مدینہ کی عورتوں سے جناب سیدہ فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا کا خطاب
وقال سوید بن غفلة لما مرضت فاطمة الزهراء المرضة التي توفیت فیها اجتمعت الیها نساء المهاجرین والانصار لیعدنها ،فسلمن علیها فقلن لها کیف اصبحت من علتک یابنة رسول اللّٰه،فحمدت اللّٰه وصلت علی ابیها المصطفیٰ(ص) ثم قالت اٴصبحت واللّٰه عائفة لدنیاکن قالیة لرجالکن لفظتهم بعد اٴن عجمتهم و شناٴتهم بعد ان سبرتهم فقبحا لفلول الحد واللعب بعد الجد، وقرع الصفاة وصدع القناة وخطل الآراء وزلل الاٴهواء، ولبئسما قدمت لهم انفسهم اٴن سخط اللّٰه علیهم وفی العذاب هم خالدون ، لا جرم والله لقد قلدتهم ربقتها وحملتهم اٴوقتها وشننت علیهم غارتها فجدعا وعقرا وبعدا للقوم الظالمین
مدینہ کی عورتوں سے خطاب
سوید بن غفلہ کہتے ہیں کہ جس وقت جناب فاطمہ زہراء(س)مریض ہوئیں اور آپ کا مرض اس قدر بڑھا کہ اسی مرض میں اس دنیا سے رحلت کرگئیں، اس وقت مہاجرین اور انصار کی عورتیں بی بی کی عیادت کے لئے آئیں اور جناب سیدہ کو سلام کیا اور آپ کی احوال پرسی کی تو آپ نے ان سے مخاطب ہوکر پہلے خداوند عالم کی حمد وثنا کی اور اپنے باپ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر درود و سلام بھیجا اور فرمایا:
”بخدا میری زندگی اس حال میں ہے کہ میں تمہاری زندگی کو دوست نہیں رکھتی اور تمہارے مَردوں سے بیزار ہوں، ان کو آزمانے کے بعد چھوڑ دیا ہے اور ان کی بدنیتوں اور بری عادتوں کی بناپر ان سے دوری اختیار کرلی ہے۔
کتنی بری بات ہے کہ انسان ہدایت یافتہ ہونے کے بعد بھی ضلالت وگمراہی کے راستہ پر چلے، حق اور نور و ہدایت کو حاصل کرنے کے بعد ظلمتوں اور تاریکیوں میں جا پھنسے،وائے ہو ان لوگوں پر جو حق وحقیقت کی راہ اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بتائے ہوئے راستہ کو چھوڑ کر گمراہ ہوجائیں! اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ابن عم (علی علیہ السلام) سے کنارہ کشی کرلیں، وہ علی علیہ السلام جو باب مدینۃ العلم، مظہر تقویٰ وعدالت ، صاحب شجاعت و حقیقت ہیں۔
ویحهم اٴنّی زعزعوها عن رواسی الرسالة، وقواعد النبوة والدلالة ومهبط الروح الامین والطبین باٴمور الدنیا والدین ” اٴلا ذلک هو الخسران المبین "
الزمر:15
وما الذی نقموا من اٴبی الحسن علیه السلام ا نقموا منه واللّٰه نکیر سیفه وقلة مبالاته بحتفه وشدة وطاٴته ونکال وقعته وتنمره فی ذات اللّٰه عزّ وجلّ وتاللّٰه لو مالوا عن المحجة اللائحة وزالوا عن قبول الحجة الواضحة لردهم الیها وحملهم علیها ولسار بهم سیراً سجحا لایکلم حشاشه ولا یکل سائره ولا یمل راکبه ولاٴوردهم منهلا نمیرا صافیا رویا فضفاضاً تطفح ضفتاه ولا یترنق جانباه ولاٴصدرهم بطانا ونصح لهم سرا واعلانا، ولم یکن یتحلی من الدنیا بطائل ولا یحظی منها بنائل غیر ري الناهل وشبعة الکافل ولبان لهم الزاهد من الراغب والصادق من الکاذب
کس قدر برا ہے (دنیا میں بھی) خدا ان پر غضبناک ہوا اور آخرت میں بھی ہمیشہ عذاب میں رہیں گے۔
واقعاً کس قدر تعجب کا مقام ہے:
ان لوگوں نے کس طریقہ سے میرے ابن عم علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو تنہا چھوڑکر خلافت کی مہار دوسروں کے گلے میں ڈال دی اور آپ کی مخالفت کرکے جدا ہوگئے، اور ان سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔واقعاً افسوس کا مقام ہے کہ میرے ابن عم کو خانہ نشین بنادیا اور ان کے قتل کے درپے ہوگئے اور واقعاً تعجب ہے کہ انہوں نے رسالت کے ستون اور بنیاد کو چھوڑ دیا، وحی کی جائے نزول کو ترک کردیا اور دنیا کے لئے دین میں اختلاف کرڈالا، ”آگاہ ہوجاؤ کہ یہی لوگ خسارے میں ہیں۔“
خدا کی قسم ! ان سے دوری کی وجہ ان کی تلوار سے خوف و وحشت تھی،کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام قوانین اسلامی کو جاری کرنے اور حق وحقیقت کے فیصلہ کرنے میں ذرہ برابر بھی رعایت نہیں کرتے ہیں، اور تمام تر شدت اور کمالِ شجاعت واستقامت سے خداوندعالم کے احکامات کو تمام چیزوں میں جاری کرتے ہیں۔
اور اگر وہ لوگ حضرت کی پیروی کرتے تو وہ راہ مستقیم اور ہمیشگی سعادت اور دائمی خوش بختی کی طرف ہدایت کرتے، اور دیکھتے کہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام ان کو بہترین طریقہ سے سیراب کرتے اور ان کو بھوک سے نجات دیتے،اور ان کی مشکلات کو دور کرتے اس طرح سے لوگوں کے ساتھ برتاؤ کرتے کہ صادق اور کاذب (جھوٹے) میں تمیز ہوجاتی اور زاہد اور لالچی میں پہچان ہوجاتی۔
ولو ان اهل القریٰ آمنوا واتقوا لفتحنا علیهم برکات من السماء والاٴرض ولکن کذبوا فاٴخذناهم بما کانوا یکسبون
الاعراف: ۶۹
اور اگر ان بستیوں کے رہنے والے ایمان لاتے اورپرہیزگار بنتے تو ہم ان پر آسمان وزمین کی برکتوں (کے دروازے) کھول دیتے مگر (افسوس) ان لوگوں نے (ہمارے پیغمبروں کو) جھٹلایا تو ہم نے بھی ان کی کرتوتوں کی بدولت ان کو (عذاب میں) گرفتار کیا۔
وَ الَّذِینَ ظَلَمُوا مِن ہٰۤؤُلَآءِ سَیُصِیبُہُم سَیِّاٰتُ مَا کَسَبُوا وَ مَا ہُم بِمُعجِزِینَ
اور جن لوگوں نے نافرمانیاں کی ہیں انہیں بھی اپنے اپنے اعمال کی سزائیں بھگتنی پڑیں گی اور یہ لوگ خدا کو عاجز نہیں کرسکتے۔
الزمر: ۵۱
اٴلا هلم فاستمع وما عشت اراک الدهر عجبا، وإن تعجب فعجب قولهم لیت شعری الی ایّ سناد استندوا وإلی اٴی عماد اعتمدوا وباٴیة عروة تمسکوا وعلی اٴیة ذریة قدموا واحتنکوا لبئس المولی ولبئس العشیر وبئس للظالمین بدلا
آگاہ ہوجاؤ کہ مجھے زمانہ پر تعجب نہیں ہے اور ا گرتمہیں تعجب ہے تو دیکھ لو کہ (حق سے منحرف ان) لوگوں نے کس راستہ کا انتخاب کیا ، کس دلیل کے ذریعہ استدلال کیا اور کن باتوں پر بھروسہ کیا، اور کس بل بوتےپر اقدام کیا اور غالب ہوگئے، کس کا انتخاب کیا اور کس (عظیم شخصیت) کو چھوڑ دیا۔بے شک ایسا مالک بھی برا ہے اور ایسا رفیق بھی براہے۔اور ظالمین کو برا ہی بدلا دیا جائے گا۔
استبدلوا و اللّٰه الذنابیٰ بالقوادم والعجز بالکاهل فرغما لمعاطس قومٍ”یحسبون انهم یحسنون صنعا "
تم لوگوں نے کمزوروں کو طاقتور بنادیا اور کمزوری کو طاقت سے بدل دیا، مغلوب اور ذلیل وہ قوم”جو اس خیال خام میں ہے کہ وہ یقینا اچھے اچھے کام کررہے ہیں“۔
الکہف: ۱۰۴
اَلَاۤ اِنَّہُم ہُمُ المُفسِدُونَ وَ لٰکِنۡ لَّا یَشعُرُونَ
یاد رہے! فسادی تو یہی لوگ ہیں، لیکن وہ اس کا شعور نہیں رکھتے۔
البقرہ: ۱۲
ویحهم( اٴ فمن یهدی إلی الحق اٴحق اٴن یتبع اٴم من لا یهدِّی إلا اٴن یهدی فما لکم کیف تحکمون )
یونس: ۳۵
افسوس ہے ان پر ” پھر (بتاؤ کہ ) جو حق کی راہ دکھاتا ہے وہ اس بات کا زیادہ حقدار ہے کہ اس کی پیروی کی جائے یا وہ جو خود اپنی راہ نہیں پاتا جب تک اس کی رہنمائی نہ کی جائے ؟ تمہیں کیا ہو گیا ہے تم کیسے فیصلے کر رہے ہو؟”
اما لعمری لقد لقحت فنظرة ریثما تنتج، ثم احتلبوا ملٴ القعب دما عبیطا وذعافا مبیدا، هنالک یخسر المبطلون ویعرف التالون غب ما اٴسس الاٴولون ثم طیبوا عن دنیاکم نفسا واطمئنوا للفتنة جاشا واٴبشروا بسیف صارم، وسطوة معتد غاشم وبهرج دائمٍ شامل واستبداد من الظالمین یدع فیاٴکم زهیدا وجمعکم حصیدا، فیا حسرتی لکم واٴنی بکم وقد عمیت علیکم،
"اٴنلزمکموها واٴنتم لها کارهون "
ھود : ۲۸
اپنی جان کی قسم ان لوگوں کے کارناموں کے نتائج برے نکلے جس کی بناپر انہیں شدید فتنہ وفساد سے دوچار ہونا پڑا، اور زہر ہلاہل پینا پڑا ، پس باطل خسارے میں ہیں اور باطل چہرے بے نقاب ہوگئے، آخر کار اس فتنہ وفساد کی بنیاد ڈالنے والے خودہی اس کا مزہ چکھیں گے،وہ یہ فتنہ برپا کرکے مطمئن ہوگئے، کیونکہ ظالمین نے ہی اس آگ کو بھڑکایا، ننگی تلواریں چھوڑیں، یہاں تک ایک دوسرے پر غلبہ کرنے لگے، اور تمہارے گروہ کو حقیر سمجھا گیا اور تمھارا سب کچھ برباد کردیا گیا، واقعاً افسوس کا مقام ہے، خدا تمہاری ہدایت کرے، تمہارے دل ٹیڑھے ہوگئے ہیں، ” کیا ہم تمہیں اس پر مجبور کر سکتے ہیں جبکہ تم اسے ناپسند کرتے ہو؟ “۔
قال سوید بن غفلة فاٴعادت النساء قولها (ع) علی رجالهن فجاء الیها قوم من المهاجرین والانصار معتذرین وقالوا یا سیدة النساء لوکان اٴبو الحسن ذکر لنا هذا الاٴمر من قبل اٴن یبرم العهد ویحکم العقد لما عدلنا عنه إلی غیره، فقالت علیها السلام الیکم عنی، فلا عذر بعد تعذیرکم ولا امر بعد تقصیرکم
احتجاج طبرسی، ص ۷۹؛دلائل الامامة، ص ۳۰؛ کشف الغمہ، ج۱، ص۱۸۰؛ بحار الانوار، ج۲۹، ص ۲۳۰؛ شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدید، ج۱۶، ص ۲۱۱
سوید بن غفلہ کہتے ہیں کہ یہ خطبہ سن کر عورتیں واپس چلی گئیں اور سب کچھ اپنے مردوں سے بیان کیا تو ان میں سے مہاجرین وانصار کے بعض لوگ عذر خواہی کے لئے بی بی دوعالم کے پاس آئے اور کہا کہ اے سیدة نساء العالمین، اگر ہماری بیعت سے پہلے ابوالحسن نے ہم کو یہ سب کچھ بتایا ہوتا تو پھر ہم ایسا نہ کرتے اور آپ سے دور نہ ہوتے۔تب حضرت زہراء سلام اللہ علیھانے فرمایا: تم لوگ یہاں سے چلے جاؤ کیونکہ تمہاری خطائیں قابل بخشش نہیں ہیں۔
خطبات فاطمہ زہراء ،ص5،6