سلائیڈرسیدہ خدیجۃ الکبریٰؑشخصیات

جناب خدیجہ علیہا السلام قرآن کریم کی نگاہ میں

حضرت خدیجہؑ  کی ولادت عام الفیل سے ۱۵ اور ہجرت سے ۶۸ سال قبل، مکہ نامی شہر میں ہوئی۔ آپ کے والد خویلد بن اسد ایک بلند مرتبہ،کریم اور نیک اخلاق انسان تھے اور بنی اسد کے سردار تھے۔ ان کی والدہ فاطمہ بنت زائد بن اصم تھیں اور فاطمہ کی ماں، ہالہ بنت عبد مناف بن قصی تھیں۔ جو نبی اکرمﷺ کے بھی جد تھے اس طرح جناب خدیجہؑ مادری و پدری نسب کی لحاظ سے چار واسطوں کے بعد نبی اکرمﷺ کے ہم نسب اور قبیلہ قریش سے تعلق رکھتی تھیں اور نبی اکرم ﷺ سے آپ کی شادی کرنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی (اِنّی قَدْ رَغِبْتُ فِیکَ لِقِرابَتِکَ مِنّی) کہ آپﷺ میرے رشتہ دار ہیں۔( بحار الانوار،ج۱۶ص۹۔کشف الغمہ،ج ۱ ص۵۱۰)
یو ں تو قرآن کریم میں بہت ساری خواتین ہیں جن کی شخصیت درخشاں اور تأثیر گذار ہیں انہی میں سے ایک خاتون جناب خدیجہؑ ہیں جنھوں نے اپنے وجود مبارک سے درخت اسلام کی آبیاری کرکے تناور بنایا اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اگر اموال اور اولاد خدیجہ نہ ہوتی تو اسلام عرب کی چار دیواری میں محصور ہو کے رہ جاتا۔
۱۔ اموال جناب خدیجہؑ
قرآن کریم نے آپ کے مال کا ذکر اس طرح کیا ہے۔
وَ وَجَدَكَ عَآىٕلًا فَاَغْنٰی( الضحی:۸)۔ اپ کو تنگ دست پایا تو مالدار کردیا۔
خدا وند عالم نے نبی اکرمﷺ کی تنگدستی کو جناب خدیجہؑ کے مال کے ذریعہ دور کیا۔ جناب خدیجہ نے اپنا سارا مال و دولت رسول اللہ ﷺ کو ہبہ کردیا تھا جس سے آپﷺ کو دعوت اسلام کے ابتدائی مشکل ترین حالات میں مدد ملی۔
ہر صاحب تحریک و بانی انقلاب اس بات کو بخوبی جانتا ہے کہ کسی بھی تحریک کے ابتدائی مراحل نہایت اہم اور تقدیر ساز ہوتے ہیں اگر اس وقت مدد نہ ملے تو تحریک صدا بہ صحرا ہوکے رہ جاتی ہے خصوصا مکہ کی جہالت اور کفر و شرک کے وحشیانہ ماحول میں جہاں نہ کوئی مال کی مدد اور نہ افراد کی مدد میسر آ رہی ہو وہاں نفی معبود اور پرچم الہ بلند کر نا کس قدرسنگین کام تھا، پھر جس کی گرانی و سنگینی کو خدا خود بیان کر رہا ہو وہ کتنا سنگین ہوگا ،إنَّا سَنُلْقِي عَلَيْكَ قَوْلًا ثَقِيلًا عنقریب آپ پر ہم بھاری حکم(کا بوجھ) ڈالنے والے ہیں۔(مزمل۵)
ایسے حالات میں جس قوت نے اپنے عظیم مال و ثروت سے اسلام کو اغنیٰ کیا اس خاتون باعظمت کو خدیجۃ الکبریٰؑ کہتے ہیں۔

حالانکہ اس آیت کا پیغام عام ہے لیکن اس کی مصداق اتم جناب خدیجہؑ ہیں ووجدک عائلا فاغنیٰ بخدیجہ(تفسیر فرات کوفی ص۵۶۹، تفسر نمونہ ترجمہ اردو ج۳۰ص۳۲۳)
۲۔ خدیجہؑ نبی کریم کے آنکھوں کی ٹھنڈک
«وَ الَّذینَ یَقُولُونَ رَبَّنا هَبْ لَنا مِنْ أَزْواجِنا وَ ذُرِّیَّاتِنا قُرَّةَ أَعْیُنٍ وَ اجْعَلْنا لِلْمُتَّقینَ إِماماً»(فرقان۷۴)
اور جو دعا کرتے ہیں:اے ہمارے رب ہمیں ہماری ازواج اور ہماری اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا امام بنادے۔
یو ں تو نبی کریم ﷺکی متعدد ازدواج تھی لیکن جو سکون و سرور جناب خدیجہؑ سے ملا وہ کسی اور سے نہ ملا، کان یسکن الیھا، آپ سے نبی اکرم کو سکون ملتا تھا۔(اعلام الورع،ص۵۳، بحار الانوار،ج۱ص۱۱)
بعض مفسرین کے مطابق جب یہ آیہ مذکورہ نازل ہوئی تو آپﷺنے جناب جبرئیلؑ سے پوچھا : ازواجنا سے مراد کیا ہے تو جناب جبرائیل نے فرمایا : حضرت خدیجہ۔قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ (لِجَبْرَئِیلَ مِنْ أَزْواجِنا قَالَ خَدِیجَهْ۔(فرات الکوفی، ص۲۹۴/ شواهدالتنزیل، ج۱ص۵۳۹)
حالا نکہ مصداق آیت عام ہے لیکن روایت نے آکر اسے جناب خدیجہ سے مخصوص کردیا ہے۔
۴۔خدیجہ اسلام لانے والی پہلی خاتون
وَالسَّابِقُونَ السَّابِقُونَ أُولَئِكَ الْمُقَرَّبُونَ(الواقعہ:۱۰،۱۱)
سبقت لے جانے والے تو آگےبڑھنے والے ہی ہیں اور یہی وہ مقرب لوگ ہیں۔
آیہ مذکورہ عام ہے لیکن اس کی ایک بارز اور روشن مصداق جناب خدیجہؑ ہیں۔
وہ لوگ جو جنگ بدر میں قلت کے باوجود کثرت سے لڑ گئے ان کی مسلمانوں کے درمیان ایک خاص مقام و منزلت ہے اوران کو بدریون کے نام سے جانا جاتا ہے،اسی طرح جب ہم جناب عباسؑ کی زیارت پڑھتے ہیں تو کہتے ہیں أُشْهِدُ اللّٰهَ أَنَّكَ مَضَيْتَ عَلَى مَا مَضَى بِهِ الْبَدْرِيُّونَ کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ مثل بدریون تھے۔( الوافی،ج۱۴ص۱۵۱۰،تہذیب الاحکام،ج۶ص۶۶)

اس کا مطلب یہ ہے کہ جو افراد کسی مسألہ میں سابق اور مقدم ہوتے ہیں ان کا تمام افراد احترام کرتے ہیں اب سوال یہ ہے کہ اسلام لانے میں کن افراد نے سبقت کی تو جوابا جو نام نکل کر سامنے آتا ہے کَانَتْ خَدِيْجَةُ أَوَّلَ مَنْ آمَنَ بِرَسُوْلِ اللّٰهِ ﷺ مِنَ النَّسَاءِ خواتین میں سے اول آپؐ پر ایمان لانے والی جناب خدیجہؑ تھی۔ (الامالی للطوسی،ص۲۵۹،بحار الانوار،ج۱۶ص۱)
قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے: لَا یَسْتَوِیْ مِنْكُمْ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَ قٰتَلَ اُولٰٓىٕكَ اَعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِیْنَ اَنْفَقُوْا مِنْۢ بَعْدُ وَ قٰتَلُوْا وَ كُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰىؕ-وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْر(حدید۱۰)کہ تم میں سے جنہوں نے فتح مکہ سے پہلے خرچ کیا اور قتال کیا وہ دوسروں کے برابر نہیں ہوسکتے ان کا درجہ بہت بڑا ہے ان لوگوں سے جنہوں نے بعد میں خرچ کیا اور قتال کیا۔
یہ کیسے ممکن ہے کہ فتح مکہ سے پہلے مثل عمار، حمزہ، سلمان، ابوذر، یاسر، سمیہ اور مقداد جنہوں نے اسلام کی بقا کی خاطر جا ن کی بازی لگا دی اور وہ جو برسوں مسلمانوں سے جنگ کرنے کے بعد مسلمان ہوئے جیسے ابوسفیان، عمروعاص، خالد بن ولید، رتبہ میں برابر ہوسکتے ہیں؟ ہرگز نہیں
پس فطرتا نتیجہ نکلتا ہے اسلام لانے میں سبقت ایک بڑا امتیاز ہے جو حضرت علیؑ کے ساتھ ساتھ جناب خدیجہ سلام اللہ علیھا کو حاصل ہے۔
بیشک آپ اسلام لانے والی پہلی خاتون ہیں پہلی زوجہ نبیؐ اور پہلی تصدیق نبوت کرنے والی ہیں اسلام کی راہ میں پہلی دولت کو خرچ کرنے والی ہیں،نماز جماعت میں شریک ہونے والی پہلی خاتون ہیں۔

https://ur.hawzahnews.com/news/389386

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button