سلائیڈرسیرتسیرت امام علی رضاؑ

حیات امام ثامن علی ابن موسیٰ الرضاؑ کے چند پہلو (پہلو اول)

مدینہ میں آپ کی حیات مبارکہ
علماء و مورخین کا بیان ہے کہ آپ بتاریخ 11 ذی قعدہ سن 153 ہجری بروز جمعرات بمقام مدینہ منورہ متولد ہوئے۔
(اعلام الوری ص 182،جلاء الیعون ص 280،روضة الصفاء ج 3 ص 13،انوار النعمانیہ ص 127)
آپ کی ولادت کے متعلق علامہ مجلسی اور علامہ محمد پارسا نے لکھا ہے کہ جناب ام البنین کا کہنا ہے کہ جب تک امام علی رضا علیہ السلام میرے بطن میں رہے، مجھے حمل کی گرانباری مطلقا محسوس نہیں ہوئی، میں اکثر خواب میں تسبیح و تہلیل اور تمہید کی آوازیں سنا کرتی تھی۔جب امام رضا علیہ السلام پیدا ہوئے تو آپ نے زمین پر تشریف لاتے ہی اپنے دونوں ہاتھ زمین پر ٹیک دیئے اور اپنی پیشانی مبارک آسمان کی طرف بلند کر دی، آپ کے لبہائے مبارک جنبش کرنے لگے، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے آپ خداوند سے کچھ باتیں کر رہے ہیں، اسی اثناء میں امام موسی کاظم علیہ السلام تشریف لائے اور مجھ سے ارشاد فرمایا کہ تمہیں خداوند کی یہ عنایت و کرامت مبارک ہو، پھر میں نے مولود مسعود کو آپ کی آغوش میں دیدیا، آپ نے اس کے داہنے کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی۔ اس کے بعد آپ نے ارشاد فرمایا کہ:اسے لے لو یہ زمین پر خدا کی نشانی ہے اور میرے بعد حجت اللہ کے فرائض کا ذمہ دار ہے۔ابن بابویہ نے لکھا ہے کہ آپ دیگر آئمہ علیہم السلام کی طرح مختون اور ناف بریدہ متولد ہوئے تھے۔
(جلاء العیون ص 279)
آپ کے والد ماجد حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام نے لوح محفوظ کے مطابق اور تعیین رسول خدا ﷺ کے مطابق آپ کو اسم علی سے موسوم فرمایا، آپ آل محمد میں تیسرے علی ہیں۔
(اعلام الوری ص 225،مطالب السئول ص 282)
آپ کی کنیت ابو الحسن تھی اور آپ کے القاب صابر، زکی، ولی، رضی، وصی تھے۔و اشھرھا الرضاءاور مشہور ترین لقب، رضا تھا۔
(نور الابصار ص 128،تذکرة خواص الامة ص 198)
علامہ طبرسی نے تحریر کیا ہے کہ آپ کو رضا اس لیے کہتے ہیں کہ آسمان و زمین میں خداوند ، رسول اکرمؐ اور آئمہ طاہرینؑ، نیز تمام مخالفین و موافقین آپ سے راضی تھے۔
(اعلام الوری ص 182)
علامہ مجلسی نے تحریر کیا ہے کہ بزنطی نے حضرت امام محمد تقی علیہ السلام سے لوگوں کی افواہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آپ کے والد ماجد کو لقب رضا سے مامون رشید نے ملقب کیا تھا؟آپ نے فرمایا ہرگز نہیں یہ لقب خدا و رسول کی خوشنودی کا جلوہ بردار ہے اور خاص بات یہ ہے کہ آپ سے موافق و مخالف دونوں راضی اور خوشنود و راضی تھے۔
(جلاء العیون ص 279،روضة الصفاء ج 3 ص 12)
بادشاہان وقت:
آپ نے اپنی زندگی کی پہلی منزل سے تا بہ عہد شہادت بہت سے غاصب بادشاہوں کے دور دیکھے، آپ 153 ہجری میں منصور دوانقی کے دور میں متولد ہوئے۔ سن 158 ہجری میں مہدی عباسی، سن 169 ہجری میں ہادی عباسی، سن 170 ہجری میں ہارون رشید عباسی، سن 194 ہجری میں امین عباسی، سن 198 ہجری مامون رشید عباسی علی الترتیب خلیفہ وقت ہوتے رہے۔
ابن الوردی حبیب السیر ابو الفداءآپ نے ہر ایک کا دور بچشم خود دیکھا اور آپ پدر بزرگوار نیز دیگر اولاد علی و فاطمہ کے ساتھ جو کچھ ہوتا رہا، اسے آپ ملاحظہ فرماتے رہے، یہاں تک کہ سن 230 میں آپ دنیا سے رخصت ہو گئے اور آپ کو زہر دے کر شہید کر دیا گیا۔
جانشینی:
آپ کے پدر بزرگوارحضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کو معلوم تھا کہ حکومت وقت جس کی باگ ڈور اس وقت ہارون رشید عباسی کے ہاتھوں میں تھی، آپ کو آزادی کی سانس نہ لینے دے گی اور ایسے حالات پیش آ جائیں گے کہ آپ کی عمر کے آخری حصہ میں اور دنیا کو چھوڑنے کے موقع پر دوستان اہلبیت کا آپ سے ملنا یا بعد کے لیے راہنما کا دریافت کرنا غیر ممکن ہو جائے گا، اس لیے آپ نے انہیں آزادی کے دنوں اور سکون کے اوقات میں جب کہ آپ مدینہ میں تھے پیروان اہلبیت کو اپنے بعد ہونے والے امام سے روشناس کرانے کی ضرورت محسوس فرمائی، چنانچہ اولاد علی و فاطمہ میں سے 17 آدمی جو ممتاز حیثیت رکھتے تھے، انہیں جمع فرما کر اپنے فرزند حضرت علی رضا علیہ السلام کی وصایت اور جانشینی کا اعلان فرما دیا اور ایک وصیت نامہ بھی مکمل فرمایا، جس پر مدینہ کے معززین میں سے 60 آدمیوں کی گواہی لکھی گئی، یہ اہتمام دوسرے آئمہ کے یہاں نظر نہیں آیا صرف ان خصوصی حالات کی بناء پر جن سے دوسرے آئمہ اپنی وفات کے موقعہ پر دوچار نہیں ہونے والے تھے۔
امام موسی کاظم علیہ السلام کی شہادت اور امام رضا علیہ السلام کے دور امامت کا آغاز:
183 ہجری میں حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام نے قید خانہ ہارون رشید ملعون میں اپنی عمر کا ایک بہت بڑا حصہ گزار کر درجہ شہادت حاصل فرمایا، آپ کی وفات کے وقت امام رضا علیہ السلام کی عمر میری تحقیق کے مطابق 30 سال کی تھی۔ والد بزرگوار کی شہادت کے بعد امامت کی ذمہ داریاں آپ کی طرف منتقل ہو گئیں، یہ وہ وقت تھا کہ جب بغداد میں ہارون رشید تخت خلافت پر قابض تھا اور بنی فاطمہ کے لیے حالات بہت ہی ناساز گار تھے۔
ہارونی فوج اور خانہ امام رضا علیہ السلام:
حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کے بعد 10 برس ہارون رشید کا دور رہا، یقینا وہ امام رضا علیہ السلام کے وجود کو بھی دنیا میں اسی طرح برداشت نہیں کر سکتا تھا کہ جس طرح اس کے پہلے آپ کے والد ماجد کا رہنا اس نے گوارا نہیں کیا مگر یا تو امام موسی کاظم علیہ السلام کے ساتھ جو طویل مدت تک تشدد اور ظلم ہوتا رہا اور جس کے نتیجہ میں قید خانہ ہی کے اندر آپ دنیا سے رخصت ہو گئے، اس سے حکومت وقت کی عام بدنامی ہو گئی تھی اور یا واقعی ظالم کو بدسلوکیوں کا احساس اور ضمیر کی طرف سے ملامت کی کیفیت تھی جس کی وجہ سے کھلم کھلا امام رضا کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی تھی لیکن وقت سے پہلے اس نے امام رضا علیہ السلام کو ستانے میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کیا، حضرت کے عہدہ امامت کو سنبھالتے ہی ہارون رشید نے آپ کا گھر لٹوا دیا، اور عورتوں کے زیوارت اور کپڑے تک اتروا لیے تھے۔
تاریخ اسلام میں ہے کہ ہارون رشید نے اس حوالہ اور بہانے سے کہ محمد ابن جعفر صادق علیہ السلام نے اس کی حکومت و خلافت سے انکار کر دیا ہے ایک عظیم فوج عیسی جلودی کی سالاری میں مدینہ منورہ بھیج کر حکم دیا کہ علی و فاطمہ کی تمام اولاد کو بالکل ہی تباہ و برباد کر دیا جائے، ان کے گھروں میں آگ لگا دی جائے ان کے سامان لوٹ لیے جائیں اور انہیں اس درجہ مفلوج کر دیا جائے کہ پھر ان میں کسی قسم کے حوصلہ کے ابھرنے کا سوال ہی پیدا نہ ہو سکے اور محمد ابن جعفر صادق کو گرفتار کر کے قتل کر دیا جائے۔
عیسی جلودی نے مدینہ پہنچ کر تعمیل حکم کی سعی بلیغ کی اور ہر ممکن طریقے سے بنی فاطمہ کو تباہ و برباد کیا، حضرت محمد ابن جعفر صادق علیہ السلام نے بھرپور مقابلہ کیا لیکن آخر میں گرفتار ہو کر ہارون رشید کے پاس پہنچا دیئے گئے۔ عیسی جلودی سادات کرام کو لوٹ کر حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے دولت کدہ پر پہنچا اور اس نے خواہش کی کہ وہ حسب حکم ہارون رشید، خانہ امام میں داخل ہو کر اپنے ساتھیوں سے عورتوں کے زیورات اور کپڑے اتارے۔ امام علیہ السلام نے فرمایا یہ نہیں ہو سکتا، میں خود تمہیں سارا سامان لا کر دے دیتا ہوں، پہلے تو وہ اس پر راضی نہ ہوا لیکن بعد میں کہنے لگا کہ اچھا آپ ہی اتار لائیے، آپ محل سرا میں تشریف لے گئے اور آپ نے تمام زیورات اور سارے کپڑے ایک سترپوش چادر کے علاوہ لا کر دیدیا اور اسی کے ساتھ ساتھ اثاث البیت نقد و جنس یہاں تک کہ بچوں کے کان کے بندے سب کچھ اس کے حوالے کر دیا، وہ ملعون تمام سامان لے کر بغداد روانہ ہو گیا، یہ واقعہ آپ کے آغاز امامت کا ہے۔آپ کی بیعت لفظ امیر المومنین سے کی گئی، آپ جب نماز کو نکلتے تھے تو آپ کے ساتھ دو سو صلحا و اتقیا ہوا کرتے تھے۔
علامہ شبلنجی لکھتے ہیں کہ امام موسی کاظم علیہ السلام کی وفات کے بعد صفوان ابن یحیی نے حضرت امام علی رضا علیہ السلام سے کہا کہ مولا ہم آپ کے بارے میں ہارون رشید سے بہت خائف ہیں ہمیں ڈر ہے کہ یہ کہیں آپ کے ساتھ وہی سلوک نہ کرے جو آپ کے والد کے ساتھ کر چکا ہے۔ حضرت رضا علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ یہ تو اپنی سعی کرے گا لیکن مجھ پر کامیاب نہ ہو سکے گا چنانچہ ایسا ہی ہوا اور حالات نے اسے کچھ اس درجہ آخر میں مجبور کر دیا تھا کہ وہ کچھ بھی نہ کر سکا یہاں تک کہ جب خالد ابن یحیی برمکی نے اس سے کہا کہ امام رضا اپنے باپ کی طرح امر امامت کا اعلان کرتے اور اپنے کو امام زمان کہتے ہیں تو اس نے جواب دیا کہ ہم جو ان کے ساتھ کر چکے ہیں، وہی ہمارے لیے کافی ہے اب تو چاہتا ہے کہ:
ان نقتلھم جمیعا
ہم سب کے سب کو قتل کر ڈالیں، اب میں ایسا نہیں کروں گا۔
(نور الابصار، ص 144)
امام علی رضا علیہ السلام کا حج اور ہارون رشید عباسی:
زمانہ ہارون رشید میں حضرت امام علی رضا علیہ السلام حج کے لیے مکہ معظمہ تشریف لے گئے، اسی سال ہارون رشید بھی حج کے لیے آیا ہوا تھا، خانہ کعبہ میں داخل ہونے کے بعد امام علی رضا علیہ السلام ایک دروازے سے اور ہارون رشید دوسرے دروازے سے نکلے۔ امام علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ دوسرے دروازے سے نکلنے والا جو ہم سے دور جا رہا ہے، عنقریب طوس میں ہم دونوں ایک جگہ ہوں گے۔ایک روایت میں ہے کہ یحیی ابن خالد برمکی کو امام علیہ السلام نے مکہ میں دیکھا کہ وہ رومال سے گرد کی وجہ سے منہ بند کیے ہوئے جا رہا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اسے پتا بھی نہیں کہ اس کے ساتھ اس سال کیا ہونے والا ہے، یہ عنقریب تباہی کی منزل میں پہنچا دیا جائے گا چنانچہ ایسا ہی ہوا۔راوی مسافر کا بیان ہے کہ حج کے موقع پر امام رضا علیہ السلام نے ہارون رشید کو دیکھ کر اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ملاتے ہوئے فرمایا کہ میں اور یہ اسی طرح ایک ہو جائیں گے۔وہ کہتا ہے کہ میں اس ارشاد کا مطلب اس وقت سمجھا، جب آپ کی شہادت واقع ہوئی اور دونوں ایک مقبرہ میں دفن ہوئے۔موسی ابن عمران کا کہنا ہے کہ اسی سال ہارون رشید مدینہ منورہ پہنچا اور امام علیہ السلام نے اسے خطبہ دیتے ہوئے دیکھ کرفرمایا کہ عنقریب میں اور ہارون ایک ہی مقبرہ میں دفن کیے جائیں گے۔
(نور الابصار ص 144)
امام رضا علیہ السلام کے اخلاق و عادات اور شمائل و خصائل:
آپ کے اخلاق و عادات اور شمائل و خصائل کا لکھنا اس لیے دشوار ہے کہ وہ بے شمار ہیں۔علامہ شبلنجی ابراہیم ابن عباس نے تحریر کیا ہے کہ حضرت امام علی رضا علیہ السلام نے کبھی کسی شخص کے ساتھ گفتگو کرنے میں سختی نہیں کی، اور کبھی کسی بات کو قطع نہیں فرمایا۔آپ کے مکارم عادات سے تھا کہ جب بات کرنے والا اپنی بات ختم کر لیتا تھا، تب اپنی طرف سے آغاز کلام فرماتے تھے۔کسی کی حاجت روائی اور کام نکالنے میں حتی المقدور دریغ نہ فرماتے۔کبھی ہمنشین کے سامنے پاؤں پھیلا کر نہ بیٹھتے اور نہ اہل محفل کے رو برو تکیہ لگا کر بیٹھتے تھے۔کبھی اپنے غلاموں کو گالی نہ دی۔امام رضا علیہ السلام کہتا ہے کہ: میں نے کبھی آپ کو تھوکتے اور ناک صاف کرتے نہیں دیکھا تھا۔آپ قہقہہ لگا کر ہرگز نہیں ہنستے تھے، خندہ زنی کے موقع پر آپ تبسم فرمایا کرتے تھے۔محاسن اخلاق اور تواضع و انکساری کی یہ حالت تھی کہ دستر خوان پر تمام خادموں اور دربان تک کو اپنے ساتھ بٹھا لیتے۔راتوں کو بہت کم سوتے اور اکثر راتوں کو شام سے صبح تک شب بیداری کرتے تھے۔اکثر اوقات روزے سے ہوتے تھے، مگر ہر مہینے کے تین روزے تو آپ سے کبھی قضا نہیں ہوئے۔ ارشاد فرماتے تھے کہ ہر ماہ میں کم از کم تین روزے رکھ لینا ایسا ہے، جیسے کوئی ہمیشہ روزے سے رہے۔آپ کثرت سے خیرات کیا کرتے تھے اور اکثر رات کے تاریک پردے میں اس استحباب کو ادا فرمایا کرتے تھے۔موسم گرما میں آپ کا فرش جس پر آپ بیٹھ کر فتوا دیتے یا مسائل بیان کیا کرتے، بوریا ہوتا تھا اور موسم سرما میں کمبل۔ آپ کا یہی طرز اس وقت بھی رہا، جب آپ ولی عہد حکومت تھے۔
آپ کا لباس گھر میں موٹا اور خشن ہوتا تھا اور رفع طعن کے لیے باہر آپ اچھا لباس پہنتے تھے۔ایک مرتبہ کسی نے آپ سے کہا کہ حضور اتنا عمدہ لباس کیوں استعمال فرماتے ہیں آپ نے اندر کا پیراہن دکھلا کر فرمایا اچھا لباس دنیا والوں کے لیے اور کمبل کا پیراہن خدا کے لیے ہے۔علامہ موصوف تحریر کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ آپ حمام میں تشریف رکھتے تھے کہ ایک شخص جندی نامی آ گیا اور اس نے بھی نہانا شروع کیا، دوران غسل میں اس نے بھی نہانا شروع کیا دوران غسل میں اس نے امام رضا علیہ السلام سے کہا کہ میرے جسم پر پانی ڈالیے۔ آپ نے پانی ڈالنا شروع کیا۔ اتنے میں ایک شخص نے کہا اے جندی فرزند رسول سے خدمت لے رہا ہے، ارے یہ امام رضا ہیں، یہ سننا تھا کہ وہ پیروں پر گر پڑا اور معافی مانگنے لگا۔
(نور الابصار ص 38 ، 39)
ایک مرد بلخی ناقل ہے کہ حضرت رضا کے ساتھ ایک سفر میں تھا۔ ایک مقام پر دستر خوان بچھا تو آپ نے تمام غلاموں کو جن میں حبشی بھی شامل تھے، بلا کر بٹھلا لیا۔ میں نے عرض کیا مولا انہیں علیحدہ بٹھلائیں تو کیا حرج ہے ؟آپ نے فرمایا کہ سب کا رب ایک ہے اور ماں باپ آدم و حوا بھی ایک ہیں اور جزا و سزا اعمال پر موقوف ہے، تو پھر تفرقہ کیا۔آپ کے ایک خادم یاسر کا کہنا ہے کہ آپ کا یہ تاکیدی حکم تھا کہ میرے آنے پر کوئی خادم کھانا کھانے کی حالت میں میری تعظیم کو نہ اٹھے۔امام ہمیشہ نماز صبح اول وقت پڑھتے، اس کے بعد سجدہ میں چلے جاتے تھے اور نہایت ہی طول دیتے تھے پھر لوگوں کو پند و نصائح فرماتے تھے۔سلیمان ابن جعفر کا کہنا ہے کہ آپ آباؤ اجداد کی طرح خرمے کو بہت پسند فرماتے تھے۔آپ شب و روز میں ایک ہزار رکعت نماز پڑھتے تھے۔جب بھی آپ بستر پر لیٹتے تھے تو سونے تک قرآن مجید کے سورے پڑھا کرتے تھے۔موسی ابن سیار کا کہنا ہے کہ آپ اکثر اپنے شیعوں کی نماز میت میں شرکت فرماتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ ہر روز و شام کے وقت، امام وقت کے سامنے شیعوں کے اعمال پیش ہوتے ہیں، اگر کوئی شیعہ گناہ گار ہوتا ہے تو امام اس کے لیے استغفار کرتے ہیں۔علامہ طبرسی لکھتے ہیں کہ آپ کے سامنے جب بھی کوئی آتا تھا، آپ پہچان لیتے تھے کہ مومن ہے یا منافق۔
(کشف الغمہ ص 112)
علامہ محمد رضا لکھتے ہیں کہ آپ ہر سوال کا جواب قرآن مجید سے دیتے تھے اور روزانہ ایک قرآن ختم کرتے تھے۔
(جنات الخلود ص 31)
حضرت امام رضا علیہ السلام کا علمی کمال:
مورخین کا بیان ہے کہ آل محمد کے اس سلسلہ میں ہر فرد خداوند کی طرف سے بلند ترین علم کے درجے پر قرار دیا گیا تھا، جسے دوست اور دشمن کو ماننا پڑتا تھا یہ اور بات ہے کہ کسی کو علمی فیوض پھیلانے کا زمانے نے کم موقع دیا اور کسی کو زیادہ۔چنانچہ ان حضرات میں سے امام جعفر صادق علیہ السلام کے بعد اگر کسی کو سب سے زیادہ موقع حاصل ہوا ہے تو وہ حضرت امام رضا علیہ السلام ہیں، جب آپ امامت کے منصب پر نہیں پہنچے تھے، اس وقت حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام اپنے تمام فرزندوں اور خاندان کے لوگوں کو نصیحت فرماتے تھے کہ تمہارے بھائی علی رضا عالم آل محمد ہیں، اپنے دینی مسائل کو ان سے دریافت کر لیا کرو، اور جو کچھ اسے کہیں یاد رکھو، اور پھر حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی وفات کے بعد جب آپ مدینہ میں تھے اور روضہ رسول پر تشریف فرما ہوتے تھے تو علمائے اسلام مشکل مسائل میں آپ کی طرف رجوع کیا کرتے تھے۔محمد ابن عیسی یقطینی کا بیان ہے کہ میں نے ان تحریری مسائل کو جو حضرت امام رضا علیہ السلام سے پوچھے گئے تھے اور آپ نے ان کا جواب تحریر فرمایا تھا، کو اکھٹا کیا تو 18000 ہزار کی تعداد میں تھے۔صاحب لمعۃ الرضاء تحریر کرتے ہیں کہ حضرت آئمہ طاہرین علیہم السلام کی خصوصیات میں یہ امر تمام تاریخی مشاہد اور نیز حدیث و سیر کے اسانید معتبر سے ثابت ہے۔ محدثین و مفسرین اور تمام علماء و فضلاء جو آپ کے مقابلے کا بھی دعوی رکھتے تھے، وہ بھی علمی مباحث و مجالس میں آپ حضرات کے آگے زانوئے ادب تہ کیا کرتے تھے اور علمی مسائل کو حل کرنے کی ضرورت کے وقت حضرت علی امیر المومنین علیہ السلام سے لے کر امام رضا علیہ السلام تک وہ سب کتابوں میں موجود ہے۔
جناب امام رضا علیہ السلام کو اتفاق حسنہ سے اپنے علم و فضل کے اظہار کا زیادہ موقع پیش آیا کیوںکہ مامون عباسی کے پاس جب تک دار الحکومت مرو تشریف فرما رہے، بڑے بڑے علماء و فضلاء علوم مختلفہ میں آپ کی استعداد اور فضیلت کا اندازہ کرایا گیا اور کچھ اسلامی علماء پر موقوف نہیں تھا بلکہ علماء یہودی و نصاری سے بھی آپ کا مقابلہ کرایا گیا، مگر ان تمام مناظروں و مباحثوں میں ان تمام لوگوں پر آپ کی فضیلت و فوقیت ظاہر ہوئی۔خود مامون بھی خلفائے عباسی میں سب سے زیادہ اعلم تھا، باوجود اسکے وہ بھی امام رضا علیہ السلام کی برتری کا لوہا مانتا تھا اور چار و ناچار اس کا اعتراف پر اعتراف اور اقرار پر اقرار کرتا تھا۔چنانچہ ابن حجر نے کتاب صواعق محرقہ میں لکھا ہے کہ آپ جلالت قدر عزت و شرافت میں معروف و مذکور ہیں، اسی وجہ سے مامون آپ کو بمنزلہ اپنی روح و جان جانتا تھا، اس نے اپنی بیٹی کا نکاح آنحضرت علیہ السلام سے کیا، اور ملک ولایت میں اپنا شریک گردانا۔مامون امام رضا علیہ السلام کی عزت و احترام کو دوسروں کی نظروں میں کم کرنے کے لیے، مسلسل علماء ادیان و فقہائے شریعت کو امام رضا علیہ السلام کے مقابلے میں بلاتا اور مناظرے کراتا، مگر امام رضا علیہ السلام ہمیشہ ان لوگوں پر غالب آتے تھے اور خود ارشاد فرماتے تھے کہ میں مدینہ میں روضہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بیٹھتا تھا ، وہاں کے علمائے کثیر تعداد میں جب کسی علمی مسئلے میں عاجز آ جاتے تو بالاتفاق میری طرف رجوع کیا کرتے تھے، جواب ہائے شافی و کامل دے کر میں ان کی تسلی و تسکین کر دیا کرتا تھا۔ابو صلت ابن صالح کہتے ہیں کہ حضرت امام علی ابن موسی الرضا علیہما السلام سے زیادہ کوئی عالم میری نظر سے نہیں گزرا ، اور جو کوئی بھی آپ کی زیارت سے مشرف ہوتا تھا تو وہ میری طرح آپ کی اعلمیت کی شہادت دیتا ہوا وہاں سے جاتا تھا۔
حضرت امام رضا علیہ السلام اور مجلس شہدائے کربلا:
علامہ مجلسی بحار الانوار میں لکھتے ہیں کہ شاعر آل محمد، دعبل خزاعی کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ عاشورہ کے دن میں حضرت امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا، تو دیکھا کہ آپ اصحاب کے حلقہ میں انتہائی غمگین و حزیں بیٹھے ہوئے ہیں۔ مجھے حاضر ہوتے دیکھ کر فرمایا، آؤ آؤ ہم تمہارا ہی انتظار کر رہے ہیں، میں قریب پہنچا تو آپ نے اپنے پہلو میں مجھے جگہ دے کرفرمایا کہ:اے دعبل چونکہ آج یوم عاشورا ہے اور یہ دن ہمارے لیے انتہائی رنج و غم کا دن ہے لہذا تم میرے جد مظلوم حضرت امام حسین علیہ السلام کے مرثیہ سے متعلق کچھ شعر پڑھو،اے دعبل جو شخص ہماری مصیبت پر روئے یا رلائے تو اس کا اجر خدا پر واجب ہے،اے دعبل جس شخص کی آنکھ ہمارے غم میں تر ہو تو وہ قیامت میں ہمارے ساتھ محشور ہو گا،اے دعبل جو شخص ہمارے جد نامدار حضرت سید الشہداء علیہ السلام کے غم میں روئے گا تو خداوند اس کے تمام گناہ بخش دے گا۔یہ فرما کر امام علیہ السلام نے اپنی جگہ سے اٹھ کر پردہ کھینچا اور مخدرات عصمت کو بلا کر اس میں بٹھا دیا پھر آپ میری طرف مخاطب ہو کر فرمانے لگے ہاں دعبل !ابھی میرے جد امجد کا مرثیہ شروع کرو، دعبل کہتے ہیں کہ میرا دل بھر آیا اور میری آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور آل محمد میں رونے کا کہرام عظیم برپا تھا۔
صاحب در المصائب تحریر فرماتے ہیں کہ دعبل کا مرثیہ سن کر معصومہ قم جناب فاطمہ ہمیشرہ حضرت امام رضا علیہ السلام اس قدر روئیں کہ آپ کو غش آ گیا۔اس اجتماعی طریقے سے ذکر حسینی کا سلسلہ عہد امام رضا میں مدینہ سے شروع ہو کر مرو تک جاری رہا۔
علامہ علی نقی لکھتے ہیں کہ اب امام رضا علیہ السلام کو تبلیغ حق کے لیے نام حسین کی اشاعت کے کام کو ترقی دینے کا بھی پورا موقع حاصل ہو گیا تھا جس کی بنیاد اس کے پہلے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام اور امام جعفر صادق علیہ السلام قائم کر چکے تھے، مگر وہ زمانہ ایسا تھا کہ جب امام کی خدمت میں وہی لوگ حاضر ہوتے تھے جو بحیثیت امام یا بحیثیت عالم دین آپ کے ساتھ عقیدت رکھتے تھے اور اب امام رضا علیہ السلام تو امام روحانی بھی ہیں اور ولی عہد سلطنت بھی، اس لیے آپ کے دربار میں حاضر ہونے والوں کا دائرہ وسیع تھا۔
امام رضا علیہ السلام کی مدینہ سے مرو میں طلبی:
علامہ شبلنجی لکھتے ہیں کہ حالات کی روشنی میں جب مامون ملعون نے اپنے مقام پر یہ قطعی فیصلہ اور عزم کر لینے کے بعد کہ امام رضا علیہ السلام کو ولیعہد خلافت بنائے گا تو اس نے اپنے وزیر اعظم فضل ابن سہل کو بلا بھیجا اور اس سے کہا کہ ہماری رائے ہے کہ ہم امام رضا کو ولی عہدی سپرد کر دیں تم خود بھی اس پر سوچ و بچار کرو، اور اپنے بھائی حسن ابن سہل سے مشورہ کرو۔ان دونوں نے آپس میں تبادلہ خیال کرنے کے بعد مامون کی بارگاہ میں حاضری دی، ان کا مقصد تھا کہ مامون ایسا نہ کرے، ورنہ خلافت دوبارہ آل عباس سے آل محمد میں چلی جائے گی۔ ان لوگوں نے اگرچہ کھل کر مخالفت نہیں کی، لیکن دبے لفظوں میں ناراضگی کا اظہار کیا۔ مامون نے کہا کہ میرا فیصلہ اٹل ہے اور میں تم دونوں کو حکم دیتا ہوں کہ تم مدینہ جا کر امام رضا کو اپنے ہمراہ لاؤ۔ آخر کار یہ دونوں امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں مقام مدینہ منورہ حاضر ہوئے اور انہوں نے مامون کا پیغام پہنچایا۔حضرت امام رضا علیہ السلام نے اس عرض کو مسترد کر دیا اور فرمایا کہ میں اس امر کے لیے اپنے کو پیش کرنے سے معذور ہوں لیکن چونکہ حاکم کا حکم تھا کہ انہیں ضرور لاؤ، اس لیے ان دونوں نے بے انتہا اصرار کیا اور آپ کے ساتھ اس وقت تک لگے رہے جب تک آپ نے مشروط طور پر جانے کا وعدہ نہیں کر لیا۔
(نور الابصار ص 41)
امام رضا علیہ السلام کی مدینہ سے روانگی:
تاریخ ابو الفداء میں ہے کہ جب امین قتل ہوا تو مامون سلطنت عباسی کا مستقل بادشاہ بن گیا۔ یہ ظاہر ہے کہ امین کے قتل ہونے کے بعد سلطنت مامون کے نام ہو گئی مگر یہ پہلے کہا جا چکا ہے کہ امین اپنے ننہیال کی طرف سے عربی النسل تھا اور مامون عجمی النسل تھا، امین کے قتل ہونے سے عراق کی عرب قوم اور ارکان سلطنت کے دل، مامون کی طرف سے صاف نہیں ہو سکتے تھے بلکہ وہ ایک غم و غصہ کی کیفیت محسوس کرتے تھے، دوسری طرف خود بنی عباس میں سے ایک بڑی جماعت جو امین کی طرف دار تھی، اس سے بھی مامون کو ہر طرح کا خطرہ لگا رہتا تھا۔امام رضا علیہ السلام کا ولی عہد کو قبول کرنا بالکل ویسا ہی تھا کہ جیسا ہارون کے حکم سے امام موسی کاظم علیہ السلام کا جیل خانے میں چلا جانا، اسی لیے جب امام رضا علیہ السلام مدینہ سے خراسان کی طرف روانہ ہو رہے تھے تو آپ کے رنج و صدمہ اور اضطراب کی کوئی حد نہ تھی، روضہ رسول سے رخصت کے وقت آپ کا وہی عالم تھا کہ جو حضرت امام حسین علیہ السلام کا مدینہ سے روانگی کے وقت تھا، دیکھنے والوں نے دیکھا کہ آپ بے تابانہ روضہ کے اندر جاتے ہیں اور نالہ و آہ کے ساتھ امت کی شکایت کرتے ہیں پھر باہر نکل کر گھر جانے کا ارادہ کرتے ہیں اور پھر دل نہیں مانتا پھر روضہ سے جا کر لپٹ جاتے ہیں، یہی صورت کئی مرتبہ ہوئی۔
راوی کا بیان ہے کہ میں حضرت کے قریب گیا تو فرمایا اے محول! میں اپنے جد امجدکے روضے سے جبری طور پر جدا کیا جا رہا ہوں، اب مجھ کو یہاں دوبارہ آنا نصیب نہ ہو گا۔ میں اسی مسافرت اور غریب الوطنی میں شہید کر دیا جاؤں گا، اور ہارون الرشید کے مقبرہ میں مدفون ہوں گا۔اس کے بعد آپ گھر تشریف لائے اور سب کو جمع کر کے فرمایا کہ میں تم سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہو رہا ہوں۔ یہ سن کر گھر میں ایک عظیم کہرام بپا ہو گیا اور سب چھوٹے بڑے رونے لگے ، آپ نے سب کو تسلی دی اور کچھ دینار اعزا میں تقسیم کر کے راہ سفر اختیار فرما لیا۔ایک روایت کی بناء پر آپ مدینہ سے روانہ ہو کر مکہ معظمہ پہنچے اور وہاں طواف کر کے خانہ کعبہ کو رخصت فرمایا۔
(سوانح امام رضا ج 3 ص 7)

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button