اولاد معصومینؑسلائیڈرشخصیات

حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کی حیات طیبہ پر ایک نظر (حصہ دوم)

8۔ دعوت نامہ:
ان دونوں بہن بھائیوں کے درمیان محبت اور انس انتہائی گہرا تھا، لہذا امام علی رضا علیہ السلام کی جدائی حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کیلئے سخت مشکل تھی۔ یہ جدائی امام علی رضا علیہ السلام کیلئے بھی قابل برداشت نہیں تھی۔ لہذا مرو میں مستقر ہونے کے بعد امام علی رضا علیہ السلام نے حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کو ایک خط لکھا اور ایک با اعتماد غلام کے ذریعے اس کو مدینہ بھجوایا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ امام علی رضا علیہ السلام نے اپنے غلام کو حکم دیا کہ راستے میں کہیں نہ رکے تا کہ وہ خط جلد از جلد اپنی منزل تک پہنچ سکے۔ حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا بھی خط ملتے ہی آمادہ سفر ہو گئیں اور مدینہ سے ایران کی طرف روانہ ہو گئیں۔حضرت امام رضا علیہ السلام کے مجبورا شہر مرو سفر کرنے کے ایک سال بعد آپ اپنے بھائیوں کے ہمراہ بھائی کے دیدار اور اپنے امام زمانہ سے تجدید عہد کے قصد سے عازم سفر ہوئیں، راستے میں ساوہ پہنچیں لیکن چونکہ وہاں کے لوگ اس زمانے میں اہلبیت کے مخالف تھے لہٰذا انھوں نے حکومتی اہلکاروں سے مل کر حضرت فاطمہ معصومہ اور ان کے قافلے پر حملہ کر دیا اور جنگ چھیڑ دی۔ جس کے نتیجہ میں حضرت کے ہمراہیوں میں سے بہت سے افراد شہید ہو گئے۔ بی بی غم و الم کی شدت سے مریض ہو گئیں اور شہر ساوہ میں نا امنی محسوس کرنے کی وجہ سے فرمایا :مجھے شہر قم لے چلو کیونکہ میں نے اپنے بابا سے سنا ہے کہ آپ فرماتے تھے:قم ہمارے شیعوں کا مرکز ہے۔
اس طرح حضرت معصومہ ساوہ سے قم روانہ ہو گئیں۔ بزرگان قم جب اس مسرت بخش خبر سے مطلع ہوئے تو حضرت کے استقبال کے لیے دوڑ پڑے ، موسیٰ ابن خزرج اشعری نے اونٹ کی لگام ہاتھوں میں سنبھالی اور فاطمہ معصومہ اہل قم کے والہانہ استقبال میں شہر میں وارد ہوئیں۔ موسیٰ بن خزرج کے ذاتی مکان میں نزول اجلال فرمایا۔حضرت معصومہ نے 17 دنوں تک قم میں زندگی گزاری اور اس مدت میں ہمیشہ مشغول عبادت رہیں اور اپنے پروردگار سے راز و نیاز کرتی رہیں اس طرح اپنی زندگی کے آخر ی ایام اللہ تعالی کے ساتھ راز و نیاز اور انتہائی خضوع و خشوع کے ساتھ بسر فرمائی۔تاریخی مآخذ میں آپ کی زندگی کے بارے میں بہت کم معلومات ملتی ہیں۔ آپ امام رضا سے ملنے کے لیے ایران تشریف لے آئیں، لیکن راستے میں بیمار ہونے کی وجہ سے قم میں وفات پا گئیں اور وہیں پر دفن ہو گئیں۔ اہل تشیع کے ہاں آپ اور آپ کی زیارت خاص اہمیت کی حامل ہیں یہاں تک کہ ائمہ سے منقول احادیث میں آپ کی زیارت کرنے والے کیلئے بہشت واجب قرار دی گئی ہے۔ اسی طرح کہتے ہیں کہ حضرت فاطمہ زہرا کے بعد صرف آپ ہی کے لیے ائمہ کی طرف سے زیارت نامہ کی روایت ہوئی ہے۔ حرم حضرت معصومہ قم میں واقع ہے۔
حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے بارے میں اطلاعات کی کمی:
ذبیح‌ اللہ محلاتی اپنی کتاب «ریاحین الشریعہ» میں لکھتے ہیں کہ حضرت معصومہ کی زندگی کے بارے میں زیادہ معلومات ہم تک نہیں پہنچیں، جیسے آپ کی تاریخ ولادت، تاریخ وفات، آپ کی عمر، کب مدینہ سے روانہ ہوئیں، کیا امام رضا علیہ السلام  کی شہادت سے پہلے وفات پائی یا بعد میں۔ اس حوالے سے تاریخ میں کچھ درج نہیں ہے۔
ریاحین الشریعہ، ج 5 ص 31
شیعوں کے ہاں مقام و منزلت:
شیعہ علماء آپ کے لیے بہت بلند مقام کے قائل ہیں اور آپ کی منزلت اور زیارت کی اہمیت کے بارے میں منقول ہے کہ علامہ مجلسی نے بحار الانوار میں امام صادقؑ سے روایت کی ہے کہ شیعہ ان کی شفاعت کے ذریعے بہشت میں داخل ہوں گے۔
بحار الانوار، ج 99 ص 267
ان کے زیارت نامے میں ان سے شفاعت کی درخواست کی گئی ہے۔
بحار الانوار، ج 99 ص 267، زاد المعاد، ص 547
امام صادقؑ، امام کاظمؑ اور امام محمد تقیؑ سے منقول بعض روایات کے مطابق حضرت معصومہ  کی زیارت کا ثواب بہشت قرار دیا گیا ہے۔
کامل‌ الزیارات، ص 536، بحار الانوار، ج 99 ص 265
البتہ بعض روایات میں بہشت ان لوگوں کی پاداش قرار دی گئی ہے کہ جو معرفت اور شناخت کے ساتھ آپ کی زیارت کریں۔
بحار الانوار، ج 99 ص 266
القاب:
معصومہ اور کریمہ اہل بیت حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کے مشہور القاب میں ہیں۔
کریمہ اہل بیتؑ، ص 23 و 41
کہا جاتا ہے کہ لقب «معصومہ» امام رضاؑ سے منسوب ایک روایت سے اخذ کیا گیا ہے۔
کریمہ اہل بیتؑ، ص 29
محمد باقر مجلسی کی کتاب زاد المعاد کی روایت میں یوں بیان ہوا ہے کہ امام رضاؑ نے انہیں معصومہ کا نام دیا ہے۔
زاد المعاد، ص 547
آج کل انہیں «کریمہ اہل بیت» بھی کہا جاتا ہے۔
کریمہ اہل بیتؑ، ص 41 و 42
کہا جاتا ہے کہ یہ لقب آیت ‌اللہ مرعشی نجفی کے والد سید محمود مرعشی نجفی کے دیکھے ہوئے اس خواب سے مستند ہے کہ جس میں ائمہ میں سے کسی ایک نے حضرت معصومہ کو کریمہ اہل بیت کے نام سے پکارا ہے۔
کریمہ اہل بیتؑ، ص 41 و 42
ریاحین الشریعہ نامی کتاب کے مطابق یہ معلوم نہیں ہے کہ حضرت معصومہ نے شادی کی ہے یا نہیں، اور اولاد ہے یا نہیں۔
ریاحین الشریعہ، ج 5 ص 31
اس کے باوجود یہ مشہور ہے کہ حضرت معصومہ نے شادی نہیں کی ہے۔اور شادی نہ کرنے کے بارے میں بعض دلائل بھی ذکر ہوئے ہیں، جیسے کہا کیا ہے کہ آپ کا کفو نہ ہونے کی وجہ سے شادی نہیں کی۔
کریمہ اہل بیتؑ، ص 151،150
اسی طرح یعقوبی لکھتا ہے کہ امام موسی کاظمؑ نے اپنی بیٹیوں کی نسبت شادی نہ کرنے کی وصیت کی تھی۔
یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ج 2 ص 361
لیکن اس بات پر اشکال کیا ہے کہ اس طرح کی کوئی بات امام کاظمؑ کی کتاب اصول کافی میں مذکور وصیت نامے میں ذکر نہیں ہوئی ہے۔
اصول کافی، ج 1 ص 317، حیاة الامام موسی بن جعفر، ج 2 ص 497
ایران کا سفر، قم میں آنا اور وفات:
تاریخ قم نامی کتاب کے مطابق حضرت معصومہ سن 200 ہجری میں اپنے بھائی امام رضاؑ سے ملنے مدینہ سے ایران کی جانب نکلیں۔ اس وقت امام رضاؑ کا مامون عباسی کی ولایت عہدی کا دور تھا اور امام خراسان میں تھے لیکن آپ راستے میں بیماری کی وجہ سے وفات پا گئیں۔
تاریخ قم، طوس، ص 213
سید جعفر مرتضی عاملی کا کہنا ہے کہ حضرت معصومہ کو ساوہ میں زہر دیا گیا اور اسی وجہ سے شہید ہو گئیں۔
حیاة السیاسی للامام رضاؑ، ج 1 ص 428
حضرت معصومہ کے قم جانے کے بارے میں دو قول ہیں:
ایک قول کے مطابق جب آپ ساوہ میں بیمار ہو گئیں تو آپ نے اپنے ہمراہ افراد کو قم لے جانے کا کہا۔
تاریخ قم، توس، ص 213
دوسرے قول جسے تاریخ قم کے مصنف زیادہ صحیح سمجھتے ہیں، اس کے مطابق خود قم کے لوگوں نے آپ سے قم آنے کی درخواست کی۔
تاریخ قم، توس، ص 213
قم میں حضرت فاطمہ معصومہ موسی بن خزرج اشعری نامی شخص کے گھر رہیں اور 17 دن بعد وفات پا گئیں۔
تاریخ قم، توس، ص 213
آپ کا جنازہ موجودہ حرم کی جگہ، بابلان قبرستان میں دفن کیا گیا۔
تاریخ قم، توس، ص 213
حضرت فاطمہ معصومہ کی قبر پر شروع میں ایک سائبان اور پھر ایک قبہ بنایا گیا۔آپ کے مدفن میں آئے روز وسعت آتی گئی اور آج ایران میں حرم امام رضاؑ کے بعد سب سے بڑی بارگاہ ہے۔
آستانہ حضرت معصومہ، ص 358،359، تاریخ قم، توس، ص 213
زیارت کی فضیلت:
حضرت معصومہ کی زیارت کی فضیلت کے بارے میں ائمہ معصومین سے مختلف روایات نقل ہوئی ہیں۔ امام صادقؑ نے فرمایا:خداوند کا ایک حرم ہے کہ جو مکہ ہے، رسول خدا ﷺ کا ایک حرم ہے کہ جو مدینہ ہے، امیر المومنین علیؑ کا ایک حرم ہے کہ جو کوفہ ہے، اور ہم اہل بیت کا حرم ہے جو کہ شہر قم ہے۔ امام صادقؑ نے ایک اور روایت میں فرمایا ہے:میری اولاد میں سے موسی ابن جعفر کی بیٹی قم میں وفات پائے گی۔ اس کی شفاعت کے صدقے ہمارے تمام شیعہ بہشت میں داخل ہوں گے۔ایک اور بیان کے مطابق آپ کی زیارت کا اجر بہشت ہے۔
بحار الانوار، ج 57 ص 219،ریاحین الشریعۃ، ج 5 ص 35
امام رضاؑ  کی حدیث میں یوں آیا ہے کہ جو کوئی اس کی زیارت کرے گویا اس نے میری زیارت کی۔
عیون اخبار الرضا ؑ، ج 2 ص 271،مجالس المؤمنین، ج 1 ص 83
اور دوسری روایات کے مطابق:بہشت اس کی ہے۔
کامل الزیارات، ص 536 ح 827
امام جوادؑ نے فرمایا: جو کوئی قم میں پورے شوق اور معرفت کے ساتھ میری پھوپھی کی زیارت کرے گا، وہ اہل بہشت میں سے ہو گا۔
بحار الانوار، ج 102 ص 266
حضرت فاطمہ معصومہ کی شفاعت سے تمام شیعہ بہشت میں داخل ہوں گے:حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: خاندان اہلبیت کی ایک بی بی قم میں دفن ہوں گی کہ جس کی شفاعت سے تمام شیعہ بہشت میں داخل ہوں گے۔حضرت امام رضا علیہ السلام ایک روایت میں ارشاد فرماتے ہیں:
مَنْ زَارَ الْمَعصُومَةَ بِقُمْ كَمَنْ زَارَنى
جس نے شہر قم میں معصومہ کی زیارت کی اس نے ہماری زیارت کی ہے۔
ناسخ التواریخ ،ج 3 ص 68
امام معصوم کی جانب سے حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کو یہ لقب ملنا، آپ کی شان و منزلت کی بہترین دلیل ہے۔امام رضا علیہ السلام ایک دوسری روایت میں فرماتے ہیں:جو میری زیارت کو نہ آ سکے وہ شہر ری میں میرے بھائی یا شہر قم میں میری بہن کی زیارت کرے تو اسے میری زیارت کا ثواب عطا کیا جائے گا۔
زبدۃ التصانیف ،ج 6 ص 159
عالمہ غیر معلمہ حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا:
القاب کس نے دیئے:تین معصومین علیہم السلام حضرت امام زین العابدین علیہ السلام، حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام اور حضرت امام علی رضا علیہ السلام نے یہ القاب بی بی کی ولادت با سعادت سے پہلے عطا فرمائے تھے۔
فاطمہ نام کی محبوبیت:
حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے اپنی کئی بیٹیوں کے نام فاطمہ رکھے: فاطمہ کبریٰ، فاطمہ صغریٰ (بی بی ہیبت، تدفین: آذربائیجان باکو)، فاطمہ وُسطیٰ، فاطمہ اُخریٰ (عُرف خواہر امام، تدفین: رشت ایران) فاطمہ کبریٰ یہی بی بی ہیں جو قم مقدسہ کی معنویت و مرکزیت کا باعث بنی ہوئی ہیں۔ان کے علاوہ آپ کے القابات میں معصومہ، اُخت الرضا، کریمہ ٔاہلبیت، عالمہ غیر معلمہ، ولیۃ اللہ، عابدہ، زاہدہ، عقیلہ، متقیہ، عارفہ کاملہ، مستورہ، عقیلہ الھاشمیہ، محدثہ، شفیعۂ روزِ جزا، طاہرہ، راضیہ، رضیّہ، مرضیہ، تقیّہ، نقیّہ، رشیدہ، سیدہ، حمیدہ، برّہ مذکور ہیں۔کتاب ناسخ التواریخ کے مطابق لقب: معصومہ حضرت امام رضا علیہ السلام نے عطا فرمایا تھا اور واضح ہے کہ کوئی بھی معصوم کسی غیر معصوم کو معصومہ خطاب نہیں فرماتے لہذا یہ عالمہ غیر معلمہ بی بی درجۂ عصمت پر فائز ہیں۔
اور بی بی کے جدّ گرامی امام صادقؑ نے بی بی کی ولادت سے پہلے انکو « کریمہ اہل بیت » کا لقب عطا فرمایا تھا۔
شہادت:
دس ربیع الثانی 201 ہجری۔پیکر مطہر سوگوار ارادتمندوں کے اجتماع میں بہت شان و شوکت سے قم سے باہر تدفین کے لیے لایا گیا ، جہاں اس وقت حرم مطہر قائم ہے۔مؤمنین اسی مسئلے میں شدت سے پریشان تھے کہ تدفین کا مرحلہ کیسے ہو تو اسی دوران دو نورانی ہستیاں اپنی سواریوں پر وہاں تشریف لائیں جن کے چہروں پر نقاب تھے، ایک قبر کے اندر داخل ہوئے اور ایک نے جسد مطہر احترام سے اٹھا کر ان کے سپرد کیا اور پھر کسی سے کوئی بات کیے بغیر وہ دونوں سوار وہاں سے چلے گئے۔معلوم ہوتا ہے کہ یہ دو بزرگوار و غمخوار ہستیاں خداوند کی دو حجتیں، دو معصوم امام یعنی حضرت امام رضا علیہ السلام اور حضرت امام محمد تقی الجواد علیہ السلام تھے کیونکہ معصوم کو غیر معصوم دفن نہیں کر سکتا۔تدفین کے بعد موسی ابن خزرج نے بوریا سے بنایا گیا ایک سائبان قبر مطہر پر قائم کیا۔حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کی بیٹی حضرت زینب نے مرقد منور پر سن 205 ہجری میں گنبد تعمیر کروایا۔
مثالی بہن بھائی:
تاریخ نے مثالی بہن بھائی پہلے بھی دیکھے تھے، یہ بہن بھائی بھی بہت بے مثال محبت و ارادت والے تھے۔ایک حساب کے مطابق حضرت امام علی رضا علیہ السلام اور حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا دونوں کی والدہ ماجدہ ایک تھیں یعنی حضرت نجمہ خاتون۔ امام علیہ السلام کی ولادت باسعادت 11 ذیقعدہ 148 ہجری میں ہوئی جبکہ حضرت فاطمہ کبری یکم ذیقعدہ 173 ہجری میں دنیا میں تشریف لائیں۔ اس طرح سے 25 سال کا عرصہ امام ایسی بہن سے محروم رہے تھے اور خداداد فضائل جو حضرت معصومہ علیہا السلام کو عطا کیے گئے تھے اور عصمت و علم و سخاوت و کرامت کہ کریمۂ اہلبیت کہلائیں، ان سب کی وجہ سے یہ بہن ، بھائی کی نگاہ میں خاص و منفرد منزلت و مقام رکھتی تھیں۔
مقام و منزلت:
حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کو خود ان کے رؤوف بھائی حضرت امام رضا علیہ السلام نے معصومہ کہہ کر پکارا اور ان کی زیارت کی فضیلت اس طرح سے بیان فرمائی:
قال الامام الرضا: مَن زار المعصومۃ بقم کمن زارنی
یعنی جو شخص بھی قم میں حضرت معصومہ کی زیارت کا شرف حاصل کر لے تو اُس نے میری زیارت کر لی ہے۔
اسی طرح حضرت امام محمد تقی علیہ السلام فرماتے ہیں:
من زار قبر عمّتی بقم فلہ الجنۃ
یعنی جو بھی قم میں میری پھوپھی کی زیارت کرے گا، تو جنت اسکی ہو جائے گی۔احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ کریمۂ اہلبیت    بی بی مقام شفاعت پر فائز ہیں جیسا کہ اُن کے القاب میں سے ایک لقب شافعۂ روزِ جزا ہے اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
فاطمہ کبریٰ کی شفاعت سے میرے شیعہ جنت میں داخل ہوں گے۔
اب بھی قم مقدسہ میں ہر زائر کے دل کی امید کے پس منظر میں اُس کی زبان پر یہ جملہ وظیفہ بن کر مکرر ہوتا رہتا ہے:
یا فاطمۃ اشفعی لی فی الجنۃ
https://alhassanain.org/urdu

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button