رمضان المبارکسلائیڈرمکتوب دروس

رمضان، قرآن کی حفاظت کا مہینہ

رمضان المبارک کی فضیلت کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہ ماہِ صیام ہے۔ اس ماہ میں مسلمان تسلسل کے ساتھ روزے رکھتے ہیں اور اللہ کے اس حکم کی تعمیل کرتے ہیں: فَمَنْ شَہِدَ مِنْكُمُ الشَّہْرَ فَلْيَصُمْہُ(البقرہ۲:۱۸۵)’’تم میں سے جو شخص ماہ رمضان کو پائے اس میں روزے رکھے‘‘۔ چنانچہ دنیا کے تمام خطوں میں خواہ وہ مشرق ہو یا مغرب، شمال ہو یا جنوب، اہلِ ایمان اس ماہ میں روزے کا اہتمام کرتے ہیں۔ اس طرح روزہ مسلمانوں کی روحانی پاکیزگی اور تقویٰ و طہارت کا ذریعہ بنتاہے اور عالمی وحدت کا اسلامی شعور عطا کرتاہے۔
رمضان المبارک کی فضیلت کی دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ قرآن پاک کے نازل ہونے کا مہینہ ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے:
شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنٰتٍ مِّنَ الْہُدٰى وَالْفُرْقَانِ (البقرہ۲: ۱۸۵)رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کے لیے ہدایت نامہ ہے اور ہدایت اور حق وباطل میں فرق کرنے والے واضح دلائل پر مشتمل ہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: الصِّیَامُ وَالْقُرْآنُ یَشْفَعَانِ لِلْعَبْدِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ،روزہ اور قرآن قیامت کے دن مومن کی شفاعت کریں گے۔ (احمد، من مسند بنی ہاشم، مسند عبداللہ بن عمرو بن العاص، حدیث: ۶۴۵۴)
اسی لیے مسلمان، رمضان المبارک میں کثرت سے قرآن کی تلاوت کرتے ہیں، انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی۔ گویا نزول قرآن کا مہینہ قرآن کریم کی حفاظت کا بھی مہینہ ہے۔ مسلمانوں کے کسی محلہ میں جائیے جہاں مسجد ہوگی، وہاں اوّل شب میں تلاوت قرآن کی صدا بلند ہوگی۔ یہ روحانی منظر پوری دنیا کے طول وعرض میں دکھائی دے گا۔
حفاظتِ قرآن کی ذمہ داری
اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن کریم کو محفوظ کرنے کی ذمہ داری خودلی ہے، کسی انسان پر نہیں ڈالی ہے اور ارشاد فرمایا ہے:
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ (الحجر۱۵:۹)بے شک ہم نے ہی قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔
لفظ’ذکر‘ کی حفاظت سے مراد صرف قرآن کریم کی حفاظت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عربی قاعدہ کے مطابق نزلنا کا مصدر تنزیل ہے جو باب تفعیل سے آتاہے۔ اس کے معنی تھوڑا تھوڑا نازل کرنے کے ہیں۔ یہ خصوصیت صرف قرآن کریم کی ہے کہ وہ تھوڑا تھوڑا ۲۳ برسوں میں نازل ہوا۔ توریت وانجیل کی یہ خصوصیت نہیں ہے۔ اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ توریت وانجیل میں لفظی اور معنوی تحریف ہوئی۔ عبارتوں میں کمی اور زیادتی کی گئی۔ مدلول اور مصداق بدلے گئے۔ ترجمے اور مفاہیم میں تبدیلی ہوئی۔ لیکن یہ صفت صرف قرآن کریم کی ہے کہ آج تک چودہ سو سال سے زیادہ گزرنے کے باوجود قرآن میں معمولی ترمیم و اضافہ نہیں ہوا۔ اس کی آیت، الفاظ اور حروف تک محفوظ رہے۔حسن بصری فرماتے ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ کو منظور تھا کہ وہ اپنی شریعت کو قیامت تک باقی رکھے، اس لیے اس نے قرآن کی حفاظت کی خود ذمہ داری لی‘‘۔ (محمود بن عبداللہ الآلوسی، روح المعانی، جلد۱۲،ص ۴۰۹)
قرآن کریم کی حفاظت کا ایک پہلو یہ ہے کہ و ہ عربی زبان میں نازل ہوا۔ عربی زبان کی خصوصیت یہ بھی ہے کہ تقریباً پندرہ سو سال سے آج تک اس زبان کے بنیادی ڈھانچے میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں ہوئی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں جو عربی بولی،پڑھی اور سمجھی جاتی تھی وہ آج بھی سمجھی جاتی ہے۔ اس کی لسانی بناوٹ اور گرامر میں بہت کم تبدیلیاں ہوئی ہیں۔ چنانچہ قرآن کو جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد کے لوگوں نے سنا اور سمجھا، آج بھی اسی طرح لوگ پڑھ اور سمجھ رہے ہیں، جب کہ دوسری زبانوں میں عہد بعہد تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں۔ ہزار سال بعد تو زبانوں کی بنیادی ساخت بدل جاتی ہے۔ اس عہدکی کتابوں کا مابعد کی نسل کے لیے پڑھنا اور سمجھنا مشکل ہوجاتاہے۔ اس کو ماہرین زبان ہی پڑھ اور سمجھ سکتے ہیں۔ قرآن ہر عہد کے لوگوں کے لیے اعلان کرتا ہے:
وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ فَہَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ (القمر۵۴:۲۲) ہم نے ذکر کے لیے قرآن کو آسان کردیا ہے تو کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ہے؟
غیرمسلم محققین کا اعتراف
قرآن کریم کے محفوظ ہونے کی شہادت وہ مستشرقین بھی دیتے ہیں، جو قرآن کریم کو کلامِ الٰہی نہیں مانتے بلکہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کلام کہتے ہیں۔ چنانچہ فلپ کے ہٹی نے لکھا ہے: ’’جدید نقاد اتفاق کرتے ہیں کہ موجودہ قرآن کے نسخے ٹھیک اسی نسخے کے مطابق ہیں، جسے زید بن ثابت نے اپنے ہاتھوں سے لکھا تھا۔ اور یہ کہ آج کا قرآن وہی ہے جسے محمد [صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم] نے پیش کیا تھا‘‘۔(History of the Arabs، ص ۱۲۳)
پٹنہ یونیورسٹی میں ایک مسلمان پروفیسر عمرہ کے لیے خانہ کعبہ گئے۔ نماز کی صف بندی ہوئی تو ان کے برابر میں ایک لمبا گورا آدمی کھڑا ہوا۔ امام حرم نے تلاوت شروع کی تو وہ آدمی زاروقطار رونے لگا۔ نماز ختم ہوئی تو پروفیسر صاحب نے اس سے سلام ومصافحہ کیا اور ان کا تعارف حاصل کرنا چاہا۔ انھوں نے بتایا کہ ’’میں آسٹریلیا کا رہنے والا ہوں۔ میں پہلے پادری تھا، قرآن پڑھ کر مسلمان ہوگیا اور اب بیت اللہ کی زیارت کے لیے حاضر ہوا ہوں۔ میں توریت وانجیل کا عالم ہوں۔ ان کتابوں میں بہت سی تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں۔ اصل انجیل تو یہ قرآن کریم ہے کیوں کہ انجیل میں نازل شدہ تعلیمات قرآن پاک میں موجو د ہیں۔ مجھے قرآن میں حضرت عیسیٰؑ کا اصل پیغام ملتاہے‘‘۔
ایسے حق شناس اہلِ کتاب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں بھی موجود تھے، اور انھی کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:
وَاِذَاسَمِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَى الرَّسُوْلِ تَرٰٓي اَعْيُنَہُمْ تَفِيْضُ مِنَ الدَّمْعِ مِـمَّا عَرَفُوْا مِنَ الْحَـقِّ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اٰمَنَّا فَاكْتُبْنَا مَعَ الشّٰہِدِيْنَ (المائدہ ۵:۸۳)جب یہ (نصاریٰ) اس کلام کو سنتے ہیں جو رسول کریمؐ پر نازل کیاگیا تو تم دیکھتے ہو کہ ان کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے ہیں، کیوںکہ وہ حق کو پہچانتے ہیں۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب، ہم ایمان لائے تو ہمارا نام لکھ لے ایمان کی گواہی دینے والوں کے ساتھ۔
یعنی اللہ تعالیٰ نے جو پیغامِ ہدایت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ذریعے انسانوں کو دیا تھا، وہی پیغام قرآن کریم بھی پیش کرتاہے۔ ایمان اور اصولِ دین جو حضرت عیسیٰؑ پر نازل ہوئے، وہی قرآن کریم میں موجود ہیں۔ نجات کی جو شرطیں اور رضائے الٰہی کی جو بشارتیں انجیل میں آئی تھیں، وہی قرآن کریم میں بھی وضاحت کے ساتھ موجود ہیں۔ انجیل میں وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ تبدیلی ہوئی، مگر قرآن اپنی اصل حالت میں موجود ہے اور اصولِ دین کا محافظ ہے۔ تقریباً اسی طرح کا خیال معاصر مستشرق تھامس کلیری نے بھی اپنی کتاب The Essential Koran میں ظاہر کیا ہے، اور قرآن کریم میں حضرت عیسیٰؑ کی سیرت اور پیغام کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:
عیسیٰؑ کے لیے انتہائی احترام کے القاب (مثلاً اللہ کا کلمہ اور اللہ کی روح) کا استعمال کرنے کے باوجود قرآن نے اللہ کی وحدانیت کو اصلی حالت میں برقرار رکھا ہے۔ قرآن نے حضرت عیسیٰؑ  کی بنیادی تعلیمات کی تصدیق بھی کی ہے اور خود قرآن کوگذشتہ انبیاء پر نازل ہونے والی وحی کے مصداق اور محافظ کے طور پر بھی پیش کیا ہے۔(ص۱۸۱-۱۸۹)

اہلِ ایمان کا فریضہ
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی حفاظت کی ذمہ داری اگرچہ خود لی ہے، مگر اہلِ ایمان کو اس کی حفاظت کا وسیلہ بنایا ہے۔ اس طرح کہ مسلمان روزانہ اس کی تلاوت کریں، اسے خود یاد کریں اور اپنے بچوں کو یاد کرائیں۔ پانچ وقت کی نمازوں میں قرآن کی قرأت کریں۔ خوشی اور غم کے مواقع پر قرآن کو پڑھیں اور خاص طور پر رمضان المبارک کے مہینے میں قرآن کی تلاوت وتحفظ کا اہتمام کریں۔ علماء اس کی تفسیر کریں، قاری اسے حسین آواز سے مزین کریں۔ کاتب اسے روشن حروف سے لکھیں اور حفاظ اسے اپنے سینوں میں محفوظ کریں۔ قرآن کریم کے حافظ جس کثرت سے پائے جاتے ہیں دنیا کی کسی بھی کتاب کے حافظ اس تعداد کا کروڑواں حصہ بھی نہیں پائے جاتے۔
آج بھی دشمنانِ اسلام یہ کوشش کرتے ہیں کہ قرآن کریم کی سورتوں، آیتوں اور الفاظ میں ردوبدل کردیں، تاکہ مسلمان گمراہ ہوجائیں۔ چنانچہ انٹرنیٹ پر قرآن پاک کے ایسے نسخے بھی معاندین نے لوڈ کیے ہیں، جن میں من گھڑٹ سورتیں اور آیتیں موجود ہیں۔ مثلاً ’سورۃ الایمان‘، ’سورۃ المسلمون‘ اور’ سورۃ الوصایا‘ وغیرہ جیسی من گھڑت عربی عبارات۔ بظاہر لگتا ہے کہ یہ قرآن کی سورتیں ہوںگی، مگر درحقیقت یہ قرآن میں تحریف کی شیطانی حرکت ہے۔ الحمدللّٰہ، قرآن اپنی مکمل اور محفوظ شکل میں مسلمانوں کے گھروں میں اور حافظوں کے سینوں میں موجود ہے۔ چنانچہ اس طرح کی ناپاک کوشش کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی اور اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ خود اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے۔ تاہم، ہر صاحبِ ایمان مرد اور عورت کی ذمہ داری ہے کہ وہ قرآن کی حفاظت اور اس کے فہم کو پھیلانے کی سعادت حاصل کرکے اپنی آخرت کو سنوارے۔
https://www.tarjumanulquran.org/articles/apr-2021-ramdan-quran-ki-hifazat-ka-maheena

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button