امامت

امامت قرآن کی روشنی میں

استاد شہید مرتضیٰ مطہری

قرآن کریم میں کئی آیتیں مذکور ہیں جن سے شیعہ امامت کے سلسلہ میں استدلال کرتے ہیں اتفاق سے ان تمام آیتوں کے سلسلہ میں اہل سنت کےیہاں بھی ایسی روایتیں موجود ہیں جو شیعہ مطالب کی تائید کرتی ہیں ۔ ان میں سے ایک آیت یہ ہے:
انما ولیکم الله ورسوله والذین آمنواالذین یقیموں الصلاة ویوتون الزکاة وهم راکعون
(مائدہ ۵۵)
"انما” کے معنی ہیں صرف اور صرف (کیونکر یہ اداۃ حصر ہے)”ولی”کے اصل معنی ہیں سر پرست ولایت یعنی تسلط و سرپرستی۔ قرآن کہتا ہے۔ تمہارا سر پرست صرف اور صرف خدا ہے، اس کارسول ہے اور وہ مومنین ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوۃ دیتے ہیں۔”اسلام میں ایساکوئی حکم نہیں ہے کہ انسان حالت رکوع میں زکوۃ دے۔ تاکہ کہا جائے کہ یہ عمومی ہے اور تمام افراد اس حکم میں شامل ہیں۔ یہ ایک ایسے واقعہ کی طرف اشارہ ہے جو خارج میں صرف ایک بار ظہور پذیر ہوا۔ شیعہ اور سنی دونوں نے متفق طور پر اس کی روایت کی ہے، واقعہ کا خلاصہ یوں ہے کہ حضرت علی علیہ السلام حالت رکوع میں تھے کہ ایک سائل نے آکر سوال کیا ۔ حضرت نے اپنی انگلی کی طرف اشارہ فرمایا ۔ سائل قریب آیا ، اس نے حضرت علی علیہ السلام انگلی سے انگوٹھی اتاردی اور لیکر چلاگیا ۔ یعنی آپ نے اتنا انتظار بھی نہیں کیا کہ نماز تمام ہوجائے اس کے بعد انفاق کریں آپ اس فقیر کے سوال کو جلد از جلد پورا کرنا چاہتے تھے لہٰذا اسی رکوع کی حالت میں اسے اشارہ سے سمجھا دیا کہ انگوٹھی اتار لے جائے اور اسے بیچ کر اپنا خرچ پورا کرے ۔ اس واقعہ میں کوئی اختلاف نہیں ہے، سنی شیعہ سب متفق ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام نے یہ عمل انجام دیا ہے ۔ دونوں فریق اس بات پربھی متفق ہیں کہ یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے ۔ جبکہ رکوع کی حالت میں انفاق کرن اسلامی قوانین کا جزو نہیں ہے ۔ نہ واجب ہے نہ مستحب کہ یہ کہا جائے کہ ممکن ہے کچھ کوگوں نے اس قانون پر عمل کیا ہو۔ لہٰذا آ یت کا یہ انداز "جو لوگ یہ عمل انجام دیتے ہیں "ایک اشارہ و کنایہ ہے ۔ جسے خود قرآن میں اکثر آیا ہے "یقولون ” یعنی ( وہ لوگ کہتے ہیں ) جبکہ معلوم ہے کہ ایک شخص نے یہ بات کہی ہے ۔ لہٰذا یہاں اس مفہوم سے مراد وہ فرد ہے جس نے یہ عمل انجام دیا ہے ۔ بنا بر ایں اس آیت کے حکم کے مطابق حضرت علی علیہ السلام لوگوں پر ولی حیثیت سے معین کئے گئے ہیں ۔ چنانچہ شیعہ اس آیت کو استدلال کے طور پر پیش کرتے ہیں ۔
دوسری آیات واقعۂ غدیر سے متعلق ہیں ۔ اگر چہ خود واقعہ غدیر احادیث کے ذیل میں آتا ہے اور ہم اس پر بعد میں بحث کریں گے لیکن اس واقعہ سے متعلق سورۂ مائدہ میں جو آیتیں وارد ہوئی ہیں ۔ ان میں ایک آیت یہ ہے :
یاایها الرسول بلغ ماانزل الیک من ربک وان لم تفعل فما بلغت رسالته (مائدہ ۶۷)
(یہاں لہجہ بہت تند ہو گیا)اے پیغمبر ! جو کچھ تم پر تمہارے پروردگار کی طرف سے نازل ہوا ہے اس کی تبلیغ کردو ، اور اگر تم نے اس کی تبلیغ نہیں کی تو گویا تم نے سرے سے رسالت الٰہی کی تبلیغ نہیں کی ۔ اس آیت کا مفہوم اتنا ہی شدید اور تند ہے جتنا حدیث "من مات ولم یعرف امام زمانہ مات میتۃ جاھلیۃ " کا اجمالی طور سے خود آیت ظاہر کررہی ہے کہ موضوع اتنا اہم ہے کہ اگر پیغمبر نے اس کی تبلیغ نہ کی تو گویا کار رسالت ہی انجام نہیں دیا ۔
شیعہ و سنی اس پر متفق ہے کہ پیغمبر اسلام پر نازل ہونے والا آخری سورہ، مائدہ ہے ۔ اور یہ دونوں آیتیں ان آیتوں کاجز ہے جو سب سے آخر میں پیغمبر پر نازل ہوئی یعنی اس وقت نازل ہوئی جب پیغمبر اسلام تیرہ سال مکہ کی زندگی اور دس سال مدینہ کی حیات میں اسلام کے تمام دوسرے قوانین و احکام بیان کر چکے تھے یہ حکم ان احکام کا آخر جز تھا اب ایک شیعہ سوال کرتا ہے کہ یہ حکم جو آخری احکام کا جزہے اور اس قدر اہم ہے کہ اگر پیغمبر اسے نہ پہنچائیں تو ان کی گذشتہ تمام محنتوں پر پانی پھر جائے ۔ آخر ہے کون سا حکم ؟ آپ لاکھ تلاش کے بعد کسی ایسے مسئلہ کی نشان دہی نہیں کرسکتے جو پیغمبر کی زندگی کے آخر دنوں سے مربوط ہو اور اس قدر اہم ہو کہ اگر حضور اس کی تبلیغ نہ کریں تو گویا انہیں نے کچھ بھی نہیں کیا ۔ لیکن ہم یہ کہتے ہیں کہ وہ مسئلہ امامت ہے ۔ اگر وہ نہ ہوتا سب کچھ بیکا ر ہے یعنی اسلام کا شیرازہ بکھر کے رہ جاتا ہے ۔ مزید یہ کہ شیعہ خود اہل سنت کی روایت سے یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ یہ آیت غدیرخم میں نازل ہوئی ہے ۔
اسی سورۂ مائدہ میں ایک اور آیت ہے
الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا ۔(مائدہ03)
آج میں نے دین کو تم لوگوں کےلئے کمال کی منزلوں تک پہنچا دیا ۔ اس پر اپنی نعمتیں آخر حدوں تک تمام کر دی اور آج کے دن میں نے اسلام کو ایک دین کے عنوان سے تمہارے لئے پسندیدہ قرار دیا ، خود آیت ظاہر کر رہی ہے کہ اس دن کوئی واقعہ گزرا ہے جو اتنا اہم ہے کہ دین کے کامل ہونے اور انسانیت پر خدا کی طرف سے اتمام نعمت کا سبب بن گیا ہے ۔ جس کے ظہور پذیر ہونے سے اسلام در حقیقت اسلام ہے اور خدا اس دین کو ویسا ہی پاتا ہے جیسا وہ چاہتا ہے اور اگر وہ نہ ہو تو اسلام ،اسلام ہی نہیں ہے ۔ آ یت کا لب و لہجہ بتا تا ہے کہ واقعہ کتنا اہم ہے ۔ اسی بنا پر شیعہ اس سے استدلال کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ موضوع جو دین کی تکمیل اور اتمام نعمت کا سبب بنا اور جو اگر واقع نہ ہوتا تو اسلام در اصل اسلام ہی نہ رہتا ۔ وہ کیا تھا ؟ شیعہ کہتے ہیں کہ ہم ہی بتا سکتے ہیں کہ وہ کون سا موضوع ہے جسے اتنی اہمیت دی گئی ہے ۔ اس کے علاوہ بہت سی روایتیں اس با ت کی تائید کرتی ہے کہ یہ آیت بھی اسی موضوع امامت کے تحت نازل ہوئی ہے ۔
اس سے قبل ہم نے آیت الیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ وَاَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَرَضِیۡتُ لَکُمُ الاِسۡلَامُ دیناً کے سلسلہ میں بحث کی تھی اور یہ بھی عرض کیا تھا کہ خود آیت کے اندر موجود قرائن اور ان کے علاوہ اس سے متعلق دوسرے آثار و شواہد، یعنی آیت کی شانِ نزول کے تحت شیعہ و سنی ذرائع سے وارد ہونے والی روایات بھی یہ ظاہر کرتی ہے کہ مذکورہ آیت واقعہ غدیر خم سے تعلق رکھتی ہے۔
چونکہ اس موضوع کے ذیل میں قرآن کی آیتیں ہماری بحث کا محور ہیں یعنی وہ آیتیں جن سے شیعہ اس باب میں استدلال کرتے ہیں لہٰذا ہم مزید دو تین آیتیں جنہیں علماء شیعہ استدلال میں پیش کرتے ہیں یہاں ذکر کررہے ہیں تاکہ اچھی طرح واضح ہو جائے کہ استدلال کا طریقہ کیا ہے ؟
ان آیات میں سے ایک اسی ” سورہ مائدہ کی آیت ہے جو مذکورہ بالا آیت سے تقریباً ساٹھ آیتوں کے بعد ذکر ہوئی ہے اور وہ یہ ہے:
یا ایهاالرسول بلغ ما انزل الیک من ربک وان لم تفعل فما بلغت رسالته والله یعصمک من الناس
اے پیغمبر جو کچھ آپ کے پروردگار کی جانب سے آپ پر نازل ہوا ہے اسے لوگوں تک پہنچادیجئے اوراگر آپ نے یہ نہ کیا تو رسالت کی تبلیغ نہیں کی اور اپنا فریضہ ادا نہیں کیا۔ خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا۔
گفتگو آگے بڑھانے سے پہلے مقدمہ کے طور پر کچھ باتیں ذکر کرنا ضروری ہیں تاکہ اس آیت کے مفاد کی وضاحت ہوجائے نیز یہ مقدمہ گزشتہ آیت کے تحت بیان کئے گئے مطالب کے لئے بھی معاون و مددگار ثابت ہوگا۔
اہل بیت سے متعلق آیات کا خاص انداز
یہ بات واقعاً ایک اسرار کی حیثیت رکھتی ہے کہ مجموعی طور پر قرآن میں اہل بیت سے متعلق آیتیں اور خصوصاً وہ آیتیں جو کم ازکم ہم شیعہ کے نقطۂ نظر سے امیرالمومنین کے بارے میں نازل ہوئی ہیں، ایک خاص وضع و کیفیت کی حامل ہیں۔ اور وہ یہ کہ خود اس آیت کے اندر مطلب کی حکایت کرنے والی دلیلیں اور قرائن تو پائے جاتے ہیں لیکن ساتھ ہی یہ کوشش بھی نظر آتی ہے کہ اس بات کو دوسرے مطالب کے درمیان یا دوسری باتوں کے ضمن میں بیان کرتے ہوئے گزر جایا جائے۔ اس پہلو کو جناب محمد تقی شریعتی نے اپنی کتاب ” ولایت و خلافت ” کی ابتدائی بحثوں میں نسبتاً اچھے انداز سے بیان کیا ہے اگر چہ دوسروں نے بھی اس نکتہ کو بیان کیا ہے لیکن فارسی میں شاید پہلی بار انہوں نے ہی اس کا ذکر فرمایا ہے۔ آخر اس کا راز کیا ہے ؟ اس سوال کے جواب میں ان لوگوں کا جواب بھی ہوجائے گا جو یہ کہتے ہیں کہ اگر خدا چاہتا تھا کہ علی علیہ السلام پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جانشین ہوں، تو پھر قرآن میں صاف صاف ان کے نام کا ذکر کیوں نہیں ہے۔
آیت تطہیر
مثال کے طور پر آیت کو لے لیں " انما یرید الله لیذهب عنکم الرجس اهل البیت و یطهرکم تطهیرا "
( احزاب ۳۳)
اس آیت کے بارے میں دریافت کیا جائے تو ہم کہیں گے کہ اس کا مفہوم و مطلب بالکل واضح ہے۔ اللہ نے یہ ارادہ کیا ہے اور وہ یہ چاہتا ہے کہ ( اہل بیت ) تم سے کثافتوں کو دور کرے، تمہیں پاک و پاکیزہ رکھے، ویطھرکم تطھیراً اور تمہیں مخصوص نوعیت اور خاص انداز میں تطہیر وپاکیزہ رکھے یا کرے۔ ظاہر ہے کہ جس تطہیر کا ذکر خدا کررہا ہے وہ عرفی یا طلبی تطہیر نہیں ہے کہ کہا جائے کہ خدا تم سے بیماریوں کو دور کرنا چاہتا ہے یا ( معاذاللہ ) کے تمہارے بدن کے امراض کے جراثیم کو زائل کررہا ہے۔ ہم یہ نہیں کہنا چاہتے کہ یہ تطہیر کا مصداق نہیں ہے، لیکن مسلّم طور پر جس کو خدا اس آیت میں بیان فرمارہا ہے اس سے مراد پہلی منزل میں وہ تمام چیزیں ہیں جنہیں خود قرآن ر جس کا نام دیتا ہے۔ قرآن کے بیان کردہ رجس و رجز وغیرہ یعنی وہ تمام چیزیں جن سے قرآن منع کرتا اور روکتا ہے اور جنہیں گناہ شمار کیا جاتا ہے چاہے وہ اعتقادی گناہ ہو، اخلاقی گناہ ہو یا عملی گناہ، یہ سب رجس و کثافت ہیں اسی بنیاد پر کہا جاتا ہے کہ اس آیت سے مراد عصمت اہل بیت ہے یعنی ان کا ہر طرح کی کثافت اور آلودگیوں سے پاک و پاکیزہ ہوتا۔
فرض کیجئے کہ نہ ہم شیعہ ہیں نہ سنی، بلکہ ایک عیسائی مستشرق ہیں، عیسائی دنیا سے نکل کر آئے ہیں اور یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کی کتاب ( قرآن ) کیا کہنا چاہتی ہے ہماری نظر قرآن کے اس جملہ پر پڑتی ہے پھر ہم اس سے متعلق مسلمانوں کی تاریخ اورسنن و احادیث کا جائزہ لیتے ہیں، ہم دیکھتے ہیں کہ نہ صرف وہ فرقہ جسے شیعہ کہتے ہیں اور جو اہل بیت علیہ السلام کا طرفدار ہے بلکہ وہ فرقے بھی جو اہل بیت علیہ السلام کے کوئی خصوصی طرفدار نہیں ہیں اپنی معتبر کتابوں میں جب اس آیت کی شان نزول بیان کرتے ہیں تو اسے اہل بیت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فضیلت قرار دیتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ جس واقعہ کے تحت یہ آیت نازل ہوئی اس میں حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن، حضرت حسینِ، اور خود حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم موجودتھے اور اہل سنت کی احادیث میں ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو زوجۂ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ام سلمہ سلام اللہ علیھا آنحضرت کی خدمت میں آئیں۔
(یہ معظمہ شیعوں کے نزدیک بہت محترم ہیں۔ اور خدیجہ کے بعد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سب سے زیادہ جلیل المرتبت زوجہ ہیں۔ اہل سنت کے یہاں بھی بہت محترم ہیں اور ان کی نگاہ میں خدیجہ و عائشہ کے بعد امّ سلمہ ہی معظم و محترم خاتون ہیں)
اور عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ” اہل بیت علیہ السلام ” میں میرا بھی شمار ہے یا نہیں ؟ آپ نے فرمایا تم خیر پر ہو لیکن ان میں شامل نہیں ہو۔ عرض کرچکا ہوں کہ اہل سنت کی روایات میں اس واقعہ کے حوالے ایک دو نہیں بلکہ بہت زیادہ ہیں۔
یہی آیت ہمیں اپنے مفہوم سے مختلف دوسری آیات کے درمیان نظر آتی ہے۔ اس سے قبل و بعد کی آیتیں ازواج پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے متعلق ہیں۔ اس سے پہلے کی آیت یہ ہے ” یا نساء النبی لستن کاحد من انساء ” اے ازواج پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!تم دوسری عورتوں جیسی تمیں ہو تم اور دوسری عورتوں میں فرق ہے، ( یقیناً قرآن یہ نہیں کہنا چاہتا کہ تم دوسروں پر امتیاز رکھتی ہو )۔ تمہارا گناہ دگنا اور دُہرا ہے کیونکہ اگر تم گناہ کرو گی تو گناہ تو یہ ہے کہ تم نے وہ عمل بد انجام دیا اور دوسرے یہ کہ اپنے شوہر کی رسوائی کی مرتکب ہوئیں۔ اس طرح دو گناہ تم سے سر زد ہوئے۔ یوں ہی تمہارے نیک اعمال بھی دوہرا اجر رکھتے ہیں کیو نکہ تمہارا ہر عمل خیر دو عمل کے برابر ہے۔ بلکل یوں ہی جیسے کہا جاتا ہے کہ سادات کرام کے کار خیر کا ثواب اور بُرے عمل کا گناہ دُوہرا ہے۔ اس کا یہ مطلب یہ نہیں ہے کہ دوسروں کے مقابلہ میں ان کا ایک گناہ سنگین ہوجاتا ہے اور فرق رکھتا ہے۔ بلکہ ان کا ایک گناہ دو گناہ ہوجاتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک سید ( معاذاللہ ) شراب پیئے۔ تو وہ شراب پینے کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے عمل کا بھی مرتکب ہوا ہے، اور وہ یہ کہ چونکہ وہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آل پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منسوب ہے لہٰذا اپنی شراب نوشی کے ذریعہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہتک و رسوائی کا مرتکب بھی ہوا ہے۔ اگر کوئی شخص یہ دیکھے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولاد اس قدر کھلم کھلا ان کے حکم کے خلاف عمل کر رہی ہے تو اس کی روح پر اس کا بڑا گہرا اثر ہوگا۔
ان آیات میں تمام ضمیریں مؤنث کی استعمال ہوئی ہیں لستن کاحد من النساء ان اتقیتن ٓصاف ظاہر ہے کہ اس سے مراد ازواج پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ دو تین فقروں کے بعد یک بیک ضمیر مذکر ہوجاتی ہے اور ہم اس آیت کی تلاوت کرتے ہیں، ” انما یرید اللہ لیذھب عنکم ( عنکن نہیں ہے ) الرجس اھل البیت و یطھرکم تطھیراً” اس کے بعد دوبارہ مؤنث کی ضمیریں استعمال ہونے لگتی ہیں قرآن کا کوئی لفظ عبث اور غلط نہی ہے۔ اولاً یہاں کلمہ "اہل البیت ” استعمال ہوا ہے۔ اوراس کے پہلے ازواج رسول کا تذکرہ ہے ” یانساء النبی ” یعنی ” نساء النبی ” کا عنوان ” سے اہل البیت ” میں تبدیل ہوگیا اور دوسرے مؤنث کی ضمیر مذکر میں تبدیل ہوگئی یہ سب لغو اور عبث نہیں ہے۔ ضرور کوئی دوسری چیز ہے۔ یعنی قرآن گذشتہ آیات سے الگ کوئی دوسری بات کہنا چاہتا ہے۔ آیت تطہیر سے قبل و بعد کی آیتوں میں ازواج پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے حکم، دھمکی اور خوف و رجاء کا انداز پایا جاتا ہے :
وقرن فی بیوتکن ولا تبرجن تبرج الجاهلیة
” اپنے گھروں میں رہو اور زمانہ جاہلیت کے مانند اپنے بناؤ سنگھار کو دکھاتی نہ پھرو۔ گویا ایک کے بعد ایک حکم اور تہدید و دھمکی ہے۔ ساتھ ہی خوف و رجاء بھی ہے کہ اگر نیک اعمال بجالاؤ گی تو ایسا ہوگا اوراگر بُرے اعمال کروگی تو ویسا ہوگا۔
یہ آیت یعنی ( آیت تطہیر ) مدح سے بالاتر ایک بات ہے قرآن اس میں اہل بیت کی گناہ و معصیت سے پاکیزگی اور طہارت کے مسئلہ کو بیان کرنا چاہتا ہے۔ اس آیت کا مفہوم اس سے پہلے اور بعد کی آیتوں کے مفہوم و مطلب پہلے اور بعد کی آیتوں سے اس قدر مختلف ہے، ان آیت کے دمیان میں قرار دی گئی ہے۔ اس کی مثال اس شخص کے مانند ہے جو اپنی گفتگو کے دوران الگ سے ایک بات کہہ کر گفتگو کے سلسلہ کو پھر جوڑ دیتا ہے۔ اور اپنی بات جاری رکھتا ہے یہی وجہ ہے کہ ائمہ علیہم السلام کی روایات میں بڑی تاکید سے یہ بات کہی گئی ہے کہ ممکن ہے قرآنی آیات کی ابتدا میں کوئی ایک مطلب بیان ہوا ہو۔ درمیان میں کوئی دوسرا مطلب اور آخر میں کوئی تیسری بات کہی گئی ہو۔ اور قرآن کی تفسیر کے مسئلہ کو ان حضرات نے جو اتنی اہمیت دی ہے اس کا سبب بھی یہی ہے۔
یہ بات صرف ہماری روایات اور ائمہ کے ارشادات میں ہی نہیں پائی جاتی بلکہ اہل سنت حضرات نے بھی ان تمام مطالب کو نقل کیا ہے ” انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس ” اپنے پہلے اور بعد کی آیتوں سے فرق رکھتی ہے۔ اس کا مضمون اور اس کے مطالب بھی الگ ہیں یہ آیت ان ہی لوگوں سے متعلق ہے جو اس واقعہ (کساء ) میں شامل ہیں۔
دوسرا نمونہ
آیت ” الیوم اکملت لکم دینکم ” میں بھی ہمیں یہی بات نظر آتی ہے۔
بلکہ یہاں مذکورہ بالا آیت تطہیر سے زیادہ عجیب انداز نظر آتا ہے۔ اس سے پہلے کی آیت ہی سادے اور معمولی مسائل ذکر کئے گئے ہیں ” احلت لکم بهیمة الانعام "چوپایوں کا گوشت تمہارے لئے حلال ہے، ان کا تزکیہ یوں کرو اور اگر مردار ہو تو حرام ہے۔ وہ جانور جنہیں تم دم گھونٹ کر مرڈالتے ہو منخنقۃحرام ہیں اور وہ جانور جو ایک دوسرے کے سینگ مارنے سے مرجاتے ہیں ان کا گوشت حرام ہے اور پھر یک بیک ارشاد ہوتا ہے ” الیوم یئس الذین کفروا من دینکم فلا تخشوهم واخشون الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دیناً ” اس کے بعد دوبارہ مسائل کا ذکر شروع ہوجاتا ہے جو پہلے بیان ہورہے تھے مذکورہ آیت کے یہ جملہ اپنے پہلے اور بعد کی آیتوں سے سرے سے میل نہیں کھاتے۔ یعنی یہ اس بات کی نشاندہی ہے کہ یہ وہ بات ہے جو دوسرے مطالب کے درمیان الگ سے سر سری طور سے بیان کردی گئی ہے اور پھر اسے ذکر آگے بڑھ گئے ہیں۔ اس وقت ہم جس آیت کا ذکر کرنا چاہتے ہیں ( آیت بلغ ) اس کا بھی یہی حال ہے، یعنی وہ بھی ایسی آیت ہے کہ اگر ہم اس سے پہلے اور بعد کی آیات کے درمیان سے نکال دے تو بھی ان آیتوں کاربط کسی طرح نہیں ٹوٹ سکتا۔ جیسا کہ آیت ” الیوم اکملت ” کو اس کی جگہ سے ہٹادیں تو اس سے پہلے اور بعد کی آیتوں میں کوئی خلل واقع نہیں ہوتا یوں ہی زیر بحث آیت میں دوسری آیت کے درمیان ایک ایسی آیت ہے نہ اسے ماقبل کی آیتوں سے متعلق کہا جاسکتا ہے اور نہ مابعد کی آیتوں کا مقدمہ، بلکہ اس میں ایک دم الگ سے بات کہی گئی ہے۔ یہاں بھی خود آیت میں موجود قرائن اور شیعہ و سنی روایات اسی مطلب کی حکایت کرتی نظر آتی ہیں، لیکن اس آیت کو بھی قرآن نے ایسے مطالب کے درمیان رکھا ہے جو اس سے دور کا بھی واسطہ نہیں رکھتے اس میں ضرور کوئی راز ہوگا، آخر اس کا راز کیا ہے ؟
اس مسئلہ کا راز :
اس میں جو راز پوشیدہ ہے، خود قرآن کی آیت کے اشارہ سے بھی ظاہر ہے اور ہمارے ائمہ علیہ السلام کی روایات میں بھی اس کی اشارہ پایا جاتا ہے۔ اور اوہ یہ ہےکہ اسلام کے تمام احکام و دستورات میں آل پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مسئلہ یعنی امیر المومنین علیہ السلام کی امامت اور خاندان پیغمبر کی خصوصیت ہی ایسا مسئلہ اور ایسا حکم تھا جس پر بدقسمتی سے سب سے کم عمل ہوسکا، اور اس کی وجہ یہ تھی کہ چونکہ اہل عرب اپنی روح کی گہرائیوں میں تعصبات رکھتے تھے جس کے سبب ان میں اس مطلب کے قبول کرنے اورا سپر عمل پیرا ہونے کی آمادگی بہت ہی کم نظر آتی تھی اگر چہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں امیرالمومنین علیہ وآلہ وسلم سے متعلق حکم پہنچتے تھے لیکن حضرت ہمیشہ اس تردد میں رہتے تھے کہ اگر میں حکم بیان کردوں تو وہ منافقین جن کا ذکر قرآن برابر کرتا رہے کہنے لگیں گے کہ دیکھو ! پیغمبر کنبہ نوازی سے کام لے رہے ہیں۔ جبکہ پوری زندگی پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ شیوہ رہا ہے کسی مسئلہ میں اپنے لئے کس خصوصیت کے قائل نہ ہوئے۔ ایک تو آپ کا اخلاق ایسا تھا، دوسرے اسلام کا حکم ہونے کی بناپر آپ اس بات سے غیر معمولی طور پر گریز کرتے تھے کہ اپنے دوسروں کے درمیان کوئی امتیاز برتیں اور یہی پہلو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کامیابی کا سب سے بڑا سبب تھا۔
یہ مسئلہ ( یعنی اس حکم کی تبلیغ کہ علی آپ کے جانشین ہیں ) خدا کا حکم تھا، لیکن پیغمبر جانتے تھے کہ اگر اسے بیان کردیں تو ضعیف الایمان افراد کا گروہ جو ہمیشہ رہا ہے، کہنے لگیں گے کہ دیکھو ! پیغمبر اپنے لئے عظمت و امتیاز پیدا کرنا چایتے ہیں۔ آیت "الیوم یئس الذین کفروا من دینکم فلا تخشوهم واخشون” تھیَ جس میں قرآن فرماتا ہے کہ اب کافروں کی امیدیں تمہارے دین سے منقطع ہوچکی ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ اسلام کے خلاف اب تک جو جد وجہد کررہے تھے کہ کہ اس دین پر کامیاب ہوجائیں گے ان کی یہ امیدیں ٹوٹ چکی ہیں اور وہ مایوس ہوچکے ہیں۔ وہ یہ سمجھ گئے ہیں کہ اب اسلام کا کچھ بگڑ نہیں سکتا۔ ” فلا تخشوھم ” لہٰذا اب کافروں کی جانب سے کسی طرح کا خوف وخطر نہ رکھو ” واخشون ” مجھ سے ڈرتے رہو۔ میں عرض کرچکا ہوں کہ اس کامطلب ہے اس بات سے ڈرتے رہو کہ اگر تم میں خود اندرونی طور پر خرابیاں پیدا ہوئیں تو میں اپنی سنت اور قانون کے مطابق یعنی جب بھی کوئی قوم ( فساد اور بُرائی میں پڑ کر ) اپنی راہ بدلتی ہے میں بھی ان سے اپنی نعمت سلب کرلیتا ہوں۔ (نعمت اسلام کو تم سے سلب کرلوں گا ) یہاں ” واخشون ” کنایہ ہے۔ مجھ سے ڈرو کا مطلب یہ ہے کہ اپنے آپ سے ڈرو یعنی اب خطرہ اسلامی معاشرہ کے اندر سے ہے باہر سے کوئی خطرہ نہیں رہ گیا ہے۔ دوسری طرف ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ آیت سورۂ مائدہ کی ہے اور سورہ مائدہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہونے وال اآخری سورہ ہے۔ یعنی یہ آیت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے دوتین ماہ پہلے نازل ہونے والی آیتوں میں سے ہے جب اسلام طاقت واقتدار کے اعتبار سے وسعت پاچکا تھا۔
جو آیت ہماری بحث کا محور ہے اورجسے میں پہلے بھی عرض کرچکا ہوں، اس میں بھی یہی بات نظر آتی ہے کہ خطرہ داخلی طور پر ہے خارجی طور پر اسکی طرح کا خطرہ باقی نہیں رہا۔ ارشاد ہے :یاایها الرسول بلغ امانزل الیک من ربک وان لم تفعل فما ابلغت رسالته والهه یعصمک من الناس ” ہمیں قرآن میں اس آیت کے علاوہ کوئی اور آیت نظر نہیں آتی جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ( سکی عمل کی انجام دہی کے لئے ) آمادہ کرے اور شوق دلائے۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسےآپ کسی کام کے لے تشویق کیجیے اور وہ اس کے لے ایک قدم آگے بڑھے پھر ایک قدم پیچھے ہٹ جاے جیسے وہ خطرے یا تذبذب کا شکار ھے یہ آیت بھی پیغمبر کو تبلیغ کی دعوت دیتی ہے اوراس تبلیغ کے سلسلہ میں ایک طرف دھمکی دیتی ہے اور دوسری طرف شوق پیدا کراتی اور تسلّی دیتی ہے۔ دھمکی یہ ہے کہ اگر اس امر کی تبلیغ تم نے نہیں کی تو تمہاری رسالت کی تمام خدمت اکارت اور بے کار ہے اور تسلّی یوں دی جاتی ہے کہ ڈرو نہیں ! خدا تم کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا۔”والله یعصمک من الناس ” آیت ” الیوم یئس الذین کفروا من دینکم فلا تخشوهم ” میں فرمایا آپ کافروں سے خوف زدہ نہ ہو۔ در حقیقت پہلی منزل میں پیغمبر کو کافروں سے نہیں ڈرنا چاہئے۔ لیکن آیت "یاا یھا الرسول "سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فکر مند تھے۔ پس ظاہر ہے کہ آنحضرت کا یہ تردد و فکر مندی مسلمانوں کے اندر پائے جانے والے افراد سے ہے۔ مجھے فی الحال اس سے سروکار نہیں ہے کہ مسلمانوں میں وہ لوگ ( جو اس تبلیغ یعنی علی علیہ السلام کی جانشینی قبول کرنے پر تیار نہیں تھے ) باطنی طور پر کافر تھے یا نہیں تھے۔ بہرحال یہ مسئلہ کچھ ایسا تھا کہ وہ لوگ اس کے لئے آمادہ اور اسے قبول کرنے پر تیار نہیں تھے۔
تاریخی مثالیں
اتفاق سے تاریخی واقعات اور اسلامی معاشرہ کے مطالعہ سے بھی یہی بات ظاہر ہوتی ہے چنانچہ عمر نے کہا کہ: ہم نے جو علی علیہ السلام کو خلافت کے لئے منتخب نہیں کیا وہ "حیطة علی الاسلام ” تھا، یعنی ہم نے اسلام کے حق میں احتیاط سے کام لیا کیونکہ لوگ ان کی اطاعت نہیں کرتے اور انہیں (خلیفہ ) نہیں مانتے !! یا ایک دوسری جگہ ابن عباس سے گفتگو کے دوران ان سے کہا: قریش کی نگاہ میں یہ عمل صحیح نہیں تھا کہ امامت بھی اسی خاندان میں رہے جس خاندان میں نبوت تھی۔ مطلب یہ تھا کہ نبوت جب خاندان بنی ہاشم میں ظاہر ہوئی تو فطری طور پر یہ اس خاندان کے لئے امتیاز بن گئی لہٰذا قریش نے سوچا کہ اگر خلافت بھی اسی خاندان میں ہوگی تو سارے امتیازات بنی ہاشم کو حاصل ہوجائیں گے۔ یہی وجہ تھی کہ قریش کو مسئلہ ( خلافت امیرالمومنین ) ناگوار تھا اور وہ اسے درست نہیں سمجھتے تھے۔ ابن عباس نے بھی ان کو بڑے ہی محکم جواب دیئے اور اس سلسلہ میں قرآن کی دو آیتیں پیش کیں جوان افکار و خیالات کا مدلل جواب ہیں۔
بہر حال اسلامی معاشرہ میں ایک ایسی وضع و کیفیت پائی جاتی تھی جسے مختلف عبارتوں اور مختلف زیارتوں میں بیان کیا گیا ہے۔ قرآن اُسے ایک صورت اور ایک انداز سے بیان کرتا ہے اور عمر اسی کو دوسری صورت سے بیان کرتے ہیں یا مثال کے طور پر لوگ یہ کہتے تھے کہ چونکہ علی نے اسلامی جنگوں میں عرب کے بہت سے افراد اور سرداروں کو قتل کیا تھا، اور اہل عرب فطرتاً کینہ جو ہوتے ہیں لہٰذامسلمان ہونے کے بعد بھی ان کے دلوں میں علی سے متعلق پدر کشی اور برادر کشی کا کینہ موجود تھا ( لہٰذا علی خلافت کے لئے مناسب نہیں ہیں ) بعض اہل سنت بھی اسی پہلو کو بطور عذر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ یہ سچ ہے کہ اس منصب کے لئے علی کی افضلیت سب پر نمایاں اور ظاہر تھی لیکن ساتھ ہی یہ پہلو بھی تھا کہ ان کے دشمن بہت تھے۔
بنابر ایں اس حکم سے سرتابی کے لئے ایک طرح کے شک وتردد کی فضا عہد پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ہی موجود تھی اور شاید قرآن کا ان آیات کو قرائن و دلائل کے ساتھ ذکر کرنے کا راز یہ ہے کہ ہر صاف دل اور بے غرض انسان حقیقی مطلب کو سمجھ جائے لیکن ساتھ ہی قرآن یہ بھی نہیں چاہتا کہ اس مطلب کو اس طرح بیان کرے کہ اس سے انکار و روگردانی کرنے والوں کا انحراف قرآن اور اسلام سے انحراف و انکار کی شکل میں ظاہر ہو۔ یعنی قرآن یہ چاہتا ہے کہ جو لوگ بہر حال اس مطلب سے سرتابی کرتے ہیں ان کا یہ انحراف قرآن سے کھلم کھلا انحراف و انکار کی شکل میں ظاہر نہ ہو بلکہ کم از کم ایک ہلکا سا پردہ پڑا رہے۔ یہی وجہ ہے جو ہم دیکھتے ہیں کہ آیت تطہیر کو ان آیات کے درمیان میں قرار دیا گیا ہے لیکن ہر سمجھدار، عقلمند اور مدبّر انسان بخوبی سمجھ جاتا ہے کہ یہ ان سے الگ ایک دوسری ہی بات ہے۔ اسی طرح قرآن نے آیت ” الیوم اکملت ” اور آیت ” یاایھا الرسول بلغ ” کو بھی اسی انداز میں دوسری آیتوں کے درمیان ذکر کیا
آیت( انما ولیکم الله )
اس سلسلہ میں بعض ایسی آیتیں بھی ہیں جو انسان کو سوچنے اور غور کرنے پر مجبور کردیتی ہیں کہ یہاں ضرور کوئی خاص بات ذکر کی گئی ہے اور بعد میں متواتر احادیث و روایت سے بات ثابت ہوجاتی ہے۔ مثال کے طور پر آیت انما ولیکم الله ورسوله والذین اٰمنوا الذین یقیمون الصلوٰ ة ویؤ تون الذکوٰة وهم راکعون عجیب تعبیر ہے۔ ملاحظہ فرمائیں۔
” تمہارا ولی خدا ہے اور ان کا رسول اور وہ صاحبانِ ایمان ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ حالت رکوع میں زکوٰۃ دینا کوئی معمولی عمل نہیں ہے جسے ایک اصل کلی کے طور پر ذکر کیا جائے بلکہ یہ مطلب و مفہوم کسی خاص واقعہ کی طرف اشارہ کررہا ہے۔ یہاں اس کی تصریح و وضاحت بھی نہیں کی گئی ہے کہ اس سے سرتابی دوست و دشمن کے نزدیک براہِ راست قرآن سے روگردانی شمار کی جائے۔ لیکن ساتھ ہی کمالِ فصاحت کے ساتھ اسے اس انداز سے بیان بھی کردیا گیا ہے کہ ہر صاف دل اور منصف مزاج انسان سمجھ جائے کہ یہاں کوئی خاص چیز بیان کی گئی ہے اور کسی اہم قضیہ کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے۔
الذین یؤتون الزکوٰ ة وهم راکعون
وہ لوگ رکوع کی حالت میں زکوٰۃ دیتے ہیں ” یہ کوئی عام سی بات نہیں ہے بلکہ ایک غیر معمولی واقعہ ہے جو وجود میں آگیا ۔ آخر یہ کون سا واقعہ تھا ؟ ہم دیکھتے ہیں کہ بلا استثنا تمام شیعہ و سنی روایات کہتی ہے کہ یہ آیت حضرت علی بن ابی طالب علیہما السلام کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
عرفاء کی باتیں
دوسری آیتیں بھی ہیں جن پر گہرائی کے ساتھ غور وفکر سے مطلب واضح اور حقیقت روشن ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عرفاء ایک زمانہ سے اس سلسلہ میں اظہارِ خیال کرتے رہے ہیں۔در اصل یہ شیعی نقطۂ نظر ہے۔ لیکن اسے بڑے حسین انداز میں بیان کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ امامت و ولایت کا مسئلہ باطن شریعت سے تعلق رکھتا ہے۔ یعنی وہی اس تک رسائی حاصل کرسکتا ہے جو کسی حد تک شریعت اور اسلام کی گہرائیوں سے آشنا ہو یعنی اس نے پوست اور چھلکے سے گزر کر اس کے مفرد جوہر تک رسائی حاصل کرلی ہو اور بنیادی طور پر اسلام میں امامت و ولایت کا مسئلہ لُبّی اور اصل مسئلہ رہا ہے یعنی بہت مدیرانہ فکر عمیق رکھنے والے افراد ہی اسے درک اور سمجھ سکے ہیں۔ دوسروں کو بھی اس گہرائی کے ساتھ غور وفکر کی دعوت دی گئی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ کچھ لوگ اس مفہوم تک پہنچتے ہیں اور کچھ نہیں پہنچ پاتے۔
(اقتباس از کتاب: امامت و رہبری)
http://alhassanain.org/urdu/?com

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button