خطبات جمعہمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک(شمارہ:168)

بتاریخ: جمعۃ المبارک30ستمبر 2022ء بمطابق 03 ربیع الاول1444 ھ)

تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

جنوری 2019 میں بزرگ علماء کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے ۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔

مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

03465121280

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ

اسلامی سال کا تیسرا مہینہ ربیع الاول مبارک ہے۔ ربیع عربی میں موسم بہار کو کہتے ہیں۔ اس مہینے کا نام ربیع الاول اس لیے رکھا گیا کیونکہ جب ابتداء میں اس کا نام رکھا گیا تو اس وقت موسم ربیع یعنی فصل بہار کا آغاز تھا۔ یہ مہینہ فیوضات و برکات کے اعتبار سے افضل ہے کہ باعث تخلیق کائنات رحمۃ اللعالمین احمد مجتبیٰ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دنیا میں قدم رنجہ فرمایا۔ 17 ربیع الاول مکۃ المکرمہ کے محلہ بنی ہاشم میں آپ کی ولادت با سعادت صبح صادق کے وقت ہوئی۔ اسی طرح 12 ربیع الاول میں آپ ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لائے۔ اسی ماہ کی 10 تاریخ کو محبوب کبریا (ص) نے ام المؤمنین سیدہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ سلام اللہ تعالیٰ علیھاسے نکاح فرمایا تھا۔

مشائخ عظام اور علمائے کرام فرماتے ہیں کہ: حضور پر نور شافع یوم النشور صلی اللہ علیہ و آلہ سلم کا وقت ولادت باسعادت لیلۃ القدر سے بھی افضل ہے۔ کیونکہ لیلۃ القدر میں فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ولادت پاک کے وقت خود رحمۃ للعالمین شفیع المذنبین (ص) تشریف لائے۔ لیلۃ القدر میں صرف امتِ مسلمہ پر فضل و کرم ہوتا ہے اور شب عید میلاد النبی میں اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات پر اپنا فضل و کرم فرمایا، جیسا کہ ارشاد ربانی ہے کہ؎: وَمَا اَرْ سَلْنَاکَ اِلَّا رَحْمَۃٌ لِّلْعٰالَمِیْنَ.

حضرت محمد مصطفیٰ (ص) کی ولادت باسعادت ماہ ربیع الاول کا ایک اہم ترین واقعہ ہے اور شایداسی مبارک واقعہ کی وجہ سے ہی اس مہینے کو بہار کا نام دیتے ہیں۔بنی نوع انسان کو دین اسلام کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی جتنی برکات اور مہربانیاں حاصل ہوئی ہیں وہ کامل ترین انسان یعنی حضرت محمد مصطفیٰ (ص) کے مقدس وجود کی برکت کی وجہ سے ہیں کہ جو اس مہینے میں اس دنیا میں آئے تھے۔

اس مہینےکی شرافت دیگر تمام مہینوں سے زیادہ ہے اور یہ مہینہ حقیقت میں دیگر مہینوں کی بہار ہے کیونکہ نبی اکرم (ص) کے نورانی وجود کی وجہ سے ہی تمام شرافتیں، رحمتیں، دنیاوی اور اخروی عنایات اور نبوت، امامت ، قرآن اور شریعت نازل کی گئی ہے۔

یہ مہینہ گرانقدر ترین مہینہ ہے۔ باالفاظ دیگر اس مہینے کی مثال دیگر مہینوں کی نسبت ایسے ہی ہے کہ جس طرح دیگر لوگوں کے درمیان حضرت محمد مصطفیٰ علیہ السلام کا مقام ہے۔

نبی اکرم ﷺ نے خود دیگر لوگوں کے درمیان اپنی مثال کو اس طرح بیان فرمایا ہے:

در حقیقت میری اور تمہاری اور انبیاء کی حکایت اس گروہ کی حکایت کی طرح کہ جو ایک بیابان اور تپتے ہوئے صحرا میں جا رہے ہیں اور نہیں جانتے کہ جتنا سفر طے کیا وہ زیادہ ہے یا ابھی زیادہ باقی ہے۔ وہ تھکے ماندے ہیں اور ان کا ذخیرہ بھی ختم ہو گیا ہوا ہے اور بیابان کے وسط میں پڑے ہوئے ہیں اور انہیں یقین ہو جاتا ہے کہ اب ان کی زندگی کے آخری لمحات ہیں۔ اس وقت اچانک نیا لباس پہنے ایک مرد ظاہر ہوتا ہے کہ جس کے سر سے پانی ٹپک رہا ہے۔ وہ لوگ کہتے ہیں: یہ مرد ابھی ابھی آبادی سے آیا ہے۔ جب وہ ان کے پاس پہنچتا ہے تو کہتا ہے کہ تمہیں کیا ہو گیا ہے ؟ وہ لوگ کہتے ہیں: آپ دیکھ رہے ہیں کہ ہم تھکے ماندے ہیں اور ہمارا ذخیرہ ختم ہو گیا ہوا ہے اور اس بیابان کے وسط میں بے جان پڑے ہوئے ہیں اور ہم نہیں جانتے کہ زیادہ راستہ طے کر لیا ہے یا کم۔ وہ مرد کہتا ہے کہ اگر میں تمہیں ٹھنڈے اور میٹھے پانی اور سرسبز باغات کی طرف لے کر جاؤں تو مجھے کیا دو گے ؟ وہ کہتے ہیں: تم جو کچھ کہو گے ہم تعمیل کریں گے۔ ۔

وہ مرد انہیں سرسبز باغات اور ٹھنڈے اور میٹھے پانی تک لے کر جاتا ہے اور پھر تھوڑی دیر کے بعد ان سے کہتا ہے: اٹھو تا کہ میں تمہیں اس سے بھی زیادہ سرسبز باغات اور زیادہ ٹھنڈے اور میٹھے پانی کے چشموں تک لے جاؤں۔ لیکن ان میں سے زیادہ تر لوگ کہتے ہیں: ہم اتنی مقدار پر ہی راضی ہیں لیکن ایک گروہ کہتا ہے: مگر تم نے اس مرد کےساتھ عہد و پیمان نہیں باندھا ہوا تھا کہ اس کی نافرمانی نہیں کرو گے۔ اس نے تم سے سچ بولا تھا اور اب بھی پہلی بات کی طرح اس کی بات سچی ہے۔ پس یہ گروہ اس کے ساتھ چل پڑتا ہے اور وہ انہیں سرسبز باغات اور مزید ٹھنڈے پانی تک پہنچا دیتا ہے۔ لیکن باقی بچ جانے والے لوگوں پر دشمن شبخون مارتا ہے اور صبح تک ان کی لاشیں ہی باقی بچتی ہیں۔(میزان الحکمہ، حدیث نمبر18425)

تاریخی مناسبت: شہادت امام حسن عسکری علیہ السلام

گیارہویں امام حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کا یوم شہادت ابھی 8 ربیع الاول ہے۔اور اس سے اگلے روز یعنی 9 ربیع الاول کو امام آخرالزمان حضرت امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف کی امامت کے آغاز کا دن ہے۔اسی طرح روایات میں ہے کہ اس دن دشمن اہل بیت اور کربلا میں لشکر یزید کےسالار عمر ابن سعدکو امیر مختار ثقفی نے قتل کیا (زادالمعاد ص ۵۸۵ )۔ان دو مناسبات کی وجہ سے ہم پہلے امام عسکری علیہ السلام کی سیرت سے کچھ اقتباسات بیان کریں گے اور پھر یہ بیان کریں گے کہ آپ نے امام عصر کی غیبت کے لیے لوگوں کو کیسے آمادہ و تیار کیا اور ان کیسے ان کا تعارف کرایا۔

امام حسن عسکری علیہ السلام کے لقب "عسکریی” کے بارے جانتے ہیں کہ یہ لقب آپ کو کیسے دیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ متوکل عباسی نے  سنہ 233 ہجری قمری میں امام علی نقی علیہ السلام کو مدینہ سے سامرا بلایا اور کیونکہ اس کے جاسوس اسے یہ رپورٹ دے رہے تھے کہ لوگ روز بروز امام علیہ السلام کی طرف مائل ہوتے جا رہے ہیں۔ اسی تناظر میں حکومت وقت امام علیہ السلام کی طرف سے حکومت کے خلاف قیام کرنے سے خوف محسوس کرتی تھی اسلئے امام علیہ السلام کو مدینہ سے سامرا بلایا تاکہ اپنی زیر نگرانی میں رکھا جائے اور امام علیہ السلام سے لوگوں کی رفت و آمد پر بھی نظر رکھی جا سکے۔سامرا شہر کے جس محلہ میں آپ کو رکھا گیا اس کا نام محلہ عسکر تھا۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ علاقہ گویا ایک فوجی چھاؤنی تھا اور متوکل چاہتا تھا کہ امام سے کوئی ان کا شیعہ ملنے نہ پائے تو اس لیے اس جگہ امام کو پابند رکھا گیا۔ اس محلے کے نام کی وجہ سے ان دو اماموں کو عسکریئین اور امام حسن عسکری کو عسکری علیہ السلام کہا جاتا ہے۔

امام حسن عسکری علیہ السلام کا مسلمانوں کی ہدایت کرنا:

اہل سنت کے بعض علماء جیسے ’’ ابن صباغ مالکی‘‘ ابو ہاشم جعفری سے یہ روایت نقل کرتے ہیں کہ:

۔۔۔۔ ایک مرتبہ سامراء میں قحط پڑا، خلیفہء وقت معتمد نے حکم دیا کہ لوگ نماز استسقاء( طلب بارش کی نماز) بجا لائیں۔ تین دن مسلسل لوگ نماز استسقاء پڑھتے رہے مگر بارش نہیں ہوئی۔ چوتھے دن عیسائیوں کا راہنما’ جاثلیق‘ عیسائیوں اور راہبوں کے ساتھ صحراء گیا۔ان میں سے ایک راہب جب بھی دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتا، فورا بارش ہونے لگتی تھی۔ دوسرے دن بھی اس نے یہی کیا۔اتنی بارش ہوئی کہ لوگوں کو پانی کی ضرورت نہ رہی۔اس واقعہ سے لوگوں کے دلوں میں شک و شبہ پیدا ہونے لگا اور لوگ عیسائیت کی طرف راغب ہونے لگے۔ یہ بات خلیفہ کو ناگوار گذری۔ اس نے امام حسن عسکری علیہ السلام کے پاس آدمی بھیجا اور آپ کو قید خانہ سے بلوایا گیا۔

خلیفہ نے امام سے کہا ۔ یہ آپ کے جد کی امت ہے۔ یہ گمراہ ہوئی چاہتی ہے۔آپ ہی گمراہی سے بچا سکتے ہیں۔

امام علیہ السلام نے فرمایا۔ جاثلیق اور اس کے راہبوں سے کہو کہ منگل کے روز پھر صحرا میں آئیں۔

خلیفہ نے کہا۔ عوام کو اب بارش کی ضرورت نہیں ہے۔کافی بارش ہو چکی ہے اس لئے اب صحرا جانے سے کوئی فائدہ نہیں ہے۔ امام نے فرمایا: میں یہ بات شک و شبہے دور کرنے کے لئے کہہ رہا ہوں۔

خلیفہ کے حکم سے منگل کے دن عیسائی رہنما اور راہب صحراء گئے۔امام حسن عسکری علیہ السلام بھی ایک بڑے گروہ کے ساتھ صحراء تشریف لے گئے۔عیسائیوں اور ان کے راہبوں نے طلب بارش کے لئے ہاتھ اٹھائے۔آسمان ابر آلود ہو گیا اور بارش ہونے لگی۔امامؑ نے حکم دیا کہ فلاں راہب کے ہاتھوں میں جو چیز ہے وہ اس سے لے لو۔راہب کے ہاتھوں میں ایک سیاہ فام ہڈی کسی انسان کی تھی۔امام نے وہ ہڈی لے لی اور ایک کپڑے میں لپیٹ دی اور راہب سے فرمایا: ذرا اب بارش کے لئے دعا کرو۔راہب نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے۔آسمان پر جو بادل تھے وہ بھی چھٹ گئے، آسمان صاف ہو گیا اور سورج نظر آنے لگا۔ لوگ حیرت سے امامؑ کو دیکھ رہے تھے۔خلیفہ نے امام سے پوچھا کہ یہ کیسی ہڈی ہے؟ امامؑ نے فرمایا: یہ ایک پیغمبر خدا کے جسم کا ٹکڑا ہے جس کو انھوں نے انبیاء کی قبروں سے حاصل کیا ہے۔جب یہ ہڈی زیر آسمان آجاتی ہے تو فورا بارش ہونے لگتی ہے۔سب نے امامؑ کی تعریف کی اور جب ہڈی کو آزمایا گیا تو امامؑ کی بات کو حرف بہ حرف صحیح پایا۔( احقاق الحق جلد ۱۲، ص ۴۶۴۔)

آج بھی دنیا والے، الگ الگ انداز اور طریقوں سے اہل ایمان کو ورغلانے اور منحرف کرنے کے در پے ہیں، تو ایسے حالات میں ہمیں سوجھ بوجھ سے کام لیکر، اپنے زمانے کی حجت خدا سے توسل کرتے ہوئے ، گمراہی کے راستے پر جانے سے بچنے کی کوشش کرنا چاہئے۔

آپ کی نظر میں فکر و تفکر کی عظمت:

لوگ مال و زر کے حصول کے لئے زمین کھو دتے ہیں اور غوطہ خور دریاؤں اور سمندروں کی تہہ میں موجود جواہرات کے حصول کے لئے غوطہ لگاتے ہیں ۔ جبکہ مومن و صاحب تزکیہ حقیقی خزانے کے حصول کے لئے اپنی فکر کے عمیق دریا میں غوطہ ور ہوتا ہے ۔

قالَ عليه السلام : إنّ الْوُصُولَ إلَى اللّهِ عَزَّ وَ جَلَّ سَفَرٌ لايُدْرَكُ إلاّبِامْتِطا ءِ اللَّيْلِ.

با تحقیق خداوند متعال کی معرفت کے عالی مقام تک پہونچنے کے لیے ایک سفر ہے کہ جو حاصل نہیں ہوتا مگر راتوں کو عبادت کرنا اور اس کی رضایت حاصل کرنا ۔( بحارالا نوار: ج 75، ص 380، س 1)

آپ کی نگاہ میں فکر کی عظمت اس قدر ہے کہ آپ نے اسحاق بن اسماعیل کے نام خط لکھا کہ جس میں آپ نے غور و فکر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس میں ارشاد فرمایا : اے اسحاق تم اور تمھارے جیسوں پر خدا کی رحمت ہے اور تم لوگ خدا کی بصیرت کے دائرہ میں ہو ، خدا تم جیسے لوگوں پر اپنی نعمات نازل کرے ۔

پس یقین رکھو اے اسحاق جو شخص اس دنیا سے نابینا جائے گا وہ آخرت میں بھی نابینا حاضر ہو گا ۔ اے اسحاق آنکھیں نابینا نہیں ہونگی بلکہ وہ دل کہ جو سینہ میں ہیں وہ نابینا ہوں گے اور یہ سب انسان کی فکر سے مربوط ہیں جیسا کہ خدا وند متعال نے ارشاد فرمایا : قَالَ كَذٰلِكَ اَتَـتْكَ اٰيَاتُنَا فَـنَسِيْتَـهَا ۖ وَكَذٰلِكَ الْيَوْمَ تُنْسٰى۔ (سورہ طہ، آیہ ۱۲۶)

ارشاد ہوگا کہ اسی طرح ہماری آیتیں تیرے پاس آئیں اور تونے انہیں بھلا دیا تو آج تو بھی نظر انداز کردیا جائے گا۔ یعنی جس نے خدا کے بارے میں غور و فکر نہیں کی تو روز قیامت خدا بھی اسکو نظر انداز کردے گا۔ اسحاق کے نام امام کا خط بتاتا ہے کہ فکر اسلام کی اصل و اساس میں سے ہے جو جتنی فکر کرے گا خدا اسکے اجر و ثواب میں اتنا اضافہ کرے۔

در حقیقت امام حسن عسکری علیہ السلام اس چیز کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ دیکھو زیادہ نمازیں پڑھنا یا زیادہ روزے رکھنا ہی عبادت نہیں ہے بلکہ عبادت وہ ہے جو معرفت اور غور فکر کے ساتھ انجام دی جائے ۔

 قالَ عليه السلام : لَيْسَتِ الْعِبادَةُ كَثْرَةُ الصّيامِ وَالصَّلاةِ، وَ إنَّمَا الْعِبادَةُ كَثْرَةُ التَّفَكُّرِ في مْرِ اللّهِ.. (مستدرك الوسائل : ج 11، ص 183، ح 12690)

زیادہ نمازیں پڑھنا اور روزے رکھنا ہی عبادت نہیں ہے بلکہ عبادت زیادہ فکر کرنا ہے خداوند متعال کی بے انتھا قدرت پر۔

اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہاں نماز و روزہ کی اہمیت کم کی جار ہی ہے بلکہ بتایا یہ جا رہا ہے کہ اگر یہ عبادتیں غور و فکر کے بغیر ہوں تو ان کا اتنا زیادہ فائدہ نہیں جتنا غوروفکر اور معرفت کے بلند مقام تک پہنچ کرعبادت کی معراج حاصل ہوتی ہے۔ لہذا عبادت کے ساتھ غوروفکر ہو تو وہ عبادت قبولیت کی بلندیوں تک پہنچتی ہے۔

امام حسن عسکری علیہ السلام کا شیعوں کے نام اہم پیغام:

امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت کے موقع پر مناسب ہے کہ ہم آپ ؑ کے ان پیغامات کا ایک بار پھر مطالعہ کریں جو آپؑ نے خاص طور پر اپنے شیعوں کے لئے دیئے ہیں ۔

امام حسن عسکری علیہ السلام نے فرمایا:

أُوصیکُمْ بِتَقْوَى اللّهِ وَ الْوَرَعِ فى دینِکُمْ وَالاْجْتَهادِ لِلّهِ وَ صِدْقِ الْحَدیثِ وَ أَداءِ الأَمانَةِ إِلى مَنِ ائْتَمَنَکُمْ مِنْ بَرٍّ أَوْ فاجِر وَ طُولُ السُّجُودِ وَ حُسْنِ الْجَوارِ. فَبِهذا جاءَ مُحَمَّدٌ ( صلى الله علیه وآله وسلم ) صَلُّوا فى عَشائِرِهِمْ وَ اشْهَدُوا جَنائِزَهُمْ وَ عُودُوا مَرْضاهُمْ وَ أَدُّوا حُقُوقَهُمْ، فَإِنَّ الرَّجُلَ مِنْکُمْ إِذا وَرَعَ فى دینِهِ وَ صَدَقَ فى حَدیثِهِ وَ أَدَّى الاَْمانَةَ وَ حَسَّنَ خُلْقَهُ مَعَ النّاسِ قیلَ: هذا شیعِىٌ فَیَسُرُّنى ذلِکَ. إِتَّقُوا اللّهَ وَ کُونُوا زَیْنًا وَ لا تَکُونُوا شَیْنًا، جُرُّوا إِلَیْنا کُلَّ مَوَدَّة وَ ادْفَعُوا عَنّا کُلَّ قَبیح، فَإِنَّهُ ما قیلَ فینا مِنْ حَسَن فَنَحْنُ أَهْلُهُ وَ ما قیلَ فینا مِنْ سُوء فَما نَحْنُ کَذلِکَ.»

«لَناحَقٌّ فى کِتابِ اللّهِ وَ قَرابَةٌ مِنْ رَسُولِ اللّهِ وَ تَطْهیرٌ مِنَ اللّهِ لا یَدَّعیهِ أَحَدٌ غَیْرُنا إِلاّ کَذّابٌ. أَکْثِرُوا ذِکْرَ اللّهِ وَ ذِکْرَ الْمَوْتِ وَ تِلاوَةَ الْقُرانِ وَ الصَّلاةَ عَلَى النَّبِىِّ ( صلى الله علیه وآله وسلم ) فَإِنَّ الصَّلاةَ عَلى رَسُولِ اللّهِ عَشْرُ حَسَنات، إِحْفَظُواما وَصَّیْتُکُمْ بِهِ وَ أَسْتَوْدِعُکُمُ اللّهَ وَ أَقْرَأُ عَلَیْکُمْ السَّلامَ۔

میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ تقواے الہی اور اپنے دین کے متعلق زہد اختیار کرو، خدا کے لئے سعی اور کوشش کرو، جو تمہیں امین سمجھے اس کے سلسلے میں صداقت اور امانتداری کا خیال رکھو(وہ شخص نیک ہو یا بدکار)، سجدوں کو طولانی کرو اور پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کا مظاہرہ کرو۔ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی لئے آئے ہیں۔

ان کی جماعتوں میں نماز ادا کرو اور ان کے جنازوں پر حاضر ہوا کرو اور ان کے بیماروں کی عیادت کرو۔ان کے حقوق کو ادا کرو کیونکہ تم میں سے ہر ایک جب اپنے دین کے تئیں زاہد اور پارسا ، اور اپنی گفتگو میں صادق اور امانتدار اور لوگوں کے ساتھ خوش اخلاق ہوگا تو کہا جائیگا: یہ ایک شیعہ ہے، اور یہی وہ کام ہیں جو ہمیں خوشحال کرتے ہیں۔

تقواے الہی کے دامن کو تھامے رہو، زینت کا سبب بنو، برائی کا نہیں، اپنی تمام دوستی اور محبتوں کو ہم سے ملاؤ اور تمام قبیح کاموں کو ہم سے دور رکھو کیوں کہ ہر اچھی بات جو ہم سے منسوب کی جائے، ہم اس کے اہل ہیں اور ہر بری بات جو ہمارے لئے کہی جاتی ہے ، ہم اس سے بہت دور ہیں۔

کتاب خدا میں ہمارے لئے کچھ حقوق ہیں، اور پیغمبرؐ سے ہماری قرابت ہے۔ خدا نے ہمیں پاک قرار دیا ہے، ہمارے علاوہ کوئی بھی اس مقام کا مدعی نہیں ہے اور اگر کوئی ایسا دعوا کرے تو وہ جھوٹا ہے۔خدا اور موت کو زیادہ یاد کرو، اور قرآن کی زیادہ سے زیادہ تلاوت کرو، اور پیغمبرؐ پر درودو سلام بہت بھیجو کیونکہ پیغمبرؐ پر صلوات بھیجنا، دس نیکیاں رکھتا ہے۔ جو کچھ میں نےتم سے کہا ہے اس کو اپنے پاس محفوظ رکھو، اور تم سب کے خدا کی پناہ میں دیتا ہوں، و سلام ہو تم پر۔(أعيان الشّيعة،جلد 2، صفحه 41)

امام زمانہ کا تعارف کرانا:

اس زمانہ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سچ ہے کہ اس زمانہ میں امام عصر کے بارے میں گفتگوکرنا آسان تھا کیونکہ لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات گھر کر چکی تھی کہ رسول اللہ کی نسل سے کوئی آئگا اور ظلم و جور کی بساط سمیٹ دیگا ، دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیگا . لیکن دوسری طرف عباسی حکومت تھی جواپنے تمام ساز و سامان کے ساتھ اس وعد ئہ الٰہی کی سخت دشمن تھی کیونکہ عباسی حکمرانو ں کا تصور یہ تھا کہ انکی حکومت اس آنے والے کے ہاتھوں جلد ہی نابود ہو جائے گی اور انکا خون ا سکی شمشیر کے چہرہ کی سرخی ہو جائے گا .

ان پر خطر حالات میں اگر امام عسکری ولادت امام عصر کا عمومی اعلان کرتے تو خود امام عصرکی جان کے لئے خطرہ تھا اور اگر امام عصر کی ولادت کی خبر کو چھپا لیتے تو قیامت تک آنے والی امت اپنے امام سے بے خبر رہ جاتی کیونکہ امامت کے سلسلہ کی آخری کڑ ی سے اگر لوگ ناآشنا رہ جاتے تو نظام ہدایت ختم ہو جاتا .امام عسکری کے لئے یہ ایک سنگین مسئلہ تھا ایک طرف امت سے ا سکے ھادی کا تعارف کرانا تھا تو دوسری طرف اس ھادی کی حفاظت بھی کرنا تھی کہ جسکے کاندھوں پر قیامت تک آنے والی نسل انسانی کی ہدایت کا بار تھا ۔

اس سنگین مسئلہ کو صرف اور صرف عقل امام معصوم ہی حل کر سکتی تھی کہ جس میں حکمت اور علم اپنی زیبا ترین شکل میں جلوہ نما تھے ان حالات میں امام نے در میان کی راہ کو اختیار کیا وہ اس طرح کہ نہ تو اس منجی بشریت کی ولادت کا عمومی اعلان ہی کیا اور نا ہی ا سکی آمد کی خبر کو پوری طرح چھپایا امام عسکری سے جو روایات نقل ہوئی ہیں انکے مطالعہ سے امام کی اس حکمت عملی کا بخوبی پتہ چلتا ہے کہ امام نے کس احتیاط کے ساتھ امام عصر کے تعارف کرانے کی ذمہ داری کو انجام دیا ا سکے کچھ نمونے پیش خدمت ہیں : احمد ابن اسحق جو امام عسکری کے خاص صحابی تھے فرماتے ہیں کہ ..۔۔..امام عسکری کی خدمت میں باریابی کا شرف ملا تومیں نے امام سے انکے وارث کے بارے میں سوال کرنا چاہا . لیکن اس سے پہلے ہی امام نے فرمایا:’’ اے ابن اسحق خدا نے اس زمین کو کبھی اپنی حجت سے خالی نہیں چھوڑ ا، اسی کے وجود کی برکت سے بارشیں ہوتی ہیں اور اسی کے ذریعہ اہل زمین سے بلائیں دور ہوتی ہیں . میں نے عرض کیا .ْ اے فرزند رسول آپکے بعد آپکا جانشین کون ہے ؟ امام فوراً گھر میں تشریف لے گئے اور جب لوٹے تو انکے کاندھے پر ایک تین سال کا بچہ تھا جس کا چہرہ ماہ کمال سے زیادہ روشن تھا .امام نے فرمایا . ْ اے ابن اسحق: اگر تم خدا ، رسولؐ اور ا سکی حجتوں کے نزدیک صاحب شرف نا ہوتے توکبھی اپنے بیٹے کو تمہیں نا دکھاتا .جان لو کہ ا سکا نام رسول کا نام اور ا سکی کنیت رسول کی کنیت ہے ؛یہ وہ ہے جو دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیگا . میں نے کہا مولا ا سکی کوئی نشانی بھی ہے جس سے مرے دل کو اطمینان حاصل ہو.اسی وقت اس تین سالہ فخر کائنات نے لبوں کو جنبش دی اور فصیح عربی میں فرمایا ۔۔:انا بقیۃ اللہ فی الارض ومنتقمہ من اعدائہ ۔ میں زمین پر خدا کی حجت ہوں اورمیں ہی ا سکے دشمنوں سے انتقام لونگا اے ابن اسحق ۔ اب جب تم نے اپنی انکھوں سے دیکھ لیا ہے تو ا سکے بعد دلیل کی تلاش میں نہ رہو . احمد . ابن اسحق کہتا ہے کہ میں یہ سننے کے بعد امام کے گھر سے خوشی خوشی رخصت ہوا۔ ۔ ( تحلیلی از زندگی امام عسکری ص ۳۱۴)

اسی طرح محمد بن عثمان، معاویہ بن حکیم اور عمر ابن ابو ایوب نقل کرتے ہیں کہ امام عسکری کے شیعان میں سے ہم چالس لوگ امام کی خدمت میں حاضر ہوے امام نے ہم لوگوں کو اپنے فرزند کی زیارت کرائی او ر فرمایا..؛؛میرے بعد یہ مرا جانشین اور تمہارا امام ہے ؛ا سکی اطاعت کرنا اور مرے بعد اپنے دین سے پھر مت جانا ورنہ گمراہ ہو جاؤگے .جان لو کہ آج کے بعد تم اسے نہیں دیکھو گے (مہدی معجزہ جاویدان ص۸۳)

اولاد کا عقیقہ ایک بہترین سنت اسلامی ہے کہ جسکے لئے بہت تاکید کی گئی ہے .عقیقہ میں بچہ کی سلامتی اور طول عمر کے لئے گوسفند کو ذبح کیا جاتا ہے اور لوگوں کی دعوت کی جاتی ہے . امام عسکری نے بارہا اپنے فرزند کے لئے عقیقہ کیا اور اس سنت کو اپنے بیٹے اور خدا کی آخری حجت کے تعارف کے لئے ذریعہ بنایا . محمد بن ابراہیم کہتا ہے کہ؛امام عسکری نے اپنے ایک شیعہ کے گھر ذبح کیا ہوا گوسفند بھیجا اور فرمایا کہ’یہ میرے بیٹے محمد کا عقیقہ ہے . (نگین آفرینش ص۴۳)

ابوہاشم جعفری کہتا ہے کہ میں نے امام عسکری سے سوال کیا کہ آقا کیا آپکا کوئی فرزند ہے ؟ امام نے فرمایا ؛ہا ں ْ. میں نے پوچھا مولا اگر کوئی اتفاق ہو جائے تو اسے کہاں پاؤں گا ؟ تو امام نے فرمایا مدینہ میں . (رہبر جاویدان ص ۱۷۶)

ا سکے علاوہ اور بھی بہت سی روایات ہیں جو پتہ دیتی ہیں کہ کس احتیاط کے ساتھ امام عسکری نے اپنے بیٹے کی ولادت کی خبر کو دشمنوں سے چھپایا اور دوستوں کو حجت خدا کے وجود سے بے خبر نا رہنے دیا . سلام ہو ہمارا اس امام پر کہ جس نے قیامت تک آ نے والے انسانوں کے لئے انکے ہادی اور رہبر کی شناخت کا سامان مہیا فرمایا۔

امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے بارے پیشنگوئی:

امام حسن عسکری علیہ السلام نے عثمان بن سعید سے فرمایا :

قیامت تک زمین کبھی بھی حجت خدا سے خالی نہیں رہے گے اور ہاں جو بھی امام کی معرفت کے بغیر اس دنیا سے گیا وہ جھالت کی موت مرا ہے ۔ دوسری جگہ آپ ارشاد فرماتے ہیں : روز روشن کی طرح یہ حق ہے امام علیہ السلام سے یہ پوچھا گیا ؟

اے فرزند رسول ﷺ حجت اور امام آپ کے بعد کون ہوگا ؟

آپ نے فرمایا: میرا بیٹا محمد، میرے بعد وہ تم لوگوں کا امام اور حجت ہے جو بھی اس کی معرفت کے بغیر اس دنیا سے جائے جھالت کی موت مرا ہے ۔

روایات میں آیا ہے کہ امام حسن عسکری علیہ السلام نے فرمایا:( سیرزقنى الله ولدا بمنه و لطفه)

بہت جلد خدا اپنے کرم سے مجھے ایک فرزند عطا کرے گا ۔ (بحار الانوار، ج50، ص313)

امام حسن عسکری علیہ السلام جب معتضد عباسی کے زندان میں تھے تو ایک سپاہی سے اپنے بیٹے کی ولادت کے بارے بتایا :

إِي وَ اَللَّهِ سَيَكُونُ لِي وَلَدٌ يَمْلَأُ اَلْأَرْضَ قِسْطاً

خدا کی قسم بہت جلد خدا مجھے بیٹا عطا کرے گا کہ جو زمین کو عدالت سے بھر دے گا ۔( غیبت شیخ طوسی ص 123 )

کہا گیا ہے کہ امام نے اس زندانی سے اس لیے کہا کہ وہ اس بات کو ان شیعوں تک پہنچائے ۔

اور آپ نے اپنی زوجہ حضرت نرجس علیہا السلام سے اس طرح فرمایا: جلد ہی خدا ہمیں ایک بیٹا عطا کرے گا کہ جس کا نام محمد ہے اور وہ میرے بعد قائم ہے ۔( مستدرک وسائل : ج 12 ص 280)

فضل ابن شاذان ، محمد بن عبدالجبار سے روایت کرتے ہیں کہ میں امام حسن عسکری علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا ، اور عرض کی : اے فرزند رسول میری جان آپ پر قربان ، میں جاننا چاہتا ہوں کہ آپ کے بعد لوگوں پر امام اور حجت خدا کون ہے؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا: ان الامام و حجه الله من بعدى ابنى ، سمى رسول الله و کنیه الذى هو خاتم حجج الله و آخر خلفائه .

امام اور حجت خدا میرے بعد میرا بیٹا ہے کہ جس کا نام اور کنیہ رسول اللہ جیسی ہے اور وہ تم پر حجت الہی اور آخری خلیفہ ہیں ۔

میں نے پوچھا اس کی ماں کون ہونگی ؟ آپ نے فرمایا : مِنْ اِبْنَةِ اِبْنِ قَيْصَرَ مَلِكِ اَلرُّومِ أَلاَ إِنَّهُ سَيُولَدُ وَ يَغِيبُ عَنِ اَلنَّاسِ غَيْبَةً طَوِيلَةً ثُمَّ يَظْهَرُ قیصر روم کی پوتی ، ہوشیار رہو کہ وہ جلد ہی پیدا ہونے والا ہے ایک طویل مدت کے لیے لوگوں کی آنکھوں سے پوشیدہ ہونگے اور پھر ظھور کریں گے ۔( اثبات الهداه : ج 3 ص 569)

یہ حدیث ولادت امام زمانہ سے پہلے امام حسن عسکری علیہ السلام سے نقل ہوئی اور مورد اعتماد ہے کیونکہ اس کی سند فضل بن شاذان نے اپنی قیمتی کتاب (اثبات الرجعۃ) میں لکھی ہے ۔فضل بن شاذان اور امام حسن عسکری علیہ السلام میں فقط ایک واسطہ ہے اور وہ بھی محمد بن عبدالجبار کا ،کہ جنہیں شیخ طوسی نےثقہ کہا ہے اور تائید کی ہے ۔ (رجال شیخ طوسى : ص 423 و 435)

حکمیہ خاتون نے نیمہ شعبان کے بارے کہا: کہ ابو محمد نے کسی کو میرے پاس بھیجا اور کہا کہ آج افطار میرے پاس کیجیے گا کہ خدا وند متعال آج اپنی حجت کو اس دنیا میں بھیجے گا ۔

تو جناب حکیمہ خاتون نے سوال کیا اس کی ماں کون ہے تو فرمایا : نرجس خاتون۔ (ینابیع الموده جلد 3 ص 36)

نتیجۃ ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگرچہ امام حسن عسکری علیہ السلام کا زمانہ بہت مشکل تھا اور آپ کو حکومت کی جانب سے طرح طرح کی پابندیوں کا سامنا تھا لیکن اس کے باوجود بھی آپ نے دین کا پیغام پہنچانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی اور باطل کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور اسی طرح لوگوں کو امام زمانہ سے متعارف کرایا اور ان کی غیبت کے سلسلے میں لوگوں کو تیار کیا۔

تمت بالخیر

٭٭٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button