اصحاب رسولؓشخصیات

حضرت ابو طالب علیہ السلام کی وفات کا دن

حضرت ابوطالب علیہ السلام، امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے والد بزرگوار اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والد ماجد کے سگّے بھائی ہیں دونوں کی والدہ بھی ایک ہے۔ انہوں نے اس بارے میں شاعری کی زبان میں فرمایا ہے:
لا تخذلا و انصرا ابن عمكما
إخی لامی من بينہم و إبی
بیٹو۔! اپنے چچا زاد بھائی کو تنہا مت چھوڑو اور اس کی مدد کروکہ وہ میرے بھائیوں کے درمیان والد اور والدہ دونوں کی طرف سے میرے بھائی کا فرزند ہے۔
بحارالانوار، ج 35، ص121
جناب ابو طالب علیہ السلام اپنی شخصیت کی عظمت اور ہر لحاظ سے قدآور، طاقتور اور اپنے زمانے میں دین ابراہیم علیہ السلام کے مبلغ تھے۔
ان کی قابل قبول روایتیں:
انہوں نے عصر جاہلیت میں ایسی نیک روایات کی بنیاد رکھی جن کو کلام وحی کی تأئید حاصل ہوئی۔ حضرت ابوطالب علیہ السلام «قسامہ» کے بانی ہیں جو اسلام کے عدالتی نظام میں مورد قبول واقع ہوا۔
ینابیع المودۃ ،قندوزی حنفی، ج2، ص 10
نيكوان رفتند و سنت ہا بماند
و زلئيمان ظلم و لعنت ها بماند
نیک لوگ چلے گئے؛ ان کی سنتیں باقی رہ گئیں جبکہ لئیموں سے ظلم و لعنت کے سوا کچھ بھی باقی نہ رہا۔
: ابو طالب جو «عبد مناف» کے نام سے مشہور تھے، اور عبدمناف کے معنی ہیں «بندہ خدا» یوں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تیسرے جد امجد کے ہم نام بھی تھے۔
مجالس المومنین،ج 1، ص 163
کفر کے خلاف جدوجہد:
وہ اپنے والد ماجد حضرت عبدالمطلب علیہ السلام کی مانند یکتاپرستی کے راستے پر گامزن رہے اور کفر و شرک اور جہل کے زیر اثر نہیں آئے۔
ان کے ایمان کے دلائل:
ان کی شاعری ان کے طرز فکر اور ان کے ایمان کو واضح کرتی ہے اور اس مضمون کے آخر میں ان کے بعض اشعار بھی پیش کئے جارہے ہیں۔
خلوص قلب:
ویسے تو بہت ایسے واقعات تاریخ میں ثبت ہیں جن سے حضرت ابوطالب علیہ السلام کے خلوص دل اور صفا و طہارت قلب عیاں ہے۔ مگر ہم یہاں صرف ایک واقعہ بیان کرنے پر اکتفا کرتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ: اہلیان حجاز پر قحط عارض ہؤا۔ لوگ عیسائی و مشرک و جاہل و بت پرست اور دین حنیف کے پیروکار سب کے سب مؤمن قریش حضرت ابوطالب علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے؛ کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ مکہ میں دین ابراہیم علیہ السلام کے اس مروج و مبلغ جتنی کسی کو بھی خدا کی اتنی قربت حاصل نہیں ہے چنانچہ انہوں نے ان تشویشناک حالات میں ان ہی سے درخواست کی کہ اٹھیں اور خدا سے باران رحمت کی درخواست کریں ان کا جواب مثبت تھا اور ایسے حال میں بیت اللہ الحرام کی طرف روانہ ہوئے کہ ان کی آغوش میں چاند سا لڑکا بھی تھا۔ حضرت ابوطالب علیہ السلام نے اس لڑکے سے کہا کہ کعبہ کو پشت کرکے کھڑا ہوجائے اور حضرت ابوطالب علیہ السلام نے اس لڑکے کو اپنے ہاتھوں پر اٹھایا اور خداوند متعال کی بارگاہ میں باران رحمت کی دعا کی۔ بادل کا نام و نشان ہی نہ تھا مگر اچانک آسمان سے بارش نازل ہونے لگی اور اس بارش نے حجاز کی پیاسی سرزمین کو سیراب کیا اور مکہ کی سوکھی ہوئی وادی کھل اٹھی۔
وہ چاند سا لڑکا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سوا کوئی اور نہ تھا۔
السیرۃ الحلبیہ، ج 1، ص 125،شرح نہج البلاغۃ، ج 3، ص 316،الملل و النحل،ص 255
جنہیں ابوطالب علیہ السلام ہی جانتے اور پہچانتے تھے کہ وہ خاتم الانبیاء و المرسلین ہیں اور اسی بنا پر خدا سے ان کے صدقے باران رحمت کی دعا کی جو فوری طور پر قبول بھی ہوئی۔ حضرت ابوطالب علیہ السلام اسی حوالے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شان میں فرماتے ہیں:
و أبيض يستسقى الغمام بوجهه
ثمال اليتامى عصمة للارامل
وہ ایسا روشن چہرے والا ہے جس کے صدقے بادل پر باران ہوجاتے ہیں وہ یتیموں کی پناہ گاہ اور بیواؤں کے محافظ ہیں۔
رؤیائے صادقہ:
حضرت ابوطالب علیہ السلام نے حجر اسماعیل میں ایک سچا خواب دیکھا کہ آسمان سے ان کی طرف ایک دروازہ کھل گیا ہے اور اس دروازے سے نور اور روشنی نیچے آکر ارد گرد کے ماحول کو روشن کررہی ہے۔
ابوطالب علیہ السلام اٹھے اور خواب تعبیر کرنے والوں کے پاس روانہ ہوئے۔ اور اپنے خواب کی تفصیل بیان کی۔
مُعَبِّر نے کہا: بشارت ہو آپ کو! آپ کو بہت جلد ایک نہایت شرافت مند فرزند عطا ہوگا۔ ثقۃ الاسلام محمد بن یعقوب کلینی رحمۃ اللہ علیہ نے الکافی میں روایت کی ہے کہ جب فاطمہ بنت اسد سلام اللہ علیہا نے حضرت ابوطالب علیہ السلام کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ولادت کی خوشخبری سنائی؛ حضرت ابوطالب علیہ السلام نے بھی ان کو علی علیہ السلام کی ولادت کی خوشخبری سنائی۔
اصول کافی، ،کتاب الحجۃ ،باب تولد امیرالمومنین، ص 301
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سرپرستی:
حضرت عبدالمطلب علیہ السلام کے بیٹوں میں حضرت ابوطالب علیہ السلام برتر اخلاقیات کے مالک تھے؛ ان کی روش دوسرے بھائیوں کی نسبت زیادہ شائستہ تھی؛ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ شدید محبت کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بہت مہربان تھے اور ان اوصاف کے علاوہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے نہایت عمیق عقیدت و احترام کے قائل تھے چنانچہ حضرت عبدالمطلب علیہ السلام نے اپنے انتقال سے قبل ان کو حضرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سرپرست مقرر کیا۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تربیت اور نگہداشت:
حضرت ابوطالب علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے شدید محبت کرتے تھے؛ علاوہ ازیں وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روشن مستقبل سے آگاہ تھے اور انہیں معلوم تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مستقبل میں رسالت الہیہ کے حامل ٹہریں گے؛ چنانچہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پرورش و تربیت اور حفاظت کے سلسلے میں ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کیا اور اس راستے میں انہوں نے قربانی اور ایثار کی روشن مثالیں قائم کیں اور ہر جگہ اور ہر مقام پر خطروں میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے آپ پر مقدم رکھا۔
ترجمہ امام علی صدائے عدالت انسانی، ، ، ج1 . 2، ص 74
شریک حیات کو ہدایت:
سرپرستی کا اعزاز ملا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گھر لے آئے اور اپنی اہلیہ کو ہدایت کرتے ہوئے فرمایا: یہ میرے بھائی کے فرزند ہیں جو میرے نزدیک میری جان و مال سے زیادہ عزیز ہیں؛ خیال رکھنا! مبادا کوئی ان کو کسی چیز سے منع کرے جس کی یہ خواہش کریں اور حضرت فاطمہ بنت اسد سلام اللہ علیہا بھی ایسی ہی تھیں اور ان کو پالتی رہیں اور ان کی ہر خواہش پوری کرتی رہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے مادر مہربان تھیں۔
تاریخ انبیاء، ج3، ص 76
مشرکین کے مد مقابل آہنی دیوار:
مورخین نے عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ: ابوطالب علیہ السلام رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بہت دوست رکھتے تھے اور اپنے بیٹوں پر بھی اتنی مہربانی روا نہیں رکھتے تھے جتنی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر روا رکھتے تھے؛ ابوطالب علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سویا کرتے تھے اور گھر سے باہر نکلتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ساتھ لے کر جاتے تھے؛ مشرکین نے ابوطالب علیہ السلام کے انتقال کے ساتھ ہی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو آزار و اذیت پہنچانے کا وہ سلسلہ شروع کیا جو حیات ابوطالب علیہ السلام میں ان کے لئے ممکن نہ تھا؛ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود بھی اس امر کی طرف بار بار اشارہ فرمایا ہے۔
تاریخ طبری ،ج 2، ص 229
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دشمنوں کو سزا:
ایک دفعہ حضرت رسول اکرم صلی الله علیہ و آلہ و سلم مسجد الحرام مین نماز ادا کررہے تھے کہ قریشی مشرکین نے اونٹ کی اوجڑی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسم مبارک پر پھینک دی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کرتے کو آلودہ کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ابوطالب علیہ السلام کے پاس آئے اورفرمایا: چچاجان! آپ اپنے خاندان میں میرے رتبے کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟ ابوطالب نے کہا: پیارے بھتیجے ہوا کیا ہے؟
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ماجرا کہہ سنایا۔ ابوطالب علیہ السلام نے فوری طور پر بھائی حمزہ کو بلایا اور شمشیر حمائل کرکے حمزہ سے کہا: ایک اوجڑی اٹھالاؤ اور یوں دونوں بھائی قوم قریش کی طرف روانہ ہوئے جبکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ان کے ہمراہ تھے۔ کعبہ کے ارد گرد بیٹھے ہوئے قریش کے سرداروں کے پاس پہنچے۔ جب انہوں نے ہاشمی بھائیوں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس حالت میں دیکھا تو سب اپنا انجام بھانپ گئے۔ مؤمن قریش نے بھائی حمزہ کو ہدایت کی کہ اوجڑی کو قریشیوں کی داڑھیوں اور مونچھوں پر مل لیں۔ حمزہ نے ایسا ہی کیا اور آخری سردار تک کے ساتھ ہدایت کے مطابق سلوک کیا۔ اس کے بعد ابوطالب علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا: جان سے پیارے بھتیجے یہ ہے آپ کا مقام و رتبہ ہمارے درمیان۔
الکافی ج1 ص 449
یوں قریشی مشرکین کو اپنے کئے کی سزا ملی اور قریش کے سرغنوں نے ایک دوسرے سے کہا کہ «جب تک ابوطالب زندہ ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حصول ہدف سے روک لینا، ممکن نہیں ہے۔
بیٹے کو ہدایت:
جب غار حرا میں خدا کا کلام آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر نازل ہؤا تو علی علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ تھے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سب سے پہلے اپنے وصی و جانشین اور بھائی کو دعوت دی اور علی علیہ السلام نے لبیک کہتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امامت میں نماز ادا کی اور جب گھر آئے تو اپنے والد کو ماجرا کہہ سنایا اور کہا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لایا ہوں تو مؤمن قریش نے ہدایت کی:بیٹا! وہ تم کو خیر و نیکی کے سوا کسی چیز کی طرف بھی نھیں بلاتے اور تم ہر حال میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ رہو۔
امام علی صدای عدالت انسانی، ج 1.2، ص 77 . 78
واضح و روشن حمایت:
جب آیت
وانذر عشيرتك الاقربين
شعراء 214
نازل ہوئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے رشتہ داروں کو بلا کر انہیں اپنے دین کی دعوت دی تو ان کی مخالفت کے برعکس حضرت ابوطالب علیہ السلام نے کہا:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ کی مدد اور نصرت ہمارے لئے بہت ہی زیادہ محبوب اور مقبول و پسندیدہ ہے؛ میں آپ کی خیرخواہی کی طرف متوجہ ہوں اور آپ کی مکمل طور پر تصدیق کرتا ہوں؛ جائیں اور اپنی مأموریت اور الہی فریضہ سرانجام دیں؛ خدا کی قسم میں آپ کی حفاظت کرتا رہوں گا اور کبھی بھی آپ سے جدائی پر راضی نہ ہونگا۔
الکامل، ابن اثیر، ج 2، ص 24

دشمنان رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دھمکی
ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر سے نکلے تو واپس نہیں ائے۔ حضرت ابوطالب علیہ السلام فکرمند ہوئے کہ مشرکین قریش نے کہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قتل ہی نہ کیا ہو؛ چنانچہ انہوں نے ہاشم اور عبدالمطلب کے فرزندوں کو اکٹھا کیا اور ان سب کو حکم دیا کہ : تیزدھار ہتھیار اپنے لباس میں چھپا کر رکھو؛ مل کر مسجدالحرام میں داخل ہوجاؤ اور تم میں سے ہر مسلح ہاشمی شخص قریش کے کسی سردار کے قریب بیٹھ جائے اور جب میں تم سے تقاضا کروں تو اٹھو اور قریش کے سرداروں کو موت کی گھاٹ اتارو۔
ہاشمیوں نے حضرت ابوطالب کے حکم کی تعمیل کی اور سب کے سب مسلح ہوکر مسجدالحرام میں داخل ہوکر قریش کے سرداروں کے قریب بیٹھ گئے مگر اسی وقت زید بن حارثہ نے ان کو خبر دی کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو کوئی گزند نہیں پہنچی ہے اور بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسلمان کے گھر میں تبلیغ اسلام میں مصروف ہیں چنانچہ منصوبے پر عملدرآمد رک گیا مگر مؤمن قریش ہاشمی شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مشرکین قریش کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف کسی بھی معاندانہ اقدام سے باز رکھنے کی غرض سے اٹھ کھڑے ہوئے اور فرمایا: میرا بھتیجا گھر سے نکلا اور گھر واپس نہیں آیا تو مجھے اندیشہ لاحق ہوا کہ کہیں تم نے اس کو کوئی نقصان نہ پہنچایا ہو چنانچہ میں نے تمہیں قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ پھر انہوں نے ہاشمی نوجوانوں کو حکم دیا کہ اپنے ہتھیار انہیں دکھا دیں۔ قریش کے سرداروں نے کانپتے ہوئے کہا: اے اباطالب! کیا تم واقعی ہمیں قتل کرنے کا ارادہ لے کر آئے تھے؟ فرمایا: اگر رسول اللہ کو تمہاری جانب سے کوئی نقصان پہنچا ہوتا تو میں تم میں سے ایک فرد کو بھی زندہ نہ چھوڑتا اور آخری سانس تک تمہارے خلاف لڑتا۔
طرائف، ص 85 و طبقات کبری، ابن سعد، ج 1، ص 302.303
کثیرعدد میں متواتر اخبار و روایات سے ثابت ہے کہ حضرت ابوطالب علیہ السلام دین مبین کی ترویج کے سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدد کیا کرتے تھے اور اپنے فرزندوں، اقرباء اور اہل مکہ کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حمایت اور پیروی کی دعوت دیا کرتے تھے۔
عثمان بن مظعون جو سچے مسلمان تھے ایک روز کعبہ کے ساتھ کھڑے ہوکر بت پرستوں کو ان کے مذموم روش سے منع کررہے تھے اور ان کو وعظ و نصیحت کررہے تھے۔ قریش کے نوجوانوں کے ایک گروہ نے ان پر حملہ کیا اور ان میں سے ایک نے عثمان پر وار کیا جس کے نتیجے میں ان کی ایک آنکھ زخمی ہوئی۔
حضرت ابوطالب علیہ السلام کو اطلاع ملی تو انہیں سخت صدمہ پہنچا اور قسم کھائی کہ : جب تک اس قریشی نوجوان سے قصاص نہ لوں چین سے نہ بیٹھوں گا اور پھر انہوں نے ایسا ہی کیا۔
شرح نہج البلاغہ،ج 3، ص 313

حبشہ کے بادشاہ نجاشی کی قدردانی:
جب مسلمانوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی تو حبشہ کے بادشاہ نجاشی نے ان کی پذیرائی کی اور ان کی حمایت و سرپرستی کہ اور قریش کے نمائندے بھی انہیں مسلمانوں کے خلاف کرنے میں ناکام ہوئے۔
وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا وَ يَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ
اور جو بھی تقوائے الہی اپنائے گا خداوند متعال اس کے لئے راہ نجات فراہم کرے گا اور اس کو ایسی جگہ سے رزق و روزی عطا کرے گا جس کا وہ گمان بھی نہیں کرتا۔
سوره طلاق 2،3
ابوطالب علیہ السلام کو ایک الہی فریضہ سونپا گیا تھا اور وہ ایسی عظیم شخصیت کے سرپرست تھے جو خود کائنات کے سرپرست ہیں اور انبیاء کے سردار ہیں اور خدا کے بعد ان سے کوئی بڑا نہیں ہے؛ چنانچہ رسول اللہ کے دین کی ترویج بھی ان کی ذمہ داری تھی اور جو لوگ اس راستے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدد و نصرت کرتے تھے ان کی قدردانی کو بھی وہ اپنا فرض سمجھتے تھے چنانچہ جب نجاشی نے مسلمانوں کو پناہ دی تو محسن اسلام نے ان کے حق میں اشعار لکھ کر روانہ کئے۔ نجاشی کو جب حضرت ابوطالب کے اشعار کا تحفہ ملا تو بہت خوش ہوئے اور انہوں نے جعفر ابن طالب علیہ السلام کی قیادت میں حبشہ میں پناہ حاصل کرنے والے مسلمانوں کے احترام میں اضافہ کیا اور ان کی پذیرائی دو چند کردی۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حفاظت و حمایت:
قریش کے تمام مشرک قبائل نے شعب ابی طالب علیہ السلام میں خاندان رسالت اور مسلمانوں کو مکہ سے جلاوطن کیا اور شعب ابی طالب علیہ السلام میں ان کی ناکہ بندی کردی۔ یہ ناکہ بندی معاشی، سماجی اور سیاسی ناکہ بندی تھی۔ شعب ابی طالب اس وقت شہر مکہ سے باہر واقع ایک درہ تھا۔ یہ ناکہ بندی شدید ترین اقدام کے طور پر قریش کی طرف سے مسلمانوں پر ٹھونسی گئی تھی اور اس دوران پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ دیگر مسلمان و مؤمنین صرف حرام مہینوں اور ایام حج میں بیت اللہ الحرام آسکتے تھے اور حج اور عمرہ بجالاسکتے تھے اور اسی دوران تبلیغ اسلام بھی کیا کرتے تھے۔ اس دوران صرف حضرت ابوطالب علیہ السلام تھے جو پیغمبر کی حفاظت کرتے اور رات بھر جاگتے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سونے کی جگہ تبدیل کرکے اپنے بیٹے علی علیہ السلام کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بستر پر لٹایا کرتے تا کہ اگر دشمن حملہ کرنا چاہے تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بجائے علی قربان ہوجائیں اور ایسا عمل صرف مؤمن قریش ہی کے بس میں تھا جو اپنے ایمان کی بنیاد پر بیٹے کو بآسانی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر قربان کرنے کے لئے تیار ہوجاتے تھے مگر علی علیہ السلام بھی اس قربانی پر سمعاً و طاعتاً راضی و خوشنود تھے۔ قریش نے ایک میثاق تحریر کی تھی جس پر ناکہ بندی کے حوالے سے متعدد نکات درج تھے اور یہ عہدنامہ کعبہ کی دیوار پر ٹانکا گیا تھا جسے ایک دیمک نے نیست و نابود کردیا تو ابوطالب علیہ السلام نماز شکر بجالانے بیت اللہ الحرام میں حاضر ہوئے اور وہیں انہوں نے مشرکوں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مخالفین کو بددعا دی اور ان پر نفرین کردی۔
الغدیر، ج 7، ص 364 الکامل فی التاریخ، ج 2، ص 71

کلام نور میں ابو طالب کا مقام:
امام سجاد علیہ السلام نے حضرت ابوطالب علیہ السلام کے ایمان کے بارے میں شک کرنیے والے افراد کے جواب میں فرمایا: عجب ہے کہ خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غیر مسلم مرد کے ساتھ مسلم خاتون کا نکاح ممنوع قرار دیا جبکہ حضرت فاطمہ بنت اسد سلام اللہ علیہاجو سابقین مسلمین میں سے ہیں حضرت ابوطالب علیہ السلام کے انتقال تک ان کے عقد میں رہیں۔
کسی نے امام باقر علیہ السلام کو بعض جھوٹی محدثین کی یہ جعلی حدیث سنائی کہ “ابوطالب علیہ السلام [معاذاللہ] آگ کی کھائی میں ہیں۔
امام علیہ السلام نے فرمایا:اگر ایمان ابوطالب علیہ السلام ترازو کے ایک پلڑے میں رکھا جائے اور ان سب لوگوں کا ایمان دوسرے پلڑے میں تو ابوطالب علیہ السلام کا ایمان ان سب پر بھاری نظر آئے گا۔
ابان بن محمود نامی شخص نے امام رضا علیہ السلام کو خط میں لکھا کہ میں آپ پر قربان جاؤں! میں ابوطالب کے ایمان کے سلسلے میں شک و تردید میں مبتلا ہوا ہوں۔
امام علیہ السلام نے جواب میں تحریر فرمایا:
وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءتْ مَصِيرًا
نساء115
جو شخص حق ظاہر و آشکار ہونے کے بعد پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مخالفت کرے اور مؤمنوں کی راہ کے سوا کسی دوسرے راستے کی پیروی کرے ہم اسے اسی راستے پر لے چلیں گے جس پر کہ وہ گامزن ہے اور اسے جہنم میں داخل کردیں گے اور جہنم بہت ہی بری جگہ ہے۔
اما بعد جان لو کہ اگر تم ایمان ابوطالب کا یقین نہیں کروگے تو تم بھی آگ کی طرف لوٹا دئیے جاؤگے۔
الغدير، ج 7، ص 36
ابو طالب علیہ السلام علی علیہ السلام کے والد ماجد:
ابوطالب علیہ السلام کو اللہ تعالی نے ایک ایسے فرزند سے نوازا جو زمانے کے بہترین فرزند تھے۔ اس فرزند کی ولادت بھی ایسی ہوئی جس کی مثال اس سے پہلے کبھی بھی نظر نہیں آئی اور بعد میں میں بھی نظر نہیں آئے گی۔ اسی بنا پر وہ اپنے نومولود فرزند کے ساتھ خاص محبت رکھتے تھے۔ بعثت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سنہ 40 عام الفیل کو واقع ہوئی اور اس وقت علی علیہ السلام کی عمر شریف کے صرف دس برس بیت گئے تھے مگر حضرت ابوطالب نے اپنے اس فرزند کے بارے میں جو پیشین گوئیاں کی ہیں وہ سب ان کے ایمان اور اعتقاد راسخ پر دلالت کرتی ہیں۔ انہوں نے ایک شعر کے ضمن میں فرمایا:
علی کی ولادت کے ساتھ ہی کفر کی کمر خم ہوئی اور اس کی شمشیر کے ذریعے اسلام کی بنیادیں استوار اور مستحکم ہو جائیں گی۔حضرت ابوطالب علیہ السلام نے خداوند متعال سے اپنے بیٹے کے لئے نام منتخب کرنے کی درخواست کی تھی اور اسی درخواست کی بنا پر آسمانوں سے ایک لوح لطیف نازل ہوئی اور ابراہیم خلیل علیہ و علی نبینا و آلہ السلام کے وارث و جانشین حضرت ابوطالب علیہ السلام کی آغوش میں آپڑی۔ اس لوح پر لکھی ہوئی تحریر کے ذریعے حضرت ابوطالب اور حضرت فاطمہ بنت اسد علیہما السلام کو پاک و برگزیدہ فرزند کی ولادت کی خوشخبری سنائی گئی تھی اور اس فرزند کا نام علی رکھا گیا تھا۔
مناقب ،ابن شہر آشوب ،ج 2، ص 175
غم ہجراں:
شعب ابی طالب علیہ السلام میں ناکہ بندی کے دوران مؤمن قریش کو شدید صعوبتیں جھیلنی پڑیں اور شدید دباؤ اور مشکلات سہہ لینے کی وجہ سے حضرت ابوطالب کمزور ہوگئے چنانچہ ناکہ بندی کے خاتمے کے چھ مہینے بعد بعثت نبوی کے دسویں برس کو حضرت ابوطالب علیہ السلام وفات پاگئے جس کی وجہ سے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شدید ترین صدمہ ہوا اور بے تاب ہوکر اپنے چچا اور غمخوار کے سرہانے تشریف فرما ہوئے اور ان کے چہرے پر اپنے مقدس ہاتھ پھیر پھیر کر فرمایا: چچا جان! آپ نی بچپن میں میری تربیت کی؛ میری یتیمی کی دور میں آپ نے میری سرپرستی کی اور جب میں بڑا ہؤا تو آپ نے میری حمایت اور نصرت کی؛ خداوند متعال میری جانب سے آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ میت اٹھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جنازے سے آگے آگے قبرستان کی طرف روانہ ہوئے اور راستے میں بھی محسن اسلام کے لئے دعائے خیر فرماتے رہے۔
تاریخ انبیاء، ج 3، ص 218
اشعار ابو طالب علیہ السلام:
آخر میں حضرت ابو طالب علیہ السلام کی پر مغز اشعار کے کچھ حصے پیش کئے جارہے ہیں جن سے کسی حد تک خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ان کی ایمان راسخ اور اعتقاد عمیق کا اندازہ کیا جاسکتا ہے:
و الله لا اخذل النبی و لا
يخذله من بنی ذو حسب
اللہ کی قسم کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تنہا نہیں چھوڑوں گا اور میرے فرزندوں میں سے بھی کوئی با شرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تنہا نہ چھوڑے گا۔
انہوں نے حبشہ کی بادشاہ کو اشعار کا تحفہ بھیجا تو ان اشعار کے ذریعے انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اپنے ایمان و اعتقاد کے علاوہ انبیاء سلف علی نبینا و علیہم السلام کے بارے میں بھی اپنے ایمان و اعتقاد کی وضاحت کی اور نجاشی کو مسلمانوں کی زیادہ سے زیادہ حمایت کی ترغیب دلائی:
تعلم مليك الحبش إن محمدا
نبی كموسی و المسيح ابن مريم
إتانا بهدی مثل ما اتيا به
فكل بإمر الله يهدی و يعصم
اے حبشہ کے بادشاہ !جان لے کہ بتحقیق محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نبی ہیں جیسے کہ موسی اور عیسی ابن مریم نبی ہیں وہ ہمارے پاس ہدایت لے کر آئے جیسا کہ وہ دونوں لائے تھےپس تمام انبیاء الہی خدا کے فرمان پر امتوں کی راہنمائی کرکے انہیں پلیدیوں اور گناہوں سے بچالیتے ہیں۔
بحار الانوار، ج 35،ص 122،123

ابوطالب علی علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ اپنی وفاداری اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حمایت کا یوں اظہار فرماتے ہیں:
والله لن يصلوا اليك بجمعهم
حتی اوسد فی التراب دفينا
و ذكرت دينا لا محالة انه
من خير اديان البرية دينا
اللہ کی قسم! کہ ان کا ہاتھ سب مل کر بھی آپ تک نہ پہنچ سکے گاجب تک کہ میں زمین کے سینے میں دفن نہ ہوا ہوں اور جو دین آپ لائے ہیں اور آپ نے اس کی یادآوری فرمائی ہےبے شک و ناگزیر انسانوں کے لئے بھیجے گئے ادیان سے بہترین ہے۔
بحار الانوار، ج 35، ص 122 . 1233
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
https://alkafeel.net/

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button