عقائدقیامت

عقیدہ معاد پر دلائل

آیت اللہ شیخ وحید حسین خراسانی
معاد پر اعتقاد دو راہوں سے حاصل ہوتا ہے :دلیلِ عقلی اور عقل پر مبنی دلیل نقلی
دلیل عقلی:
۱۔ ہرعاقل کی عقل یہ درک کرتی ہے کہ عالم وجاہل ، اخلاق فاضلہ مثال کے طورپر بخشش وکرم سے آراستہ اور اخلاق رذیلہ مثال کے طور پر بخل وحسد سے آلودہ اور نیک وبد انسان برابر نہیں ہیں اور کسی کو اس کے عمل کے مطابق جزا وسزا نہ دینا ظلم ہے ۔
اور جیسا کہ اس زندگی میں اچھےاعمال بجالانے والوں کو اچهائی کی جزا اور برے اعمال بجا لانے والوں کو برائی کی سزا ملنا چاہیے نہیں ملتی، لہٰذا اگر اس کے علاوہ عقائد ،اخلاق اور اعمال سے متناسب عذاب وثواب پر مشتمل کوئی دوسری زندگی نہ ہو تو یہ ظلم ہوگا اور اسی بناء بر حشر ونشر ،حساب و کتاب اور ثواب و عقاب کا ہونا عدل پروردگار کا عین تقاضا ہے( ا مَْٔ نَجْعَلُ الَّذِيْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ کَالْمُفْسِدِيْنَ فِی اْلا رَْٔضِ ا مَْٔ نَجْعَلُ الْمُتَّقِيْنَ کَالْفُجَّارِ۔ (سورہ ص ، آیت ۲۸ )
”کیا ہم ایمان لانے والے اور نیک عمل کرنے والوں کو زمین میں فساد برپا کرنے والوں جیسا قرار دیدیں یا صاحبان تقویٰ کو فاسق و فاجر افراد جیسا قرار دیدیں“۔

۲۔خداوند متعال حکیم ہے لہٰذا عبث ولغو عمل اس سے صادر نہیں ہوتا ،اس نے انسان کو خلق کیا اور اسے نباتات وحیوانات کے لئے ضروری صفات، مثال کے طور پر دفع وجذب اور شہوت وغضب،کے ساتھ ساتھ ایسی صفات سے مزین کیا کہ جو اسے علمی کمالات ، اخلاقی فضائل اور شائستہ گفتار ورفتار کی جانب دعوت دیتی ہے۔ کمالات تک پہنچنے کے لئے کسی حد پر نہیں ٹھہرتی اور علم وقدرت کے کسی بھی مرتبے تک پہنچنے کے باوجود اگلے مراحل کی پیاس باقی رہتی ہے ۔پھر انبیاء علیھم السلام کو اسی فطرت کی تربیت کے لئے بھیجا تاکہ اسے نامتناہی کمال کی ابتداء کی جانب ہدایت کریں۔اگر انسان کی زندگی اسی دنیا تک محدود ہوتی تو اس فطرت کا وجود اور ہدایت کے لئے انبیاء کی بعثت لغو وعبث قرار پاتی ۔لہٰذا ،حکمت خداوندِ متعال کا تقاضا یہ ہے کہ انسان کی زندگی اسی حیات مادی وحیوانی تک ختم نہ ہو بلکہ اس کمال کو پانے کے لئے جو خلقت کا مقصد ہے آئندہ بھی جاری ہے( ا فََٔحَسِبْتُمْ ا نََّٔمَا خَلَقْنَاکُم عَبَثاً وَّ ا نََّٔکُمْ إِلَيْنَا لاَ تُرْجَعُوْنَ۔( سورہ مومنون، آیت ۱۱۵ )۔”کیا تمہارا خیال یہ تھا کہ ہم نے تمہیں بیکار پیدا کیا ہے اور تم ہماری طرف پلٹا کر نہیں لائے جاو گٔے۔
۳۔فطرت انسانی اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ ہر صاحب حق کواس کا حق اور ظالم کے مقابلے میں ہر مظلوم کو انصاف ملنا چاہیے اور یہی فطرت ہے جو ہر دین ومسلک سے تعلق رکھنے والے انسان کو، عدل وانصاف فراہم کرنے کے لئے، قوا نین اور عدالتیں بنانے پر مجبور کرتی ہے۔
نیز یہ بات بھی واضح وروشن ہے کہ دنیاوی زندگی میں بہت سے ظالم ،مسند عزت واقتدار پر زندگی بسر کرتے ہیں اور مظلوم تازیانوں اور شکنجوں میں سسک سسک کر جان دے دیتے ہیں ۔حکمت ،عدل ،عزت اور رحمت خداوند متعال کا تقاضا یہ ہے کہ ظالموں سے ان مظلوموں کا بدلہ لیا جائے( وَلاَ تَحْسَبَنَّ اللّٰهَ غَافِلاً عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُوْنَ إِنَّمَا يُو خَِّٔرُهُمْ لِيَوْمٍ تَشْخَصُ فِيْهِ اْلا بَْٔصَارُ۔ (سورہ ابراہیم ، آیت ۴۲ ۔)
”اور خبردار خدا کو ظالمین کے اعمال سے غافل نہ سمجھ لینا کہ وہ انہیں اس دن کے لئے مہلت دے رہا ہے جس دن آنکھیں (خوف سے )پتھرا جائیں گی“۔
۴ ۔حکمت خداوند متعال کا تقاضا یہ ہے کہ انسان کی غرضِ خلقت اور مقصد وجود تک رسائی کے لئے ،اسے وسائل فراہم کرے ، جو اسباب سعادت کے حکم اور اسباب شقاوت سے نہی کئے بغیر میسر نہیں۔ اسی طرح انسانی ہویٰ وہوس کے مخالف قوانینِ الٰہی کا اجراء بغیرخوف ورجاء کے ممکن نہیں اور یہ دونوں بشارت وانذار کے بغیر متحقق نہیں ہوسکتے ، اُدھر بشارت وانذار کا لازمہ یہ ہے کہ اس زندگی کے بعد ثواب وعقاب اور نقمت ونعمت ملے ورنہ بشارت وانداز کو جھوٹ ماننا پڑے گا، جب کہ خداوندِ متعال ہر قبیح سے منزہ ہے ۔
دلیل نقلی :
تمام ادیان آسمانی معاد کے معتقد ہیں اور اس اعتقاد کی بنیاد پیغمبرانِ الٰہی کا خبر دینا ہے ۔ ان کا خبر دینا وحی الٰہی سے مستند ہے ، جب کہ عصمت انبیاء علیھم السلام اوروحی کا ہر خطاولغزش سے محفوظ ہونا معاد پر ایمان اور اعتقاد کو ضروری و واجب قرار دیتا ہے ۔
معاد اور حشر ونشر کے منکرین کے پاس پیغمبروں کی اس خبر کے مقابلے میں اسے بعید الوقوع کہنے کے علاوہ کوئی دوسرا بہانہ نہ تھا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہوں ؟بوسیدہ وخاک ہونے کے بعد یہ مردہ و پراگندہ ذرات آپس میں مل کر نئی زندگی کیسے پا سکتے ہیں ؟
جب کہ وہ اس بات سے غافل ہیں کہ بے جان و پراگندہ اجزاء ہی سے تو زندہ موجود ات کو بنایا گیا ہے ۔وہی علم، قدرت اور حکمت جس نے بے جان ومردہ مادّے کو خاص ترکیب اور مخصوص نظام کے ساتھ حیات وزندگی قبول کرنے کی صلاحیت عطا کی ہے اور جو انسان جیسے ان تمام اعضاء
وقوتوں کے مجموعے کو بغیر کسی سابقہ مثال ونمونے کی موجودگی کے بنا سکتا ہے وہ انسان کے مرنے اور منتشر ہونے کے بعد اس کے تمام ذرات کو ،چاہے کہیں بھی ہوں اور کسی بھی حالت میں ہوں،جو اس کے احاطہ علم ونظروں سے اوجھل نہیں،جمع کر سکتا ہے اور جس قدرت کے ساتھ پہلی مرتبہ بغیر کسی مثال ونمونے کے خلق فرمایا تھا دوسری بار نمونے اور سابقہ تجربے کے ہوتے ہوئے جو اور بھی زیادہ آسان ہے، انجام دے سکتا ہے( قَالُوا ا إِذَا مِتْنَا وَکُنَّا تُرَاباً وَّعِظَامًا ا إِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ،( سورہ مومنون ، آیت ۸۲)”کیا اگر ہم مر گئے اور مٹی اور ہڈی ہو گئے تو کیا ہم دوبارہ اٹھائے جانے والے ہیں“۔
( ا ؤََلَيْسَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَاْلا رَْٔضَ بِقَادِرٍ عًلیٰ ا نَْٔ يَّخْلُقَ مِثْلَهُمْ بَلیٰ وَهُوَ الخَلاَّقُ الَعَلِيْمُ ) (سورہ یس ، آیت ۸۱ )
”تو کیا جس نے زمین وآسمان کو پیدا کی ہے وہ اس بات پر قادر نہیں ہے کہ ان کامثل دوبارہ پیدا کردے یقینا ہے اور وہ بہترین پیدا کرنے والا اور جاننے والاہے“۔
وہ قدرت جو سر سبز درختوں سے آگ کو روشن اور خزاں کی موت کے بعد مردہ زمین کو ہر بہار میں زندگی عطا کرتی ہے، اس کے لئے موت کے بعد زندگی عطا کرنا ہر گز مشکل کام نہیں( اَلّذِی جَعَلَ لَکُمْ مِنَ الشَّجَرِ اْلا خَْٔضَرِ نَارًا فَإِذَا ا نَْٔتُمْ مِنْهُ تُوْقِدُوْنَ۔( سورہ یس، آیت ۸۰ )۔
”اس نے تمہارے لئے ہرے درخت سے آگ پیدا کردی ہے تو تم اس سے اور آگ سلگا لیتے ہو“۔
( اِعْلَمُوْا ا نََّٔ اللّٰهَ يُحْیِ اْلا رَْٔضَ بَعْدَ مَوْتِهَا قَدْ بَيَّنَّا لَکُم اْلآيَاتِ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ۔( سورہ حدید ، آیت ۱۷) ۔
”یاد رکھو کہ خدا مردہ زمینوں کا زندہ کرنے والا ہے اور ہم نے تمام نشانیوں کو واضح کر کے بیان کر دیا تاکہ تم عقل سے کام لے سکو“۔
وہ قدرت جو ہر رات، انسان کے ادراک کی مشعل کو نیند کے ذریعے بجھاتی اور اس سے علم واختیار کو سلب کرلیتی ہے ، موت کے ذریعے بجھانے کے بعد بھی اسے دوبارہ ادراک کی روشنی عطا کرنے اور فراموش شدہ معلومات کو پلٹانے پر قادر ہے۔
(لتموتن کما تنامون ولتبعثن کما تستیقظون۔ (یقینا تم موت کے گهاٹ اتروگے جیسے تم سوتے ہو اور دوبارہ زندہ کئے جاو گٔے جیسا کہ تم سوکر دوبارہ جاگتے ہو۔ (بحار الانوارج ۷ ص ۴۷)
کتاب ” اصول دین سے آشنائی” سے اقتباس
مؤلف: آیت اللہ شیخ حسین وحید خراسانی
ناشر: مدرسۃ الامام الباقر العلوم علیہ السلام

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button