خطبہ جمعۃ المبارک (شمارہ:262)
(بتاریخ: جمعۃ المبارک 09 اگست2024ء بمطابق 03 صفر المظفر1446ھ)
تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
جنوری 2019 میں بزرگ علماء بالخصوص آیۃ اللہ شیخ محسن علی نجفی قدس سرہ کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے ۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
موضوع: قرآن میں حضرت لقمانؑ کی حکیمانہ نصیحتیں
قرآن مجید کی سورہ لقمان میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَلَقَدۡ ءَاتَيۡنَا لُقۡمَٰنَ ٱلۡحِكۡمَةَ أَنِ ٱشۡكُرۡ لِلَّهِۚ وَمَن يَشۡكُرۡ فَإِنَّمَا يَشۡكُرُ لِنَفۡسِهِۦۖ
وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ ٱللَّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٞ
اور بتحقیق ہم نے لقمان کو حکمت سے نوازا کہ اللہ کا شکر کریں اور جو شکر کرتا ہے وہ اپنے (فائدے کے) لیے شکر کرتا ہے اور جو ناشکری کرتا ہے تو اللہ یقینا بے نیاز، لائق ستائش ہے۔(سورہ لقمان:12)
یہ قرآن مجید کی اکتیسویں سورہ ہے جو حضرت لقمان کے نام پہ ہے ۔ حضرت لقمان تاریخ کے عظیم اور سچے حکماء میں سے ہیں۔اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے ان کی وہ دس حکمتیں اور نصیحتیں بیان کہ ہیں جو انہوں نے اپنے بیٹے کو کی تھیں۔
حضرت لقمان کی یاد اور ان کی دس نصیحتوں کو قرآن میں بیان کرنا اور قرآن کا ایک مکمل سورہ ان کے نام پر ہونا اور وہ بھی ایسی کتاب میں جو ہمیشہ باقی رہنے والی ہے اس چیز کو بیان کرتا ہے کہ خداوند عالم یہ چاہتا ہے کہ جناب لقمان کا نام اور ان کی وہ حکیمانہ باتیں نصیحتوں کے طور پر قرآن میں محفوظ کردے تاکہ ہر زمانے میں اور ہر دور میں حق و معرفت کے متلاشیوں کیلئے ایک نمونہ عمل اورہدایت قرار پائے اور لوگ ان سے فائدہ اٹھائیں ۔
حضرت لقمان کون تھے؟
جناب لقمان کے بارے میں اکثریت کی رائے یہ ہے کہ وہ ایک عبد صالح اور حکیم تھے۔ بعض روایات کے مطابق حبشی اور سیاہ قوم سے تعلق رکھتے تھے۔ بعض کے نزدیک ان کا تعلق مصر سے تھا اور بعض کہتے ہیں ان کا تعلق قوم عاد سے تھا جو حضرت ہود علیہ السلام کے ساتھ بچ نکلنے والوں میں شامل تھے۔ عرب لوگ لقمان کی حکمت کے معترف تھے اس لیے انہیں بتایا جا رہا ہے کہ توحید کا عقیدہ کوئی نئی فکر نہیں بلکہ قدیم ایام سے لقمان حکیم بھی توحید کے عقیدے کے داعی تھے۔(الکوثر فی تفسیر القرآن)
حکمت کیا ہے؟
ہماری زبان میں حکمت یا حکیم کے الفاظ دیسی دوایاں دینے والے افراد کے لیے استعمال ہوتے ہیں لیکن عربی میں حکمت اور حکیم کا معنی یکسر مختلف ہے۔عربی میں حکمت سے مراد عقل و دانائی اور حقائق کی سمجھ بوجھ ہیں پس عربی میں حکیم اسے کہتے ہیں جسے عقل و دانائی عطا ہو اور جس کے پاس حقائق کی سمجھ بوجھ ہو۔
قرآن نے کہا :وَلَقَدۡ ءَاتَيۡنَا لُقۡمَٰنَ ٱلۡحِكۡمَةَ أَنِ ٱشۡكُرۡ لِلَّهِۚ یہ بات ان کو سمجھا دی کہ اللہ کا شکر ادا کرو۔ شکر خدا حکمت کے مصادیق میں سب سے پہلا مصداق ہے۔ دنیائے حقیقت میں سب سے اہم حقیقت ہے۔ نعمت اور نعمت دہندہ کی قدر دانی کرنا بہت بلند اقدار کا مالک ہونے کی علامت ہے۔ اسی لیے مقام شکر پر کماحقہ فائز ہونے والے لوگ بہت کم ہوتے ہیں۔
وَ قَلِیۡلٌ مِّنۡ عِبَادِیَ الشَّکُوۡرُ (۳۴ سبا: ۱۳)
میرے بندوں میں شکر کرنے والے کم ہیں۔
قرآن مجید کی نظر میں اس حکمت کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ خداوند متعال نے اس زمین کو اتنی وسعت کے باوجود اس کو بہت ہی کم اور ایک دھوکہ کا نام دیا ہے جیسا کہ فرمایا ہے۔ قُلْ مَتَاعُ الدُّنْيَا قَلِيلٌ یعنی زندگی کا سرمایہ بہت ہی کم ہے ۔
اور اسی طرح سے فرمایا وَ مَا الْحَيَوةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَعُ الْغُرُور یعنی یہ دنیا کی زندگی صرف ایک دھوکہ کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔ لیکن اس حکمت کے بارےمیں کہہ رہے ہیں کہ :
يُؤْتىِ الْحِكْمَةَ مَن يَشَاءُ وَ مَن يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِى َخَيرْا كَثِيرًا
وہ جسے چاہتا ہے حکمت عطا فرماتا ہے اور جسے حکمت دی جائے گویا اسے خیرکثیر دیا گیا ہے۔
اور امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ :
…الْحِكْمَةِ الَّتِي هِيَ حَيَاةٌ لِلْقَلْبِ الْمَيِّتِ ;حکمت مردہ دلوں کو زندہ کرتی ہے ۔( نہج البلاغه, خطبه133)
اور امام حسن علیہ السلام کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں کہ :
أَحْيِ قَلْبَكَ بِالْمَوْعِظَةِ ..، ونَوِّرْه بالحِكْمَة ،
اپنے دل کو موعظہ کے ذریعے سے زندہ رکھو اور حکمت کے نور سے اسے نورانی بناؤ ۔ (نہج البلاغہ مکتب 31)
اور حکمت کی اہمیت کے بارے میں یہی کافی ہے کہ مولا علی ؑ نے فرمایا :
الْحِكْمَةُ ضَالَّةُ الْمُؤْمِنِ فَخُذِ الْحِكْمَةَ وَ لَوْ مِنْ أَهْلِ النِّفَاقِ
حکمت مومن کی گم شدہ میراث ہے جہاں سے ملے لے لو چاہے منافقوں سے بھی لینی پڑے۔(حکمت 80)
حکمت کے آثار و اثرات:
قرآن نے حکمت کو خیرِ کثیر کہا ہے۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ کا قول ملتا ہے جس میں وہ حکمت کے آثار بیان کرتے ہیں کہ :
بِحَقٍّ أَقُولُ لَكُمْ إِنَ النَّفْسَ نُورُ كُلِّ شَيْءٍ وَ إِنَّ الْحِكْمَةَ نُورُ كُلِّ قَلْبٍ وَ التَّقْوَى رَأْسُ كُلِّ حِكْمَة; حقیقت میں آپ کو بتادوں کہ ہر چیز کی روشنی سورج کے ذریعے سے ہوتی ہے اور روح انسان کی روشنی حکمت کے ذریعے سے ہوتی ہے اور پرہیز گاری ہر حکمت کا نتیجہ ہوتا ہے ۔( تحف العقول،ص618)
انسان کے دل میں حکمت کا ہونا بنجر زمین کو پانی دینے کی مانند ہے ۔حکمت انسان کے دل کو زندگی دیتی ہے جس طرح سے پانی بنجر زمین کو زندہ کرنا ہے اور اسی طرح سے ایک نور کی طرح سے ہے جو رات کی تاریکی میں انسان اپنے ساتھ لے کر چلتا ہے ۔
حضرت لقمان اپنے بیٹے کو اس حکمت کے آثار کے بارے میں فرماتے ہیں :
يَا بُنَيَّ تَعَلَّمِ الْحِكْمَةَ تُشَرَّفْ
اے میرے بیٹے حکمت کی تعلیم حاصل کرو تاکہ شرافت کے بلند ترین درجہ پر پہنچ سکو
فَإِنَّ الْحِكْمَةَ تَدُلُّ عَلَى الدِّينِ حکمت دین کی طرف راہنمائی کرتی ہے
وَ تُشَرِّفُ الْعَبْدَ عَلَى الْحُرِّ اور غلام کو آزاد پر شرافت بخشتی ہے
وَ تَرْفَعُ الْمِسْكِينَ عَلَى الْغَنِيِ اور فقیر کو دولتمند سے بلند کرتی ہے
وَ تُقَدِّمُ الصَّغِيرَ عَلَى الْكَبِيرِ چھوٹے کو بڑے پر مقدم کرتی ہے
وَ تَجْلِسُ الْمِسْكِينَ مَجَالِسَ الْمُلُوكِ اور فقیروں کو بادشاہوں کی جگہ عطا کرتی ہے
وَ تَزِيدُ الشَّرِيفَ شَرَفاً اور انسان کی شرافت میں اضافہ ہوتا ہے ۔
وَ السَّيِّدَ سُؤْدَداً وَ الْغَنِيَّ مَجْدا…اور سردار کی سرداری اور غنی کی بزرگی میں اضافہ کرتی ہے۔(بحارالانوار،ج13،ص430)
انسان کی زندگی اور دین دونو ں ہی اس حکمت کے علاوہ ممکن نہیں ہیں اور دنیا و آخرت کا کام صرف اسی حکمت پر موقوف ہے جس طرح سے خدا کی اطاعت کسی حکمت کے بغیر ہو تو بغیر روح والے جسم کی طرح ہوگی یا بغیر پانی والی زمین کی طرح سے ہے ۔
بس جس طرح سے جسم بغیر روح کے اور زمین پانی کے بغیر زندہ نہیں رہتی ہے اسی طرح سے حکمت کے بغیر خدا کی اطاعت بھی بے نشاط ہوگی ۔
حکمت کیسے حاصل ہوتی ہے؟
حضرت لقمان کوئی نبی نہیں تھے مگر پھر بھی اللہ نے انہیں حکمت عطا فرمائی جس سے واضح ہوتا ہے کہ غیر معصوم بھی حکمت حاصل کر سکتا ہے مگر کیسے؟
حضرت لقمان ایک پاک اور مخلص انسان تھے سیر و سلوک اور عرفان کے راستے میں انہوں نے بہت ہی زحمت اٹھائی ہے اور اسی طرح خواہشات نفسانی کی مخالفت اور بہت ساری مشکلات کو تحمل کرنے کی وجہ سے خدا وند عالم نے ان کے دل میں حکمت کے چشمے پھوٹ دئیے اور لقمان کی یہی قابلیت خداوندعالم کا لطف قرار پائی ۔
جیسا کہ پیغمبر اسلام اور امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ :
مَا أَخْلَصَ عَبْدٌ لِلَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ أَرْبَعِينَ صَبَاحاً إِلَّا جَرَتْ يَنَابِيعُ الْحِكْمَةِ مِنْ قَلْبِهِ عَلَى لِسَانِه;
جو بھی خدا کی خاطر اگر چالیس دن تک اخلاص پیدا کرے تو خداوند عالم اس کے دل و زبان پر حکمت کے چشمے جاری کر دیتا ہے ۔ (بحارالانوار, ج70, ص;242)
روایت میں آیا ہے کہ کسی نے حضرت لقمان سے پوچھا آپ نے یہ علم اور حکمت کہاں سے حاصل کی ہے ؟ جبکہ آپ نے کسی مدرسے میں نہیں پڑھا ؟ تو حضرت لقمان نے فرمایا :
قَدَّرَ اللَّه و أداءِ الأمانَة و صدقِ الحَديثِ، و الصمت .
خدا کی چاہت و تقدیر اور امانت داری اور سچائی اور اپنی زبان پر کنٹرول کرنے سے یہ مقام حاصل ہوا ہے ۔
حضرت لقمان کی زندگی اور ان کی حکیمانہ باتوں کا مطالعہ کرنے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ حضرت لقمان اگرچہ نسل اور قوم کے اعتبار سے بہت ہی کم درجے پر تھے لیکن علم و عمل اور ریاضت اور کمال کے مراحل کو طے کرنے میں بہت بڑے مقام حکمت تک پہنچ گئے ۔مثال کے طور پر جناب سلمان فارسی ایک عجمی تھے لیکن خود سازی اور ریاضت کے اعتبار سے تکامل تک پہنچ چکے تھے جس کی وجہ سے امام علی علیہ السلام نے ان کو لقمان کے ساتھ تشبیہ دی ہے اور ان کی شان میں فرمایا :
قَالَ بَخْ بَخْ سَلْمَانُ مِنَّا أَهْلَ الْبَيْتِ وَ مَنْ لَكُمْ بِمِثْلِ لُقْمَانَ الْحَكِيمِ عَلِمَ عِلْمَ الْأَوَّلِ وَ عِلْمَ الْآخِر
مبارک ہو کہ سلمان کا کیسا مقام ہے کہ وہ ہم اہل بیت میں سے ہیں اور تم میں سے کون بھلا سلمان کے درجے پر پہنچ سکتا ہے جبکہ وہ لقمان حکیم کی طرح ہیں جو گزشتہ اور آئندہ کے بارے میں علم رکھتے ہیں ۔( بحارالانوار, ج22, ص330)
حضرت لقمان کی نصیحتیں:
توجہ رہے کہ اللہ نے حضرت لقمان کی بہت ہی طولانی زندگی دی تھی۔ انہوں نے بہت سارے پیغمبروں کے زمانے میں زندگی گزاری ہے حتی بعض روایات کے مطابق چار سو پیغمبروں کے ساتھ انہوں نے ملاقات کی ہے۔
قرآن مجید میں حضرت لقمان کی بعض نصیحتیں بیان ہوئی ہیں اگرچہ راوایات کے اعتبار سے دیکھا جائے تو ان کی بہت ساری نصیحتیں موجود ہیں ۔ان میں سے ایک نصیحت یوں ہے:
وہ اپنے بیٹے کی طرف مخاطب ہو کر کہہ رہے ہیں :
يا بُنَيَ إِنِّي خدمت أَرْبَعَمِأَةِ نبي وَ أَخَذْت مِنْ كَلَامِهِم أَرْبَعِ كَلِمَاتٍ , و هى :
اے بیٹے میں نے چار سو پیغمبروں کی خدمت کی ہے اور ان کے کلام سے چار چیزوں کو لیا ہے :
اذا كنت فى الصلوه فاحفظ قلبك،
1۔ جب آپ نماز پڑھ رہے ہوں تو اپنے دل کا خیال رکھو ۔(یعنی دل کو حاضر رکھو)
و اذا كنت على المائده فاحفظ حلقك،
2۔ جب دسترخوان پر بیٹھے ہوں توپیٹ کی حفاظت کرو۔(یعنی حرام مال کھانے سے پرہیز کرو )
و اذا كنت فى بيت الغير فاحفظ عينك،
3۔ جب کسی کے گھر جاؤ تو اپنی آنکھوں کی حفاظت کرو(یعنی نامحرم سے محفوظ رکھو ۔)
واذا كنت بين الخلق فاحفظ لسانك
4۔ اور جب لوگوں کے درمیان رہو تو اپنی زبان کی حفاظت کرو۔( المواعظ العدديه, ص142)
حضرت لقمان کی پہلی حکمت:
قرآن مجید کی سورہ لقمان میں حضرت لقمان کی بیان کی گئی حکمتوں میں سے پہلی حکمت یوں بیان ہوئی ہے:
وَإِذۡ قَالَ لُقۡمَٰنُ لِٱبۡنِهِۦ وَهُوَ يَعِظُهُۥ يَٰبُنَيَّ لَا تُشۡرِكۡ بِٱللَّهِۖ إِنَّ ٱلشِّرۡكَ لَظُلۡمٌ عَظِيمٞ
اور جب لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا: اے بیٹا! اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا، یقینا شرک بہت بڑا ظلم ہے۔
واقع بین حکیم لقمان اپنی حکمت کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی حکمت کا آغاز اپنے فرزند کی تربیت و تعلیم سے کرتے ہیں۔ اس سے ہم بجا طور پر یہ سمجھ سکتے ہیں کہ والدین پرسب سے پہلی ذمے داری اولاد کی تربیت ہے۔جب بچے بڑے ہو جاتے ہیں اور ہاتھ سے نکل جاتے ہیں تو لوگ پھر علماء کے پاس آتے ہیں کہ بیٹا نماز نہیں پڑھتا، نافرمان ہے اور برے لوگوں کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہے حالانکہ اس کی چیز کی تربیت پر بچپن سے ہی والدین نے توجہ دی ہوتی تو بعد میں پریشانی نہ ہوتی۔ کثیر روایات سے یہ پتا چلتا ہے کہ بچے کی ابتدائی تربیت والدین کی ذمہ داری اور اسی تربیت کے اثرات ساری زندگی بچے پر نظر آتے ہیں۔
حضرت لقمان اپنے بچے کی پہلی تربیت توحید پر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
لَا تُشۡرِکۡ بِاللّٰہِ: اس تربیت میں سب سے پہلی بات توحید ہے۔ چنانچہ حکمت کا تقاضا بھی توحید اور شرک کی نفی ہے۔
اِنَّ الشِّرۡکَ لَظُلۡمٌ عَظِیۡمٌ: شرک کا مرتکب اپنے آپ کو اللہ کی بندگی کے دائرے سے خارج کرتا اور ایک ناچیز کو رب العالمین کے مقابلے لاتا ہے۔یہی سب سے بڑا ظلم ہے۔ اس سے بڑھ کر کیا زیادتی ہو سکتی ہے۔
شرک بہت بڑا ظلم ہے چنانچہ پیغمبر اسلام نے اپنے صحابی عبداللہ ابن مسعود کو فرمایا :
إِيَّاكَ أَنْ تُشْرِكَ بِاللَّهِ طَرْفَةَ عَيْنٍ وَ إِنْ نُشِرْتَ بِالْمِنْشَارِ أَوْ قُطِعْتَ أَوْ صُلِبْتَ أَوْ أُحْرِقْتَ بِالنَّار;
خداکو شریک قرار دینے سے حتی ایک لحظہ کے لئے بھی پر ہیز کیا کرو چاہیے ایسا کرنے میں تمہیں ایک آرے سے ٹکڑے ٹکڑے ہی کیوں نہ کریں اور دروازے پر لٹکایا ہی کیوں نہ دیں یا آگ کے اندر جلا ہی کیوں نہ دیں ۔ (بحارالانوار، ج77، ص107)
خداوند عالم قرآن مجید میں مشرکین کے عذاب کے بارے میں فرمارہا ہے :
وَ مَن يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَكَأَ نَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّيرْ أَوْ تَهْوِى بِهِ الرِّيحُ فىِ مَكاَنٍ سَحِيق
جو اللہ کے ساتھ شریک ٹھہراتا ہے تو وہ ایسا ہے گویا آسمانوں سے گر گیا پھر یا تو اسے پرندے اچک لیں یا اسے ہوا اڑا کر کسی دور جگہ پھینک دے۔ (الحج :31)
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں ان حکمتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور شرک جیسے ظلم عظیم سے بچائے۔
آج ہم نے قرآن مجید سے حضرت لقمان کی پہلی حکمت بیان کی ہے ۔ ان شاء اللہ آئندہ خطبات میں بھی اس موضوع کو جاری رکھتے ہوئے اگلی حکمتوں پر تفصیلی گفتگو کریں گے۔
تمت بالخیر
٭٭٭٭٭