سلائیڈرسیرتسیرت امام مھدیؑ

ظہور حضرت حجت(عج) کے دوران قتل عام کی حقیقت

تحریر: مولانا محمد حسین چمن آبادی
خدا کے آخری وصی کی حکومت میں سارے کام معجزاتی طور پر نہیں ہوگا، لہٰذا حکومت الہٰی کے قیام کی راہ میں رکاوٹوں اور موانع کو رفع کرنے کے لئے بعض ایسے اقدامات اٹھانے پڑیں گے، اسی وجہ سے اس مسئلے کو دو زاویوں، افراط اور تفریط کا سامنا ہے ۔
یہ مختصر تحریر اس قضیہ کے سوالات کا جائزہ لیتے ہوئے، قتل و غارت کے حوالے سے روایات کی تنقیدی جانچ پڑتال پر زور دے گی تاکہ افراط و تفریط پر مبنی نظریات کو واضح کیا جا سکے۔
بعض لوگ ظہور کے وقت قتل و غارت کے بارے میں افراط سے کام لیتے ہیں اور امام زمان (علیہ السلام) اور ان کے اصحاب کا خطرناک اور کریہہ چہرہ دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں۔یہ لوگ ایسی روایات نقل کرتے ہیں جن میں دو تہائی لوگوں کے مارے جانے،(ہر نو میں سے سات، ہر سات میں سے پانچ) یا یہ کہ زیادہ تر لوگ قتل ہوں گے،اور مقتولین کے ڈھیر لگیں گے اور خون کی ندی بہے گی وغیرہ کا ذکر ہے۔
دوسری طرف، کچھ لوگ تفریط کرتے ہیں اور کہتے ہیں امام زمان(ع) کے ظہور کے وقت محجمہ (حجامت کے برتن میں خون کی مقدار) کے برابر بھی خون ریزی نہیں ہوگی وغیرہ۔
اس تحریر میں ہم متعلقہ احادیث کی تنقیدی جائزہ لیں گے تاکہ موجودہ افراط و تفریط کے نظریات کی وضاحت کی جا سکے۔
جوروایات وسیع پیمانے پر قتل عام کا ذکر کرتی ہیں، دراصل دو قسم کی ہیں:
(الف) ایک قسم وہ ہے جو ظہور سے پہلے کے فتن و ملاحم سے متعلق ہے اور ظہور کے دور سے کوئی تعلق نہیں رکھتی بلکہ صرف ظہور سے پہلے کی افراتفری کی صورت حال پر ناظر ہے۔ان روایات میں سے اکثر مرسلہ ہیں۔ اگر کچھ ان میں سے معتبر بھی ہوں، تو موضوع سے متعلق نہیں ہیں یعنی امام زمان (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) کے دور میں نہیں ہیں۔
(ب) دوسری قسم کی احادیث وہ ہیں جو ظہور اور امام زمان (عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) کی حکومت سے متعلق ہیں۔اس قسم کی روایات بھی دو نوعیت کی ہیں:
1۔روایات جو عامہ(اہل سنت) کے ذریعے نقل ہوئی ہیں،ان میں سے زیادہ تر سند کے لحاظ سے ضعیف ہیں،ان میں سے بعض مرسلہ ہیں تو بعض کی سند پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک نہیں پہنچتی بلکہ کعب الاحبار جیسے لوگوں سے نقل کی گئی ہیں۔ان میں سے زیادہ تر روایات اسرائیلیات میں سے ہیں جو مختلف مقاصد کے تحت روائی کتب میں شامل کی گئی ہیں۔ اہل تسنن کے علماء جیسے ابن کثیر جب کعب الاحبار کی روایات تک پہنچتے ہیں تو کہتے ہیں:
"خدا ہمیں ان تمام جھوٹی خبروں سے بے نیاز کرے جو تفسیر اور روائی کتابوں میں شامل کی گئی ہیں”۔
2۔ وہ روایات جو اہل بیت (علیہم السلام) کی طرف سے نقل کی گئی ہیں یا شیعہ کتابوں میں ذکر کی گئی ہیں ان کی سند اہل بیت (علیہم السلام) تک نہیں پہنچتی ہیں جیسے معمرین کی احادیث جو شیخ صدوقؒ نے کتاب کمال دین میں اہل تسنن سے نقل کی ہیں۔
ظہور کے وقت قتل کے بارے میں افراط پر مبنی نظریہ
کچھ روایات خون ریزی کے بارے میں، ظہور سے پہلے کے دور سے متعلق ہیں اور کچھ دیگر روایات مجعولات اور اسرائیلیات پر مشتمل ہیں جو مختلف مقاصد کے تحت کتابوں میں داخل کی گئی ہیں جیسے عالمی تحریک اور حضرت مہدی (ع) کی حکومت کا چہرہ خراب کرنا  یا فتوحات میں ہونے والے قتل عام کی توجیہ کرنا۔
اسی طرح کچھ روایات مرسلہ اور مرفوعہ ہیں اور ان میں سند کا مسئلہ ہے۔
صحیح روایات کے مطابق، جنگ اور خون ریزی، سزائیں اور ظالموں سے انتقام کو عصر ظہور میں ہم قبول کرتے ہیں لیکن اس حد تک نہیں کہ لوگوں کا قتل عام ہوگا،خون کی ندی بہے گی وغیرہ۔
اہل بیت (علیہم السلام) سے روایات موجود ہیں جن میں قتل کے اعداد و شمار اور مقتولین کی انفرادی اور گروہی خصوصیات بیان کی گئی ہیں۔
پہلی حدیث
کتاب غیبت نعمانی صفحہ ۲۳۴ پر ایک روایت ہے جسے علامہ مجلسی نے کتاب بحار الانوار میں نقل کیا ہے۔ اس روایت میں جو ابی‌حمزہ ثمالی نے امام باقر علیہ السلام سے نقل کیا ہے: "مہدی کا کام سوائے قتل کرنے کے کچھ اور نہیں اور وہ کسی کی توبہ قبول نہیں کرتا۔”
نقد روایت
اس روایت کی سند میں احمد بن محمد بن سعید، جو زیدی جارودی ہیں، اس کے علاوہ حسن بن علی بن ابی‌حمزہ بطائنی ہے جو محمد بن مسعود سے نقل کرتے ہوئے علی بن حسن بن فضّال کا ذکر کرتا ہے جبکہ وہ کذّاب اور مطعون ہے اور دوسرے لوگ بھی اس پر لعنت اور رد کر چکے ہیں نیز یوسف بن کلیب بھی مجہول ہے۔
دوسری حدیث
دوسری روایت بحار الانوار ج ۵۲، صفحہ ۳۵۳ میں ہے اور اس کا مضمون امام زمانہ عجل‌اللہ  تعالی‌ٰفرجہ الشریف کا قتل پر مأمور ہونا ہے۔
نقد روایت
اس روایت کی سند میں محمد بن علی کوفی جو ابوسمینہ کے نام سے مشہور ہے، کی وجہ سے ضعیف ہے۔ جامع الرواۃ کے مطابق، نجاشی نے اسے ضعیف اور فاسدالعقیدہ قرار دیا ہے۔ نجاشی نے یہ بھی کہا ہے کہ قمیوں نے کمزور عقیدہ اور غلو کی وجہ سے اسے قم سے نکال دیا تھا۔
تیسری حدیث
ابی‌الجارود کی امام باقر علیہ‌السلام سے روایت ہے جسے علامہ مجلسی نے بحارالانوار ج ۵۲، صفحہ ۲۹۱ ذکر کیا ہے۔امام عجل‌اللہ تعالی‌ٰفرجہ ‌الشریف اتنے لوگوں کو ماریں گے کہ دین محمدؐ کے علاوہ کچھ باقی نہیں رہے گا۔
نقد روایت
اس روایت کی سند میں ابی‌الجارود ہے جس کے بارے میں کہا گیا کہ اس کا نام زیاد بن منذر ہے: "جس کی مذمت بیان ہوئی ہے”
چوتھی حدیث
بشیر نبال کی امام باقر علیہ‌السلام سے روایت ہے:
"امام زمان (ع) ان لوگوں کو اس طرح قتل کریں گے جیسے قصاب گائے کو ذبح کرتا ہے”
نقد روایت
یہ حدیث بھی بحار الانوار ج ۵۲، صفحہ ۳۵۷ میں موجود ہے، یہ روایت مرجئہ کے بارے میں ہے اور علی بن حسن تیملی مجہول ہے، اسی طرح موسی بن بکر اور بشیر النبال، جن کی توثیق نہیں ہوئی، کی وجہ سے روایت ضعیف ہے۔
پانچویں حدیث
بحار الانوار ج ۵۲، صفحہ ۳۵۳ میں ایک روایت نقل ہوئی ہے جس میں امام زمان (ع) جنگی زخمیوں اور بھاگنے والوں کو قتل کریں گے۔
نقد روایت
محمد بن علی کوفی روایت کی سند میں ہے جس کی وجہ سے حدیث ضعیف ہے۔
چھٹی حدیث
بحار الانوار، ج ۵۲، صفحہ ۳۱۳ میں ایک روایت نقل ہوئی ہے کہ مہدی عجل‌ اللہ تعالیٰ‌ٰفرجہ الشریف ان لوگوں کے نسلوں کو جو امام حسین علیہ‌السلام کو قتل کرنے پر راضی تھا، قتل کریں گے۔
نقد روایت
اس روایت کی سند منقطع ہے۔ اس میں کچھ ایسے افراد شامل ہیں جن کی شناخت نہیں ہوئی ہے اور مجہول ہے۔
ساتویں حدیث
بحار الانوار ج ۵۲، صفحہ ۳۸۹ میں ایک روایت ہے امام عصر (ع) بنی امیہ کے کچھ افراد، روم کے مردوں کو قتل اور عورتوں کے پیٹ چاک کریں گے۔
نقد روایت
یہ روایت سند کے اعتبار سےضعیف ہونے کے علاوہ اس کے متن میں شدید اضطراب پایا جاتا ہے۔
مذکورہ احادیث ضعیف ہونے کے ساتھ بعض دیگر روایات اور آیات کے ساتھ منافات بھی رکھتی ہیں۔
مذکورہ روایات کا مضمون قرآن کی آیات جیسے "لا اکراہ فی الدین” کے ساتھ تضاد رکھتا ہے کیونکہ جابر کی امام باقر علیہ‌السلام سے ایک روایت نقل کی گئی ہے جو مذکورہ روایت کے ساتھ متعارض ہے۔ امامؑ ایک مقام پر فرماتے ہیں:
امام مہدی (ع) اہل تورات کے ساتھ تورات کے مطابق فیصلہ کرے گا،اہل انجیل کے ساتھ انجیل، اہل زبور کے ساتھ زبور اور اہل قرآن کے ساتھ قرآن کے مطابق فیصلہ کریں گے لہٰذایہ روایت زبردستی اسلام ٹھونسنے اور امام المنتظر (ع)کی حکومت کے سایے میں دیگر ادیان کی آزادی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
امام زمان (ع)کا سیرت و اخلاق میں رسول خدا صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مشابہ ہونا
قرآن کریم کی تصریح کے مطابق رسول اکرم صلی‌اللہ علیہ وآلہ رحمت للعالمین ہیں، تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ان کا آخری خلیفہ اور جانشین دنیا کے لیے رحمت کی بجائے عذاب اور رنج و مشقت کا باعث بن جائے؟ ایسی کئی روایات موجود ہیں جو حضرت کی صفات اور عملی سیرت کو بیان کرتی ہیں اور ان کو کئی پہلوؤں سے رسول اکرم (ص) کی مانند قرار دیتی ہیں، جو کہ مذکورہ روایات کے خلاف ہے۔
امام رضا(ع) کی روایت
امام رضا علیہ‌السلام امام زمان عجل‌اللہ تعالی‌ٰفرجہ ‌الشریف کی شخصیت کی توصیف میں فرماتے ہیں:
"وہ سب سے زیادہ علم رکھنے والے، صبر کرنے والے، متقی، سخاوت مند، شجاع اور عابد ہیں”۔
ایسی روایات بھی ہیں جو امام زمان عجل‌اللہ ‌تعالی‌ٰفرجہ ‌الشریف کے سلوک کو رسول اللہ کی سنت اور قسط و عدل کے کے مطابق قرار دیتی ہیں، اسی طرح تمام انسان اور دیگر مخلوقات اس کے زیر سایہ امن و آسائش میں رہیں گے۔
حضرت مہدی(ع) کی یہ تحریک رسول اللہ  کی نبوت کا تسلسل ہے جو کہ ان کی سنت اور سیرت کی بنیاد پر چلے گی نہ کہ انسانوں کو قتل اور نابود کریں گےبلکہ یہ قیام دین حق کی طرف دعوت اور عدل وقسط کے قیام کا مشن ہے۔حضرت حجت (ع) کی حکومت بھی اعلیٰ ترین خدائی اور انسانی کرامت کی بنیاد پر عمل پیرا ہوگی۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امام زمان(ع) کے بارے میں فرماتے ہیں:
"ان کی سیرت، میری سیرت اور میری سنت ان کی سنت ہوگی۔”
پیغمبر اکرم صلی‌اللہ علیہ وآلہ  کی سیرت جس پر شیعہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ امام زمان(ع) بھی اسی سیرت کے مطابق عمل کریں گے، جنگ میں مجروحین اور فراریوں سے تعرض نہیں کریں گے۔ کچھ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مہدی(ع) بھی اسی طرز عمل کو اپنائیں گے۔امام صادق علیہ‌السلام سے نقل ہوا ہے کہ امام مہدی(ع) سفیانی کے ساتھ جنگ کے دوران جب دشمن کی فوج شکست کھا جاتی ہے تو امام حکم دیتے ہیں کہ کسی بھی فراری کا تعقیب نہ کیا جائے اور نہ ہی کسی مجروح کو قتل کیا جائے۔
خلاصہ
امام زمان عجل اللہ فرجہ الشریف کی عالمی سطح کی عدل و انصاف سے بھری عظیم حکومت کے حسن و زیبائی کو دھندلا کر کے اپنے سیاہ کرتوتوں، جرائم، ظلم و ستم کے اوپر پردہ ڈالنے کے لیے مختلف زمانوں کے بادشاہوں، حکمرانوں اور امیروں نے کرایے کے محدثین، مورخین، مفسرین کے ذریعے سے اسلامی کتب میں جعلی احادیث اور اسرائیلیات داخل کر دی گئی ہیں تاکہ لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات مستحکم ہوجائے کہ رسول اکرم (ص) کے آخری جانشین کے ہاتھ عام لوگوں کے خون سے رنگین ہوسکتے ہیں اور ان کی حکومت میں خون کی ندی بہہ سکتی ہے تو باقی حکمرانوں سے خیر کا توقع رکھنا ہی بے جا ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ بعض شیعہ حضرات بھی بنو امیہ و بنو عباس کی روایات جعل کرنے والی فیکٹریوں سے نقل ہونے والی بے بنیاد باتوں عقیدہ رکھتے ہیں۔

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button