امامت

امامت اور حج کا تعلق

مؤلف: سید جواد ورعی
مترجم : سید قاسم شاہ رضوی
امامت اورحج کاتعلق
امامت اور ولایت سے جن امور کا بہت گہرا اور مضبوط تعلق ہے ان میں سے ایک "حج” ہے۔حج ایک ایسی عبادت ہے جس کا انفرادی ،اجتماعی ،سیاسی ،اقتصادی ،ثقافتی اور بہت سی جہتوں سے ابتدا آفرینش سے گزشتہ امتوں میں امامت اور رہبری سے تعلق رہا ہے اور آخری امام و حجت خدا علیہ السلام کے ظہور تک اس سے گہرا تعلق رہے گا۔عبادتوں میں سے شاید کوئی ایسی جامع عبادت نہیں مل سکتی ہے جوحج کی طرح امامت اور رہبری سے اس حد تک وابستہ ہو۔سر زمین وحی اور حرم خدا کےچپے چپے اور حج کے معارف و منا سک (اعمال) کے اندر امامت کو واضح اور روشن طور پرمشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔
اس مقالہ میں یہ کو شش کی گئی ہے کہ اس گہرے پیوند اور رابطے کی ایک جھلک اور جلوہ نمایاں ہو جائے تاکہ اس کے مختلف اثرات اور برکات پر نظر رہے اور اس رابطے کے نہ ہونےسے حاصل ہونے والے عواقب اور نقصانات سے غافل نہ رہیں۔
امامت اور تعمیر کعبہ
خلیل خدا حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ہاتھوں کعبہ کو خدا کے گھر اور اس کی عبادت گاہ کے طور پر تعمیر کیا گیا۔حضرت ابراہیم علیہ السلام جو کہ اولو العزم پیامبران میں سے تھے۔ان کو مقام نبوت پرفائز ہونے کے بعد اس سے بڑے مقام و منزلت (امامت) تک پہنچنے کیلئے بہت سخت آزمائشوں سے گزرنا پڑا قرآن کریم واضح طور پر اس کے بارے میں گفتگو کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ
وَ إِذِ ابْتَلى‏ إِبْراهِيمَ‏ رَبُّهُ‏ بِكَلِماتٍ فَأَتَمَّهُنَّ قالَ إِنِّي جاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِماماً قالَ وَ مِنْ ذُرِّيَّتِي قالَ لا يَنالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ.(بقرہ124)
مفسرین کا اختلاف ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کن امتحانات میں کامیابی حاصل کرکے مقام امامت کو حاصل کیا۔ہر ایک کی دلیل معصو مین علیہم السلام کی مختلف روایات ہیں۔بعض روایات میں حضرت ابراہیم علیہ السلام علیہ السلام کو بڑھاپے میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ولادت ہو نا ، ان کی مادر گرامی حضرت ہا جرہ کا حجاز کی آب و علف سے خالی خشک سرزمین کی طرف لے جانا اور آخر میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کو جوانی میں ذبح کرنے کی ما موریت کو آیت مذکورہ میں موجود (کلمات) اور امتحانات کا مصداق قرار دیا گیا ہے۔(بحار الانوار،ج12،ص113)
بعض دوسری روایات میں بھی حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ذبح کرنے کے واقعہ کو اور بعض روایات میں خانہ کعبہ تعمیر کرنے کی ماموریت اور حج کے اعمال بجالانے کو ان امتحا نات کے عنوان کے طور پر بیان کیا گیا ہے جن کا حضرت ابراہیم علیہ السلام کو سامنا کرنا پڑا۔(مجمع البیان،ج1،ص200)
بہر حال روایات اور مفسرین کے نظریات سےیہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ امتحانات جن میں کامیابی کی وجہ سے آپ علیہ السلام مقام امامت کے لائق و حامل قرار پائےان کا براہ راست خانہ خدا اور حج سے تعلق ہے وہ امتحانات یہ ہیں۔آپ علیہ السلام کا اپنی زوجہ محترمہ اور فر زند کو سرزمین حجاز کی طرف لے جانا اور اس سرزمین کو آب زمزم کے چشمہ کے ذریعہ آباد کرنا اور لو گوں کا وہاں جمع ہونا اورخدا کے بندوں کے لیے عبادت کا ایک مرکز تیار کرنا اور حج کے اعمال بجالانا جن میں سے ایک اپنے فرزند کو منیٰ کی قربان گاہ میں قربانی کے لیےلے جانا ہے۔مختصراً یوں کہا جاسکتا ہے کہ حج کی بنیاد رکھنے کے عمل نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو امامت کے لائق بنادیا۔
پس حج ایک ایسی حقیقت تھی کہ خلیل خدا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس کی بنیاد رکھی اسی کے ذریعے سے آب علیہ السلام مقام امامت حاصل کرسکے۔
یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا ایسی عظیم شخصیت کےہاتھوں اس کیفیت کے ساتھ حج کی بنیاد رکھنے سے حج اور امامت میں گہرے رابطے کا مشاہدہ نہیں کیا جاسکتا ہے؟اور بہت سے رموز اور اسرار موجود ہونے کی گواہی موجود نہیں ہے؟البتہ بعض روایتوں میں یہ بھی ملتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو امامت کے مقام پر فائز ہونے کے بعد اپنے فرزند کو قربان کرنےکا حکم ہوا ہے۔ ایسی قربانی تو امامت کے عہدہ دار کے علاوہ کسی اور سے نہیں ہو سکتی۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب اعمال حج انجام دینے کے بعد منیٰ میں تشریف لائے اورانہیں اپنے فرزند کو ذبح کرنے کا حکم ہوا تو اپنے فرزند کو ساتھ لے جا رہے تھے راستے میں ایک بوڑھے شخص سے ملے اس نے پو چھا اے ابراہیم علیہ السلام اس بچے کو کیا کرنا چاہتے ہو؟آپ علیہ السلام نے فرمایا :اسے ذبح کرنا چاہتا ہوں
اس نے عرض کیا :سبحان اللہ ایک ایسے بچے کو ذبح کرنا چاہتے ہو جو ایک لحظہ بھی خدا کی معصیت کا مرتکب نہیں ہوا ہے؟ آپ نےفرمایا: خدا نےمجھے اس کا حکم فرمایا ہے۔ اس نےعرض کیا آپ علیہ السلام کا پروردگار اس کام سے روکتا ہے اور شیطان تجھےاس کام کا حکم کرتا ہے۔آپ علیہ السلام نے فرمایا:وائےہو تجھ پر ،خدا نے مجھے اس مقام تک پہنچا یاہے اور مجھے اس کا حکم دیا ہے اور اس بات کو میری کانوں میں ڈال دیا ہے۔ اس نے عرض کیا خدا کی قسم شیطان کےعلاوہ کوئی تجھے اس کام کا حکم نہیں دے رہا ہے۔آپ نے فرمایا:نہیں خدا کی قسم تجھ سے بات نہیں کروں گا ۔اس کے بعد آپ علیہ السلام نے اپنے فرزند کو ذبح کرنے کا ارادہ کیا تو اس بوڑھے نے کہا ۔ اے ابراہیم علیہ السلام تو امام ہے لوگ تیری پیروی کرتے ہیں ۔اگر تو نے اس کی قربانی کی تو لوگ بھی اپنے بیٹوں کو بھی قربانی کریں گے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نےاس سےبات نہیں کی اور اپنے بیٹے کی طرف متوجہ ہوئے،ان سے ان کی قربانی کےبارےمیں مشورہ کیا ،جب دونوں پروردگار کےحکم کے سامنے سر تسلیم خم ہوگئے تو بیٹےنےکہا:میرے چہرے کو چھپا ئیں اور ہاتھوں کو باندھیں۔
(بحارالانوار،ج12،ص127-125)
امامت اور قرآن
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو مشکل امتحانات مثال کے طور اپنے فرزند کو ذبح کرنا ،سے گزرنے کے بعد ملنے والی امامت کا کیا معنیٰ و مفہوم بنتا ہے؟توجواب میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ امام کے دو معنیٰ تصور ہو سکتے ہیں۔
امام وہ ہے جو اپنے کردار اور گفتا ر میں دوسروں کے لیئے نمونہ عمل ہو۔اور لوگ زندگی کے تمام امور میں اسکی اقتداء و پیروی کریں۔ کعبہ اور حج کی بنیاد رکھنے کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام علیہ السلام کا ایسے مقام تک پہنچنا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ آپ علیہ السلام سے لئے جا نے والے نمو نوں میں سے واضح و روشن ترین نمونہ حج ہے اور ضروری ہے کہ حج کے مناسک و اعمال میں آپ علیہ السلام کی پیروی کی جائے۔
حج میں یہ بھی ضروری ہے کہ انسان اپنی تمام وابستگیوں سے ہا تھ اٹھا ئیں اور اپنی ہستی اور وجود کو اپنے حقیقی محبوب کے سپرد کریں۔ اگرچہ وابستگی اپنے عزیز فرزند سے کیوں نہ ہو۔ حضرت ابرہیم علیہ السلام نے اپنے فرزندوں کیلئے بھی مقام و منزلت کی درخواست کی اور آپ کے فرزندان اگرچہ امامت کی تمام خصو صیات حاصل نہ کرسکے لیکن کچھ نہ کچھ ضرور حاصل کرسکے۔
لوگوں پر حکومت و ولایت
امامت کے امور میں سے ایک لوگوں پر حکومت اور ولایت ہے۔ آ یت مبارکہ میں موجود لفظ امام کی دوسری تفسیر اسی معنیٰ میں ہے یعنی امام سے مراد وہ شخص ہے جو امت کے امور میں تدبیر کرےاور ان کی سیاست کیلئے کھڑے ہو جائے۔ معاشرے کی اصلاح کرنا ، لوگوں کے حقوق پائمال کرنے والوں کو اد ب سکھا نا ،حکومت کیلئے کام کرنے والے افراد کا تعین کرنا ،شریعت و قا نون کی خلاف ورزی کرنے والوں کیلئے سزاؤو ں کا اجراء کرنا اور دشمنوں سے جنگ کیلئے قدم اٹھا نا سب امام کے امور میں سے ہیں۔
حضرت اسماعیل علیہ السلام علیہ السلام کے بیٹے اسی معنیٰ میں امام تھے اور کئی سالوں تک حکومت کرتے رہے اور معاشرے کے امور میں تد بیر کرتے رہے۔
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: کہ اسماعیل علیہ السلام ایک سو تیس (۱۳۰)سال کی عمرمیں انتقال کرگئے اور اپنی مادر گرامی کے ساتھ حجر (اسماعیل علیہ السلام ) میں دفن ہوئے حضرت اسماعیل علیہ السلام علیہ السلام کے بیٹے ہمیشہ والی اور حاکم تھے۔لوگوں کے ساتھ حج کرتے تھے اور ان کے دینی امور انجام دیتے تھے یکے بعد دیگرے ایک دوسرے کے جانشین ہوئے تھے اور سرداری کو میراث کے طور پر حاصل کرتے تھے یہ سلسلہ عدنان ابن ادد تک چلتا رہا۔
(بحارالانوار،ج12،ص127-125)
بہر حال خانۂ خدا کی تعمیر اور اعمال حج کا امامت سے گہرا تعلق ہے۔ لہذا طول تاریخ میں ظہور حضرت بقیۃ اللہ اعظم علیہ السلام تک نہ ٹوٹنے والا یہ رابطہ امامت کیساتھ رہے گا۔
اسلام اور امامت کا حج سے رابطہ
کعبہ اور حج کا امامت سے تعلق اسکی ابتدائی تاسیس وتعمیر کےساتھ منحصر نہیں ہے بلکہ یہ تعلق تسلسل کےساتھ برقرارہے۔ یہ ایک ایسا تعلق ہے جو رحلت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کےبعدسرزمین وحی اور حج کے موسم میں معاشرے کے رہبر وامام کے ابلاغ اور مستحکم کرنے کا تقا ضا کرتا ہے۔
رسول خداکو ۱۰ہجری میں حکومت اسلامی قائم ہونے کے بعد پہلی دفعہ حج کیلئے جانے اور اعمال حج لوگوں کو سکھانے کا حکم ہوا۔
وَ أَذِّنْ‏ فِي‏ النَّاسِ‏ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجالًا وَ عَلى‏ كُلّ ضامِرٍ يَأْتِينَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ
(حج،27)
‏اور اسکی طرف بلانے کا حکم ہوا (خُذُواعنّي مَنَاسکَکم) اس سفر میں حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی امامت اور رہبری کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جانشین کے طور پر لوگوں کے سامنےاعلان کرنے کا حکم ہوا ۔
یہ ایک ایسا پیغام تھا کہ اس کے اعلان کے بغیر کار رسالت کا لعدم تھا۔ امام محمدباقر علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں کہ
حَجَّ رَسُولُ اللَّهِ ص مِنَ الْمَدِينَةِ وَ قَدْ بَلَّغَ‏ جَمِيعَ‏ الشَّرَائِعِ‏ قَوْمَهُ غَيْرَ الْحَجِّ وَ الْوَلَايَةِ فَأَتَاهُ جَبْرَئِيلُ علیہ السلام فَقَالَ لَهُ يَا مُحَمَّدُ إِنَّ اللَّهَ جَلَّ اسْمُهُ يُقْرِؤُكَ السَّلَامَ وَ يَقُولُ لَكَ إِنِّي لَمْ أَقْبِضْ نَبِيّاً مِنْ أَنْبِيَائِي وَ لَا رَسُولًا مِنْ رُسُلِي إِلَّا بَعْدَ إِكْمَالِ دِينِي وَ تَأْكِيدِ حُجَّتِي وَ قَدْ بَقِيَ عَلَيْكَ مِنْ ذَاكَ فَرِيضَتَانِ مِمَّا تَحْتَاجُ أَنْ تُبَلِّغَهُمَا قَوْمَكَ فَرِيضَةُ الْحَجِّ وَ فَرِيضَةُ الْوَلَايَةِ وَ الْخِلَافَةِ مِنْ بَعْدِكَ فَإِنِّي لَمْ أُخَلِّ أَرْضِي مِنْ حُجَّةٍ وَ لَنْ أُخَلِّيَهَا أَبَداً فَإِنَّ اللَّهَ جَلَّ ثَنَاؤُهُ يَأْمُرُكَ أَنْ تُبَلِّغَ قَوْمَكَ الْحَجَّ وَ تَحُجَّ وَ يَحُجَّ مَعَكَ‏ مَنِ اسْتَطاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا مِنْ أَهْلِ الْحَضَرِ وَ الْأَطْرَافِ وَ الْأَعْرَابِ وَ تُعَلِّمَهُمْ مِنْ مَعَالِمِ حَجِّهِمْ مِثْلَ مَا عَلَّمْتَهُمْ مِنْ صَلَاتِهِمْ وَ زَكَاتِهِمْ وَ صِيَامِهِمْ و۔ ۔ ۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ سے حج پر تشریف لے گئے اس وقت آپ حج اور ولایت کے علاوہ تمام احکام اور شرائع الہٰی کا ابلاغ کرچکے تھے ،اس وقت جبرئیل آپ کی خدمت میں آئے اور کہا :اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم :خدا وندمتعال آپ کو سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے میں نے تمام انبیا ء و رُسل میں سے کسی نبی یا رسول کو دین مکمل اور حجت پر تاکید کرنے سے قبل اس کی روح قبض نہیں کی ہے،اس وقت آپ کے دین کے دو فرائض باقی رہتے ہیں، آپ پر لازم ہے کہ انہیں اپنی قوم تک پہنچائیں وہ حج اور آپ کے بعد والی خلافت و ولایت کے فرائض ہیں،میں نے اپنی زمین کو کبھی اپنی حجت سے خالی نہیں رکھا ہے اور نہ کبھی خالی رکھوں گا ۔ پس خداوند متعال آپ کو حکم دیتا ہے کہ آپ اپنی قوم کو حج کی تبلیغ کریں ۔ اور آپ بھی حج بجا لائیں اور مدینہ اور اس کے اطراف کے لوگ اور اعراب میں سے صا حبان استطاعت بھی آپ کے ساتھ حج بجالا ئیں اور انہیں حج کے آداب کی تعلیم دیں جس طرح آپ نےانہیں نماز، زکات اور روزے وغیرہ کی تعلیم دی او ر آداب سکھائے۔
(احتجاج،ج1،ص134)
آیا خداکےاسی پیغمبر او ررسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو معاشرے کے دواہم امور (مناسک حج) اور(ولایت و امامت)کوایک سفرکےاندرابلاغ کرنےکاحکم ہوناان دوحقیقتوں کےدرمیان رابطےکی حکایت نہیں کرتا؟
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم عازم سفر ہو تے ہیں اور اعمال و مناسک حج بجالاتے ہیں۔ پہلے عرفات میں پھر منٰی میں مسلمانوں کے عظیم اجتماع میں آپ علیہ السلام دوسرے پیغام الہٰی (ولایت)کے ابلاغ پر مامور ہوتے ہیں لیکن منافقین اور دشمنوں کی سازشوں اور ان کی بغاوت کا خوف ہے۔
(احتجاج،ج1،ص134)
یہاں تک کہ ( خداوند متعال کی طرف سے) خوف و امید سے بھرا ایک خطاب صادر ہو تا ہے کہ اگر اس پیغا م کونہ پہنجایا تو گویا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی رسالت انجام ہی نہیں دی اور ہم تمہیں لوگوں کی شر سے محفوظ رکھیں گے۔
يا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ‏ ما أُنْزِلَ‏ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ- وَ إِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَما بَلَّغْتَ رِسالَتَهُ وَ اللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ‏
(مائدہ،67)
اسی ترتیب سے کعبہ اور حج کی حضر ت ابراہیم علیہ السلام کے توسط سے بنیاد رکھی گئ لیکن کئی سال گزرنے کے ساتھ حج ابراہیمی ایک بار پھرحج جا ہلی میں بدل گیا اور حضرت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس دفعہ حج ابراہیمی کو دوبارہ زندہ کر نے پرمامور ہوئے لیکن اس کو زندہ کرنا (امامت و رہبری) کےساتھ اس کے تعلق کو بتائے بغیر امکان پذیرنہیں تھا۔ اسی لئے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دونوں کا ساتھ ساتھ ابلاغ کرتے ہیں۔ حج ایک ایسی فرصت اور ظرفیت کا حامل ہے کہ اس میں امامت و ولایت کے پیغام کا ابلاغ کیا جاسکتا ہے یہ ایسا پیغام ہےکہ جس کا ابلاغ رسالت رسول خدا کے ساتھاس طرح کاگٹھ جوڑ ہے کہ اس کاابلاغ نہ ہونا رسالت کی تبلیغ نہ ہونے کےبرابر ہے۔
حج اور پیغام برائت:
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بتدریج (آہستہ آہستہ) لوگوں کو حج ابراہیمی علیہ السلام کے لئے آمادہ کرتے ہیں اور آٹھویں ہجری میں آپ اپنی عظیم فوج کے ساتھ مکہ فتح کر تے ہیں اور حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام (جوکہ خدا کےحکم کے مطابق پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا جانشین اور آنے والا رہبرتھے) کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے دوش پر اٹھاتے ہیں تاکہ آپ کے ساتھ وہ بھی بتوں کو اتار کر توڑیں اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بت شکنی کی یاد تازہ کریں۔آیا یہ سب اسی لئے نہیں کہ خدا کے گھر کو بتوں کی نجاست سے پاک کرنے کا کام پہلی دفعہ معاشرے کے امام و رہبر کے ہاتھوں انجام پائےاور ہر ایک کیلئے نمونہ عمل بن سکے۔ توحید کے ہیڈ کوارٹر میں بت کو توڑنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سیرت اور بنی نوع انسان بالخصوص امت اسلامی کیلئے نمونہ عمل ہے۔پیغمبر عظیم الشان صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی ان کی پیروی کرنے پر مامور تھے لہذا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اورآپ کے جانشین نے حضر ت ابراہیم علیہ السلام کی پیروی کی اور خدا کے اس عظیم گھر کو بتوں سے پاک کردیا۔
قَدْ كانَتْ‏ لَكُمْ‏ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْراهِيمَ وَ الَّذِينَ مَعَهُ إِذْ قالُوا لِقَوْمِهِمْ إِنَّا بُرَآؤُا مِنْكُمْ وَ مِمَّا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ كَفَرْنا بِكُمْ وَ بَدا بَيْنَنا وَ بَيْنَكُمُ الْعَداوَةُ وَ الْبَغْضاءُ أَبَداً حَتَّى تُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَحْدَهُ
(ممتحنہ،4)
نویں ہجری میں بھی حضرت علی ابن علی ابی طالب علیہ السلام کو حکم خدا کے مطابق سورہ برائت کی تبلیغ کیلیے سرزمین وحی اور توحید و یکتا پرستی کےمرکز کی طرف بھیج دیتے ہیں۔ حضرت علی علیہ السلام کو حکم ہو تا ہے کہ ابو بکر سے پیغام واپس لے کر خود اس کی ابلاغ کیلئے حج کے موسم میں مسلمانوں کے عظیم اجتماع میں اقدام کریں ۔
(بحارالانوار،ج21، ص275)
یہ پیغام جس کا ابلاغ خلیل خدا اور توحید کےفداکار اور تاریخ کے بت شکن کی پیروی میں انجا م پا تا ہے ،ایک ایسی شخصیت کے توسط سے انجام ہوتا ہے جو مقام امامت پر فا ئز ہونے والی ہے۔ اور امامت کے جتنے امور ہوں گے وہ سب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد انکے توسط سے انجام پا ئیں گے۔یہ سب اس گہرے تعلق اور رابطےکی حکایت اور اظہار ہے جس کے ایک طرف کعبہ اور حج اور دوسری طرف معاشرے کے امام و رہبر ہیں اور خداوند سبحان مختلف مناسبات سے اس تعلق کو نمایاں کرتا ہے۔
حجۃالوداع کے موقع پررسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دیئے گئے خطبات کے اہم نکات:
رسول گرامی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے رفتار کی علاوہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا حجۃ الوداع کے موقع پر دیا ہوا خطبہ اور اسی طرح مکہ میں یو م الترویہ،عرفات کے میدان، عید الضحی کے روز، ایام تشریق کے دوران اور منی میں یوم النفر کے روز اور صحرائے غدیرمیں دئے گئے خطبات ،حج اورمختلف امور میں ولایت و رہبری کےدرمیان تعلق کی حکایت کرتے ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسی تعلیمات کے بارے میں گفتگو فرماتے ہیں جن کی سو ائے ولایت و رہبری اور حج کے سائے میں مشق ممکن نہیں ہے۔ (ان میں سے کچھ یہ ہیں)۔
۱۔ وحدت انسانی پر تاکید اور قومی و قبائلی اور ذات پات کے امتیازات کی نفی
۲۔ خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ انسانی رفتار
۳۔ جاہلیت کے آثار و بقا یا جات کی نفی
۴۔مسلمانوں کے درمیان اسلامی اخوت و بھائی چارگی کو برقرار رکھنا
۵۔ معاشرے میں ایک دوسرے کے حقوق کا احترام
۶۔ ثقلین (کتاب و عترت) کے ساتھ تمسک کی تاکید
۷۔حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی امامت اور جانشینی کی بشارت
۸۔ اولاد علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی امامت کی بشارت
۹۔امام و رہبر کی پیروی کی تاکید
مذکورہ بالاکلمات (جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سفر اور سرزمین وحی میں لوگوں کو ابلاغ کردئے تھے)میں دقت اور تامل کرنے سے واضح ہو جاتا ہے کہ حج اگر ولایت و رہبری کےسائےمیں ہو تو معاشرے کو اصلاح و فلاح کی سمت لے جا سکتا ہے۔
حضرت امام خمینی (قدس سرہ )جو عصر حاضر میں حج ابرہیمی زندہ کرنے والی شخصیت سمجھے جاتےہیں ، فرماتے ہیں کہ اسلامی معاشرہ کی ہر نسل و قوم کےلئےضروری ہے کہ ابراہیمی ہوںتاکہ امت محمدی کے لشکر سے جاملیں اور متحد ہو کر ید واحد بن جائیں۔حج اسی توحیدی زندگی کی مشق اور مجسمہ ہے۔
جی ہاں بد یہی بات ہے کہ ایسی مشق کے بغیر انسانی و الٰہی اقدار اسلامی معاشرے میں واقعی طور پرتحقق نہیں پاسکتیں اور انسانی و الٰہی اقدار کی تمرین اور مشق فقط حج ابراہیمی اور محمدی میں امکان پذیر ہے۔
ولایت سے وابستگی قبولیت حج کی شرط
ولایت و حج کے مابین باہمی تعلق کی اور بھی علامتیں ہیں۔ زید شحام کہتا ہے کہ قتادہ ابن دعامہ امام باقر علیہ السلام علیہ السلام کی خدمت میں آیا وہ بصرہ والوں میں فقیہ کےعنوان سےمعروف تھا۔ امام علیہ السلام نے اس سے آیت مبارکہ
وَ قَدَّرْنا فِيهَا السَّيْرَ سِيرُوا فِيها لَيالِيَ وَ أَيَّاماً آمِنِينَ
(سبأ:18)
کے بارے میں سوال کیا تو اس نے کہا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ آدمی جو اپنا حلال زاد و راحلہ لے کر مکہ جاتا ہے وہ امان میں ہوتا ہے امام علیہ السلام نے فرمایا:
وَيْحَكَ يَا قَتَادَةُ ذَلِكَ مَنْ‏ خَرَجَ‏ مِنْ‏ بَيْتِهِ‏ بِزَادٍ وَ رَاحِلَةٍ وَ كِرَاءٍ حَلَالٍ يَرُومُ هَذَا الْبَيْتَ عَارِفاً بِحَقِّنَا يَهْوَانَا قَلْبُهُ كَمَا قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِم
(ابراہیم37)
اس کے بعد آپ علیہ السلام نے فرمایا : یہاں قلوب کے مائل ہو نے کا مطلب کعبہ کی طرف نہیں ہے اگر ایسا ہو تاتو ضمیر مفرد لائی جاتی یعنی (الیہ) فرماتے نہ کہ جمع یعنی ( الیھم) نہ فرماتے۔
خدا کی قسم ابراہیم علیہ السلام نے جس چیز کی طرف قلوب مائل ہونے کی دعوت دی ہے وہ ہم ہی ہیں۔ اگر ایسا ہوتو اس کا حج قبول ہو گا ورنہ قبول نہیں ہوگا اور ایسے شخص کو روز قیامت جہنم سے امن نہیں ملے گا ۔
(بحارالانوار،ج24،ص237)
آپ ملاحظہ کیجئے کہ ولایت و رہبری جوحق ائمہ علیہ السلام ہے اس کی معرفت اور پہچان اور انکی طرف دل کا مائل ہونا ایسے شخص کے حج کی قبولیت کی شرط ہے جو اپنا حلال زاد و راحلہ لے کر بیت اللہ الحرام کی طرف جاتا ہے اور قیامت کے روزامان اس سے وابستہ ہے۔
ولایت سے وابستگی حج تکمیل ہونے کی شرط
بعض احادیث میں امام زمانہ علیہ السلام سے ملاقات اور ان کی اطاعت اور حمایت کے لئے تیار ہونے کے اعلان کو حج کی تکمیل کیلئے شرط شمار کیا گیا ہے۔امام محمدباقر علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں
فِعَالٌ‏ كَفِعَالِ‏ الْجَاهِلِيَّةِ أَمَا وَ اللَّهِ مَا أُمِرُوا بِهَذَا وَ مَا أُمِرُوا إِلَّا أَنْ يَقْضُوا تَفَثَهُمْ‏ وَ لْيُوفُوا نُذُورَهُمْ‏ فَيَمُرُّوا بِنَا فَيُخْبِرُونَا بِوَلَايَتِهِمْ وَ يَعْرِضُوا عَلَيْنَا نُصْرَتَهُمْ
(تفسیر نور الثقلین،ج3،ص491)
یعنی (حج کے ) یہ اعمال زمانہ جاہلیت کے اعمال جیسے ہیں۔ آگاہ ہو جاؤ خدا کی قسم لوگوں کو حج کا حکم نہیں ہوا ہے مگر اس لئے کہ مناسک و اعمال حج اور حلق و تقصیر کے اعمال بجالائیں اپنے کئے ہوئے عہدوں اور نذروں کو ادا کریں( یعنی امام علیہ السلام سے ملاقات کیلئے آئیں) اور ہم سے ملاقات کریںاورہماریولایت اور محبت کے بارے میں ہمیں اطلاع دیں اور اپنی نصرت و مدد کو ہمارے لئے پیش کریں۔ امام باقر علیہ السلام جاہلیت کے اعمال اور ظہور اسلام کے بعد کے حج کے اعمال میں جس عمدہ ترین فرق کے قا ئل اور جس چیز کو معین فرماتےہیں وہ ( امامت و ولایت)ہے۔ امام علیہ السلام علیہ السلام کے اعلیٰ اہداف تک پہنچے کے لیئے امام سے محبت و ارادت کا ا ظہار اور اسکی نصرت کے لئے تیا ر ہونے کا اعلان وغیرہ۔ حقیقت میں کونسا راز امامت و ولایت میں چھپا ہوا ہے جو حج ابراہیمی علیہ السلام کو حج جاہلی سے مختلف و ممتاز بنادے؟
حرم الٰہی میں امن کی رہبر و امام سے وابستگی
بعض احادیث میں حرم پاک میں امن جو کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی درخواست سے بر قرار ہوا تھا،اسےحضور امام اور امام کےساتھ وابستگی کو جانا گیا ہے۔
جب حجاج نے منجنیق کے ذریعے کعبہ کو بند کردیا اور ابن زبیر کعبہ کے اندر تھا تو اس وقت امام صادق علیہ السلام نے آیۃ مبارکہ و من دخلہ کان آمناًکے بارے میں ابو حنیفہ سے سوال کرتے ہیں کہ اس آیۃ مبارکہ میں مراد کونسا امن ہے؟ ابو حنیفہ اس کے جواب دینےسے عاجز آگیا امام علیہ السلام نے فرمایا۔
سِيرُوا فِيها لَيالِيَ‏ وَ أَيَّاماً آمِنِين
(سبأ18)
یعنی مع قائمنا أهل البیت علیہ السلام
ومن دخله کان آمناً
(آل عمران97)
فمن بایعه و دخل معه ومسح یده ودخل فی عقده اصحابه کان آمناً
(علل الشرائع،ص89)
ان دیہاتوں اور شہروں میں دن رات مکمل امن و امان سے سفر کریں یعنی ہم اہل بیت علیہ السلام کے قائم علیہ السلام کےساتھ اور جو بھی اس (بیت اللہ الحرام)میں داخل ہوگا امن پائے گا۔ پس جو بھی ہمارے قائم علیہ السلام کی بیعت کرے گا اور ان کے ساتھ خانہ خدا میں داخل ہوگا اور ان کے ہاتھ تھا مے ہوگا اور ان کی مدد کرنے والوں کے عقد و پیمان میں شامل ہوگا تو امن پائے گا۔
شاید یہاں امام علیہ السلام کا مقصد اس نکتہ کو بیان کرنا ہو کہ امام زمانہ علیہ السلام کی بیعت اور ان کی نصرت و حمایت سے خانہ خدا میں امن برقرار ہوگا۔پھر اس کے نتیجے میں اس سر زمین پر ان کو حاکمیت حاصل ہوگی۔جس کا گواہ یہ ہے کہ مختلف زمانوں میں ظالم حکمرانوں کی حاکمیت نے اس امنیت کو مخدوش کیا ہےیہاں تک کہ امام حسین علیہ السلام علیہ السلام جیسی عظیم شخصیت کو بھی اس سرزمین میں شہید کرنے کی دھمکی دی گئی ہے۔
حج کا امامت کیساتھ دائمی تعلق
نہ فقط کعبہ و حج کی بنیاد اپنی بقاء کو دوام دینے میں امامت و رہبری کےساتھ گہرا رابطہ رکھتی ہے بلکہ ان کی ابدی سرنوشت کابھی ولایت و رہبری کیساتھ گہراگٹھ جوڑ ہے۔ امام عصر منجی عالم بشر عجل اللہ فرجہ الشریف کا ہر سال موسم حج میں حا ضر ہونا ، اور مسلمانوں کے رفتار و کردار پر نظارت ، اور پھر آخر میں اس سرزمین وحی میں خانہ خدا سے آپ علیہ السلام کا ظہور ہونا، اور مقام ابراہیم سے توحید کی صدا بلند کرنا، اور سب کو توحید کی طرف دعوت دینا،مسجد الحرام اور رکن و مقام کے درمیان میں اپنے یاران سے بیعت لینا، اس بات کی حکایت کرتا ہے کہ حج اور امامت کے درمیان گہرا اور ابدی رابطہ ہے۔
(بحار الانوار،ج51،ص59،ج12،ص304)
وحی کی سرزمین اور خانہ خدا سےشرک و کفر ،اور ظلم و بے عدالتی کے خلاف وسیع و عریض مقابلے کا آغاز ہوگا ۔ بعض روایتوں میں آیہ مبارکہ
و آذانٌ مِنَ الله ِ وَ رَسُولِهِ إلَی النَاسِ یَومَ الحَجِ الاَکبَرِ
(توبہ5)
میں (یوم الحج الاکبر) سے مراد امام زمانہ ( عج) کے ظہور کو قرار دیا گیا ہے جو خدااور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف سے( ظلم کے خلاف )قیام کرنے کی دعوت کردیں گے ۔
(تفسیر عیاشی،ج:2،ص76)
سرزمین وحی ، توحید اور شرک و بت پرستی کےمقابلہ کا مرکز ہوگی۔ جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس مرکز سے اپنے اہداف کی طرف حرکت کا آغاز کردیا تھا ۔ اسی لئے امام زمانہ علیہ السلام بھی اسی سرزمین سے اپنی حرکت کا آغاز کرے گا۔ لہذا یہ اس سرزمین مرکزتوحید اور حج ابراہیمی کا امامت سے رابطہ ہونے کی نشانی ہے۔
حکومت اسلامی کےسائے میں حج ابراہیمی علیہ السلام ادا کرنا
ان متعدد مظاہر کے علاوہ جو حج اور امامت کے درمیان رابطہ کے متعلق بیان ہوئے۔ بنیادی طور پر حج ابرہیمی علیہ السلام اور حج محمد ی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ان کے تمام خصوصیات کے ساتھ انجام دینا حکومت اسلامی کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔خصوصا حج کے اہداف کو حا صل کرنے کے لیے امیر الحجاج کا کردار بہت اہم ہے۔حج کے موسم میں امیر الحجاج کی کی مختلف جہات سے ضرورت اور صدر اسلام سے اسلامی حاکموں اور بعد کے حاکموں کا امیر الحجاج کومنصوب کرنا حج میں حکومت کے کردارکو اجاگر کرتا ہے اور حکومت کے نہ ہونے سے حج کے مراسم امیرکے بغیر تو پا ئیں گے لیکن ان کے بہت سارے اہداف حاصل نہ ہوپائیں گے۔
Source: http://alhassanain.org/urdu/?com

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button