خطبہ جمعۃ المبارک (شمارہ:328)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک 07 نومبر 2025 بمطابق 15 جمادی الاول 1447ھ)
تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
جنوری 2019 میں بزرگ علماء بالخصوص آیۃ اللہ شیخ محسن علی نجفی قدس سرہ کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
موضوع: ایامِ فاطمیہ اور ہماری ذمہ داریاں
﷽
مومنین کرام! میں آپ سب کو اور اپنے آپ کو تقویٰ الٰہی اختیار کرنے کی نصیحت کرتا ہوں۔
آج کا خطبہ جمعہ، ایام فاطمیہ کی مناسبت سے، اس ذاتِ گرامی کے فضائل و مصائب کے بارے میں ہے جو کائنات کی عورتوں کی سردار ہیں، جو بضعۃ الرسول ہیں، جو ام ابیھا ہیں، جو زوجۂ ولی اللہ ہیں، اور جو ام الائمہ ہیں: یعنی صدیقہ طاہرہ، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا۔
ایامِ فاطمیہ کی اہمیت
سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کی تاریخ شہادت میں مختلف اقوال ہیں۔ مشہور قول کے مطابق آپ کی شہادت 3 جمادی الثانی کو ہوئی۔ البتہ دوسرے اقوال میں سے ایک کے مطابق آپ کی شہادت 13 جمادی الاول کو ہوئی۔ یہ قول اس روایت کی بناء پہ ہے کہ جس کے مطابق آپ اپنے بابا کی رحلت کے بعد 75 دن زندہ رہیں۔ اسی وجہ سے 13 جمادی الاول سے 3 جمادی الثانی تک کے ایام کو ایام ِفاطمیہ کہا جاتا ہے۔ یہ ایام ہمیں اس عظیم خاتون کی قربانیوں، ان کے مصائب، اور امامت و ولایت کے دفاع کے لیے ان کی لازوال جدوجہد کی یاد دلاتے ہیں۔
مقامِ سیدہ فاطمہ زہرا (س)
صدیقہ طاہرہ حضرت فاطمہ زہرا، نبوت اور وصایت کے درمیان پیوند دینے والی کڑی کا نام ہے، چونکہ آپ رسول کی بیٹی اور وصی کی زوجہ ہیں اور دیگر اوصیاء آپ ہی کے بیٹے ہیں کہ جن پر میراث نبوت تمام ہوتی ہے۔ (بصائر الدرجات ۸۳، حدیث ۱۰۔ امالی صدوق ۳۸۳، حدیث ۴۸۹)
فاطمہ وہ نور ہے کہ جو محمد رسول اللہ صلىاللهعليهوآلهوسلم کی صلب سے چمکا اور پھر اس نور سے جا ملا کہ جو ابوطالب کی صلب سے تھا۔
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا نے اپنے خطبہ فدک میں اپنے بابا کی رسالت کا تعارف کرواتے ہوئے فرمایا:
وَ اَشْهَدُ اَنَّ اَبی مُحَمَّداً عَبْدُهُ وَ رَسُولُهُ، اِخْتارَهُ قَبْلَ اَنْ اَرْسَلَهُ، وَ سَمَّاهُ قَبْلَ اَنْ اِجْتَباهُ، وَ اصْطَفاهُ قَبْلَ اَنْ اِبْتَعَثَهُ، اِذ الْخَلائِقُ بِالْغَیبِ مَكْنُونَةٌ، وَ بِسَتْرِ الْاَهاویلِ مَصُونَةٌ، وَ بِنِهایةِ الْعَدَمِ مَقْرُونَةٌ، عِلْماً مِنَ اللَّـهِ تَعالی بِمائِلِ الْاُمُورِ، وَ اِحاطَةً بِحَوادِثِ الدُّهُورِ، وَ مَعْرِفَةً بِمَواقِعِ الْاُمُورِ.
میں گواہی دیتی ہوں کہ میرے والد محمدؐ اللہ کے رسول اور اس کے بندے ہیں، پیغمبری کے لئے بھیجنے سے پہلے اللہ نے ان کو چنا اور قبل اس کے کہ اسے پیدا کرے ان کا نام محمّدؐ رکھا اور بعثت سے پہلے ان کا انتخاب اس وقت کیا جب کہ مخلوقات عالم غیب میں پنہاں اور چھپی ہوئی تھی اور عدم کی سرحد سے ملی ہوئی تھی، چونکہ اللہ تعالی ہر شئی کے مستقبل سے باخبر ہے اور حوادث دہر سے مطلع ہے اور ان کے مقدرات کے موارد اور مواقع سے آگاہ ہے۔۔ (احتجاج طبرسی: ۱ ۱۳۳۔ السقیفہ و فدک (جوہری) ۱۴۰)
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا لوگوں کو صرف اصل نبوت پر تذکر نہیں دیتیں بلکہ اللہ کے نزدیک آپ (ص) کی منزلت و مقام کو بیان کرنا مقصود ہے۔ آپ سمجھانا چاہتی ہیں کہ معرفتِ واقعی ہمارے (اہل بیت کے) بغیر حاصل نہیں ہوسکتی۔
اس ذات کا مقام اتنا بلند ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا:
«فَاطِمَةُ بَضْعَةٌ مِنِّي، فَمَنْ أَغْضَبَهَا أَغْضَبَنِي»
ترجمہ: "فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے، جس نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔”
(صحیح البخاری، ج 3، ص 1374)
اور ایک اور مقام پر فرمایا:
«إِنَّ اللّٰهَ عَزَّ وَجَلَّ لَيَغْضَبُ لِغَضَبِ فَاطِمَةَ، وَ يَرْضَى لِرِضَاهَا»
ترجمہ: "بے شک اللہ عزوجل فاطمہ کے غضبناک ہونے سے غضبناک ہوتا ہے اور اس کی رضا سے راضی ہوتا ہے۔”
(الأمالی للمفید، ص 94)
یہ احادیث بتاتی ہیں کہ جنابِ سیدہ (س) کا مقام کتنا ارفع ہے کہ ان کی رضا اور غضب، اللہ اور اس کے رسول (ص) کی رضا اور غضب کا معیار ہے۔
معرفتِ فاطمہ (س)
ہم صادق و امین پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صدیق و امین وصی علی ابن ابی طالب اور صدیقہ طاہرہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کی تھوڑی بہت معرفت رکھتے ہیں جب کہ ان کی حقیقی معرفت تو ہماری سطح سے بہت بلند و بالا ہے۔
اسی وجہ سے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے تصریح فرمائی ہے کہ:
«…إِنَّمَا سُمِّيَتْ فَاطِمَةُ لِأَنَّ الْخَلْقَ فُطِمُوا عَنْ مَعْرِفَتِهَا»
ترجمہ: "فاطمہ کو فاطمہ اس لیے کہا جاتا ہے کہ مخلوق الہٰی ان کی (حقیقی) معرفت سے جدا اور عاجز ہیں۔ ”
امام (ع) نے کلمہ "خلق” (مخلوقات الہٰی) کا استعمال کیا، جو انسانوں، جنوں اور ملائکہ سب کو شامل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جنابِ فاطمہ (س) کی منزلت بہت بلند و بالا ہے۔
قرآن اور فضائل فاطمہ (س)
قرآن مجید میں کئی آیات ہیں جو براہ راست یا بالواسطہ شانِ سیدہ (س) میں نازل ہوئیں۔
1. آیۂ تطہیر
جنابِ سیدہ (س) کا ایک لقب "طاہرہ” ہے، یعنی پاک و پاکیزہ۔ آپ ان ہستیوں میں شامل ہیں جن کی طہارت کی گواہی خود قرآن نے دی:
«إِنَّمَا يُرِيدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا»
ترجمہ: "اللہ کا بس یہ ارادہ ہے کہ تم اہل البیت سے ہر قسم کے رجس (ناپاکی) کو دور رکھے اور تمہیں اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک رکھنے کا حق ہے۔”(سورۃ الاحزاب، آیت 33)
تمام معتبر تفاسیر اور احادیث (بشمول حدیثِ کساء) اس بات پر متفق ہیں کہ "اہل البیت” سے مراد پنجتن پاک ہیں، جن میں جنابِ فاطمہ زہرا (س) مرکزی حیثیت رکھتی ہیں۔
روایات کے مطابق رسول خداؐ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد 9 مہینے تک جناب فاطمہ و علی ؑ کے دروازے پر اس آیت کی تلاوت کرتے رہے جس سے آپ عملی طور پر دکھا رہے تھے کہ اس آیت سے مراد کون ہستیاں ہیں۔
2. آیۂ مودت
جب مسلمانوں نے رسول اللہ (ص) سے ان کی رسالت کا اجر دینا چاہا تو اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی:
«قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَىٰ»
ترجمہ: "(اے رسول) کہہ دیجئے: میں تم سے اس (رسالت) کا کوئی اجر نہیں مانگتا سوائے (میرے) قرابت داروں سے محبت کے۔”(سورۃ الشوریٰ، آیت 23)
مفسرین کا اتفاق ہے کہ "القربیٰ” سے مراد علیؑ، فاطمہؑ، حسن ؑاور حسینؑ علیہم السلام ہیں۔ پس جنابِ فاطمہ (س) کی محبت اجرِ رسالت ہے۔
3. آیۂ مباہلہ
نصاریٰ نجران کے ساتھ مباہلہ کے موقع پر اللہ نے اپنے رسول (ص) کو حکم دیا:
«…فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ…»
ترجمہ: "…تو آپ کہہ دیں: آؤ! ہم اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں کو، اور اپنی عورتوں کو اور تمہاری عورتوں کو، اور اپنے نفسوں کو اور تمہارے نفسوں کو بلا لیں، پھر ہم مباہلہ کریں…”
(سورۃ آل عمران، آیت 61)
اس موقع پر رسول اللہ (ص) "ابْنَاءَنَا” میں حسن و حسین (ع) کو، "أَنفُسَنَا” میں حضرت علی (ع) کو، اور "نِسَاءَنَا” (ہماری عورتوں) کی جگہ صرف اپنی بیٹی فاطمہ زہرا (س) کو لے کر گئے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ کائنات میں اس دن اسلام کی نمائندگی کے لیے جنابِ سیدہ (س) سے افضل کوئی خاتون نہ تھی۔
4. سورۂ انسان (دھر)
جنابِ سیدہ (س) کی سخاوت اور ایثار کا عالم یہ تھا کہ آپ نے، امام علی (ع) اور حسنین (ع) کے ساتھ، تین دن مسلسل روزے رکھے اور اپنا افطار کا کھانا ایک دن مسکین کو، دوسرے دن یتیم اور تیسرے دن اسیر کو دے دیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس عمل کو قرآن کا حصہ بنا دیا:
«وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَىٰ حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا، إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللّٰهِ لَا نُرِيدُ مِنكُمْ جَزَاءً وَلَا شُكُورًا »
ترجمہ: "اور وہ اللہ کی محبت میں مسکین، یتیم اور اسیر کو کھانا کھلاتے ہیں (اور کہتے ہیں) ہم تمہیں صرف اللہ کی رضا کے لیے کھلا رہے ہیں، ہم تم سے نہ کوئی بدلہ چاہتے ہیں اور نہ شکریہ۔ ”
(سورۃ الانسان، آیات 8-9)
جنابِ سیدہ (س) کے اسماء و القابات
روایات میں ہے کہ جناب سیدہ سلام اللہ علیھا کے نو نام ہیں۔ امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:
«لِفَاطِمَةَ تِسْعَةُ أَسْمَاءٍ عِنْدَ اللّٰهِ عَزَّ وَجَلَّ: فَاطِمَةُ وَالصِّدِّيقَةُ وَالْمُبَارَكَةُ وَالطَّاهِرَةُ وَالزَّكِيَّةُ وَالرَّضِيَّةُ وَالْمَرْضِيَّةُ وَالْمُحَدَّثَةُ وَالزَّهْرَاء»
ترجمہ: "اللہ تعالیٰ کی نزدیک جناب فاطمہ سلام اللہ علیھا کے نو نام ہیں: فاطمہ، صدیقہ، مبارکہ، طاہرہ، زکیہ، راضیہ، مرضیہ، محدثہ اور زہرا۔” (کشف الغمۃ فی معرفۃ الائمۃ، ج 1، ص 463 23)
ان میں سے چند کی مختصر وضاحت:
• 1. فاطمہ: اس کا مطلب ہے "چھڑا دینے والی”۔ رسول اللہ (ص) نے فرمایا:
«…لِأَنَّهَا فُطِمَتْ هِيَ وَشِيعَتُهَا مِنَ النَّارِ»
ترجمہ: "…کیونکہ فاطمہ (س) اور ان کے شیعوں کو جہنم سے بچا لیا گیا ہے (آگ سے چھڑا لیا گیا ہے)۔” (المحتضر، ج 1، ص 233 27)
• 2. زہرا: امام جعفر صادق (ع) سے سوال ہوا کہ آپ کو "زہرا” کیوں کہتے ہیں؟ فرمایا:
«…لِأَنَّهَا كَانَتْ إِذَا قَامَتْ فِي مِحْرَابِهَا زَهَرَ نُورُهَا لِأَهْلِ السَّمَاءِ كَمَا يَزْهَرُ نُورُ الْكَوَاكِبِ لِأَهْلِ الْأَرْضِ»
ترجمہ: "…اس لیے کہ جناب سیدہ (س) جب محرابِ عبادت میں کھڑی ہوتیں تو آپ کا نور آسمان والوں کے لیے ایسے درخشاں و روشن ہوتا جیسے ستاروں کی روشنی زمین والوں کو روشن کرتی ہے۔” (معانی الأخبار، ص 64 30)
• 3. صدیقہ: یعنی "بہت سچی”۔ یہ آپ کی عصمت کا ثبوت ہے۔ قرآن نے حضرت مریم (س) کو بھی "صدیقہ” کہا ہے۔ حضرت عائشہ سے روایت ہے:
"میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد جناب سیدہ زہرا (سلام اللہ علیھا) سے زیادہ راست باز (سچا) کسی کو نہیں دیکھا۔”
• 4. محدثہ: اس کا مطلب ہے "وہ ذات جس سے فرشتے گفتگو کریں”۔ رسول اللہ (ص) کے بعد فرشتے، جنابِ سیدہ (س) پر نازل ہوتے، آپ کو تسلی دیتے اور آئندہ کے واقعات بتاتے تھے، اور امام علی (ع) انہیں تحریر فرماتے تھے۔ اسی کا مجموعہ "مصحفِ فاطمہ” کہلاتا ہے، جو اماموں کے پاس محفوظ ہے۔
امام صادق (ع) فرماتے ہیں:
«إِنَّمَا سُمِّيَتْ فَاطِمَةُ مُحَدَّثَةً لِأَنَّ الْمَلَائِكَةَ كَانَتْ تَنْزِلُ مِنَ السَّمَاءِ فَتُنَادِيهَا كَمَا تُنَادِي مَرْيَمَ بِنْتَ عِمْرَانَ…»
ترجمہ: "فاطمہ (س) کو ‘محدثہ’ اس لیے کہا گیا کہ ملائکہ آسمان سے نازل ہوتے تھے اور آپ کو اسی طرح پکارتے تھے جس طرح مریم بنت عمران کو پکارتے تھے…”(علل الشرائع، ج 1، ص 182)
• 5. راضیہ و مرضیہ: یعنی "راضی رہنے والی” اور "وہ جس سے راضی ہوا گیا”۔ آپ ہر حال میں اللہ کی قضا پر راضی رہیں اور اللہ آپ سے راضی رہا۔ جیسا کہ قرآن نے نفسِ مطمئنہ کو خطاب کیا:
«يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ، ارْجِعِي إِلَىٰ رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً »
ترجمہ: "اے نفسِ مطمئنہ ! اپنے رب کی طرف پلٹ آ اس حال میں کہ تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی ہو۔ ”
(سورۃ الفجر، آیات 27-28 41)
ایامِ فاطمیہ میں ہماری ذمہ داریاں
مومنین کرام! ایامِ فاطمیہ صرف تاریخ کو یاد کرنے کا نام نہیں، بلکہ یہ تجدیدِ عہد کا زمانہ ہے۔ ہماری چند اہم ذمہ داریاں یہ ہیں:
1. احیاءِ غمِ فاطمی (س): ان ایام میں مجالس کا انعقاد کرنا، مصائبِ سیدہ (س) کو یاد کر کے رونا اور رلانا، اور سیاہ لباس پہن کر اس غم کا اظہار کرنا، امام زمانہ (عج) کو ان کی جدہ کا پرسہ دینا ہے۔
2. معرفتِ فاطمی (س) کا حصول: جنابِ سیدہ (س) کی سیرت، ان کے خطبات (خصوصاً خطبۂ فدک) اور ان کی تعلیمات کا مطالعہ کرنا تاکہ ہمیں معلوم ہو کہ انہوں نے کس مقصد کے لیے اتنی قربانیاں دیں۔
3. دفاعِ ولایت: جنابِ سیدہ (س) کی پوری جدوجہد اپنے وقت کے امام، حضرت علی علیہ السلام، کی ولایت کے دفاع کے لیے تھی۔ آج ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے امامِ زمانہ (عج) کی معرفت حاصل کریں اور ان کی ولایت پر ثابت قدم رہیں۔
4. عملی سیرت اپنانا:
o حجاب و حیا: ہماری ماؤں اور بہنوں کے لیے جنابِ سیدہ (س) کا پردہ اور حیا بہترین نمونۂ عمل ہے۔
o عبادت: آپ کی عبادت ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے کہ کس طرح اللہ سے راز و نیاز کیا جائے۔
o ایثار و سخاوت: سورۂ دہر کی روشنی میں، ہمیں معاشرے کے غریبوں، یتیموں اور مسکینوں کا خیال رکھنا چاہیے۔
o بحیثیت ماں اور زوجہ: آپ نے جس طرح امام حسن و حسین (ع) کی تربیت فرمائی اور جس طرح امام علی (ع) کا ساتھ دیا، وہ ہر گھر کے لیے ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے۔
آئیں، ان ایامِ عزا میں بارگاہِ رسالت (ص) اور بارگاہِ امامت (ع) میں اس شہزادی کا پرسہ پیش کریں۔ ہم عہد کریں کہ ہم جنابِ فاطمہ (س) کے دکھائے ہوئے راستے پر چلیں گے، ان کے مقصد (یعنی دفاعِ امامت) کو زندہ رکھیں گے، اور ان کی سیرت کو اپنی عملی زندگیوں میں نافذ کریں گے۔
پروردگارا! بحقِ محمد و آلِ محمد (ص)، ہمیں جنابِ سیدہ فاطمہ زہرا (س) کی حقیقی معرفت نصیب فرما۔
پروردگارا! ہمیں ان کی سیرت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرما۔
بارِ الٰہا! ہماری ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کو سیرتِ زہرا (س) پر چلتے ہوئے حجاب اور حیا کی پابندی کرنے کی توفیق دے۔
پروردگارا! ہمیں امام زمانہ (عج) کے سچے ناصروں میں شمار فرما اور بحقِ فاطمہ (س) و ابیھا و بعلھا و بنیھا، ہمارے امام (عج) کے ظہور میں تعجیل فرما۔آمین
اللّٰهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وآلِ مُحَمَّدٍ وعَجِّلْ فَرَجَهُمْ
٭٭٭٭٭




