احادیث امام جعفر صادق علیہ السلامحدیثسلائیڈر

امام جعفر صادق علیہ السلام کی فرمائشات

بنی نوع انسان، انسان کی سعادت اور نیک بختی کے فقط قرآن اور اہل بیت ہی ضامن ہیں اور ان دوگرانقدرچیزوں کے بغیرانسان کی کامیابی اور کامرانی محال ہے۔ اگرانسان دنیاوآخرت کاخواہاں ہے تواس کوچاہئے کہ ان دوسے متمسک رہے۔
عظیم مفکر، عارف اور فیلسوف فرماتے ہیں کہ معارف الہی اور سعادت عظمی اور رسول اکرمؐ اور ان کے اہل بیتؑ کی تعلیمات کے علاوہ جوکہ حجج الہی، معدن رحمت اور محال برکات خدائے متعال ہیں اور کہیں نہیں مل سکتی اور نہ ہی ملنے کاامکان ہے۔(1)
الحمداللہ کہ ہمارے مکتب میں معارف الہی کے ذخائربہت زیادہ ہیں اور کسی بھی قسم کی کمی قابل تصورنہیں ہے، لیکن ہم نے ان معارف الہی کوکس حدتک مورد استفادہ قراردیاہے اور کس قدراس کو بروئے کارلائے ہیں شہیدمطہری اس کے بارے میں اپنی گرانقدرکتاب ”سیری در نہج البلاغہ“ میں فرماتے ہیں کہ ہم شیعوں کواس بات کامعترف ہونا چاہئے کہ ہم جن کی پیروی کا دم بھرتے ہیں ان پردوسروں سے زیادہ ظلم یاکم ازکم کوتاہی ہم نے توضرور کی ہے، بنیادی طور پرہماری کوتاہیاں ہی ظلم ہیں۔
حضرت علی علیہ السلام کوہم نے یا تو پہچانا ہی نہیں یا پہچاننے کی کوشش نہیں کی۔ ہماری زیادہ تر کوششیں حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں نبی اکرمؐ کے اقوال کی تحقیق یاپھرجن لوگوں نے ان کے اقوال سے چشم پوشی کی ہے، پرسب وستم اور برا بھلا کہنے میں صرف ہوتی ہے۔ خود حضرتؑ کی واقعی اور عینی شخصیت کے بارے میں ہم نے کوئی کام نہیں کیاہے اور اسی طرح باقی آئمہ معصومینؑ کی شخصیات کو اور ان کی تعلیمات کو اب تک نہیں پہچاناہے کب تک ہم خواب غفلت میں رہیں گے؟ کب ہم بیدارہوجائیں گے؟ کیاہماری کامیابی اسی میں ہے کہ جس طرح ہم ہیں؟ ہرگزنہیں کیوں کہ ہم تعلیمات اسلامی سے بہت دورہیں۔
جمال الدین افغانی فرماتے ہیں ”اگرہم مغرب کو اسلام سے آشنا کروانا چاہتے ہیں توہم ان کو بتادیں کہ ہم صحیح معنوں میں مسلمان نہیں ہیں، ہم جغرافیائی مسلمان ہیں تاکہ وہ لوگ ہمارے گھروں اور شہروں میں آکر یہ ظلم وستم، ناانصافیاں، فحشاء اور منکرات دیکھ کراسلام سے متنفر نہ ہوجائیں“ اگرہمیں حقیقی زندگی گزارنی ہے توہم پریہ فرض عائدہوتاہے کہ ہم اسلامی تعلیمات اور اہل بیت کی فرمائشات پرعمل پیراہوجائیں اور اسی میں ہماری نیک بختی اور سعادت پوشیدہ ہے حقیقتاً آئمہ معصومینؑ کی تعلیمات اور فرمائشات میں حیات ہے۔ اس حیات کاحصول اسی وقت ممکن ہے جب ہم فرمائشات معصومین کو قولا و فعلا اپنائیں گے ان ہی کے ذریعہ سے ہم صراط مستقیم پرگامزن ہوسکتے ہیں۔
ہمارے رئیسِ مذہب امام جعفر صادق علیہ السلام کی فرمائشات بہت زیادہ ہیں لیکن صرف چندفرمائشوں پراکتفا کریں گے اور روایت بیان کریں گے۔ اس کے ہرجملے میں دریائے بیکراں سمویاہواہے، اس روایت کازیادہ تعلق ان افرادکے ساتھ ہے جو درحال حاضر علومِ دین اور معارفِ اہل بیت کے زیور سے آراستہ ہورہے ہیں کیونکہ وہ ایسے ہدف کے متلاشی ہیں جس کے حصول میں زیادہ ذمہ داریاں ہیں اگرچہ روایت ایک خاص شخص کے بارے میں ہے لیکن امام صادق علیہ السلام کے فرامین اور احکام کسی خاص شخص کے ساتھ مخصوص نہیں ہیں بلکہ یہ احکام وفرامین سب کے لئے ہیں جن پرعمل پیرا ہونا سب پر واجب ہے خاص کرطلابِ علومِ دینی پرجومعارف الہی کے حصول میں مشغول ہیں۔
عنوان بصری جو مالک بن انس کے پاس آتا جاتا تھا کہتا ہے کہ جب امام صادق علیہ السلام ہمارے شہرمیں آئے تو میں آپؑ کی خدمت میں حاضرہوا کرتاتھا کیونکہ میں دوست رکھتا تھا  کہ کسب فیص کروں، ایک دن آپؑ نے مجھ سے فرمایا کہ میں ایساشخص ہوں جس کے پاس لوگوں کی آمد و رفت زیادہ ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود میں دن رات میں خاص ورد اور اذکار بجالاتا ہوں تم میرے اس کام میں رکاوٹ بنتے ہو، تم پہلے کی طرح مالک بن انس کے پاس جایا کرو، میں آپؑ کی اس طرح کی گفتگوسے افسردہ اور غمگین ہوا اور آپ کے یہاں سے چلاگیااور اپنے دل میں کہا کہ اگرامامؑ مجھ میں کوئی خیردیکھتے تومجھے اپنے پاس بلاتے اور اپنے آپؑ سے محروم نہ کرتے۔ میں رسولؐ کی مسجدمیں گیا، اور آپ پرسلام کہا، دوسرے دن بھی رسولؐ کے روضے پرگیا دو رکعت نماز پڑھی اور دعاکے لئے ہاتھ اٹھائے اور کہا کہ اے میرے خدا، میرے لئے امام صادق علیہ السلام کادل نرم کر، اور اس کے علم سے مجھے وہ عطا کر کہ جس کے ذریعہ میں صراط مستقیم کی طرف ہدایت پاؤں۔ اس کے بعد اس غمگین اور اندوہ ناک حالت میں گھرلوٹ آیا اور مالک بن انس کے یہاں نہیں گیاکیونکہ میرے دل میں امام صادق علیہ السلام کی محبت پیدا ہوچکی تھی بہت مدت سوائے نمازکے میں اپنے گھرسے باہرنہیں نکلتاتھا یہاں تک کہ میراصبرختم ہو چکا اور ایک دن امام صادق علیہ السلام کے دروازے پرگیااور اندرجانے کی اجازت طلب کی، آپؑ کاخادم باہر آیا اور پوچھاکہ تجھے کیاکام ہے؟ میں نے کہا کہ میں امامؑ کی خدمت میں حاضرہونا چاہتا ہوں اور سلام کرنا چاہتا ہوں، خادم نے جواب دیاکہ آقا محراب عبادت میں نماز میں مشغول ہیں اور وہ واپس گھرکے اندر چلاگیااور میں آپؑ کے گھرکے دروازے پر بیٹھ گیا۔ زیادہ دیرنہیں ہوئی تھی کہ وہ خادم دوبارہ لوٹ آیااور کہا کہ اندر آجاؤ، میں گھرمیں داخل ہوا اور آنحضرتؑ پرسلام کیا اور آپ نے میرے سلام کاجواب دیااور فرمایاکہ بیٹھ جاؤ، خدا تجھے مورد مغفرت قراردے، میں آپؑ کی خدمت میں بیٹھ گیا، آپؑ نے اپناسرمبارک جھکایا اور بہت دیرکے بعداپناسربلندکیا اور فرمایا: تمہاری کنیت کیاہے؟ میں نے عرض کی ابوعبداللہ، آپؑ نے فرمایا: خداتجھے اس کنیت پر ثابت رکھے اور توفیق عنایت کرے۔ تم کیاچاہتے ہو؟ میں نے کہاکہ اگراس ملاقات میں سوائے اس دعاکے جوآپؑ نے فرمائی ہے اور کچھ فائدہ بھی حاصل نہ ہوتویہ بھی میرے لئے بہت قیمتی اور ارزش مندہے میں نے عرض کی کہ میں نے خداسے طلب کیا ہے کہ خدا آپؑ کے دل کومیرے لئے مہربان کردے اور میں آپ کے علم سے فائدہ حاصل کروں کہ خداوند نے میری یہ دعاقبول کرلی ہوگی۔ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : ”اے ابوعبداللہ ! علم پڑھنے سے حاصل نہیں ہوتاہے بلکہ علم ایک نورہے جس کے دل میں چاہتاہے ڈال دیتاہے، پھرفرمایاپس اگرتم علم حاصل کرناچاہو تو پہلے اپنے اندرحقیقت بندگی طلب کرواور علم کواس لئے سیکھوں کہ اس سے کام لو اور اللہ سے سمجھ کی دعاکرو تاکہ وہ حقائق کو تم پرظاہر کرے۔ حقیقت عبودیت کی تفسیر میں تین صورتوں کے تصور کو امکان میں لایاجاسکتاہے:
۱۔ ممکن ہے کہ جملے کامفہوم یہ ہوکہ علم کی فکرسے پہلے بندگی کی فکرمیں رہو۔
۲۔ عبودیت کی حقیقت کواپنے اندرتلاش کرو یہ مفہوم بہت غور طلب، اور امیرالمومنینؑ سے منسوب شعرکی طرف توجہ دلاتاہے جس میں آپؑ فرماتے ہیں ”دواؤک فیک و ما تشعر و دائک منک وما تبصر“۔
بہرحال بنی نوع انسان فطرتاً کمال کادلدادہ ہے اور اسے محبوب کی تلاش رہتی ہے عبودیت کاخمیر انسان کے وجودمیں مخفی ومستورہے حضرت سیدالساجدین علیہ السلام ”صحیفہ سجادیہ“ کی پہلی دعا میں ارشاد فرماتے ہیں ”خداوندنے بندوں کواپنی محبت عطاکی ہے“ یعنی بندے فطری طور پر خدا دوست ہیں جہاں تک ہوسکے ہوا وہوس کو دور رکھو، نفس امارہ کی مخالفت کرو تاکہ گوہرمخفی (حبِ الہی) فعلیت میں آئے اور تمہارے اندرتشنگی میں حقیقت ظہور پیدا ہو۔
عنوان بصری کہتاہے کہ اے شریف! تو آپ نے فرمایا: اے ابوعبداللہ، کہو، میں نے کہا: ماالحقیقة العبودیة؟ بندگی کی حقیقت کیاہے ؟ آپؑ نے فرمایا بندگی کی حقیقت تین چیزوں میں ہے۔
۱۔ بندہ اس چیزکو کہ جو خداوندعالم نے اسے دیاہے اپنی ملکیت نہ سمجھے کیونکہ بندہ کسی چیزکامالک نہیں ہوا کرتابلکہ مال کواللہ تعالی کامال سمجھے اور اسی راستے میں کہ جس کاخدانے حکم دیاہے خرچ کرے۔
۲۔ اپنے امورکی تدبیر میں اپنے آپ کو ناتوان اور ضعیف سمجھے۔
۳۔ اپنے آپ کو اللہ تعالی کے اوامربجالانے میں مشغول رکھے اگربندہ اپنے آپ کومال کامالک نہ سمجھے توپھراس کے لئے اپنے مال کو اللہ تعالی کے راستے میں خرچ کرناآسان ہوجائے گااور اپنے کاموں اور امور کی تدبیر و نگہداری خداکے سپرد کردے تو اس کے لئے مصائب کاتحمل کرنا آسان ہوجائے گا اور اگربندہ خداکے احکام کی بجاآور ی میں مشغول رہے تواپنے قیمتی اور گرانقدر وقت کو فخر و مباہات اور ریاکاری میں خرچ نہیں کرے گا اگر خدا اپنے بندوں کو ان تین چیزوں سے نوازدے تو اس کے لئے دنیا اور شیطان اور مخلوق آسان ہوجائے گی اور وہ اس صورت میں مال کو زیادہ کرنے اور فخر و مباہات کے لئے طلب نہیں کرے گااور چیز لوگوں کے نزدیک عزت اور برتر شمار ہوتی ہے اسے طلب نہیں کرے گا اور یہ تقوی کاپہلا درجہ ہے، میں نے عرض کیا کہ اے امام مجھے کوئی وظیفہ اور دستورعنایت فرمائیں تو آپ نے فرمایا”میں تجھے نو چیزوں کی وصیت کرتاہوں اور یہ میری وصیت اور دستورالعمل ہر اس شخص کے لئے ہے جو حق کا راستہ طے کرنا چاہتا ہے اور میں خداسے سوال کرتاہوں کہ خداتجھے ان پرعمل کرنے کی توفیق دے۔ تین چیزیں نفس کی ریاضت کے لئے ہیں اور تین دستورالعمل بردباری کے لئے اور تین دستورالعمل علم کے بارے میں ہیں۔ تم انہیں حفظ کرلواور خبردار ان کے بارے میں سستی نہ کرو“ عنوان بصری کہتاہے کہ میری تمام توجہ آپؑ کی فرمائشات کی طرف تھی آپؑ نے فرمایا: ”وہ تین چیزیں جونفس کی ریاضت کے لئے ہیں:
۱۔ خبردار رہو کہ جس چیز کی طلب اور خواہش نہ ہو اسے مت کھاؤ۔
۲۔ جب تک بھوک نہ لگے کھانا نہ کھاؤ۔
۳۔ جب کھانا کھاؤ  تو  حلال کھانا کھاؤ اور کھانے سے پہلے بسم اللہ پڑھو۔ آپؑ نے اس کے بعد رسول اللہؐ کی حدیث نقل کی اور فرمایا کہ انسان برتن کو پرنہیں کرتا مگرشکم پرکرنا اس سے بدترہوتاہے اور اگرکھانے کی ضرورت ہوتو اس کا ایک حصہ کھانے کے لئے اور ایک حصہ پانی کے لئے اور ایک حصہ سانس لینے کے لئے قراردے۔
1. وہ تین دستورالعمل جوحلم کے بارے میں ہیں وہ یہ ہیں: ۱۔ جوشخص تجھ سے کہے کہ اگرتونے ایک کلمہ مجھ سے کہا تو میں  تیرے جواب میں دس کلمے کہوں گا تو اس کے جواب میں اگر تونے  دس  کلمے مجھے کہے تو اس کے جواب میں مجھ سے ایک کلمہ نہیں سنے گا۔۲۔ جوشخص تجھے برا بھلا کہے تو اس کے جواب میں کہہ دے، کہ اگرتم سچ کہتے ہو تو خدا مجھے معاف کردے اور اگرجھوٹ بول رہے ہو تو خدا تجھے معاف کردے۔
جوشخص گالیاں دینے کی دھمکی دے توتم اسے نصیحت اور دعا کا وعدہ  کرو۔
2. وہ تین دستورالعمل جوعلم کے بارے میں ہیں وہ یہ ہیں: الف) جوکچھ نہیں جانتے ہو اس کا علماء سے سوال کرولیکن توجہ رہے کہ تیرا سوال کرنا امتحان اور اذیت دینے کے لئے نہیں ہونا چاہئے۔
ب) اپنی رائے پرعمل کرنے سے پرہیز کرو اور جتنا کرسکتے ہو احتیاط کواپنے ہاتھ سے نہ جانے دو۔
ج)۔ اپنی رائے سے (بغیرکسی مدرک شرعی کے) فتوی دینے سے پرہیزکرو اور اسے اس طرح بچو کہ جیسے پھاڑ دینے والے شیرسے بچتے ہو اپنی گردن کو لوگوں کے لئے پل قرار نہ دو اس کے بعد آپؑ نے فرمایا  کہ اب اٹھ کرچلے جاؤ، بہت مقدار میں، میں نے تجھے نصیحت کی ہے اور میرے ذکرکے بجالانے میں زیادہ مزاحم اور رکاوٹ نہ بنو کیونکہ میں اپنی جان کی قیمت کا قائل ہوں اور سلام ہو اس پر جو ہدایت کی پیروی کرتاہے۔ 2
علامہ وعارف کامل قاضی طباطبائی فرماتے ہیں کہ حدیث عنوان بصری کو لکھے اور اس پرعمل کریں اور ہمیشہ اس کوساتھ رکھیں اور ہفتہ میں ایک دو بار اس کامطالعہ کریں۔
1. شرح اصول کافی درمقدمہ
2. بحارالانوار، علامہ مجلسی ج۱ ص۲۲۴۔۲۲۶
https://alhassanain.org/m/urdu/?com=content&id=293

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button