سیرتسیرت حضرت فاطمۃ الزھراؑ

تسبیح حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کی فضیلت

حضرت فاطمہ زھراء سلام اللہ علیھا کی زندگی بہترین اسوہ ہے آپ نے جہالت کی تاریکیوں میں علم و شعور کے چراغ کو روشن کیا اور عملی سیرت کے زریعے انسانوں کی ہدایت کی ۔ آپ کے فضائل و مناقب کا انکار کسی بشر کے لئے ممکن ہی نہیں ہے ـ آپ کی عزت و عظمت اور منزلت کے لئے یہ حدیث قدسی کافی ہے۔
"لولاک لما خلقت الافلاک ولولا علی لما خلقتک ولولا فاطمہ لما خلقتما”
اے میرے حبیبؐ اگر آپ نہ ہوتے تو افلاک کو خلق نہ کرتا اور اگر علیؑ نہ ہوتے تو آپ کو خلق نہ کرتا اور اگر فاطمہؑ نہ ہوتیں تو آپ دونوں کو خلق نہ کرتا۔
اس کے علاوہ کثیر آیات قرانی اور احادیث معصومین علیھم السلام میں آپ کے بے شمار فضائل وارد ہوئے ہیں جن کا احصاء انسان کی قدرت سے باہر ہے۔ انہی مناقب میں سے ایک آپ کے نام سے منسوب تسبیح ہے جو گناہوں کی بخشش کا ذریعہ ہے۔
تسبیح فاطمہؑ کی اہمیت اور فضیلت کو صرف خاندان عصمت و طہارت کی لسان وحی سے ہی سمجھا جاسکتا ہے۔
اس تسبیح کے سلسلے میں وارد ہونے والی چند حدیثیں ملاحظہ ہوں:
شیخ صدوق قدس سر کتاب علل اشرایع میں نقل کرتے ہیں کہ : عن علي صلوات الله عليه أنه قال لرجل من بني سعد: ألا احدثك عني وعن فاطمة ؟ إنها كانت عندي وكانت من أحب أهله إليه، وإنها استقت بالقربة حتى أثر في صدرها وطحنت بالرحى حتى مجلت يداها، وكسحت البيت حتى اغبرت ثيابها، وأوقدت النار تحت القدر حتى دكنت ثيابها، فأصابها من ذلك ضرر شديد، فقلت لها: لو أتيت أباك فسألتيه خادما يكفيك حرما أنت فيه من هذا العمل ۔ فأتت النبي صلى الله عليه وآله فوجدت عنده حداثا فاستحت فانصرفت، قال: فعلم النبي صلى الله عليه وآله أنها جاءت لحاجة، قال: فغدا علينا ونحن في لفاعنا، فقال: السلام عليكم، فسكتنا واستحيينا لمكاننا، ثم قال: السلام عليكم فسكتنا، ثم قال: السلام عليكم فخشينا إن لم نرد عليه أن ينصرف، وقد كان يفعل ذلك يؤسلم ثلاثا فان اذن له وإلا انصرف فقلت: وعليك السلام يا رسول الله صلى الله عليه وآله ادخل. فلم يعد أن جلس عند رؤوسنا، فقال: يا فاطمة ما كانت حاجتك أمس عند محمد، قال: فخشيت إن لم تجبه أن يقوم قال: فأخرجت رأسي فقلت: أنا والله اخبرك يا رسول الله صلى الله عليه وآله إنها استقت بالقربة حتى أثر في صدرها، وجرت بالرحا حتى مجلت يداها وكسحت البيت حتى اغبرت ثيابها، وأوقدت تحت القدر حتى دكنت ثيابها فقلت لها: لو أتيت أباك فسألتيه خادما يكفيك حرما أنت فيه من هذا العمل. قال صلى الله عليه وآله: أفلا اعلمكما ما هو خير لكما من الخادم ؟ إذا أخذتما منامكما فسبحا ثلاثا وثلاثين، واحمدا ثلاثا وثلاثين، وكبرا أربعا وثلاثين، قال: فأخرجت عليها السلام رأسها فقالت: رضيت عن الله ورسوله، رضيت عن الله ورسوله، رضيت عن الله ورسوله
)علل الشرايع ج 2 ص 54 – 55 ، من لا یحضره الفقیه، ج1، ص 211، ح 32، بحارالانوار، ج 82، ص 329(
امیر المومنین علی علیہ السلام سے روایت ہے کہ انہوں نے ’’ بنی سعد ‘‘ کے ایک شخص سے فرمایا : کیا تم چاہتے ہو میں اپنے اور فاطمہ (سلام اللہ علیہما ) کے بارے میں تم کو بتاوں ؟ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا میرے گھر میں تھیں اور انہوں نے پانی کی مشک میں اتنا پانی بھر ا کہ مشک کا نشان ان کے بدن پر ثبت ہوگیا اور( گندم کو پیسنے والی ) چکی ( آسیاب ) کو اتنا چلایا کہ ان کے ہاتھ زخمی ہوگئے ، گھر میں اتنا جھاڑو دیا کہ ان کے کپڑے خاک و مٹی زدہ ہوگئے ، اور چولہے پر آگ کے اثر سے ان کا لباس سیاہ ہوگیا ۔
میں ( علی ) نے فاطمہ ( سلام اللہ علیہا ) سے کہا کہ : کاش آپ اپنے بابا کے پاس جاتیں اور ان سے ایک نوکرانی کی درخواست کرتیں تاکہ وہ خادمہ یہ سارے کام انجام دیتی ۔جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ کے پاس آئیں تو اس وقت پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کچھ افراد کے ساتھ گفتگو فرما رہے تھے ، جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا شرم و حیا کی وجہ سے اپنے بابا کو کچھ کہہ نہ سکیں اور گھر واپس آگئیں ۔رسول گرامی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کے آنے سے سمجھ گئے کہ ان کو کوئی کام تھا ۔
دوسرے دن وہ ہمارے گھر تشریف لائے اور دروازے پر آ کر کہا السلام علیکم : ہم شرم سے چپ رہے ، کچھ دیر بعد پھر انہوں نے کہا السلام علیکم : ہم حیا کی وجہ سے چپ رہے جب انہوں نے تیسری مرتبہ کہا السلام علیکم تو ہم ڈر گئے کہ کہیں وہ واپس چلے نہ جائیں کیونکہ وہ جب کسی کہ پاس جاتے تھے تو دروازے پرتین 3 مرتبہ سلام کرتے تھے اگر جواب نہیں ملتا تھا تو واپس چلے جاتے تھے تو میں نے جواب دیا اور کہا : وعلیک السلام یا رسول الله! آجائیں ۔آن حضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تشریف لے کر آئے اور کہا بیٹی کل آپ میرے پاس آئیں تھیں کوئی کام تھا ؟جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا نے شرم و حیا کی وجہ سے کوئی جواب نہ دیا تو میں نے کہا کہ یا رسول اللہ میں آپ کو بتاتا ہوں کہ وہ کیوں آئی تھیں : انہوں نے پانی کی مشک میں اتنا پانی بھر ا جو اس مشک کا نشان ان کے بدن پر ثبت ہوگئے تھے اور( گندم کو پیسنے والی ) چکی ( آسیاب ) کو اتنا چلایا جو ان کے ہاتھ زخمی ہوگئے ، گھر میں اتنا جھاڑو دیا جو ان کے کپڑے خاک و مٹی زدہ ہوگئے ، اور چولہے پر آگ کے اثر سے ان کا لباس سیاہ ہوگیا تو میں ( علی ) نے فاطمہ ( سلام اللہ علیہا ) سے کہا کہ : کاش آپ اپنے بابا کے پاس جاتیں اور ان سے ایک نوکرانی کی درخواست کرتیں تاکہ وہ خادمہ یہ سارے کام انجام دیتی ۔
یہ بات سننے کے بعد رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : کیا تم نہیں چاہتے ہو کہ تم کو ایسا عمل بتاوں جو خادم و نوکر سے بہتر ہو ؟جب آپ سونے کا ارادہ کریں تو 34 بار «الله اکبر»، 33 بار «الحمدللّه» و 33 بار «سبحان الله» پڑہیں ۔ تو فاطمہ سلام اللہ علیہا نے 3 تین بار فرمایا میں خدا اور اس کے رسول سے راضی ہوگئی ۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا !
“مَن سَبَّح تسبیح َفاطمہ قبل ان یثنی رجلیہ مِن صلاة الفریضة غفر لہ ۔”
“جو شخص نماز واجب کے بعد قبلہ سے منحرف ہونے سے قبل تسبیح حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا پڑھتا ہے خدا اس کو بخش دیتا ہے ۔” ( کافی ج ۳ ص ۳۴۳)
امام جعفر صادق علیہ السلام کا فرمان مبارک ہے۔
قال ابو عبد اللہ علیہ السلام مَنْ سَبَّحَ تَسْبِیحَ فَاطِمَةَ ع فَقَدْ ذَکَرَ اللَّهَ الذِّکْرَ الْکَثِیر”
وسائل الشيعہ : ج 6، ص 443)
جس نے تسبیح فاطمہ کو پڑھ لیا گویا اس نے خدا کے لئے ذکر کثیر انجام دیدیا ۔
"دخل رجل على أبي عبد الله وكلمه فلم يسمع كلام أبي عبد الله عليه السلام وشكى إليه ثقلا في اذنيه، فقال له: ما يمنعك ؟ وأين أنت من تسبيح فاطمة عليها السلام قال: جعلت فداك، وما تسبيح فاطمة ؟ فقال: تكبر الله أربعا وثلاثين وتحمد الله ثلاثا وثلاثين وتسبح الله ثلاثا وثلاثين تمام المائة، قال: فما فعلت ذلك إلا يسيرا حتى أذهب عني ما كنت أجده”
بحار الانوار جلد 82 ،صفحہ 332 ، باب تسبيح فاطمة صلوات الله عليها وفضله وأحكامه)
امام صادق علیہ السلام کے پاس ایک شخص آیا امام علیہ السلام نے اس سے بات کی تو وہ امام علیہ السلام کے کلام کو نہ سن سکا اور امام علیہ السلام سے اپنے بہرے پن کی شکایت کی ، تو امام علیہ السلام نے اس کو فرمایا : تمہیں کس نےمنع کیا ہے ، تم کیوں تسبیح جناب فاطمہ سلام اللہ علیھا سے غافل ہو ؟ تو اس شخص نے کہا : میں آپ پر قربان جاوں، یہ تسبیح فاطمہ (س) کیا ہے ؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا : 34 مرتبہ اللہ اکبر کہنا ، 33 مرتبہ الحمد للہ ، 33 مرتبہ سبحان اللہ کا پڑہنا ( تسبیح جناب فاطمہ (س) کہلاتا ہے ) وہ شخص کہتا ہے میں نے تھوڑا عرصہ ہی اس عمل کو انجام دیا تھا کہ میرا بہرا پن ختم ہوگیا ۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے ارشاد فرمایا
مَن سبَّح َ تسبیحَ الزھراء ۖ ثم استغفر غفر لہ و ھی مائة با للمان والف فی المیزان و تُطردُ الشیطان و تُر ضِی الرحمن ۔
(ثواب الاعمال ص ٣٦٣)
جو بھی تسبیح حضرت زھراسلام اللہ علیھا پڑھ کر استغفار کریگا خدا اس کے گناہوں کو بخش دے گا ۔ اس تسبیح میں ظاہراً سو ذکر ادا ہوتے ہیں لیکن انسان کے نامہ اعمال کو ہزار گناوزنی بنا دیتی ہے ،ساتھ ہی شیطان کو دور بھگا دیتی ہے اور رضائے رحمن کو جلب کرتی ہے ۔
امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں ۔
"ما عُبد اللہ ُ بشیٔ افضل من تسبیح الزھراء ۖ لو کان شیء افضل منہ لَنَخلہ رسول اللہ فاطمہ” (وسائل الشیعہ، ج4، ابواب تعقیب، باب 9، ص1024، ح1)
یعنی تسبیح فاطمہ زھراء سلام اللہ علیھا سے بہتر کسی اور طریقے سے خدا کی عبادت نہیں کی گئی بے شک اگر کوئی چیز اس سے بھی زیادہ افضل ہوتی تو رسول اکرم اپنی بیٹی فاطمہ سلام اللہ علیھا کو وہی تعلیم فرماتے ۔
امام علی نقی علیہ السلام کا فرمان مبارک ہے۔
الحسن بن علي العلوي يقول سمعت على بن محمد بن علي بن موسى الرضا عليهم السلام يقول لنا أهل البيت عند نومنا عشر خصال الطهارة وتوسد اليمين وتسبيح الله ثلثا وثلثين وتحميده ثلثا و ثلثين وتكبيره أربعا وثلثين ونستقبل القبلة بوجوهنا ونقرء فاتحة الكتاب وآية الكرسي و…
فلاح السائل – السيد ابن طاووس – صفحہ 280
حسن بن علی علوی امام علی نقی علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں کہ میں نے امام سے یہ کہتے ہوئے سنا کہ امام علیہ السلام فرما رہے تھے کہ :ہم اہل بیت علیہم السلام میں رات کو سوتے وقت دس 10 خصلتیں ہیں : ایک وضو کر کے سونا ، دائیں طرف سونا ( قبلہ منہ ہوکر ) ، اور تسبیح فاطمہ سلام اللہ علیہا یعنی 34 مرتبہ اللہ اکبر ، 33 مرتبہ الحمد للہ ، 33 مرتبہ سبحان اللہ پڑہنا ، اور سورہ فاتحہ اور آیۃ الکرسی پڑہنا ۔۔۔۔ وغیرہ
امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں۔
عن أبي عبد الله عليه السلام قال: من بات على تسبيح فاطمة كان من الذاكرين الله كثيرا والذاكرات
مجمع البيان ج 8 ص 358 ،سورہ احزاب آیت: 35 )
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں : جو شخص سوتے وقت تسبیح جناب زہراء سلام اللہ علیہا کو پڑھ کر سوئے تو وہ خدا کا زیادہ سے زیادہ ذکر کرنے والوں میں قرار پاتا ہے۔
اما م جعفر صادق علیہ سے مروی ہے۔
عن أبي عبد الله عليه السلام قال: سمعته يقول من سبح تسبيح فاطمة في دبر المكتوبة من قبل أن يبسط رجليه أوجب الله له الجنة
(فلاح السائل ، السيد ابن طاووس ص 165 ، بحار الانوار جلد 82 صفحہ 327 باب تسبيح فاطمة صلوات الله عليها وفضله وأحكامه)
امام صادق علیہ السلام سے نقل ہے، راوی کہتا ہے کہ میں نے سنا کہ امام علیہ السلام فرما رہے تھے جو کوئی جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کی تسبیح کو واجب نماز کے بعد پڑہے تو اس سے پہلے کہ وہ اپنے پاوں کو کھولے خداوند اس پرجنت واجب کر دیتا ہے ۔
امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے۔
عن أبي عبد الله عليه السلام قال: تسبيح الزهراء فاطمة عليها السلام في دبر كل صلاة أحب إلى من صلاة ألف ركعة في كل يوم
(ثواب الأعمال و عقاب الأعمال ص 149 )
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ہر نماز ( واجب ) کے بعد مجھے تسبیح فاطمہ سلام اللہ علیہا پڑہنا ہر روز 1000 رکعت پڑھنے سے زیادہ پسند ہے یعنی امام علیہ السلام فرما رہے ہیں کہ جو نماز تسبیح کے ساتھ پڑھی جائے وہ اس ایک ہزار رکعات سے افضل ہے جو بغیر تسبیح کے پڑھی جائیں ۔
عن أبی عبد الله (ع) قال لأبی هارون المکفوف: یا أبا هارون إنّا نأمر صبیاننا بتسبیح الزهراء (س) کما نأمرهم بالصلاة فالزمه فإنه لم یلزمه عبد فیشقی
محلاتى، ص 315 ثواب الاعمال و عقاب الاعمال، ترجمه انصارى
اما م صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ انہوں نے ابوہارون سے فرمایا : اےابو ہارون ہم اپنے چھوٹے بچوں جس طرح نماز پڑھنے کا حکم دیتے ہیں اسی طرح ان کو تسبیح جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا پڑھنے کا بھی حکم دیتے ہیں ، تم بھی اس کو پڑھنے کو اپنے لئے لازم بنا دو کیونکہ جو شخص اس کو مدام پڑہتا رہے کبھی شقاوت و بدبختی میں مبتلیٰ نہیں ہوسکتا ۔
قال بعض أصحاب أبي عبد الله عليه السلام: شكوت إليه ثقلا في اذني، فقال عليه السلام: عليك بتسبيح فاطمة عليها السلام
الدعوات راوندي: ص 197
امام صادق علیہ السلام کے ایک صحابی نے امام علیہ السلام سے اپنے بہرے پن ( کم شنوائی ) کی شکایت کی تو امام علیہ السلام نے اس کو فرمایا : تسبیح فاطمہ (س) پڑہا کرو ۔

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button