خطبات جمعہرسالاتسلائیڈرمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک(شمارہ:138)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک 04 مارچ 2022ء بمطابق 29 رجب المرجب 1443 ھ)
تحقیق و ترتیب : عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

آئمہ جمعہ و جماعت سے متعلق ہماری وٹس ایپ براڈکاسٹ لسٹ میں شامل ہونے کے لیے ہمیں وٹس ایپ کریں۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

 

 

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
اسلام دنیا کا وہ واحد مذھب ہے کہ جس نے دینی اور دنیوی ہرمرحلے میں اپنے ماننے والوں کو بہترین اور زرین اصولوں سے نوازا ہے ۔جہاں اسلام نے ہمیں اپنے جسم و جان اپنے اہل وعیال اور اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے کا حکم دیا ہے وہاں ہمیں یہ بھی تاکید فرمائی ہے کہ خرچ کرنے میں راہ اعتدال اور میانہ روی کو اختیار کریں ۔اسراف کی تعریف یوں کی جاتی ہے کہ :” خرچ کرنے میں شرعی حدود سے تجاوز کر جانا اسراف ہے یا یہ کہ ناجائز اور حرام کاموں میں مال خرچ کرنا اسراف ہے۔”
اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے کہ :
کُلُوۡا وَ اشۡرَبُوۡا وَ لَا تُسۡرِفُوۡا ۚ اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الۡمُسۡرِفِیۡنَ﴿الاعراف:۳۱﴾
کھاؤ اور پیو مگر اسراف نہ کرو،اللہ اسراف کرنے والوں کو یقینا دوست نہیں رکھتا۔
اس آیت مجیدہ میں وَ لَا تُسۡرِفُوۡا کا یہ مختصر جملہ بتاتا ہے کہ کتنا کھانا ہے۔ انسان کے لیے اللہ تعالی نے بہت سی چیزیں حلال کی ہیں اس لیے کہ وہ اس کے جسم کی ضرورت ہیں۔لہٰذا انسانی جسم کو زندہ اورمتحرک رکھنے کے لیے جتنی غذا کی ضرورت ہے، اس کا کھانا مباح ہے اور کبھی واجب ہے۔یعنی اگر کوئی غذا نہ کھانے سے جسم کوناقابل برداشت نقصان کا اندیشہ ہوتو اس کا کھانا ضروری ہوجاتا ہے جیسے دوائی کھانا۔البتہ ضروری ہے کہ انسان وہ چیزیں شریعت کے بتائے ہوئے جائز طریقوں کے مطابق حاصل کرے۔
اگر کوئی چیز ضرورت کی بنیاد پر نہیں بلکہ ضرورت سے زیادہ کھا پی لے تو یہ اس نظام کی خلاف ورزی ہے، جس نظام کے تحت اس کا وجود قائم ہے۔ یہ اس ماحول سے خارج ہے، جس میں یہ پیدا ہوا ہے اور اس راستے سے انحراف ہے، جس راستے کو قدرت نے اس کے لیے منتخب کیا ہے۔ اسراف خلاف ورزی ہے۔ اسراف ظلم ہے اپنی جان پر، اپنے جسم پر، اپنی اقتصاد پر اور اپنے ملک پر۔ بالآخر پوری انسانیت پر ظلم ہے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام سے اسراف کی یہ تعریف روایت ہوئی ہے :
اِنَّمَا الْاِسْرَافُ فِیمَا اَفْسَدَ الْمَالَ وَ اَضَرَّ بِالْبَدَنِ ۔۔۔۔ (اصو ل الکافی ۴: ۵۳۔ المیزان)
اسراف یہ ہے کہ مال کا ضیاع ہو اور بدن کا ضرر۔
یعنی مال میں اسراف یہ ہے کہ مال کو ضائع کیا جائے اور بدن میں اسراف یہ ہے کہ بدن کو ضرر و بے جا تکلیف پہنچائی جائے۔
قرآن مجید میں ایک مقام پر یوں ارشاد باری تعالی ہے کہ :
یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ کُلُوۡا مِمَّا فِی الۡاَرۡضِ حَلٰلًا طَیِّبًا ۫ۖ وَّ لَا تَتَّبِعُوۡا خُطُوٰتِ الشَّیۡطٰنِ ؕ اِنَّہٗ لَکُمۡ عَدُوٌّ مُّبِیۡنٌ﴿البقرۃ:۱۶۸﴾
۱۶۸۔لوگو! زمین میں جو حلال اور پاکیزہ چیزیں ہیں انہیں کھاؤ اور شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو، یقینا وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔
اس آیت کا خطاب پوری انسانیت سے ہے۔ زیر بحث مسئلہ سب انسانوں سے مربوط ہے کہ زمین کی حلال اور پاکیزہ چیزیں کھاؤ۔ یہ سب کچھ انسان کے لیے خلق ہوا ہے:
ہُوَ الَّذِیۡ خَلَقَ لَکُمۡ مَّا فِی الۡاَرۡضِ جَمِیۡعًا ۔۔۔ (۲ بقرہ : ۲۹)
جس نے زمین میں موجود ہر چیز کو تمہارے لیے پیدا کیا۔
یہ فرمان دین اسلام کے آفاقی مزاج، کائناتی تقاضوں اور انسانی فطرت کے عین مطابق ہے کہ انسان مَافِی الْاَرض سے صرف کھانے میں ہی نہیں بلکہ ہر قسم کے تصرف میں آزاد ہے۔ اس میں کسی قسم کی ناروا اور غیر ضروری پابندی نہیں ہے۔ اگر کوئی پابندی ہے تو دراصل یہ بھی پاکیزگی کے لیے ہے۔ البتہ حلال و حرام کے سلسلے میں ایک بات ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ حلال و حرام، رازق کی طرف سے ہو، شیطان کی طرف سے نہ ہو۔ جس نے رزق دیا ہے وہی پابندی لگا سکتا ہے، کیونکہ وہ جائز پابندی لگائے گا ۔ پابندی اگر شیطان کی طرف سے ہوگی تو وہ برائی اور فسق میں مبتلا کر دیتا ہے۔
اسلام میں اسراف اور فضول خرچی منع ہے کیونکہ اسلام ایک مذہب اعتدال ہے اس میں ایک طرف بخل و کنجوسی کو ممنوع قراردیا گيا ہے تو دوسری طرف اسراف و فضول خرچی سے بھی روکا گیا ہے،مسلمانوں کو اعتدال اور میانہ روی اپنانے کی تاکید کی گئي ہے ۔
یہاں یہ نکتہ قابل توجہ ہے کہ قرآن مجید میں فضول خرچی کے لیے کبھی اسراف اور کبھی تبذیر کی تعبیر استعمال ہوئی ہے۔چنانچہ ایک مقام پر ارشاد ہوتا ہے:
وَ اٰتِ ذَاالۡقُرۡبٰی حَقَّہٗ وَ الۡمِسۡکِیۡنَ وَ ابۡنَ السَّبِیۡلِ وَ لَا تُبَذِّرۡ تَبۡذِیۡرًا﴿الاسراء:۲۶﴾
۲۶۔اور قریب ترین رشتے دار کو اس کا حق دیا کرو اور مساکین اور مسافروں کو بھی اور فضول خرچی نہ کیا کرو۔
اِنَّ الۡمُبَذِّرِیۡنَ کَانُوۡۤا اِخۡوَانَ الشَّیٰطِیۡنِ ؕ وَ کَانَ الشَّیۡطٰنُ لِرَبِّہٖ کَفُوۡرًا﴿الاسراء:۲۷﴾
۲۷۔ فضول خرچی کرنے والے یقینا شیاطین کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے۔
خرچ کرنے کے بارے میں اولین استحقاق قریب ترین رشتہ داروں کا ہے۔یہاں اگرچہ خطاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہے لہٰذا ذَاالۡقُرۡبٰی کے اولین مصداق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریبی رشتے دار ہیں تاہم آیت کا مفہوم وسیع ہے اور تمام رشتے داروں کو شامل کرتا ہے۔یہاں قریبی رشتہ دار،مسکین اور مسافروں جیسے مصارف کے تعین کا مطلب یہ ہے کہ مادی اقدار کا تعلق انسانی قدروں کے ساتھ ہے۔ مصرف اگر قریبی رشتے دار، مساکین اور راہ ماندہ مسافر ہیں تو ان کا حق ادا کرنا واجب ہے۔ اگر مصرف انسانی اور الٰہی قدروں کے خلاف ہو تو وہ تبذیر و اسراف ہے۔
اسراف اور تبذیر میں فرق:
اگر کسی مال کا مصرف اصولاً درست ہے مگر اس پر ضرورت سے زیادہ خرچ ہوتا ہے تو یہ اسراف ہے۔ مثلا گھر انسانی ضرورت ہے مگر اس پر ضرورت سے زیادہ خرچ کرنا اسراف ہے۔جبکہ تبذیر میں اس کا مصرف اصولاً درست نہیں ہوتا ہے۔ مثلاً فسق و فجور اور ریاکاری پرخرچ کرنا، اسی طرح کتوں ، بلیوں اور جوئے پر خرچ کرنا تبذیر ہے۔ چنانچہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ ؑنے فرمایا:
مَنْ اَنْفَقَ شَیْئاً فِی غَیْرِ طَاعَۃِ اللّٰہِ فَھُوَ مَبّذِّرٌ ۔۔۔۔(مستدرک الوسائل ۱۵:۲۶۹)جو شخص اپنا مال اطاعت الٰہی کے علاوہ دیگر جگہوں پر خرچ کرے، وہ تبذیر کرنے والا ہے۔
البتہ جہاں تبذیر ہے وہاں اسراف بھی ہے لیکن جہاں اسراف ہے وہاں تبذیر کا ہونا ضروری نہیں ہے۔ چنانچہ حضرت علی علیہ السلام سے منقول ہے:اَلَا وَ اِنَّ اِعْطَائَ الْمَالِ فِی غَیْرِ حَقِّہِ تَبْذِیرٌ وَ اِسْرَافٌ۔۔۔۔(نہج البلاغۃ خ ۱۲۶)
واضح رہے کہ ناحق جگہ پر مال خرچ کرنا تبذیر اور اسراف ہے۔
شیطان کا بھائی:
مال، اطاعت الٰہی کا بہترین ذریعے ہے۔ اس ذریعے کا اتلاف تبذیر ہے اور شیطان کا بنیادی ہدف ذرائع کا اتلاف ہے۔ لہٰذا وہ لوگ جو ان ذرائع کو بے مقصد چیزوں پر خرچ کر کے تلف کر دیتے ہیں وہ عمل میں شیطان کے بھائی قرار پاتے ہیں۔جس عمل سے انسان شیطان کا بھائی قرار پاتا ہے اس عمل سے اس کی زندگی سے خیر و برکت بھی اٹھ جاتی ہے اور نعمتوں میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔چنانچہ امام موسی کاظم علیہ السلام سے روایت ہے کہ :وَ مَنْ‏ بَذَّرَ وَ أَسْرَفَ‏ زَالَتْ عَنْهُ النِّعْمَة(ج‏75، ص: 327)
جو شخص اسراف و تبذیر کرتا ہے اس سے نعمت زائل ہوجاتی ہے۔
سورہ فرقان میں اللہ تعالی کے پسندیدہ بندوں کی یہ صفت بیان کی گئي ہےکہ جب وہ خرچ کرتے ہیں تو نہ بخل و کنجوسی کرتے ہیں اور نہ اسراف و فضول خرچی کرتے ہیں بلکہ (خرچ کرنے میں )میانہ رواورمعتدل ہوتے ہیں ۔چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے کہ:
وَ الَّذِیۡنَ اِذَاۤ اَنۡفَقُوۡا لَمۡ یُسۡرِفُوۡا وَ لَمۡ یَقۡتُرُوۡا وَ کَانَ بَیۡنَ ذٰلِکَ قَوَامًا﴿الفرقان:۶۷﴾
۶۷۔ اور یہ لوگ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ اسراف کرتے ہیں اور نہ بخل کرتے ہیں بلکہ ان کے درمیان اعتدال رکھتے ہیں۔
مؤمن کی صفت یہ ہے کہ وہ نہ اسراف کرتے ہیں نہ ہی کنجوسی کرتے ہیں۔ اسراف طاقت کا ضیاع اور کنجوسی طاقت کا جمود ہے۔
احادیث میں اس اعتدال کو دو برائیوں کے درمیان ایک نیکی قرار دیا ہے۔ چنانچہ مروی ہے کہ حضرت امام محمد باقر نے حضرت امام جعفر صادق علیہما السلام سے فرمایا:یا بنی عَلَیْکَ بِالْحَسَنَۃِ بَیْنَ السَّیِّئَتَیْنِ ۔۔۔ (بحار الانوار ۶۸: ۲۱۶)
بیٹا! تم دو برائیوں کے درمیان ایک نیکی اختیار کرو۔پھر اس آیت کی تلاوت فرمائی۔
اسراف کرنے واالے کی علامات:
رسول خدا ﷺ کا فرمان مبارک ہے:
أمّا علامةُ المُسرِفِ فأربَعةٌ : الفَخرُ بالباطِلِ ، ويَأكُلُ ما لَيسَ عِندَهُ ، ويَزهَدُ في اصطِناعِ المَعروفِ ، ويُنكِرُ مَن لا يَنتَفِعُ بِشَيءٍ مِنهُ.(تحف العقول : ۲۲)اسراف کرنے والے کی چار علامتیں ہیں: ۱۔غلط کاموں پر فخر کرتا ہے۔ ۲۔جو اس کا مال نہیں ہوتا اسے کھاتا ہے۔ ۳۔کارِ خیر میں حصہ نہیں لیتا۔۴۔جس سے فائدہ اٹھاتاہے اس کا انکار کرتا ہے۔
کم ترین اسراف:
امام حسن عسکری ؑ:إنَّ للسَّخاءِ مِقدارا ، فإن زادَ علَيهِ فهُو سَرَفٌ .( الدرّة الباهرة : ۴۳) سخاوت کی ایک حد مقرر ہے۔ اگر اس سے زیادہ ہوجائے تو وہ اسراف (فضول خرچی) ہے۔
رسول اللہ ﷺ : مِنَ السَّرَفِ أن تَأكُلَ كُلَّ ما اشتَهَيتَ.(كنز العمّال : ۷۳۶۶)جب چاہو کھانے لگ جانا بھی اسراف (فضول خرچی) ہے
امام جعفر صادق ؑ: لَيسَ فيما أصلَحَ البَدَنَ إسرافٌ ۔۔۔ إنّما الإسرافُ فيما أتلَفَ المالَ وأضَرَّ بالبَدَنِ .(بحارالانوار : ۷۵ / ۳۰۳ / ۶)جو چیز بدن کی اصلاح کرے اس میں اسراف نہیں ہوتا۔۔۔ اسراف تو اس بات میں ہوتا ہے جو مال کو تلف کردے اور بدن کو نقصان پہنچائے۔
قد سُئلَ عَن عَشَرَةِ أقْمِصَةٍ هَل ذلكَ مِنَ الاسراف؟ قال: لا ، ولكن ذلكَ أبقى لِثِيابهِ ، ولكنَّ السَّرَفَ أن تَلبَسَ ثَوبَ صَونِكَ في المكانِ القَذِرِ .(بحارالانوار : ۷۹ / ۳۱۷ / ۱)امام موسیٰ کاظم ع سے سوال کیا کہ ایک شخص کے پاس دس قمیصیں ہیں۔ تو کیا یہ اسراف ہوگا؟ فرمایا: نہیں بلکہ اس سے کپڑوں کو زیادہ بقا ملتی ہے۔ اسراف تو یہ ہے کہ تم سنبھال کر رکھنے والے کپڑوں کو گندی جگہوں پر استعمال کرو ۔

تاریخی مناسبت: ولادت امام حسین علیہ السلام
ماہ شعبان المعظم ایک عظیم مہینہ ہے۔روایات میں اس مہینے کو رسول اللہ ﷺ سے منسوب کیا گیاہے۔3 شعبان المعظم کو نواسہ رسول ﷺ سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کی ولادت باسعادت ہے۔جبکہ 4 شعبان کو حضرت ابوالفضل العباس علیہ السلام کی ولادت ہے اور اسی طرح امام زین العابدین علیہ السلام کی ولادت باسعادت بعض روایات میں 5 شعبان اور بعض میں 9 شعبان ذکر ہوئی ہے۔
جب امام حسین علیہ السلام دنیا میں تشریف لائے آپ کو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس لے جایا گیا۔ اور امام حسین علیہ السلام کی ولادت کی آپ کو خوشخبری دی۔آنحضرت نے ایک کان میں آذان اور دوسرے میں اقامت کہی اور سات دن گزرجانے کے بعد عقیقہ کروایا۔ اور اس نومولود کا نام حسین انتخاب کیا۔ اور ماں کو حکم دیا کہ امام حسین کے سر کے بال اتارے جائیں اور بالوں کے وزن کے برابر چاندی صدقہ دیں جناب فاطمہ سلام اللہ علیھا نے اس حکم کی تعمیل کی۔
ایک مرد مؤمن کی نظر میں عظمت امام حسین کی معرفت کیلئے پیغمبؐر عظیم الشان اسلام کی یہی احادیث کافی ہیں جن میں حضؐور سرور کائنات نے ارشاد فرمایا ہے: ”حُسَيْنٌ مِنِّي وَ أَنَا مِنْ حُسَيْن“؛ حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں۔
یعلی بن مرّہ کا کہنا ہے کہ پیغمبر اسلامﷺ نے حسین کو گود میں اٹھا کر فرمایا: ”حُسَيْنٌ مِنِّي وَ أَنَا مِنْ حُسَيْنٍ أَحَبَّ اللَّهُ مَنْ أَحَبَّ حُسَيْناً حُسَيْنٌ سِبْطٌ مِنَ الْأَسْبَاط“(مصابیح السنة، ج٢، ص ٢٨١)
حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں اور اللہ اسے محبوب رکھتا ہے جو حسین کو محبوب رکھتا ہے اور یاد رکھو! حسین میرے سبطوں میں سے ایک سبط ہے۔
حسین ؑ مجھ سے ہیں کا مطلب تو واضح ہے کہ وہ رسول ﷺ کی اولاد سے اور ان کے نواسے ہیں۔اور میں حسینؑ سے ہوں اس لیے فرمایا کہ میرے دین کی بقاء حسینؑ کی وجہ سے ہوگی۔
امام حسین کے فضائل و مناقب بیان کرنے والی بعض روایات میں اس طرح بھی نقل ہوا ہے پیغمبؐر امام حسن و حسین کو اپنے کاندھوں پر سوار کرکے لوگوں کے سامنے لیکر آتے اور ان کا تعارف کراتے تاکہ لوگ اچھی طرح ان کے مقام و مرتبہ کو پہچان لیں مثلاً: ایک مرتبہ حضوؐر سرورکائنات، سرکار رسالت اس انداز سے گھر سے باہر تشریف لائے کہ دائیں کاندھے پر حسؑن اور بائیں کاندھے پر حسیؑن تھے اور آنحضرتؐ کبھی امام حسن کو پیار کرتے اور کبھی امام حسین کو پیار کرتے اور اسی انداز سے لوگوں کے درمیان آئے اور پھر فرمایا: جس نے انہیں دوست رکھا اس نے مجھے دوست رکھا، جس نے ان سے عداوت کی اس نے مجھ سے عداوت کی۔
اس سلسلہ میں اہل سنت کے بہت سے علماء مثلاً: علامہ حجر عسقلانی وغیرہ نے پیغمبر اسلامﷺ کے امام حسین علیہ السلام سے اس انداز محبت کو نقل کیا ہے۔
روایت ہے کہ جب سرکار رسالت، حضؐور سرورکائنات ﷺنے امام حسین علیہ السلام کو اپنے دوش پر سوار فرمایا تو ایک شخص دیکھ کر کہنے لگا: واہ! کیا سواری ہے!
پیغمبرﷺ نے فوراً فرمایا: ”نِعمَ الرَّاکب هوَ“(صواعق المحرقہ ، ص١٣٥)
تم نے سواری دیکھی ہے کہ کتنی اچھی ہے ارے سوار بھی تو دیکھو کتنا اچھا ہے!
پیغبراسلام کی یہ حدیث مشہور ہے کہ ”الحسن والحسین سیداشباب اہل الجنة وابوہماخیرمنہما“ حسن اورحسین جوانان جنت کے سردارہیں اوران کے پدربزرگواران دنوں سے بہترہیں ۔صحابی رسول ﷺ جناب حذیفہ یمانی کابیان ہے کہ میں نے ایک دن سرورکائنات ﷺکوبے انتہا مسرور دیکھ کرپوچھاحضور،افراط مسرت کی کیاوجہ ہے فرمایااے حذیفہ آج ایک ایساملک نازل ہواہے جومیرے پاس اس سے قبل کبھی نہیں ایاتھا اس نے مجھے میرے بچوں کی سرداری جنت پرمبارک دی ہے اورکہاہے کہ”ان فاطمة سیدة نساء اہل الجنة وان الحسن والحسین سیداشباب اہل الجنة“ فاطمة جنت کی عورتوں کی سردارہیں اورحسنین جنت کے مردوں کے سردارہیں (کنزالعمال جلد ۷ ص ۱۰۷ ، تاریخ الخلفاص ۱۲۳ ،اسدالغابہ ص ۱۲ ،اصابہ جلد ۲ ص ۱۲ ،ترمذی شریف ،مطالب السول ص ۲۴۲ ،صواعق محرقہ ص ۱۱۴) ۔

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button