امامتعقائد

امام ِ معصوم کی ضرورت ( حصہ چہارم)

مختار حسین توسلی
غلط رہبری کی ابتداء :
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حدیث ِ ثقلین میں قرآن و اہل بیت علیہم السلام کو اپنا ورثہ قرار دیتے ہوئے انہیں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم قرار دیا ہے، گویا ان کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور یہ کبھی بھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے، نیز ان سے مربوط رہنا اور ہدایت حاصل کرنا ہر مسلمان کے لئے لازم قرار دیا ہے کیونکہ یہ دونوں منارہ نور و ہدایت ہیں اور ان سے دوری کو ہلاکت اور گمراہی سے تعبیر کیا ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوری امت مسلمہ کو اس امر کی جانب متوجہ کیا ہے کہ تمہارے لئے ضروری ہے کہ احکام ِ دین قرآن سے حاصل کرو اور ان کی توضیح و تشریح اور تفسیر اہل بیت علیہم السلام سے حاصل کرو کیونکہ اُن سے بہتر کوئی اور قرآن کی توضیح و تشریح اور تفسیر بیان نہیں کر سکتا اس لئے کہ قرآن مجید اہل بیت علیہم السلام کے گھر میں نازل ہوا ہے چنانچہ وہی اس کی صحیح توضیح و تشریح اور تفسیر بیان کر سکتے ہیں کیونکہ ” أهل البيت أدرى بما في البيت ” یعنی گھر والے گھر کے متعلق بہتر جانتے ہیں۔
لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ مسلمانوں نے اہل بیت علیہم السلام سے اپنے شدید بغض و عناد اور تعصب کی بنا پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات مبارکہ کے آخری ایام میں جب آپ نے اپنے پاس بیٹھی ہوئی عالم اسلام کی برجستہ شخصیات سے قلم و دوات طلب کی تاکہ ایسا نوشتہ تحریر کر دیا جائے جس کی وجہ سے امت ِ مسلمہ ہمیشہ کے لیے ضلالت و گمراہی سے بچ جائے، لیکن بجائے قلم و دوات دینے کے کچھ صحابہ کرام رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور یہ کہہ کر گستاخی کے مرتکب ہوئے کہ آپ پر مرض کا غلبہ ہوگیا ہے اس لیے نعوذ باللہ ہذیان کہہ رہے ہیں، چنانچہ انہوں نے ” حسبنا کتاب اللہ ” کا نعرہ بلند کرکے صرف قرآن کو لے کر اہل بیت علیہم السلام کو نظر انداز کر دیا۔
واضح رہے کہ صحابہ کرام کی طرف سے اہل بیت علیہم السلام کو چھوڑ کر صرف قرآن مجید کو امت کی ہدایت کے لئے کافی قرار دینے کی وجہ سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد امت میں غلط رہبری پیدا ہوگی اور اسی غلط رہبری کی کوکھ سے ان تمام منصوبوں اور فتنوں نے جنم لیا جنھوں نے حقیقی اسلام کا دمکتا چہرہ مسخ کر دیا اور نصوص کو امت سے مخفی کردیا جس کے نتیجے میں ہادیان دین کی رہبری مشکوک ہوگئی، حق کی جگہ باطل نے لے لی اور صراط مستقیم کی جگہ گمراہی کے راستوں نے لے لی۔
بنی اسرائیل کی تاریخ ہمارے سامنے ہے جب حضرت موسی علیہ السلام چالیس دنوں کے لئے کوہ طور پر چلے گئے تو آپ نے اپنے بھائی ہارون کو اپنا جانشین بنایا اور لوگوں کو حکم دیا کہ وہ آپ کی غیر موجودگی میں ان کی اطاعت و فرمانبرداری کریں لیکن انہوں نے آپ کے جانے کے بعد جناب ہارون علیہ السلام سے روگردانی کی جس کے نتیجے میں وہ گمراہی کا شکار ہوگئے اور گوسالہ پرستی میں لگ گئے۔
یہاں پر قابل غور بات یہ ہے کہ بنی اسرائیل اپنے پیغمبر کے جانشین کو ترک کر دینے کی وجہ سے گمراہی کا شکار ہوگئے، اگر وہ حضرت موسی علیہ السلام کے واپس آنے تک جناب ہارون علیہ السلام سے متمسک رہتے اور ان کی فرمانبرداری کرتے تو گوسالہ پرستی میں نہ پڑتے۔
اسی طرح پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد امت ِ مسلمہ اختلافات کا شکار ہوگئی، ان کے پاس قرآن مجید موجود تھا لیکن پھر بھی وہ اختلافات سے نہ بچ سکے تو اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ لوگوں کے اختلافات کا اصل سبب قرآن مجید سے انحراف نہ تھا بلکہ وارثانِ قرآن سے انحراف تھا، جس کی وجہ سے آج تک مسلمان دوسری اقوام کے دست نگر ہیں۔
حدیث ثقلین میں تحریف :
مکتبہ صحابہ کے محدثین اور مؤرخین نے اہل بیت علیہم السلام کو پس ِ پردہ کرنے اور انہیں امت سے دور رکھنے کے لئے حدیث ثقلین کے الفاظ میں ہی ردوبدل کر دیا اور اپنی طرف سے ایک اور حدیث گھڑ لی تاکہ لوگ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت پر عمل کرکے آئمہ اہل بیت علیہم السلام کی قیادت و رہبری کو تسلیم کرتے ہوئے ان کی امامت و ولایت کے پرچم تلے جمع نہ ہو جائیں۔
چنانچہ ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آله وسلم نے فرمایا :” إنّى قد تَركتُ فِيكُم شَيئينِ لَن تَضِلّوا بَعدِهِمَا كتابَ اللهِوسُنّتِي ولَن يّتَفَرّقَا حَتّى يَرِدَا عَلَى الحَوضَ .”
یعنی : میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں، اگر تم ان سے وابستہ رہو گے تو میرے بعد گمراہی سے بچ جاؤ گے اور وہ کتاب خدا اور میری سنت ہیں اور یہ دونوں ایک دوسرے سے ہرگز جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ (قیامت کے دن) حوض کوثر پر پہنچ جائیں۔
(نیشاپوری، مستدرک علی الصحیحین جلد 1 صفحہ 93 ناشر : دار المعرفہ بیروت لبنان،تاریخ طبری جلد 3 صفحہ 151)
واضح رہے کہ اس خود ساختہ روایت کو جان بوجھ کر شہرت دی گئی تاکہ اصل حدیث محو ہو جائے، اس تحریف شدہ روایت کو کتابوں میں بہت زیادہ نقل کیا گیا اور حد درجہ منبروں سے بیان کیا گیا کہ اصل حدیث گوشہ گمنامی میں چلی گئی اور اس وقت مکتب خلافت میں سے بیشتر لوگ اصل حدیث کے متعلق کچھ بھی نہیں جانتے، حالانکہ وہ اہل سنت کی بڑی مستند کتابوں میں درج ہے۔
تعجب کی بات یہ ہے کہ مذکورہ تحریف شدہ حدیث صحاح ستہ میں موجود نہیں ہے لیکن اس کے باوجود اس کو بہت زیادہ شہرت دی گئی، جبکہ پہلی حدیث جو متواتر اور متفق علیہ ہے وہ صحاح ستہ میں سےصحیح مسلم اور صحیح ترمذی میں موجود ہے،صحیح مسلم اہل سنت کے ہاں صحیح بخاری کے بعد دوسری بڑی حدیث کی کتاب ہے، چنانچہ ایک ایسی حدیث جو صحیح مسلم اور دیگر معتبر کتب میں ہونے کے علاوہ متفق علیہ اور متواتر ہو، کو چھوڑ کر کسی ایسی حدیث کو لینا جو تحریف شدہ ہو سمجھ سے بالاتر ہے۔
سید امیر محمد کاظمی قزوینی اپنی کتاب محاورہ عقائدیہ میں اس تحریف شدہ حدیث کے ذیل میں لکھتے ہیں کہ یہ حدیث چند وجوہات کی بنا پر مردود ہے :-
پہلی وجہ :
یہ حدیث خبر آحاد کے ذیل میں آتی ہے لہذا یہ اُس حدیث کے لئے معارض نہیں بن سکتی جو تمام مسلمانوں کے ہاں تواتر سے ثابت ہے، کیونکہ ابن حجر ہیتمی کے قول کے مطابق حدیث ثقلین کو بیس سے زیادہ جبکہ ترمذی کے قول کے مطابق تیس سے زیادہ اصحاب نے نقل کیا ہے۔
پس حدیث ثقلین اور اس کے مقابلے میں گھڑی ہوئی روایت کے درمیان کوئی تعارض نہیں ہے، اگر ہم تسلیم کر لیں کہ ان کے درمیان تعارض موجود ہے تب بھی ان میں سے جو متواتر ہوگی اس کو خبر واحد پر مقدم کیا جائے گا، کیونکہ یہ اصول ہے کہ جب دو احادیث کے درمیان ٹکراؤ ہو جائے تو متواتر کو غیر متواتر پر مقدم کیا جاتا ہے، لہذا یہاں بھی ایسا ہی ہوگا، چنانچہ پہلی حدیث جس میں قرآن کے ساتھ اہل بیت کا تذکرہ ہے کو اُس حدیث پر مقدم کیا جائے گا جس میں قرآن کے ساتھ سنت کا تذکرہ ہے، کیونکہ پہلی حدیث متواترہ جبکہ دوسری غیر متواترہ ہے۔
دوسری وجہ :
اہل سنت کے آئمہ حدیث نے اپنی صحاح اور مسانید ِ معتبرہ میں ” وسنتی ” کے کلمہ کو نقل نہیں کیا ہے اگر یہ کلمہ درست ہوتا تو وہ یقینا اس کو ذکر کرتے، چنانچہ اُن کا اسے کتابوں میں ذکر نہ کرنا اس بات پر دلیل ہے کہ یہ موضوع حدیث ہے جسے بنی امیہ والوں نے اپنے تئں اہل بیت اطہار علیہم السلام کی شان و مرتبے کو کم کرنے کے لئے وضع کیا ہے۔
تیسری وجہ :
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہل بیت علیہم السلام کو قرآن مجید کے ساتھ اس لیے ذکر کیا ہے کیونکہ آپ نے انہیں اس کے علوم اور احکام کی تعلیم دی ہے تاکہ وہ ان کی حفاظت کریں اور انہیں لوگوں کے لئے کھول کر بیان کریں، لہذا آئمہ اہل بیت علیہم السلام کے علاوہ کوئی اور شخص قرآنی علوم کو ان کی گہرائیوں کے ساتھ نہیں سمجھ سکتا، جب سمجھ نہیں سکتا تو امت کی ہدایت و رہبری کیسے کر سکتا ہے لہذا لوگوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اہل بیت علیہم السلام کے دامن سے تمسک اختیار کریں تاکہ قرآن مجید کی حقیقی تعلیمات سے روشناس ہو سکیں۔
چوتھی وجہ :
سنت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مروی احادیث پر بھی مشتمل ہوتی ہے جو قرآن مجید کی آیات کی وضاحت کرتی ہیں، اس اعتبار سے بھی اگر دیکھا جائے تو کوئی ایسی ہستی ہونی چاہیے جو قرآنی آیات کے ساتھ احادیث کو بھی مکمل طور پر سمجھ سکے اور لوگوں کو سمجھا سکے۔
چنانچہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ کیسے فرما سکتے ہیں کہ تم صرف قرآن اور سنت سے تمسک اختیار کرو تاکہ گمراہ نہ ہو جاؤ جبکہ یہ بات واضح ہے کہ امت کسی سمجھانے والے کے بغیر نہ قرآن مجید کو کما حقہ سمجھ سکتی ہے اور نہ سنت کو، تاریخ ِ اسلام اس بات پر شاہد ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت قرآن و سنت سے جاھل رہی ہے، لہذا کسی ایسی ہستی کا ہونا ضروری ہے جو قرآن کے ساتھ ساتھ سنت کی بھی وضاحت کر سکے، چنانچہ ہمارے عقیدے کے مطابق رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالی کے حکم سے اہل بیت علیہم السلام کو قرآن کے ساتھ ساتھ سنت کا بھی امین بنایا ہے۔
پانچویں وجہ :
فرض کرتے ہیں کہ قرآن و سنت سے تمسک کرنا امت کی نجات کے لئے کافی ہے، اہل بیت علیہم السلام سے تمسک اختیار کرنے کی ضرورت نہیں ہے جیسا کہ مذکورہ تحریف شدہ حدیث میں کہا گیا ہے تو سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت کھلی گمراہی میں کیوں پڑ گئی؟
نیز اہل سنت کے چار امام دنیا میں آئے ہیں اور ان چاروں آئمہ کے درمیان ایک ہی واقعے کے متعلق قرآن و سنت سے حکم اخذ کرنے کے حوالے سے اختلاف واقع ہوا ہے جبکہ قرآن و سنت کا حکم ِ واقعی ایک ہی ہوتا ہے اس میں تغیر و تبدل نہیں ہے، پس ان آئمہ میں سے کسی ایک کا استنباط صحیح ہو سکتا ہے سب کا نہیں، یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کسی کا بھی صحیح نہ ہو، دلچسپ امر یہ ہے کہ اہل سنت کے چار ائمہ دنیا میں آئے ہیں اور ان سب کے الگ الگ فقہی مسالک ہیں جبکہ اہل بیت علیہم السلام کے بارہ آئمہ دنیا میں آئے ہیں اور سب کا ایک ہی فقہی مسلک ہے۔
چھٹی وجہ :
اگر صرف قرآن و سنت سے تمسک اختیار کرنا امت کو گمراہی میں پڑنے سے بچانے کے لئے کافی ہوتا تو خداوند متعال کتاب و سنت کے بارے میں علم نہ ہونے کی صورت میں اہل ذکر یعنی معصوم سے سوال کرنے کا حکم نہ فرماتا، بالفاظ دیگر سوال کرنے کو واجب قرار نہ دیتا۔
چنانچہ ارشاد ہوتا ہے :” فَسۡـَٔلُوۡۤا اَہۡلَ الذِّکۡرِ اِنۡ کُنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ، یعنی : اگر تم لوگ نہیں جانتے ہو تو اہل ذکر سے پوچھ لو۔”
(سورہ نحل آیت: 43)
پس جب امت پر سوال کرنا واجب ہے تو جواب دینا اہل ذکر پر واجب ہے اور اس کا لازمہ یہ بنتا ہے کہ اس کے جواب کو قبول کرنا اور اس پر عمل کرنا امت پر واجب ہو جاتا ہے، جب اہل ذکر کے جواب کو قبول کرنا اور اس پر عمل کرنا مطلقاً واجب ہے تو اس کا لازمہ یہ بنتا ہے کہ جواب دینے والا معصوم ہونا چاہیے کیونکہ اگر وہ معصوم نہ ہو تو وہ اپنے جواب میں خطا کرے گا اس سے غلط جواب پر عمل کرنا لازم آتا ہے جب کہ یہ بات واضح ہے کہ کسی خطا پر عمل کرنا جائز نہیں ہے پس اطلاق ِ آیت کے مطابق جواب دینے والے کے قول پر مطلقا عمل کرنا واجب ہے تو اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جواب دینے والے کو معصوم ہونا چاہیے۔
ایک اہم بات یہ ہے کہ امام ِ معصوم کے علاوہ اور کوئی فقیہ یا امام قرآن و سنت کے تمام احکام کی حفاظت نہیں کر سکتا، بالفاظ دیگر وہ کماحقہٗ شریعت کی حفاظت نہیں کر سکتا کیونکہ وہ جائز الخطاء ہے اس کے بیان کئے ہوئے احکام میں کمی و زیادتی کا پہلو رہتا ہے، پس جب فقیہ اور غیر معصوم امام اپنے نفس کی حفاظت نہیں کر سکتا تو وہ شریعت کی حفاظت کیسے کر سکتا ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حدیث ثقلین میں قرآن مجید کے ساتھ اہل بیت علیہم السلام کو امت کی ہدایت و رہبری کے لیے معین کیا ہے تاکہ وہ دین کے احکام کو ان کی اصلی شکل میں باقی رکھیں۔
حدیث ثقلین کی توجیہ و تاویل :
اہل سنت خاص کر بنی امیہ کے زیر اثر رہنے والے محدثین کے لئے حدیث ثقلین نے بڑی پریشانی پیدا کر دی کیونکہ اس حدیث کے ذیل میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بار بار لوگوں کو متوجہ کرکے فرمایا کہ میں تمہیں اپنے اہل بیت کے متعلق خدا یاد دلاتا ہوں، اس حدیث کی اسناد پر جب کوئی اعتراض نہ بن سکا تو پھر انہوں نے اپنے لئے توجیہ و تاویل کا دروازہ کھول دیا اور اہل بیت کے مفہوم میں عمومیت پیدا کرنے کی کوششیں کیں، جیسے مسلم نے ایک مقام پر آیہ مباہلہ کے ضمن میں لکھا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے علی، فاطمہ، حسن اور حسین کے متعلق فرمایا کہ یہ میرے اہل بیت ہیں۔
پھر دوسرے مرحلے پر اس میں عمومیت پیدا کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اہل بیت سے مراد آل علی، آل عقیل، آل جعفر اور آل عباس ہیں۔
پھر تیسرے مرحلے پر اس میں اور زیادہ عمومیت پیدا کرتے ہوئے لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ازواج بھی اہل بیت میں شامل ہیں۔
ان تمام باتوں کا مقصد اس کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ لفظ اہل بیت کے مفہوم کو ہی لوگوں کی نظر میں مشکوک بنا دیا جائے اور اہل بیت کو ازواجِ نبی اور بنی ہاشم کے درمیان چھپا دیا جائے اور یوں ہادیانِ امت کو گمنام بنا دیا جائے اور جب اہل بیت گمنامی میں چلے جائیں گے تو ان کے لیے خود ساختہ رہبروں کی قیادت کو لانا آسان ہو جائے گا۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ اہل بیت کا اطلاق بیوی اور بچوں پر ہوتا ہے بیٹی، داماد اور ان کے بچوں پر نہیں ہوتا، لہذا رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اہل بیت میں ازواج آتی ہیں، علی، فاطمہ اور حسنین علیہم السلام کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اہل بیت میں سے قرار دینا درست نہیں ہے۔
اس قسم کے شکوک وشبہات کا مقصد یہ ہے کہ آئمہ معصومین علیہم السلام کی ولایت و امامت کو بے اہمیت بنا دیا جائے اور لوگوں کو ان کی الہی قیادت و رہبری سے دور رکھا جائے تاکہ اپنے خود ساختہ اور غاصب خلفاء اور حکمرانوں کی خلافت و حکومت کو سند ِ جواز فراہم ہو۔
حدیث ثقلین کی طرح اہل بیت علیہم السلام کی شان میں موجود احادیث بالعموم اور امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی شان میں موجود احادیث بالخصوص بنی امیہ کے طرفداروں کی نگاہوں میں ہمیشہ کھٹکتی ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ ان احادیث کی توجیہ و تاویل کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ اِن میں سے اکثر اُن کے اپنے قواعد کے مطابق صحیح ہیں۔
ان احادیث میں امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کا وہ مقام و مرتبہ اور خصوصیات بیان کی گئی ہیں کہ جن کی وجہ سے آپ تمام صحابہ سے افضل و برتر ثابت ہوتے ہیں نیز اِن میں اہل بیت علیہم السلام کے ایسے فضائل و مناقب اور اسلام کے لیے ان کی ایسی خدمات کا تذکرہ کیا گیا ہے جن سے انکار ممکن نہیں ہے، چنانچہ بنو امیہ اور بنو عباس کے دور حکومت میں دربار سے وابستہ علماء اور محدثین نے حکام کی آشیرباد سے ان احادیث کی من پسند توجیہ و تاویل کی ہے اور تاریخی واقعات کے علل و اسباب کو مسخ کیا ہے، یہ سب کچھ دیکھ کر ہمیں یقین ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے نصوص کو اُلٹ پُلٹ کر کے تاریخ کی گردش کو اپنے فائدے میں حرکت دینے کی مذموم کوشش کی ہے۔
مکتب صحابہ کے علماء اور محدثین کی یہ حرکت صرف احادیث کے متون تک محدود نہ رہی بلکہ انہوں نے تاریخ پر بھی ہاتھ صاف کیے اور حکومت مخالف صحابہ و تابعین کے حالات کو بھی توڑ مروڑ کر پیش کر دیا، انہوں نے تاریخی واقعات کے علل و اسباب کو کچھ اس طرح بیان کیا کہ ظالم مظلوم اور مظلوم ظالم دکھائی دینے لگا، اور ہر دور میں ان علماء کو حکمرانوں کی حمایت حاصل رہی اور حکومت کی پروپیگنڈا مشینری بھی ان کے ساتھ رہی ۔
مکتب صحابہ کے علماء و محدثین نے توجیہ و تاویل کے ہتھیاروں سے لیس ہو کر میدان میں قدم رکھا اور اس کے ذریعے سے اپنے پیروکاروں کو جھوٹی تسلیاں دیں ان کی جھوٹی تسلیوں کی حیثیت وقتی طور پر سکون آور گولیوں کی سی ہے، وہ چاہتے ہیں کہ ان گولیوں سے مسلمانوں کو مطمئن کریں اور حکام کو بھی راضی رکھیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان گولیوں کا اثر دیر پا نہیں ہوتا اور ایک دن ایسا ضرور آئے گا کہ لوگ حقائق تک رسائی حاصل کرنے میں حتما کامیاب ہو جائیں گے اور ہمیں امید ہے کہ ہزاروں لاکھوں متلاشیان حق پر آفتاب ِ حقیقت کی ایک جھلک ضرور پڑے گی جس سے انہیں صراط مستقیم دکھائی دے گا اور اسی آفتاب کی تجلی کی وجہ سے انہیں عصمت و طہارت کے گھرانے کی راہ دکھائی دے گی، اور اسی آفتاب ِ ہدایت کی چمک انہیں یہ کمال بھی دکھائے گی کہ مدت کے غلط عقائد و نظریات کا مجموعہ خس و خاشاک کی طرح نگاہوں سے دور ہوگا۔
موجودہ دور جسے مذہبی تعصب کا بہترین دور کہا جا سکتا ہے چنانچہ اس پرآشوب دور میں بھی بہت سے خوش نصیب افراد نے اپنی سالہا سال کی تحقیق کے ذریعے اخروی نجات کے لیے مذہب اہلبیت کو قبول کیا ہے جن میں بڑے علماء اور دانشور قسم کے افراد شامل ہیں۔
ہم تمام انصاف پسند مسلمانوں سے گزارش کرتے ہیں کہ مکتب اہل بیت علیہم السلام سے متعلق فقط سنی سنائی باتوں پر کان نہ دھریں بلکہ تحقیق سے کام لیں تاکہ گمراہی اور انحرافی راستوں سے نجات ملے۔
اہل بیت سے انحراف کے تلخ نتائج :
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حدیث ثقلین کے ذریعے تمام مسلمانوں کو ایک ایسے مرکز پر جمع ہونے کا حکم دیا تھا جہاں الہامی کتاب کے ساتھ اس کی تعلیم دینے والے معلمین بھی موجود تھے، چنانچہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تمام مسلمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر لبیک کہتے ہوئے تفرقہ بازی کی بجائے اہل بیت علیہم السلام کی علمی مرجعیت کی طرف رجوع کر لیتے لیکن افسوس ایسا نہیں ہوا، مسلمانوں کی اکثریت در اہل بیت علیہم السلام کو چھوڑ کر اغیار کی طرف چلی گئی جس کا خمیازہ آج تک اُمت مسلمہ بھگت رہی ہے ۔
صدر اسلام کے مسلمانوں کی اس غلطی کے نتیجے میں عالم اسلام حقیقی اسلامی حکومت اور ہادیان برحق کی ولایت و امامت سے محروم ہوگیا، نیز مسلمان اہل بیت علیہم السلام کی تعلیم و تربیت سے محروم ہو گئے، حالانکہ قرآن مجید کی آیات اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مروی احادیث متواترہ کی رو سے اہل بیت علیہم السلام اسلامی تہذیب و ثقافت کا سرچشمہ اور لوگوں کی تعلیم و تربیت کا محور و مرکز تھے لیکن افسوس مسلمانوں نے ان پاکیزہ ہستیوں کو چھوڑ کر گمراہی اور بدبختی کا راستہ چن لیا۔
وصالِ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد مسند خلافت پر فائز ہونے والوں نے ممکنہ حد تک اہل بیت علیہم السلام کے فضائل و مناقب کو کم کرنے کی کوشش کی، اہل بیت علیہم السلام کے مقابلے میں اپنے منظور نظر صحابہ کے مقام ومرتبہ کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا اور لوگوں کو اپنے حمایت یافتہ راویوں سے احادیث اخذ کرنے کی ترغیب دی، اگرچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مصاحبت میں رہنے کے نتیجے میں حاصل ہونے والے علوم و معارف کی نشر و اشاعت میں چند بزرگ صحابہ بھی کوشاں رہتے تھے لیکن وہ علم و حکمت کے اس مرتبے پر فائز نہیں تھے جس پر اہل بیت علیہم السلام فائز تھے۔
حسبنا کتاب اللہ کا نعرہ لگانے والوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد مسلمانوں کو آئمہ اہل بیت علیہم السلام سے علمی استفادہ کرنے سے روک دیا، نہ صرف یہ کہ لوگوں کو اہل بیت علیہم السلام کی طرف رجوع کرنے سے روک دیا بلکہ احادیث وغیرہ کی نشر و اشاعت پر بھی پابندی لگا دی جس کے نتیجے میں بہت ساری احادیث ضائع ہو گئیں، دوسری طرف سے جعلی احادیث بنانے کا بازار گرم ہوگیا جس کے نتیجے میں بہت ساری من گھڑت احادیث وجود میں آگئیں، اس کے علاوہ اسرائیلیات کی بھی ایک بڑی تعداد اسلام میں داخل ہوگی، جس کی وجہ سے آج کے دور میں کوئی بھی حق کا متلاشی بآسانی اُس تک نہیں پہنچ سکتا۔
اہل بیت علیہم السلام کی دینی و علمی مرجعیت کو قبول نہ کرنے کے وجہ سے اُمت مسلمہ کو انتہائی تلخ نتائج سے روبرو ہونا پڑا اور آہستہ آہستہ مختلف مذاہب اور مکاتب وجود میں آگئے، جب کہ سبھی جانتے تھے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل بیت علیہم السلام کو لوگوں کا دینی، علمی اور فکری مرجع و محور قرار دیا تھا نیز ان ہستیوں کو اسلامی تعلیمات کا سرچشمہ، ضلالت و گمراہی سے حفاظت کا ضامن، وحدت کا ذریعہ اور اللہ تک پہنچنے کی رسی قرار دی تھی لیکن امت نے ان ہستیوں کو ان کا حقیقی اور اصلی مقام نہیں دیا۔
گویا صدر اسلام کے مسلمانوں نے اہل بیت علیہم السلام کو محجور بنا کر ان کے علمی و دینی مرجعیت و مرکزیت کو پس پشت ڈال دیا جس کے نتیجے میں امت مسلمہ قرآن مجید میں موجود علوم و معارف الہی کے ادراک سے محروم رہ گئی، عالم اسلام ھدایت کے چراغوں سے خاطر خواہ روشنی نہ لے سکا اور اسلامی اقدار کی بجائے لسانی، نسلی اور دیگر جاہلانہ اقدار کا تسلط قائم ہوگیا، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد آپ کی قائم کردہ عادلانہ اسلامی حکومت ولایت و امامت کی بجائے ملوکیت اور استبدادیت میں تبدیل ہوگئی، بنی امیہ اور بنی عباس کے خون آشام اور بدکار حکمران مثلا یزید جیسے افراد خلیفۃ المسلمین کے طور پر مسلمانوں کے سر پر سوار ہو گئے اور عالم اسلام چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بٹ گیا اور عالمگیر اسلامی حکومت کا خواب اب تک شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔
قابل توجہ امر یہ ہے کہ امت نے اہل بیت علیہم السلام کو چھوڑ کر صرف قرآن کو لیا تھا لیکن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کل قیامت کے دن خدا کی بارگاہ میں شکایت کریں گے کہ میری امت نے قرآن کو ترک کر دیا چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے :” وَ قَالَ الرَّسُوۡلُ یٰرَبِّ اِنَّ قَوۡمِی اتَّخَذُوۡا ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ مَہۡجُوۡرًا .”
ترجمہ : اور رسول کہیں گے : اے میرے پروردگار ! میری قوم نے اس قرآن کو واقعی ترک کر دیا تھا۔
(سورہ فرقان آیت : 30)
سوال یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و علیہ وسلم امت کی طرف سے قرآن مجید سے لا پرواہی برتنے کی شکایت کیوں کریں گے جبکہ آج بھی عالم اسلام میں سب سے زیادہ پڑھی اور حفظ کی جانے والی کتاب قرآن مجید ہے ؟
اگر ہم غور و فکر کریں اور دقت نظر سے کام لیں تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ قرآن مجید کوئی معمولی کتاب نہیں ہے بلکہ قیامت تک آنے والے انسانوں کو دیا گیا دستورِ حیات ہے چنانچہ اس کے مطالب کو سمجھنا عام لوگوں کے بس میں نہیں ہے، لہذا ضروری ہے کہ اللہ تعالی اپنی طرف سے کچھ ایسی ہستیوں کو معین کرے جو اس کے حقیقی مطالب و مفاہیم کو کھول کر واضح کرکے لوگوں تک پہنچائیں۔
پس ہمارے عقیدے کے مطابق اہل بیت علیہم السلام قرآن مجید اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے علوم کے وارث ہیں، چنانچہ جب امت نے اہل بیت کو چھوڑ دیا تو گویا انہوں نے قرآن مجید کے وارثین اور معلمین کو پس پشت ڈال دیا جس کی وجہ سے وہ قرآن کے علوم و معارف سے محروم ہو گئی کیونکہ قرآن کے مطالب و مفاہیم کی کما حقہ توضیح و تشریح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد اہل بیت علیہم السلام کے علاوہ کوئی اور نہیں کر سکتا، پس جب امت نے اہل بیت علیہم السلام کو چھوڑ دیا تو گویا انہوں نے قرآن مجید کو بھی چھوڑ دیا بھلے لوگ اس کی تلاوت کریں اور اس کو حفظ کریں لیکن اس کا کوئی چندان فائدہ نہیں ہوگا، یہی وجہ ہے کہ کل قیامت کے دن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شکایت کریں گے کہ میری امت نے قرآن مجید کو ترک کر دیا تھا۔

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button