امامتعقائد

امامت ،سنّت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں

اسلامی احادیث سے مربوط کتابوں ،بالخصوص اہل سنت بھائیوں کی طرف سے تاٴلیف کی گئی کتابوں کا مطالعہ کر نے کے دوران انسا ن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کی گئی احادیث کی ایک کثیر تعداد سے روبرو ہو تا ہے جو واضح طور پر حضرت علیعلیہ السلام کی امامت و خلافت کو ثابت کرتی ہیں۔
حیرت کی بات ہے کہ اتنی احادیث موجود ہو نے کے باوجود اس مسئلہ کے بارے میں کسی قسم کا شک وشبہہ باقی نہیں رہ جاتا تو پھر ایک گروہ اہل بیتعلیہ السلام کی راہ سے ہٹ کر کو ئی دوسری راہ کیسے اختیار کر لیتاہے؟
یہ احادیث ،جن میں سے بعض کے اسناد سینکڑوں تک ہیں (جیسے حدیث غدیر) اور بعض کے اسناد دسیوں تک اور دسیوں مشہور اسلامی کتا بوں میں نقل ہو ئی ہیں ،ایسی واضح اور روشن ہیں کہ اگر ہم تمام گفتگوؤں کو نظر انداز کردیں اور کسی کی تقلید کر نا چہوڑ دیں،تو ہ مسئلہ ہمارے لئے ایسا واضح ہو جائے گا کہ کسی اور دلیل کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔
ان احادیث کے مخزن سے ہم یہاں پر چند مشہور احادیث کو نمونہ کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اس موضوع پر بیشتر اور گہرے مطالعہ کا شوق رکھنے والوں کے لئے ہم بعض منابع(کتابوں) کی نشاندہی کرتے ہیں تاکہ ان سی استفادہ کریں۔
۱۔حدیث غدیر
مورخین اسلام کی ایک بہت بڑی تعداد نے لکھا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی زندگی کے آخری سال حج بجا لائے ۔فریضہ حج کو بجالانے کے بعد جبکہ حجاز کے مختلف علاقوں سے حج کے لئے آئے ہوئے آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے نئے اور پرانے صحابیوںاور اسلام کے عاشقوں کی ایک بڑی تعداد آپ کے ساتھ تھی ۔مکہ سے واپسی پر یہ عظیم اجتماع ،مکہ اور مدینہ کے در میان واقع ”جحفہ“نامی ایک جگہ سے گزرتے ہوئے ”غدیر خم“کے نام پر ایک خشک اور گرم بیابان میں پہنچ گیا ۔در حقیقت یہ ایک چورا ہا تھا ۔جہاں پر حجاز کے تمام لوگوں کے راستے جدا ہوتے تھے۔
یہاں پر حجاز کے مختلف علاقوں کی طرف جانے والے مسلمانوں کے ایک دوسرے سے جدا ہونے سے پہلے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سب کو رکنے کا حکم دیا۔ جو آگے بڑہےتھے انںیس واپس آنے کا حکم دیا اور پیچھے سے آنے والوں کا انتظار کیا گیا،اس طرح سب ایک جگہ جمع ہو گئے ۔ہوا انتہائی گرم اور دہوپ نہایت جھلسا دینے والی تھی۔بیابان میں دوردور تک کہیں کوئی سائبان نظر نہیں آرہا تھا۔مسلمانوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امامت میں ظہر کی نماز پڑھی ۔جب ان سب نے نماز کے بعد اپنے خیموں کی طرف جانا چاہا تو پیغمبر اسلام نے حکم دیا کہ سب لو گ ٹھہر جائیں اور ایک مفصل و بیشتر وضاحت کے لئے کتاب”المراجعات“،”الغدیر“اور ”نوید امن وامان“کی طرف رجوع کریں۔
خطبہ کے ضمن میں ایک اہم الہٰی پیغام کو سننے کے لئے آمادہ ہو جائیں ۔
اونٹوں کے پالانوں کا ایک منبر بنایا گیا اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس پر تشریف لے گئے آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے حمد وثنائے الہٰی کے بعد لوگوں سے مخاطب ہو کر فرمایا:
میں خدا کی دعوت کو لبیک کہتے ہوئے جلدی ہی تمھارے درمیان سے رخصت ہونے والا ہوں۔ میں ذمہ دار ہوں اور تم لوگ بھی ذمہ دار ہو ۔ تم لوگ میرے بارے میں کس طرح کی شہادت دیتے ہو؟
لوگوں نے بلند آواز سے کہا:
” نشہد انک قد بلغت و نصحت و جہدت فجزاک اللّٰہ خیرا“
”ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے رسالت کی ذمہ داریاں نبھائیں اور ہماری بھلائی کے لئے ہماری نصحیت کی اور ہماری ہدایت میں نہایت کوشش کی،خداوند متعال آپ کو جزائے خیردے۔“
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تم لوگ خدا کی وحدانیت ، میری رسالت اور قیامت کی حقیقت اور اس دن مردوں کے دوبارہ زندہ ہونے کی شہادت دیتے ہو؟
جواب میں سب نے یک زبان ہوکر کہا: جی ہاں ، ہم گواہی دیتے ہیں۔ آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا: خداوندا! گواہ رہنا۔۔۔
آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے دوبارہ فرمایا: اے لوگوں ! کیا میری آواز سن رہےہو؟انہوں نے کہا: جی ہاں۔
اس کے بعد پورے بیابان میں چاروں طرف خاموشی چھاگئی اور ہوا کی سنسناہٹ کی آواز کے علاوہ کوئی دوسری آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔
پیغمبرا سلام(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا: اب بتاؤ کہ ان دو گرانقدر چیزوں کے ساتھ تم لوگ کیسا سلوک کروگے جومیں تمھارے درمیان یادگارکے طور پر چہوڑے جارہاہوں؟
مجمع میں سے کسی نے بلند آورز سے سوال کیا: کون سی دوگرانقدر چیزیں، یا رسول اللہ؟!
پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا: پہلی چیز ”ثقل اکبر“ یعنی کتاب الہی”قرآن مجید“ہے۔ اس کے دامن کو ہرگز نہ چہوڑنا تا کہ گمراہ نہ ہوجاؤ۔ اور دوسری گرانقدر یادگار چیز میرے اہل بیت ہیں۔ خداوند لطیف و خبیر نے مجہے خبردی ہے کہ یہ دوچیزیں ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہیں ہونگیں یہاں تک کہ بہشت میں مجھ سے مل جائیں، ان دو نوں سے آگے بڑھنے کی کوشش نہ کرنا ورنہ ہلاک ہوجاؤگے۔ اور ان سے پیچھے بھی نہ رہنا، کیونکہ اس صورت مین بھی ہلاک ہوجاؤگے۔
اس دوران اچانک آپعلیہ السلام نے اپنی نظریں ادھر اُدھردوڑائیں، جیسے کہ آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کوکسی کی تلاؤ تھی۔ جوں ہی آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی نظرحضرت علیعلیہ السلام پر پڑی، آپ جھک گئے اور ان کا ہاتھ پکڑ کر انہیں اتنا بلند کیا کہ دونوں کی بغلوں کی سفیدی دکھائی دے رہی تھی۔ سب لوگوں نے حضرت علی علیہ السلام کو دیکھا اور انہیں پہچان لیا۔
اس موقع پر آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اور زیادہ بلند آواز کے ساتھ رفرمایا:
ایّھا الناس ! من اولی النّاس بالمومنین من انفسھم؟
لوگو! لوگوں میں سے کون شخص مومنین پر خود ان سے بھی زیادہ سزاورا ہے؟
سب نے جواب میں کہا: خدا اور س کا رسولعلیہ السلام بہتر جانتاہے۔
پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا:
” خداوند متعال میرامولا اور رہبر ہے، اور میں مؤمنین کا مولا ورہبر ہوں اور ان کی نسبت خود ان سے بھی زیادہ حق رکھتاہوں۔“
اس کے بعد فرمایا:
”فمن کنت مولاہ فعلی مولاہ“
”جس جس کا میں مولا اور رہبر ہوں، اس اس کے علیعلیہ السلام بھی مولاہیں“
آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اس جملہ کوتین مرتبہ دہرایا، بعض راویان حدیث کے مطابق اس جملہ کو چار مرتبہ دہرایا، اس کے بعد اپنے سر کو آسمان کی طرف بلند کرکے فرمایا:
”اللّہم وال من والاہ و عاد من عاداہ واحب من احبہ، وابغض من ابغضہ، وانصرمن نصرہ، واخذل من خذلہ، وادار الحق معہ حیث دار“
”خداوندا! اس کے دوستوں کو دوست رکھ اور س کے دشمنوں سے دشمن رکھ، جو شخص اسے محبوب رکہے اسے محبوب رکھ اور اس شخص سے بغض رکھ جس کے دل میں اس کا بغض ہو، اس کے دوستوں کی یاری فرما اور اس کا ساتھ چہوڑنے والوں کو محروم فرما، حق کو اس کے ساتھ پھیر جدھر وہ پھرے “
اس کے بعد فرمایا:
”تمام حاضرین اس خبر کو ان لوگوں تک پہنچائیں جو اس دقت یہاں پر حاضر نہیں ہیں۔“
ابھی لوگ متفرق نہیں ہوئے تھے کہ جبرئیل امین وحی الہی لے کرنازل ہوئے اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے یہ آیہ شریفہ لے آئے:
الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی
(سورہ مائدہ آیت۳)
”آج میں نے تمھارے لئے تمایرے دین کو کامل کردیا ہے اور اپنی نعمتوں کو تم پر تمام کردیاہے“
اس موقع پر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فر مایا:
”اللّٰہ اکبر ،اللّٰہ اکبر ،علی اکمال الدین واتمام النعمة ورضی الرب برسالتی والو لایة لعلی من بعدی۔“
”خدا کی بزرگی کا اعلان کرتا ہوں ،خدا کی بزرگی کا اعلان کر تا ہوں، اس لئے کہ اس نے اپنے دین کو کامل اور اپنی نعمت کو ہم پر تمام کر دیا ہے اور میری رسالت اور میرے بعد علیعلیہ السلام کی ولا یت سے راضی ہو نے کا اعلان فر مایا ہے۔“
اس وقت لوگوں میں شور وغوغا بلند ہوا،لوگ حضرت علی علیہ السلام کو اس مرتبہ کی مبارک باد دے رہےتھے ،یہاں تک کہ ابوبکر اور عمر نے لوگوں کے اجتماع میں علیعلیہ السلام سے مخاطب ہو کر یہ جملہ کہا:
”بخ بخ لک یابن ابیطالب اصبحت و امسیت مولای ومولا کل مؤمن ومؤ منة“
”مبارک ہو آپ کو ،مبارک ہو آپ کو ،اے فرزند ابیطالب آپ میرے اور تمام مومنین و مومنات کے مولا اور رہبر ہو گئے ہیں۔
مذکورہ بالاحدیث کو علمائے اسلام کی ایک بڑی تعداد نے مختلف عبارتوں میں، کہیں مفصل اور کہیں خلاصہ کے طور پراپنی کتا بوں میں درج کیا ہے ۔یہ حدیث متواتر احادیث میں سے ہے اور کوئی بھی شخص اس کے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے صادر ہونے پر شک وشبہہ نہیں کرسکتا ہے ،یہاں تک کہ مصنف و محقق ”علامہ امینی “نے اپنی مشہور کتاب ”الغدیر“ میں اس حدیث کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک سو دس اصحاب اور تین سو ساٹھ اسلامی علماء کی کتابوں سے نقل کیا ہے۔یہ حدیث اہل سنت بھائیوں کی اکثرتفسیر و تاریخ اور حدیث کی کتا بوں میں درج ہے ،یہان تک کہ علمائے اسلام کی ایک بڑی تعداد نے اس حدیث کے سلسلہ میں مستقل کتا بیں لکھی ہیں۔مرحوم علامہ امینی نے اس سلسلہ میں ایک گرانقدر اور بے نظیر مستقل کتاب لکھی ہے اور اس میں چھبیس ایسے علمائے اسلام کے نام درج کئے ہیں جنہوں نے ”حدیث غدیر “کے متعلق مستقل کتا بیں لکھی ہیں۔
بعض اشخاص نے حدیث کی سند کو ناقابل انکار پاتے ہوئے اس کی امامت وخلافت پر دلالت کے بارے میں شک وشبہہ ایجاد کر نے کی کوشش کی ہے ،اور مولا کے معنی کو ”دوست“کے عنوان سے جہوٹی تو جیہ کر نے کی کو شش کی ہے،جبکہ حدیث کے مضمون ،زمان ومکان کے شرائط اور دوسرے قرائن پر غور کر نے سے بخوبی معلوم ہو تا ہے کہ” مولا“کا مقصد ،بمعنی مکمل رہبری و قیادت اورمسئلہ امامت و ولایت کے علاوہ کچھ نہیں ہے:
الف:آیہ تبلیغ ،جس کا ہم نے گزشتہ سبق میں ذکر کیا ،اس واقعہ سے پہلے نازل ہوئی ہے۔ اس میں موجود تندوسخت لہجہ اور قرائن اس بات کی بخوبی گواہی دیتے ہیں کہ یہ عام دوستی اور رفاقت کی بات نہیں ہے ،کیونکہ یہ امر پریشان کن نہیں تھا اور اس کے لئے اتنی اہمیت اور تاکید کی ضرورت نہیں تھی۔اسی طرح اس واقعہ کے بعد نازل ہو نے والی آیہ ”اکمال الدین“ اس امر کی گواہ ہے کہ یہ مسئلہ ایک غیر معمولی مسئلہ تھا اور رہبری وپیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانشینی کے علاوہ کوئی اور مسئلہ نہیں تھا۔
ب۔اس حدیث کا ان تمام مقد مات کے ساتھ اس تپتے ہوئے بیان میں ایک تفصیلی خطبہ کے بعد بیان کیا جانا اور اس حساس زمان و مکان میں لوگوں سے اقرار لینا یہ سب ہمارے دعویٰ کی مستحکم دلیل ہے۔
ج۔مختلف گرہوں اور شخصیتوں کی طرف سے حضرت علی علیہ السلام کو مبارک باد دینے کے علاوہ اس سلسلہ میں اسی روز اور اس کے بعد کہے گئے اشعار،اس حقیقت کے گویا ہیں کہ یہ مسئلہ علی علیہ السلام کی امامت و ولایت کے بلند منصب پر منصوب ہو نے سے مربوط تھا نہ کسی اور چیز سے۔
حدیث ”منزلت“اور حدیث ”یوم الدار“
بہت سے عظیم شیعہ وسنی مفسرین نے حدیث ”منزلت“کو سورہ اعراف کی آیت نمبر ۱۴۲ کے ذیل میں نقل کیا ہے۔اس آیہ شریفہ میں حضرت موسیعلیہ السلام کے چالیس راتوں کے لئے کوہ طور پر جانے اور اپنی جگہ پر ہارون کو جانشین مقرر کر نے کا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔
حدیث یوں ہے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خبر دی گئی کہ مشرقی روم کے بادشاہ نے حجاز،مکہ اور مدینہ پر حملہ کر نے کے لئے ایک بڑی فوج کو آمادہ کیا ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ اسلامی انقلاب کواپنے خاص انسانی اور حریت و استقلال کے نظام کے ساتھ اس علاقہ میں پہنچنے سے پہلے ہی ،نابود کر دیا جائے ۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ میں حضرت علی علیہ السلام کو اپنا جانشین مقرر فر ماکر ایک عظیم لشکر کے ہمراہ تبوک کی طرف روانہ ہو گئے (تبوک جزیرہ عرب کے شمال میں مشرقی روم کی سلطنت کی سر حد پر واقع تھا)
حضرت علیعلیہ السلام نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکی خدمت میں عرض کی:کیا مجہے بچوں اورعورتوں کے درمیان چہوڑ رہے ہیں ؟(اور اس بات کی اجازت نہیں دے رہے ہیں کہ آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے ہمراہ میدان جہاد میں چل کر اس عظیم افتخار کو حاصل کروں؟)۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فر مایا:
”الاترضی ان تکون منّی بمنزلة ھارون من موسی الا انّہ لیس نبی بعدی؟“
”کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ تمھاری مجھ سے وہی نسبت ہو جو ہارونعلیہ السلام کی موسیعلیہ السلام سے تھی صرف یہ کہ میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں آئے گا؟“
مذکورہ عبارت اہل سنت کی مشہور ترین حدیث کی کتابوں ،یعنی صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں نقل ہوئی ہے ،صرف اس فرق کے ساتھ کہ صحیح بخاری میں پوری حدیث درج ہے اور صحیح مسلم میں ایک مرتبہ پوری حدیث اور دوسرے مرتبہ صرف جملہ ”انت منی بمنزلة ھارون من موسیٰ لّا انّہ لا نبی بعدی“ایک کلی اور تمام جملہ کی صورت میں نقل کی گئی ہے۔
(صححن بخاری ج۶،ص۳۔ صححج مسلم ج۱،ص۴۴۔اور ج۴،ص۱۸۷)
اس کے علاوہ یہ حدیث اہل سنت کی دوسری کتابوں ،جیسے:”سنن ابن ماجہ“،”سنن ترمذی“اور بہت سی دوسری کتابوں میں نقل کی گئی ہے اور اصحاب رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)پر مشتمل اس حدیث کے راویوں کی تعدادبیس افراد سے زیادہ ہے،جن میں جابر بن عبداللہ انصاری ،ابو سعید خدری،عبداللہ بن مسعود اور معاویہ بھی شامل ہیں۔
ابو بکر بغدادی نے ”تاریخ بغداد“میں عمر بن خطاب سے یوں نقل کیا ہے:عمر بن خطاب نے ایک شخص کو حضرت علیعلیہ السلام کے خلاف برا بھلا کہتے ہوئے دیکھا ،عمر نے اس شخص سے کہا :مجہے لگتا ہے کہ تم منافق ہو، کیونکہ میں نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے :
کہ آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) فرما تے تھے:
”انّما علیّ منّی بمنزلة ھارون من موسیعلیہ السلام الّانہ لا نبیّ بعد
(تاریخ بغداد ،ج۷،ص۴۵۲)
”علی علیہ السلام کی نسبت مجھ سے ویسی ہی ہے جیسی ہارون کی موسیعلیہ السلام سے تھی صرف یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔“
قابل توجہ بات ہے کہ احادیث کے معتبر منابع و ماٴخذ سے معلوم ہو تا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بات (حدیث منزلت) صرف جنگ تبوک کے موقع پر ہی نہیں فر مائی ہے بلکہ درج ذیل سات مواقع پر بیان فر مائی ہے جو اس کے عام اور واضح مفہوم کی دلیل ہے:
۱۔”مکہ کے پہلے مواخات کے دن“۔یعنی جس دن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ میں اپنے اصحاب سے برادری اور اخوت کا عہد و پیمان باندھا،اس موقع پر آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے یہی جملہ تکرار فر مایا۔
۲۔”مواخات کے دوسرے دن“۔جب (مدینہ منورہ میں) مہاجر وانصار کے در میان برادری و اخوت کا عہد وپیمان باندھا تو اس موقع پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حدیث منزلت کو دوسری بار بیان فر مایا۔
۳۔جس دن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا کہ مسجد نبوی کی طرف کھلنے والے گھروں کے تمام دروازے بند کر دیئے جائیں اور صرف حضرت علی علیہ السلام کے گھر کا دروازہ کھلا رہے،توآپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اس پر بھی اس جملہ (حدیث منزلت )کو دھرایا۔
۴،۵،۶و۷۔اسی طرح غزوہ تبوک کے دن اور اس کے علاوہ تین اور مواقع پر آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اس حدیث کو دھرایا ہے کہ ان کے مدارک اہل سنت کی تمام کتابوں میں ذکر ہوئے ہیں، لہذا نہ سند کے لحاظ سے اس حدیث کے بارے میں کوئی شک وشبہہ باقی رہتا ہے اور نہ اس کے عام مفہوم (دلیل) مفہوم ہو نے کے لحاظ سے ۔
حدیث منزلت کا مفہوم
اگر ہم اپنے ذاتی نظریات سے ہٹ کر،غیر جانبدارانہ طور پر مذکورہ حدیث پر تحقیق و تجزیہ کریں تو معلوم ہو گا کہ حضرت ہارون کو جو تمام مناسب اور عہدے بنی اسرائیل میں حاصل تھے ،حضرت علی علیہ السلام بھی صرف نبوت کے علاوہ ان تمام عہدوں پر فائز تھے،کیونکہ اس حدیث میں نبوت کے عہدے کے علاوہ کوئی اور قید وشرط موجود نہیں ہے۔
اس لئے یہ نتیجہ نکلتا ہے:
۱۔علیعلیہ السلام امت میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد سب سے افضل تھے۔ (کیونکہ ہارون کا مرتبہ بھی ایسا ہی تھا)۔
۲۔علیعلیہ السلام ،پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وزیر،خاص نائب اور رہبری میں آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے شریک تھے،کیونکہ قرآن مجید نے حضرت ہارون کے لئے یہ تمام منصباور عہدے ثابت کئے ہیں ۔
(سورہ طہ،آیت ۲۹ سے ۳۲ تک)
۳۔علی علیہ السلام ،پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جانشین اور خلیفہ تھے ،آپعلیہ السلام کے ہوتے ہو ئے کوئی دوسرا شخص اس عہدہ پر فائز نہیں ہو سکتا تھا ،کیونکہ حضرت موسیعلیہ السلام کی نسبت حضرت ہارون علیہ السلام بھی یہی مقام و منزلت رکھتے تھے۔
حدیث ”یوم الدار“
اسلامی تواریخ کے مطابق پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بعثت کے تیسرے سال خدا کی طرف سے امر ہوا کہ اپنی خفیہ دعوت اسلام کو آشکار فر مائیں ، چنانچہ سورہ شعراء کی آیت نمبر ۲۱۴میں ارشاد ہوا ہے:
وانذر عشیرتک الا قربین
”اور پیغمبر!آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے۔“
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے قریبی رشتہ داروں کو اپنے چچا حضرت ابو طالبعلیہ السلام کے گھر میں کھا نے کی دعوت دی ،کھانا کھانے کے بعد فر مایا:
”اے عبد المطلب کے فرزندو!خدا کی قسم عرب میں کوئی شخص ایسا نہیں ہے جواپنی قوم کے لئے مجھ سے بہتر کوئی چیزلایا ہو ،میں تمھارے لئے دنیا وآخرت کی نیکیاں لایا ہوں اور خدا وند متعال نے مجہے حکم دیا ہے کہ تم لوگوں کو اس دین (اسلام )کی طرف دعوت دوں ،تم میں سے کون(اس کام میں) میری مدد کرے گا تاکہ وہ میرا بھائی ،وصی اور جانشین بن جائے“؟
سوائے علی علیہ السلام کے کسی بھی شخص نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس دعوت پر لبیک نہیں کہی ۔حضرت علی علیہ السلام ان میں سب سے کم سن تھے،اٹہے اور عرض کی :”اے رسول خدا !میں اس راہ میں آپصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یار ویاور ہوں“۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کی گردن پر اپنا دست مبارک رکھ کر فر مایا:
”ان ھٰذا اخی ووصی وخلیفی فیکم فاسمعوالہ واطیعوہ“
(تاریخ بغداد ،ج۷،ص۴۵۲)
”یہ تم لوگوں میں میرا بھائی،وصی اور جانشین ہے،اس کی بات سنو اور اس کے حکم کی اطاعت کرو۔“
لیکن اس گمراہ قوم (قریش)نے نہ فقط پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کو قبول نہیں کیا بلکہ آپصلی اللہ علیہ و آلہ وسلمکا مذاق بھی اڑایا۔
مذکورہ حدیث جو کہ حدیث ”یوم الدار“روز دعوت ذو العشیرہ کے نام سے مشہور ہے، کافی حد تک واضح اور گو یا ہے ۔اور سند کے ساتھ بہت سے اہل سنت علماء،جیسے:ابن ابی جریر ،ابن ابی حاتم ،ابن مردویہ، ابونعیم، بیہقی، ثعلبی،طبری،ابن اثیر،ابو الفداء اور دوسرے لو گوں نے اسے نقل کیا ہے۔
(مزید تفصلارت کے لئے کتاب” المراجعات“،ص۱۳۰سے الخ اورکتاب ”احقاق الحق“، ج۴، ص۶۲الخ کی طرف رجوع کاب جائے)
اگر ہم مذکورہ حدیث کے بارے میں بھی غیر جانبدارانہ طور پر تحقیق و تجزیہ کرین گے تو حضرت علیعلیہ السلام کی ولایت وخلافت سے مربوط حقائق بالکل واضح ہو جائیں گے کیونکہ اس حدیث میں بھی مسئلہ خلافت و ولایت کے بارے میں صراحت سے ذکر کیاگیا ہے۔
حدیث ”ثقلین“اور حدیث”سفینہ“
حدیث ثقلین کے اسناد
اس حدیث کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب کی ایک بڑی جماعت نے بلا واسطہ (براہ راست)آنحضرتصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نقل کیا ہے بعض بزرگ علماء نے اس حدیث کی روایت کر نے والے اصحاب کی تعداد تیس سے زیادہ بتائی ہے۔
(سرثہ حلی ج۳۳،ص۳۰۸)
مفسرین،محدثین اور مور خین کے ایک بڑے گروہ نے اس حدیث کو اپنی کتا بوں میں درج کیا ہے۔اس طرح اس حدیث کے متواتر ہو نے میں کوئی شک وشبہہ باقی نہیں رہتا ہے۔
بزرگ عالم سید ہاشم بحرانی نے اپنی کتاب”غایة المرام“میں اس حدیث کو اہل سنت علماء کے ۳۹ اسناد اور شیعہ علماء کے ۸۰ اسناد سے نقل کیاہے ۔اور عالم بزرگوار میر حامد حسین ہندی نے اس حدیث کے بارے میں مزید تحقیقات انجام دی ہیں اور تقریباً دوسو اہل سنت علماء سے یہ حدیث نقل کی ہے اور اس حدیث کے سلسلہ میں تحقیقات کو اپنی عظیم کتاب(احقاق الحق) کی چھ جلدوں میں جمع کیا ہے ۔
جن مشہور اصحاب نے اس حدیث کو نقل کیا ہے ،ان میں :ابو سعید خدری ،ابوذر غفاری،زید بن ارقم،زید بن ثابت،ابورافع،جبیر بن مطعم ،یاخذیفہ،ضمرہ اسلمی ،جابر بن عبداللہ انصاری اور ام سلمہ قابل ذکر ہیں۔حضرت ابوذرغفاریۺ کے بیان کے مطابق اصل حدیث یوں ہے :ابوذر غفاری اس حال میں کہ خانہ کعبہ کے دروازے کو پکڑے ہوئے تھے، لوگوں کی طرف مخاطب ہو کربیان کر رہےتھے :میں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمسے سنا کہ آپصلی اللہ علیہ و آلہ وسلمفر ماتے تھے :
إنی تارک فیکم الثقلین کتاب اللّٰہ وعترتی وانھمالن تفترقاحتی یرد اعلی الحوض
(جامع ترمذی،طبق نقل ینابعل المودة،ص۳۷)
”میں تمھارے درمیان دویاد گار گرانقدر چیزیں چہوڑ ے جارہاہوں، قرآن مجیداور میرے اہل بیتعلیہ السلام ۔یہ دونوں ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوںگے یہاں تک کہ حوض کوثر کے کنارے میرے پاس پہنچ جائیں ،پس تم ان کا خیال رکھنا اور دیکھنا تم میری وصیت کا ان کے بارے میں کس قدر لحاظ رکھتے ہو۔“
یہ روایت اہل سنت کے معتبر ترین مآخذ، جیسے ” صحیح ترمذی“، ”نسائی“، ”مسند احمد“، کنزالعمال“ اور ” مستدرک حاکم“ و غیرہ میں نقل ہوئی ہے۔
بہت سی روایتوں میں”ثقلین“(دوگرانقدر چےزیں) کی تعبیر اور بعض روایات میں ”خلیفتین“(دوجانشین) کی تعبیر آ ئی ہے۔ مفہوم کے اعتبار سے ان دونوںمیں کوئی فرق نہیں ہے۔
دلچسپ بات ہے کہ مختلف روایتوں سے معلوم ہوتاہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس حدیث کو مختلف مواقع پر لوگوںکے سامنے بیان فرمایاہے:
”جابربن عبداللہ انصاری“ کی روایت میں آیاہے کہ آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے سفر حج کے دوران عرفہ کے دن اس حدیث (ثقلین) کو بیان فرمایا۔
”عبداللہ بن خطب“ کی روایت میں آیا ہے کہ آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اس حدیث کو سرزمین جحفہ(جو مکہ اورمدینہ کے درمیان ایک جگہ ہے جہاں سے بعض حجاج احرام باندھتے ہیں) میں بیان فرمایاہے۔
” ام سلمہ“ روایت کرتی ہیں کہ آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے اس حدیث کو غدیر خم میں بیان فرمایا۔
بعض روایتوں میں آیا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس حدیث کو اپنی زندگی کے آخری دنوں میں بستر علالت پر بیان فرمایاہے۔
ایک روایت میں آیا ہے کہ آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے یہ حدیث مدینہ منورہ میں منبر پر بیان فرمائی ہے۔
(المراجعات،ص ۴۲)
حتی اہل سنت کے ایک مشہور عالم ” ابن حجر“ اپنی کتاب”صواعق المحرقہ“ میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کرتے ہیں:
” پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس حدیث کو بیان فرمانے کے بعد حضرت علیعلیہ السلام کے ہاتھ کو پکڑ انہیں بلند کیا اور فرمایا:” یہ علیعلیہ السلام قرآن کے ساتھ ہے اور قرآن علیعلیہ السلام کے ساتھ ہے، یہ دونوں ایک دوسرے سے جدانہیں ہوںگے یہاں تک کہ حوض کوثر کے پاس مجھ سے ملیں گے”۔
(الصواعق المحرقہ،ص ۷۵)
اس سے واضح ہوتاہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس مسئلہ پر ایک بنیادی اصول کی حیثیت سے بار بار تا کید فر ما ئی ہے اور اس قطعی حقیقت کو بیان کر نے کے لئے کو ئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کیا ہے تا کہ اسے کبھی فرا موش نہ کیا جائے۔
حدیث ثقلین کا مفہوم
یہاں پر چند نکات قابل توجہ ہیں:
۱۔قرآن اور عترت (اہل بیت) کو پیغمبر اسلام کی طرف سے دو ”خلیفہ “ یا دو گرانقدر چیزوں کے عنوان سے پیش کر نا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ مسلمانوں کو ہر گز ان دوچیزوں کا دامن نہیں چہوڑ نا چاہئے ،بالخصوص اس قید وشرط کے ساتھ جو بہت سی روایتوں میں مذکور ہے :” اگر ان دو چیزوں کا دامن نہ چہوڑو گے تو ہر گز گمراہ نہ ہو گے “اس سے یہ حقیقت تا کید اً ثابت ہو تی ہے۔
۲۔قرآن مجید کا عترت کے ساتھ اور عترت کا قرآن مجید کے ساتھ قرار پانا اس بات کی دلیل ہے کہ جس طرح قرآن مجید ہر قسم کے انحراف اور خطا سے محفوظ ہے،اسی طرح عترت اور اہل بیت پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) بھی مرتبہ عصمت کے مالک ہیں۔
۳۔ان بعض روایتوں میں پیغمبر اسلام نے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صراحت سے فر مایا ہے :میں قیامت کے دن تم سے ان دو یاد گاروں کے ساتھ کئے گئے تمھارے برتا ؤ کے بارے میں باز پرس کرونگا تاکہ دیکھ لو کہ تمھارا ان کے ساتھ کیسا سلوک رہا ہے؟
۴۔بلاشک شبہہ،ہم ”عترت واہل بیت“کی جس طرح بھی تفسیر وتوضیح کریں،حضرت علی علیہ السلام ان کے نمایاں ترین مصداق ہیں ۔اور متعدد روایات کے مطابق آپعلیہ السلام کبھی قرآن مجید سے جدا نہیں ہوئے ہیں اور قرآن مجید بھی آپعلیہ السلام سے جدا نہیں ہوا ہے۔
اس کے علاوہ متعدد روایتوں میں آیا ہے کہ آیہ ”مباہلہ“ کے نازل ہو نے کے وقت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی،فاطمہ حسن اور حسین (علیہم السلام) کو پکار کر فر مایا: ”یہ میرے اہل بیت ہیں“۔
(مشکوة المصابح ،ص۵۶۸(طبع دہلی)ریاض المنضرہ ،ج۲،ص۲۴۸(بحوالہ مسلم و تر مذی)۔
۵۔اگر چہ اس دنیا کی چار دیواری میں مقیّد ہم لوگوں کے لئے قیامت سے متعلق مسائل پوری طرح واضح نہیں ہیں ،لیکن جیسا کہ روایتوں سے معلوم ہو تا ہے ”حوض کوثر“سے مراد بہشت میں موجود ایک خاص نہر ہے جس کے بہت سے خصوصیات ہیں، اور یہ نہر سچے مومنین ،پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے ائمہ اہل بیتعلیہ السلام اور ان کے مکتب کے پیروؤں کے لئے مخصوص ہے۔
یہاں تک کی گئی ہماری گفتگو سے واضح ہو تا ہے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد امت کے رہبر و قائد حضرت علی علیہ السلام ہیں اور آپعلیہ السلام کے بعد آپ ہی کی نسل سے گیارہ ائمہ ہیں۔
حدیث سفینہ
اہل سنت اور شیعوں کی کتا بوں میں جو دلکش تعبیریں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمسے نقل ہو ئیہیں،ان میں سے ایک مشہور حدیث ”سفینہ نوح“ہے۔
اس حدیث کے راوی حضرت ابو ذر فر ماتے ہیں کہ پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے یوں فر مایا:
”اٴلا إن ّمثل اھل بیتی فیکم مثل سفینة نوح من رکبھا نجی ومن تخلف عنھا غرق“
”میرے اہل بیت کی مثال کشتی نوح جیسی ہے جو اس میں سوار ہوا نجات پاگیا اور جو اس سے جدا ہوا وہ غرق (ہلاک) ہو گیا۔“[15] (مستدرک حاکم ،ج۳،ص۱۵۱)
یہ مشہور حدیث بھی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد لوگوں کو حضرت علی علیہ السلام اور اہل بیت پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی پیروی و اطاعت کو ضروری اور لازم قرار دیتی ہے۔
چونکہ ایسی عظیم اور عالمگیر طوفان کے وقت صرف حضرت نوح کی کشتی نجات کا ذریعہ تھی ،اس سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکی رحلت کے بعد امت مسلمہ میں رونما ہو نے والے گمراہی کے طوفان میں راہ نجات صرف ولایت اہل بیت سے تمسک رکھنا تھا اور ہے۔
http://balaghah.net/

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button