اصحاب رسولؓسلائیڈرشخصیات

حضرت ابو طالبؑ مومن دین و محافظ خاتم المرسلین

محسن اسلام حضرت ابوطالب علیہ السلام کے بارے میں مختلف قسم کی دلیلیں موجود ہیں جن کو ہم اختصار سے بیان کرتے ہیں:
علامہ ابوالفدا کہتے ہیں کہ ابوطالبؑ کے بعض اشعار(جن کا ترجمہ درج ذیل ہے) اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ انہوں نے آنحضرت کی رسالت کا صدقِ دل سے اقرار کیاتھا۔
ترجمہ اشعار ابیطالبؑ:
"اے محمدؐ تم نے مجھے دین اسلام کی طرف بلایا اور میں نے سمجھ لیا کہ در حقیقت تم صادق القول، راست باز اور امانت دار ہو اور بیشک مجھے یقین ہوگیا کہ دین محمدی تمام دنیا کے دینوں سے بہتر ہے خدا کی قسم جب تک میں زندہ ہوں قریش میں سے کوئی شخص تمہارا کچھ نہیں کرسکتا”
معصوم کے والدین کبھی کافر نہیں ہو سکتے نہ تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والدین کافر ہیں اور نہ حضرت علی علیہ اسلام کے جو لوگ ایسا سمجھتے ہیں وہ دین کے اصولوں سے ہی واقف نہیں کوئی معصوم کسی کافر کے گھر نہیں آسکتا۔اور نہ کبھی کافر کے گھر کھانا کھاتا ہے۔جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابو طالب کے گھر میں گوشت بھی کھایا۔جبکہ اس کے علاوہ کوئی تاریخ کی کتاب نہیں بتاتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی کافر کے گھر گوشت کھایا ہو۔کیونکہ اس پر خدا کا نام لے کر ذبح نہیں کیا جاتا اس لیے وہ گوشت کھانا حرام تھا۔جبکہ حضرت آدم علیہ اسلام کے وقت سے ہی وہ گوشت حرام ہے جس پر اللہ کا نام لے کر ذبح نہ کیا گیا ہو۔ یہ صرف شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ہی نہیں۔
ایک ناقابل تردید دلیل
سب ہی کا اس بات پر اتفاق ہے کہ:
جناب ابو طالب علیہ السلام کی زوجہ اور جناب علی علیہ السلام کی والدہ ماجدہ جنابہ فاطمہ بنت اسد ابتداء میں ہی اپنے ایمان کو ظاہر کر چکی تھیں۔ وہ جناب ابوطالب علیہ السلام کے یوم وفات تک انکے گھر میں انکی زوجہ کی حیثیت سے قیام پذیر رہیں کیا ایک مومنہ ایک مشرک کے ساتھ بحیثیت زوجہ اس کے گھر میں رہ سکتی ہے۔؟
ایمان ابو طالب کی آٹھ دلیلیں
ہم یہاں پر ایمان ابوطالب علیہ السلام کی گواہی د ینے والے ان بہت سے دلائل میں سے کچھ دلائل مختصر طور پر فہرست وار بیان کرتے ہیں: تفصیلات کے لئے ان کتابوں کی طرف رجوع کریں جو اسی موضوع پر لکھی گئی ہیں۔
دلیل اول :
حضرت ابوطالب علیہ السلام پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت سے پہلے اچھی طرح جانتے تھے کہ ان کا بھتیجا مقام نبوت تک پہنچے گا کیونکہ مؤرخین نے لکھا ہے کہ جس سفر میں حضرت ابوطالب علیہ السلام قریش کے قافلے کے ہمراہ شام گئے تھے وہ اپنے بارہ سالہ بھتیجے "محمدؐ” کو بھی اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ اس سفر میں انہوں نے آپؐ سے بہت سی کرامات مشاہدہ کیں۔
ان میں ایک واقعہ یہ ہے کہ جوں ہی قافلہ کتب عہدین کے بڑے عالم اور قدیم عرصے سے ایک گرجے میں مشغول عبادت”بحیرا“ نامی مسیحی راہب – جس کی زیارت کے لئے تجارتی قافلے رک جاتے تھے – کے قریب سے گذرا، تو راہب کی نظریں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر جم کررہ گئیں۔
بحیرانے تھوڑی دیر کے لئے حیران و ششدر رہنے اور گہری اور پر معنی نظروں سے دیکھنے کے بعد کہا: یہ بچہ تم میں سے کس سے تعلق رکھتا ہے؟ لوگوں نے ابوطالب علیہ السلام کی طرف اشارہ کیا، انہوں نے بتایا کہ یہ میرا بیٹا ہے۔ بحیرا نے کہا اس بچے کے ماں باپ زندہ نہیں ہونے چاہئیں. تو حضرت ابوطالب علیہ السلام نے کہا جی ہاں ان کے والدین کا انتقال ہوا ہے اور اب میں ان کے چچا کی حیثیت سے ان کا کفیل ہوں.
” بحیرا“ نے کہا: اس بچے کا مستقبل بہت درخشاں ہے، یہ وہی پیغمبر ہے جس کی نبوت و رسالت کی آسمانی کتابوں نے خبردی ہے اور میں نے اس کی تمام خصوصیات کتابوں میں پڑھی ہیں۔
ابوطالب علیہ السلام اس واقعہ اور اس جیسے دوسرے واقعات سے پہلے دوسرے قرائن سے بھی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نبوت اور معنویت کو سمجھ چکے تھے۔
دوسری دلیل:
اہل سنت کے عالم شہرستانی (صاحب ملل ونحل) اور دوسرے علماء کی نقل کے مطابق: ”ایک سال آسمان مکہ نے اپنی برکت اہل مکہ سے روک لی اور شدید قحط سالی نے لوگوں کو گھیر لیا تو ابوطالب علیہ السلام نے حکم دیا کہ ان کے بھتیجے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو – جو ابھی شیر خوار ہی تھے لایا جائے-، جب بچے کو کپڑے میں لپٹا ہوا لایا گیا اور انہیں دے دیا گیا تو وہ اسے لے کر خانہ کعبہ کے سامنے کھڑے ہوگئے اور تضرع و زاری کی حالت میں اس طفل شیر خوار کو تین مرتبہ اوپر کی طرف بلند کیا اور تین مرتبہ کہا:، پروردگارا، اس بچے کے حق کا واسطہ ہم پر برکت والی بارش نازل فرما۔
کچھ زیادہ دیر نہ گذری تھی کہ افق کے کنارے سے بادل کا ایک ٹکڑا نمودار ہوا اور مکہ کے آسمان پر چھا گیا اور بارش سے ایسا سیلاب آیا کہ یہ خوف پیدا ہونے لگا کہ کہیں مسجد الحرام ہی ویران نہ ہوجائے “۔
اس کے بعد شہرستانی لکھتا ہے کہ یہی واقعہ جو ابوطالب علیہ السلام کی اپنے بھتیجے کے بچپن سے اس کی نبوت ورسالت سے آگاہ ہونے پر دلالت کرتا ہے ان کے پیغمبر پر ایمان رکھنے کا ثبوت بھی ہے اور ابوطالب علیہ السلام نے بعد میں اشعار ذیل اسی واقعے کی مناسبت سے کہے تھے :و ابیضُ یستسقی الغمام بوجہہ ثمال الیتامی عصمة الارامل
” وہ ایسا روشن چہرے والا ہے کہ بادل اس کی خاطر سے بارش برساتے ہیں وہ یتیموں کی پناہ گاہ اور بیواؤں کے محافظ ہیں “
یلوذ بہ الھلاک من آل ہاشم فہم عندہ فی نعمة و فواضل
” بنی ہاشم میں سے جو چل بسے ہیں وہ اسی سے پناہ لیتے ہیں اور اسی کے صدقے نعمتوں اور احسانات سے بھرہ مند ہوتے ہیں،،
و میزان عدلہ یخیس شعیرة ووزان صدق وزنہ غیر ھائل
” وہ ایک ایسی میزان عدالت ہے کہ جو ایک جو برابر بھی ادھر اُدھر نہیں ہوتا اور درست کاموں کا ایسا وزن کرنے والا ہے کہ جس کے وزن کرنے میں کسی شک و شبہ کا خوف نہیں ہے “
قحط سالی کے وقت قریش کا ابوطالب علیہ السلام کی طرف متوجہ ہونا اور ابوطالب علیہ السلام کا خدا کو آنحضرتؐ کے حق کا واسطہ دینا شہرستانی کے علاوہ اور دوسرے بہت سے عظیم مورخین نے بھی نقل کیا ہے ۔“
تیسری دلیل:
اشعار ابوطالب علیہ السلام زندہ گواہ
مشہور اسلامی کتابوں میں ابوطالب علیہ السلام کے بہت سے اشعار ایسے ہیں جو ہماری دسترس میں ہیں ان میں سے کچھ اشعار ہم ذیل میں پیش کررہے ہیں : واللّٰه ان یصلوالیک بجمعھم حتی اوسد فی التراب دفینا
”اے میرے بھتیجے خدا کی قسم جب تک ابوطالب علیہ السلام خاک میں نہ سو یا ہو اور لحد کو اپنا بستر نہ بنالے دشمن ہرگز ہرگز تجھ تک نہیں پہنچ سکیں گے“
فاصدع بامرک ما علیک غضاضتہ و ابشر بذاک و قرمنک عیونا
”لہٰذا کسی چیز سے نہ ڈراور اپنی ذمہ داری اور ماموریت کا ابلاغ کر، بشارت دے اور آنکھوں کو ٹھنڈا کر“۔
ودعوتنی وعلمت انک ناصحی ولقد دعوت وکنت ثم امینا
”تونے مجھے اپنے مکتب کی دعوت دی اور مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ تیرا ہدف و مقصد صرف خیرخواہی ہے، تو اپنی دعوت میں امین اور صحیح ہے“
ولقد علمت ان دین محمدﷺ
من خیر ادیان البریة دیناً
” میں یہ بھی جانتا ہوں کہ محمدؐ کا دین و مکتب تمام دینوں اور مکتبوں میں سب سے بہتردین ہے“۔
اور یہ اشعار بھی انہوں نے ہی ارشاد فرمائے ہیں:
الم تعلموا انا وجدنا محمداً
رسولا کموسیٰ خط فی اول الکتب
” اے قریش ! کیا تمہیں معلوم نہیں ہے کہ ہم نے محمد(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کو موسیٰ (علیہ السلام) کی مانند خدا کا پیغمبر اور رسول پایا جن کے آنے کی پیشین گوئی پہلی آسمانی کتابوں میں لکھی ہوئی ہے“۔
وان علیہ فی العباد محبة
ولاحیف فی من خصہ اللہ فی الحب
” خدا کے بندے اس سے خاص لگاؤ رکھتے ہیں اور جسے خدا وند متعال نے اپنی محبت کے لئے مخصوص کرلیا ہو اس شخص سے یہ لگاؤ بے جا نہیں ہے۔“
ابن ابی الحدید نے جناب ابوطالب علیہ السلام کے کافی اشعار نقل کرنے کے بعد – جن کا مجموعہ ابن شہر آشوب نے ” متشابہات القرآن“ میں تین ہزار اشعار پر مشتمل بتایا ہے – کہتے ہیں: ”ان تمام اشعار کے مطالعے سے کسی قسم کے شک و شبہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی کہ ابوطالب علیہ السلام اپنے بھتیجے کے دین پر ایمان رکھتے تھے“۔
چوتھی دلیل:
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے بہت سی ایسی احادیث بھی نقل ہوئی ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ان کے فداکار چچا ابوطالب علیہ السلام کے ایمان پر گواہی دیتی ہیں۔ منجملہ این کتاب ” ابوطالب علیہ السلام مؤمن قریش“ کے مؤلف کی نقل کے مطابق ایک یہ ہے کہ جب ابوطالب علیہ السلام وفات پاگئے تو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کی تشییع جنازہ کے بعد اپنے چچا کی وفات کی مصیبت میں سوگواری کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
”ہائے میرے بابا! ہائے ابوطالب! میں آپ کی وفات سے کس قدر غمگین ہوں کس طرح آپ کی مصیبت کو بھول جاؤں، تو نے بچپن میں میری پرورش اور تربیت کی اور بڑے ہونے پر میری دعوت پر لبیک کہی، میں آپ کے نزدیک اس طرح تھا جیسے آنکھ خانہ چشم میں اور روح بدن میں“۔
نیز آپ ہمیشہ یہ فرمایا کرتے تھے:” مانالت منی قریش شیئًا اکرھہ حتی مات ابوطالب علیہ السلام
”اہل قریش اس وقت تک کبھی میرے خلاف ناپسندیدہ اقدام نہ کرسکے جب تک ابوطالب علیہ السلام کی وفات نہ ہوگئی“۔
پانچویں دلیل:
ایک طرف سے یہ بات مسلم ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ابوطالب علیہ السلام کی وفات سے کئی سال پہلے یہ حکم مل چکا تھا کہ وہ مشرکین کے ساتھ کسی قسم کا دوستانہ رابطہ نہ رکھیں، اس کے باوجود ابوطالب علیہ السلام کے ساتھ اس قسم کے تعلق اور مہر و محبت کا اظھار اور ایک گھر میں رہن سہن اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم انہیں مکتب توحید کا معتقد جانتے تھے، ورنہ یہ بات کس طرح ممکن ہوسکتی تھی کہ دوسروں کو تو مشرکین کی دوستی سے منع کریں اور خود ابوطالب علیہ السلام سے عشق کی حدتک مہر و محبت رکھیں حتی کہ ان کے گھر میں رہیں!
چھٹی دلیل:
اہل بیت پیغمبرؐ  کے ذریعے سے ہم تک پہنچنے والی احادیث میں بھی حضرت ابوطالب علیہ السلام کے ایمان و اخلاص کی بڑی کثرت سے مستندات نظر آتی ہیں، جن کا یہاں نقل کرنا طول کا باعث ہوگا، یہ احادیث منطقی استدلالات پر مشتمل ہیں ان میں سے ایک حدیث چوتھے امام علیہ السلام سے نقل ہوئی ہے کہ امام علیہ السلام نے اس سوال کے جواب میں – کہ کیا ابوطالب علیہ السلام مؤمن تھے؟ ارشاد فرمایا:”ان ھنا قوماً یزعمون انہ کافر“ ، اس کے بعد فرمایا کہ: ” تعجب کی بات ہے کہ بعض لوگ یہ کیوں خیال کرتے ہیں کہ ابوطالب علیہ السلام کا فرتھے؟ کیا وہ نہیں جانتے کہ وہ اس طرح پیغمبر پر طعن کررہے ہیں؟ کیا ایسا نہیں ہے کہ قرآن کی کئی آیات میں حکم دیا گیا ہے کہ: مؤمن عورت ایمان لانے کے بعد کافر کے ساتھ نہیں رہ سکتی اور یہ بات مسلم ہے کہ فاطمہ بنت اسد سلام اللہ علیھا سابق ایمان لانے والوں میں سے ہیں اور وہ آخر تک ابوطالب علیہ السلام کی زوجیت میں رہیں۔“
ساتویں دلیل:
ابوطالب علیہ السلام تین سال تک شعب میں رہیں۔ ان تمام باتوں کو چھوڑتے ہوئے اگر انسان ہر چیز میں ہی شک کرے تو کم از کم اس حقیقت میں تو کوئی شک نہیں کرسکتا کہ ابوطالب علیہ السلام اسلام اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے درجہ اول کے حامی و مددگار تھے، اسلام اور پیغمبر کے لئے ان کی حمایت اس درجہ تک پہنچی ہوئی تھی کہ جسے کسی طرح بھی رشتہ داری اور قبائلی تعصبات سے منسلک نہیں کیا جاسکتا۔
اس کا زندہ نمونہ شعب ابوطالب علیہ السلام کا واقعہ ہے:
تمام مؤرخین نے لکھا ہے کہ جب قریش نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور مسلمانوں کا شدید اقتصادی، سماجی اور سیاسی بائکاٹ کرلیا اور اپنے ہر قسم کے روابط ان سے منقطع کرلئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے واحد حامی اور مدافع، ابوطالب علیہ السلام نے اپنے تمام کاموں سے ہاتھ کھینچ لیا اور برابر تین سال تک ہاتھ کھینچے رکھا اور بنی ہاشم کو ایک درہ کی طرف لے گئے جو مکہ کے پہاڑوں کے درمیان تھا اور ”شعب ابوطالب علیہ السلام“ کے نام سے مشہور تھا اور وہاں پر سکونت اختیار کر لی۔
ان کی فدا کاری اس مقام تک جا پہنچی کہ قریش کے حملوں سے بچانے کےلئے کئی ایک مخصوص قسم کے برج تعمیرکرنے کے علاوہ ہر رات پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ان کے بستر سے اٹھاتے اور دوسری جگہ ان کے آرام کے لئے مہیا کرتے اور اپنے فرزند دلبند علی کو ان کی جگہ پر سلادیتے اور جب حضرت علی کہتے: ”بابا جان! میں تو اسی حالت میں قتل ہوجاؤں گا “ تو ابوطالب علیہ السلام جواب میں کہتے: میرے پیارے بچے! بردباری اور صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑو، ہر زندہ موت کی طرف رواں دواں ہے، میں نے تجھے فرزند عبد اللہ کا فدیہ قرار دیا ہے۔
یہ بات اور بھی توجہ طلب ہے کہ جو حضرت علی علیہ السلام باپ کے جواب میں کہتے ہیں کہ بابا جان میرا یہ کلام اس بناپر نہیں تھا کہ میں راہ محمدؐ میں قتل ہونے سے ڈرتاہوں، بلکہ میرا یہ کلام اس بنا پر تھا کہ میں یہ چاہتا تھا کہ آپ کو معلوم ہوجائے کہ میں کس طرح سے آپ کا اطاعت گزار اور احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نصرت ومدد کے لئے آمادہ ہوں۔
قارئین کرام ! ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ جو شخص بھی تعصب کو ایک طرف رکھ کر غیر جانبداری کے ساتھ ابوطالب علیہ السلام کے بارے میں تاریخ کی سنہری سطروں کو پڑھے گا تو وہ ابن ابی الحدید شارح نہج البلاغہ کا ہم صدا ہوکر کہے گا:
ولولا ابوطالب علیہ السلام وابنہ لما مثل الدین شخصا وقاما
فذاک بمکة آوی وحامی وھذا بیثرب جس الحماما
” اگر ابوطالب علیہ السلام اور ان کا بیٹا نہ ہوتے تو ہرگزمکتب اسلام باقی نہ رہتا اور اپنا قدسیدھا نہ کرسکتا ،ابوطالب علیہ السلام تو مکہ میں پیغمبر کی مدد کےلئے آگے بڑہے اور علی علیہ السلام یثرب (مدینہ) میں حمایت اسلام کی راہ میں موت بہنور میں اتر گئے“
آٹھویں دلیل:
ابوطالب علیہ السلام کا سال وفات ”عام الحزن“
ابوطالب علیہ السلام کی تایخ زندگی، جناب رسالتمآب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے ان کی عظیم قربانیاں اور رسول اللہ اور مسلمانوں کی ان سے شدید محبت کو بھی ملحوظ رکھنا چاہئے۔ ہم یہاں تک دیکھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت ابوطالب علیہ السلام کی موت کے سال کا نام ”عام الحزن“ رکھا یہ سب باتیں اس امر کی دلیل ہیں کہ حضرت ابوطالب علیہ السلام کو اسلام سے عشق تھا اور وہ جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اس قدر مدافعت کرتے تھے وہ محض رشتہ داری کی وجہ سے نہ تھی بلکہ اس دفاع میں آپ علیہ السلام کی حیثیت ایک مخلص، ایک جاں نثار اور ایسے فدا کار کی تھی جو اپنے رہبر اور پیشوا کا تحفظ کررہا ہو۔“
بات اگر رشتہ داری کی ہوتی تو اپنے بیٹے کو آپ کا فدیہ قراردینے کی بات بڑی عجیب ہوگی کیونکہ بیٹا رشتے میں بھتیجے سے قریب تر ہے۔
https://erfan.ir/urdu/18015.html

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button