خطبہ جمعۃ المبارک (شمارہ:317)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک 22 اگست 2025 بمطابق 27 صفر المظفر 1447ھ)
تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
جنوری 2019 میں بزرگ علماء بالخصوص آیۃ اللہ شیخ محسن علی نجفی قدس سرہ کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
موضوع: رحلتِ رسول ﷺ اور شہادتِ امام حسن مجتبیٰؑ
﷽
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، وَالصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ عَلَى سَيِّدِنَا وَنَبِيِّنَا أَبِي الْقَاسِمِ مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِهِ الطَّيِّبِينَ الطَّاهِرِينَ الْمَعْصُومِينَ الْمُنْتَجَبِينَ، سِيَّمَا بَقِيَّةِ اللّٰهِ فِي الْأَرَضِينَ، وَاللَّعْنَةُ الدَّائِمَةُ عَلَى أَعْدَائِهِمْ أَجْمَعِينَ إِلَى يَوْمِ الدِّينِ
اللہ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں ایک بار پھر اس جمعہ میں جمع ہونے کی توفیق عطا فرمائی۔ یہ اجتماع ہمیں عبادت کے ساتھ ساتھ محمد و آل محمد (ص) کی محبت سے جوڑتا ہے۔ آج کا یہ اجتماع ایک خاص مناسبت سے ہے، 28 صفر کو خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰ (ص) کی رحلت اور ان کے نواسے، سبط اکبر امام حسن مجتبیٰ (ع) کی شہادت کی یاد منا رہے ہیں۔ یہ دن نہ صرف امت کے لیے غم کا دن ہے بلکہ یہ دونوں ہستیوں کی سیرت کو سمجھنے کا موقع بھی ہے۔
آج ہم اسی مناسبت سے ان دونوں عظیم ہستیوں کی سیرت، فضائل، اور ہماری زندگیوں کے لیے ان کے اہم اخلاقی اسباق پر تفصیلی گفتگو کریں گے۔
ذاتِ رسول اکرم (ص): ایک اخلاقی نمونہ اور امت کی ذمہ داری
نبی اکرم (ص) کی حیات کا مقصد انسانیت کو شرک، جہالت اور ظلمت سے نکال کر توحید، علم اور نور کی طرف لانا تھا۔ آپ (ص) کی ذات ہماری زندگی کے ہر پہلو میں ہمارے لیے ایک بہترین نمونہ ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:
لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللّٰهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللّٰهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللّٰهَ كَثِيرًا
ترجمہ: "بے شک تمہارے لیے رسول اللہ کی ذات میں بہترین نمونہ ہے، ہر اس شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخرت کی امید رکھتا ہے اور اللہ کو کثرت سے یاد کرتا ہے۔”(سورۃ الاحزاب، آیت 21)
آپ (ص) کے اخلاق کی ایک درخشاں مثال عفو و درگزر ہے۔ نبی (ص) کی سیرت ہمیں سکھاتی ہے کہ برائی کا جواب ہمیشہ اچھائی سے دینا چاہیے۔ آپ (ص) نےقرآنی آیت: "اِدْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ” (برائی کو اس طرح سے دفع کرو جو بہترین ہو۔) اس کی سب سے بڑی عملی مثال فتح مکہ کے موقع پر دیکھنے کو ملی۔ جب نبی (ص) نے مکہ کو فتح کیا تو آپ نے اپنے ان تمام بدترین دشمنوں کو معاف کر دیا جنہوں نے آپ (ص) اور مسلمانوں کو بے حد تکالیف پہنچائی تھیں۔ یہ عفو و درگزر کا ایک بہترین اخلاقی سبق ہے جو یہ سکھاتا ہے کہ طاقت اور فتح کے باوجود انتقام کی بجائے معافی سے کام لینا چاہیے۔
آپﷺ اپنی رحلت سے پہلے ہی اپنی ڈیوٹی یعنی دین کی تبیلیغ مکمل کر چکے تھے پس دین مکمل ہو چکا تھا،جس کی تصدیق قرآن کی یہ آیت کرتی ہے:
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا
ترجمہ: "آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند کیا۔”(سورۃ المائدہ، آیت 3)
نبی (ص) کی رحلت کے بعد، ضرورت اس امر کی تھی کہ جو دین آپ مکمل کرکے پہنچا چکے تھے اس کو محفوظ رکھا جائے اور امت تک محفوظ حالت میں پہنچایا جائے۔ اسی لیے، آپ (ص) نے اپنی رحلت سے پہلے امت کو قرآن اور اہل بیت (ع) سے وابستہ رہنے کا حکم دیا:
"إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمُ الثَّقَلَيْنِ: كِتَابَ اللّٰهِ وَ عِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي، فَإِنَّهُمَا لَنْ يَفْتَرِقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ مَا إِنْ تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا لَنْ تَضِلوا بعدی ابدا”
"میں تم میں دو گراں قدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں: اللہ کی کتاب اور میری عترت، یعنی میرے اہل بیت۔یہ دونوں تب تک جدا نہیں ہوں گے جب تک میرے پاس حوض کوثر پہ نہ پہنچ جائیں۔پس جب تک تم ان دونوں سے جڑے رہو گے، کبھی گمراہ نہیں ہوگے۔”(مستدرک حاکم، جلد 3، صفحہ 109)
شہادتِ امام حسن مجتبیٰ (ع): صبر اور صلح کا جوہر
28 صفر ہی کے دن نبی اکرم (ص) کے محبوب نواسے اور جنت کے نوجوانوں کے سردار امام حسن مجتبیٰ (ع) کی شہادت بھی واقع ہوئی۔ آپ کی زندگی اور شہادت ہمیں صبر، تحمل اور حکمت کا گہرا سبق دیتی ہے۔
نبی کریم ﷺ نے امام حسن و حسین علیہما السلام کے بارے میں فرمایا:
مَنْ أَحَبَّ اَلْحَسَنَ وَ اَلْحُسَيْنَ أَحْبَبْتُهُ وَ مَنْ أَحْبَبْتُهُ أَحَبَّهُ اَللّٰهُ وَ مَنْ أَحَبَّهُ اَللّٰهُ أَدْخَلَهُ اَلْجَنَّةَ وَ مَنْ أَبْغَضَهُمَا أَبْغَضْتُهُ وَ مَنْ أَبْغَضْتُهُ أَبْغَضَهُ اَللّٰهُ وَ مَنْ أَبْغَضَهُ اَللّٰهُ أَدْخَلَهُ اَلنَّارَ(بحار الانوار ج۴۳ , ص۲۷۵ )
جس نے حسنؑ و حسینؑ سے محبت کی تو میں اس سے محبت کروں گا اور جس سے میں محبت کروں تو اللہ اس سے محبت کرے گا اور جس سے اللہ محبت کرے تو وہ اسے جنت میں داخل کرے گا اور جس نے ا ن دونوں سے بغض رکھا تو میں بھی اس سے غضبناک ہوں گا اور جس سے میں غضب ناک ہوا تو اللہ بھی اس سے غضبناک ہو گا اور جس سے اللہ غضبناک ہو تو وہ اسے جہنم میں داخل کرے گا۔
ایک اور مقام پہ ان دونوں ہستیوں سے فرمایا:أَنْتُمَا اَلْإِمَامَانِ وَ لِأُمِّكُمَا اَلشَّفَاعَةُ.
آپ دونوں امام ہیں اور آپ کی ماں کو حق شفاعت حاصل ہے۔(کشف الغمہ جلد ۱، صفحه ۴۷۷)
ایک اور مقام پہ فرمایا: إِنَّ عَلِيّاً وَصِيِّي وَ خَلِيفَتِي وَ زَوْجَتَهُ فَاطِمَةَ سَيِّدَةَ نِسَاءِ اَلْعَالَمِينَ اِبْنَتِي وَ اَلْحَسَنَ وَ اَلْحُسَيْنَ سَيِّدَا شَبَابِ أَهْلِ اَلْجَنَّةِ وَلَدَايَ مَنْ وَالاَهُمْ فَقَدْ وَالاَنِي وَ مَنْ عَادَاهُمْ فَقَدْ عَادَانِي
یقینا علیؑ میرے وصی ہیں اور خلیفہ ہیں اور ان کی زوجہ فاطمہؑ عالمین کی عورتوں کی سردار ہیں اور حسنؑ و حسینؑ جوانان جنت کے سردار ہیں، جس نے ان سے محبت رکھی اس نے محبت رکھی اور جس نے ان سے دشمنی رکھی اس نے مجھ سے دشمنی رکھی۔( من لا يحضره الفقيه , جلد۴ , صفحه۱۷۹ )
واقعہ:
امام حسنؑ ایک ایسے حبشی غلام کے پاس سے گذرے جو اپنے سا منے رکھی ہو ئی روٹی کا ایک ٹکڑا خود کھاتاتھا اور دوسرا ٹکڑا اپنے کتےّ کو ڈال رہا تھا، امام نے اس سے فرمایا:”تم ایسا کیوں کر رہے ہو؟”
اس نے کہا مجھے شرم آتی ہے کہ میں تو روٹی کھائوں اور اس کو نہ کھلائوں۔
امام نے اس غلام میں اس بہترین خصلت کا مشاہدہ فرمایا اور اس کو اس اچھی خصلت کی جزا دینا چاہی اس کے احسان کے مقابلہ میں احسان کرنا چاہاتاکہ فضیلتوں کو رائج کیا جا سکے۔اس سے فرمایا: تم اسی جگہ پر رہو، پھر آپ نے اس کے مالک کے پاس جاکر غلام اور جس باغ میں وہ رہتا تھا اس کو خریدااور اس کے بعد اسے آزاد کرکے اس باغ کا مالک بنا دیا۔(البدایہ والنھایہ جلد ٨ صفحہ ٣٨)
بردباری:
امام حسن (ع) کا اخلاقی کردار بھی نبی (ص) کے اخلاق کا عکس تھا۔ ایک شخص شام سے آیا ہوا تھا اور اس نے دشمن اہلبیت کے اکسانے پر اس نے امام علیہ السلام کو برا بھلا کہا امام علیہ السلام نے سکوت اختیار کیا، پھر آپ نے اس کو مسکرا کر نہایت شیرین انداز میں سلام کیا اور کہا:
” اے ضعیف انسان میرا خیال ہے کہ تو مسافر ہے اور میں گمان کرتا ہوں کہ تو اشتباہ میں پڑگیا ہے _ اگر تم مجھ سے میری رضامندی کے طلبگار ہو یا کوئی چیز چاہیے تو میں تم کو دونگا اور ضرورت کے وقت تمہاری راہنمائی کروں گا _ اگر تمہارے اوپر قرض ہے تو میں اس قرض کو ادا کروں گا _ اگر تم بھوکے ہو تومیں تم کو سیر کردونگا … اور اگر، میرے پاس آؤگے تو زیادہ آرام محسوس کروگے۔
وہ شخص شرمسار ہوا اور رونے لگا اور اس نے عرض کی: ” میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ زمین پر خدا کے خلیفہ ہیں _خدا بہتر جانتا ہے کہ و ہ اپنی رسالت کو کہاں قرار دے_ آپ اور آپ کے والد میرے نزدیک مبغوض ترین شخص تھے لیکن اب آپ میری نظر میں سب سے زیادہ محبوب ہیں”۔(مناقب ج4 ص53)
امام حسن علیہ السلام کی صلح اور امام حسین علیہ السلام کے قیام کا فلسفہ
قرآن میں ارشاد ہے:قُلْ إِنَّمَا أَعِظُكُم بِوَاحِدَةٍ أَن تَقُومُوا لِلّٰهِ مَثْنَىٰ وَفُرَادَىٰ (سبا: ۴۶)
“کہہ دو! میں تمہیں بس ایک ہی نصیحت کرتا ہوں کہ تم اللہ کے لیے اٹھ کھڑے ہو، دو دو کر کے یا اکیلے اکیلے۔”
تمام انبیاء و ائمہ علیہم السلام کا مقصد ہمیشہ ایک رہا ہے اور وہ مقصد ہے دینِ الٰہی کی حفاظت اور انسانوں کی ہدایت۔ ان کی راہوں میں جو فرق ہمیں دکھائی دیتا ہے وہ مقاصد میں نہیں بلکہ حالات اور وسائل کے فرق کی وجہ سے ہے۔
• پس ایک طرف امام حسنؑ نے اس وقت کی امت کے شکوک و شبہات کو دیکھتے ہوئے اور اپنے شیعوں کو خون ریزی سے بچانے کے لیے صلح کو اختیار فرمایا تاکہ اسلام کے دشمن اپنے حقیقی چہرے کے ساتھ سب کے سامنے آجائیں اور امت حقیقت کو پہچان لے۔
• جبکہ دوسری جانب امام حسینؑ نے اُس وقت قیام فرمایا جب حکمران کھلے عام فسق و فجور میں ڈوبا ہوا تھا، اسلام کی بنیادوں کو پامال کر رہا تھا اور امت مردہ ضمیری کا شکار ہوچکی تھی۔ ایسے حالات میں خون کی قربانی کے بغیر دین کو بچایا نہیں جا سکتا تھا۔
• یوں ایک امام نے صلح کے ذریعے امت کے شک و شبہ کو ختم کیا اور اپنے پیروکاروں کو بڑے پیمانے پر خون ریزی سے بچایا اور دوسرے امام نے قربانی کے ذریعے سوئے ہوئے ضمیروں کو جگایا۔ دونوں کی حکمتِ عملی مختلف تھی مگر مقصد ایک ہی تھا: دین اسلام کو زندہ رکھنا اور امت کو بیدار کرنا۔
امام حسن (ع) کی شہادت ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ دین کی بقا کے لیے صرف جہاد ہی نہیں، بلکہ صبر اور حکمت عملی بھی ضروری ہے۔ امام درحقیقت دین کا محافظ ہوتا ہے اور وہ ہر صورت میں دین کو محفوظ رکھتا ہے اسی لیے امام حسن (ع) نے صلح کی جبکہ بعد میں امام حسین (ع) نے قیام کیا، اور دونوں کا مقصد ایک ہی تھا،” جو دین کو بچانا تھا۔
منتخب احادیث:
آخر میں وعظ و نصیحت کے لیے ان دو ہستیوں کی چند احادیث پیش خدمت ہیں:
رسول خدا ﷺ سے روایت ہے:
• يُطْبَعُ الْمُؤْمِنُ عَلَىٰ كُلِّ خَصْلَةٍ وَلَا يُطْبَعُ عَلَىٰ الْكَذِبِ وَلَا عَلَىٰ الْخِيَانَةِ.
• مومن میں ہر خصلت ہو سکتی ہے لیکن جھوٹ اور خیانت نہیں ہو سکتی۔
• وَ مَنْ عَيَّرَ مُؤْمِنًا بِشَيْءٍ لَمْ يَمُتْ حَتَّىٰ يَرْكَبَهُ.
• جس شخص نے کسی مومن پر کسی چیز کی تہمت لگائی وہ اس وقت تک نہیں مرے گا جب تک خود اس کا مرتکب نہیں ہوگا۔
• مَنْ أَحَبَّ عَمَلَ قَوْمٍ أُشْرِكَ مَعَهُمْ فِي عَمَلِهِمْ
جو شخص کسی قوم کے عمل کو پسند کرتا ہے وہ اس کے عمل میں شریک ہوتا ہے۔
امام حسن مجتبیٰؑ کی چند احادیث:
• هَلاكُ الْمَرْءِ فى ثَلاث: انسان کی ہلاکت تین چیزوں میں ہے۔
اَلْكِبْرُ، وَالْحِرْصُ، وَالْحَسَدُ; تکبر، لالچ، اور حسد،
فَالْكِبْرُ هَلاكُ الدّينِ،، وَبِهِ لُعِنَ إبْليسُ تکبر سے دین تباہ ہو جاتا ہے اور اسی سے ابلیس ملعون ہوگیا۔
وَالْحِرْصُ عَدُوّ النَّفْسِ، وَبِهِ خَرَجَ آدَمُ مِنَ الْجَنَّةِ
اور لالچ، نفس کی دشمن ہے اور اس سے آدم کو جنت سے نکلنا پڑا،
وَالْحَسَدُ رائِدُ السُّوءِ، وَمِنْهُ قَتَلَ قابيلُ هابيلَ۔
اور حسد برائی کی جانب لے جاتا اور اسی کے ذریعہ ہابیل کو قابیل نے قتل کردیا۔
• تَرْكُ الزِّنا، وَكَنْسُ الْفِناء، وَغَسْلُ الاْناء مَجْلَبَةٌ لِلْغِناء۔
زنا، نہ کرنا، چوکھٹ کو صاف رکھنا اور برتن کو دھو کر رکھنا بے نیازی و ثروت(امیری) کا باعث ہے۔
ہمارے لیے اس دن کے اسباق
28 صفر کا دن ہمیں کئی اسباق دیتا ہے:
• عفو و درگزر: اپنے دشمنوں اور بدخواہوں کو معاف کرنا سیکھیں جو کہ نبی (ص) کی سیرت کا حصہ ہے۔
• صبر اور حکمت: زندگی میں آنے والے مصائب و مشکلات میں امام حسن (ع) کی طرح صبر کرنا سیکھیں۔
• سخاوت اور خدمت خلق: اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کو لوگوں کی بھلائی کے لیے استعمال کریں۔
• دین کی حفاظت: نبی (ص) اور امام حسن (ع) کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر اپنے دین کی حفاظت کریں۔
• اہل بیت سے وابستگی: رسول (ص) کی وصیت کے مطابق، قرآن اور اہل بیت (ع) کو مضبوطی سے تھامے رکھیں اور ان کی سیرت کو اپنی زندگی میں اپنائیں۔
28 صفر کا دن ہمیں نبی (ص) کی عظیم قربانی اور امام حسن (ع) کے صبر و حکمت کی یاد دلاتا ہے۔ آئیے، ہم عہد کریں کہ ہم ان کی تعلیمات پر عمل کریں گے، ان کی سیرت کو اپنائیں گے اور اپنی اولادوں کو بھی ان کے اخلاق اور قربانیوں سے روشناس کرائیں گے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں نبی (ص) کی شفاعت اور امام حسن (ع) کی محبت نصیب فرمائے، اور ہمیں ان کے سچے پیروکاروں میں سے بنائے۔آمین
اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وآلِ مُحَمَّدٍ وعَجِّلْ فَرَجَهُمْ




