خطبات جمعہمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک(شمارہ:184)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک13 جنوری 2023ء بمطابق 20جمادی الثانی 1444 ھ)
تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

جنوری 2019 میں بزرگ علماء کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے ۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

 

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
موضوع: ولادت باسعادت سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا
سیدہ فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیھا کی ولادت باسعادت 20 جمادی الثانی کو ہوئی۔
گزشتہ ایام فاطمہؑ کے دوران سیدہ کی زندگی کے بارے میں مختلف معلومات بھیجی جا چکی ہیں ان کی طرف بھی رجوع کیا جا سکتا ہے۔
اسلامی اعتبار سے انسان کی شخصیت و عظمت دو طریقہ سے بنتی ہے ایک نسب کے ذریعہ، دوسرے ذاتی کمالات و فضائل کے ذریعہ انسان درجہ کمال تک پہنچتا ہے ۔
حسب و نسب کی عظمت و فضیلت:
نسبی شخصیت، عظمت اور فضیلت کو اسلام نے تسلیم کیا ہے کہ اس میں مختلف عوامل و اسباب مؤثر ہوتے ہیں: موروثی سبب، جائز طریقہ سے غذا کا استعمال، ماحول کی تاثیر، ہمسر یعنی زوجہ و شوہر کی تاثیر اور نیک و صالح اولاد وغیره انسانت کی شخصیت سازی میں اہم نقش اور کردار ادا کرتے ہیں ۔ حضرت زہرا سلام الله علیھا کو موروثی قانون کی نظر سے دیکھا جائے تو خاتم الانبیاء حضرت رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم جیسے خلق عظیم کے مالک آپ ؑکے والد ماجد ہیں۔
آپ ؑکی والده ماجده حضرت خدیجہ کبریٰ سلام اللہ علیھا جیسی عظیم خاتون ہیں جن کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ اسلام اس بزرگ ہستی کا مرہون منّت ہے، ایسی ماں جنہوں نے شعب ابی طالب میں بائیکاٹ کئے گئے محصور مسلمانوں کے تین سال تک اخراجات کی ذمہ داری سنبھالی اور اپنے تمام مال و دولت کو اس راه میں خرچ کیا، وه ماں جنہوں نے کئی سال تک مکہ میں کمر شکن مصیبتوں اور سختیوں کو برداشت کیا، اور پیغمبر اکرم صلی الله علیہ و آلہ وسلم کے شانہ بہ شانہ ره کر اسلام کی مدد کی، پیغمبر اکرم صلی الله علیہ و آلہ وسلم کی ہمراہی کی بناپر آپ کے جسم مبارک پر پتھر مارے گئے، بے احترامی کی گئی، برا بھلا کہا گیا اور جیسے جیسے یہ اتفاقات اور مشکلیں بڑھتی رہیں آپؑ کے صبر و استقامت میں اضافہ ہوتا چلا گیا ۔
قانون غذا کی تاثیر کے لحاظ سے دیکھا جائے تو مؤرخین نے لکھا ہے: جب پروردگار عالم نے حضرت فاطمہ زہرا سلام الله علیھا کی خلقت کا ارادہ کیا، تو پیغمبر اکرم صلی الله علیہ و آلہ وسلم کو حکم دیا کہ چالیس شب و روز غار حرا میں دینی عبادت میں مصروف رہیں۔(بحار الانوار، ج 6، بيت الاحزان محدث قمي (ره)، ص ۵)
حضرت خدیجہ سلام اللہ علیھابھی اپنے گھر میں ره کر عبادتِ خدا میں مشغول رہیں اور لوگوں سے ملنا جلنا چھوڑ دیا تھا۔
ماحول کی تاثیر کے لحاظ سے دیکھا جائے تو حضرت زہرا سلام الله علیھا نے فداکار، عفو درگزر اور ثابت قدم رہنے والی ماں کے دامن اور پیغمبر اکرم صلی الله علیہ و آله وسلم جیسے والد ماجد کی آغوش میں تربیت و پرورش پائی ،اس کے علاوه آپ کی زندگی بڑے پُرآشوب حالات، سختیوں اور مصائب میں گھری ہوئی تھی ۔ حضرت صدیقہ سلام الله علیھا نے شعب ابی طالب ؑمیں ان حوادث و مصائب میں بھی زندگی بسر کی ہے جن کے بارے میں حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام نے نہج البلاغہ میں معاویہ کے لئے بیان کیا ہے:
"تم لوگوں نے ہمیں تین سال تک آفتاب کی دھوپ میں محصور و مقیّد رکھا تھا، اس طرح کہ ہمارے بچے بھوک اور پیاس کی وجہ سے انتقال کرگئے ہمارے بزرگ درخت کے پوست پر زندگی بسر کررہے تھے، بچوں اور عورتوں کے آه و نالہ اور فریاد کی آوازیں بلند تھیں۔۔۔” واضح و روشن ہے کہ جس بچی کی پرورش ایسے ماحول میں ہوئی ہو، خاص طور سے اگر اس کی تربیت کرنے والے
رسول اکرم صلی الله علیہ و آله وسلم ہوں تو اس میں پائیداری، ثابت قدمی، استقامت، صبر و حوصلہ اور وسعت صدر بطور اتم و کامل موجود ہوگا ۔
حضرت فاطمہ سلام الله علیھا شوہر اور اولاد صالح کے اعتبار سے بھی بڑی عظیم اور مافوق شخصیت کی مالک ہیں، آپ ؑکے شوہر حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام ہیں کہ جن کے بارے میں قرآن کریم کی کئی آیتیں نازل ہوئی ہیں ۔
( نور الابصار میں، ص 73)
آپ کی اولاد میں امام حسنؑ،امام حسینؑ،سیدہ زینب ؑو ام کلثوم علیھم السلام ہیں کہ اگر یہ ذوات مقدّسہ نہ ہوتیں تو اسلام مٹ جاتا اور امام حسین علیہ السلام کے فرمان کے مطابق "و علیٰ الاسلام السلام” اسلام کا فاتحہ پڑھ لیا جاتا ۔

ذاتی فضائل و کمالات:
حضرت زہرا ؑکو ذاتی فضائل و کمالات کے لحاظ سے دیکھا جائے تو اس خاتون کی عظمت کے بارے میں کیا بیان جاسکتا ہے جس کے متعلّق رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے:
"إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَاكِ وَ طَهَّرَكِ وَ اصْطَفَاكِ عَلَى نِسَاءِ الْعَالَمِينَ”
بیشک خدا نے تمہیں چن لیا ہے اور پاکیزہ بنادیا ہے اور عالمین کی عورتوں میں منتخب قرار دے دیا ہے ۔(مناقب ابن شھر آشوب ج3)
اگر جناب فاطمہ زہرا ؑ کے فضائل کے لئے سورہ کوثر کے علاوہ قرآن میں کچھ بھی نازل نہ ہوتا تو وہی ان کی فضیلت کے لئے کافی تھا کہ کہا جائے، خدا کے نزدیک تمام عالمین کی عورتوں سے افضل اور برتر ہیں ۔
” إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَ انْحَرْ إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ " (اے پیغمبرﷺ) بے شک ہم نے آپ کو کوثر عطا کیا ہے، لہذا آپ اپنے رب کے لئے نماز پڑھیں اور قربانی دیں، یقینا آپ کا دشمن بے اولاد رہے گا ۔
حضرت فاطمہ زہرا سلام الله علیھا اس عظیم خاتون کا نام ہے جو اصول و قوانین اسلامی سے آگاه نیز اخلاقی اصول آداب سے آشنا تھیں، آپ قرآنی آیتوں اور ان کی تلاوت کی حلاوت کے ساتھ ساتھ، ان میں غور و فکر اور تفکّر و تدبّر سے مانوس تھیں، پیغمبر اکرم صلی الله علیہ و آله وسلم کی سیرت اور نورانی کلام کے ذریعہ پسندیده اخلاق و اطوار سے آگہی رکھتی تھیں اور بچپن ہی سے تمام خواتین و انسانیت کے لئے اسوہ حسنہ اور کامل نمونہ تھیں، اصل اسلامی اخلاق و آداب کی اقدار کے متعلق کثیر معلومات اور معارفِ دین کے متعلّق مختلف اعتبار سے بہت عمیق و گہری نظر کی حامل تھیں ۔

گھریلو اور ازدواجی اخلاقیات:
زندگی ایک ایسا مرکز ہے جس میں بہت زیاده نشیب و فراز پائے جاتے ہیں، اس میں خوشیاں اور دکھ درد بھی دیکھے جاتے ہیں ۔ عورت و مرد کی بصیرت، باریک بین نگاہیں اور دونوں کے اغراض و مقاصد سختیوں کو آسان اور ناہمواریوں کو ہموار بنا دیتے ہیں، اس طرح کہ ان دونوں میں سے ہر ایک حادثوں کا استقبال کرتے ہیں اور بھرپور سعی و کوشش کے ذریعہ زندگی میں اطمینان و سکون، صدق و صفا، صمیمیت اور مہربانی قائم رکھتے ہیں ۔
لوگوں کے ساتھ انبیاء ؑ کے منطقی، دلسوزی اور مہربانی کے تعلّقات، رسولوں و رہنماؤں کے حُسن خُلق اور احسان کے کیمیائی نقش و کردار کو فکری تہذیب و ثقافت کی تجلّی یعنی "انبیاء ؑ کے اخلاق کے آئینہ” میں بیان کیا گیا ہے ۔
حضرت فاطمہ زہرا سلام الله علیھا اس میدان میں ایک کامل اسوہ و نمونہ ہیں وه بچپن سے مشکلوں و سختیوں میں رہی ہیں، شعب ابی طالب میں تین سال کی سختیاں برداشت کیں۔اور جب شوہر کے گھر میں قدم رکھتی ہیں تو سختیوں سے نمٹنے کے ایک نئے معرکہ کا آغاز ہوتا ہے اس وقت آپ کی "شوہرداری اور گھریلو زندگی کے اخلاقیات” کھل کر سامنے آتے ہیں ۔
ایک دن امام علی علیہ السلام نے حضرت فاطمہ زہرا سلام الله علیھا سے کھانا طلب کیا تاکہ ابھی بھوک کو برطرف کرسکیں، جناب فاطمہ سلام الله علیھا نے جواب دیا: میں اس خدا کی قسم کھاتی ہوں کہ جس نے میرے والد کو نبوّت اور آپ کو امامت کے لئے منتخب کیا ہے، دو دن سے گھر میں وافی مقدار میں غذا نہیں ہے اور جو کچھ غذا تھی وه آپ ؑاور اپنے بیٹے حسن ؑ و حسین ؑکو دے دیا اور میں نے تھوڑی سی غذا سے بھی استفاده نہیں کیا ہے۔ امام علیہ السلام نے بڑی حسرت سے فرمایا: اے فاطمہؑ آخر مجھ سے کیوں نہیں بتایا کہ میں غذا فراہم کرنے کے لئے جاتا؟ جناب فاطمہ سلام الله علیھا نے عرض کیا:
اے ابوالحسن (ع)! میں اپنے پروردگار سے شرم و حیا کرتی ہوں کہ جس چیز پر آپ کی توانائی نہیں هے میں اس چیز کی درخواست کروں۔ (مناقب ابن شهر آشوب، ج2، ص26)

جانشین رسول ﷺ کا تعارف کرانا:
جناب فاطمہ سلام اللہ علیھا نے مختلف طریقوں سے جانشین رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا لو گوں کو تعارف کرایا اور اس پیغام کو پہنچایاکبھی کنایہ کی زبان میں جناب امیر المومنین علیہ السلام کا تعارف کراتیں اور کہتیں کہ کوئی بھی ان کی مثل نہیں ہے ۔امیرالمومنین کی خصوصِات کو ذکر کرتیں اور آپ کے فضائل کو بیان فرماتیں اور ایسے فضائل بیان فرماتیں جن کو مد مقابل اور دشمن بھی رد نہیں کرتا تھا بلکہ ان فضائل کو قبول کرتا ، ان فضائل اور صفات کو بیان کرنے کا مقصد یہ تھا کہ لوگوں کو اس بات کا شعور دیا جائے کہ جانشین رسول ﷺ کی اہلیت کس میں ہے اور وہ کون ہے جسے اللہ و رسول ﷺ نے بعد از نبی لوگوں کا امام و پیشوا بنایا۔
حضرت فاطمه زهرا سلام اللہ علیھا نے فرمایا: مَثَلُ الاِمامِ مَثَلُ الکَعبَة اِذتُؤتی وَ لاتَأتی (بحار الأنوار (ط – بيروت)، ج‏36، ص: 353)
امام کی مثال کعبہ کی طرح ہے، کہ لوگ طواف کرنے کیلئے کعبہ کے پاس آئیں اور آتے ہیں کعبہ کسی کی طرف نہیں جاتا ۔
اس حدیث شریف کا جانب سیدہ سلام اللہ علیھا نے اس شخص کے جواب میں فرمایا جس نے یہ اعتراض کیا تھا کہ اگر امیر المومنین حق پر تھے اوران کےاس حق کو غصب کیاگیا تھا تو امیر المومنین نے اپنے حق کا دفاع کیوں نہیں کیا اور قیام کیوں نہیں فرمایا؟تو جناب سیدہ سلام اللہ علیھا نے فرمایا کہ امام کی مثال کعبہ کی طرح ہے کہ حجاج کرام طوف کیلئے خود کعبہ کے پاس آتے ہیں کعبہ کسی کی طرف نہیں جاتا لہذا یہاں بھی لوگ آتے امیر المومنین کی بیعت کرنے نہ یہ کہ امام ان سے اپنی بیعت لینے جاتے ، لوگ امیر المومنین کے پاس نہیں آئےلہذا وہ خود راہ حق سے دور ہوگئے۔
جناب سیدہ فاطمه زهرا سلام اللہ علیھا نے فرمایا : نَحنُ وَسیلَتُهُ فی خَلقِه وَ نحن خاصَّتُهُ وَ مَحَلُّ قُدسِهِ وَ نَحنُ حُجَّتُهُ فی غَیبِهِ وَ نحن وَرَثَة اَنبیائِه (السقيفة و فدك، ص: 99)
ہم اہلبیت علیھم السلام ہی ہیں جو اللہ اور اس کی مخلوق کے درمیان وسیلہ ہیں، ہم خداوندمتعال کے منتخب شدہ اور پاکیزہ افراد ہیں ، ہم خدا کی حجت ہیں اور اس کے انبیاء کے وارث ہم اہلبیت علیھم السلام ہی ہیں۔
اس حدیث میں جناب سیدہ سلام اللہ علیھا نے امام کی چار خصوصیات کی طرف اشارہ فرمایا ہے:
1- ایک یہ کہ امام خالق اور اس کی مخلوق کے درمیان رابطہ کا ذریعہ ہے،
2- دوسرا یہ کہ امام خدا کا منتخب نمایندہ ہوتا ہے،
3- تیسرا یہ کہ امام زمین پر اللہ کی طرف سے حجت ہوتا ہے،
4-چوتھا یہ کہ امام اللہ کے انبیاء کا وارث ہوتا ہے جیسا کہ زیارات میں ہم یہی پڑھتے ہیں خصوصا زیارت وارثہ میں کہ
السلام علیک یا وارث آدم صفوۃ اللہ۔۔۔۔۔۔۔
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا نے اپنے فصیح و بلیغ خطبہ میں فرمایا : فَجَعَلَ اللّهُ…طاعَتَنا نِظاماً لِلملةِ وَ اِمامَتَنا اَماناًلِلفُرقَة؛ (الإحتجاج على أهل اللجاج (للطبرسي)، ج‏1، ص: 99)
خداوند متعال نے ہماری(اہل بیت) کی پیروی کو امت اسلامی کا نظام قرار دیا ہے ، اور ہماری ولایت و امامت کو سبب بنایا ہے کہ امتِ اسلام فرقوں میں تقسیم نہ ہو ۔
ایک اور مقام پر اس عامل وحدت یعنی امامت و ولایت کی طرف اشارہ کر کے فرماتی ہیں : اَمَا وَ اللّهِ لَو تَرَکُوا الحَقَّ عَلَی اَهلِهِ وَ اتَّبَعُوا عِترَةَ نَبیّهِ لَمَا اختَلَفَ فِی اللّهِ اثنَان؛ (ُ الْبِحَارُ 36/ 352 ح 224)
خدا کی قسم اگر لوگ حق امامت کو اس کے اہل کو دے دیتے اور عترت رسول خدا کی اطاعت کرتے تو خدا کے بارے (اور اس کے احکام ) کے بارے اس جہان میں کوئی دو افراد بھی اختلاف نہ کرتے ۔
یہ حدیث شریف یہ بیان کرتی ہے کہ امامت اور امام برحق ناصرف امت کی اجتماعی و سیاسی وحدت کا سبب ہے بلکہ امت اسلام کی اعتقادی و عقیدتی وحدت کا سبب بھی ہے، اے کاش اگر لوگ امامت کو امام بر حق کے پاس رہنے دیتے تو بشریت بالعموم اور امت اسلام بالخصوص اس سعادت سے محروم نہ ہوتی۔
تسبیح زہراء سلام اللہ علیھا:
ایک مرتبہ اپنے پدر بزرگوار حضرت رسولِ خدا ﷺسے ایک کنیز عطا کرنے کی خواہش کی تو رسولﷺ نے بجائے کنیز عطا کرنے کے وہ تسبیح تعلیم فرمائی جو تسبیح فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کے نام سے مشہور ہےاور ہر نماز کے بعد اس تسبیح کے پڑھنے کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔اس تسبیح میں ۳۴ مرتبہ الله اکبر، 33 مرتبہ الحمد الله اور 33 مرتبہ سبحان الله پڑھا جاتا ہے۔حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا اس تسبیح کی تعلیم سے اتنی خوش ہوئیں کہ کنیز کی خواہش ترک کردی ۔ بعد میں رسول ﷺنے بلا طلب ایک کنیز عطا فرمائی جو فضہ کے نام سے مشہور ہیں۔
ہماری اس عظیم ذکر سے غفلت یا تغافل کا سبب خود اس کے فضائل و فوائد سے نا واقف ہونا بھی ہے ۔ اگر ہم ان اسرار و رموز سے واقف ہو جائیں جو ان الفاظ کے دامن میں چھپا دئے گئے ہیں تو ہم کسی حد تک خواب غفلت سے بیدار ہو کر اپنی زندگی کو ان جواہرات سے سنوار سکتے ہیں ۔ ذکر تسبیح حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کے لئے بہت سے فوائد ذکر ہوئے ہیں جن میں سے بعض یہ ہیں ۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ :مَن سبَّح َ تسبیحَ الزھراء ۖ ثم استغفر غفر لہ و ھی مائة با للمان والف فی المیزان و تُطردُ الشیطان و تُر ضِی الرحمن ۔
ترجمہ : جو بھی تسبیح حضرت زھرا سلام اللہ علیھا پڑھ کر استغفار کریگا خدا اس کے گناہوں کو بخش دے گا ۔ اس تسبیح میں ظاہراً سو ذکر ادا ہوتے ہیں لیکن انسان کے نامہ اعمال کو ہزار گناوزنی بنا دیتا ہے ۔ اور ساتھ ہی شیطان کو دور بھگا دیتی ہے اور رضائے احمن کو جلب کرتی ہے ( ثواب الاعمال ص ٣٦٣)
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا : مَنْ سَبَّحَ اللَّهَ فِي دُبُرِ الْفَرِيضَةِ قَبْلَ‏ أَنْ‏ يَثْنِيَ‏ رِجْلَيْهِ تَسْبِيحَ فَاطِمَةَ ع الْمِائَةَ وَ أَتْبَعَهَا بِلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مَرَّةً وَاحِدَةً غُفِرَ لَهُ
(المحاسن، ج‏1، ص: 36)
جو شخص نماز واجب کے بعد اٹھنے سے قبل تسبیح حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا پڑھتا ہےاور اس کے بعد لا الہ الا اللہ کہتا ہے خدا اس کو بخش دیتا ہے ۔
یہاں پر یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کوئی یہ خیال نہ کرے کہ صرف تسبیح بخشش کا ذریعہ بنتی ہے اور کسی دیگر امر کی ضرورت نہیں ہے ۔ جب کہ پہلی روایت سے صاف واضح ہو جاتا ہے کہ تسبیح کے ساتھ ساتھ خود انسان کا استغفار کرنا بھی ضروری ہے ، ثم استغفر غفر لہ ،، جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ تسبیح حضرت فاطمہ زھراء سلام اللہ علیھا انسان کے قلب میں احساس استغفار پیدا کرتی ہے اور جب دل میں ایک مخصوص کیفیت پیدا ہو جاتی ہے کہ بندہ گناہوں کی تکرار نہ کرنے کا پختہ ارادہ کر لیتا ہے تو خدا بھی اسے معاف کر دیتا ہے ۔ جیسا کہ قرآن مجید میں اس مسئلہ کو صاف صاف بیان کر دیا گیا ہے ۔
من تاب بعد ظلمہ و اَصلحَ فانَّ اللہ یتوب علیہ انَّ اللہ غفور رحیم۔ مائدہ ٣٩
پھر ظلم کے بعد جو شخص توبہ کرے اور اپنی اصلاح کرے تو خدا اس کی توبہ قبول کریگا کہ اللہ بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے ۔
گناہوں کی بخشش کے لئے تو بہ کے ساتھ اعمال صالحہ کی پابندی اور حتی المقدور گناہوں کے تکرار سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔
امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں :ما عُبد اللہ ُ بشیٔ افضل من تسبیح الزھراء ۖ لو کان شیء افضل منہ لَنَخلہ رسول اللہ فاطمہ (بحارالانوار ج43)
سے بہتر کسی اور طریقے سے خدا کی عبادت نہیں کی گئی بے شک اگر کوئی چیز اس سے بھی زیادہ افضل ہوتی تو رسول اکرم اپنی بیٹی فاطمہ سلام اللہ علیھا کو وہی تعلیم فرماتے ۔
سیدہ فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا اور اللہ کی بندگی
ہر اطاعت کی بنیاد اور اساس علم و اگاہی پر استوار ہوتی ہے بغیر علم و اگاہی کے حقیقی اطاعت دشوار عمل ہے ، حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا نے مرسل اعظم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی وفات کے بعد جو مدینہ کی مسجد میں خطبہ ارشاد فرمایا ہے ، حضرت نے اس خطبہ میں مدینہ کے حالات کا تذکرہ کرتے ہوئے تمام انصار و مہاجرین اور اصحاب کو خدا کی اطاعت کی دعوت ہے اور اسے علم سے جوڑا ہے ، حضرت (ع) نے قران کریم کی اس کریمہ کی تلاوت فرمائی اور کہا : « وَمِنَ النَّاسِ وَالدَّوَابِّ وَالْأَنْعَامِ مُخْتَلِفٌ أَلْوَانُهُ کَذَلِکَ إِنَّمَا یَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ إِنَّ اللَّهَ عَزِیزٌ غَفُورٌ » انسان ، حیوان اور چوپایہ مختلف رنگ و نسل کے ہیں اور بندوں میں سے علماء خدا سے ڈرتے ہیں یقینا اللہ بخشنے والا اور مھربان ہے ۔
حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا نے اپنی اس تقریر میں اطاعت الھی اور علم کو ایک دوسرے کے قریب قرار دیا ، حضرت (ع) کے بیان کے مطابق خدا کی حقیقی اطاعت اس وقت ہی ممکن ہے جب انسان کو مکمل معرفت حاصل ہو ، لہذا اس مقام پر مناسب ہے کہ حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کے نزدیک خدا کی اطاعت کا تذکرہ کرنے سے پہلے اپ (ع) کے نزدیک خدا کی معرفت کا تذکرہ کیا جائے ۔
حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا اسی خطبہ میں خداوند متعال کے سلسلہ میں فرماتی ہیں : «وَ أَشْهَدُ أَنَّ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اَللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِیکَ لَهُ، کَلِمَةٌ جُعِلَ اَلْإِخْلاَصُ تَأْوِیلَهَا، وَ ضُمِّنَ اَلْقُلُوبُ مَوْصُولَهَا، وَ أَنَارَ فِی اَلْفِکْرَةِ مَعْقُولُهَا، اَلْمُمْتَنِعُ مِنَ اَلْأَبْصَارِ رُؤْیَتُهُ، وَ مِنَ اَلْأَلْسُنِ صِفَتُهُ، وَ مِنَ اَلْأَوْهَامِ کَیْفِیَّتُهُ، اِبْتَدَعَ اَلْأَشْیَاءَ لاَ مِنْ شَیْءٍ کَانَ قَبْلَهَا، وَ أَنْشَأَهَا بِلاَ اِحْتِذَاءِ أَمْثِلَةٍ اِمْتَثَلَهَا، کَوَّنَهَا بِقُدْرَتِهِ، وَ ذَرَأَهَا بِمَشِیَّتِهِ، مِنْ غَیْرِ حَاجَةٍ مِنْهُ إِلَى تَکْوِینِهَا، وَ لاَ فَائِدَةٍ لَهُ فِی تَصْوِیرِهَا، إِلاَّ تَثْبِیتاً لِحِکْمَتِهِ، وَ تَنْبِیهاً عَلَى طَاعَتِهِ، وَ إِظْهَاراً لِقُدْرَتِهِ، وَ تَعَبُّداً لِبَرِیَّتِهِ، وَ إِعْزَازاً لِدَعْوَتِهِ »
میں گواہی دیتی ہوں کہ خدا کے سوا کوئی اور معبود نہیں اور اس کا کوئی شریک نہیں ، اس شھادت اور گواہی کی تفسیر ، اخلاص ہے ، آگاہ دلوں اور فکر و ںظر میں اس کے معانی واضح و روشن ہیں ، وہ خداوند جسے ظاھری انکھوں سے نہیں دیکھا جاسکتا ، زبانیں اس کی تعریف و توصیف سے عاجز اور وہم و خیال اسے سمجھنے سے ناتوان ہیں ۔ اس نے دنیا کی چیزوں کو بغیر کسی وسیلے کے پیدا کیا ، اس نے بغیر نمونہ اور سمپل کے اسے بنایا ، اس نے اپنی طاقت اور قدرت سے اسے خلق کیا ، اس نے اپنے ارادہ سے پیدا کیا جبکہ وہ ان کے پیدا کرنے کا ضرورت مند نہ تھا اور نہ ہی اس سے اسے کوئی فائدہ ملنے والا ہے جزء اس کے اس نے چاہا کہ اس کی حکمت محقق ہوجائے ، اس نے سبھی کو اپنی اطاعت و بندگی سے آگاہ کیا اور اپنی قدرت آشکار کیا ، اس نے بندگی کے تمام راستے کی تعلیم دی اور اپنی دعوت کو عزت عطا کیا ۔

 

 

 

تمت بالخیر
٭٭٭٭٭

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button