امامت

کتب اہل سنت میں بارہ اماموں کا ذکر

مؤلف: محمد صادق نجمی

مترجم: محمد منیر خان
اہل سنت کی معتبر کتابوں میں بارہ اما م خصوصاً امام مہدی ارواحنا لہ الفداء عجل اللہ عرجہ الشریف کے اوصاف کے بارے میں متعدد روایات موجود ہیں،یہاں تک کہ ان احادیث کی وجہ سے بعض علمائے اہل سنت نے اپنی اپنی کتابوں میں آخری امام کیلئے ایک مستقل فصل قرار دی ہے اور بعض نے امام عصرعليه‌السلام کے بارے میں مستقل کتابیں بھی لکھی ہیں،لیکن فی الحال ہم صحیحین سے اس بارے میں نقل شدہ روایات پیش کر نے پر اکتفا ء کرتے ہیں :
۱۔عن عبد الملک؛ سمعت جابر بن سمرة ؛قال: سمعت النبی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یقول: یکون اثنیٰ عشرامیرا، فقال کلمة، لم اسمعها،فقال ابی: انه قال: کلهم من قریش”
(صحیح بخاری ج۹، کتاب الاحکام، باب(۵۲)”استخلاف“ حدیث۶۷۹۶۔ صحیح مسلم ج۶، کتاب الامارة، باب(۱۱)” الناس تبع القریش و الخلافة فی قریش“حدیث ۱۸۲۱(
عبد الملک نے جابر بن سمرہ سے نقل کیا ہے:
میں نے رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سنا : آپ نے فرمایا: (میرے بعد میرے) بارہ امیر و خلیفہ ہوں گے، جابر کہتے ہیں : دوسرا کلمہ میں نے ٹھیک سے نہیں سنا جس میں رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سنے ان بارہ خلفاء کے بارے میں بتلایا تھا کہ وہ کس قبیلہ سے ہوں گے، لیکن بعد میں میرے پدر بزگوار نے مجھ سے کہا: وہ جملہ جو تم نے نہیں سنا وہ یہ تھا کہ وہ تمام خلفاء قریش سے ہوں گے۔
مسلم نے بھی اس حدیث کو آٹھ سندوں کے ساتھ اپنی کتاب میں نقل کیا ہے اور ا ن میں سے ایک حدیث میں اس طرح آ یا ہے:
"جابر بن سمرة قال:انطلقتُ الی رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللّٰه ومعی ابی، فسمعته، یقول: لایَزَالُ هذَا الدین عَزِیزاً مَنِیعاً اِلیٰ اِثْنیٰ عَشَرَ خلیفة،ً قال کلمة ،صَمَّنِیْهَا الناس،ُ فقلتُ لابی ما قال؟ قال :کلهم من قریش "
(صحیح مسلم ج ۶ ،کتاب الامارہ ،باب۱حدیث۱۸۲۱۔(کتاب الامارة کی حدیث نمبر۹)
جابر بن سمرہ کھتے ہیں :
ایک مرتبہ میں اپنے والد بزرگوار کے ساتھ خدمت رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  میں مشرف ہوا تو میں نے رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سنا :آپ فرما رہے تھے: یہ دین الہٰی بارہ خلفاء تک عزیز اور غالب رہے گا،اس کے بعد دوسرا جملہ میں نہ سن سکا کیو نکہ صدائے مجلس سننے سے حا ئل ہوگئی تھی، لیکن میرے پدر بزرگوار نے کہا :وہ جملہ یہ تھا:
"یہ تمام بارہ خلفاء قریش سے ہوں گے”۔
عرض مولف
اس حدیث کومختلف مضامین کے ساتھ اہل سنت کی اہم کتابوں میں کثرت کے ساتھ نقل کیا گیا ہے اور یہ حدیث مسلمانوں کے دیگر فرقوں کے بطلان اور مذہب شیعہ کے حق ہونے پر ایک محکم و مضبوط دلیل ہے، اس لئے کہ اس حدیث کا مضمون مذہب شیعہ کے علاوہ کسی اور فرقہ اسلامی کے رہنماؤں سے منطبق نہیں ہوتا،کیونکہ اہل سنت خلفائے راشدین (جو چار ہیں ) کے قائل ہیں ، یا پھر امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی خلافت کو ملا دیں توپانچ ہوتے ہیں ، لیکن حدیث میں رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  نے بارہ فرمائے ہیں ، لہٰذا ان کے مذہب سے یہ حدیث منطبق نہیں ہوتی اور اگر خلفائے بنی امیہ و بنی عباس کو ملایا جائے توسب سے پہلے یہ کہ ان کی تعداد بارہ سے زیادہ ہوتی ہے۔دوسرے یہ کہ ان میں سے اکثرخلفاء اہل فسق و فجور تھے، انہوں نے اپنی ساری عمر گناہوں ،قتل، غارتگری و خونریزی ، شراب نوشی اور زناکاری میں گزاری لہٰذا رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  ان کو کیسے اپنا جانشین قرار دے سکتے ہیں ؟! پھرجس طرح یہ حدیث اہل سنت حضرات کے خلفاء کی تعداد سے منطبق نہیں ہوتی اسی طرح فرقہ زیدیہ،اسماعیلیہ ، فطحیہ، سے بھی منطبق نہیں ہوتی ،کیونکہ ان کے مذھب کے خلفاء کی تعداد ۱۲ سے کم ہے، لہٰذا صرف شیعہ اثنا عشریہ کے خلفاء کی تعداد سے منطبق ہوتی ہے، ان میں سر فہرست مولائے متقیان حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام اور آخر حضرت مہدی حجۃابن الحسن العسکری عجل اللہ عرجہ الشریف ارواحنا لہ الفداء ہیں ۔
۲۔ جابر بن عبدالله وابوسعید قالا: قال رسول الله :یکون فی آخر الزمان خلیفة یقسم المال ولا یعده
(صحیح مسلم جلد۸ ،کتاب الفتن ،باب” لاتقوم الساعة حتی یمر الرجل“ حدیث۲۹۱۳۔۲۹۱۴)
جابر بن عبد اللہ اور ابوسعید نے رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  سے نقل کیا ہے :
رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: آخری زمانہ میں میرا ایک جانشین و امام ہوگا جو مال و ثروت کو( ناپ و تول کے ساتھ ) تقسیم کرے گا نہ کہ گنے گا۔
۳۔عن ابی سعید؛ قال: قال رسول الله : من خلفاء کم خلیفة یحشو المال حشیاً ولا یعده عداً
(صحیح مسلم جلد۸ ،کتاب الفتن، باب ”لاتقوم الساعة حتی یمر الرجل“ حدیث۲۹۱۳،۲۹۱۴)
ابو سعید نے رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  سے دوسری حدیث نقل کی ہے رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  نے فرمایا: تمہارے خلفاء اور ائمہ میں سے ایک خلیفہ و امام وہ ہوگا جو مال کو مٹھی سے تقسیم کرے گا نہ کہ عدد و شمار سے۔
امام زمانہ عجل اللہ عرجہ الشریف کے بارے میں فاضل نَوَوی شارح صحیح مسلم؛ مذکور ہ حدیث کی لغت حل کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
سونا اور چاندی کی اس قسم کی تقسیم کا سبب یہ ہے کہ اس وقت ان حضرت کی وجہ سے کثرت سے فتوحا ت ہوں گی جن سے غنائم اورمال وثروت فراوانی سے حا صل ہوگا اور آپ اس وقت اپنی سخاوت اور بے نیاز ی کا اس طرح مظاہرہ فرمائیں گے، اس کے بعد کھتے ہیں : سنن ترمذی و ابی واؤد میں ایک حدیث کے ضمن میں اس خلیفہ کا نام (مہدی) مرقوم ہے، اس کے بعد اس حدیث کو سنن ترمذ ی سے نقل کرتے ہیں کہ رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے فرمایا :قیامت واقع نہیں ہوگی جب تک میرے اہل بیت (خاندان ) سے میرا ہمنام، جانشین ظاہر ہو کر عرب پر مسلط نہ ہو جائے۔
اس کے بعد نووی کھتے ہیں :
ترمذی نے اس حدیث کو صحیح جانا ہے اور سنن داود میں اس حدیث کے آخر میں یہ بھی تحریر ہے :
” وہ خلیفہ اس زمین کو عدل و انصاف سے اسی طرح بھر دے گا جیسے وہ ظلم و ستم سے بھری ہوگی“۔
۴ ۔ امام بخاری نے ابوھریرہ سے نقل کیا ہے کہ آنحضرت نے فرمایا:
”کَیْفَ اَنْتُمْ اِذَا نَزَلَ اِبنُ مَرْیَم فِیکُم وَاِمامُکم مِنْکُمْ “
(صحیح بخاری جلد۴ ،کتاب الانبیاء ،باب ”نزول عیسی ابن مریم “حدیث ۳۲۶۵)
تمہارا اس وقت خوشی سے کیا حال ہوگا جب ابن مریم حضرت عیسی تمہارے درمیان نازل ہوں گے اور تمہارا امام تم میں سے ہوگا؟
ابن حجر نے اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ امام شافعی اپنی کتاب ”المناقب“ میں تحریر کرتے ہیں :
اس امت میں امام مہدی علیہ السلام کا وجود اور آپ کا حضرت عیسی علیہ السلام کو نماز پڑھانا حد تواتر کے طور پر ثابت ہے۔
(فتح ا لباری شرحا لبخاری ج۷ ،کتاب الانبیاء باب قولہ تعالی : واذکر فی الکتاب مریم ص ۳۰۵)
ابن حجر اس کے بعد کھتے ہیں :
بدر الدین عینی اس حدیث کی مفصل شرح کرنے کے بعد اس طرح نتیجہ گیری کرتے ہیں :
”حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا اس امت مسلمہ کے امام مہدی علیہ السلام کے پیچھے قیامت سے نزدیک آخری زمانہ میں نماز پڑھنا ،اس بات کی دلیل ہے کہ جو لوگ قائل ہیں کہ زمین کبھی حجت خد ا سے خالی نہیں ، وہ درست ہے اور ان کا یہ عقیدہ حق بجانب ہے“۔
(عمدة القاری جلد۱۶ ،کتاب الانبیاء باب قولہ تعالی : واذکر فی الکتاب مریم)
اور امام نووی”کتاب تہذیب الاسماء“ میں کلمہ عیسیٰ کے ذیل میں تحریر کرتے ہیں:
” حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آخری زمانہ میں امام مہدی علیہ السلام کے پیچھے نماز پڑھنے کیلئے آنا اسلام کی تائید اور تصدیق کی خاطر ہے ،نہ کہ اپنی نبوت اور مسیحیت کو بیان کرنے کے لئے اور خدا وند متعال حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو امام مہدی علیہ السلام کے پیچھے نماز پڑھواکر رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  اکرم کے احترام میں اس امت اسلام کو قابل افتخار بنانا چاہتا ہے“۔
(الا صابة جلد۴،عیسی المسیح بن مریم الصدیقة بنت عمران ، ص۶۳۸)
قارئین محترم! یہ تھی چند حدیثیں جوصحیحین میں وارد ہوئی ہیں ،جن سے بعض عقیدہ تشیع کی تائیدہوتی ہے،لیکن مذکورہ مطالب کو صحیح بخاری اورصحیح مسلم کے بعض متعصب شا رحین اور عصر حا ضر کے چند نام نہاد سنی مصنفین ہضم کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں (اورنہ جانے کیوں ان مطالب کی بنا پر عارضہ شکم ِ درد میں مبتلا دکھائی دیتے ہیں!)اور بجائے اس کے کہ یہ لوگ ان حدیثوں کے مفہوم کے سامنے سرتسلیم خم کرتے،انہوں نے ایسی ایسی الٹی،سیدھی،ضد و نقیض اور غیر قابل ِ قبول توجیھات و تاویلات نقل کی ہیں جو صریحا عقل و نقل کے خلاف ہیں ۔
چنانچہ عصرحا ضر کے بعض محققین جب ان توجیہات کے فساد کی طرف متوجہ ہو ئے تو انہوں نے سرے سے مذکورہ حدیثوں کی شرح کرنے سے گریز کرتے ہوئے ایک دوسرا راستہ اپنایا! مثلاً شیخ محمود ابوریہ اپنی کتاب میں اس حدیث کی شرح کرنے سے گریز کرتے ہوئے اس طرح لکھتے ہیں :
یہ روایات مشکل ترین حدیثوں میں سے ہیں،جن کا سمجھنا بہت دشوار ہے، بلکہ اس کے واقعی مفہوم کو درک کرنا ہمارے امکان میں ہے ہی نہیں، لہٰذا ان حدیثوں کی تشریح کے بجائے ہمیں اپنا گرانقدروقت اور اپنی قیمتی عمر دوسرے مفیدعلمی مطالب میں صرف کرنی چاہیئے۔
(اضواء علی السنة المحمدیہ ، مصنفہ، شیخ محمود ابوریہ)
(اقتباس از کتاب: خلافت و امامت صحیحین کی روشنی میں)
http://alhassanain.org/urdu/?com

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button