خطبات جمعہسلائیڈرمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک (شمارہ:319)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک 5 ستمبر 2025 بمطابق 11 ربیع الاول 1447ھ)
تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

جنوری 2019 میں بزرگ علماء بالخصوص آیۃ اللہ شیخ محسن علی نجفی قدس سرہ کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
موضوع: صحت ایک غنیمت
اما بعد فقد قال رسول اللّٰہ ﷺ: اغْتَنِمْ خَمْسًا قَبْلَ خَمْسٍ: شَبَابَكَ قَبْلَ هَرَمِكَ، وَصِحَّتَكَ قَبْلَ سَقَمِكَ، وَغِنَاكَ قَبْلَ فَقْرِكَ، وَفَرَاغَكَ قَبْلَ شُغْلِكَ، وَحَيَاتَكَ قَبْلَ مَوْتِكَ
اللہ کا شکر ہے کہ آج ایک بار پھر ہمیں جمعہ کے بابرکت دن میں مسجد میں جمع ہونے کی توفیق ملی تاکہ ہم اس کے کلام اور اس کے رسول اکرم (ص) و آئمہ اہل بیت (ع) کے ارشادات سے رہنمائی حاصل کریں۔ ہماری زندگی، اللہ کی عطا کردہ انمول نعمتوں میں سے ایک ہے۔ یہ زندگی مختلف مراحل سے گزرتی ہے؛ بچپن، جوانی، بڑھاپا، اور پھر موت۔ ہم نے اپنے پچھلے خطبے(چہلم سے پہلے والے خطبے) میں جوانی کی اہمیت پر بات کی تھی کہ کیسے یہ عمر کا ایک سنہرا دور ہے جسے غنیمت جاننا چاہیے۔
آج ہم اسی سلسلے کو آگے بڑھائیں گے اور نبی اکرم (ص) کی اس جامع حدیث کے دوسرے حصے پر غور کریں گے جو زندگی کی پانچ قیمتی نعمتوں کو ان کے زوال سے پہلے غنیمت جاننے کی تاکید فرماتی ہے۔ آج ہمارے خطبے کا مرکزی نقطہ صحت کی نعمت اور اسے بیماری سے پہلے غنیمت جاننا ہے:فرمایا
اغْتَنِمْ خَمْسًا قَبْلَ خَمْسٍ: پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو:
شَبَابَكَ قَبْلَ هَرَمِكَ، اپنی جوانی کو بڑھاپے سے پہلے،
وَصِحَّتَكَ قَبْلَ سَقَمِكَ، اپنی صحت کو بیماری سے پہلے،
وَغِنَاكَ قَبْلَ فَقْرِكَ، اپنی خوشحالی کو غربت سے پہلے،
وَفَرَاغَكَ قَبْلَ شُغْلِكَ، اپنی فراغت کو مشغولیت سے پہلے،
وَحَيَاتَكَ قَبْلَ مَوْتِكَ اور اپنی زندگی کو موت سے پہلے۔
(مستدرک الوسائل، جلد 12، صفحہ 172)
اب اس حدیث کے دوسرے اہم ترین جزو، "صحت کو بیماری سے پہلے غنیمت جانو” پر گہرائی سے غور کرتے ہیں۔
صحت: اللہ کی عظیم نعمت
صحت انسان کی سب سے بڑی دولت ہے۔ یہ صرف بیماری کی عدم موجودگی نہیں بلکہ جسمانی، ذہنی اور روحانی فلاح کا مکمل مجموعہ ہے۔ ایک صحت مند شخص ہی اللہ کی عبادت، دنیاوی فرائض اور خدمت خلق کو بخوبی انجام دے سکتا ہے۔ یہ اللہ کی ایک عظیم نعمت ہے جسے اکثر لوگ اس وقت تک نہیں پہچانتے جب تک وہ اس سے محروم نہ ہو جائیں۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے قرآن مجید میں ہمیں اپنے جسمانی اعضاء کی نعمت پر غور کرنے کی دعوت دی ہے، جو صحت کا بنیادی ستون ہیں:
وَاللّٰهُ أَخْرَجَكُم مِّن بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ لَا تَعْلَمُونَ شَيْئًا وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ ۙ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ(سورۃ النحل، آیت 78)
ترجمہ: "اور اللہ نے تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹ سے اس حال میں نکالا کہ تم کچھ نہ جانتے تھے، اور اس نے تمہیں کان، آنکھیں اور دل عطا کیے تاکہ تم شکر ادا کرو۔”
اسی طرح سورۃ السجدہ میں فرمایا:
ثُمَّ سَوَّاهُ وَنَفَخَ فِيهِ مِن رُّوحِهِ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ ۚ قَلِيلًا مَّا تَشْكُرُونَ
(سورۃ السجدہ، آیت 9)
ترجمہ: "پھر اس کو سنوارا اور اس میں اپنی روح پھونکی، اور تمہیں کان، آنکھیں اور دل عطا کیے۔ تم لوگ بہت کم شکر ادا کرتے ہو۔”
یہ آیات ہمیں صحت مند اعضاء کی انمول نعمت پر غور کرنے اور اس پر شکر بجا لانے کی ترغیب دیتی ہیں۔ ہمارے آئمہ اطہار (ع) نے بھی صحت کو ایک قیمتی رزق قرار دیا ہے:
امام علی (ع) نے فرمایا:
العافِيَةُ أهنى النِّعَم (غرر الحكم: ۹۷۳)
ترجمہ: "تندرستی مبارک(بابرکت) ترین نعمت ہے۔”
یعنی صحت صرف ایک اچھی حالت نہیں بلکہ اللہ کی طرف سے عطا کردہ ایک مکمل نعمت ہے۔
ایک اور مقام پہ فرمایا: بِالعافيَةِ تُوجَدُ لَذَّةُ الحَياةِ . (غرر الحكم: ۴۲۰۷)
صحت و عافیت کے ذریعے زندگی کی لذت حاصل ہوتی ہے۔
جس کے پاس صحت نہ ہو یقینا اس کے پاس چاہے دنیا کی ساری دولت ہو پھر بھی وہ اس کا لطف بھی نہیں اٹھا سکتا۔ پس صحت ہی بہت بڑی نعمت اور بہت بڑی دولت ہے۔
لیکن افسوس! ہمارے پیارے نبی (ص) نے خبردار فرمایا کہ بہت سے لوگ اس نعمت کی قدر نہیں کرتے:
نِعْمَتَانِ مَغْبُونٌ فِيهِمَا كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ: الصِّحَّةُ وَالْفَرَاغُ۔
ترجمہ: "دو نعمتیں ایسی ہیں جن میں بہت سے لوگ خسارے میں ہیں: صحت اور فراغت۔”
یہ حدیث ہمیں متنبہ کرتی ہے کہ ہم ان قیمتی نعمتوں کو لاپرواہی سے ضائع نہ کریں، ورنہ خسارے میں رہ سکتے ہیں۔
بیماری: آزمائش اور صحت کی قدر کا احساس
صحت کی قدر کا صحیح اندازہ تب ہوتا ہے جب انسان بیمار پڑتا ہے۔ بیماری انسان کی زندگی کا ایک حصہ ہے، یہ اللہ کی طرف سے ایک آزمائش ہو سکتی ہے، ہمارے گناہوں کا کفارہ ہو سکتی ہے، یا ہمارے درجات کی بلندی کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ لیکن یہ ہمیں صحت کی اہمیت کا شدید احساس دلاتی ہے۔
صحت ایسی نعمت ہے کہ جب موجود ہوتی ہے تو اس کی قدر نہیں کی جاتی لیکن جب چلی جاتی ہے تو تب اس کی حقیقی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ جیسے امام جعفر صادق علیہ السلام کا فرمان عالی شان ہے:
العافِيَةُ نِعمَةٌ خَفِيَّةٌ، إذا وُجِدَت نُسِيَت، وإذا فُقِدَت ذُكِرَت۔ (الفقيه: ۴ / ۴۰۶ / ۵۸۷۸)
"صحت و سلامتی ایک مخفی نعمت ہے۔ جب موجود ہوتی ہے تو بھولی رہتی ہے اور جب معدوم ہوتی ہے تو اُسے یاد کیا جاتا ہے۔”
بیماری کے نقصانات بے شمار ہیں۔ جب کوئی شخص بیمار ہوتا ہے تو
• اسے عبادات میں رکاوٹ کا سامنا ہوتا ہے؛
• نماز، روزہ، حج اور دیگر عبادات کی ادائیگی میں دشواری پیش آتی ہے۔
• وہ دنیاوی کاموں اور فرائض کو بھی بخوبی انجام نہیں دے سکتا۔
• بعض اوقات بیماری کی وجہ سے وہ دوسروں پر بوجھ بن جاتا ہے۔
• بیماری سے نہ صرف جسمانی تکلیف ہوتی ہے بلکہ مالی اور ذہنی پریشانی بھی بڑھ جاتی ہے۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ہمیں آزمائشوں کے بارے میں خبردار کیا ہے، جن میں بیماری بھی شامل ہے:
وَلَنَبْلُوَنَّكُم بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ ۗ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ
(سورۃ البقرۃ، آیت 155)
ترجمہ: "اور ہم تمہیں ضرور آزمائیں گے کچھ خوف، کچھ بھوک، اور مالوں، جانوں اور پھلوں کی کمی سے۔ اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دو۔”
جان کی آزمائش میں صحت کی کمی اور بیماری بھی شامل ہے۔ بیماری کی حالت میں اللہ سے رجوع اور اس کی رحمت پر بھروسہ کرنا ہی مومن کا شیوہ ہے۔ انبیاء کرام (ع) کی سیرت میں ہمیں اس کی بہترین مثال ملتی ہے۔ حضرت ایوب (ع) کو جب شدید تکلیف پہنچی تو انہوں نے اللہ کو پکارا:
وَأَيُّوبَ إِذْ نَادَىٰ رَبَّهُ أَنِّي مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَأَنتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ(سورۃ الانبیاء، آیت 83)
ترجمہ: "اور ایوب کو (یاد کرو) جب انہوں نے اپنے رب کو پکارا کہ مجھے تکلیف پہنچی ہے اور تو سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔”
یہ دعا بیماری کی حالت میں اللہ پر توکل اور اس کی رحمت پر بھروسے کی بہترین مثال ہے۔
ہمیں صحت مند رہتے ہوئے ہی نیک اعمال میں سبقت لینی چاہیے، کیونکہ بیماری میں موقع ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔ نبی اکرم (ص) نے فرمایا:
مَن قَدَرَ على أَن يَفعَلَ خَيراً فَلْيَفعَلْهُ، فإنَّ المُؤمِنَ لا يَعلَمُ متى يَأتيهِ الموتُ
ترجمہ: "جو شخص بھلائی کرنے کی طاقت رکھتا ہو اسے چاہیے کہ وہ کرے، کیونکہ مومن نہیں جانتا کہ اسے موت کب آ جائے گی۔”(الخصال، شیخ صدوق، صفحہ 295)
اور امام علی (ع) نے فرمایا:
أغْفَلُ النّاسِ مَن لم يَتَّعِظْ بتَغَيُّرِ أحوالِهِ(غرر الحکم و درر الکلم، حدیث 2603)
ترجمہ: "لوگوں میں سب سے غافل وہ ہے جو اپنے حالات کے بدلنے سے نصیحت حاصل نہ کرے۔”
بیماری ہماری حالت میں ایک ایسی تبدیلی ہے جو ہمیں صحت کی قدر سکھاتی ہے اور غفلت سے بیدار کرتی ہے۔
واقعہ:
حضرت رسالت مآب ص ایک مریض کے پاس تشریف لے گئے اور اس سے پوچھا: تجھے کیا ہوا؟۔
اُس نے کہا: آپ ص نے ہمیں مغرب کی نماز پڑھائی اور اس میں -سورہ قارعہ- کی تلاوت کی(اس سورت میں قیامت کی ہولناکیوں کا ذکر ہے) تو میں نے کہا: -خداوندا! اگر تیرے نزدیک میرا کوئی ایسا گناہ ہے جس پر تو آخرت میں سزا دینا چاہتا ہے تو یہ سزا (آخرت میں دینے کی بجائے جلد ہی دنیا میں دے دے، پس میری یہ حالت ہوگئی ہے جسے آپ ملاحظہ فرمارہے ہیں۔
آنحضرت ص نے فرمایا: -تم نے بہت غلط بات کہی ہے۔ یوں کیوں نہی کہا:
رَبَّنا آتِنا في الدّنيا حَسَنَةً وفي الآخِرَةِ حَسَنَةً وقِنا عَذابَ النّارِ!۔
ترجمہ: اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھی نیکی عطا فرما اور آخرت میں بھی۔ اور ہمیں جہنم کے عذاب سے بچا۔
چنانچہ آپ ص نے اس کے لیے یہی دعا مانگی اور وہ ٹھیک ہوگیا۔
اس واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں اپنے رب سے اپنے گناہوں کی سزا نہیں مانگنی چاہیے بلکہ گناہوں پر دنیا و آخرت میں معافی مانگنی چاہیے اور دنیا میں عافیت و سلامتی کی دعا کرنی چاہیے ناکہ مصیبت و بیماری کی۔
صحت سے متعلق ایک مومن کا لائحہ عمل
صحت کو غنیمت جاننے کا مطلب کیا ہے؟ اس کا مطلب ہے کہ ہم اپنی صحت کو اللہ کی رضا کے حصول، اپنی دنیا و آخرت کی بہتری اور معاشرے کی فلاح کے لیے استعمال کریں۔ یہ صرف زبانی شکر نہیں بلکہ عملی اقدامات کا تقاضا کرتا ہے۔ چند عملی اقدامات یہ ہیں:
* صحت مند طرز زندگی (جسمانی صحت):
* حلال اور پاکیزہ غذا:
ہمیں اللہ کے حکم کے مطابق حلال اور پاکیزہ غذا کھانی چاہیے، کیونکہ صحت مند جسم کی بنیاد یہی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: "يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلَالًا طَيِّبًا”
اے لوگو! زمین میں سے حلال اور پاکیزہ چیزیں کھاؤ۔ (سورۃ البقرۃ، آیت 168)
* ورزش اور فعال رہنا:
اسلامی تعلیمات میں جسمانی سرگرمیوں جیسے تیراکی، گھڑ سواری اور تیر اندازی کی ترغیب دی گئی ہے جو جسم کو مضبوط اور چست رکھتی ہیں۔یہ اُس زمانے کے حساب سے ہیں۔ آج کل کے زمانے کے اعتبار سے اگر یہ چیزیں دستیاب نہ ہوں تو انسان کم از کم روزانہ کی مناسب واک(چہل قدمی ) بھی جاری رکھے تو یہ صحت کے لیے بہترین ہے۔
* محنت، مشقت اور مزدوری:
یہاں ایک بہت اہم نکتہ قابل غور ہے۔ ہمارے معاشرے میں بہت سے لوگ جو محنت، مزدوری اور مشقت کا کام کرتے ہیں، وہ درحقیقت دوہرا فائدہ حاصل کر رہے ہوتے ہیں:
* پہلا فائدہ:
وہ حلال رزق کما رہے ہوتے ہیں، اور حلال کمائی اسلام میں ایک عظیم عبادت ہے۔ روایت میں ہے کہ: "سب سے بہترین کمائی وہ ہے جو آدمی اپنے ہاتھ کی محنت سے کمائے۔”
* دوسرا فائدہ:
ان کی جسمانی مشقت انہیں تندرست اور چست رکھتی ہے۔ یہ وہی جسمانی حرکت اور ورزش ہے جسے پانے کے لیے آج کے امیر لوگ وقت اور پیسہ خرچ کر کے جِم (Gym) )میں جاتے ہیں یا مہنگی ورزش کی مشینیں خریدتے ہیں۔ لہٰذا، جو لوگ اپنی روزی روٹی کے لیے محنت کرتے ہیں، وہ غیر ارادی طور پر اللہ کی دی ہوئی صحت کی نعمت کا شکر عملی ورزش کے ذریعے بھی ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ ایک زندہ مثال ہے کہ کس طرح دین اور دنیا ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔
* صفائی ستھرائی:
طہارت و نظافت اسلام کا لازمی حصہ ہے، جو جسمانی صحت کے لیے بھی انتہائی ضروری ہے۔ نبی اکرم (ص) کا فرمان ہے:
"الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ”
پاکیزگی ایمان کا حصہ ہے۔
لہٰذا صحت مند رہنے کے لیے روزنہ نہانے کو معمول بنانا چاہیے۔ اسلام نے مختلف مواقع پر غسل کرنے کی ترغیب دی ہے جیسے جمعہ کے دن غسل کی بہت زیادہ تاکید ہے چاہے پانی ادھار لینا پڑے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام جسمانی صفائی کو کتنی اہمیت دیتا ہے۔ اسی طرح مومن کے چاہیے کہ کام کے اوقات کے علاوہ صاف ستھرا لباس پہنے۔
* مناسب آرام:
جسم کو توانائی بحال کرنے اور صحت برقرار رکھنے کے لیے مناسب اور معیاری نیند بھی ضروری ہے۔آج موبائل کا دور ہے اور اکثر لوگ رات کو دیر تک موبائل دیکھتے رہتے ہیں جوکہ ناصرف آنکھوں کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ انسان کی نیند میں بھی خلل ڈالتا ہے جبکہ ماہرین کے مطابق رات کو سونے سے دو گھنٹے قبل موبائل دیکھنا بند کر دینا چاہیے تاکہ نیند پوری ہو اور دماغ کو سکون کا وقت مل سکے۔

* اللہ کی عبادت میں استعمال (روحانی صحت):
صحت مند رہتے ہوئے نماز، روزہ، حج، عمرہ، تلاوت قرآن، اور ذکر و اذکار کا کثرت سے اہتمام کریں۔ مسجد میں حاضری اور نماز باجماعت کی پابندی کرنا ایک صحت مند جسم کے لیے زیادہ آسان ہے۔ امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا:
” تَمَامُ الصَّلَاةِ رُكُوعُهَا وَ سُجُودُهَا وَ إِقَامَتُهَا” (وسائل الشیعہ، جلد 4، صفحہ 716)
نماز کی مکملیت اس کے رکوع، سجدے اور اس کے قیام میں ہے۔
صحت مند جسم ان ارکان کو بہترین طریقے سے ادا کر سکتا ہے۔
* خدمت خلق (معاشرتی صحت):
اپنی جسمانی توانائی کو لوگوں کی مدد، معاشرتی بھلائی کے کاموں اور دین کی تبلیغ میں استعمال کرنا چاہیے۔اسی طرح اسی صحت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اللہ کے گھر یعنی مسجد کی اور اپنے گھر، بیٹھک اور گلی محلے کی صفائی ستھرائی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے۔ یہ ناصرف ثواب کا کام ہے بلکہ اپنی صحت و توانائی کا بہترین استعمال بھی ہے۔ نبی اکرم (ص) کا فرمان ہے:
” خَيْرُ النَّاسِ أَنْفَعُهُمْ لِلنَّاسِ”
لوگوں میں سب سے بہترین وہ ہے جو لوگوں کے لیے سب سے زیادہ نفع بخش ہو۔ (تحف العقول، صفحہ 49)
ظاہر ہے کہ صحت اس نفع رسانی کی بنیادی شرط ہے۔ بیمار کی عیادت، کمزور کی مدد، یہ سب صحت مند رہتے ہوئے زیادہ بہتر طریقے سے ادا کیا جا سکتا ہے۔
* علم کا حصول:
صحت مند دماغ اور جسم کے ساتھ علم حاصل کرنا زیادہ آسان ہوتا ہے۔ علم دین اور دنیا دونوں کے لیے صحت ضروری ہے۔ امام علی (ع) نے فرمایا:
"اَلْعِلْمُ صَاحِبٌ سَمِيٌّ”
علم بہترین ساتھی ہے۔ (غرر الحکم و درر الکلم، حدیث 1378)
اس بہترین ساتھی سے استفادہ کے لیے صحت بھی ایک معاون ہے۔
صحت کی قدر نہ کرنے کے نتائج اور عبرت
پس اگر ہم صحت جیسی عظیم نعمت کی قدر نہیں کرتے اور اسے غلط راستوں میں یا غفلت میں ضائع کرتے ہیں تو اس کے دنیاوی اور اخروی دونوں طرح کے نقصانات ہیں۔
دنیاوی نقصان بیماریوں کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے جو ہمارے کاموں میں رکاوٹ، مالی نقصان، اور جسمانی اذیت کا باعث بنتی ہے۔
اخروی نقصان یہ ہے کہ ہم نیک اعمال کمانے کے مواقع گنوا دیتے ہیں، غفلت کی وجہ سے آخرت کی تیاری میں کمی آتی ہے، اور ممکنہ طور پر اللہ کی ناشکری کا وبال بھی برداشت کرنا پڑتا ہے۔ صحت ایسی نعمت ہے جس کا شکر ادا نہ کرنے کی صورت میں زوال کا سامنا ہو سکتا ہے۔ ہمیں ہر بیماری کو ایک سبق کے طور پر لینا چاہیے کہ صحت کتنی بڑی نعمت تھی۔

اختتامیہ
صحت اللہ کی ایک عظیم امانت ہے، ہمیں اس کی حفاظت کرنی چاہیے اور اسے نیکی کے راستوں میں استعمال کرنا چاہیے۔ یہ نعمت ہر حال میں شکر اور ذمہ داری کا تقاضا کرتی ہے۔
• نوجوانوں سے میرا پیغام ہے کہ اپنی جوانی کی صحت کو غنیمت جانیں، اسے گناہوں میں ضائع نہ کریں بلکہ اللہ کی بندگی اور انسانیت کی خدمت میں لگائیں۔ یہ صحت آپ کے لیے آخرت کا زاد راہ بن سکتی ہے۔
• بزرگوں سے بھی گزارش ہے کہ اگرچہ صحت کم ہو چکی ہے، پھر بھی صبر و شکر کریں اور اللہ کی رضا پر راضی رہیں۔ جوانی میں کی گئی نیکیوں پر فخر کریں اور باقی زندگی کو بھی اللہ کی یاد میں گزاریں، اور اپنی دعاؤں اور تجربات سے نوجوان نسل کے لیے رہنمائی کا ذریعہ بنیں۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں صحت و تندرستی کی نعمت کی قدر کرنے، اسے اپنی رضا کے مطابق استعمال کرنے اور دنیا و آخرت میں کامیابی عطا فرمائے۔آمین

اللّٰهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وآلِ مُحَمَّدٍ وعَجِّلْ فَرَجَهُمْ
٭٭٭٭٭

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button