وہ ان کے اختیا ر میں دے دیا )
آسمانی ادیان کی پیروی کرنے والوں کے ساتھ زندگی بسر کرنا :
ویسے تو اس زمانہ میں فقط اسلام ہی اللہ کا آئین ہے،لیکن ہم اس بات کے طرفدار ہیں کہ آسمانی ادیان کی پیروی کرنے والے سبھی افراد کے ساتھ میل جول سے رہنا چاہئے۔ چاہے وہ کسی اسلامی ملک میں رہتے ہوں یا غیر اسلامی ممالک میں۔ اس شرط کے ساتھ کہ ان میں سے کوئی اسلام یا مسلمانوں کی مخالفت نہ کرے لاینها کم اللّٰه عن الذین لم یقاتلو کم فی الدین ولم یخرجوکم من دیارکم ان تبروهم وتقسطوا الیهم ان اللّٰه یحب المقسطین یعنی اللہ نے تم کو ان کے ساتھ نیکی اور عدالت کی رعایت کرنے سے منع نہیں کیا ہے جو دین کی وجہ سے تم سے نہ لڑیں اور تم کو تمھارے وطن اور گھروں سے باہر نہ نکالے،کیونکہ اللہ عدالت کی رعایت کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔
ہماراعقیدہ ہے کہ اسلام کی حقیقت وتعلیمات کو منطقی بحثوں کے ذریعہ تمام دنیا کے سامنے بیان کیاجا سکتاہے۔ اور ہم اس بات کے بھی قائل ہیں کہ اسلام میں اتنی جاذبیت پائی جاتی ہے کہ اگر اس کو صحیح طرح سے لوگوں کے سامنے بیان کیا جائے تو انسانوں کی ایک بڑی تعداد اس کی طرف متوجہ ہوسکتی ہے خاص طور پر اس زمانہ میں جب کہ بہت سے لوگ اسلام کے پیغام کو سننے کے لئے آمادہ ہیں۔
اسی بنا پر ہمارا عقیدہ ہے کہ اسلام کو لوگوں پر زبردستی نہ تھوپا جائے لااکرا ه فی الدین قد تبین الرشد من الغی یعنی دین کو قبول کرنے میں کوئی زبردستی نہیں ہے کیونکہ اچھا اور برا راستہ آشکار ہو چکاہے۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ مسلمانوں کا اسلام کے قوانین پر عمل پیرا ہونا اسلام کی پہچان و تبلیغ کا ذریعہ بن سکتا ہے لہٰذا زور زبردستی کی ضرورت ہی نہیں ہے۔
انبیاء کا اپنی پوری زندگی میں معصوم ہونا:
ہمارا عقیدہ ہے کہ اللہ کے تمام پیغمبرمعصوم ہیں یعنی اپنی پوری زندگی میں چاہے وہ بعثت سے پہلے کی زندگی ہو یا بعد کی، وہ گناہ،خطا وغلطی سے اللہ کی تائید کے ساتھ محفوظ رہتے ہیں۔ کیونکہ اگر وہ کسی گناہ یا غلطی کو انجام دین گے تو ان پر سے لوگوں کا اعتماد ختم ہو جائے گا۔ اس صورت میں لوگ ان کو اپنے اور اللہ کے درمیان ایک مطمئن وسیلہ کے طور پر قبول نہیں کریں گے اور نہ ہی ان کو اپنی زندگی کے تمام اعمال میں پیشوا بنا ئیں گے۔
اسی بنا پر ہمارا عقیدہ ہے کہ قرآن کریم کی جن آیات میں ظاہری طور پر نبیوں کی طرف گناہ کی نسبت دی گئی ہے وہ ” ترک اولیٰ“کے قبیل سے ہے (ترک اولیٰ یعنی دو اچھے کاموں میں سے اس کام کو انجام دینا جس میں کم اچھائی پائی جاتی ہو جب کہ بہتر یہ ہے کہ اس کام کو انجام دیا جائے جس میں زیادہ اچھائی پائی جاتی ہے) یا ایک دوسری تعبیر کے تحت” حسنات الابرار سیئا المقربین ” کبھی کبھی نیک لوگوں کے اچھے کام بھی مقرب لوگوں کے گناہ شمار ہوتے ہیں،کیونکہ ہر انسان سے اس کے مقام کے مطابق عمل کی توقع ہوتی ہے۔
انبیاء کے معجزات و علم غیب :
پیغمبروں کا اللہ کا بندہ ہونا اس بات کی نفی نہیں کرتا کہ وہ اللہ کے حکم سے حال،گذشتہ اور آئندہ کے پوشیدہ امور سے واقف نہ ہوں۔ عالم الغیب فلا یظهر علی ٰ غیبه احداً الا من الرتضی ٰ من رسولٍ۔ یعنی اللہ غیب کا جاننے والا ہے اور کسی کو بھی اپنے غیب کا علم عطا نہیں کرتا مگر ان رسولوں کو جن کو اس نے چن لیاہے۔ ہم جانتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ  علیہ السلام کا ایک معجزہ یہ تھا کہ وہ لوگوں کو غیب کی باتوں سے آگاہ کرتے تھے وانبئکم بما تا ٴ کلون وما تدخرون فی بیوتکم میں تم کو ان چیزوں کے بارے میں بتاتا ہوں جو تم کھاتے ہو یااپنے گھروں میں جمع کرتے ہو۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی تعلیم الٰہی کے ذریعہ بہت سی پوشیدہ باتوں کو بیان کیا ہے۔ ذلک من ابناء الغیب نوحیه الیک یہ غیب کی باتیں ہیں جن کی ہم تمھاری طرف وحی کرتے ہیں۔ اس بنا پر اللہ کے پیغمبروں کا وحی کے ذریعہ اور اللہ کے اذن سے غیب کی خبریں دینا مانع نہیں ہے۔ قرآن کریم کی کچھ آیتوں میں پیغمبر اسلام کے علم غیب کی جو نفی ہوئی ہے، جیسے ولا عالم الغیب والا اقول لکم انی ملک یعنی مجھے غیب کا علم نہیں ہے اور نہ ہی میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں۔ یہاں پر اس علم سے مراد علم ذاتی اور علم استقلالی ہے نہ کہ وہ علم جو اللہ کی تعلیم کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ قرآن کی آیتیں ایک دوسرے کی تفسیر کرتی ہیں۔
ہمارا عقیدہ ہے کہ اللہ کے نبیوں نے تمام معجزات وفوق العادہ کام اللہ کے حکم سے انجام دیئے ہیں۔ اور پیغمبروں کے بارے میں یہ عقیدہ رکھنا کہ وہ اللہ کے حکم سے فوق العادہ کاموں کو انجام دیتےہیں شرک نہیں ہے۔ قرآن کریم میں ذکرہواہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے مردوں کو زندہ کیا اور لاعلاج بیماروں کو شفا عطا کی وابری الاکمه والابرص واحی الموتی ٰ باذن اللّٰه
مسئلہ شفاعت :
ہماراعقیدہ ہے کہ تمام پیغمبر اور ان میں سب سے افضل و اعلیٰ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شفاعت کا حق حاصل ہے۔ وہ گناہگاروں کے ایک خاص گروہ کی شفاعت کریں گے۔ لیکن یہ سب اللہ کی اجازت اور اذن سے ہے مامن شفیع الا من بعد اذنه یعنی کوئی شفاعت کرنے والانہیں ہے مگر اللہ کی اجازت کے بعد۔اور من ذا الذی یشفع عندہ الا باذنه کون ہے جو اس کے اذن کے بغیر شفاعت کرے ۔
قرآن کریم کی وہ آیتیں جن میں مطلقہ طور پر شفاعت کی نفی کے اشارے ملتے ہیں ان میں شفاعت سے مراد شفاعت استقلالی اور شفاعت بدون اجازت ہے۔ یا پھر ان لوگوں کے بارے میں ہے جو شفاعت کی قابلیت نہیں رکھتے جیسے من قبل ان یا ٴ تی یوم لا بیع فیه ولا خلة ولا شفاعة یعنی اللہ کی راہ میں خرچ کرو اس سے پہلے کہ وہ دن آجائے جس دن نہ خرید و فروش ہوگی (تاکہ کوئی اپنے لئے سعادت ونجات خرید سکے) نہ دوستی اور نہ شفاعت۔ ہم کئی بار یہ عرض کر چکے ہیں کہ قرآن کریم کی آیتیں ایک دوسرے کی تفسیر کرتی ہیں۔
ہمارا عقیدہ ہے کہ مسئلہ شفاعت،عوام کی تربیت، ان کو گناہ کے راستے سے ہٹا کر صحیح راہ پر لانے، ان کے اندر تقویٰ و پرہیزگاری پیدا کرنے اور ان کے دلوں میں امید کی کرن پیدا کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ مسئلہ شفاعت بے قید و بند نہیں ہے بلکہ اس کے لئے کچھ شرطیں ہیں۔ جیسے شفاعت فقط ان لوگوں کے لئے ہے جو اس کی لیاقت رکھتے ہیں۔ یعنی شفاعت ان لوگوں کے لئے ہے جنہوں نے اپنے گناہوں کی کثرت کی بنا پر اپنے رابطہ کو شفاعت کرنے والوں سے کلی طور پر قطع نہ کیاہو ۔اس بنا پر مسئلہ شفاعت گناہگاروں کو قدم قدم پر یہ تنبیہ کرتا رہتا ہے کہ اپنے اعمال کو بالکل خراب نہ کرو بلکہ نیک اعمال کے ذریعہ اپنے اندر شفاعت کی لیاقت پیدا کرو۔
مسئلہ توسل :
ہمارا عقیدہ ہے کہ مسئلہ توسل بھی مسئلہ شفاعت کی ہی طرح ہے۔ مسئلہ توسل معنوی ومادی مشکلوں میں گھرے انسانوں کو یہ حق دیتاہے کہ وہ اللہ کے ولیوں سے توسل کریں تاکہ وہ اللہ کی اجازت سے ان کی مشکلوں کے حل کو اللہ سے طلب کریں۔ یعنی توسل کرنے والے ایک طرف تو خود اللہ کی بارگاہ میں دعا کرتے ہیں دوسری طرف اللہ کے ولیوں کو وسیلہ قراردیتے ہیں۔ ولو انهم اذ ظلموا انفسهم جاؤک فاستغفرواللّٰه واستغفر لهم الرسل لوجدوااللّٰه تواباً رحیماً یعنی اگر یہ لوگ اسی وقت تمھارے پاس آجاتے جب انہوں نے اپنے اوپر ظلم کیا تھا اور اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے اور رسول بھی ان کے لئے طلب مغفرت کرتے تو اللہ کو توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا پاتے۔
ہم جناب یوسف کے بھائیوں کی داستان میں بھی پڑھتے ہیں کہ انہوں نے اپنے والد سے توسل کیا اور کہا کہ یاابانا استغفر لنا انا کنا خاطئین یعنی اے بابا! ہمارے لئے اللہ سے بخشش کی دعا کرو کیونکہ ہم خطاکار تھے۔ ان کے بوڑھے والد حضرت یعقوب علیہ السلام نے جو کہ اللہ کے پیغمبر تھے ان کی اس درخواست کو قبول کیا اور ان کی مدد کا وعدہ کرتے ہوئے کہا کہ سوف استغفروا لکم ربی میں جلدی ہی تمھارے لئے اپنے رب سے مغفرت کی دعا کروں گا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ گذشتہ امتوں میں بھی توسل کا وجود پایا جاتا تھا۔
لیکن انسان کو اس حد سے آگے نہیں بڑھنا چاہئے اولیاء خدا کو اس امر میں مستقل اور اللہ کی اجازت سے بے نیاز نہیں سمجھنا چاہیے۔ کیوں کہ یہ کفر و شرک کا سبب بنتاہے۔ اورنہ توسل کو اولیاء خدا کی عبادت کے طور پر کرنا چاہئے کیونکہ یہ بھی کفر و شرک ہے۔ اس لئے کہ اولیاء خدا اللہ کی اجازت کے بغیر نفع نقصان کے مالک نہیں ہیں۔ قل لا املک لنفسی نفعاً ولاضرا الا ماشاء اللّٰه یعنی ان سے کہہ دو کہ میں اپنی ذات کے لئے بھی نفع نقصان کا مالک نہیں ہوں مگر جواللہ چاہے۔ مسئلہ توسل کے بارے میں اسلام کے تمام فرقوں کی عوام کے درمیان افراط و تفریط پائی جاتی ہے۔ لہذا ان سب کی ہدایت کرنی چاہئے۔
تمام انبیاء کی تبلیغ کے اصول ایک ہیں:
ہمارا عقیدہ ہے کہ اللہ کے تمام انبیاء کا مقصد”انسان کی سعادت” تھا۔ اور اس کے حصول کے لئے اللہ اور روزقیامت پر ایمان،صحیح دینی تعلیم وتربیت اور سماج میں اخلاقی اصول کو مضبوطی عطا کرنا ضروری تھا۔ اسی وجہ سے ہمارے نزدیک تمام انبیاء محترم ہیں اور یہ بات ہم نے قرآن کریم سے سیکھی ہے لانفرق بین احد من رسله یعنی ہم اللہ کے نبیوں کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتے۔
زمانے کے گذرنے کے ساتھ انسان میں جیسے جیسے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی صلاحیت بڑھتی گئی ویسے ویسے ادیان الٰہی تدریجا کامل تر اور ان کی تعلیمات عمیق تر ہوتی گئیں، یہاں تک کہ آخر میں کامل ترین آئین الٰہی (اسلام)رونماہوا اور اس کے ظہور کے بعد دین کے کامل ہو نے کا اعلان کردیا گیا۔ الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دیناً۔یعنی آج کے دن میں نے تمھارے دین کو کامل کردیااور تم پر اپنی نعمتوں کو پورا کیا اور تمھارے لئے دین اسلام کوپسندکیا۔
گذشتہ انبیاء کی خبریں:
ہمارا عقیدہ ہے کہ بہت سے انبیاء نے اپنے بعد آنے والے نبیوں کے بارے میں اپنی امت کو آگاہ کردیا تھا۔ ان میں سے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں بہت سی روشن نشانیاں بیان کردی تھیں،جو آج بھی ان کی بہت سی کتابوں میں موجود ہیں۔ اس بارے میں قرآن کریم فرماتا ہے کہ الذین یتبعون الرسول النبی الامی الذین یجدونه مکتوباً عندهم فی التوریة والانجیل ۔۔۔۔ اولئک هم المفلحون یعنی وہ لوگ جواللہ کے رسول کی پیروی کرتے ہیں اس رسول کی جس نے کہیں درس نہیں پڑھا (لیکن عالم وآگاہ ہے) اس رسول میں تورات وانجیل میں بیان کی گئی نشانیوں کو پاتے ہیں ۔۔۔۔۔ یہ سب کامیاب ہیں۔
اسی وجہ سے تاریخ میں ملتا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ظہورسے پہلے یہودیوں کا ایک بہت بڑا گروہ مدینہ آگیا تھا اور آپؐ کے ظہور کا بے صبری سے انتظار کررہا تھا۔ کیونکہ انہوں نے اپنی کتابوں میں پڑھا تھا کہ وہ اسی سرزمین سے ظہور فرمائیں گے۔ آپؐ کے ظہور کے بعد ان میں سے کچھ لوگ تو آپؐ پر ایمان لے آئے لیکن جب کچھ لوگوں نے اپنے منافع کو خطرے میں محسوس کیا تو آپؐ کی مخالفت میں کھڑے ہوگئے۔
نسلی وقومی برتری کی نفی:
ہمارا عقیدہ ہے کہ تمام انبیاء الٰہی مخصوصاً پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی بھی “نسلی ” یا “قومی” امتیاز کو قبول نہیں کیا۔ ان کی نظر میں دنیا کے تمام انسان برابرتھے چاہے وہ کسی بھی نسل، قوم یا زبان سے تعلق رکھتے ہوں۔ قرآن کریم تمام انسانوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتاہے کہ یاایهاالناس انا خلقناکم من ذکر وانثی ٰ وجعلناکم شعوباًوقبائل لتعارفوا ان اکرمکم عند اللّٰه اتقاکم یعنی اے انسانو! ہم نے تم کو ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا ،پھر ہم نے تم کو قبیلوں میں بانٹ دیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو (لیکن یہ برتری کا پیمانہ نہیں ہے) تم میں اللہ کے نزدیک وہ محترم ہے جو تقوی میں زیادہ ہے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک بہت مشہور حدیث ہے جو آپ نے حج کے دوران سرزمین منیٰ میں اونٹ پر سوار ہوکر لوگوں سے خطاب فرمائی تھی ” یا ایها الناس الا ان ربکم واحد وان اباکم واحد ،الا لافضل لعربی علی عجمی ،ولا لعجمی علی ٰ عربی، ولا لاسود علی ٰ احمر،ولا لاحمر علی ٰ اسود،الابالتقوی ٰ ،الا هل بلغت! قالوا نعم! قال لیبلغ الشاہد الغائب” یعنی اے لوگو! جان لو کہ تمھارا خدا ایک ہے اور تمھارے ماں باپ بھی ایک ہیں،نہ عربوں کو عجمیوں پربرتری حاصل ہے نہ عجمیوں کو عربوں پر،نہ گوروں کو کالوں پر فوقیت ہے اورنہ کالوں کو گوروں پر،اگر کسی کو کسی پر برتری ہے تو وہ تقویٰ کی بنا پر ہے۔ پھر آپؐ نے سوال کیا کہ کیا میں نے اللہ کے حکم کو پہنچا دیا ہے؟ سب نے جواب دیا جی ہاں! آپؐ نے اللہ کے حکم کو پہنچادیا ہے۔ پھر آپؐ نے فرمایا کہ جو لوگ یہاں پرموجودہیں وہ اس بات کو ان لوگوں تک بھی پہنچا دیں جو یہاں پر موجود نہیں ہیں۔
https://shiastudies.com/ur/1712 /

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button