سیرتسیرت جناب رسول خداؐ

پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور قرآن کی توضیح و تفسیر

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرائض میں سے ایک فریضہ یہ بھی ہے کہ وہ امت کے لئے، آیات الٰہی کی توضیح و تفسیر فرمائیں۔
قرآن کریم پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مخاطب کر کے فرماتا ہے:
وَ أَنزَلنَا اِلیَکَ الذِّکرَ لِتُبَیِّنَ لِلنِّاسِ مَا نُزِّلَ ا ِلَیہِم
النحل،٤٤
اور (اے رسول) آپ پر بھی ہم نے ذکر اس لیے نازل کیا ہے تاکہ آپ لوگوں کو وہ باتیں کھول کر بتا دیں جو ان کے لیے نازل کی گئی ہیں،
ہم نے قرآن کو آپ پر نازل کیا اور آپ کا فریضہ ہے کہ لوگوں کے لئے قرآن کی تلاوت کریں اور ان کے سامنے اس کے معارف کو بیان کریں، جیسا کہ اشارہ کیا گیا کہ قرآن کلام الٰہی ہے اور اس نے بہت تنزل کیا ہے یہاں تک کہ الفاظ و آیات کی صورت میں آگیا ہے اور مسلمانوں کے اختیار میں ہے، پھر بھی اس کے معارف اتنے عمیق اور گہرے ہیں کہ عام انسانوں کے لئے قابل فہم نہیں ہیں۔ لہٰذا قرآن اس اعتبار سے عام انسانوں کے لئے صامت ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ معصومین علیہم السلام کی تفسیر کا محتاج ہے ۔اسی بنا پر خداوند متعال پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مخاطب کر کے فرما رہا ہے:
”ہم نے قرآن کو آپ پر نازل کیا ہے تاکہ آپ لوگوں کے سامنے اس کی تفسیر و توضیح فرمائیں”۔
اس بنا پر قرآن کی آیتوں کی ایک خاص تفسیر ہے جس کا علم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمۂ معصومین علیہم السلام کے پاس ہے، ان حضرات نے بھی قرآن کے معارف کو مسلمانوں کے اختیار میں دیا اور قرآن کے پیغام کو لوگوں تک پہنچایا۔ لہٰذا قرآن اس اعتبار سے ناطق ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمۂ معصومین علیہم السلام نے قرآن کے معارف کو بیان فرمایا، لیکن یہ بات قابل توجہ ہے کہ قرآن اپنی بات مخاطب کی پسند سے بہتر بیان کرتا ہے، خواہ انسان کے دل کی خواہش کے موافق ہو یا مخالف ۔ نیز شیطان نما انسانوں کو یہ حق نہیں ہےکہ قرآن پر اپنی خواہشوں کو لادیں اور اپنی رائے سے کلام الٰہی کی تفسیر کریں ،اس کے متعلق ہم آئندہ تفصیل کے ساتھ بیان کریں گے۔
قرآن کے صامت و ناطق ہونے کی بنا پر حضرت علی علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:
نَاطِق لا یَعییٰ لِسَانُہ
نہج البلاغہ، خطبہ ١٤٣
قرآن ایسا بولنے والا ہے کہ بولنے سے تھکتا نہیں، وہ اپنے پیغام لوگوں تک پہنچاتا ہے اور مسلمانوں پر حجت تمام کرتاہے۔
لہذا حضرت علی علیہ السلام مذکورہ جملہ میں قرآن کا تعارف اس طرح کراتے ہیں :
کلام الٰہی، قرآن تمھارے درمیان ہے اور ہمیشہ فصیح و بلیغ اور گویا زبان سے فلاح و نجات کی طرف بلاتا ہے، اپنے پیروؤں کو سعادت و کامیابی کی خوشخبری دیتا ہے اور اپنی ذمہ داری پورا کرنے سے نہیں تھکتا ۔
خطبہ ١٥٧میں حضرت علی علیہ السلام قرآن کےمتعلق اس طرح ارشادفرماتےہیں:
ذٰلِکَ الْقُرآنُ فَاسْتَنْطِقُوہُ وَ لَن یَّنطِقَ وَ لٰکِنْ أُخْبِرُکُمْ عَنْہُ، أَلا اِنَّ فِیہِ عِلْمَ مَا یَأتِی، وَ الْحَدِیثَ عَنِ الْمَاضِیْ، وَ دَوَائَ دَائِکُم، وَ نَظْمَ مَا بَینَکُمْ
ہاں! یہ قرآن ہے، پس اس سے چاہو کہ تم سے بولے اس حال میں کہ ہرگز قرآن (نبی اور ائمۂ معصومین علیہم السلام کی تفسیر کے بغیر) نہیں بولے گا۔ تمھیں چاہئے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمۂ معصومین علیہم السلام کی زبان کے ذریعے قرآن کے معارف سے آشنا ہو اور قرآن کے علوم کو انہیں سے دریافت کرو۔
قرآن الٰہی علوم و معارف کا ایسا سمندر ہے کہ اس گہرے اور اتھاہ سمندر میں غواصی اور اس کے انسان ساز موتیوں کا حصول فقط انہی حضرات کا نصیب ہے جو عالم غیب سے ارتباط رکھتے ہیں، خداوند متعال نے بھی لوگوں سے یہی چاہا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمۂ معصومین علیہم السلام کے دامن سے متمسک ہو کر، علوم اہلبیت علیہم السلام سے استفادہ کر کے اور ان حضرات کی ہدایت و رہنمائی سے قرآن کے بلند معارف حاصل کریں، اس لئے کہ قرآن کے علوم اہلبیت علیہم السلام کے پاس ہیں۔ نتیجہ میں ان حضرات کی بات قرآن کی بات ہے، اور جب ایسا ہے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اہلبیت علیہم السلام قرآن ناطق ہیں۔
مذکورہ بنیاد پر حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
ذٰلِکَ الْقُرآنُ فَاسْتَنْطِقُوْہُ وَ لَن یَّنْطِقَ
یہ قرآن ہے اور دیکھو! تم امام معصوم کی تفسیر و توضیح کے بغیر قرآن سے استفادہ نہیں کرسکتے، یہ امام معصوم ہی ہے جو تمھارے لئے قرآن کی تفسیر بیان کرتا ہے اور تمھیں قرآن کے علوم و معارف سے آگاہ کرتا ہے۔
حضرت علی علیہ السلام اس مقدمہ کو بیان کر کے قرآن کو ایک دوسرے زاویئے سے قابل توجہ قرار دیتے ہیں اور لوگوں کو قرآن کی طرف رجوع اور اس میں تدبر اور تفکر کی دعوت دیتے ہیں، حضرت فرماتے ہیں کہ امام معصوم ہی قرآن کے علوم و معارف کو مسلمانوں کے لئے بیان کرتا ہے اور خود قرآن نہیں بولتا اور لوگ خود بھی قادر نہیں ہیں کہ براہ راست الٰہی پیغاموں کو حاصل کریں، تو اب:أُخْبِرُکُمْ عَنْہُ، میں تمھیں قرآن سے آگاہ کرتا ہوں اور قرآن کے علوم و معارف کی تمھیں خبر دیتا ہوں، جان لو! کہ جو کچھ تمھاری ضرورت کی چیزیں ہیں وہ سب قرآن کریم میںموجود ہیں:
أَلا اِنَّ فِیْہِ عِلْمَ مَا یأتِی وَ الْحَدِیثَ عَنِ الْمَاضِی وَ دَوَائَ دَائِکُمْ وَ نَظْمَ بَینِکُمْ
گزشتہ و آئندہ کا علم قرآن میں ہے اور تمھارے درد کی دوا اور تمھارے تمام امور کا نظم و نسق قرآن میں ہے، یہ تم پر لازم ہے کہ قرآن کریم اور علوم اہلبیت سے استفادہ کر کے اپنے امور کو منظم کرو!
دو نکتوں کی یاد دہانی
قرآن کریم مسلمانوں اور اس آسمانی کتاب کے پیروؤں کے لئے ایک ا ہم تاریخی سند ہے چونکہ قرآن تاریخی واقعات بیان کرتا ہے، نیز گزشتہ قوموں اور ملتوں کے افکار و عقائد اور ان کے حالات اور ان کے طرز زندگی کو بیان کرتا ہے، (اس لئے) سب سے زیادہ معتبر تاریخی سند ہے اس کے مقابل ان تاریخی حالات اور کتابوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے جو کہ قرآنی سند نہیں رکھتیں، اگر چہ تواتر کے ساتھ نقل ہوئی ہوں، لہٰذا گزشتہ افراد کے حالات ، انبیاء اور گزشتہ قوموں کے واقعات کو قرآن سے سننا چاہئے اور ان سے نصیحت حاصل کرنی چاہئے۔
ہمارا فریضہ ہے کہ قرآن سے رجوع کر کے، پچھلی قوموں اور ملتوں کی داستان زندگی کا مطالعہ کر کے ان سے درس عبرت حاصل کریں، اپنی زندگی کو حق کی بنیاد اور صحیح روش پر سنواریں۔
قرآن کریم اس بات کے علاوہ کہ گزشتہ قوموں کی تاریخ ہمارے لئے نقل کرتا ہے اور ان حوادث کو بیان کر کے جو ان قوموں میں رونما ہوئے تھے ، ہم کو ان کی زندگی کے ماحول میں پہنچا دیتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ ہم ان سے درس عبرت لیں، وہ آئندہ کی بھی خبر دیتا ہے۔ واضح ہے کہ آئندہ اور مستقبل کے متعلق علمی اور یقینی بات کہنا خداوند متعال اور ان (معصوم) افراد کے علاوہ جو اس کے اذن سے آئندہ کی خبر رکھتے ہیں، کسی اور کا کام نہیں ہے ۔خدا کے لئے ماضی، حال، مستقبل کوئی معنی نہیں رکھتے اور وہ آئندہ کے متعلق خبر دے سکتا ہے، وہی ہے جو اپنے بندوں کے لئے راستے کو واضح و روشن کرسکتا ہے کہ کیسے چلیں تاکہ سعادت تک پہنچ جائیں۔ یہ قرآن کریم ہے جو کہ گزشتہ و آئندہ کی خبر دیتا ہے اور انسانوں کو ان کے ماضی و مستقبل سے آگاہ کرتا ہے، لہٰذا حضرت علی علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:
أَلا اِنَّ فِیہِ عِلْمَ مَا یَأتِیْ وَ الْحَدِیثَ عَنِ الْمَاضِیْ
آگاہ ہو جاؤ! کہ مستقبل اور ماضی کا علم قرآن کریم میں ہے۔
………..
https://erfan.ir/urdu/37150.html

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button