خطبات جمعہسلائیڈرمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک (شمارہ:247)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک 19 اپریل 2024ء بمطابق 10 شوال المکرم 1445ھ)
تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

جنوری 2019 میں بزرگ علماء بالخصوص آیۃ اللہ شیخ محسن علی نجفی قدس سرہ کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
موضوع: زبان کی اہمیت اور ہماری ذمہ داریاں
اللہ تعالیٰ کی انسان کو عطاء کردہ بے شمار قیمتی نعمتوں میں سے ایک اہم نعمت زبان ہے۔ یہ وہ عظیم نعمت ہے جو پیدائش سے لے کر مرتے دم تک انسان کے لیے کلیدی اہمیت کی حامل ہے۔ باقی نعمتوں کی طرح یہ بھی ہماری ملکیت نہیں بلکہ اللہ کی ہمارے پاس امانت ہے لہذا ہمیں دیکھنا ہو گا کہ اس کا استعمال بھی وہاں کیا جائے جہاں یہ اللہ کی خوشنودی کا باعث ہو اور ایسے کاموں میں استعمال نہ کیا جائے جہاں یہ اللہ کی ناراضگی کا سبب بنتی ہو۔ انسانی زندگی میں زبان کا اہم کردار ہوتا ہے۔انسان کی شخصی اور اجتماعی عروج و زوال میں بھی زبان کا کردار بہت ہی اہم ہوتا ہے۔
انسان کی زبان اس کے باطن اور قلب میں موجود چیزوں کے اظہار کا ایک وسیلہ ہے، انسان کی عقل میں موجود خیالات اور تفکرات کے اظہار کا واحد ذریعہ زبان ہے، جس طرح آنکھ اور کان شناخت کا ایک ذریعہ ہے اسی طرح زبان بھی ایک ذریعہ ہے۔ زبان ہی سے چکھ کر چار ذائقے یعنی مٹھاس، ترش،نمکین اور کڑواہٹ کی شناخت ہوتی ہے۔ ان تمام چیزوں کی شناخت دیکھنے سے یا چھونے سے ممکن نہیں ہوتی بلکہ قوۃِ ذائقہ زبان ہی کی مدد سے ان چیزوں کی شناخت ممکن ہوتی ہے۔لیکن ان تمام چیزوں سے بالا صفت قوۃِ گویائی (بولنے کی طاقت)ہے جو زبان ہی سے ممکن ہوتی ہے۔ دنیا میں انسانوں کی پہچان بھی ان کی گفتگو سے ہوتی ہے۔
اسی لیے امام علی علیہ السلام نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں:
تَكَلَّمُوا تُعْرَفُوا فَإِنَّ الْمَرْءَ مَخْبُوءٌ تَحْتَ لِسَانِه
بولو تاکہ پہچانے جاؤاس لئے کہ انسان کی شخصیت اس کی زبان کے نیچے چھپی رہتی ہے۔(نہج البلاغہ حکمت:392)
"انسان اپنی زبان اور قوت گویائی ہی کے توسط سے گفت و شنید، سوال و جواب اور بحث و تمحیص کے مراحل سے گزر کر اپنی شخصیت میں گہرائی پیدا کرسکتا ہے۔”(منشور خاور، جعفر سبحانی ،ج1-2، ص200)
” زبان انسان کے لئے دوسرے انسانوں سے ارتباط اور ایک قوم دوسرے قوم اور ایک نسل دوسری نسل کی طرف اطلاعات اور معلومات کے نقل اور مبادلہ کا ایک اہم ترین ذریعہ ہے،اگر یہ ارتباط کا ذریعہ نہ ہوتا تو انسان ہرگز بھی علم و دانش اور مادی تمدن اور معنوی مسائل میں اس حد تک ترقی نہ کرسکتا” (تفسیرنمونہ،ناصرمکارم شیرازی،ج27،ص41)
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے مختلف زبانوں کو اپنی نشانیوں میں سے ایک نشانی قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے:
وَ مِنۡ اٰیٰتِہٖ خَلۡقُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ اخۡتِلَافُ اَلۡسِنَتِکُمۡ وَ اَلۡوَانِکُمۡ  اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّلۡعٰلِمِیۡنَ
اور آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا اور تمہاری زبانوں اور رنگوں کا مختلف ہونا بھی اس کی نشانیوں میں سے ہے، علم رکھنے والوں کے لیے یقینا اس میں نشانیاں ہیں۔(سورۃ روم آیۃ 22)
"اسی لب و دہن اور محدود حروف سے نہ ختم ہونے والے الفاظ بنتے ہیں اور لاکھوں زبانیں وجود میں آتی ہیں۔ زبان انسان کی بقاء و ارتقاء کے لیے ستون کی حیثیت رکھتی ہے۔ زبانوں کا اختلاف اس صلاحیت کی وجہ سے ہے جو اللہ نے انسان میں ودیعت فرمائی ہے۔ جس سے انسان اپنے ما فی الضمیر کا اظہار لفظوں کے ذریعے آسانی سے کر دیتا ہے۔ ورنہ ایک معنی کو سمجھانے کے لیے خود اس معنی کو پیش کرنا پڑتا۔ مثلاً کسی کو پانی سمجھانا ہو تو اس کے لیے اگر لفظ کا آسان ذریعہ نہ ہوتا تو خود پانی کو سامنے کر کے سمجھانا پڑتا۔ اختلاف زبان سے اختلاف لہجہ بھی مراد ہو سکتا ہے اور رنگوں کے اختلاف سے ایک دوسرے کی شناخت میں مشکل پیش نہیں آتی اور قبائل و اقوام میں امتیاز آ جاتا ہے۔” (الکوثر فی تفسیر القرآن)
اس دلیل کواہل علم سمجھ سکتے ہیں کہ زبانوں اور رنگوں کے اختلاف میں نوع انسانی کی بقاء و ارتقا ءکے کون سے راز پنہاں ہیں۔ اگر سب کا رنگ اور زبان و لہجہ کلام ایک ہوتا تو کیا کیا مشکلات پیش آتیں۔ دنیا کا نظام ایک دوسرے سے امتیاز پر قائم ہے۔ اگر یہ امتیاز نہ ہوتا تو ظالم سے مظلوم کی شناخت نہ ہوتی۔ مدعی سے مدعا علیہ کی پہچان نہ ہوتی۔
زبان کے فوائد کے بارے میں مذکور ہے کہ:
"الانسان، علمہ النطق والتعبیر عما فی نفسہ، لیتخاطب مع غیرہ و یتفاہم مع ابناء مجمعہ، فیتحقق التعاون والتالیف والانس و بذالک اکتملت عناصر التعلیم ،الکتاب والمعلم،ھماالقرآن والنبی،والمتعلم ھو الانسان، و طریق التعلیم و کیفیتہ و البیان”
یعنی اللہ سبحانہ و تعالی نے انسان کو نطق اور تعبیر کی تعلیم دی تاکہ دوسروں کے ساتھ اور اپنے بچوں کے ساتھ گفتگو کرسکیں جس کے نتیجے میں آپس میں تعاون اور انس و محبت قائم ہوتے ہیں،اسی لئے اللہ تعالی نے تعلیمی عناصر کو مکمل کیا کتاب اور معلم کی صورت میں یعنی قرآن اور پیغمبر اسلامؐ اور متعلم انسان ہے اور طریقہ تدریس اور انداز، بیان یعنی انسان کی بولی ہے۔( تفسیر المنیر فی العقیدۃ ولشریعہ ولمنھج، دلدکتور وھبۃ الزحیلی،ج 27-28،ص197)
زبان کی قسمیں:
تعداد کے اعتبار سے تو دنیا میں کثیر زبانیں موجود ہیں جن کے بارے بعض اہل تحقیق کا نظریہ ہے کہ ان زبانوں کی تعداد چھ سے سات ہزار تک ہے مگر کیفیت اور کوالٹی کے اعتبار سے زبان کی چار قسمیں بنتی ہیں:
٭ قسم ھو ضرر محض: وہ زبان جس میں نقصان ہی نقصان پایا جاتا ہے جیسے جھوٹ، غیبت،گالی گلوچ،ناحق اور فساد پہ مبنی گفتگو جیسا کہ آج کل عام طور پر منبر پہ آنے والے ان پڑھ افراد کی زبان وغیرہ
٭ قسم ھو نفع محض: وہ زبان جس میں نفع ہی نفع ہے اور فائدہ ہی فائدہ ہو ، جیسے تلاوت قرآن، کلام معصوم،سچائی،حق بات کرنا، امربالمعروف و نہی از منکر،دین حق کی بات کرنا،وغیرہ
٭ قسم ھو ضرر و منفعۃ: اس قسم میں نفع و نقصان دونوں موجود ہوتے ہیں۔جیسے:حصول مال کےلئے جھوٹ بولنا، دنیوی فائدے کے لیے جھوٹی قسم کھانا وغیرہ
٭ قسم لیس فیہ ضرر ولا منفعۃ: وہ زبان جس میں نہ نفع ہے اور نہ نقصان جیسے بے مقصد کلام کرنا وغیرہ
اما القسم الاول فھول فضول والاشتغال بہ تضییع زمان و ھو عین الخسران، فلابد من السکوت عنہ وکذالک مافیہ ضرر و منفعۃ لاتفی بالضرر۔
یعنی ان چار اقسام میں سے پہلی قسم وقت کے ضیاع کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے یہی خسارہ ہے،پس ایسے کلام سے خاموشی اختیار کرنی چاہئے۔اسی طرح جس میں نفع اور نقصان دونوں ہوں ایسےکلام سے بھی اجتناب کرنا چاہئے۔ دین مبین میں قسم دوم کے علاوہ باقی تمام قسم کے کلام سے منع کیا ہے۔
زبان کی ذمہ داریاں
قرآن مجید زبان کی ایک ذمہ داری یعنی بات کرنے اور بیان کرنے کی صلاحیت کو مورد نظر رکھتا ہے، اور زبان کو صرف اسی زاوئے سے دیکھتا ہے۔ زبان میں بیان کی یہ قوت اس قدر اہمیت کی حامل ہے کہ باقی تمام صفات پر یہ غالب آئی ہوئی ہے۔ زبان کی اسی اہمیت کو مورد نظررکھتے ہوئے قرآن مجید انسان کی خلقت کے بعد زبان کی تعلیم کا ذکر کرتا ہے۔اَلرَّحۡمٰنُ عَلَّمَ الۡقُرۡاٰنَ خَلَقَ الۡاِنۡسَانَ عَلَّمَہُ الۡبَیَانَ
رحمن نے، قرآن سکھایا۔ اسی نے انسان کو پیدا کیا۔ اسی نے انسان کو بولنا سکھایا ۔(سورۃ رحمٰن آیات 1 تا4)
اسی طرح ایک اور مقام پہ ارشا د ہوتا ہے:
اَلَمۡ نَجۡعَلۡ لَّہٗ عَیۡنَیۡنِ، وَ لِسَانًا وَّ شَفَتَیۡنِ 
کیا ہم نے اس کے لیے نہیں بنائیں دو آنکھیں؟۔ اور ایک زبان اور دو ہونٹ؟ (سورۃ البلد 8،9)
گفتگو کی صلاحیت اور استعداد زبان کو عطا کی گئی ہے جس کی مدد سے انسان اپنے مافی الضمیر کو دوسروں تک منتقل کرسکتا ہے اسی زبان کے ذریعے، جس کے استعمال سے ابھی تک ہزاروں زبانیں معرض وجود میں آئی ہیں۔اور اس آیت میں لسان کے بعد دو ہونٹوں کا تذکرہ ہوا ہے،جس کے بارے میں ایک حدیث نبوی میں ہے کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"إِنْ‏ نَازَعَكَ‏ لِسَانُكَ‏ إِلَى بَعْضِ مَا حَرَّمْتُ عَلَيْكَ فَقَدْ أَعَنْتُكَ عَلَيْهِ بِطَبَقَيْنِ فَأَطْبِقْ وَ لَا تَكَلَّم‏”
” اے فرزند آدم ؛ اگر تیری زبان تجھے گناہ پر اکسائے تو اسے قابو میں رکھنے کے لئے میں نے تجھے دو ہونٹ دئیے ہیں ایسی حالت میں اپنے ہونٹوں کو بند کرلےاور گناہ والی بات کرنے سے رک جا” (الكافي، ج‏8، ص: 219)
زبان ایک مختصر عضو ہے جو انسانی زندگی کے لیے متعدد خدمات انجام دیتی ہے:
i۔ قوتِ ذائقہ اسی زبان کے ذریعے فراہم کی گئی ہے جس سے شیریں، تلخی و ترشی کا ادراک ہوتا ہے۔
ii۔ طعام کو دائیں بائیں دانتوں کے حوالے کرنے کے لیے چمچ کا کام دیتی ہے۔
iii۔ حلق سے نکلنے والی آواز کو حروف کی شکل میں لانے کے لیے زبان بنیادی کردار ادا کرتی ہے اور ان حروف کو جوڑ کر کلمات پھر کلام وجود میں آتا ہے جس سے انسان بیرونی دنیا کے لیے اپنا مدعا بیان کر سکتا ہے۔ (الکوثر فی تفسیر القرآن)
زبان انسان کی شخصیت کو نکھارنے اور اس کی چھپی ہوئی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے میں کلیدی کردار آداکرتی ہے۔ جیساکہ اللہ تعالی فرماتا ہے:
وَ قَالَ الۡمَلِکُ ائۡتُوۡنِیۡ بِہٖۤ اَسۡتَخۡلِصۡہُ لِنَفۡسِیۡ  فَلَمَّا کَلَّمَہٗ قَالَ اِنَّکَ الۡیَوۡمَ لَدَیۡنَا مَکِیۡنٌ اَمِیۡنٌ
اور بادشاہ نے کہا: اسے میرے پاس لے آؤ، میں اسے خاص طور سے اپنے لیے رکھوں گا پھر جب یوسف نے بادشاہ سے گفتگو کی تو اس نے کہا: بے شک آج آپ ہمارے بااختیار امانتدار ہیں۔ (سورۃ یوسف:54)
جب عزیز مصر کو اندازہ ہو گیا کہ حضرت یوسف علیہ السلام نفس کی طہارت اور کردار کی بلندی کے ساتھ فہم و فراست اور لیاقت و حکمت کے مالک ہیں تو ان کو زندان سے آزاد کر کے اپنے پاس اس لیے بلایا تھا کہ انہیں اپنا معتمد خصوصی اور مشیر خاص بنایا جائے۔ لیکن جب حضرت یوسف علیہ السلام سے روبرو ہو کر گفتگو کی تو ان کا مقام ایک مشیر و معتمد سے بہت بالاتر پایا اور بادشاہ کا موقف بدل گیا۔ اب معتمد خاص نہیں، سلطنت و تمکنت کا مالک بنا دیا۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے امور مملکت میں اقتصادی معاملات کو آنے والے حالات کے پیش نظر اہمیت دی اور خزائن الارض کی ذمہ داری قبول فرمائی۔
پس حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنی زبان کے ذریعے اپنی شخصیت کو پیش کیا تو بادشاہ نے جان لیا کہ ان کا مقام ایک مشیر سے کہیں بڑھ کر ہے اس لیے انہیں اپنی سلطنت کا مالک بنایا دیا۔اگر حضرت یوسف علیہ السلام اپنی زبان کو اس طرح استعمال نہ کرتے تو قید خانے میں ہی زندگی گزر جاتی اور ان کی کوئی پہچان سامنے نہ آتی۔
اسی طرح زبان کی اہمیت اس قدر ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ سے سچی زبان عنایت کرنے کی دعا کرتے ہیں:
وَ اجۡعَلۡ لِّیۡ لِسَانَ صِدۡقٍ فِی الۡاٰخِرِیۡنَ
اور آنے والوں میں مجھے حقیقی ذکر جمیل عطا فرما۔ (شعراء:84)
میرے لیے آخر میں آنے والی امتوں میں لسان صدق عطا فرما یعنی ذکر جمیل۔ یہ دعوت کے تسلسل کی دعا ہے کہ جس لسان صدق کی ابتدا انہوں نے خود کی تھی اس کا سلسلہ ان کی نسلوں میں جاری و ساری رہے۔ لسان صدق کا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے: آنے والوں میں مجھے سچی زبان عطا کر۔ سچی زبان توحید کی دعوت کی زبان ہے:
وَ جَعَلَہَا کَلِمَۃًۢ بَاقِیَۃً فِیۡ عَقِبِہٖ لَعَلَّہُمۡ یَرۡجِعُوۡنَ
اس (توحید پرستی) کو ابراہیم کی نسل میں کلمہ باقیہ قرارد یاتاکہ وہ (اللہ کی طرف) رجوع کریں۔(زخرف:28)
چنانچہ آج روئے زمین پر جتنے بھی توحید پرست لوگ ہیں وہ ابراہیم علیہ السلام کی تحریک کا نتیجہ ہیں۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کی قبولیت کے طور پر ایک اور مقام پہ ارشاد ہوتا ہے:
وَ وَہَبۡنَا لَہُمۡ مِّنۡ رَّحۡمَتِنَا وَ جَعَلۡنَا لَہُمۡ لِسَانَ صِدۡقٍ عَلِیًّا
اور ہم نے انہیں اپنی رحمت سے بھی نوازا اور انہیں اعلیٰ درجے کا ذکر جمیل بھی عطا کیا ۔ (مریم:50)
اس سے زیادہ لسان صدق اور ثنائے جمیل کیا ہو سکتی ہے کہ تمام آسمانی ادیان آپ کو اپنے لیے سند سمجھتے ہیں اور اسلام میں تو حضرت خلیلؑ کے لیے ثنائے جمیل کا ایک اعلیٰ نمونہ یہ ہے کہ ہم جب اپنے رسولؐ پر درود بھیجتے ہیں تو اس وقت ابراہیمؑ اور آل ابراہیم کی عظمت کو سامنے رکھتے ہیں اور کہتے ہیں:
اللّٰھم صلی علی محمد و علی آل محمد کما صلیت علی ابراہیم وآل ابراہیم۔
اے اللہ درود بھیج محمد و آل محمد پر جیسا کہ تو نے ابراہیم اور آل ابراہیم پر درود بھیجاہے۔
اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا کی:وَ احۡلُلۡ عُقۡدَۃً مِّنۡ لِّسَانِیۡ یَفۡقَہُوۡا قَوۡلِیۡ
اور میری زبان کی گرہ کھول دے، تاکہ وہ میری بات سمجھ جائیں۔ (طٰہٰ:27،28)
پیغام رسائی میں زبان کا کردار کلیدی ہے، اس کے بغیر کوئی بھی پیغام چاہےآسمانی ہو یا زمینی بطریق احسن نہیں پہنچا یا جاسکتا۔زبان ہی وہ اہم ذریعہ ہے جس سے پیغام رسائی ممکن ہوتی ہے، اس کے علاوہ انسان کے اندر موجود خصلتیں اور صفات اسی زبان سے ظاہرہوتی ہیں۔
زبان کی دس خصلتیں:
امیر المومنین امام علی علیہ السلام اپنے ایک خطبے میں زبان کی دس خصلتیں بیان فرماتے ہیں:
ِ أَيُّهَا النَّاسُ فِي الْإِنْسَانِ عَشْرُ خِصَالٍ يُظْهِرُهَا لِسَانُه‏
اے لوگو! انسان کی دس خصلتیں ایسی ہیں جو اس کی زبان سے ظاہر ہوتی ہیں:
1. شَاهِدٌ يُخْبِرُ عَنِ الضَّمِيرِ، یہ ایک شاہد ہے جو باطن کی خبر دیتی ہے۔
2. حَاكِمٌ يَفْصِلُ بَيْنَ الْخِطَابِ ، ایک قاضی ہے جو حق و باطل کو جدا کرتی ہے۔
3. وَ نَاطِقٌ يُرَدُّ بِهِ الْجَوَابُ ، وہ ایک ترجمان ہے جو سوالات کا جواب دیتی ہے۔
4. وَ شَافِعٌ يُدْرَكُ بِهِ الْحَاجَةُ ، وہ ایک شفاعت کرنے والی ہےجس کے ذریعے مقاصد کا حصول ہوتا ہے۔
5. وَ وَاصِفٌ يُعْرَفُ بِهِ الْأَشْيَاءُ ، وہ ایک توصیف گر ہے جو چیزوں کی اوصاف بیان کرتی ہے۔
6. وَ أَمِيرٌ يَأْمُرُ بِالْحَسَنِ ، وہ حاکم ہے جو نیکیوں کی طرف دعوت دیتی ہے۔
7. وَ وَاعِظٌ يَنْهَى عَنِ الْقَبِيحِ ، وہ ایک واعظ ہے جو برائیوں سے روکتی ہے۔
8. وَ مُعَزٍّ تُسَكَّنُ بِهِ الْأَحْزَانُ، وہ ایک تسلی دینے والی ہے جس سے حزن و غم کی شدت کم ہوجاتی ہے۔
9. وَ حَاضِرٌ تُجْلَى بِهِ الضَّغَائِنُ، وہ ایک تعریف کرنے والی ہے، جو دشمنی کے زنگ کو دورکردیتی ہے۔
10. وَ مُونِقٌ تَلْتَذُّ بِهِ الْأَسْمَاع‏، وہ ایسی ہنر مند ہے جو کانوں کی لذت کا سامان فراہم کرتی ہے۔
(الكافي ،ج‏8، ص: 20)
پس یہ زبان اللہ تعالی کی طرف سے انسانوں پر ایک عظیم نعمت ہے، اور یہ انسان کی خوبصورتی اور حسن و جمال بھی ہے، جیسا کہ حضرت علی علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:
الْجَمَالُ‏ فِي‏ اللِّسَانِ‏ وَ الْكَمَالُ فِي الْعَقْل‏
انسان کا حسن وجمال اس کی زبان میں ہے اور اس کا کمال عقل ہے۔ ( كنز الفوائد، ج‏1، ص: 200)
قیامت کے دن گواہی:
قرآن مجید میں بروز قیامت جن اعضاء کی گواہی کا ذکر ہے ان میں زبان بھی شامل ہے۔ چنانچہ انسان کو ہمیشہ سوچ سمجھ کر زبان استعمال کرنی چاہیے۔
یَّوۡمَ تَشۡہَدُ عَلَیۡہِمۡ اَلۡسِنَتُہُمۡ وَ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ اَرۡجُلُہُمۡ بِمَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ
اس دن ان کی زبانیں اور ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں ان سب اعمال کی گواہی دیں گے جو یہ کرتے رہے ہیں۔ (النور:24)
ایک اور مقام پہ ارشاد ہوتا ہے:کَلَّا سَنَکۡتُبُ مَا یَقُوۡلُ وَ نَمُدُّ لَہٗ مِنَ الۡعَذَابِ مَدًّا
ہرگز نہیں، جو کچھ یہ کہتا ہے ہم اسے لکھ لیں گے اور ہم اس کے عذاب میں مزید اضافہ کر دیں گے۔ (مریم:79)
اسی طرح انسان جو کچھ زبان سے کہتا ہے کراما کاتیبن فرشتے اسے لکھ لیتے ہیں۔لہذا انسان کو ہمیشہ سوچ سمجھ کر گفتگو کرنی چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ زبان کی مذکورہ چار قسموں میں سے کون سی قسم ہے اور اسی کے مطابق فیصلہ کرنا چاہیے کہ اسے یہاں بولنا چاہیے یا نہیں۔
امیر المومنین علیہ السلام سے روایت ہے:قَوِّمْ‏ لِسَانَكَ‏ تَسْلَم‏
اپنی زبان کی حفاظت کر تاکہ تو سلامت و محفوظ رہے۔(غرر الحكم و درر الكلم، ص: 499)
سبق آموز واقعہ:
بیان کیا جاتا ہے کہ لقمان حکیم ابتداء میں بنی اسرائیل میں سے کسی شخص کے غلام تھے۔ایک دن مالک نے حکم دیا کہ بھیڑ ذبح کرکے اس کے جسم کا بہترین حصہ لے آؤ تو لقمان اس کے دل و زبان نکال کر لے آئے۔کچھ عرصے بعد مالک نے پھر کہا کہ بھیڑ ذبح کرکے اس کے جسم کا بدترین حصہ لے کر آؤ تو لقمان اس بار بھی زبان اور دل نکال کر لے گئے۔مالک نے پوچھا کہ یہ کیا بات ہوئی تو لقمان حکیم نے فرمایا: اگر دل و زبان ایک دوسرے کی تصدیق کریں تو یہ جسم کے بہترین حصے ہیں۔(یعنی جو دل میں ہو زبان پر بھی وہی ہو) اور اگر یہ دل و زبان ایک دوسرے کی تصدیق نہ کریں تو یہ جسم کے بد ترین حصے ہیں۔( یعنی دل میں کچھ اور ہو اور زبان پر کچھ اور)
مالک نے یہ حکیمانہ گفتگو سنی تو خوش ہو کر جناب لقمان کو آزاد کر دیا۔ (ہزار و یک اخلاقی حکایت ص592)
نتیجہ گفتگو:
پس انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی زبان کو اپنے کنٹرول میں رکھے کیونکہ زبان کے ذریعے جنت بھی کما سکتا ہے اور جہنم بھی جا سکتا ہے۔ اسے ہمیشہ زبان کھولنے سے پہلے زبان کی وہ چار قسمیں یاد رکھنی چاہیں اور دیکھنا چاہیے کہ اگر یہ زبان کی مفید قسم ہے تو زبان کھولنی چاہیے ورنہ فضول گوئی یا گناہ کی بات کرنے سے کہیں بہتر ہے کہ انسان خاموش رہے۔زبان انسان کو تولنے کا پیمانہ اور معیار ہے اسی کے ذریعے انسان کی شخصیت کا معیار مقرر ہوتا ہے۔
زبان سے وہی نکلتا ہے جو انسان کے اندر ہوتا ہے لہذا اپنے اندر کو اور اپنے خیالات کو بھی پاک رکھنا چاہیے اسی طرح زبان سے وہی نکلتا ہے جس کا انسان نے اسے عادی بنایا ہوا ہوتا ہے، اگر اسے گالیوں کا عادی بنایا جائے ہر وقت اس سے گالیاں ہی نکلتی رہتی ہیں اور اگر اسے ذکر الہی اور اچھی مہذب گفتگو کا عادی بنایا جائے تو زبان ہمیشہ پاک و پاکیزہ رہتی ہے اور یوں انسان کی زبان غلطیاں بھی کم کرتی ہے۔
انسانی زندگی میں زبان کا اہم کردار ہے۔انسان کے شخصی اور اجتماعی عروج و زوال میں بھی زبان کا کرار بہت ہی اہم ہوتا ہے۔ایک اچھی اور تربیت بافتہ گفتگو شخصی زیبائی کے ساتھ ساتھ معاشرتی حسن و جمال کو بھی دوام بخشتی ہے، اور لوگوں کے لئے ایک مثالی سماج بن جاتا ہے، کہ جس میں سچائی، خوش اخلاقی اور مروت سے مذین گفتگو ہوتی ہے۔اس کے برعکس اسی زبان کو اگر بے ہودہ، اور بے مقصد باتوں میں استعمال کرے تو انفرادی یا شخصی تذلیل کے ساتھ ساتھ سماج کے ماحول کو بھی متاثر کرتی ہے۔ اسی حساسیت کی بنا پر شریعت اسلامی میں اس کی اہمیت، موارد استعمال اور استعمال سے متعلق بہت سے قوانین مرتب کئے ہیں۔ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے اگرہم اپنی زبان کو قرآن وسنت کی روشنی میں استعمال کریں تو دنیا و آخرت میں بھلائی ہوگی۔لیکن اگر ا س کو غیر شرعی امور میں استعمال کیا تو اللہ کی ناراضگی کے ساتھ ساتھ اس کے عذاب کا بھی باعث بنے گی۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں زبان کی لغزشوں سے امان عطاء فرمائے اور اسے حکم الٰہی کے مطابق مفید کاموں میں استعمال کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔آمین

٭٭٭٭٭
تمت بالخیر

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button