انبیاء کرامؑشخصیات

سورہ شعراء میں حضرت ابراہیم علیہ اسلام کی دعائیں

رَبِّ ہَبۡ لِیۡ حُکۡمًا وَّ اَلۡحِقۡنِیۡ بِالصّٰلِحِیۡنَ
الشعراء:83
میرے رب! مجھے حکمت عطا کر اور صالحین میں شامل فرما۔
حُکۡمًا: حکم کے بارے میں اقوال بہت زیادہ ہیں۔ہمارے نزدیک ا س کے معنی حقائق کا فہم ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے رب کی تعریف بیان کرنے کے بعد عملاً اسی سے اپنی وابستگی کا اظہار فرماتے ہیں اور اپنے لیے ایک ایسی چیز کی درخواست کرتے ہیں جو حضرت ابراہیم علیہ السلام جیسے اولوالعزم نبی کی نظر میں سب سے اہم ہے۔ وہ ہے: رَبِّ ہَبۡ لِیۡ حُکۡمًا۔ پروردگار مجھے فہم عنایت فرما کہ میں اس راز کو سمجھوں جس کے بعد میرا ہر فیصلہ صائب ہو جائے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ دعا سن لی:
وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنَاۤ اِبۡرٰہِیۡمَ رُشۡدَہٗ مِنۡ قَبۡلُ وَ کُنَّا بِہٖ عٰلِمِیۡنَ
(انبیاء: ۵۱)
اور بتحقیق ہم نے ابراہیم کو پہلے ہی سے کامل عقل عطا کی اور ہم اس کے حال سے باخبر تھے۔
حکم یعنی حقائق کا فہم ایک ایسی اہم چیز ہے جو انبیاء کو عنایت ہوتی ہے۔
وَ لَمَّا بَلَغَ اَشُدَّہٗۤ اٰتَیۡنٰہُ حُکۡمًا وَّ عِلۡمًا ۔۔۔۔۔
(یوسف: ۲۲)
اور جب یوسف اپنی جوانی کو پہنچے تو ہم نے انہیں علم اور حکمت عطا کی۔
وَ لُوۡطًا اٰتَیۡنٰہُ حُکۡمًا وَّ عِلۡمًا ۔۔۔۔
(انبیاء: ۷۴)
اور لوط کو ہم نے حکمت اور علم عطا کیا۔
فَفَہَّمۡنٰہَا سُلَیۡمٰنَ ۚ وَ کُلًّا اٰتَیۡنَا حُکۡمًا وَّ عِلۡمًا ۔۔۔۔۔
(انبیاء: ۷۹)
تو ہم نے سلیمان کو اس کا فیصلہ سمجھا دیا اور ہم نے دونوں کو حکمت اور علم عطا کیا۔
وَّ اَلۡحِقۡنِیۡ بِالصّٰلِحِیۡنَ: جس صلاح کی حضرت ابراہیم علیہ السلام جیسے اول الصالحین درخواست کر رہے ہیں وہ ایسی صلاح ہے جو رہتی دنیا تک تمام عالمین کے لیے صلاح کا نمونہ ہو۔ شیخ طوسی علیہ الرحمۃ صلاح کی تعریف اس طرح کرتے ہیں:
و ھو الاستقامۃ علی ما امر اللہ بہ و دعا الیہ۔
صلاح ، اللہ نے جس چیز کا حکم دیا اور جس چیز کی طرف دعوت دی ہے اس میں استقامت دکھانے کو کہتے ہیں۔
الصالحین سے مراد وہ انبیاء ہیں جو حضرت ابراہیم علیہ السلام سے پہلے گزرے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اگرچہ جلیل القدر نبی، خلیل خدا ہیں تاہم اپنے آباء و اجداد سے وابستگی کو اپنے لیے شرف سمجھتے ہیں۔
وَ اجۡعَلۡ لِّیۡ لِسَانَ صِدۡقٍ فِی الۡاٰخِرِیۡنَ
الشعراء:84
اور آنے والوں میں مجھے حقیقی ذکر جمیل عطا فرما۔
میرے لیے آخر میں آنے والی امتوں میں لسان صدق عطا فرما یعنی ذکر جمیل۔ یہ دعوت کے تسلسل کی دعا ہے کہ جس لسان صدق کی ابتدا انہوں نے خود کی تھی اس کا سلسلہ ان کی نسلوں میں جاری و ساری رہے۔ لسان صدق کا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے: آنے والوں میں مجھے سچی زبان عطا کر۔ سچی زبان توحید کی دعوت کی زبان ہے:
وَ جَعَلَہَا کَلِمَۃًۢ بَاقِیَۃً فِیۡ عَقِبِہٖ لَعَلَّہُمۡ یَرۡجِعُوۡنَ
( زخرف: ۲۸)
اس (توحید پرستی) کو ابراہیم کی نسل میں کلمہ باقیہ قرارد یاتاکہ وہ (اللہ کی طرف) رجوع کریں۔
چنانچہ آج روئے زمین پر جتنے بھی توحید پرست لوگ ہیں وہ ابراہیم علیہ السلام کی تحریک کا نتیجہ ہیں۔
علامہ بدخشی نے مفتاح النجاۃ میں، امرتسری نے ارجح المطالب صفحہ ۷۱ پر کشفی نے مناقب مرتضوی صفحہ ۵۵ پر روایت کی ہے کہ یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے۔
شیعہ مصادر میں تو متعدد راویوں سے یہ روایت موجود ہے۔
اہم نکات
۱۔ محمد و آل محمد دعائے ابراہیم ہیں: انا دعوۃ ابراہیم۔ (حدیث)
(بحار الانوار ۳۸: ۶۲)
وَ اجۡعَلۡنِیۡ مِنۡ وَّرَثَۃِ جَنَّۃِ النَّعِیۡمِ
الشعراء:85
اور مجھے نعمتوں والی جنت کے وارثوں میں قرار دے۔
جنت کے لیے دعا کرنا انبیاء علیہم السلام کی سیرت ہے جہاں عاشقان خدا کے لیے اللہ کی خوشنودی سب سے بڑی نعمت ہو گی۔
مِنۡ وَّرَثَۃِ جَنَّۃِ: جنت کے وارثوں میں قرار دینے کی دعا میں شاید یہ نکتہ پنہاں ہے کہ انسان خواہ مقام خلیلی پر ہی فائز کیوں نہ ہو جنت کا بذات خود نہیں، از روئے وراثت مستحق ہو سکتا ہے۔ حضرت خلیل علیہ السلام کی طرف سے تواضع ہے کہ مجھے جنت کا وارث بنا دے۔
وَ اغۡفِرۡ لِاَبِیۡۤ اِنَّہٗ کَانَ مِنَ الضَّآلِّیۡنَ
الشعراء:86
اور میرے باپ (چچا) کو بخش دے کیونکہ وہ گمراہوں میں سے ہے۔
سورہ انعام آیت ۷۴ میں اس بات کی تفصیل گزر گئی ہے(ملاحظہ ہو تفسیر الکوثر) کہ آذر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد نہیں، چچا تھے اور یہ دعا ابتدائے رسالت کے دنوں کی ہے۔ بعد میں جب آذر کفر کی حالت میں مر گیا تو اس وقت ابراہیم نے آذر سے برائت اختیار فرمائی:
فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہٗۤ اَنَّہٗ عَدُوٌّ لِّلّٰہِ تَبَرَّاَ مِنۡہُ ۔۔۔۔۔
(توبۃ: ۱۱۴)
لیکن جب ان پر یہ بات کھل گئی کہ وہ دشمن خداہے تووہ اس سے بیزار ہو گئے۔
وَ لَا تُخۡزِنِیۡ یَوۡمَ یُبۡعَثُوۡنَ
الشعراء:87
اور مجھے اس روز رسوا نہ کرنا جب لوگ (دوبارہ) اٹھائے جائیں گے۔
وَ لَا تُخۡزِنِیۡ یَوۡمَ یُبۡعَثُوۡنَ: حضرت ابراہیم علیہ السلام کو قیامت کی ہولناکی کا صحیح ادراک ہے۔ ابوالانبیاء ہونے کے باوجود اللہ کے حضور کس انداز سے عاجزی کرتے ہیں کہ قیامت کے دن تمام خلائق کے سامنے مجھے رسوا نہ کر۔
فرزند خلیل حضرت امام زین العابدین علیہ السلام اپنی دعا میں فرماتے ہیں:
وَ لَا تُخْزِنِی یَوْمَ تَبْعَثُنِی لِلِقَائِکَ وَلاَ تَفْضَحْنِی بَیْنَ یَدَیْ اَوْلِیَائِکَ ۔۔۔۔
( صحیفہ سجادیہ ۔ ۴۷ دعائے یوم عرفۃ )
تو جس دن مجھے اپنی ملاقات کے لیے اٹھائے گا تو مجھے رسوا نہ کر اور اپنے دوستوں کے سامنے مجھے شرمندہ نہ کر۔
اس دعا میں بین یدی اولیائک کے جملے سے اس دعا کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے کہ رسوائی سے مراد ’’ اولیاء اللہ کے درمیان‘‘ ہو سکتا ہے۔ اولیا اللہ کی صف میں درجات میں کمی نہ آئے۔ ان کے درمیان کمتر درجہ حاصل ہونا رسوائی تصور فرماتے ہیں۔
قیامت سے معصوموں کو بھی خوف آتا ہے۔ بے خوف ہے تو غافل گنہگار۔
الکوثر فی تفسیر القرآن

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button