خطبات جمعہمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک(شمارہ:191)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک03 مارچ 2023ء بمطابق 10 شعبان المعظم 1444 ھ)
تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

جنوری 2019 میں بزرگ علماء کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے ۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
موضوع: عصر غیبت میں ہماری ذمہ داریاں
. 15 شعبان المعظم و ہ عظیم بابرکت د ن ہے جب اس دنیا میں ہمارے وقت کے امام کی ولادت باسعادت ہوئی۔لہذا آج کے خطبے میں ہماری گفتگو اسی مناسبت کے بارے میں ہوگی۔البتہ اس سے پہلے 15 شعبان کی رات کا ذکر بھی ضروری ہے جوکہ بہت عظیم رات ہے جسے شب نیمہ شعبان یعنی نصف شعبان کی رات یا شب برات بھی کہا جاتا ہے۔ شب برات یعنی گناہوں سے بری ہونے کی رات۔ یہ بڑی بابرکت رات ہے، امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ امام محمد باقر علیہ السلام سے نیمہ شعبان کی رات کی فضیلت کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا: یہ رات شب قدر کے علاوہ تمام راتوں سے افضل ہے۔ پس اس رات تقرب الٰہی حاصل کرنے کی کوشش کرنا چاہیئے۔ اس رات خدا تعالیٰ اپنے بندوں پر فضل و کرم فرماتا ہے اور ان کے گناہ معاف کرتا ہے حق تعالیٰ نے اپنی ذاتِ مقدس کی قسم کھائی ہے کہ اس رات وہ کسی سائل کو خالی نہ لوٹائے گا سوائے اس کے جو معصیت و نافرمانی سے متعلق سوال کرے۔ خدا نے یہ رات ہمارے لیے خاص کی ہے۔ جیسے شب قدر کو رسول اکرم ﷺکے لیے مخصوص فرمایا۔ پس اس شب میں زیادہ سے زیادہ حمد و ثناءالٰہی کرنا اس سے دعا و مناجات میں مصروف رہنا چاہیئے۔(شب برات کے تفصیلی اعمال کے لیے مفاتیح الجنان سے رجووع کریں)
مھدویت:
امام جعفر صادق علیہ السلام سے جب راوی حجت الھی کے بارے میں سوال کیا کہ ” کیا زمین بغیر امام کے باقی رہ سکتی ہے؟ تو حضرت نے جواب میں فرمایا «أَتَبْقَى اَلْأَرْضُ بِغَيْرِ إِمَامٍ ؟ قَالَ لَوْ بَقِيَتِ اَلْأَرْضُ بِغَيْرِ إِمَامٍ لَسَاخَتْ» اگر زمین امام کے وجود سے خالی رہی تو دھنس جائے گی ۔ (اصول کافی ، ج 1 ، ص 179)
نیز حضرت (ع) نے ایک دوسری روایت میں یوں فرمایا کہ«لَو لَمْ یبْقَ منَ الدُّنیا اِلاَّ یومٌ واحِدٌ لَطَوّلَ اللهُ ذلِكَ الیومَ حَتّی یخرُجَ قائمُنا أَهْلَ البَیت » اگر عمر دنیا کے ایک دن بھی بچے ہوں گے تو خداوند متعال اس دن کو اتنا طولانی کردے گا کہ ہمارا قائم ظھور کرے ۔) منتخب‌الاثر، ص 254)

لہذا ہمیں اپنے امام وقت (عج) کے ظہور کیلئے زیادہ سے زیادہ دعایئں کرنا چاہئے کیوں کہ رسول اسلام کی حدیث ہے کہ «افضلُ اَعمالٍ اُمّتی اِنتظارُ الفَرَج » میری امت کا افضل ترین عمل انتظار فرج یعنی امام زمانہ (عج) کے ظھور کا انتظار ہے ۔ ( الشِّهاب فی‌الحِکَم و الآداب، ص 16)
ایسا امام جو روایتوں کے مطابق اپنے ظھور کے بعد ظلم و نا انصافی سے بھری ہوئی دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دے گا ، مظلوموں کا سہارا ، بیکسوں کا مدد گار ، دنیا سے ظالم و جابر کا خاتمہ کرنے والا اور منتقم خون حسینی ہوگا۔
امام زین‌ العابدین علیہ السلام نے بھی ظھور امام زمانہ (عج) کے سلسلہ میں فرمایا
«اِذا قامَ قائمُنا أَذهَبَ اللهُ عَزَّوجلّ عَن شیعَتِناَ العاهَةَ وَ جَعَلَ قُلوبَهُم كَزُبَرِ الحَدیدِ وَ جَعلَ قُوّةَ الرَّجلِ مِنُهم قُوَّةَ اَربعینَ رَجُلاً » ( بحارالانوار، ج 52 ، ص 317))
جب ہمارا قائم قیام کرے گا تو خداوند متعال آفتوں کو شیعوں کے اوپر سے ہٹا دے گا اور ان دلوں میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح استقامت و استحکام کی طاقت دے گا ، ان کے مردوں کی طاقت چالیس مردوں کے برابر ہوگی ۔
امام محمد باقرعلیہ ‌السلام نے بھی اس سلسلہ میں فرمایا « مَن قَرأَ المُسبِّحاتِ كلَّها قَبلَ أن ینامَ لَمْ یمُتْ حَتّی یدرِكَ القائمَ صَلواتُ الله علَیه و إنْ ماتَ كانَ فی ‌جِوار رسولِ الله صلی‌الله علیه و آله و سلم » اگر کوئی ہر شب سونے سے پہلے مُسَبِّحبات( پانچ سورتوں "حدید و حشر و صف، و جمعه و تغاب)” کی تلاوت کرے تو اسے حضرت قائم علیہ السلام کے ظھور اور اپ کے دیدار سے پہلے موت نہیں گا اور اگر ظھور سے پہلے موت آجائے تو رسول ‌الله صلی ‌الله علیہ و آلہ و سلم کے جوار میں ہوگا ۔ ( تفسیر صافی، ج 5، ص 141)
عصر غیبت میں ہماری ذمہ داریاں:
عصر حاضر کے اہم مسائل میں سے ایک مسئلہ جو اہلبیت علیہم السلام کے پیروکاروں کے درمیان خاص اہمیت کا حامل ہے وہ یہ ہے کہ امام زمانہ عجل اللہ تعالی کے دور غیبت میں ان کے شیعوں اور چاہنے والوں کی کیا ذمہ داریاں ہیں؟ تاکہ وہ ان پر عمل پیرا ہو کر آپ کے ظہور کے لیے زمین ہموار کریں۔ یہاں ہم ان ذمہ داریوں میں سے چند کی طرف اشارہ کرتے ہیں جنہیں ہمیں ایک منتظر ہونے کے عنوان سے انجام دینا ضروری ہے ورنہ ہم آپ کے سچے منتظر نہیں سو سکیں گے:
1: امام زمانہ کی معرفت
یہ حقیقت ہے کہ جب تک ہم امام زمانہ علیہ السلام کو نہیں پہچانیں گے، ان کی معرفت حاصل نہیں کریں گے ہر گز ان کے واقعی انتظار کرنے والے نہیں بن سکتے ہیں۔ امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ ایک دن امام حسین علیہ السلام اپنے اصحاب کے مجمع میں داخل ہوئے اور خدا کی حمد و ثنا اور پیغمبر اکرم ﷺ پر درود و سلام بھیجنے کے بعد فرمایا:
َ أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ اللَّهَ جَلَّ ذِكْرُهُ مَا خَلَقَ الْعِبَادَ إِلَّا لِيَعْرِفُوهُ فَإِذَا عَرَفُوهُ عَبَدُوهُ فَإِذَا عَبَدُوهُ‏ اسْتَغْنَوْا بِعِبَادَتِهِ عَنْ عِبَادَةِ مَا سِوَاهُ فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ يَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ بِأَبِي أَنْتَ وَ أُمِّي فَمَا مَعْرِفَةُ اللَّهِ قَالَ مَعْرِفَةُ أَهْلِ كُلِّ زَمَانٍ إِمَامَهُمُ الَّذِي يَجِبُ عَلَيْهِمْ طَاعَتُهُ.( بحار الأنوار (ط – بيروت)، ج‏5، ص: 312)
اے لوگو! خداوند عالم نے بندوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ اس کی معرفت حاصل کریں، جب اس کی معرفت حاصل کر لیں تو اس کی عبادت کریں اور جب اس کی عبادت کریں تو اس کے غیر کی عبادت سے بے نیاز ہو جائیں۔ ایک شخص نے عرض کیا: اے فرزند رسول میرے ماں باپ آپ پر قربان جائیں، اللہ کی معرف سے کیا مراد ہے؟
فرمایا: ہر زمانے کے لوگوں کو اپنے اس امام کی معرفت حاصل کرنا جس کی اطاعت ان پر واجب ہے۔

امام زمانہ کے دوران غیبت میں جن دعاوں کو پڑھنے کی تاکید کی گئی ہے ان کے مضامین کی طرف توجہ کرنے سے بھی اس مسئلہ کی اہمیت کا پتا چلتا ہے ان دعاوں میں سے ایک معروف و مشہور دعا جو شیخ صدوق نے کتاب کمال الدین میں نقل کی ہے پڑھتے ہیں:
ِ اللَّهُمَّ عَرِّفْنِي‏ نَفْسَكَ‏ فَإِنَّكَ إِنْ لَمْ تُعَرِّفْنِي نَفْسَكَ لَمْ أَعْرِفْ نَبِيَّكَ
اللَّهُمَّ عَرِّفْنِي رَسُولَكَ فَإِنَّكَ إِنْ لَمْ تُعَرِّفْنِي رَسُولَكَ لَمْ أَعْرِفْ حُجَّتَكَ
اللَّهُمَّ عَرِّفْنِي حُجَّتَكَ فَإِنَّكَ إِنْ لَمْ تُعَرِّفْنِي حُجَّتَكَ ضَلَلْتُ عَنْ دِينِي‏
خدایا! تو خود ہمیں اپنی معرفت دلا، اگر تو نے اپنی معرفت نہ دلائی تو ہم تیرے نبی کی معرفت حاصل نہیں کر پائیں گے،
بارالہا! ہمیں اپنے نبی کی معرفت دلا، اگر تو نے اپنے نبی کی معرفت نہ دلائی تو ہم تیری حجت کی معرفت حاصل نہیں کر پائیں گے۔
پروردگارا! اپنی حجت کی معرفت دلا اگر تو نے اپنی حجت کی معرفت نہ دلائی تو ہم اپنے دین سے گمراہ ہو جائیں گے۔
لہذا منتظرین امام زمانے عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی ذمہ داریوں میں سے سب سے پہلی اور مہم ذمہ داری اپنے زمانے کے امام کی شناخت، معرفت اور پہچان حاصل کرنا لازم ہے اس لئے کہ جب تک ہمیں اپنے زمانے کے امام کی معرفت نہ ہوگی تب تک ہم ان سے غافل رہیں گے اور ان کے ظہور کی اہمیت کو اور ان کی غیبت کو ہم نہیں جان سکیں گے جیسا کہ مرسل اعظم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے فرمایا :
مَنْ مَاتَ وَ لَمْ يَعْرِفْ إِمَامَ زَمَانِهِ مَاتَ‏ مِيتَةً جَاهِلِيَّة (بحار الانوار، ج 8، ص 368)
جو شخص اپنے زمانے کے امام کی معرفت حاصل کئے بغیر مر جائے تو وہ جاہلیت کی موت مرا ہے۔
2: ولایت اہلبیت علیہم السلام سے تمسک:
عصر غیبت میں امام علیہ السلام کا انتظار کرنے والوں کی ایک اہم ذمہ داری یہ ہے کہ وہ ولایت ائمہ معصومین سے متمسک رہیں۔
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:
طُوبَى‏ لِشِيعَتِنَا الْمُتَمَسِّكِينَ بِحَبْلِنَا فِي غَيْبَةِ قَائِمِنَا الثَّابِتِينَ عَلَى مُوَالاتِنَا وَ الْبَرَاءَةِ مِنْ أَعْدَائِنَا (كمال الدين و تمام النعمة، ج‏2، ص: 361)
خوش نصیب ہیں ہمارے وہ شیعہ جو ہمارے قائم کے زمانے میں ہماری رسی سے متمسک رہیں،ہماری ولایت پر ثابت قدم رہیں اور ہمارے دشمنوں سے برات کرتے رہیں۔
امام سجاد علیہ السلام نے فرمایا:
مَنْ ثَبَتَ‏ عَلَى‏ مُوَالاتِنَا فِي غَيْبَةِ قَائِمِنَا أَعْطَاهُ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ أَجْرَ أَلْفِ شَهِيدٍ مِنْ شُهَدَاءِ بَدْرٍ وَ أُحُدٍ.
كمال الدين و تمام النعمة، ج‏1، ص: 323)
جو شخص ہمارے قائم کی غیبت کے دور میں ہماری دوستی اور ولایت پر ثابت قدم رہے خداوند عالم ان ہزار شہیدوں کا اجر و ثواب اسے عطا کرے گا جو بدر و احد میں شہید ہوئے ہوں۔
3: انتظار فرج:
عصر غیبت میں مومنین کا ایک فریضہ یہ ہے کہ اپنے امام کا شدت سے انتظار کریں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا:
أَفْضَلُ أَعْمَالِ أُمَّتِي انْتِظَارُ الْفَرَج‏
میری امت کا بہترین عمل انتظار فرج ہے۔
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:
أقْرَبُ مَا يَكُونُ‏ الْعِبَادُ مِنَ اللَّهِ جَلَّ ذِكْرُهُ وَ أَرْضَى مَا يَكُونُ عَنْهُمْ إِذَا افْتَقَدُوا حُجَّةَ اللَّهِ جَلَّ وَ عَزَّ وَ لَمْ يَظْهَرْ لَهُمْ وَ لَمْ يَعْلَمُوا مَكَانَهُ وَ هُمْ فِي ذَلِكَ يَعْلَمُونَ أَنَّهُ لَمْ تَبْطُلْ حُجَّةُ اللَّهِ جَلَّ ذِكْرُهُ وَ لَا مِيثَاقُهُ فَعِنْدَهَا فَتَوَقَّعُوا الْفَرَجَ صَبَاحاً وَ مَسَاء(الكافي (ط – الإسلامية)، ج‏1، ص: 333)
اس وقت بندے اللہ سے نزدیک ہوں گے اور اللہ ان سے راضی ہو گا جب اللہ کی حجت ان کے درمیان سے غائب ہو اور وہ اس کی جگہ کو نہ پہنچانتے ہوں اس کے باوجود وہ یہ یقین رکھتے ہوں کہ خدا کی حجت ہمارے درمیان سے نہیں اٹھی ہے۔ لہذا وہ صبح و شام اس کے ظہور کا انتظار کرتے رہیں۔
امام صادق علیہ السلام نے پیغمبر اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہوئے فرمایا:
سَيَأْتِي قَوْمٌ مِنْ بَعْدِكُمْ الرَّجُلُ الْوَاحِدُ مِنْهُمْ لَهُ أَجْرُ خَمْسِينَ‏ مِنْكُمْ‏ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ نَحْنُ كُنَّا مَعَكَ بِبَدْرٍ وَ أُحُدٍ وَ حُنَيْنٍ وَ نَزَلَ فِينَا الْقُرْآنُ فَقَالَ إِنَّكُمْ لَوْ تَحَمَّلُوا لِمَا حُمِّلُوا لَمْ تَصْبِرُوا صَبْرَهُمْ.
( بحار الأنوار (ط – بيروت)، ج‏52، ص: 130)
تم لوگوں کے بعد ایک ایسی قوم آئے گی جس میں سے ہر ایک شخص تم میں پچاس افراد کا ثواب کمائے گا۔ کہا: یا رسول اللہ! ہم جنگ بدر و احد اور حنین میں آپ کے ساتھ تھے اور ہمارے درمیان قرآن نازل ہوا ہے؟ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا: جو کچھ وہ تحمل اور برداشت کریں گے اگر تم کرنا چاہو تو ان جیسا صبر نہیں کر پاو گے۔
4: اصلاح نفس
منتظرین کی ذمہ داریوں میں سے ایک ذمہ داری یہ بھی ہے کہ وہ خود کی اصلاح کریں، اخلاق حسنہ اور صفات کمالیہ سے اپنے آپ کو آراستہ و پیراستہ کریں۔ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:
َ مَنْ‏ سَرَّهُ‏ أَنْ‏ يَكُونَ‏ مِنْ أَصْحَابِ الْقَائِمِ فَلْيَنْتَظِرْ وَ لْيَعْمَلْ بِالْوَرَعِ وَ مَحَاسِنِ الْأَخْلَاقِ وَ هُوَ مُنْتَظِر(الغيبة للنعماني، النص، ص: 200)
جو شخص چاہتا ہے کہ امام ہمارے قائم کے اصحاب میں سے ہو، اسے چاہیے کہ انتظار کرے، ورع اور پرہیز گاری اختیار کرے اور نیک اخلاق اپنائے پس ایسا شخص حقیقی منتظر ہو گا۔
اسی طرح امام صادق علیہ السلام نے ایک اور جگہ فرمایا: إِنَ‏ لِصَاحِبِ‏ هَذَا الْأَمْرِ غَيْبَةً فَلْيَتَّقِ اللَّهَ عَبْدٌ وَ لْيَتَمَسَّكْ بِدِينِهِ
(كمال الدين و تمام النعمة، ج‏2، ص: 343)
بتحقیق صاحب امر کے لیے ایک غیبت کا زمانہ ہو گا لہذا اللہ کے بندوں کو تقویٰ اختیار کرنا ہو گا اور ان کے دین سے متمسک رہنا ہو گا۔
5: سماجی اصلاح
دوران غیبت میں مومنین کی ایک ذمہ داری یہ ہے کہ اپنے نفس کی اصلاح کے ساتھ ساتھ سماج اور معاشرے کی اصلاح بھی کریں۔اگر ہر انسان اس ذمہ داری کو سمجھ کر اپنے گھر سے شروع کرے تو یقینا سماج خود بخود سدھر جائے گا، معاشرے سے برائیاں ختم ہو جائیں گی اور نتیجۃ پورا معاشرہ امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی حکومت کو قبول کرنے کے لیے آمادہ ہو جائے گا۔
امام باقر علیہ السلام نے دوران غیبت شیعوں کی ذمہ داریوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
لِيُعِنْ قَوِيُّكُمْ‏ ضَعِيفَكُمْ‏ وَ لْيَعْطِفْ غَنِيُّكُمْ عَلَى فَقِيرِكُمْ وَ لْيَنْصَحِ الرَّجُلُ أَخَاهُ كَنُصْحِهِ لِنَفْسِه (بحار الأنوار (ط – بيروت)، ج‏71، ص: 225)
تم میں سے صاحبان قدرت ضعیفوں کی مدد کریں، غنی اور مالدار فقیروں کی دستگیری کریں اور ہر انسان اپنے بھائی کو مفید نصیحت کرے۔
6-علماء و مبلغین کی ذمہ داری:
مندرجہ ذیل روایت اس سلسلے میں راہنمائی کرتی ہے تا کہ مبلغ اپنے اصلی راستے کو پہچانتے ہوئے زمانہ غیبت میں کامیاب ہوجائے اور "سب سے زیادہ بافضیلت عالم” کے قیمتی مقام تک اللہ کی بارگاہ میں فائز ہوجائے۔
حضرت امام حسن عسکری، حضرت امام علی النقی (علیہما السلام) سے نقل فرماتے ہیں:
لَوْلَا مَنْ‏ يَبْقَى‏ بَعْدَ غَيْبَةِ قَائِمِنَا مِنَ الْعُلَمَاءِ الدَّاعِينَ إِلَيْهِ وَ الدَّالِّينَ عَلَيْهِ وَ الذَّابِّينَ عَنْ دِينِهِ بِحُجَجِ اللَّهِ وَ الْمُنْقِذِينَ لِضُعَفَاءِ عِبَادِ اللَّهِ مِنْ شِبَاكِ إِبْلِيسَ وَ مَرَدَتِهِ وَ مِنْ فِخَاخِ النَّوَاصِبِ الَّذِينَ يُمْسِكُونَ قُلُوبَ ضُعَفَاءِ الشِّيعَةِ كَمَا يُمْسِكُ السَّفِينَةَ سُكَّانُهَا لَمَا بَقِيَ أَحَدٌ إِلَّا ارْتَدَّ عَنْ دِينِ اللَّهِ، أُولَئِكَ هُمُ الْأَفْضَلُونَ عِنْدَ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ.( الفصول المهمة في أصول الأئمة (تكملة الوسائل)، ج‏1، ص: 604)
"ہمارے قائم کی غیبت کے بعد اگر وہ علما باقی نہ رہیں جو لوگوں کو آنحضرت کی طرف بلائیں اور آنحضرت کی طرف راہنمائی کریں اور آنحضرت کے دین کا خدائی دلائل کے ذریعے دفاع کریں اور اللہ کے کمزور بندوں کو شیطان اور فاسقوں کی چالوں سے اور ناصبیوں کی کمین گاہوں سے نجات دیں، تو ہر کوئی خدا کے دین سے پلٹ جائے گا لیکن یہ علما ہیں جو کمزور شیعوں کے دلوں کی لگام کو مضبوطی سے پکڑ رکھتے ہیں جیسے کشتی کا ملاح، کشتی نشینوں کو مضبوطی سے سمبھالے رکھتا ہے، صرف یہی، اللہ عزوجل کی بارگاہ میں افضل ہیں”۔
امام علیہ السلام اس روایت میں گمراہی سے لوگوں کی نجات اور ہدایت کو علما کی جد و جہد پر منحصر فرماتے ہیں۔ ان علماءکی مندرجہ ذیل صفات ہیں:
۱۔ لوگوں کو امام زمانہ (علیہ السلام) کی طرف بلاتے ہیں: یہ ایسا مسئلہ ہے جو آجکل رفتہ رفتہ معاشرتی، سیاسی اور اقتصادی بحثوں کی وجہ سے مدھم ہوگیا ہے اور بعض خود، آنحضرت کی یاد سے غافل ہوگئے ہیں، تو لوگوں کو آںحضرت کی طرف پکارنا کجا؟۔ اگر ہم لوگوں کو آںحضرت کی طرف پکاریں اور ان لوگوں کی "منتظر” کے طور پر تربیت کریں تو ہم نے ایسا معیار قائم کردیا ہے کہ ہر آدمی اپنے کردار، گفتگو اور افکار کو اس معیار کے مطابق سلجھا دے گا۔ جو شخص انتظار کی حالت میں زندگی بسر کرے وہ اپنے آپ کو یوں سدھارے گا کہ جب آنحضرت کا ظہور ہو، آسانی سے اپنی تمام خواہشات کو نظرانداز کرتا ہوا آمادہ ہوجائے گا اور عذر و بہانے کے بغیر سپاہی بننے اور جانثاری کے اشتیاق میں پھولے نہیں سمائے گا اور سبکدوش ہوتا ہوا آنحضرت کی طرف پرواز کرکے آپ کی آواز پر لبیک کہے گا۔ اس صفات کے حامل افراد، ہرگز دھوکہ، فریب، حرام خوری، ظلم و ستم، دغابازی، شہوت پسندی اور ہوس پرستی کے جال میں نہیں پھنستے اور مختصر الفاظ میں یوں کہا جائے کہ وہ شیطان کے فرمانبردار غلام نہیں بنتے۔ اس خصوصیت کے ساتھ انتظار کرنا، فائدہ مند ہے اور امت پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بہترین عمل شمار ہوتا ہے۔ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: " أَفْضَلُ أَعْمَالِ أُمَّتِي انْتِظَارُ الْفَرَج "میری امت کا بہترین عمل، اللہ کی طرف سے فرج ہونے کا انتظار کرنا ہے”۔
۲۔ جن لوگوں کو آنحضرت کی معرفت نہیں ہے، یہ افضل علما کی ذمہ داری ہے کہ انہیں آنحضرت کی طرف راہنمائی کریں۔ عالمی سطح پر نجات دینے والے اور اصلاح کرنے والے کا ظہور تمام ادیان کی نظر میں متفقہ مسائل میں سے ہے۔ اسلام میں بھی نجات دینے والے کا ظہور جس کا نام مہدی ہے اور حسن کا فرزند ہے، یقینی حقائق میں سے ہے اور اہلسنت کے بہت سارے مآخذ میں یہ بات واضح طور پر بیان ہوئی ہے اور اگر اسلامی مذاہب کے درمیان کوئی شبہ ہے تو وہ مصداق کے لحاظ سے ہے۔ ہم شیعوں کا یہ عقیدہ ہے کہ آنحضرت زندہ ہیں اور زمین پر خدا کی حجت ہیں، لیکن دیگر اسلامی مذاہب آنحضرت کی پیدائش اور قیام کرنے کی انتظار میں ہیں۔ انہی باتوں کو واضح کرنا اور آنحضرت کی شخصیت، آپ کی مدت حیات، آپ کا شیعوں کے اعمال و کردار پر ناظر ہونا اور کائنات پر حجت خدا کے وجود کے اثر وغیرہ کے سلسلے میں گفتگو کرنا، یہ سب لوگوں کی حجت الہی کی طرف راہنمائی ہے۔
۳۔ دین کا دفاع: غیبت کے دور میں آنحضرت کے دین کا دفاع کرنا افضل علما کی اہم ترین ذمہ داریوں میں سے ہے۔ وہ خدائی دلائل کے ذریعے اللہ کے دین کا دفاع کرتے ہیں۔ اگر کوئی شخص الہی دلائل کو حاصل کرنا چاہے اور اس ذریعے سے اللہ کے دین کا دفاع کرنا چاہے تو ثقلین کے مکتب میں اسے تعلیم حاصل کرنی چاہیے۔
۴۔ شیعوں کو فسادات سے بچانا: وہ علماء زیادہ بافضیلت ہیں جو زمانہ غیبت میں شیعوں کو شیطان اور فاسقوں کی جالوں سے بچانے کے لئے کوشش کرتے ہیں اور اپنی پوری توانائیوں کے ذریعے فسادات اور گناہوں میں ان کے آلودہ ہونے کی روک تھام کرتے ہیں۔ چونکہ ہمدرد علماء آیات قرآن اور روایات کی بنیاد پر، فساد و بھلائی کا اور اسی طرح مفاسد اور مصلحتوں کا فرق سمجھ سکتے ہیں، لہذا شیطان اور اسکے فاسق حامیوں کی صفوں کے مقابلے میں کھڑے ہوسکتے ہیں اور ضلالت و گمراہی کی خطرناک جگہوں سے لوگوں کو آگاہ کرسکتے ہیں تا کہ وہ شیطان کے دھوکے کے جالوں میں پھنس نہ جائیں۔
۵۔ اہل بیت (علیہم السلام) کے دشمنوں سے مقابلہ: بافضیلت ترین علما کی ذمہ داریوں میں سے ایک ذمہ داری، اہل بیت علیہم السلام کے دشمنوں کی شرارتوں کے مقابلہ میں کھڑا ہونا ہے۔ اس دور میں وہابیت جو پورے زور کے ساتھ شیعہ کے مقابلہ میں کھڑی ہے، اس کی کوشش ہے کہ عالمی طاقتوں کے مقاصد کے لئے تشیع کو کمزور کردے اور مولویوں کی تعلیمات میں ایک اہم چیز جس پر بہت زور دیا جاتا ہے، شیعہ سے مخالفت ہے۔ ان کے تمام اہل سنت کی نظر میں جو خطرناک اور دھتکارے ہوئے عقائد ہیں، دنیابھر کے مختلف علاقوں میں تیزی کے ساتھ پھیلتے جارہے ہیں اور ان کی تمام تر کوشش اہل سنت کو شیعوں سے الگ کرنا ہے تا کہ وہ ایک تو رفتہ رفتہ تشیع کے برحق معارف سے متاثر نہ ہوتے چلے جائیں اور دوسرا یہ کہ اہل سنت کا شیعوں سے مقابلہ کرنے کا راستہ ہموار ہوجائے۔ اگر کسی زمانے میں اہل سنت شیعوں کے ساتھ امام بارگاہوں میں حضرت سیدالشہدا حسین بن علی (علیہما السلام) کی عزاداری کے لئے اکٹھے ہوتے تھے اور کثرت سے امام رضا (علیہ السلام) کی زیارت کے لئے مشرف ہوتے تھے تو وہابیوں کی مذموم سرگرمیوں کے تحت دو مذاہب کے اجتماع کی ان جگہوں پر حملے ہوئے ہیں اور ان کی کوشش یہ رہی ہے کہ دن بدن ان کے درمیان تفرقہ بڑھاتے جائیں۔ وہابی تحریکوں کی بیرون ملک سے مسلسل پشت پناہی کی جاتی ہے اور وہابیوں کی طرف سے ان اہل سنت افراد کو جو شیعوں کی مجالس میں آتے ہیں، پہلے دھمکی دی جاتی ہے اور اس کے بعد بے تحاشا تعاون جو اہل سنت کے لئے بالکل سیاسی مقاصد سے بھیجا رہا ہوتا ہے، اسے بند کردیا جاتا ہے۔ اس کشمکش میں شیعہ علماء، اہل بیت (علیہم السلام) کے حتی ان فضائل کو بیان کرنے سے پرہیز کرتے ہیں جو اہل سنت کی کتب صحاح ستہ میں ذکر ہوئے ہیں اور انہوں نے محروم شیعوں کو اہل بیت (علیہم السلام) کے بے رحم دشمنوں کے سامنے چھوڑ دیا ہے۔
افضل علماء ہرگز ایسے حالات کو برداشت نہیں کرتے اور شیعوں کے دلوں کی ہدایت کے لئے، عالمانہ انداز میں، مضبوط تدبیر اور پختہ ارادہ کے ساتھ کوشش کرتے ہیں کیونکہ اگر ایسا نہ کریں تو سب لوگ اللہ کے دین سے پلٹ جائیں گے۔

تمت بالخیر
٭٭٭٭٭

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button