خطبات جمعہمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک(شمارہ:131)

 (بتاریخ: جمعۃ المبارک 14 جنوری 2022ء بمطابق 10   جمادی الثانی   1443 ھ)

آئمہ جمعہ و جماعت سے متعلق ہماری وٹس ایپ براڈکاسٹ لسٹ میں شامل ہونے کے لیے ہمیں وٹس ایپ کریں۔

مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

03465121280

 

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ

اللہ تعالیٰ نے انسان کی ہدایت کے لیے کم و بیش سوا لاکھ انبیاء بھیجے اور سب انبیاء کی دعوت کا مرکز و محور توحید تھا۔ ہر نبی اپنی قوم کو ایک وحدہ لا شریک رب کی طرف بلاتے رہے اور اسی کی عبادت و بندگی اختیار کرنے کا درس دیتے رہے۔ یعنی تمام انبیاء کی دعوت کا نعرہ و شعار لا الہ الا اللہ تھا۔قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ٰ ہے:

وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ قَبۡلِکَ مِنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا نُوۡحِیۡۤ اِلَیۡہِ اَنَّہٗ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّاۤ اَنَا فَاعۡبُدُوۡنِ

اور ہم نے آپ سے پہلے جو بھی رسول بھیجا ہے اس کی طرف یہی وحی کی ہے، بتحقیق میرے سوا کوئی معبود نہیں پس تم صرف میری عبادت کرو۔ (الانبیاءآیۃ 25)

قرآن مجید نے یکتا پرستی اور خدائے واحد کی عبادت کو تمام آسمانی شریعتوں کے درمیان مشترک بنیاد قرار دیتے ہوئے اسی پر جمع ہونے کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا:

قُلۡ یٰۤاَہۡلَ الۡکِتٰبِ تَعَالَوۡا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآءٍۢ بَیۡنَنَا وَ بَیۡنَکُمۡ اَلَّا نَعۡبُدَ اِلَّا اللّٰہَ وَ لَا نُشۡرِکَ بِہٖ شَیۡئًا وَّ لَا یَتَّخِذَ بَعۡضُنَا بَعۡضًا اَرۡبَابًا مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ ؕ فَاِنۡ تَوَلَّوۡا فَقُوۡلُوا اشۡہَدُوۡا بِاَنَّا مُسۡلِمُوۡنَ

کہدیجئے:اے اہل کتاب! اس کلمے کی طرف آ جاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے ، وہ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی بھی چیز کو شریک نہ بنائیں اور اللہ کے سوا آپس میں ایک دوسرے کو اپنا رب نہ بنائیں، پس اگر نہ مانیں تو ان سے کہدیجئے: گواہ رہو ہم تو مسلم ہیں۔ (آل عمران آیۃ64)

یہاں قرآن جس مشترک بنیاد پر جمع ہونے کی دعوت دے رہا ہے وہ یہ ہے کہ "ہم غیر اللہ کی عبادت نہ کریں”۔پس عیسائیوں کو دعوت ہے کہ وہ  مسیح و روح القدس وغیرہ کی پرستش ترک کر کے صرف خدائے واحد کی عبودیت کے پرچم تلے جمع ہو جائیں۔اسی طرح یہودیوں کے لیے یہ کہ وہ حضرت عزیر کو اللہ کا بیٹا کہنا ترک کریں اور دیگر خداؤں کی پرستش چھوڑ کر اللہ کی بندگی کریں۔ کیونکہ توحید تمام ادیان کا نقطۂ اتفاق ہے۔ چنانچہ توریت، توحید کی تعلیمات اور شرک کی ممانعت سے بھری پڑی ہے اور انجیل میں بھی توحید کی تعلیم پائی جاتی ہے۔البتہ اسلام کے علاوہ  دیگر ادیان میں انحراف اور غیر اللہ کی پرستش عام ہونے کے بعد اب توحید پرستی صرف دین اسلام کا خاصہ ہے۔ واضح ہوتا ہے کہ غیر اللہ کی پرستش کرنے والے دائرہ توحید سے نکل کر شرک کے مرتکب ہورہے ہیں۔جبکہ اسلام میں شرک کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔جیسا کہ  رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے صحابی ابن مسعود سے فرمایا :

 يابنَ مَسعودٍ ، إيّاكَ أن تُشرِكَ بِالله طَرفَةَ عَينٍ وإن نُشِرتَ بِالمِنشارِ ، أو قُطِّعتَ ، أو صُلِبتَ ، أو اُحرِقتَ بِالنارِ . (مكارم الأخلاق : ۲ / ۳۵۷ / ۲۶۶۰)  

اے ابن مسعود ؓ!پلک جھپکنے کے لیے بھی کسی کو اللہ کا شریک نہ بناؤ، خواہ تمہیں آروں سے چیرا جائے یا تمہیں ٹکڑے ٹکڑے کردیا جائے، یا سولی پر لٹکادیا جائے، یا آگ میں جلا دیا جائے۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب تمام انبیاء کی دعوت کا مرکز لاالہ الا اللہ رہا ہے اور سب انبیاء ایک ہی خدا کی طرف سے بھیجے گئے اور لوگوں کو اسی کی عبادت کی دعوت دیتے رہے تو پھر لوگ کیوں خدا کی عبادت چھوڑ کر اپنے جیسے انسانوں یا  مختلف مخلوقات یا اپنے  ہاتھوں سے بنائے ہوئے بتوں کی عبادت کرنے لگے؟

یہاں پر تین بنیادی اسباب قابل ذکر ہیں اور ان کے ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کے اذہان سے اس قسم کے وہم و خیال کو ختم کیا جائے تاکہ لوگ توحید پرستی پر قائم رہیں اور عبادت و ربوبیت میں شرک کے مرتکب ہونے سے بچ جائیں۔

پہلا سبب: وہم و گمان کی پیروی:

انسان کی خدا سے دوری کا بڑا سبب اس کی توہم پرستی ہے۔شیطان انسان کو گمراہ کرنے اور اسے خدا سے دور کرنے کے لیےانسان کی  اسی توہم پرستی  سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کو مزید ہوا دیتا ہےاور اسے توحید سےدور کرکے شرک کی وادی میں دھکیل دیتا ہے۔اس توہم پرستی کی وجہ سے وہ غیر اللہ کے خوف کو خود پر سوار کر لیتا ہے اور غیر اللہ سے اپنی ساری توقعات وابستہ کرلیتا ہے۔اپنی توہم پرستی کی وجہ سے وہ کبھی سورج کو رب بنا لیتا ہے اور کبھی چاند یا کسی سیارے کی عبادت کرنے لگتا ہے،کبھی آگ کی اور کبھی دریا کی اور کبھی اپنے ہاتھ سے بنائے بتوں کی پوجا کرنے لگ جاتا ہے۔اسی توہم پرستی کو قرآن نے یوں بیان فرمایا ہے:

اَلَاۤ اِنَّ لِلّٰہِ مَنۡ فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَنۡ فِی الۡاَرۡضِ ؕ وَ مَا یَتَّبِعُ الَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ شُرَکَآءَ ؕ اِنۡ یَّـتَّبِعُوۡنَ اِلَّا الظَّنَّ وَ اِنۡ ہُمۡ اِلَّا یَخۡرُصُوۡنَ﴿۶۶﴾

آگاہ رہو! جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے یقینا سب اللہ کی ملکیت ہے اور جو لوگ اللہ کے سوا دوسرے شریکوں کو پکارتے ہیں وہ کسی چیز کے پیچھے نہیں چلتے بلکہ صرف ظن کے پیچھے چلتے ہیں اور وہ فقط اندازوں سے کام لیتے ہیں۔(یونس:66)

اس آیت میں مشرکین کی خبر لی گئی ہے اور انکی عاجزی و ناتوانی کو ثابت کیا گیا ہے ۔

پہلے ارشاد ہوتا ہے : آگاہ ہو کہ وہ تمام لوگ جو آسمانوں اور زمین میں ہیں خدا کے لئے ہیں ( اور اس کی ملکیت ہیں ) ( اٴَلاَإِنَّ لِلَّہِ مَنْ فِی السَّمَاوَاتِ وَمَنْ فِی الْاٴَرْضِ ) ۔

جہاں اشخاص اس کی ملکیت ہوں اور اس کے لئے ہوں وہاں اشیاء اس جہاں میں بدرجہ اولیٰ اس کی ہیں اور اس کے لئے ہیں اس بناء پر وہ تمام عالم ہستی کا مالک ہے اس حالت میں کیونکہ ممکن ہے کہ اس کے مملوک اس کے شریک ہوں ۔

مزید ارشاد ہوتا ہے : جو لوگ غیر خدا کو اس کا شریک قرار دیتے ہیں وہ دلیل و منطق کی پیروی نہیں کرتے اور ان کے پاس اپنے قول کے لئے کوئی سند اور شاہد نہیں ہے (وَمَا یَتَّبِعُ الَّذِینَ یَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللهِ شُرَکَاءَ ) ۔

وہ صرف بے بنیاد تصورات اور گمانوں کی پیروی کرتے ہیں ( إِنْ یَتَّبِعُونَ إِلاَّ الظَّن) ۔

بلکہ وہ تو صرف تخمینے سے بات کرتے ہیں اور جھوٹ بولتے ہیں(  وَإِنْ ھمْ إِلاَّ یَخْرُصُونَ ) ۔

غیر اللہ کے پاس کچھ ہے نہیں کہ وہ اللہ کے ساتھ شریک ہو جائیں۔ یہ غیر اللہ مشرکین کے وہم و گمان میں مالک ہیں۔ حقیقت میں وہ خود اللہ کے مملوک ہیں۔ مشرکین جن چیزوں کو اللہ کا شریک بناتے ہیں وہ حقیقت کے مقابلے میں ظن وتخمین کے پیچھے چل رہے ہیں اور حقیقت سے عاری ایک موہوم چیز سے اپنی امیدیں وابستہ کرتے ہیں۔

 

دوسرا سبب: مخلوق اور خدا کے درمیان دوری کا وہم:

یہ بھی توہم پرستی ہی کا نتیجہ ہے لیکن اسے الگ ذکر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ بنیادی طور پر یہی وہ وہم تھا جس کی وجہ سے اکثر لوگ بت پرستی کا شکار ہوئے کہ لوگوں میں یہ وہم پیدا ہوگیا تھا کہ خدا مخلوق سے بہت دور اور الگ ہے۔اس وہم کی وجہ سے لوگوں نے اپنے ہاتھوں سے بت تراش کر بنا لیے تاکہ ان بتوں کے زریعے خدا و مخلوق کے درمیان اس دوری  کو ختم کیا جائے ۔

 

تیسرا سبب: مختلف قوتوں کو مختلف خداؤں کے سپرد کرنے کا باطل عقیدہ:

انسان کا توحید سے منحرف ہو جانے کا ایک سبب یہ تھا کہ اس نے نظام کائنات کے مختلف شعبے بنا لیے اور ہر شعبے کے لیے الگ الگ خدا کا باطل عقیدہ بنا لیا۔جیسے سمندر کا خدا ، خشکی کا خدا، جنگ کا خدا اور صلح کا خدا سب الگ الگ بنا لیے۔اسی طرح زمانہ جاہلیت میں کچھ قومیں فرشتوں کی، کچھ جنوں کی ، کچھ سورج یا چاند یا دیگر سیاروں یا آگ وغیرہ کی عبادت و پرستش کرنے لگے اور خدائے واحد کی عبادت و بندگی سے دور ہوتے گئے۔

چوتھا سبب: جہالت و نادانی

خدا سے دوری اور شرک میں مبتلا ہونے کا ایک سبب لوگوں کی جہالت و نادانی بھی تھا۔لوگوں نے اپنی لاعلمی کی وجہ سے مختلف چیزوں کو اللہ کا شریک بنالیا۔ کسی نے جنوں کو اللہ کا شریک بنایا اور کوئی اللہ کی اولاد کے قائل ہوگئے۔ اس سبب کو قرآن نے یوں بیان فرمایا:

وَ جَعَلُوۡا لِلّٰہِ شُرَکَآءَ الۡجِنَّ وَ خَلَقَہُمۡ وَ خَرَقُوۡا لَہٗ بَنِیۡنَ وَ بَنٰتٍۭ بِغَیۡرِ عِلۡمٍ ؕ سُبۡحٰنَہٗ وَ تَعٰلٰی عَمَّا یَصِفُوۡنَ﴿۱۰۰﴾٪

اور ان لوگوں نے جنات کو اللہ کا شریک بنایا حالانکہ اس نے انہیں پیدا کیا ہے اور نادانی (جہالت)سے اللہ کے لیے بیٹے اور بیٹیاں گھڑ ڈالیں، جو باتیں یہ لوگ کہتے ہیں اللہ ان سے پاک اور بالاتر ہے۔(الانعام:100)

جہالت کی احادیث میں مذمت کی گئی ہے ۔ امام علی ؑ نے فرمایا:

جہالت بد ترین بیماری ہے۔ الجَهلُ أدْوَأُ الدّاءِ.(غرر الحكم : ۸۲۰)

دوسری حدیث میں فرمایا:الجَهلُ فَسادُ كُلِّ أمْرٍ. (غرر الحكم : ۹۳۰)جہالت ہر چیز کو برباد کر دیتی ہے۔

جوابات اور رد:

پہلے سبب کا رد:

قرآن نے اس قسم کی وہم پرستی کا یوں جواب دیا:

قُلۡ اَتَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ مَا لَا یَمۡلِکُ لَکُمۡ ضَرًّا وَّ لَا نَفۡعًا ؕ وَ اللّٰہُ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ﴿۷۶﴾

کہدیجئے : کیا تم اللہ کے سوا ایسی چیز کی پرستش کرتے ہو جو تمہارے نقصان اور نفع پر کوئی اختیار نہیں رکھتی؟ اور اللہ ہی خوب سننے ، جاننے والا ہے۔(مائدہ:76)

یعنی انسان کسی ہستی کی عبادت اس لیے کرتا ہے کہ وہ کائنات کی خالق اور مالک ہے۔ اس طرح وہ ہر خیر و شر اور نفع و نقصان کی بھی مالک ہوتی ہے لیکن اگر کوئی چیز کسی بھی خیر و شر کی مالک نہ ہو، وہ خود کسی اور کی مملوک ہو تو وہ خدا کیسے بن سکتی ہے؟

ثانیاً نقصان اور نفع کا ذکر اس لیے کیا ہو کہ اگرچہ عبادت کا معیار، اس کا اہل ہونا اور کمال کا مالک ہونا ہے، لیکن اکثر لوگ ضرر دور کرنے کی خاطر اور خوف کی وجہ سے عبادت کرتے ہیں اور نفع حاصل کرنے کی خاطر عبادت کرنا بھی انسانی سرشت میں موجود ہے۔

اللہ تعالیٰ اس آیہ شریفہ میں فرماتا ہے کہ جن لوگوں یا چیزوں  کی تم پرستش  و عبادت کرتے ہو، وہ نا تو تم سے کوئی  ضرردور کرنے  پر قادر ہیں اور نہ ہی وہ تمہیں کوئی نفع پہنچا سکتے ہیں پھر ان کی عبادت کیوں کرتے ہو ؟ اور اس وحدہ لاشریک ذات کی عبادت کیوں نہیں کرتے جو تمہارے ہر نفع و نقصان کا مالک ہے؟

دوسرے سبب کا رد:

قرآن نے اس وہم کی سختی سے تردید کرتے ہوئے فرمایا:

وَ لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ وَ نَعۡلَمُ مَا تُوَسۡوِسُ بِہٖ نَفۡسُہٗ ۚۖ وَ نَحۡنُ اَقۡرَبُ اِلَیۡہِ مِنۡ حَبۡلِ الۡوَرِیۡدِ

اور بتحقیق انسان کو ہم نے پیدا کیا ہے اور ہم ان وسوسوں کو جانتے ہیں جو اس کے نفس کے اندر اٹھتے ہیں کہ ہم رگ گردن سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں۔ (سورۃ ق آیۃ : 16)

پس اللہ تعالیٰ نے انسان خلق فرمانے کے بعد اسے اپنی حالت پر نہیں چھوڑا ہے بلکہ اس کی خلقت اور بقا دونوں اللہ تعالیٰ پر موقوف ہیں۔ لہٰذا ایسا ہو نہیں سکتا کہ اس کی بقا اور وجود کی کسی بات پر اللہ تعالیٰ کو براہ راست آگاہی نہ ہو۔اللہ تو رگ گردن سے بھی زیادہ انسان کے قریب ہے، جس رگ سے انسان کی حیات کی بقا مربوط ہے کیونکہ اسی سے جسم میں خون کی گردش ہوتی اور زندگی  کو بقاء ملتی ہے جو انسان کے اپنے وجود کے برابر ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ انسان سے خود اس کے اپنے وجود سے زیادہ قریب ہے۔ یہ عام لوگوں کے لیے ایک تشبیہ ہے ورنہ اللہ تعالیٰ انسان سے کتنا قریب ہے یہ بات وصف و بیان میں نہیں آ سکتی۔پس جب اللہ قریب ہے تو وہ انسان کی آواز کو سنتا ہے اور اس کے ہر عمل سے واقف ہے۔ حتی کہ یہا ں تک واضح کرکے فرمادیا کہ:

یَعۡلَمُ خَآئِنَۃَ الۡاَعۡیُنِ وَ مَا تُخۡفِی الصُّدُوۡرُ﴿۱۹﴾

اللہ نگاہوں کی خیانت اور جو کچھ سینوں میں پوشیدہ ہے سے واقف ہے۔(سورۃ غافرآیۃ 19)

تیسرے سبب کا رد:

قرآن نے اس بات کی طرف مختلف مقامات پہ تاکید کی ہے کہ خلق اور تدبیر جدا نہیں ہو سکتے۔ یعنی جو کائنات کا خالق ہے وہی اس کے امور کی تدبیر کرنے والا ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے:

قُلۡ اَرَءَیۡتُمۡ مَّا تَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ اَرُوۡنِیۡ مَاذَا خَلَقُوۡا مِنَ الۡاَرۡضِ اَمۡ لَہُمۡ شِرۡکٌ فِی السَّمٰوٰتِ ؕ اِیۡتُوۡنِیۡ بِکِتٰبٍ مِّنۡ قَبۡلِ ہٰذَاۤ اَوۡ اَثٰرَۃٍ مِّنۡ عِلۡمٍ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ﴿۴﴾

کہدیجئے: یہ تو بتاؤ جنہیں اللہ کے سوا تم پکارتے ہو، مجھے بھی دکھاؤ انہوں نے زمین کی کون سی چیز پیدا کی ہے یا آسمانوں میں ان کی شرکت ہے؟ اگر تم سچے ہو تو اس سے پہلے کی کوئی کتاب یا کوئی باقی ماندہ علمی (ثبوت) میرے سامنے پیش کرو۔(الاحقاف:4)

پس کائنات کو خلق کرنے (تخلیق) اورچلانے (تدبیر) کے دو الگ الگ سرچشمے نہیں ہو سکتے کہ ایک ہستی خلق کرے اور دوسری ہستی تدبیر کرے۔ قرآن نے اس بات کو تکراراً بیان کیا ہے کہ جس نے کائنات کو خلق کیا ہے وہی اس کی تدبیر کر سکتا ہے (چلا سکتا ہے)۔ مشرکین جن ہستیوں اور بتوں کی طرف تدبیر کائنات کی نسبت دیتے تھے، ان سے یہ کہا جا رہا ہے کہ پھران کی طرف سے کچھ خلق بھی ہونا چاہیے۔ اگر ایسا ہے تو مجھے دکھاؤ کہ زمین میں انہوں نے کیا پیدا کیا ہے یا آسمان کی تخلیق میں ان کا کیا حصہ ہے۔ انبیائے سابقین کی کسی کتاب یا ان کی تعلیمات سے اس کا ثبوت پیش کرو، اگرتم اپنے دعوے میں سچے ہو۔

چوتھے سبب کا رد:

قرآن مجید نے اگلی ہی آیت میں لوگوں کی اس جہالت و نادانی کا جواب دیتے ہوئے تنبیہ کی کہ:

بَدِیۡعُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ اَنّٰی یَکُوۡنُ لَہٗ وَلَدٌ وَّ لَمۡ تَکُنۡ لَّہٗ صَاحِبَۃٌ ؕ وَ خَلَقَ کُلَّ شَیۡءٍ ۚ وَ ہُوَ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ﴿۱۰۱﴾

وہ آسمانوں اور زمین کا موجد ہے، اس کا بیٹا کیونکر ہو سکتا ہے جبکہ اس کی کوئی شریک زندگی نہیں ہے اور ہر چیز کو اس نے پیدا کیا ہے اور وہ ہر چیز کا خوب علم رکھتا ہے۔

یعنی اللہ تعالیٰ ہی آسمانوں اور زمین کو عدم سے وجود میں لانے والاہے۔ اس میں کسی اور چیز کی شرکت کا امکان بھی نہیں ہے اور یہ کہ اللہ کے لیے بیٹے بیٹیاں نہیں ہیں کیونکہ اس کا کوئی ہمسر نہیں ہے۔ اولاد تو دو جفتوں سے پیدا ہوتی ہے۔ اللہ کا کوئی جفت نہیں ہے۔ وہ تو ہر چیز کا خالق ہے۔ شان الٰہی کے لیے خالق ہونے میں عظمت ہے، جب کہ صاحب اولاد ہونا غیر ممکن ہونے کے علاوہ شان خداوندی کے منافی بھی ہے۔

پس نتیجہ یہ ہے کہ ہمیں ان تمام کاموں سے پرہیز کرنا ضروری ہے کہ جو توحید اور خدائے واحد کی بندگی سے نکال کر مختلف خداؤں کی پرستش  کا شکار بنا کر صراط مستقیم سے ہٹانے کا سبب بن سکتے ہیں۔

 

 

 

 

 

تمت بالخیر

٭٭٭٭٭

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button