سیرتسیرت امام علی رضاؑ

حیات امام ثامن علی ابن موسیٰ الرضاؑ کے چند پہلو (ساتواں پہلو)

سیرت اور آپ پر لکھی جانے والی کتب کا تعارف
عبادات میں آپ کی سیرت:
امام رضا علیہ السلام کی عملی سیرت میں آیا ہے کہ آپ علیہ السلام مختلف مکاتب فکر اور ادیان و مذاہب کے دانشوروں کے ساتھ ہونے والے گرما گرم مناظرات کے دوران بھی جیسے ہی اذان سنائی دیتی مناظرے کو متوقف فرماتے تھے اور جب مناظرے کو جاری رکھنے سے متعلق لوگ اصرار کرتے تو فرماتے:نماز پڑھ کر دوبارہ واپس آتا ہوں۔
(عیون اخبار الرضا، ج 1 ص 172)
رات کی تاریکی میں عبادات کی انجام دہی اور آپ علیہ السلام کی شب بیداری سے متعلق متعدد روایات نقل ہوئی ہیں۔
(عيون أخبار الرضا، ج 2 ص 184)
دعبل خزاعی کو اپنا کرتہ ہدیہ کے طور پر دیتے وقت اس سے مخاطب ہو کر فرمایا: اس کرتے کی حفاظت کرو ! میں نے اس کرتے میں ہزار راتوں میں ہزار رکعت نماز اور ہزار ختم قرآن انجام دیئے ہیں۔
(الامالی للشیخ الطوسی، ص 359)
آپ کے طولانی سجدوں کے بارے میں بھی روایات نقل ہوئی ہیں۔
(عيون أخبار الرضا، ج 2 ص 17)
اخلاق میں آپ کی سیرت:
لوگوں کے ساتھ آپ علیہ السلام کی حسن معاشرت کے متعدد نمونے تاریخ میں نقل ہوئے ہیں۔ حتی مامون کی ولی عہدی قبول کرنے کے بعد بھی غلاموں اور ماتحتوں کے ساتھ محبت آمیز رویہ اختیار کرنا اور ان کو دسترخوان پر اپنے ساتھ بٹھانا۔
(عيون أخبار الرضا علیہ السلام، ج 2 ص 159)
اس سلسلے کی چند ایک مثالیں ہیں۔
ابن شہر آشوب نقل کرتے ہیں کہ ایک دن امام علیہ السلام حمام تشریف لے گئے اور وہاں پر موجود افراد میں سے ایک جو امام کو نہیں پہچانتا تھا، امام سے مالش کرنے کی درخواست کی جسے آپ نے قبول فرمایا اور مالش کرنا شروع کیا، جب لوگوں نے یہ دیکھا تو اس شخص کیلئے آپ کی معرفی کی، جب وہ شخص اپنے کیے پر شرمندہ ہوا اور معذرت خواہی کی تو امام نے اسے خاموش کرایا اور مالش جاری رکھی۔
(مناقب آل ابی طالب ، ج 4 ص 362)
تربیتی امور میں آپ کی سیرت:
آپ علیہ السلام کی سیرت میں بچوں کی تربیت کے حوالے سے خاندان کے کلیدی کردار پر بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔ اسی تناظر میں صالح اور نیک بیوی سے شادی کی ضرورت، حمل کے ایام میں خصوصی توجہ، اچھے ناموں کا انتخاب، اور بچوں کے احترام وغیرہ پر تاکید ہوئی ہے۔
(الکافی ، ج 5 ص 327، الکافی ، ج 6 ص 23، الکافی، ج 6 ص 19، مستدرک الوسائل ، ج 15 ص 170)
اسی طرح رشتہ داروں کے ساتھ رفت و آمد اور ان کے ساتھ انس پیدا کرنا بھی آپ کی سیرت میں نمایاں طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
اس حوالے سے منقول ہے کہ جب بھی امام کو فراغت حاصل ہوتی تو آپ اپنے رشتہ داروں؛ چھوٹے بڑے سب کو جمع کرتے اور ان کے ساتھ گفتگو میں مشغول ہوتے تھے۔
(عيون أخبار الرضا ، ج 2 ص 159)
قال الرضا علیہ السلام:لَا تَدَعُوا الْعَمَلَ الصَّالِحَ وَ الِاجْتِہادَ فِي الْعِبَادَۃ اتِّكَالًا عَلَى حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ علیہ السلام؛ لَا تَدَعُوا حُبَّ آلِ مُحَمَّدٍ علیہ السلام وَ التَّسْلِيمَ لِأَمْرِھمْ اتِّكَالًا عَلَى الْعِبَادَۃ فَإِنَّہ لَا يُقْبَلُ أَحَدُھمَا دُونَ الْآخَر
آل ‌محمد ﷺ کی دوستی کے بہانے نیک کاموں کی انجام دہی اور خدا کی عبادت میں سعی و تلاش سے دریغ مت کرو، اسی طرح اپنی عبادت پر مغرور ہو کر آل ‌محمد ﷺ کی دوستی اور ان کے اوامر کے سامنے سر تسلیم خم کرنے سے پرہیز مت کرو، کیونکہ ان دونوں میں سے کوئی ایک بھی دوسرے کے بغیر قابل قبول نہیں ہے۔
(بحار الأنوار، ج 75 ص 348)
تعلیم و تعلم میں آپ کی سیرت:
مدینے میں قیام کے دوران امام رضا علیہ السلام مسجد نبوی میں تشریف فرما ہوتے اور مختلف سوالات اور مسائل میں جواب دینے سے عاجز آنے والے حضرات آپ سے رجوع کرتے تھے۔
(طبرسی، اعلام الوری، ج 2 ص 64)
"مرو” پہنچنے کی بعد بھی مناظرات کی شکل میں بہت سارے شبہات اور سوالوں کے جواب مرحمت فرماتے تھے۔ اس کے علاوہ امام علیہ السلام نے اپنی اقامت گاہ اور مرو کی مسجد میں ایک حوزہ علمیہ بھی قائم کیا ہوا تھا لیکن جب آپ کی علمی محفل رونق پیدا کرنے لگا تو مامون نے انقلاب کے خوف سے ان محفلوں پر پابندی لگا دی جس پر آپ نے مامون کو بد دعا بھی دی تھی۔
(عیون اخبار الرضا ، ج 2 ص 172)
طب اسلامی اور حفظان صحت کے اصولوں پر خصوصی توجہ دینا امام رضا علیہ السلام کی احادیث میں نمایاں طور پر دیکھا جاتا سکتا ہے۔ ان احادیث میں اسی موضوع سے مربوط مفاہیم کی تبیین کے ساتھ ساتھ پرہیز، مناسب خوراک، حفظان صحت کی رعایت اور مختلف بیماریوں کے علاج کی طرف بھی اشارہ فرمایا ہے۔رسالہ ذہبیہ نامی کتاب طب الرضا کے نام سے آپ کی طرف منسوب ہے، جس میں اس حوالے سے مختلف تجاویز پائی جاتی ہیں۔
امام رضا علیہ السلام کا امامت کی بحث میں تقیہ نہ کرنا:
امام رضا علیہ السلام کے دور امامت میں کسی حد تک تقیہ کی خاص ضرورت محسوس نہیں کی جاتی تھی کیونکہ واقفیہ کی پیدائش جیسے واقعے نے شیعوں کو ایک سنگین خطرے سے دوچار کیا تھا۔ اس کے علاوہ فطحیہ فرقے کے بچے کھچے افراد بھی امام رضا علیہ السلام کے دور امامت میں فعال تھے۔ان شرائط کو مد نظر رکھتے ہوئے امام علیہ السلام نے کسی حد تک تقیہ کی حکمت عملی اپنانے سے پرہیز کرتے ہوئے، امامت کے مختلف ابعاد کو صراحت کے ساتھ بیان فرماتے تھے۔مثلا امام کی اطاعت کا واجب ہونا، اگرچہ امام صادق علیہ السلام کے دور سے دینی اور کلامی محافل میں بیان ہوتے تھے لیکن اس مسئلے میں ائمہ معصومین تقیہ کرتے تھے لیکن امام رضا علیہ السلام جیسا کہ احادیث میں آیا ہے ظالم و جابر حکمرانوں سے کسی خوف کا احساس کیے بغیر اپنے آپ کو واجب الطاعۃ امام معرفی کرتے تھے۔
(الکافی ، ج 1 ص 187)
جیسا کہ علی ابن ابی حمزہ بطائنی جو کہ واقفیہ مذہب کی بنیاد رکھنے والوں میں سے تھا،‌ نے جب امام سے سوال کیا: آیا کیا آپ واجب الاطاعت امام ہو ؟ تو امام نے فرمایا: ہاں ،
(رجال کشی، ص 463)
اسی طرح ایک اور شخص جس نے یہی سوال دہراتے ہوئے کہا: آیا علی ابن ابی طالب کی طرح واجب الاطاعت ہو ؟ نیز آپ نے یہی جواب دیا ہاں، میں اسی طرح واجب الاطاعت ہوں۔
(اصول کافی ، ج 1 ص 187)
لیکن ساتھ ساتھ امام علیہ السلام اپنے چاہنے والوں سے فرماتے تھے کہ تقوا اختیار کرو اور ہماری احادیث کو ہر کس و ناکس کے سامنے بیان کرنے سے پرہیز کرو۔
(الکافی ، ج 2 ص 224)
اسی طرح جب مأمون نے امام علیہ السلام سے اسلام ناب محمدی کے بارے میں بتانے کا مطالبہ کیا تو آپ نے توحید اور پیغمبر اسلام کی نبوت کے بعد امام علی علیہ السلام کی جانشینی پھر آپ کے بعد آپ کی نسل سے گیارہ اماموں کی امامت پر تصریح فرماتے ہوئے فرمایا کہ امام القائم بامر المسلمین یعنی امام مسلمانوں کے امور کا اہتمام کرنے والا ہے۔
(عيون أخبار الرضا، ج‏ 2 ص 122)
امام رضا علیہ السلام سے منسوب کتابیں:
امام رضا علیہ السلام سے متعدد حدیثیں نقل ہوئی ہیں اور جن لوگوں نے علوم و معارف کے مسائل سمجھنے کے لیے جو سوالات آپ سے پوچھے تھے، جن کے جوابات کتب حدیث میں نقل ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر شیخ صدوق نے ان حدیثوں اور جوابات کو اپنی کتاب عیون اخبار الرضا میں اکٹھا کیا ہے۔علاوہ ازیں بعض تالیفات اور کتب بھی آپ سے منسوب کی گئی ہیں گو کہ اس انتساب کے اثبات کے لیے کافی و شافی دلیلوں کی ضرورت ہے چنانچہ ان میں سے بعض تالیفات کا انتساب ثابت کرنا ممکن نہیں ہے جیسے:
فقہ الرضا:
علماء اور محققین نے امام رضا علیہ السلام سے اس کتاب کے انتساب کی صحت تسلیم نہیں کی ہے۔
(تحلیلی از زندگانی امام رضا علیہ السلام، ترجمہ محمد صادق عارف، ص 187)
رسالہ الذہبیہ:
امام رضا علیہ السلام سے منسوب ہے جس کا موضوع "علم طبّ” ہے۔ مروی ہے کہ امام علیہ السلام نے یہ رسالہ سن 201 ہجری میں لکھ کر مأمون کے لیے بھجوایااور مأمون نے رسالے کی اہمیت ظاہر کرنے کی غرض سے ہدایت کی کہ اسے سونے کے پانی سے تحریر کیا جائے اور اسے "دار الحکمہ” کے خزانے میں رکھا جائے اور اسی بناء پر اسے رسالہ ذہبیہ کہا جاتا ہے۔ بہت سے علماء نے اس رسالے پر شرحیں لکھی ہیں۔
(فضل الله ، تحلیلی از زندگانی امام رضا علیہ السلام، ترجمہ محمدصادق عارف، ص 191 ، 196)
صحیفہ الرضا:
امام رضا علیہ السلام سے منسوب دیگر تالیفات میں سے ہے کہ جو فقہ کے موضوع پر لکھی گئی ہیں گو کہ علماء کے نزدیک یہ انتساب ثابت نہيں ہو سکا ہے۔
(تحلیلی از زندگانی امام رضا علیہ السلام، ترجمہ محمدصادق عارف، ص 196)
محض الاسلام و شرائع الدین:
جسے امام رضا علیہ السلام سے منسوب کیا گیا ہے ہے لیکن بظاہر امام علیہ السلام سے اس کا انتساب قابل اعتماد نہیں ہے۔
(تحلیلی از زندگانی امام رضا علیہ السلام، ترجمہ محمدصادق عارف، ص 197 ، 198)
امام رضا علیہ السلام کے اصحاب:
بعض اہل قلم نے 367 افراد کو آپ کے اصحاب اور راویان حدیث کے زمرے میں قرار دیا ہے۔
(حیاۃ الامام علی بن موسی الرضا علیہ السلام، ج 2 ص 345)
ان میں سے بعض کے نام درج ذیل ہیں:یونس ابن عبد الرحمن،موفق (خادم امام رضا)،علی ابن مہزیار،صفوان ابن یحیی،محمد ابن سنان،زکریا ابن آدم،ریان ابن صلت،دعبل ابن علی
اہل سنت کے یہاں امام رضا علیہ السلام کا مقام:
اہل ‌سنت کے بعض بزرگوں نے امام رضا علیہ السلام کے نسب اور علم و فضل کی تعریف اور زیارت کیلئے حرم امام رضا علیہ السلام جایا کرتے تھے۔
(تہذیب التہذیب ، ج 7 ص 389، مرآۃ الجنان ، ج 2 ص 10)
ابن حبان نے کہا ہے کہ وہ کئی دفعہ مشہد میں علی ابن موسی کی زیارت کیلئے گیا اور آپ سے توسل کے نتیجے میں اسکی مشکلات برطرف ہو جاتی تھیں۔
(الثقات ، ج 8 ص 457)
اسی طرح ابن حجر عسقلانی نے نقل کیا ہے کہ ابو بکر بن خزیمہ کہ جو اہل حدیث کا امام ہے اور ابو علی ثقفی اہل سنت کے دیگر بزرگان کے ساتھ امام رضا علیہ السلام کی زیارت کو گئے ہیں۔ راوی (جس نے خود اس حکایت کو ابن حجر کیلئے بیان کی) کہتا ہے کہ:ابو بکر ابن خزیمہ نے اس قدر اس روضے کی تعظیم اور وہاں پر راز و نیاز اور فروتنی کا اظہار کیا کہ ہم سب حیران ہو گئے۔
(تہذیب التہذیب ، ج 7 ص 388)
ابن نجار امام رضا علیہ السلام کے علمی کمالات اور دینی بصیرت کے حوالے سے لکھتا ہے کہ:آپ علیہ السلام علم اور فہم دین میں ایک ایسے مقام پر فائز تھے کہ 20 سال کی عمر میں مسجد نبوی میں بیٹھ کر فتوا دیا کرتے تھے۔
(ذیل تاریخ بغداد ، ج 4 ص 135، تہذیب التہذیب ، ج 7 ص 387)
https://www.valiasr-aj.com/urdu

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button