خطبات جمعہسلائیڈرمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک (شمارہ:330)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک 21 نومبر 2025 بمطابق 29 جمادی الاول 1447ھ)
تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

جنوری 2019 میں بزرگ علماء بالخصوص آیۃ اللہ شیخ محسن علی نجفی قدس سرہ کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
موضوع: سیرت سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا

یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا عظیم احسان ہے کہ اس نے دینِ اسلام کو ایسی بلند پایہ شخصیات کے نور سے مالا مال فرمایا ہے۔ انسانیت کی ہدایت و رہنمائی کے لیے ہر دور میں اللہ تعالیٰ نے انبیائے کرام (علیہم السلام) کو بھیجا، جو لوگوں کے لیے بہترین نمونہ عمل ہوا کرتے تھے۔
پھر سب کے آخر میں، اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب، حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو صرف عرب کے لیے نہیں، صرف مسلمانوں کے لیے نہیں، بلکہ پوری انسانیت کے لیے قیامت تک ایک کامل نمونہ عمل (رول ماڈل) بنا کر مبعوث فرمایا۔
اب امتِ مسلمہ کے ہر فرد پر لازم ہے کہ اس کی زندگی کا ہر لمحہ اور ہر عمل، پیغمبرِ اسلام ﷺ کے پاکیزہ اعمال کے تابع ہو۔ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو بھیجا ہی اس لیے ہے تاکہ لوگ آپ ﷺ کے دکھائے ہوئے راستے پر چلیں اور آپ کے نقشِ قدم کی پیروی کریں۔ اگرچہ حضورِ اکرم ﷺ کی ظاہری حیاتِ مبارکہ تریسٹھ (63) برس تھی، لیکن آپ ﷺ کا اسوۂ حسنہ اور آپ کی سیرت قیامت تک کے لیے ہدایت کا سرچشمہ ہے۔
اسی ہدایت کے سلسلے کو اپنے بعد بھی جاری رکھنے کے لیے، پیغمبرِ اسلام ﷺ نے کچھ مخصوص ہستیوں کو بھی امت کے لیے نمونہ قرار دیا، جنہیں ہم "اہلِ بیت (علیہم السلام)” کہتے ہیں۔
آپ ﷺ کا مشہور ارشادِ گرامی ہے:
"مَثَلُ أهلِ بَيتي مَثَلُ سَفينَةِ نُوحٍ؛ مَن رَكِبَها نَجا و مَن تَخَلّفَ عَنها غَرِقَ”
ترجمہ: "میرے اہلِ بیت کی مثال حضرت نوح (علیہ السلام) کی کشتی کی سی ہے؛ جو اس میں سوار ہو گیا اس نے نجات پائی، اور جس نے اس سے رُخ موڑا (یعنی اسے چھوڑ دیا)، وہ غرق ہو گیا۔”
یہ اہلِ بیتِ اطہار (علیہم السلام) وہ پاکیزہ ہستیاں ہیں جو نہ صرف ظاہری و باطنی طہارت رکھتی ہیں بلکہ اللہ کی محبوب بھی ہیں، اور اسی بنا پر وہ رسولِ خدا ﷺ کے بعد ہمارے لیے ہدایت کا نمونہ ہیں۔ ان مبارک ہستیوں میں سے ہر ہستی اپنے فضائل اور اپنے اعمال کے لحاظ سے ایک خاص شان اور بلند مرتبہ رکھتی ہے۔
اِنہی مقدس ہستیوں میں ایک سب سے عظیم نام، خاتونِ جنت، سیدہ فاطمۃ الزہرا (سلام اللہ علیہا) کا ہے۔ یہ وہ عظیم بی بی ہیں جن کے حقیقی مقام و مرتبے کو شاید امت نے اس طرح نہیں پہچانا جس طرح پہچاننے کا حق تھا۔ آپ (سلام اللہ علیہا) کی شان میں قرآنِ مجید کی متعدد آیات بھی نازل ہوئیں اور آپ کے فضائل میں اَن گنت احادیث بھی موجود ہیں۔ ان کا مطالعہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ آپ (سلام اللہ علیہا) بھی اپنے معزز والد (ﷺ) کی طرح تمام عالمِ انسانیت کے لیے ایک کامل نمونہ ہیں۔
آج اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ ہم اس معظمہ خاتون کی پاکیزہ زندگی کے مختلف ادوار پر گفتگو کریں اور انہیں سمجھنے کی کوشش کریں۔ آپ کی سیرتِ طیبہ میں، بحیثیت ایک بیٹی کے، بحیثیت ایک زوجہ (بیوی) کے، بحیثیت ایک ماں کے، اور بحیثیت ایک عبادت گزار اور پرہیزگار بندی کے، ہمارے لیے عظیم اسباق اور تعلیمات موجود ہیں۔ آج ہم آپ کی زندگی کے ان ہی مختلف پہلوؤں پر گفتگو کریں گے، تاکہ ہم ان سے درس لیتے ہوئے اپنی زندگیوں کو دینی تعلیمات کے مطابق گزار سکیں۔

سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا بحیثیت بیٹی
جب ہم سیرتِ سیدہ فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کا مطالعہ بحیثیتِ بیٹی کرتے ہیں، تو یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ آپ کی ولادت ہی ایک خاص مقصد کے تحت ہوئی۔
یہ وہ دل شکن دور تھا جب کفارِ مکہ، رسولِ اکرم ﷺ کو (نعوذ باللہ) ‘ابتر’ یعنی بے نام و نشان اور بے نسل ہونے کے طعنے دیتے تھے، کیونکہ آپ ﷺ کی نرینہ اولاد وفات پا چکی تھی۔ اس ماحول میں، اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ کو اس بیٹی کی نعمت عطا فرمائی اور ساتھ ہی سورۃ الکوثر کی بشارت دی:
بِسْمِ اللّٰہ الرَّحْـمٰنِ الرَّحِيْـمِ اِنَّـآ اَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ بے شک ہم نے آپ کو کوثر دی۔
فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ (پس اپنے رب کے لیے نماز پڑھیے اور قربانی کیجیے۔
اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتـَرُ بے شک آپ کا دشمن ہی بے نام و نشان ہے۔
مفسرینِ کرام نے ‘کوثر’ کے معنی ‘خیرِ کثیر’ یعنی بے پناہ بھلائی کے کیے ہیں، اور اس پر قریب قریب اتفاق ہے کہ اس خیرِ کثیر کا سب سے روشن اور واضح مصداق، حضرت فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کی ذاتِ مبارکہ ہے۔
یہ سورہ اُنہی طعنہ دینے والوں (جیسے عاص بن وائل، ابو لہب اور ابو جہل) کے جواب میں اتری جو آپ ﷺ کے صاحبزادوں کے انتقال پر خوشیاں مناتے اور کہتے تھے (نعوذ باللّٰہ) کہ محمد (ﷺ) کا ذکر مٹ جائے گا۔
إِنَّ مُحَمَّداً رَجُلٌ أَبْتَرُ… فَلَوْ قَدْ مَاتَ اِنْقَطَعَ ذِكْرُهُ
محمد ابتر ہیں۔ جب وہ فوت ہو جائیں گے تو ان کانام مٹ جائے گا۔
پس، سیدہ زہرا (س) کی ولادت، اللہ کی طرف سے اپنے نبی ﷺ کے لیے ‘خیرِ کثیر’ کا وہ عملی ظہور تھا جس نے دشمنوں کے منصوبوں کو خاک میں ملا دیا۔
آپ (س) کی زندگی ابتدا ہی سے صبر و استقامت سے عبارت ہے۔ صرف دو برس کی عمر میں آپ نے ‘شعبِ ابی طالب’ کی تین سالہ قید و بند کی سختیاں اپنے والدِ گرامی ﷺ کے ساتھ برداشت کیں۔ یہ گھاٹی گویا ایک تربیتی مرحلہ تھی جس نے آپ کی روحانی و جسمانی شخصیت کو کندن بنا دیا۔
پھر جب آپ کی عمر مبارک پانچ یا چھ برس ہوئی، تو ‘عام الحزن’ (غم کا سال) آگیا، جب آپ کے شفیق چچا حضرت ابوطالب (ع) اور آپ کی والدہ ماجدہ حضرت خدیجہ (س) کا انتقال ہو گیا۔
اس کمسنی میں، جب رسولِ خدا ﷺ کو شدید ترین سہارے کی ضرورت تھی، اس بیٹی نے آپ ﷺ کی وہ خدمت اور محبت سے دیکھ بھال کی کہ پیغمبرِ اکرم ﷺ نے آپ کو ‘اُمُّ ابیھا’ یعنی ‘اپنے باپ کی ماں’ کا منفرد لقب عطا فرمایا۔ یہ وہ مقام ہے جو کائنات کی کسی اور بیٹی کو نصیب نہیں ہوا۔
آپ کا یہ مقام صرف خدمت کی وجہ سے نہ تھا، بلکہ آپ کی ذات، اللہ کے نزدیک معیارِ حق بن چکی تھی۔ چنانچہ، پیغمبرِ اسلام ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إِنَّ اَللّٰهَ لَيَغْضَبُ لِغَضَبِ فَاطِمَةَ وَ يَرْضَى لِرِضَاهَا
بے شک اللہ فاطمہؑ کے غضب کی وجہ سے غضبناک ہوتا ہے اور آپ کی رضا سے راضی ہوتا ہے۔
یہ عظمت دیکھئے کہ ایک بیٹی کی رضا اور ناراضگی، اللہ تعالیٰ کی رضا اور ناراضگی کا سبب بن رہی ہے۔ یہی نہیں، بلکہ آپ ﷺ نے اپنی ذات کا حصہ قرار دیتے ہوئے فرمایا:
فَاطِمَةُ بَضْعَةٌ مِنِّي مَنْ آذَاهَا فَقَدْ آذَانِي وَ مَنْ آذَانِي فَقَدْ آذَى اَللَّهَ
فاطمہ میرا حصہ ہے جس نے اسے اذیت پہنچائی اس نے مجھے اذیت دی ہے اور جس نے مجھے اذیت دی اس نے اللہ کو اذیت دی۔
یہ محض ایک باپ کی اپنی بیٹی سے محبت کا جذباتی اظہار نہیں ہے، بلکہ یہ رسولِ دوعالم ﷺ کا اعلان ہے جو آپ (س) کے بے مثل مقام اور نمونہ عمل ہونے کو ثابت کرتا ہے۔
اسی لیے جو بیٹیاں دنیا و آخرت میں سعادت پانا چاہتی ہیں، انہیں چاہیے کہ وہ رسول ﷺ کی اس بیٹی کی سیرت پر عمل کریں۔ خود پیغمبرِ اسلام ﷺ نے آپ (س) کی سرداری کا اعلان یوں فرمایا:
فَاطِمَةُ سَيِّدَةُ نِسَاءِ اَلْعَالَمِينَ مِنَ اَلْأَوَّلِينَ وَ اَلْآخِرِينَ فاطمہ اولین و آخرین میں تمام جہان کی عورتوں کی سردار ہیں۔
غور طلب بات یہ ہے کہ جو نبی ﷺ خود ‘رحمۃ للعالمین’ (تمام جہانوں کے لیے رحمت) ہیں، وہ اس بی بی کو ‘تمام جہانوں کی عورتوں کی سردار’ قرار دے رہے ہیں۔ اور سردار کی پیروی لازم ہوتی ہے۔ بلاشبہ، مسلمان خواتین کے لیے سیدہ فاطمۃ الزہرا (سلام اللہ علیہا) کی اطاعت اور پیروی ہی نجات کا واحد راستہ ہے۔
سیدہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا بحیثیت زوجہ
بحیثیتِ زوجہ، سیدہ فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کی سیرت کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ آپ نے ایک مجاہد شوہر کا حق کیسے ادا کیا۔ آپ کے شوہر، امام علی (علیہ السلام) کی تمام زندگی جہاد اور جدوجہد سے عبارت تھی۔ جب امام علی (ع) جنگوں سے لوٹتے، تو بنتِ پیغمبر آپ کے زخموں پر مرہم رکھتیں، آپ کی تلوار دھوتیں، اور آپ کی ہمت بڑھاتیں۔
ان کا باہمی تعلق، احترام اور افہام و تفہیم کا وہ نمونہ تھا کہ کائنات کے سب سے بڑے عادل انسان، علی ابن ابیطالب (ع) نے گواہی دی کہ: "خدا کی قسم، اپنی ساری زندگی میں نہ کبھی میں بی بی پر غضبناک ہوا اور نہ ہی کبھی بی بیؑ نے مجھ پر غصہ کیا۔”
یہ جوڑ محض ایک دنیاوی رشتہ نہ تھا بلکہ ایک آسمانی فیصلہ تھا، جس کی گواہی خود رسولِ اکرم ﷺ نے ان الفاظ میں دی:
لَوْ لَا عَلِيٌّ لَمْ يَكُنْ لِفَاطِمَةَ كُفْؤٌ
"رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر علی نہ ہوتے تو فاطمہ کا کوئی ہم کفو (برابری کا جوڑ) نہ ہوتا۔”
کتبِ تاریخ بتاتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے گھریلو امور کو میاں بیوی میں تقسیم فرما دیا تھا؛ اندرونِ خانہ کا کام آپ انجام دیتی تھیں اور بیرونِ خانہ کے کام امیرالمومنینؑ کے سپرد تھے۔ گھر کے کاموں کی مشقت سے آپ کے مقدس ہاتھوں پر زخموں کے نشانات پڑ گئے تھے (ناسخ التواريخ، ص ۴۱۷)، اس کے باوجود آپ نے کبھی امورِ خانہ داری کو بوجھ نہیں سمجھا اور نہ ہی کبھی امام علی (ع) سے اس بارے میں کوئی شکایت کی۔
آپ صرف ایک مثالی بیٹی ہی نہیں، بلکہ ایسی مثالی بیوی تھیں جن کی عظمت کا اعتراف امام علی (ع) جیسی ہستی نے کیا۔ حضرت امام علی (ع) کو دنیا صبر و حوصلے، عظمت، شجاعت اور سکون کا استعارہ سمجھتی ہے اور آپ ‘مشکل کشا’ کے لقب سے یاد کیے جاتے ہیں۔
لیکن وہی امام علی (ع)، جب اپنی شریکِ حیات کے وصال کا سامنا کرتے ہیں، تو آپ کے صبر کا بندھن یوں ٹوٹتا نظر آتا ہے کہ فرماتے ہیں:
بِمَنِ العَزاءُ‌ یا بِنتَ مُحمَد؟ كُنتُ بِكِ اَتَعزی فَفیمَ العَزاء مِن بَعدِكِ
اے دختر محمدﷺ ! اب مجھے کیسے سکون ملے ، میرا سکون آپ سے تھا، آپ کے بعد سکون کہاں(فاطمة الزهرا بهجة قلب مصطفی: ص ۵۷۸)
یقیناً، ایسی بیوی جو امام علی (ع) جیسے شجاع اور بہادر مرد کے لیے باعثِ آرام و سکون ہو، وہ کائنات کی تمام بیویوں کے لیے نمونہ عمل ہے۔
امام علی (ع) نے آپ کے ہجر اور فراق کے دکھ کو پیغمبرِ اسلام ﷺ کی رحلت کے دکھ کے مساوی قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ "خدا کی قسم آپ کے جانے سے میرے لئے رسولِ خدا ﷺ کی موت کا دکھ تازہ ہو گیا ہے۔” (فاطمة الزهرا من المهد الی اللحد۶۰۹)
یہ صرف ایک بیوی سے محبت نہ تھی، بلکہ اس لافانی محبت کے پیچھے دخترِ رسول ﷺ کا وہ عظیم مجاہدانہ کردار تھا جس کی یاد امام علی (ع) کو بے تاب کیے ہوئے تھی۔
آج بھی اگر مومنین کی بیویاں، امیرالمومنین (ع) کی اس زوجہ کو اپنا نمونہ عمل بنا لیں، تو ہمارا اسلامی معاشرہ دوبارہ عزت، عظمت اور مہربانی کی مثالیں قائم کر سکتا ہے۔
سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا بحیثیت ماں
ایک مثالی بیٹی اور ایک وفا شعار زوجہ ہونے کے ساتھ ساتھ، آپ (سلام اللہ علیہا) کی سیرت کا سب سے تابناک پہلو آپ کا ‘کامل ترین ماں’ ہونا ہے۔ آپ کی آغوشِ مبارک وہ عظیم تربیت گاہ (مدرسہ) تھی جس سے ایسی اولاد پروان چڑھی جن کے فضائل و مناقب کا شمار ممکن نہیں۔
آپ کے ہاں امام حسنؑ اور امام حسینؑ جیسے امامِ معصوم، اور حضرت زینبؑ و حضرت کلثومؑ جیسی کربلا کی سفیر بیٹیوں نے پرورش پائی۔ کتبِ تواریخ میں حضرت محسنؑ کا ذکر بھی ملتا ہے، جن کی شہادت شکمِ مادر میں ہی منسوب ہے۔
حضرت فاطمہؑ نے ان بچوں کی محض پرورش نہیں فرمائی، بلکہ اپنے حسنِ عمل سے ان کی ایسی تربیت فرمائی کہ آپ کی اولاد خود اہلِ عالم کے لیے نمونہ عمل بن گئی۔
اس تربیت کی عظمت کو سمجھنے کے لیے مختصراً عرض ہے کہ ایک طرف بزبانِ رسالت ؐ، آپ کے فرزندوں کے لیے یہ اعزاز ہے:
الحَسَنُ و الحُسَیْنُ سَیِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ
امام حسن اور امام حسینؑ جوانان جنت کے سردار ہیں (امالی الصدوق ص۵۷)
یہ بلاشبہ ایک عظیم فضیلت ہے، لیکن دوسری طرف خود ماں کے مقام کے لیے بھی فرمانِ رسول ﷺ موجود ہے کہ:تَحْتَ أَقْدَامِ اَلْأُمَّهَاتِ رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ اَلْجَنَّةِ ماں کے قدموں تلے جنت کا باغ ہے۔ (مستدرک الوسائل ج۱۵ ص۱۸۱)
پس، امام حسن و حسین (علیہما السلام) کمالات کے جن بلند مدارج پر فائز ہیں، اُن کمالات کا سرچشمہ درحقیقت حضرت فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کے یہی مبارک قدم ہیں۔ یہی تربیت آپ کی صاحبزادیوں میں بھی نظر آتی ہے۔ حضرت زینب و کلثوم (سلام اللہ علیہما) کی زندگی میں جو حق گوئی، جرات اور دین کی حفاظت کا جذبہ نمایاں ہے، وہ دراصل سیدہ (س) کی اسی تربیت کا عکس ہے۔
آپ کی تربیت کا انداز صرف گفتار کا نہیں، بلکہ کردار کا تھا۔ آپ اپنے بچوں کے سامنے ایک ‘عملی نمونہ’ تھیں۔ خدا پر توکل، اطاعتِ رسول، شب و روز عبادت، ایثار (دوسروں کے لئے جانثاری)، خلوص، سخاوت، حسنِ نیت، عفو و درگزر، مہمان نوازی، اور غیرتِ دینی جیسے تمام عظیم اوصاف آپ نے اپنی اولاد کو گویا گھٹی میں پلا دیے تھے۔ یقیناً آپ کی اولاد نے اسلام کی عظمت کو چار چاند لگائے، اور بلاشبہ ایسی بے مثال اولاد کی تربیت کا سہرا دخترِ رسول ﷺ کے سر ہی جاتا ہے۔
اس تربیت کا ایک عملی نمونہ ملاحظہ فرمائیں: حضرت امام حسن (علیہ السلام) روایت کرتے ہیں کہ ایک شب میری والدہ گرامی (س) ساری رات عبادت میں مشغول رہیں، یہاں تک کہ صبح طلوع ہو گئی۔ میں سنتا رہا کہ میری والدہ تمام ہمسایوں، رشتہ داروں اور مسلمانوں کے لیے دعا فرماتی رہیں، لیکن اپنے لیے کوئی دعا نہ کی۔ صبح ہوئی تو میں نے عرض کیا: ‘اے والدہ گرامی! آپ نے اپنے لئے کیوں دعا نہیں کی؟’ اس پر سیدہ دوعالم (س) نے جواب دیا:
یا بُنیَّ الجارُ ثُمَّ الدّارُ
اے میرے نونہال!پہلے پڑوسی پھر گھر۔ (بحار الانوار ج ۴۳ ص ۸۱ و ۸۲)
یہ ہے وہ نظریہ حیات، وہ سوچ ، وہ فکر اور وہ راہِ بندگی جس پر آپ نے اپنے بچوں کی تربیت کی۔ اسی تربیت کا نتیجہ ہے کہ آپ کی آل کو قرآن مجید میں صادقون، مطهرون، فائزون، متوسّمین، راسخون فی العلم، سابقون، مقرّبون، متقون، خاشعون، مصطفون، ابرار، اولوالامر، اهل الذکر، وارثان کتاب، آیات، نذر، امّت هادی به حقّ، بیوت اذن الله ان ترفع و یذکر فیها اسمه، خیر البریّه و اولوالالباب جیسے القابات سے یاد کیا گیا ہے۔
اگر دنیا بھر کی مائیں سیدہ دوعالمؐ کو اپنا رول ماڈل اور نمونہ عمل جان کر اپنے بچوں کی تربیت کریں تو یقینا اس سے ہمارے معاشرتی و سماجی حالات سنور جائیں گے اور مسلمان دنیا و آخرت کی سعادت سے بہرہ مند ہونگے۔

سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا بحیثیت عابدہ و زاہدہ
ایک مثالی بیٹی، نمونہ عمل بیوی اور بہترین ماں ہونے کے ساتھ ساتھ آپ ایسی عابدہ و زاہدہ خاتون تھیں کہ فرشتے بھی آپ پر درود و سلام بھیجتے تھے۔
بعض روایات میں ملتا ہے کہ اہل مدینہ رات کے وقت حضرت امام علیؑ کے گھر سے ایک نور کو بلند ہوتے دیکھتے تھے، انہوں نے اس نور کے بارے میں پیغمبرِ اکرمﷺ سے استفسار کیا تو پیغمبرﷺ نے فرمایاکہ جب میری بیٹی فاطمہؑ محرابِ عبادت میں کھڑی ہوتی ہے تو ہزاروں فرشتے اس پر درودو سلام بھیجتے ہیں اوراسے عالمین کی عورتوں کی سردار کے لقب سے پکارتے ہیں(در مكتب فاطمه ، ص ۱۷۱)
اسی طرح ایک اور حدیث ہے کہ جب سیدہ محرابِ عبادت میں کھڑی ہوجاتی تھیں تو آسمان پر ملائکہ  کے لئے ایک ستارہ چمکنے لگتا تھا، اور خدا فرشتوں سے فرماتا تھا کہ اے فرشتو ! دیکھو میری بہترین عبد فاطمہ ؑ میری عبادت کر رہی ہے۔وہ میری بارگاہ میں کھڑی میری ہیبت سے لرز رہی ہے اور پورے خضوع و خشوع کے ساتھ میری عبادت کر رہی ہے۔(بحارالانوار، ج ۴۳، ص ۱۷۲)
سیرت کی کتابوں کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ بی بی صرف ذکر و اذکار اور نماز و دعا میں مشغول نہیں رہتی تھیں بلکہ آپ عبادت کو قربِ الٰہی کا وسیلہ سمجھتے ہوئے اپنی تمام تر مشکلات بھی عبادت کے ذریعے حل کرتی تھیں، یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید کی متعدد آیات آپ کی شان میں نازل ہوئی ہیں ، جیساکہ سورہ انسان یا سورہ دہر کے بارے میں علمائے اسلام اورمفسرین کا کہنا ہے کہ یہ سورہ بی بی دو عالم کے صبر اور سخاوت کی وجہ سے اہل بیت رسولﷺ اور خصوصاً سیدہ دو عالم کی شان میں نازل ہوا ہے۔
اس سورہ کے نزول کے بارے میں مفسرین کا کہنا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت امام حسنؑ اورامام حسینؑ بیمار ہوگئے، اس موقع پر حضرت امام علیؑ، سیدہ دو عالم اور ان کی کنیز فضہؓ نے منت مانی کہ امام حسنؑ اور امام حسینؑ کے شفا یاب ہونے پر وہ سب تین دن روزے رکھیں گے۔
جب دونوں شہزادوں کو شفا مل گئی تو دونوں شہزادوں سمیت اہل بیت رسولﷺ نے روزہ رکھا، افطاری کے لئے حضرت فاطمہ ؑ نے پانچ روٹیاں پکائیں، عین افطار کے موقع پر سائل نے آکر روٹی کا سوال کیا، سب نے اپنے اپنے حصے کی روٹی سائل کو دےدی، اسی طرح تین دنوں تک ہوا۔
تیسرے دن پیغمبر ﷺاپنی بیٹی کے گھر تشریف لائے اور بیٹی کو مصلے پر مشغولِ عبادت پایا، اس وقت جبرائیل امین ، نبی اکرمﷺ پر سورہ انسان لے کر نازل ہوئے اور پیغمبر سے فرمایا کہ خداوند عالم ایسے اہل بیتؑ کی وجہ سے آپ کو مبارکباد دیتا ہے۔(مجمع البیان، ج ۱۰، ص ۶۱۱)
حضرت فاطمہؑ کی خداوند عالم کی بارگاہ میں عبودیت اور بندگی بھی اپنی مثال آپ تھی۔ آپ نے اپنے تمام اجتماعی وسیاسی امور کے ساتھ انفرادی زندگی کے فرائض اور خدا کے ساتھ دعا و مناجات کے فریضے کو بھی بطریق احسن ادا کیا۔
سیدہ سلام اللہ علیہا بطورمجموعہ کمالات:
عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ایک شخصیت میں بہت زیادہ صفات خصوصاً متضاد صفات جمع نہیں ہو سکتیں اور اگر ایسا کہیں ہوا بھی ہے تو زیادہ سے زیادہ حضرت امام علیؑ کے بارے میں یہ اعتراف کیا جاتا ہے کہ آپ میں متضاد صفات جمع تھیں، مثلا آپ بیک وقت ادیب بھی تھے اور جنگجو بھی، نرم دل بھی تھے اور عدالت میں سخت بھی ، وغیرہ وغیرہ ۔۔۔
لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت امام علی ؑ کے علاوہ حضرت فاطمہ الزہراؑ نے بھی ایک ایسی مختصر اور بھرپور زندگی گزاری ہے کہ گویا کائنات کے تمام کمالات کو آپ نے اپنے اندر سمو لیا ہے۔ آپ جس طرح اپنی کم سنی کے باعث نوعمر ننھی سی بچی ہیں اُسی طرح اپنی لطافت و نزاکت اور فہم و شعور کے باعث اُمُّ ابیھا بھی ہیں،آپ جس طرح ایک گھریلو خاتون اور ماں ہیں اُسی طرح اپنے شوہر کی مشیر اور شریکِ جہاد بھی ہیں، آپ جس طرح شرم و حیا اور حجاب کا مجسمہ ہیں اُسی طرح دشمنانِ اسلام کے خلاف پیکرِ غضب ہیں، آپ جس طرح خواتین کے لئے اسوہ ہیں اسی طرح مردوں کے لئے بھی نمونہ عمل ہیں۔
آپ جس وقار کے ساتھ ، اسلام کی حقانیت کو بیان کرنے کے لئے نجران کے عیسائیوں کا سامنا کرنے کے لئے نکلتی ہیں،آپ اسی طرح خلافت کے منصب کو بچانے کے لئے مدینے کے مسلمانوں کے دروازوں پر دستک دیتی ہیں، آپ جس طرح محرابِ عبادت میں کامل یکسوئی کے ساتھ مشغولِ حق ہو جاتی ہیں ، آپ اسی طرح مسلمانوں کے دربار میں کامل فصاحت و بلاغت کے ساتھ خطبہ ارشاد فرماتی ہیں، آپ ایک طرف تو روزے کے باوجود اپنے سامنے کا کھانا افطار کے وقت سائل کو دے دیتی ہیں لیکن دوسری طرف اصولوں کی پاسداری کے وقت فدک کو معاف نہیں کرتیں۔
آپ ایک طرف جنگ و جدال میں مشغول اپنے والدِ ماجدﷺ اور اپنے شوہر نامدارؑ کا ہاتھ بٹاتی ہیں اور دوسری طرف حسنین کریمین ؑ اور زینبؑ و کلثومؑ جیسی اولاد کی تربیت کرتی ہیں۔ہاں آپ سو فیصد علی ابن ابیطالبؑ کی ہم کفو اور ہم پلہ ہیں۔
آپ صرف مختلف فضائل اور اوصاف کا مجموعہ نہیں ہیں بلکہ آپ اپنے شوہر نامدار کی طرح عالم بشریت کے لئے ایک نمونہ عمل اور اعمال کی کسوٹی ہیں۔پس تمام انسانوں کو اور بالخصوص خواتین کو سیدہ سلام اللہ علیہھا کی مختصر مگر پر اثر زندگی کا بغور مطالعہ کرکے ان کی سیرت سے عملی درس لینا چاہیے۔

اللّٰهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وآلِ مُحَمَّدٍ وعَجِّلْ فَرَجَهُمْ
٭٭٭٭٭

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button