جناب زینب سلام علیہا کے خطبات میں فصاحت و بلاغت کی جھلک

مقدمہ
فصاحت و بلاغت کے بادشاہ امیر المومنین علی ابن ابی طالبؑ کی بیٹی جناب زینب سلام اللہ علیہا کے خطبات کا مطالعہ کیا جائے تو فصاحت و بلاغت کی وہ روشن مینار نظر آتے ہیں جن سے عقلِ انسانی حیران رہ جاتی ہے۔اس بارے میں آیت اللہ صافی گلپائیگانی (رح) چند فارسی اشعار ذکرفرماتے ہیں:
آفتاب آسمان مجد و رحمت زینب است (آفتابِ آسمان گویا زینب کی عظمت و رحمت کا نمونہ ہے)
حامی توحید و قرآن و ولایت زینب است (زینب؛ توحید، قرآن اور ولایت کی حامی ہے)
درّ دریای فضیلت، عنصر شرم و عفاف (فضیلت کے سمندر کا دُر، شرم و حیا کا عنصر ہے)
قھرمان عرصھ ی صبر و شھامت زینب است (صبر و حوصلے کے میدان کی فاتح زینب ہے)
در دمشق و کوفہ با آن خطبہ ھای آتشین (دمشق اور کوفہ میں ان شعلہ بیان خطبوں کے ساتھ)
آن کہ سوزانید بنیاد شقاوت زینب است (جس نے شقاوت کی بنیادوں کو جلا دیا، وہ زینب ہے)
ہم سب سے پہلے فصاحت و بلاغت کا معنی سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں پھر جناب سیدہ کے خطبے میں آثار بلاغت تلاش کریں گے۔
فصاحت کا معنی: فصاحت سے مراد یہ ہے کی محاورے یا فقرے کو اس طرح ادا کرنا جس طرح مستند اہل زبان لکھتے یا بولتے ہوں۔
بلاغت کا معنی: جن علوم کے ذریعے کلام میں بلاغت کی کیفیت پیدا کی جاتی ہے ان کو علوم بلاغت کہا جاتا ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں :
1)علوم بدیع:وہ علم جن میں الفاظ کے معنوی اور صوری حسن اور ان طریقہ ہاے استعمال کا مطالعہ کیا جاتا ہے جن کے ذریعے کلام کی معنوی و ظاہری خوبصورتی میں اضافہ ہوتا ہے۔
2)علوم بیان: وہ علم جس میں ان طریقوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے جس میں ایک ہی معنی کو کئی طرح سے ادا کر سکتے ہیں۔
3) علوم عروض:وہ علم جس میں زبان و شعر کا مطالعہ ایک مخصوص انداز میں کیا جاتا ہے۔
4) علوم قافیہ:وہ علم جس میں الفاظ کی آپس میں ہم آہنگی کا مطالعہ ہوتا ہےجو مصرع کے آخر میں آتے ہیں اور تکرار کے ذریعے شعر میں حسن پیدا کرتے ہیں ۔
دربار یزید میں حضرت زینب ؑ کا تاریخی خطبہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
أَلْحَمْدُللّٰھ رَبِّ الْعالَمينَ، وَصَلَّى اللّٰھ عَلى رَسُولِھ وَآلِھ أجْمَعينَ، صَدَقَ اللّٰھ کذلِک يَقُولُ: (ثُمَّ کانَ عَاقِبَةَ الَّذِينَ أَسَاءُوا السُّوأَى أَنْ کذَّبُوا بِآيَاتِ اللھ وَکانُوا بِھا يَسْتَھزِئُون)
أَظَنَنْتَ يا يَزِيدُ حَيْثُ أَخَذْتَ عَلَيْنا أَقْطارَ الاَْرْضِ وَآفاقَ السَّماءِ، فَأَصْبَحْنا نُساقُ کما تسُاقُ الأُسارى أَنَّ بِنا عَلَى اللّٰھ ھواناً، وَبِک عَلَيْھ کرامَةً وَأَنَّ ذلِک لِعِظَمِ خَطَرِک عِنْدَھ، فَشَمَخْتَ بِأَنْفِک، وَنَظَرْتَ فِي عِطْفِک جَذْلانَ مَسْرُوراً حِينَ رَأَيْتَ الدُّنْيا لَک مُسْتَوْثِقَةٌ وَالاُْمُورَ مُتَّسِقَةٌ وَحِينَ صَفا لَک مُلْکنا وَسُلْطانُنا، فَمَھلاً مَھلاً، أَنَسِيتَ قَوْلَ اللھ عَزَّوَجَلَّ: (وَ لاَ يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ کفَرُوا أَنَّمَا نُمْلِى لَھمْ خَيْرٌ لاَِّنْفُسِھمْ إِنَّمَا نُمْلِي لَھمْ لِيَزْدَادُوا إِثْماً وَ لَھمْ عَذَابٌ مُھينٌ
سب تعریفیں اس خدا کے لئے ہیں جو کائنات کا پروردگار ہے۔ اور خدا کی رحمتیں نازل ہوں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر اور ان کی پاکیزہ عترت و اہل بیت(علیہم السلام) پر۔ اما بعد ! بالآخر ان لوگوں کا انجام برا ہے جنہوں نے اپنے دامن حیات کو برائیوں کی سیاہی سے داغدار کر کے اپنے خدا کی آیات کی تکذیب کی اور آیات پروردگار کا مذاق اڑایا۔ اے یزید! کیا تو سمجھتا ہے کہ تو نے ہم پر زمین کے گوشے اور آسمان کے کنارے[مختلف طرح سے] تنگ کر دیے ہیں اور آلِ رسول کو رسیوں اور زنجیروں میں جکڑ کر دربدر پھرانے سے تو خدا کی بارگاہ میں سرفراز ہوا اور ہم رسوا ہوئے ہیں؟۔ کیا تیرے خیال میں ہم مظلوم ہو کر ذلیل ہو گئے اور تو ظالم بن کر سر بلند ہوا ہے؟۔ کیا تو سمجھتا ہے کہ ہم پر ظلم کر کے خدا کی بارگاہ میں تجھے شان و مقام حاصل ہو گیا ہے؟۔ آج تو اپنی ظاہری فتح کی خوشی میں سرمست ہے، مسرت و شادمانی سے سرشار ہو کر اپنے غالب ہونے پر اترا رہا ہے۔ اور زمامداری[خلافت] کے ہمارے مسلمہ حقوق کو غصب کر کے خوشی و سرور کا جشن منانے میں مشغول ہے۔ اپنی غلط سوچ پر مغرور نہ ہو اور ہوش کی سانس لے۔ کیا تو نے خدا کا یہ فرمان بھلا دیا ہے کہ حق کا انکار کرنے والے یہ خیال نہ کریں کہ ہم نے انہیں جو مہلت دی ہے وہ ان کے لئے بہتر ہے۔ بلکہ ہم نے انہیں اس لئے ڈھیل دے رکھی ہے کہ جی بھر کر اپنے گناہوں میں اضافہ کر لیں۔ اور ان کے لئے خوفناک عذاب معین کیا جا چکا ہے۔
اس کے بعد فرمایا :
أَ مِنَ الْعَدْلِ يَابْنَ الطُّلَقاءِ! تَخْدِيرُک حَرائِرَک وَ إِمائَک، وَ سَوْقُک بَناتِ رَسُولِ اللّٰھ صَلَّى اللّٰھ عَلَيْھ وَآلِھ وَ سَلَّم سَبايا، قَدْ ھتَکتَ سُتُورَھنَّ، وَ أَبْدَيْتَ وُجُوھھنَّ، تَحْدُو بِھنَّ الاَْعداءُ مِنْ بَلد اِلى بَلد، يَسْتَشْرِفُھنَّ أَھلُ الْمَناھلِ وَ الْمَناقِلِ، وَ يَتَصَفَّحُ وُجُوھھنَّ الْقَرِيبُ وَ الْبَعِيدُ، وَ الدَّنِيُّ وَ الشَّرِيفُ، لَيْسَ مَعَھنَّ مِنْ رِجالِھنَّ وَلِيُّ، وَ لا مِنْ حُماتِھنَّ حَمِيٌّ، وَ کيْفَ يُرْتَجى مُراقَبَةُ مَنْ لَفَظَ فُوھ أَکبادَ الاَْزْکياءِ، وَ نَبَتَ لَحْمُھ مِنْ دِماءِ الشُّھداءِ، وَ کيْفَ يَسْتَبْطِأُ فِي بُغْضِنا أَھلَ الْبَيْتِ مَنْ نَظَرَ إِلَيْنا بِالشَّنَفِ وَ الشَّنَآنِ وَ الاِْحَنِ وَ الاَْضْغانِ، ثُمَّ تَقُولُ غَيْرَ مُتَّأَثِّم وَ لا مُسْتَعْظِم:
لاََھلُّوا و اسْتَھلُّوا فَرَحاً ، ثُمَّ قالُوا يا يَزيدُ لا تَشَلْ
مُنْتَحِياً عَلى ثَنايا أَبِي عَبْدِاللّٰھ سَيِّدِ شَبابِ أَھلِ الجَنَّةِ، تَنْکتُھا بِمِخْصَرَتِک، وَ کيْفَ لا تَقُولُ ذلِک وَ قَدْ نَکأْتَ الْقَرْحَةَ، وَ اسْتَأْصَلْتَ الشَّأْفَةَ بِإِراقَتِک دِماءَ ذُرّيَةِ مُحَمَّد صَلَّى اللّٰھ عَلَيْھ وَآلِھ وَسَلَّمَ، وَ نُجُومِ الاَْرْضِ مِنْ آلِ عَبْدِالمُطَّلِبِ، وَ تَھتِفُ بِأَشْياخِک، زَعَمْتَ أَنَّک تُنادِيھمْ، فَلَتَرِدَنَّ وَ شِيکاً مَوْرِدَھمْ وَ لَتَوَدَّنَّ أَنَّک شَلَلْتَ وَ بَکمْتَ، وَ لَمْ تَکنْ قُلْتَ ما قُلْتَ وَ فَعَلْتَ ما فَعَلْتَ
(خطبہ بنت علی زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا دربار یزید لعین میں، مترجم: شیخ محسن علی نجفی، ادارہ نشر معارف اسلامی لاہور)
اے طلقاءکے بیٹے (آزاد کردہ غلاموں کی اولاد) کیا یہ تیرا انصاف ہے کہ تو نے اپنی مستورات اور لونڈیوں کو چادر اور چار دیواری کا تحفظ فراہم کر کے پردے میں بٹھا رکھا ہوا ہے جبکہ رسول زادیوں کو سر برہنہ در بدر پھرا رہا ہے۔ تو نے مخدرات عصمت کی چادریں لوٹ لیں اور ان کی بے حرمتی کا مرتکب ہوا۔ تیرے حکم پر اشقیاءنے رسول زادیوں کو بے نقاب کر کے شہر بہ شہر پھرایا۔ تیرے حکم پر دشمنان خدا، اہل بیت رسول کی پاکدامن مستورات کو ننگے سر لوگوں کے ہجوم میں لے آئے۔ اورلوگ رسول زادیوں کے کھلے سر دیکھ کر ان کا مذاق اڑا رہے ہیں اور دور و نزدیک کے رہنے والے سب لوگ ان کی طرف نظریں اٹھا اٹھا کر دیکھ رہے ہیں۔ ہر شریف و کمینے کی نگاہیں ان پاک بی بیوں کے ننگے سروں پر جمی ہیں۔آج رسول زادیوں کے ساتھ ہمدردی کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ آج ان قیدی مستورات کے ساتھ ان کے مرد موجود نہیں ہیں جو اِن کی سرپرستی کریں۔ آج آلِ محمد کا معین و مددگار کوئی نہیں ہے۔
اس شخص سے بھلائی کی کیا توقع ہو سکتی ہے جس کی ماں (یزید کی دادی) نے پاکیزہ لوگوں کے جگر کو چبایا ہو۔ اور اس شخص سے انصاف کی کیا امید ہو سکتی ہے جس نے شہیدوں کا خون پی رکھا ہو۔ وہ شخص کس طرح ہم اہل بیت(علیہم اسلام) پر مظالم ڈھانے میں کمی کر سکتا ہے جو بغض و عداوت اور کینے سے بھرے ہوئے دل کے ساتھ ہمیں دیکھتا ہے۔
اے یزید ! کیا تجھے شرم نہیں آتی کہ تو اتنے بڑے جرم کا ارتکاب کرنے اور اتنے بڑے گناہ کو انجام دینے کے باوجود فخر و مباہات کرتا ہوا یہ کہہ رہا ہے کہ آج اگر میرے اجداد موجود ہوتے تو ان کے دل باغ باغ ہو جاتے اور مجھے دعائیں دیتے ہوئے کہتے کہ اے یزید تیرے ہاتھ شل نہ ہوں۔
اے یزید ! کیا تجھے حیا نہیں آتی کہ تو جوانانِ جنت کے سردار حسین ابن علی (علیہ السلام) کے دندان مبارک پر چھڑی مار کر ان کی بے ادبی کر رہا ہے۔
اے یزید، تو کیوں خوش نہ ہو اور فخر و مباہات کے قصیدے نہ پڑھے کیونکہ تو نے اپنے ظلم و استبداد کے ذریعے فرزند رسول خدا اور عبدالمطلب کے خاندانی ستاروں کا خون بہا کر ہمارے دلوں کے زخموں کو گہرا کر دیا ہے اور شجرہ طیبہ کی جڑیں کاٹنے کے گھنونے جرم کا مرتکب ہوا ہے۔تو نے اولاد رسول کے خون میں اپنے ہاتھ رنگین کئے ہیں۔
تو نے عبدالمطلب کے خاندان کے ان نوجوانوں کو تہہ تیغ کیا ہے جن کی عظمت و کردار کے درخشندہ ستارے زمین کے گوشے گوشے کو منور کیے ہوئے ہیں۔
آج تو آلِ رسول کو قتل کر کے اپنے بد نہاد[برے] اسلاف کو پکار کر انہیں اپنی فتح کے گیت سنانے میں منہمک ہے۔ تو سمجھتا ہے کہ وہ تیری آواز سن رہے ہیں؟ ! (جلدی نہ کر) عنقریب تو بھی اپنے ان کافر بزرگوں کے ساتھ جا ملے گا اور اس وقت اپنی گفتار و کردار پر پشیمان ہو کر یہ آرزو کرے گا کہ کاش میرے ہاتھ شل ہو جاتے اور میری زبان بولنے سے عاجز ہوتی اور میں نے جو کچھ کیا اور کہا اس سے باز رہتا۔
1) أَلْحَمْدُللّٰھ رَبِّ الْعالَمينَ، وَصَلَّى اللّٰھ عَلى رَسُولِھ وَآلِھ أجْمَعينَ۔ سب سے پہلے آقا زادی نے حمد الہی اور نبی اکرم پرسلام و درود بھیجا۔فصاحت کا بھی تقاضہ یہ ہے کی ابتداء کلام حالات کی مطابق ہو۔دربار یزید میں ایک تو سب ظاھراً مسلمان تھے ،اور وہ امام حسینؑ و آل امام کو باغی و خارج از اسلام سمجھتے تھے۔سیدہؑ نے حمد و ثناء کر کے بتا دیا نہ تو ہم باغی ہیں اور نہ ہی خارج از اسلام بلکہ ہم اس خدا کے ماننےوالے ہیں جو عالمین کا رب ہے۔ یہی تو فصاحت و بلاغت ہے کہ کوئی کلام کا نقض پیش نا کر سکے اب یزید کے ساتھ سب بے بس ہو گئے کہ کیسے آل حسینؑ کو خارج از اسلام کہیں،سامنے سے تو اقرار توحید ہو رہا ہے۔
2) أَظَنَنْتَ يا يَزِيدُ حَيْثُ أَخَذْتَ عَلَيْنا أَقْطارَ الاَْرْضِ۔۔۔۔: جناب سیدہ کو فاتحہ شام کہا جاتا ہے۔آخر آقا زادی نے ایسا کیا کیا جو فاتحہ شام کا لقب ملا۔؟ بظاھر تو یزید تخت پر تھا، بظاھر تو آقا زادی ایک قیدی تھی۔ پھر کیسے فاتحہ شام بنی؟ قتل امام حسین سے یزید کا سب سے اہم مقصد یہ بھی تھا کہ لوگ ڈر جائیں اور میرے خلاف آواز نا اٹھائیں اور واقعہ کربلہ کو عبرت سمجھ کر میری خلافت کو تسلیم کریں۔اور ابتدا میں یزید اس مقصد میں کامیاب ہوا بھی، کئی لوگ یزید کے ڈر اور خوف کی وجہ سے چھپ گئے اور خاموش رہے۔لیکن جب جناب سیدہ نے طاقتِ یزید کے سامنے، یزید کے محل میں یزید کو رسوا کرنا شروع کیا تو ان بند زبانوں کو طاقت گویائی ملی۔ جناب سیدہ کی شجاعت و بہادری کو دیکھ کر کئی لوگوں نے دربار یزید میں یزید کو للکارنا شروع کیا۔یعنی حقیقت میں جناب سیدہ کے چند الفاظ نےمقصد یزید کو خاک میں ملا دیا۔جن الفاظ میں اتنی طاقت و قوت ہو وہ کبھی بھی فصاحت و بلاغت کے سمندر سے خالی نہیں ہو سکتے۔